قرآنِ کریم میں احکامِ شرعیہ اور آئندہ وقوع پذیر ہونے والے واقعات کے ساتھ ساتھ انبیائے کرام اور ان کی اُمتوں کا ذکر بھی موجود ہے۔جن کو ذکر کئے جانے کی ایک حکمت قرآنِ کریم میں یوں بیان فرمائی گئی ہے: لَقَدْ كَانَ فِیْ قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِّاُولِی الْاَلْبَابِؕ- (پ13،یوسف:111)ترجمہ: بیشک ان رسولوں کی خبروں میں عقل مندوں کیلئے عبرت ہے۔

جن انبیائے کرام کا قرآنِ کریم میں واضح ذکر آیا ہے انہی میں سے ایک حضرت آدم بھی ہیں۔آپ کی پیدائش کا واقعہ،فرشتوں کا آپ کو سجدہ کرنے کا ذکر،شیطان کا سجدے سے انکار،آپ کا جنت میں ٹھہرنا،پھر زمین پر تشریف لانا،قبولیتِ توبہ اور ہابیل و قابیل کا واقعہ قرآنِ کریم کی مختلف سورتوں میں بیان فرمایا گیا ہے۔یہ سب واقعات درسِ نصیحت و عبرت پر مشتمل ہیں،ان سے حاصل ہونے والی 5 نصیحتیں درج ذیل ہیں:

1-علم کی فضیلت:اللہ پاک فرماتا ہے:وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا(پ1،البقرۃ:31)ترجمہ: اور اللہ پاکٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھادئیے ۔حضرت آدم علیہ السلام کو فرشتوں پر جو فضیلت عطا ہوئی اس کا ظاہری سبب علم تھا۔معلوم ہوا!علم تنہائیوں کی عبادتوں سے افضل ہے۔

2-حکمِ الٰہی کے مقابل میں قیاس کا استعمال:شیطان نے خود کو آگ سے پیدا کئے جانے اور حضرت آدم علیہ السلام کی مٹی سے پیدائش کے سبب آپ علیہ السلام کو سجدہ کئے جانے کے حکم کو عقل کے ترازو میں تولا اور حکمِ خداوندی کو ماننے سے انکار کیا جس کے سبب مردود اور لعنتی ہوا۔پتا چلا کہ احکامِ شریعت میں عقل کے گھوڑے دوڑانے کے بجائے بلا چوں چراں عمل کیا جائے۔

3-بُرائی کے اسباب کی روک تھام:حضرت آدم علیہ السلام کو جب جنت میں اتارا گیا تو شجرِ ممنوع کے متعلق فرمایا:وَ لَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ(پ1،البقرۃ:35)ترجمہ: البتہ اس درخت کے قریب نہ جانا ۔

حالانکہ اصل مقصود درخت کا پھل کھانے سے ممانعت تھی۔اس سے علمائے کرام نے یہ اخذ فرمایا ہے کہ برائی سے روکنے کے لئے اس کے اسباب کی روک تھام کی جائے۔

4-خطا پر استغفار:حضرت آدم علیہ السلام کی سیرت میں ایک ذکر کیا جانے والا قرآنی واقعہ آپ علیہ السلام سے ہونے والی خطا بھی ہے۔حالانکہ یہ خطائے اجتہادی تھی لیکن آپ علیہ السلام کی اس پر گریہ و زاری اور استغفار کو قرآنِ کریم میں کئی مقامات پر بیان کیا گیا ہے:قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَاٚ- وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ(۲۳)(پ8،الاعراف:23)ترجمہ:اے رب ہمارے ہم نے اپنی جانوں پر زیادتی کی اور اگر تو نے ہماری مغفرت نہ فرمائی اور ہم پر رحم نہ فرمایا تو ضرور ہم نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔

اس میں آپ علیہ السلام کی اولاد کے لئے درس ہے کہ ان سے اگر کوئی گناہ ہو جائے تو اللہ پاک کی بارگاہ میں گڑگڑا کر توبہ کریں۔

5-نفس کی خواہش کی پیروی کا وبال:حضرت آدم علیہ السلام کی زندگی شریف ہی میں ہابیل و قابیل کا واقعہ پیش آیا،اس سے حاصل ہونے والا درس یہ ہے کہ نفس کی خواہش کی پیروی انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتی، اسی نے قابیل کو اپنی خواہش کے مطابق شادی کے لئے اپنے بھائی کے قتل پر ابھارا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ اپنے والد حضرت آدم علیہ السلام کے سمجھانے کے باوجود اپنے بھائی کو شہید کر کے قتل کے گناہ کو ایجاد کیا۔اللہ پاک ہمیں انبیائے کرام علیہم السلام کے مبارک ذکر سے ملنے والے درس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین


قرآنِ کریم اللہ پاک کی بے مثل کتاب ہے۔ جس کا ایک مقصد نصیحت کرنا بھی ہے۔فرمایا:مَوْعِظَةٌ لِّلْمُتَّقِیْنَ(۱۳۸) (پ4،الِ عمرٰن:138)ترجمہ:اور پرہیزگاروں کے لئے نصیحت ہے۔

مقصد یہ ہے کہ لوگ ہدایت و نصیحت حاصل کریں اور اللہ و رسول کے دشمنوں سے دور رہیں۔آئیے! اللہ پاک کےپہلے نبی حضرت آدم علیہ السلام کے ذکر سے چند نصیحتیں پڑھئے۔

1) علم کی ترغیب:عالم عابد سے افضل ہے۔ اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السلام کو ناموں کا علم عطا فرمایا اور فرشتے یہ علم نہ جانتے تھے۔ فرمایا:وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا (پ1،البقرۃ:31)ترجمہ کنزالعرفان: اوراللہ پاک نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سیکھا دیے۔

اس آیت میں اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السلام کے فرشتوں پر افضل ہونے کا سبب علم ظاہر فرمایا۔اس سے معلوم ہوا کہ علم تنہائیوں کی عبادت سے افضل ہے۔( تفسیر صراط الجنان،1/98)

2) توہینِ انبیا سے بچو:انبیائےکرام کی توہین سے بچنا چاہئے۔شیطان توہینِ نبی کی وجہ سے کافر و مردود ہوا۔ فرمایا: فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اَبٰى وَ اسْتَكْبَرَ ﱪ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ(۳۴) (پ1،البقرۃ:34)ترجمہ کنز الایمان:تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے منکر ہوا اور غرور کیا اور کافر ہوگیا۔

اللہ پاک نے شیطان کو عابد عالم بنا کر مارا۔اونچے سے گرایا تاکہ تاقیامت علما و صوفیا سمجھ لیں کہ نبی کی توہین بڑے بڑوں کا بیڑاغرق کردیتی ہے۔بارگاہِ نبوت بہت نازک ہے۔( تفسیرنورالعرفان صفحہ8)

3) تکبر نہ کرو:تکبر ذلت و رسوائی کا سبب ہے۔شیطان نے جب تکبر کیا تو جنت سے نکالا گیا اور ذلیل ہوا۔ رب کریم نے فرمایا:فَمَا یَكُوْنُ لَكَ اَنْ تَتَكَبَّرَ فِیْهَا فَاخْرُجْ اِنَّكَ مِنَ الصّٰغِرِیْنَ(۱۳)(پ8، الاعراف: 13)ترجمہ کنزالعرفان:پس تیرے لئے جائز نہیں کہ تو اس مقام میں تکبر کرے بیشک تو ذلت والوں میں سے ہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ تکبرایسا مذموم وصف ہے کہ ہزاروں برس کا عبادت گزار اور فرشتوں کا استادکہلانے والا ابلیس بھی اس کی وجہ سے بارگاہِ الٰہی میں مردود ٹھہرا اور قیامت تک کے لئے ذلت و رسوائی کا شکار ہو گیا۔ (تفسیر صراط الجنان،3/276)

4) حاسدین سے کنارہ کشی اختیار کرو:حاسد زوالِ نعمت کی کوشش کرتا ہے۔شیطان نے جب حسد کیا تو اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السلام سے فرمایا:فَلَا یُخْرِجَنَّكُمَا مِنَ الْجَنَّةِ(پ16،طہ: 117)ترجمہ کنز الایمان: تو ایسا نہ ہو کہ وہ تم دونوں کو جنت سے نکال دے۔اس سے معلوم ہوا کہ جسے کسی سے حسد ہو تو وہ اس کا دشمن بن جاتا ہے اور اس کی ہلاکت چاہتا ہے اور اس کا حال خراب کرنے کی کوشش کرتا ہے۔(تفسیر صراط الجنان،6/254)

5)شیطان سے دور رہو:شیطان جب ذلیل و مردود ہوا تو اس نے انسانوں کو بھی گمراہ کرنے کا اعلان کیا، لہٰذاشیطان کی پیروی ہلاکت کا باعث ہے۔فرمانِ باری ہے:وَ اِنَّ جَهَنَّمَ لَمَوْعِدُهُمْ اَجْمَعِیْنَ۫ۙ(۴۳) (پ14،الحجر:43)ترجمہ کنز الایمان اور بیشک جہنم ان سب کا وعدہ ہے یعنی بے شک جہنم ابلیس،اس کی پیروی کرنے والوں اور اس کے گروہوں،سب کے عذاب کے وعدے کی جگہ ہے۔(تفسیر صراط الجنان، 5/234)اللہ پاک ہمیں علمِ نافع عطا فرمائے،صالحات کے ساتھ ہمارا خاتمہ فرمائے اور گمراہوں سے ہماری حفاظت فرمائے۔اٰمین یارب العالمین


1-وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اَبٰى وَ اسْتَكْبَرَ ﱪ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ(۳۴)(پ1،البقرۃ:34)ترجمہ کنزالعرفان:اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو ابلیس کے علاوہ سب نے سجدہ کیا اس نے انکار کیا اور تکبر کیا اور کافر ہو گیا۔

تکبّر کی مذمّت:اس آیت سے معلوم ہوا کہ تکبّر ایک ایسا خطرناک عمل ہے کہ جو بعض اوقات بندے کو کفر تک پہنچا دیتا ہے جس طرح ابلیس نے حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکار کیا اور یہ سمجھتا رہا کہ وہ حضرت آدم علیہ السلام سے افضل ہے اور اس جیسے انتہائی عبادت گزار،فرشتوں کے استاد اور مقربِ بارگاہ الٰہی کو سجدہ کرنا حکمت کے خلاف ہے ،اپنے اس باطل عقیدے،حکم الٰہی سے انکار اور تعظیمِ نبی سے تکبّر کی وجہ سے وہ کافر ہوگیا اور بارگاہِ الٰہی میں مردود ٹھہرا اور قیامت تک کے لیے ذلت و رسوائی کا شکار ہو گیا ۔

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سرورِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا:قیامت کے دن تکبر کرنے والے چیونٹیوں کی طرح آدمیوں کی صورت میں اٹھائے جائیں گے،ہر طرف سے ذلت انہیں ڈھانپ لے گی ،انہیں جہنم کے قید خانے کی طرف لایا جائے گا جس کا نام بولس ہے ،آگ ان پر چھا جائے گی اور انہیں جہنمیوں کی پیپ اور خون پلایا جائے گا ۔

تکبّر سے متعلق حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:جس شخص کے دل میں رائی کے دانے برابر بھی تکبّر ہو گا وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا۔

اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم تکبر سے بچتی رہیں اور ہر روز جب اپنے بستر پر سونے کے لیے لیٹیں تو اپنے اعمال کا جائزہ کریں اور دیکھیں کہ ہم نے تکبر تو نہیں کیا! اگر خود کو تکبر میں مبتلا دیکھیں تو فوراً توبہ کر لیں اور معافی مانگ لیں۔

2-قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَاٚ- وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ(۲۳)

(پ8،الاعراف:23)ترجمہ کنزالعرفان:دونوں نے عرض کی:اے ہمارے رب ہم نے اپنی جانوں پر زیادتی کی اور اگر تو نے ہماری مغفرت نہ فرمائی اور ہم پر رحم نہ فرمایا تو ضرور ہم نقصان والوں میں سے ہو جائیں گے۔

حضرت آدم علیہ السلام کے عمل میں مسلمانوں کے لیے تربیت :حضرت آدم علیہ السلام نے اپنی لغزش کے بعد جس طرح دعا فرمائی اس میں مسلمانوں کے لیے یہ تربیت ہے کہ جب ان سے کوئی گناہ ہو جائے تو وہ اللہ پاک کی بارگاہ میں اپنے گناہ پر ندامت کا اظہار کرتے ہوئے اس کا اعتراف کریں،اللہ پاک سے مغفرت و رحمت کا انتہائی لجاجت کے ساتھ سوال کریں تاکہ اللہ پاک ان کا گناہ بخش دے اور ان پر رحم فرمائے۔

حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:مومن بندے سے جب کوئی گناہ ہوتا ہے تو وہ اپنے رب سے حیا کرتا ہے، پھر وہ یہ جاننے کی کوشش کرتا ہے کہ اس سے نکلنے کی راہ کیا ہے! تو وہ جان لیتا ہے کہ اس سے نکلنے کی راہ توبہ اور استغفار کرنا ہے،لہٰذا توبہ کرنے سے کوئی آدمی بھی شرم محسوس نہ کرے، کیونکہ اگر توبہ نہ ہو تو اللہ پاک کے بندوں میں سے کوئی بھی خلاصی اور نجات نہ پا سکے۔تمہارے جد اعلیٰ(حضرت آدم علیہ السلام) سے جب لغزش ہوئی تو توبہ کے ذریعے ہی اللہ پاک نے انہیں معاف فرمایا۔

3-وَ لَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِیْۤ اٰدَمَ وَ حَمَلْنٰهُمْ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَ رَزَقْنٰهُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَ فَضَّلْنٰهُمْ عَلٰى كَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلًا۠(۷۰)ترجمہ کنزالعرفان:اور بے شک ہم نے اولادِ آدم کو عزت دی اور انہیں خشکی اور تری میں سوار کیا اور ان کو ستھری چیزوں سے رزق دیا اور انہیں اپنی بہت سی مخلوق پر بہت سی برتری دی۔

اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ پاک نے اولادِ آدم کو اپنی کثیر مخلوق پر فضیلت دی یعنی انسان کو عقل ، علم،قوتِ گویائی،پاکیزہ صورت،معتدل قد و قامت عطا کیے گئے،جانوروں سے لے کر جہازوں تک کی سواریاں عطا فرمائیں ،نیز اللہ پاک نے انہیں دنیا و آخرت سنوارنے کی تدبیریں سکھائیں اور تمام چیزوں پر غلبہ عطا فرمایا۔اس کے علاوہ لاکھوں چیزیں اولادِ آدم کو عطا فرما کر اللہ پاک نے اسے عزت دی ہے اور انسان کو بقیہ تمام مخلوقات سے افضل بنایا ہے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:مومن اللہ پاک کے نزدیک فرشتوں سے زیادہ عزت رکھتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فرشتے اللہ پاک کی بندگی پر مجبور ہیں، کیونکہ ان کی فطرت ہی یہ ہے، ان میں عقل تو ہے لیکن شہوت نہیں اور جانوروں میں شہوت ہے لیکن عقل نہیں،جبکہ آدمی میں شہوت و عقل دونوں ہیں۔تو جس نے عقل کو شہوت پر غالب کیا وہ فرشتوں سے افضل ہے اور جس نے شہوت کو عقل پر غالب کیا وہ جانوروں سے بد تر ہے۔اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم زیادہ سے زیادہ اللہ پاک کا شکر ادا کریں کہ اس نے ہمیں فرشتوں سے بھی افضل بنایا۔

4 -فَقُلْنَا یٰۤاٰدَمُ اِنَّ هٰذَا عَدُوٌّ لَّكَ وَ لِزَوْجِكَ فَلَا یُخْرِجَنَّكُمَا مِنَ الْجَنَّةِ فَتَشْقٰى(۱۱۷) اِنَّ لَكَ اَلَّا تَجُوْ عَ فِیْهَا وَ لَا تَعْرٰىۙ(۱۱۸) وَ اَنَّكَ لَا تَظْمَؤُا فِیْهَا وَ لَا تَضْحٰى(۱۱۹)ترجمہ کنزالعرفان: تو ہم نے فرمایا:اے آدم!بیشک یہ تیرا اور تیری بیوی کا دشمن ہے تو یہ ہر گز تم دونوں کو جنت سے نہ نکال دے ورنہ تو مشقت میں پڑ جائے گا بیشک تیرے لیے جنت میں یہ ہے کہ نہ تو بھوکا ہو گا اور نہ ننگا ہو گا اور یہ کہ نہ کبھی تو اس میں پیاسا ہو گا اور نہ تجھے دھوپ لگے گی۔

اس آیت سے معلوم ہوا کہ شیطان کا حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کرنا آپ علیہ السلام کے ساتھ اس دشمنی کی دلیل قرار دیاگیا ہے کہ جب ابلیس نے حضرت آدم علیہ السلام پر اللہ پاک کا انعام و اکرام دیکھا تو وہ ان سے حسد کرنے لگا اور یہ حسد اس کی دشمنی کا سبب تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جسے کسی سے حسد ہو تو وہ اس کا دشمن بن جاتا ہے، وہ اس کی ہلاکت چاہتا ہے اور اس کا حال خراب کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔

حسد سے بچنا چاہیے کیونکہ حدیث میں ہے :حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو۔

وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ اَمْرِ رَبِّهٖؕ-اَفَتَتَّخِذُوْنَهٗ وَ ذُرِّیَّتَهٗۤ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِیْ وَ هُمْ لَكُمْ عَدُوٌّؕ-بِئْسَ لِلظّٰلِمِیْنَ بَدَلًا(۵۰) ترجمہ کنز العرفان:اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے،وہ جنوں میں سے تھا تو وہ اپنے رب کے حکم سے نکل گیا تو(اے لوگو!)کیا تم اسے اور اس کی اولاد کو میرے سوا دوست بناتے ہو حالانکہ وہ تمہارے دشمن ہیں، ظالموں کے لیے کیا ہی برا بدلا ہے۔

اس آیت میں اللہ پاک نے لوگوں کو یہ سمجھایا کہ جس طرح ابلیس اللہ پاک کی نا فرمانی کر کے مردود ہوا، تم اس طرح نہ کرنا اور اس کی اطاعت و اتباع سے بچنا۔پھر ارشاد فرمایا:یاد کرو! جب ہم نے فرشتوں سے فرمایا کہ حضرت آدم علیہ السلام کی تعظیم کے طور پر انہیں سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے جو جنوں کے گروہوں سے تعلق رکھتا تھا اور ابلیس نے حکمِ الٰہی کے با وجود حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کیا بلکہ تکبر کا راستہ اختیار کیااور اپنے رب کے حکم سے نکل گیا تواے لوگو! کیا تم اسے اور اس کی اولاد کو میرے سوا دوست بناتے ہو اور ان کی اطاعت اختیار کرتے ہو اور وہ یوں کہ بجائے میری بندگی کے ان کی بندگی میں مبتلا ہوتے ہو!حالانکہ وہ تمہارے دشمن ہیں اور جب وہ تمہارے دشمن ہیں تو تمہیں ان سے ہوشیار اور دور رہنا چاہیے نہ کہ تمہیں ان سے دوستی کرنی چاہیے اور یاد رکھو کہ شیطان،اس کی اولاد اور شیطان کے فرمانبردار سب ظالم ہیں اور ظالموں کے لیے بہت برا بدلہ ہے۔اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم شیطان کی پیروی کرنے کی بجائے اللہ پاک کی اطاعت و فرمانبرداری کریں،نیک خواتین کی صحبت اختیار کریں،شیطان مردود سے اللہ پاک کی پناہ مانگتی رہیں اور اس میں کسی طرح کی سستی اور غفلت کا مظاہرہ نہ کریں۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیِ کریم ﷺنے ارشاد فرمایا:شیطان سے پناہ مانگنے میں غفلت نہ کرو، کیونکہ تم اگرچہ اسے دیکھ نہیں رہے لیکن وہ تم سے غافل نہیں۔

شیطان سے حفاظت کی دعا:حضرت جندب سے روایت ہے کہ نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا: جو کوئی اپنے بستر پر جائے تو پڑھے:بسم اللہ اعوذباللہ من شیطان الرجیماللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان سے نصیحت حاصل کرنے اور اپنے گناہوں سے توبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین بجاہِ خاتمِ النبیینﷺ


قرآنِ مجید میں لفظِ آدم چوبیس بار آیا ہے اور سات مقامات پر حضرت آدم علیہ السلام کا واقعہ بیان ہوا ہے۔

یہ بالکل ایک کہانی کی طرح ہے اور کیونکہ الله پاک نے اپنی کتابِ حق میں بیان کیا ہے، اس لئے ہر قسم کے شک و شبہ سے پاک ہے۔اپنے بچوں اور چھوٹے بہن بھائیوں کو جھوٹی اور خیالی کہانیاں سنانے کے بجائے یہ واقعہ سنائیے تاکہ اُن کے دلوں میں الله پاک کی عظمت کا احساس اجاگر ہو اور الله پاک کی ذات پر اُن کا یقین بنے ۔اللہ پاک نےجب انسان کی پیدائش کا ارادہ فرمایا تو فرشتوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةًؕ-قَالُوْۤا اَتَجْعَلُ فِیْهَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْهَا وَ یَسْفِكُ الدِّمَآءَۚ-وَ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَ نُقَدِّسُ لَكَؕ-قَالَ اِنِّیْۤ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(۳۰)ترجمۂ کنزالعرفان:اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایا: میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں تو انہوں نے عرض کیا : کیا تو زمین میں اسے نائب بنائے گا جو اس میں فساد پھیلائے گا اور خون بہائے گاحالانکہ ہم تیری حمد کرتے ہوئے تیری تسبیح کرتے ہیں اور تیری پاکی بیان کرتے ہیں۔ فرمایا:بیشک میں وہ جانتاہوں جو تم نہیں جانتے۔(پ1،البقرۃ : 30)

پھر فرمایا:وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍۚ(۲۶)(پ14،الحجر : 26)ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور بیشک ہم نے انسان کوخشک بجتی ہوئی مٹی سے بنایا جو ایسے سیاہ گارے کی تھی جس سے بُو آتی تھی۔

اور فرشتوں سے کہا:فَاِذَا سَوَّیْتُهٗ وَ نَفَخْتُ فِیْهِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِیْنَ(۲۹)(پ14،الحجر: 29) ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو جب میں اسے ٹھیک کرلوں اور میں اپنی طرف کی خاص معز ز ر وح اس میں پھونک دوں تو اس کے لیے سجدے میں گر جانا۔

وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلٰٓىٕكَةِۙ-فَقَالَ اَنْۢبِـُٔوْنِیْ بِاَسْمَآءِ هٰۤؤُلَآءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(۳۱)قَالُوْا سُبْحٰنَكَ لَا عِلْمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَاؕ-اِنَّكَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَكِیْمُ(۳۲) (پ1،البقرۃ: 31-32)ترجمہ کنزالعرفان:اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھادئیے پھر ان سب اشیاء کو فرشتوں کے سامنے پیش کرکے فرمایا: اگر تم سچے ہو تو ان کے نام تو بتاؤ۔(فرشتوں نے)عرض کی: (اے اللہ!)تو پاک ہے ۔ہمیں تو صرف اتنا علم ہے جتنا تو نے ہمیں سکھا دیا ، بے شک تو ہی علم والا، حکمت والا ہے۔

وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ اَمْرِ رَبِّهٖؕ-اَفَتَتَّخِذُوْنَهٗ وَ ذُرِّیَّتَهٗۤ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِیْ وَ هُمْ لَكُمْ عَدُوٌّؕ-بِئْسَ لِلظّٰلِمِیْنَ بَدَلًا(۵۰) (پ15،الکہف:50)ترجمہ کنزُالعِرفان: اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں سے فرمایا: آدم کو سجدہ کروتو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے ، وہ جنوں میں سے تھا تو وہ اپنے رب کے حکم سے نکل گیا تو (اے لوگو!) کیا تم اسے اور اس کی اولاد کو میرے سوا دوست بناتے ہو حالانکہ وہ تمہارے دشمن ہیں ، ظالموں کیلئے کیا ہی برا بدلہ ہے۔

قَالَ مَا مَنَعَكَ اَلَّا تَسْجُدَ اِذْ اَمَرْتُكَؕ-قَالَ اَنَا خَیْرٌ مِّنْهُۚ-خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّ خَلَقْتَهٗ مِنْ طِیْنٍ(۱۲)(پ8،الاعراف :12) ترجمۂ کنزُالعِرفان:اللہ نے فرمایا: جب میں نے تجھے حکم دیا تھاتو تجھے سجدہ کرنے سے کس چیز نے روکا؟ ابلیس نے کہا: میں اس سے بہتر ہوں۔تو نے مجھے آگ سے بنایا اور اسے مٹی سے بنایا۔


اللہ پاک نے زمین پر اپنی خلافت کے لیے اپنے دستِ قدرت سے حضرت آدم علیہ السلام کو بنایا،پھر ان میں  اپنی طرف سے ایک خاص روح ڈالی اور جنت میں رہائش عطا کی،ان کی زوجہ حوا کو بنایا،ایک عرصے تک دونوں جنت میں رہے،پھر ان کی پیدائش کے اصل مقصد کی تکمیل کے لیے درخت کا پھل کھانے کے بعد انہیں جنت سے زمین پر اتار دیا گیا۔حضرت آدم علیہ السلام پہلے انسان اور زمین پر پہلے نبی تھے۔اللہ پاک نے قرآنِ پاک کی سورتوں میں آپ کا ذکر فرمایا ہے۔آئیے!قرآنِ پاک میں آپ علیہ السلام کے ذکر سے حاصل ہونے والی پانچ نصیحتیں پڑھتی ہیں۔

مشورے کی ترغیب :پیدائشِ حضرت آدم سے پہلے اللہ پاک نے فرشتوں سے مشورے کے انداز میں کلام فرمایا:وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةًؕ-(پ1،البقرۃ:30)ترجمہ کنز العرفان:اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایا: میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں ۔

یہ تعلیم ہے کہ ہم بھی کوئی اہم کام شروع کرنے سے پہلے اپنی ماتحتوں سے مشورہ کر لیں۔اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ یا تو یہ مزید کوئی اچھی رائے مل جائے گی یا اس کام سے متعلق ماتحتوں کے ذہن میں کوئی خلش ہو گی تو اس کا ازالہ ہو جائے گا۔

انبیا کی گستاخی کا حکم:اللہ پاک کے انبیا کی گستاخی ایسا بڑا جرم ہے جس کے سبب زندگی بھر کی عبادت و ریاضت برباد ہو جاتی ہے۔ابلیس جیسے انتہائی عبادت گزار کا انجام اس کی عبرت انگیز مثال میں موجود ہے۔ ابلیس سے تکبر سرزد ہواجو کہ گناہوں میں بنیادی گناہ تھا۔حدیثِ پاک میں ہے:تکبر حق بات کو جھٹلانے اور دوسروں کو حقیر سمجھنے کا نام ہے۔تکبر کبیرہ گناہ ہے اور جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہ ہوگا اور منکروں کو قیامت کے دن لوگ اپنے پاؤں سے روندیں گے۔(مسلم،حدیث:2665)

حسد کی مذمت:حسد شیطانی کام ہے۔یہی وہ گناہ ہے جس کے ذریعے اللہ پاک کی نافرمانی کی گئی۔حسد کی تعریف یہ ہے کہ کسی کی دینی یا دنیاوی نعمت کے زوال(یعنی چھن جانے) کی تمنا کرنا یا یہ خواہش کرنا کہ یہ نعمت فلاں کو نہ ملے۔حسد اتنی خطرناک بیماری ہے کہ اس سے ایمان جیسی دولت چھن جانے کے خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔ اللہ پاک ہمیں حسدجیسی مذموم باطنی بیماری سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ امین

سترِ عورت انسانی فطرت میں داخل ہے: حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا رضی اللہ عنہا نے لباس جد ا ہوتے ہی اپنا بدن ڈھانپنا شروع کر دیا۔یہ اس بات کی دلیل ہے کہ پوشیدہ اعضاء کو چھپانا انسانی فطرت میں داخل ہے۔ لہٰذا جو لوگ برہنہ ہونے کو فطرت کہتے ہیں ان کی فطرتیں مسخ ہو چکیں ہیں۔


قرآنِ مجید میں بار بار اس مضمون کا بیان کیا گیا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش مٹی سے ہوئی چنانچہ سورۂ ال عمرٰن میں ارشاد فرمایا :اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَؕ-خَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ(۵۹) (پ3،ال عمرٰن:59) ترجمۂ کنزالعرفان: بےشک عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم کی طرح ہے۔ اُسے مٹی سے پیدا کیا پھر اسے فرمایا”ہوجا“تو وہ ہوگیا۔

دوسری آیت میں اس طرح فرمایا: اِنَّا خَلَقْنٰهُمْ مِّنْ طِیْنٍ لَّازِبٍ(۱۱)(پ23،الصفت:11)بیشک ہم نے انہیں چپکنے والی مٹی سے بنایا۔

کہیں یہ فرمایا :وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍۚ(۲۶) (پ14،الحجر:26) ترجمہ کنزُالعِرفان:اور بیشک ہم نے انسان کوخشک بجتی ہوئی مٹی سے بنایا جو ایسے سیاہ گارے کی تھی جس سے بُو آتی تھی۔

قرآنِ مجید میں اللہ پاک نے حضرت حوا رضی اللہ عنہا کے بارے میں ارشاد فرمایا:وَّ خَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَ بَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِیْرًا وَّ نِسَآءًۚ- (پ4،النسآء:1)ترجمہ:اور اسی میں سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور ان دونوں سے کثرت سے مرد و عورت پھیلا دیئے۔

ضروری ہدایت:حضرت آدم و حوا رضی اللہ عنہا کی پیدائش کا واقعہ مضامینِ قرآنِ مجید کے عجائبات میں سے ہے جس کے دامن میں بڑی بڑی عبرتوں اور نصیحتوں کے گوہرِ آبدار کے انبار پوشیدہ ہیں۔جن میں سے چند یہ ہیں :

(1) اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السلام کو مٹی سے بنایا اور حضرت حوا رضی اللہ عنہا کو حضرت آدم علیہ السلام کی پسلی سے پیدا فرمایا۔قرآنِ کریم کے اس بیان سے یہ حقیقت عیاں ہوجاتی ہے کہ اللہ پاک نے انسانوں کو چار طریقوں سے پیدا فرمایا ہے:

(1): مرد اور عورت دونوں کے ملاپ سے۔ جیسا کہ عام طور پر انسانوں کی پیدائش ہوتی ہے ۔چنانچہ قرآنِ مجید میں صاف صاف اعلان ہے:اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ اَمْشَاجٍ ﳓ(پ29،الدھر:2) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک ہم نے آدمی کو ملی ہوئی منی سے پیدا کیا۔

(2)تنہا مرد سے ایک انسان پیدا ہوا اور وہ حضرت حوا رضی اللہ عنہا ہیں کہ اللہ پاک نے ان کو حضرت آدم علیہ السلام کی بائیں پسلی سے پیدا فرما دیا ۔

(3)تنہا ایک عورت سے ایک انسان پیدا ہوئے اور وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں جو پاک دامن کنواری بی بی مریم کے شکم سے بغیر باپ کے پیدا ہوئے۔

(4)بغیر عورت و مرد کے بھی ایک انسان کو اللہ پاک نے پیدا فرما دیا اور وہ انسان حضرت آدم علیہ السلام ہیں کہ اللہ پاک نے ان کو مٹی سے بنا دیا۔

ان واقعات سے ان اسباق کی طرف راہ نمائی ہوتی ہے:

(1)اللہ پاک ایسا قادر و قیوم اور خالق ہے کہ انسانوں کو کسی خاص اور ایک ہی طریقے سے پیدا فرمانے کا پابند نہیں ہے بلکہ وہ ایسی عظیم قدرت والا ہے کہ وہ جس طرح چاہے انسانوں کو پیدا فرما دے۔چنانچہ مذکورہ بالا چار طریقوں سے اس نے انسانوں کو پیدا فرما دیا جو اس کی قدرت و حکمت اور اس کی عظیم الشان خلاقیت کا بہترین نمونہ ہے۔سبحان اللہ!اللہ پاک کی شانِ خالقیت کی عظمت کا کیا کہنا!جس خالقِ عالم نے عرش و کرسی اور لوح و قلم اور زمین و آسمان کو کُن فرما کر موجود فرما دیا اس کی قدرتِ کاملہ اور حکمتِ بالغہ کے سامنے خلقتِ انسانی کی بھلا حقیقت و حیثیت ہی کیا ہے! لیکن اس میں کوئی شک نہیں کر پیدائشِ انسان اس قادرِ مطلق کا وہ پیدائشی شاہکار ہے کہ کائناتِ عالم میں اس کی کوئی مثال نہیں کیونکہ وجودِ انسان عالمِ خلق کی تمام مخلوقات کے نمونوں کا ایک جامع مرقع ہے۔مولائے کائنات،حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے کیا خوب ارشاد فرمایا کہ

اَتَحْسِبُ اِنَّکَ جِرْمٌ صَغِیْرٌ وَفِیْکَ اِنْطَوَی الْعَالَمُ الْاَکْبَرُ

یعنی اے انسان!کیا تو یہ گمان کرتا ہے کہ تو ایک چھوٹا سا جسم ہے؟حالانکہ تیری عظمت کا یہ حال ہے کہ تیرے اندر عالم اکبر سمٹا ہوا ہے۔

(2)اللہ پاک کی شانِ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُؕ (پ30،البروج:17)ہے یعنی (ہمیشہ) جو چاہے کرنے والا ہے ۔نہ کوئی اس کے ارادے میں دخل انداز ہو سکتا ہے، نہ کسی کی مجال ہے کہ اس کے کسی کام میں چون و چرا کر سکے، مگر اس کے باوجود حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش و خلافت کے بارے میں اللہ پاک نے فرشتوں کی جماعت سے مشورہ فرمایا۔اس میں یہ ہدایت کا سبق ہے کہ اللہ پاک جوسب سے زیادہ علم و قدرت والاہے اور فاعلِ مختار ہے جب وہ اپنے ملائکہ سے مشورہ فرماتا ہے تو بندے جن کا علم اور اقتدار و اختیار بہت ہی کم ہے تو انہیں بھی چاہیے کہ وہ جب کسی کام کا ارادہ کریں تو اپنے مخلص دوستوں اور صاحبانِ عقل ہمدردوں سے اپنے کام کے بارے میں مشورہ کر لیا کریں کہ یہ اللہ پاک کی سنت اور اس کا مقدس دستور ہے۔

(3) فرشتوں نے حضرت آدم علیہ السلام کے بارے میں یہ کہا کہ وہ فسادی اور خوں ریز ہیں۔لہٰذا ان کو خلافتِ الٰہیہ سے سرفراز کرنے سے بہتر یہ ہے کہ ہم فرشتوں کو خلافت کا شرف بخشا جائے،کیونکہ ہم ملائکہ خدا کی تسبیح و تقدیس اور اس کی حمد وثنا کو اپنا شعارِ زندگی بنائے ہوئے ہیں۔لہٰذا ہم ملائکہ حضرت آدم علیہ السلام سے زیادہ خلافت کے حق دار ہیں۔فرشتوں نے اپنی یہ رائے اس بنا پر دی تھی کہ انہوں نے اپنے اجتہاد سے یہ سمجھ لیا کہ پیدا ہونے والے خلیفہ میں تیں قو تیں اللہ پاک ودیعت فرمائے گا:ایک قوتِ شہویہ، دوسری قوتِ غضبیہ،تیسری قوتِ عقلیہ۔اور چونکہ قوتِ شہو یہ اور قوتِ غضبیہ ان دونوں سے لوٹ مار اور قتل و غارت وغیرہ قسم قسم کے فسادات رونما ہوں گے اس لئے فرشتوں نے اللہ پاک کے جواب میں یہ عرض کی کہ اے اللہ پاک ! کیا تو ایسی مخلوق کو اپنی خلافت سے سرفراز فرمائے گا جو زمین میں قسم قسم کے فساد برپا کرے گی اور قتل و غارت گری سے زمین میں خون ریزی کا طوفان لائے گی؟ اس سے بہتر تو یہ ہے کہ تو ہم فرشتوں میں سے کسی کو اپنا خلیفہ بنا دے کیونکہ ہم تیری حمد کے ساتھ تیری تسبیح پڑھتے ہیں اور تیری تقدیس اور پاکی کا چرچا کرتے رہتے ہیں۔ تو اللہ پاک نے یہ فرما کر فرشتوں کو خاموش کر دیا کہ میں جس مخلوق کو خلیفہ بنا رہا ہوں اس میں جو جو مصلحتیں اور جیسی جیسی حکمتیں ہیں ان کو بس میں ہی جانتا ہوں تم فرشتوں کو ان حکمتوں اورمصلحتوں کا علم نہیں ہے۔

وہ مصلحتیں اور حکمتیں کیا تھیں؟ اس کا پورا علم تو صرف علام الغیوب ہی کو ہے مگر ظاہر طور پر ایک حکمت اور مصلحت یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ فرشتوں نے حضرت آدم علیہ السلام کے بدن میں قوتِ شہو یہ وقوتِ غضبیہ کو فساد و خوں ریزی کا منبع اور سر چشمہ سمجھ کر ان کو خلافت کا اہل نہیں سمجھا مگر فرشتوں کی نظر اس پر نہیں پڑی کہ حضرت آدم علیہ السلام میں قوتِ شہویہ اور قوتِ غضبیہ کے ساتھ ساتھ قوتِ عقلیہ بھی ہے اور قوتِ عقلیہ کی یہ شان ہے کہ اگر وہ غالب ہو کر قوتِ شہو یہ اور قوتِ غضبیہ کو اپنا مطیع و فرمانبردار بنائے تو قوتِ شہویہ اورقوتِ غضبیہ بجائے فساد و خوں ریزی کے ہر خیر و خوبی کا منبع اور ہر قسم کی صلاح وفلاح کا سرچشمہ بن جایا کرتی ہیں۔یہ نکتہ فرشتوں کی نگاہ سے اوجھل رہ گیا۔اس لئے اللہ پاک نے فرشتوں کے جواب میں فرمایا:میں جو جانتا ہوں اس کو تم نہیں جانتے ۔فرشتے یہ سن کر خاموش ہو گئے۔

اس سے یہ ہدایت کا سبق ملتا ہے کہ چونکہ بندے اللہ پاک کے افعال،اس کے کاموں کی مصلحتوں اور حکمتوں سے کما حقہ واقف نہیں ہیں۔اس لئے بندوں پر لازم ہے کہ اللہ پاک کے کسی فعل پر تنقید و تبصرہ سے اپنی زبان کو روکے رکھیں اور اپنی کم عقلی و کوتاہ فہمی کا اعتراف کرتے ہوئے یہ ایمان رکھیں اور زبان سے اعلان کرتے رہیں کہ اللہ پاک نے جو کچھ کیا اور جیسا بھی کیا بہر حال وہی حق ہے اور اللہ پاک ہی اپنے کاموں کی حکمتوں اور مصلحتوں کوخوب جانتا ہے جن کا بندوں کو علم نہیں ہے۔

(4)اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ علوم کی کثرت کو عبادت کی کثرت پر فضیلت حاصل ہے اور عالم کا ایک درجہ عابد سے بہت زیادہ بلند تر ہے۔حضرت آدم علیہ السلام کے علمی فضل و کمال اور بلند درجات کے اظہار و اعلان کے لئے اور ملائکہ سے اس کا اعتراف کرانے کے لئے اللہ پاک نے تمام فرشتوں کو حکم فرمایا کہ تمام فرشتے حضرت آدم علیہ السلام کے رو برو سجدہ کریں۔چنانچہ تمام ملائکہ نے حکمِ الٰہی کی تعمیل کرتے ہوئے حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کر لیا اور وہ اس کی بدولت تقرب الی اللہ اور محبوبیتِ الٰہی کی بلند منزل پر فائز ہو گئے اور ابلیس چونکہ اپنے تکبر کی منحوسیت میں گرفتار ہو کر اس سجدے سے انکار کر بیٹھا تو وہ مردود ِبارگاہِ الٰہی ہو کر ذلت کے ایسے عمیق غار میں گر پڑا کہ قیامت تک وہ اس غار سے نہیں نکل سکتا اور ہمیشہ ہمیشہ دونوں جہاں کی لعنتوں کا حق دار بن گیا اور قہر و غضبِ جبار میں گرفتار ہو کر دائمی عذابِ نارکا سزاواربن گیا۔

(5) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی کے علم کو جانچنے اور علم کی قلت و کثرت کا اندازہ لگانے کے لئے امتحان کا طریقہ جو آجکل رائج ہے یہ اللہ پاک کی سنتِ قدیمہ ہے کہ خداوندِ عالم نے فرشتوں کے علم کو کم اور حضرت آدم علیہ السلام کے علم کو زائد ظاہر کرنے کے لئے فرشتوں اور حضرت آدم علیہ السلام کا امتحان لیا تو فرشتے اس امتحان میں ناکام رہ گئے اور حضرت آدم علیہ السلام کامیاب ہو گئے۔


اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السلام کو تمام اشیا کے نام سکھائے ،پھر سب اشیا ملائکہ پر پیش کرکے فرمایا: اَنْۢبِـُٔوْنِیْ بِاَسْمَآءِ هٰۤؤُلَآءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(۳۱) اگر تم سچے ہو تو ان کے نام تو بتاؤ ۔(پ1، البقرۃ:31)

علم کی فضیلت:اس آیت میں اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السلام کے فرشتوں پرافضل ہونے کا سبب’’ علم‘‘ ظاہر فرمایا۔ اس سے معلوم ہوا کہ علم تنہائیوں کی عبادت سے افضل ہے۔

(1) حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ پاک نے اپنا خلیفہ بنایا اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ فرشتوں سے افضل ہیں، کیونکہ ہر شخص یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ بادشاہ کے نزدیک لوگوں میں سب سے بڑے مرتبے والا وہ ہوتا ہے جو ولایت اور تصرف میں بادشاہ کا قائم مقام ہو۔

(2) حضرت آدم علیہ السلام فرشتوں سے زیادہ علم رکھنے والے ہیں اور جسے زیادہ علم ہو وہ افضل ہوتا ہے۔ اللہ پاک نے فرشتوں کو یہ حکم دیا کہ وہ حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کریں۔اس سے معلوم ہوا کہ وہ فرشتوں سے افضل ہیں۔کیونکہ سجدے میں انتہائی عاجزی ہوتی ہے اور کسی کے سامنے انتہائی عاجزی وہی کرے گا جو اس سے کم مرتبے والا ہو۔

(3)حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،نبیِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:علم کی فضیلت عبادت کی فضیلت سے زیادہ ہے اور تمہارے دین کی بھلائی تقویٰ (اختیار کرنے میں ) ہے۔ (معجم اوسط،3 / 92،حدیث:3920)

(4)حضرت آدم علیہ السلام نے جان بوجھ کر ممنوعہ درخت سے نہیں کھایا بلکہ اس کی وجہ اللہ پاک کا حکم یاد نہ رہنا تھا اور جو کام سہواً ہو وہ نہ گناہ ہوتا ہے اور نہ ہی اس پر کوئی مُؤاخذہ ہوتا ہے۔

(5) ہر شخص شیطان سے ہوشیار رہے کہ حضرت آدم علیہ السلام معصوم تھے اور جنت محفوظ جگہ تھی پھر بھی ابلیس نے اپنا کام کردکھایا، تو ہم لوگ کس شمار میں ہیں !

فَتَلَقّٰۤى اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیْهِؕ-اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ(۳۷) (پ1،البقرۃ: 37)ترجمہ کنزالایمان: پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمے تو اللہ نے اس کی توبہ قبول کی بیشک وہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان۔

نبیِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:جب حضرت آدم علیہ السلام سے اجتہادی خطا ہوئی تو(عرصۂ دراز تک حیران و پریشان رہنے کے بعد )انہوں نے بارگاہِ الٰہی میں عرض کی:اے میرے رب!مجھے محمد ﷺ کے صدقے میں معاف فرمادے۔اللہ پاک نے فرمایا:اے آدم!تو نے محمد (ﷺ)کو کیسے پہچانا؟ حالانکہ ابھی تو میں نے اسے پیدا بھی نہیں کیا! حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کی:اے اللہ پاک!جب تو نے مجھے پیدا کر کے میرے اندر روح ڈالی اور میں نے اپنے سر کو اٹھایا تو میں نے عرش کے پایوں پر’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ‘‘لکھا دیکھا،تو میں نے جان لیا کہ تو نے اپنے نام کے ساتھ اس کا نام ملایا ہے جو تجھے تمام مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب ہے۔اللہ پاک نے فرمایا:اے آدم! تو نے سچ کہا۔بیشک وہ تمام مخلوق میں میری بارگاہ میں سب سے زیادہ محبوب ہے۔تو اس کے وسیلے سے مجھ سے دعا کر میں تجھے معاف کردوں گا اور اگر محمد(ﷺ) نہ ہوتے تو میں تجھےپیدا نہ کرتا۔(مستدرک،3 /517،حدیث:4286)


حضرت آدم علیہ السلام سب سے پہلے انسان اور تمام انسانوں کے باپ ہیں۔آپ کا لقب ابو البشر ہے۔اللہ پاک نے خاص اپنے دستِ قدرت سے آپ کا جسمِ مبارک بنایا اور اس میں اپنی طرف سے خاص روح پھونک کر پسندیدہ صورت پر پیدا فرمایا۔فرشتوں نے ان کی عالمی فضیلت کا اقرار کر کے انہیں سجدہ کیا،جبکہ ابلیس سجدے سے انکار کر کے مردود ہو گیا۔حضرت آدم علیہ السلام کثیر فضائل سے  مشرف ہیں۔قرآن و حدیث میں آپ کا کثرت سے ذکر موجود ہے۔جیسا کہ ارشادِ باری ہے:اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اِنِّیْ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنْ طِیْنٍ(۷۱)فَاِذَا سَوَّیْتُهٗ وَ نَفَخْتُ فِیْهِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِیْنَ(۷۲)فَسَجَدَ الْمَلٰٓىٕكَةُ كُلُّهُمْ اَجْمَعُوْنَۙ(۷۳) ترجمہ: جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں مٹی سے انسان بنانے والا ہوں ۔ پھر جب میں اسے ٹھیک بنالوں اور اس میں اپنی خاص روح پھونکوں تو تم اس کے لیے سجدے میں پڑجانا۔ تو تمام فرشتو ں نے اکٹھے سجدہ کیا ۔ سوائے ابلیس کے ۔اس نے تکبر کیا اور وہ کافروں میں سے ہوگیا۔

ملائکہ نے جو سجدہ کیا وہ سجدۂ تعظیمی تھا۔ سجدے کی دو قسمیں ہیں:(1)سجدۂ عبادت (2) سجدۂ تعظیمی۔

عبادت کا سجدہ کسی کو معبود سمجھ کر کیا جاتا ہے اور تعظیم کا سجدہ وہ ہوتا ہے جس سے سجدے کیے جانے والے کی تعظیم مقصود ہو۔سجدۂ عبادت اللہ پاک کے لیے خاص ہے اور کسی کے لیے نہیں ہو سکتا اور نہ کسی کی شریعت میں کبھی جائز ہوا۔سجدۂ تعظیمی پہلے شریعتوں میں جائز تھا لیکن ہماری شریعت میں منسوخ کر دیا گیا ہے اب سجدۂ تعظیمی حرام ہے۔

فرشتوں نے کسی پس و پیش کے بغیر حکمِ الٰہی پر فوری عمل کرتے ہوئے حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کیا جبکہ شیطان نے حکمِ الٰہی کو اپنی عقل کے ترازو میں تولا، اسے عقل کے خلاف جانا اور اس پر عمل نہ کر کے بربادی کا شکار ہوا۔اس میں ہمارے لیے درس و نصیحت ہے کہ ہم بھی حکمِ الٰہی کو من وعن تسلیم کر لیں۔کیونکہ حکمِ الٰہی کے مقابلے میں اپنی عقل استعمال کرنا،اپنی فہم و فہراست کے بجائے قول کے درست ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرنا اور مخالف جان کر عمل سے منہ پھیر لینا کفر کی دلدل میں دھنساسکتا ہے۔

تکبر کی مذمت:ابلیس سے سرزد ہونے والے گناہوں میں بنیادی گناہ تکبر ہے۔حدیثِ پاک میں ہے:تکبر حق بات کو جھٹلانے اور دوسروں کو حقیر سمجھنے کا نام ہے۔تکبر کبیرہ گناہ ہے۔جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہ ہوگا اور متکبروں کو قیامت کے دن لوگ اپنے پاؤں سے روندیں گے۔اللہ پاک ہمیں اس سے محفوظ فرمائے ۔اٰمین

انبیائے کرام علیہم السلام کی گستاخی کا حکم:انبیائے کرام علیہم السلام کی گستاخی ایسا بڑا جرم ہے جس کی سزا میں زندگی بھر کی عبادت و ریاضت برباد ہو جاتی ہے۔ابلیس جیسے انتہائی عبادت گزار کا انجام اس کی عبرت انگیز مثال ہے۔

اللہ پاک قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلٰٓىٕكَةِۙ-فَقَالَ اَنْۢبِـُٔوْنِیْ بِاَسْمَآءِ هٰۤؤُلَآءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(۳۱)قَالُوْا سُبْحٰنَكَ لَا عِلْمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَاؕ-اِنَّكَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَكِیْمُ(۳۲) (پ1،البقرۃ: 31-32)ترجمہ کنزالعرفان:اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھادئیے پھر ان سب اشیاء کو فرشتوں کے سامنے پیش کرکے فرمایا: اگر تم سچے ہو تو ان کے نام تو بتاؤ۔(فرشتوں نے)عرض کی: (اے اللہ!)تو پاک ہے ۔ہمیں تو صرف اتنا علم ہے جتنا تو نے ہمیں سکھا دیا ، بے شک تو ہی علم والا، حکمت والا ہے۔

علم کی فضیلت:حضرت آدم علیہ السلام کو فرشتوں پر فضیلت حاصل ہوئی ،اس کا ظاہری سبب ان کا علم ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ علم تنہائیوں کی عبادت سے افضل ہے۔

نا معلوم بات پر لاعلمی ظاہر کر دی جائے:چیزوں کا نام نامعلوم ہونے پر فرشتوں نے اپنی لاعلمی کا اعتراف کر لیا۔اس میں ہر صاحبِ علم بلکہ ہر مسلمان کے لیے یہ نصیحت ہے کہ جو بات معلوم نہ ہو اس کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کر دیا جائے، لوگوں کی ملامت سے ڈر کر یا عزت و شان کم ہونے کے خوف سے کبھی کوئی بات من گھڑت بنا کر بیان نہ کی جائے۔


اللہ کریم نے سب سے پہلے اپنے نور سے اپنے حبیب نبیِ کریم ﷺ کے نورکو پیدا فرمایا۔پھر اللہ کریم نے زمین وآسمان بنانے سے پہلے فرشتوں کو پیدا فرمایا۔ سب سے پہلے انسان اللہ پاک کے پیارے بنی حضرت آدم علیہ السلام ہیں اور آپ پہلے رسول بھی ہیں جو شریعت لے کر اپنی اولاد کی طرف مبعوث فرمائے گئے۔ حضرت آدم علیہ السلام کی نہ ماں ہیں نہ باپ۔اللہ کریم نے حضر ت  آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا فرمایا ۔ حضرت آدم علیہ السلام کی کنیت ابو محمد یا ابو البشر اور آپ کا لقب خلیفۃُ اللہ ہے۔آپ نے نو سو ساٹھ برس کی عمر پائی اور بوقتِ رخصت آپ کی اولاد کی تعداد ایک لاکھ ہو چکی تھی۔آئیے!حضرت آدم علیہ اسلام کے قرآنی واقعات کو پڑھتی ہیں اور ان سے نصیحت حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔

حضرت آدم علیہ السلام کے بارے میں دلچسپ معلومات:

(1)تکبر کا انجام :اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السلام کو تمام جہاں کے لئے نمونہ بنایا اور فرشتوں کو حکم دیا کہ حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کریں۔تمام فرشتوں نے سجدہ کیا لیکن شیطان نے سجدہ کرنے سے منع کر دیا اور تکبر کرتے ہوئے یہ سمجھتا رہا کہ وہ حضرت آدم علیہ السلام سے افضل وبرتر ہے۔ شیطان کے اس غلط عقیدے ،حکم ِالٰہی سے انکار اور تعظیمِ نبی سے تکبر کی وجہ سے کافرہوگیا۔جیسا کہ ارشادِ باری ہے:وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اَبٰى وَ اسْتَكْبَرَ ﱪ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ(۳۴) (پ1،البقرۃ :34)ترجمہ کنز العرفان:اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ سجدہ کرو تو ابلیس کے علاوہ سب نے سجدہ کیا۔ اس نے انکار کیا اور تکبر کیا اور کافر ہو گیا۔

اس آیتِ مبارکہ سے ہمیں درس ملتا ہے کہ تکبر کتنا مذموم وصف ہے کہ ہزاروں برس کا عبادت گزار اور فرشتوں کا استاد کہلانے والا ابلیس بھی اس کی وجہ سے بارگاہِ الٰہی میں مردود ٹھہرا۔لہٰذاہمیں تکبر کرتے ہوئے اپنے آپ کو لوگوں سے برتر و افضل نہیں سمجھنا چاہیے۔ (صراط الجنان)

(2)مشورے کی اہمیت:حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے اللہ پاک نے مشورے کے انداز میں فرشتوں سے کلام فرمایا۔چناچنہ ارشادِ باری ہے: وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةًؕ-(پ1،البقرۃ:30)ترجمہ كنز العرفان:اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایامیں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں ۔

اس آیتِ مبارکہ سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ اگر ہم بھی کوئی اہم کام شروع کرنے سے پہلے ماتحتوں سے مشورہ کر لیا کریں تو اس کا یہ فائدہ ملے گا کہ کوئی اچھی رائے مل جائے گی جس سے وہ کام اور اچھے طریقے سے ہو جائے گا یا اس کام سے متعلق ماتحتوں کے ذہن میں کوئی خلش ہو تو وہ دور ہو جائے گی۔ (سیرت الانبیاء)

(3)دعا و استغفار:جب حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا رضی اللہ عنہا جنت میں تھے تو شیطان نے ان کو وسوسے میں ڈالا کہ وہ اس درخت کا پھل کھالیں جس درخت کے پھل کو کھانے سے اللہ پاک نے منع فرمایا تھا۔شیطان نے اللہ پاک کی قسم کھا کر کہا کہ آپ اس درخت کا پھل کھائیں گے تو فرشتہ بن جائیں گے۔لہٰذا آپ نے شیطان کی قسم کا یقین کرتے ہوئے پھل کھا لیا تو اللہ پاک نے انہیں جنت سے زمین پر اتارنے کا حکم دیا،اس کے بعد حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا رضی اللہ عنہا نے اللہ پاک کی بارگاہ میں توبہ و استغفار کا اہتمام کیا۔چنانچہ ارشادِ باری ہے :قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَاٚ- وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ(۲۳) (پ8،الاعراف :23)ترجمہ کنز العرفان:دونوں نے عرض کی:اے ہمارے رب ہم نے اپنی جانوں پر زیادتی کی اور اگر تو نے ہماری مغفرت نہ فرمائی اور ہم پر رحم نہ فرمایا تو ضرور ہم نقصان والوں میں سے ہو جائیں گے ۔

حضرت آدم علیہ السلام نے اپنی لغزش کے بعد جس طرح دعا فرمائی اس میں مسلمانوں کے لیے یہ تربیت ہے اگر مسلمانوں سے کوئی گناہ ہو جائے تو اس پر نادم ہو کر اللہ پاک سے توبہ و استغفار کریں۔ (صراط الجنان)

(4)نا معلوم باتوں پر خاموش رہنا :اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السلام کو تمام اشیا اور چیزوں کے نام سکھائے ۔ اللہ پاک نے فرشتوں سے فرمایا:اَنْۢبِـُٔوْنِیْ بِاَسْمَآءِ هٰۤؤُلَآءِ(پ1،البقرۃ: 31) ترجمہ:ان کے نام تو بتاؤ۔

اشیا کے نام معلوم نہ ہونے پر فرشتوں نے اپنی لاعلمی کا اعتراف کر لیا۔چنانچہ ارشادِ باری ہے:قَالُوْا سُبْحٰنَكَ لَا عِلْمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَاؕ-اِنَّكَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَكِیْمُ(۳۲) (پ1،البقرۃ: 32)ترجمہ کنز العرفان:(فرشتوں نے)عرض کی:(اے اللہ!)تو پاک ہے۔ہمیں تو صرف اتنا علم ہے جتنا تو نے ہمیں سکھا دیا ، بے شک تو ہی علم والا، حکمت والا ہے۔

اس میں ہر صاحبِ علم بلکہ ہر مسلمان کے لیے یہ نصیحت ہے کہ جو بات معلوم نہ ہو اس کے بارے میں لاعلمی کا صاف اظہار کر دیا جائے۔ لوگوں سے ڈر کر یا عزت کم ہونے کے ڈر سے کوئی بات اپنی طرف سے بیان نہیں کرنی چاہیے۔ (سیرت الانبیاء )

(5)مقامِ فکر:ابلیس کے اتنے جرائم کے اظہار کے باوجود ابلیس کو مہلت و اختیار دینا اور اسے ختم نہ کرنا انسان کے امتحان اور آزمائش کے لیے ہے۔چنانچہ ارشادِ باری ہے:قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَاُغْوِیَنَّهُمْ اَجْمَعِیْنَۙ(۸۲) اِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِیْنَ(۸۳) (پ23،صٓ:82،83)ترجمہ کنز العرفان:اس نے کہا:تیری عزت کی قسم ضرور میں ان سب کو گمراہ کر دوں گا مگر جو ان میں تیرے چنے ہوئے بندےہیں ۔

ہمیں اس آیتِ مبارکہ سے درس ملتا ہے کہ اپنی ذات اور اعمال پر سوچنا چاہیے کہ اپنے ایمان و عمل کے اعتبار سے اس آزمائش میں ہم کامیاب ہو رہی ہیں یا شیطان کے بہکاوے میں آکر نا کامیابی کے گڑھے میں گر رہی ہیں۔ (صراط الجنان) اللہ پاک ہمیں حضرت آدم علیہ السلام کے ان قرآنی واقعات کو پڑھ کر سمجھ کر نیکیاں کرنے اور گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین


خلیفہ اسے کہتے ہیں جو احکامات جاری کرنے اور دیگر اختیارات میں اصل کا نائب ہو۔

خلیفہ بنانے کی حکمت:علامہ احمد صاوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتےہیں:خلیفہ بنانے کی وجہ یہ نہیں کہ اللہ پاک کو اس کی حاجت ہے،بلکہ خلیفہ بنانے کی حکمت بندوں پر رحمت فرمانا ہے۔لہٰذا انسانوں میں سے رسولوں (اور نبیوں ) کو خلیفہ بنا کر بھیجنا اللہ پاک کی رحمت،لطف اور احسان ہے۔ (سیرت الانبیاء )

آیتِ مبارکہ:اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَؕ-خَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ(۵۹) (پ3،ال عمرٰن:59)ترجمۂ کنزالعرفان:بےشک عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم کی طرح ہے۔ اُسے مٹی سے پیدا کیا پھر اسے فرمایا”ہوجا“تو وہ ہوگیا۔

حدیثِ مبارک:حضرت ابو ہر یرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السلام کو اپنی صورت پر پیدا فرمایا اور ان کے قد کی لمبائی 60 گز تھی۔

اہلِ جنت کا قد حضرت آدم علیہ السلام کے قد برابر ہوگا:مذکورہ بالا حدیث کے اخرمیں ہے:جو بھی جنت میں آجائے وہ حضرت آدم علیہ السلام کی صورت پر ہوگا اور اس کا قد 60گز ہوگا۔پھر حضرت آدم علیہ السلام کے بعد اب تک مخلوق (قد و قامت) میں کم ہوتی رہی ہے۔ (سیرت الانبیاء)

یومِ جمعہ کی حضرت آدم علیہ السلام سے نسبت:حضور ﷺ نےفرمایا :بہترین دن جس میں سورج نکلے وہ جمعہ کا دن ہے۔ اسی دن حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا گیا، اسی دن انہیں (جنت سے زمین پر) اتارا گیا، اسی دن ان کی توبہ قبول فرمائی گئی، اسی دن ان کی وفات ہوئی اور اسی دن قیامت قائم ہوگی۔( سیرت الانبیاء )

حضرت آدم علیہ السلام کا اشیا کے نام بتانا:اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السلام سے فرمایا:اے آدم!تم فرشتوں کو ان چیزوں کے نام بتادو۔چنانچہ آپ علیہ السلام نے ہر چیز کا نام بتانے کے ساتھ ساتھ ان کی پیدائش کی حکمت بھی بیان کردی۔ اس کے بعد الله پاک نے فرشتوں سے فرمایا: قَالُوْا سُبْحٰنَكَ لَا عِلْمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَاؕ-اِنَّكَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَكِیْمُ(۳۲)(پ1،البقرۃ:32)ترجمہ کنز العرفان: (فرشتوں نے)عرض کی: (اے اللہ!)تو پاک ہے۔ہمیں تو صرف اتنا علم ہے جتنا تو نے ہمیں سکھا دیا ،بے شک تو ہی علم والا، حکمت والا ہے۔ (سیرت الانبیاء )

حضرت آدم علیہ السلام کی فضلیت :حضرت آدم علیہ السلام سب سے پہلے انسان اور تمام انسانوں کے باپ ہیں، اس لئے آپ کا لقب ابوالبشر ہے۔ انہیں کائنات کی تمام اشیا کے ناموں ، ان کی صفات اور ان کی حکمتوں کا علم عطا فرمایا۔ فرشتوں نے ان کی علمی فضیلت کا اقرار کر کے انہیں سجدہ کیا۔ ابلیس انہیں سجدہ کرنے سے انکار پر مردور ہوا۔

حضرت آدم علیہ السلام کثیر فضائل سے مشرف ہیں اور قرآن و حدیث میں آپ کا کثرت سے ذکر موجود ہے۔اللہ پاک ہمیں حضرت آدم علیہ السلام کی سیرت سے علم و عمل کی برکتیں حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین 


1-فَدَلّٰىهُمَا بِغُرُوْرٍۚ-فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوْاٰتُهُمَا وَ طَفِقَا یَخْصِفٰنِ عَلَیْهِمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّةِؕ-وَ نَادٰىهُمَا رَبُّهُمَاۤ اَلَمْ اَنْهَكُمَا عَنْ تِلْكُمَا الشَّجَرَةِ وَ اَقُلْ لَّكُمَاۤ اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَكُمَا عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ(۲۲)(پ8،الاعراف: 22) ترجمہ کنزالایمان: تو اتار لایا انہیں فریب سے پھر جب انہوں نے وہ پیڑ چکھا تو ان پر ان کی شرم کی چیزیں کھل گئیں اور بدن پر جنت کے پتے چپٹانے لگے اور انہیں ان کے رب نے فرمایا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے ۔

حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا رضی اللہ عنہا کے لباس جدا ہوتے ہی ان دونوں کا پتوں کے ساتھ اپنے بدن کو چھپانا اس بات کی دلیل ہے کہ پوشیدہ اعضاء کا چھپانا انسانی فطرت میں داخل ہے ۔لہٰذا جو شخص ننگے ہونے کو فطرت سمجھتا ہے جیسے مغربی ممالک میں ایک طبقے کا رجحان ہے تو وہ ان لوگوں میں سے ہے جن کی فطرتیں مسخ ہو چکی ہیں۔(صراط الجنان ، ص 286)

2- وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلٰٓىٕكَةِۙ-فَقَالَ اَنْۢبِـُٔوْنِیْ بِاَسْمَآءِ هٰۤؤُلَآءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(۳۱) ترجمہ: اور اللہ پاک نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھائے پھر سب اشیاء ملائکہ پر پیش کر کے فرمایا سچے ہو تو ان کے نام تو بتاؤ۔(پ1،البقرۃ: 31 )اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السلام پر تمام اشیا پیش فرمائیں اور بطور الہام کے آپ کو ان تمام چیزوں کے نام ،کام، صفات، خصوصیات ،اصولی علوم اور صفتیں سکھا دیں۔ (تفسیر بیضاوی،1 / 285-286)تمام چیزیں فرشتوں کے سامنے پیش کر کے ان سے فرمایا گیا کہ اگر تم اپنے اس خیال میں سچے ہو کہ تم سے زیادہ علم والی مخلوقِ نہیں اور خلافت کے تمام ہی حق دار ہو تو ان چیزوں کے نام بتاؤ کیونکہ خلیفہ کا کام اختیار استعمال کرنا، کاموں کی تدبیر کرنا اور عدل و انصاف کرنا ہے اور یہ بغیر اس کے ممکن نہیں کہ خلیفہ کو ان تمام چیزوں کا علم ہو جن پر اسے اختیار دیا گیا ہے اور جن کا اسے فیصلہ کرنا ہے ۔

اس آیت میں اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السلام کے فرشتوں پر افضل ہونے کا سبب علم ظاہر فرمایا۔اس سے ظاہر ہوا کہ علم تنہائیوں کی عبادتوں سے بہتر ہے ۔(صراط الجنان،1/107)

حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا:اے ابوذر!تمہارا اس حال میں صبح کرنا کہ تم نے اللہ کی کتاب سے ایک آیت سیکھی ہو ۔یہ تمہارے لیے سو 100 رکعات نفل پڑھنے سے بہتر ہے اور تمہارا اس حال میں صبح کرنا کہ تم نے علم کا ایک باب سیکھا ہو جس پر عمل کیا گیا ہو یا نہ کیا گیا ہو یہ تمہارے لیے ہزار 1000 رکعتیں نوافل پڑھنے سے بہتر ہے ۔(ابن ماجہ،1/ 142،حدیث:219)لہٰذا ہمیں بھی چاہیے کہ علمِ دین حاصل کریں اور اس کو سیکھ کر دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کریں ۔

3- وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اَبٰى وَ اسْتَكْبَرَ ﱪ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ(۳۴) (پ1،البقرۃ :34)ترجمہ کنز العرفان:اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ سجدہ کرو تو ابلیس کے علاوہ سب نے سجدہ کیا۔ اس نے انکار کیا اور تکبر کیا اور کافر ہو گیا۔

الله پاک نے حضرت آدم علیہ السلام کو تمام موجودات کا نمونہ اور عالمِ روحانی و جسمانی کا مجموعہ بنایا،نیز فرشتوں کے لئے حصولِ کمالات کا وسیلہ بنایا تو انہیں حکم فرمایا کہ حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کریں کیونکہ اس میں حضرت آدم علیہ السلام کی فضیلت کا اعتراف اور اپنی بات اَتَجْعَلُ فِیْهَاکی معذرت ہے۔بہر حال تمام فرشتوں نے سجدہ کیا اور شیطان تکبر کے طور پر یہ سمجھتارہا کہ وہ حضرت آدم علیہ السلام سے افضل ہے۔اس جیسے انتہائی عبادت گزار ،فرشتوں کے استاد اور مقربِ بارگاہِ الٰہی کو سجدہ کا حکم دینا حکمت کے خلاف ہے۔اپنے اس باطل عقیدے اور حکمِ الٰہی سے انکار اور تعظیمِ نبی سے تکبر کی بنا پر کافر ہو گیا۔اس واقعہ سے معلوم ہوا تکبر ایسا خطرناک عمل ہے کہ یہ بعض اوقات بندے کو کفر تک پہنچا دیتا ہے۔اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ تکبرسے بچے ۔(صراط الجنان، 1 /113)

حضرت عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا:تکبر سے بچتے رہو کیونکہ اسی تکبر نے شیطان کو اس بات پرابھارا تھا کہ وہ حضرت آدم علیہ السلام کوسجده نہ کرے۔(تاریخ ابنِ عساكر، 40/49)

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا:تکبر حق کی مخالفت کرنے اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔(مسلم،ص 61 ،حدیث:147)

4-وَ قُلْنَا یٰۤاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَ كُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَیْثُ شِئْتُمَا۪-وَ لَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ(۳۵)(پ1،البقرۃ: 35)ترجمۂ کنزالایمان:اور ہم نے فرمایا اے آدم تو اور تیری بی بی اس جنت میں رہواور کھاؤ اس میں سے بے روک ٹوک جہاں تمہارا جی چاہے مگر اس پیڑ کے پاس نہ جانا کہ حد سے بڑھنے والوں میں ہوجاؤ گے ۔

یہاں ایک اہم مسئلہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ مذہبی معاملات اور اہم عقائد میں بھی زبان کی بے احتیاطیاں شمار سے باہر ہیں۔اس میں سب سے زیادہ بے باکی جس مسئلہ میں دیکھنے میں آتی ہے وہ حضرت آدم علیہ السلام کا جنتی ممنوعہ درخت سے پھل کھانا ہے۔ ( صراط الجنان ،1/115)

سیدی اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:غیر تلاوت میں اپنی طرف سے حضرت آدم علیہ السلام کی طرف نافرمانی گناہ کی نسبت حرام ہے۔ائمۂ دین نے اس کی تصریح فرمائی، بلکہ ایک جماعتِ علمائے کرام نے اسے کفر بتایا ہے۔( فتاویٰ رضویہ ،1/823)لہٰذا اپنے ایمان و قبر وآخرت پر ترس کھاتے ہوئے ان معاملات میں خاص طور پر اپنی زبان پر قابو رکھنی چاہیے ۔

5-فَتَلَقّٰۤى اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیْهِؕ-اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ(۳۷) (پ1،البقرۃ: 37)ترجمہ کنزالایمان: پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمے تو اللہ نے اس کی توبہ قبول کی بیشک وہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان۔

حضرت آدم علیہ السلام نے اپنی دعا میں یہ کلمات عرض کئے: قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَاٚ- وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ(۲۳) (پ8،الاعراف :23)ترجمہ کنز العرفان:دونوں نے عرض کی:اے ہمارے رب ہم نے اپنی جانوں پر زیادتی کی اور اگر تو نے ہماری مغفرت نہ فرمائی اور ہم پر رحم نہ فرمایا تو ضرور ہم نقصان والوں میں سے ہو جائیں گے ۔

آیت میں توبہ کا لفظ ہے ۔یہ لفظ جب اللہ پاک کے لیے آئے تو اس کا معنی اللہ پاک کا اپنی رحمت سے بندے پر رجوع کرنا یا بندے کی توبہ قبول کرنا ہے۔اور جب بندے کے ساتھ آئے تو دوسرے مفہوم میں ہے۔توبہ کا اصل مفہوم اللہ پاک کی طرف رجوع کرنا ہے۔ (صراط الجنان ،1/119)

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:توبہ کی 3 شرائط ہیں :1۔گناہ سے رک جانا۔2۔گناہ پر شرمندہ ہونااور3۔ گناہ کو چھوڑ دینے کا پکا ارادہ کرنا۔اگر گناہ کی تلافی وتدارک ہوسکتا ہو تو وہ بھی ضروری ہے۔(ریاض الصالحین ، ص 5)لہٰذا ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اپنے گناہوں سے توبہ کریں اور اگر تلافی ممکن ہے تو وہ بھی کریں۔


نصیحت سے مراد:وہ بات جس پر عمل کرنا مفید ہو اور صالحین سے بات ملی ہو یا ان کے واقعات سے اس بات کو اخذ کیا ہو۔قرآن سے کثیر نصیحت آپ کے واقعات سے حاصل ہوئی، جن میں سے چند یہ ہیں:

(1)ہر کام سے پہلے مشورہ لینا چاہیے : ہمیں حضرت آدم علیہ السلام کے واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ خلیفہ احکام و اوامر کے اجر اور دیگر تصرفات میں اصل کا نائب ہوتا ہے۔یہاں خلیفہ سے حضرت آدم علیہ السلام مراد ہیں۔ اگرچہ اور تمام انبیا بھی اللہ پاک کے خلیفہ ہیں ۔حضرت داود علیہ السلام کے حق میں فرمایا: یٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰكَ خَلِیْفَةً فِی الْاَرْضِ(پ23،صٓ:26)فرشتوں کو خلافتِ آدم کی خبر اس لیے دی گئی کہ وہ ان کے خلیفہ بنائے جانے کی حکمت دریافت کر کے معلوم کر لیں اور ان پر خلیفہ کی عظمت و شان ظاہر ہو کہ ان کو پیدائش سے قبل ہی خلیفہ کا لقب عطا ہوا اور آسمان والوں کو ان کی پیدائش کی بشارت دی گئی۔ (تفسیر خزائن العرفان،ص13) یہ اس آیت میں بیان ہوا ہے: وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةًؕ- ترجمہ کنز الایمان:اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایا میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں۔ (پالبقرۃ: 30 )

(2) علم خلوتوں اور تنہائیوں کی عبادت سے افضل ہے:یہ نصیحت یا مسئلہ ہمیں حضرت آدم علیہ السلام کے واقعات میں ایک آیت سے معلوم ہوا۔وہ کچھ اس طرح ہے کہ یعنی جب اللہ پاک نےفرشتوں سے یہ فرمایا کہ جب اس نے حضرت آدم علیہ السلام کو خلیفہ بنایا کہ اگر تم سمجھتے ہو کہ میں کوئی مخلوق تم سے زیادہ عالم پیدا نہ کروں گا اور خلافت کے ایک تم ہی مستحق ہو تو ان چیزوں کے نام بتاؤ کیونکہ خلیفہ کا کام تصرف و تدبیر اور عدل و انصاف ہے اور یہ خلیفہ بننا اس کے بغیر ممکن نہیں ہوتا کہ خلیفہ کو ان تمام چیزوں کا علم ہو جن پر اس کو متصرف فرمایا گیا اور جن کا اس کو فیصلہ کرنا ہے۔ اس سے یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ انبیا علیہم السلام ملائکہ سے افضل ہیں۔(تفسیر خزائن العرفان ،ص14)یہ اس آیت میں بیان ہوا ہے:فَقَالَ اَنْۢبِـُٔوْنِیْ بِاَسْمَآءِ هٰۤؤُلَآءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(۳۱) (پ1،البقرۃ:31) ترجمہ کنز الایمان:فرمایا سچے ہو تو ان کے نام تو بتاؤ۔ (3)تمام لغات اور زبانیں اللہ پاک کی طرف سے ہیں: جب فرشتوں نے کہا کہ ہمیں تو اتنا علم ہے جتنا تو نے ہمیں سکھایا تو اس سے ثابت ہوا کہ اللہ پاک کی طرف سے تمام علم آیا ہے اور اللہ پاک کے نام کی طرف تعلیم کی نسبت صحیح ہے۔لیکن اسے معلم نہ کہا جائے گا کیونکہ معلم پیشہ ور تعلیم دینے والے کو کہتے ہیں۔(تفسیر خزائن العرفان،ص 14 )قرآن کی اس آیت میں اس کا بیان ہے:قَالُوْا سُبْحٰنَكَ لَا عِلْمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَاؕ-اِنَّكَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَكِیْمُ(۳۲) (1،البقرۃ:32)ترجمۂ کنزالایمان:بولے پاکی ہے تجھے ہمیں کچھ علم نہیں مگر جتنا تو نے ہمیں سکھایا بے شک تو ہی علم و حکمت والا ہے۔

(4)سجدۂ تحیت پہلی شریعت میں جائز تھا،شریعتِ محمدیہ میں منسوخ کیا گیا ہے۔یہ بات ہمیں حضرت آدم علیہ السلام کے اس واقعے سے حاصل ہوئی کہ اللہ پاک نے آپ کو تمام موجودات کا نمونہ اور عالم روحانی جسمانی کا مجموعہ بنایا اور فرشتوں کے لیے حصولِ کمالات کا وسیلہ بنایا تو انہیں حکم فرمایا کہ حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کریں کیونکہ اس میں حضرت آدم علیہ السلام کی فضیلت کا اعتراف تھا اور اپنی بات اَتَجْعَلُ فِیْهَاکی معذرت بھی ہے ۔مقربین ملائکہ سمیت تمام نے سجدہ کیا لیکن شیطان نے انکار کیا۔ بہرحال تمام فرشتوں کو اس کا حکم ہوا اور اس سے یہ بھی بات معلوم ہوئی کہ سجدے دو قسم کے ہیں:ایک سجدہ ٔعبادت اور دوسرا سجدۂ تعظیمی۔سجدۂ عبادت وہ ہے جو عبادت کی نیت سے ہو کسی کو معبود بنا کر کیا جائے اور تعظیمی سجدہ وہ ہوتا ہے جس سے مسجود کی تعظیم ہوتی ہے۔بہرحال پہلی امتوں میں سجدۂ تعظیمی جائز تھا اور امتِ محمدیہ میں یہ جائز نہیں اور یہ اس آیت میں بیان ہوا ہے۔(تفسیر صراط الجنان،ص25)وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-البقرۃ:34)ترجمہ کنزالعرفان: اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو ابلیس کے علاوہ تمام نے سجدہ کیا۔

(5)تکبر نہایت ہی قبیح ہے،کبھی نوبت کفر تک لے جاتا ہے :حضرت آدم علیہ السلام کے ہی واقعے سے ایک اور نصیحت یہ بھی معلوم ہوئی کہ تکبر ایسا خطرناک عمل ہے کہ یہ بعض اوقات بندے کو کفر تک پہنچا دیتا ہے۔اس لیے ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ تکبر کرنے سے بچے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: تکبر حق کی مخالفت کرنے اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔( مسلم،ص 41 ،حدیث: 147 )حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسولِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:تکبر سے بچتے رہو کیونکہ اسی تکبر نے شیطان کو اس بات پر ابھارا تھا کہ وہ حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کرے۔(تاریخ ابن عساکر ، 49 /40) اللہ پاک سے دعا ہے جو ہم نے نصیحتیں پڑ ھیں ان پر ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ امین