خودغرضی
از بنت مقبول احمد، جامعۃ المدینہ خوشبوئے عطار گلشن کالونی واہ کینٹ
ہر شخص کی ذات
میں فطری طور پر اپنی بھلائی چاہنا پایا جاتا ہے لیکن جب یہ جذبہ حد سے بڑھ جائے
اور دوسروں کی حق تلفی و نقصان کا سبب بنے تو اسی کا نام خود غرضی ہے یہ وہ رویہ
ہے جو انسان کو صرف اپنی ذات تک محدود کر دیتا ہے ایسا شخص صرف اپنی ذات، مفاد اور
خواہشات کو ہی اہمیت دیتا ہے، جبکہ دین اسلام ہمیں ایثار،ہمدردی و خیر خواہی کا
درس دیتا ہے جیسا کہ اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كَانَ
بِهِمْ خَصَاصَةٌ ﳴ وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَۚ(۹) (پ 28،الحشر:9)
ترجمہ: اور
اپنی جانوں پر ترجیح دیتے ہیں اگر چہ انہیں شدید محتاجی ہو اور جو اپنے نفس کی
لالچ سے بچایا گیا تو وہی کامیاب ہے۔ مکمل
حضور کریم ﷺ نے
بھی ہمیں ایثار و ہمدردی کا درس دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: تم میں سے کوئی بھی شخص
اُس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک اپنے بھائی کے لئے وہی چیز پسند نہ کرے جو اپنے
لئے پسند کرتا ہے۔ (بخاری، 1 / 16، حدیث: 13)
خود
غرضی کے نقصانات:
1)اخلاقی
زوال: خود
غرضی جہاں کئی نقصانات کا سبب ہے وہاں اخلاقی کمزوری و پستی کا بھی سبب ہے چونکہ
یہ صفت اخلاق کے بنیادی تقاضوں مثلاً تکلیف نہ دینا، حقوق العباد کا خیال رکھنا، صلہ
رحمی و خیر خواہی وغیرہ کی ضد ہے اور بد اخلاق شخص کے بارے میں حضور کریم ﷺ کا
ارشاد ہے: بداخلاق شخص جنت میں نہ جائے گا۔ (ترمذی، 3/380، حدیث: 1953)
2)اخروی
نقصان: خود
غرضی کا ایک بہت بڑا نقصان آخرت کا نقصان بھی ہے چونکہ خود غرضی کے سبب بہت سی
ایسی برائیاں جنم لیتی ہیں جو کہ حرام اور اللہ کریم کی ناراضگی کا سبب ہیں۔ مثلاً
ناحق قتل کرنا، ظلم،چوری، خوشامد و تہمت وغیرہ۔
گر
تو ناراض ہو گیا تو میری ہلاکت ہو گی ہائے
میں نار جہنم میں جلوں گا یا رب
3)
تعلقات میں کمزوری: صرف اپنے مفاد کو پیش نظر رکھنے اور دوسروں کے
جذبات، مسائل اور ضروریات کو اہمیت نہ دینے کی وجہ سے خود غرض شخص کے لوگوں سے
تعلقات بھی وقتی طور پر ہوتے ہیں جسکے نتیجہ میں ایسا شخص جہاں مخلص اور مضبوط
رشتوں سے محروم رہتا ہے وہیں اسکے رشتوں میں محبت و اعتماد کی جگہ نفرت و بدگمانی
لے لیتی ہے۔
حضرت علی بن
حسین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں حقیقی غربت و تنہائی، چاہنے والوں سے محروم ہونا
ہے۔ (حلیۃ الاولیاء، 3/194)