1-فَدَلّٰىهُمَا بِغُرُوْرٍۚ-فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوْاٰتُهُمَا وَ طَفِقَا یَخْصِفٰنِ عَلَیْهِمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّةِؕ-وَ نَادٰىهُمَا رَبُّهُمَاۤ اَلَمْ اَنْهَكُمَا عَنْ تِلْكُمَا الشَّجَرَةِ وَ اَقُلْ لَّكُمَاۤ اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَكُمَا عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ(۲۲)(پ8،الاعراف: 22) ترجمہ کنزالایمان: تو اتار لایا انہیں فریب سے پھر جب انہوں نے وہ پیڑ چکھا تو ان پر ان کی شرم کی چیزیں کھل گئیں اور بدن پر جنت کے پتے چپٹانے لگے اور انہیں ان کے رب نے فرمایا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے ۔

حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا رضی اللہ عنہا کے لباس جدا ہوتے ہی ان دونوں کا پتوں کے ساتھ اپنے بدن کو چھپانا اس بات کی دلیل ہے کہ پوشیدہ اعضاء کا چھپانا انسانی فطرت میں داخل ہے ۔لہٰذا جو شخص ننگے ہونے کو فطرت سمجھتا ہے جیسے مغربی ممالک میں ایک طبقے کا رجحان ہے تو وہ ان لوگوں میں سے ہے جن کی فطرتیں مسخ ہو چکی ہیں۔(صراط الجنان ، ص 286)

2- وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلٰٓىٕكَةِۙ-فَقَالَ اَنْۢبِـُٔوْنِیْ بِاَسْمَآءِ هٰۤؤُلَآءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(۳۱) ترجمہ: اور اللہ پاک نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھائے پھر سب اشیاء ملائکہ پر پیش کر کے فرمایا سچے ہو تو ان کے نام تو بتاؤ۔(پ1،البقرۃ: 31 )اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السلام پر تمام اشیا پیش فرمائیں اور بطور الہام کے آپ کو ان تمام چیزوں کے نام ،کام، صفات، خصوصیات ،اصولی علوم اور صفتیں سکھا دیں۔ (تفسیر بیضاوی،1 / 285-286)تمام چیزیں فرشتوں کے سامنے پیش کر کے ان سے فرمایا گیا کہ اگر تم اپنے اس خیال میں سچے ہو کہ تم سے زیادہ علم والی مخلوقِ نہیں اور خلافت کے تمام ہی حق دار ہو تو ان چیزوں کے نام بتاؤ کیونکہ خلیفہ کا کام اختیار استعمال کرنا، کاموں کی تدبیر کرنا اور عدل و انصاف کرنا ہے اور یہ بغیر اس کے ممکن نہیں کہ خلیفہ کو ان تمام چیزوں کا علم ہو جن پر اسے اختیار دیا گیا ہے اور جن کا اسے فیصلہ کرنا ہے ۔

اس آیت میں اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السلام کے فرشتوں پر افضل ہونے کا سبب علم ظاہر فرمایا۔اس سے ظاہر ہوا کہ علم تنہائیوں کی عبادتوں سے بہتر ہے ۔(صراط الجنان،1/107)

حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا:اے ابوذر!تمہارا اس حال میں صبح کرنا کہ تم نے اللہ کی کتاب سے ایک آیت سیکھی ہو ۔یہ تمہارے لیے سو 100 رکعات نفل پڑھنے سے بہتر ہے اور تمہارا اس حال میں صبح کرنا کہ تم نے علم کا ایک باب سیکھا ہو جس پر عمل کیا گیا ہو یا نہ کیا گیا ہو یہ تمہارے لیے ہزار 1000 رکعتیں نوافل پڑھنے سے بہتر ہے ۔(ابن ماجہ،1/ 142،حدیث:219)لہٰذا ہمیں بھی چاہیے کہ علمِ دین حاصل کریں اور اس کو سیکھ کر دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کریں ۔

3- وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اَبٰى وَ اسْتَكْبَرَ ﱪ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ(۳۴) (پ1،البقرۃ :34)ترجمہ کنز العرفان:اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ سجدہ کرو تو ابلیس کے علاوہ سب نے سجدہ کیا۔ اس نے انکار کیا اور تکبر کیا اور کافر ہو گیا۔

الله پاک نے حضرت آدم علیہ السلام کو تمام موجودات کا نمونہ اور عالمِ روحانی و جسمانی کا مجموعہ بنایا،نیز فرشتوں کے لئے حصولِ کمالات کا وسیلہ بنایا تو انہیں حکم فرمایا کہ حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کریں کیونکہ اس میں حضرت آدم علیہ السلام کی فضیلت کا اعتراف اور اپنی بات اَتَجْعَلُ فِیْهَاکی معذرت ہے۔بہر حال تمام فرشتوں نے سجدہ کیا اور شیطان تکبر کے طور پر یہ سمجھتارہا کہ وہ حضرت آدم علیہ السلام سے افضل ہے۔اس جیسے انتہائی عبادت گزار ،فرشتوں کے استاد اور مقربِ بارگاہِ الٰہی کو سجدہ کا حکم دینا حکمت کے خلاف ہے۔اپنے اس باطل عقیدے اور حکمِ الٰہی سے انکار اور تعظیمِ نبی سے تکبر کی بنا پر کافر ہو گیا۔اس واقعہ سے معلوم ہوا تکبر ایسا خطرناک عمل ہے کہ یہ بعض اوقات بندے کو کفر تک پہنچا دیتا ہے۔اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ تکبرسے بچے ۔(صراط الجنان، 1 /113)

حضرت عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا:تکبر سے بچتے رہو کیونکہ اسی تکبر نے شیطان کو اس بات پرابھارا تھا کہ وہ حضرت آدم علیہ السلام کوسجده نہ کرے۔(تاریخ ابنِ عساكر، 40/49)

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا:تکبر حق کی مخالفت کرنے اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔(مسلم،ص 61 ،حدیث:147)

4-وَ قُلْنَا یٰۤاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَ كُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَیْثُ شِئْتُمَا۪-وَ لَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ(۳۵)(پ1،البقرۃ: 35)ترجمۂ کنزالایمان:اور ہم نے فرمایا اے آدم تو اور تیری بی بی اس جنت میں رہواور کھاؤ اس میں سے بے روک ٹوک جہاں تمہارا جی چاہے مگر اس پیڑ کے پاس نہ جانا کہ حد سے بڑھنے والوں میں ہوجاؤ گے ۔

یہاں ایک اہم مسئلہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ مذہبی معاملات اور اہم عقائد میں بھی زبان کی بے احتیاطیاں شمار سے باہر ہیں۔اس میں سب سے زیادہ بے باکی جس مسئلہ میں دیکھنے میں آتی ہے وہ حضرت آدم علیہ السلام کا جنتی ممنوعہ درخت سے پھل کھانا ہے۔ ( صراط الجنان ،1/115)

سیدی اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:غیر تلاوت میں اپنی طرف سے حضرت آدم علیہ السلام کی طرف نافرمانی گناہ کی نسبت حرام ہے۔ائمۂ دین نے اس کی تصریح فرمائی، بلکہ ایک جماعتِ علمائے کرام نے اسے کفر بتایا ہے۔( فتاویٰ رضویہ ،1/823)لہٰذا اپنے ایمان و قبر وآخرت پر ترس کھاتے ہوئے ان معاملات میں خاص طور پر اپنی زبان پر قابو رکھنی چاہیے ۔

5-فَتَلَقّٰۤى اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیْهِؕ-اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ(۳۷) (پ1،البقرۃ: 37)ترجمہ کنزالایمان: پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمے تو اللہ نے اس کی توبہ قبول کی بیشک وہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان۔

حضرت آدم علیہ السلام نے اپنی دعا میں یہ کلمات عرض کئے: قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَاٚ- وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ(۲۳) (پ8،الاعراف :23)ترجمہ کنز العرفان:دونوں نے عرض کی:اے ہمارے رب ہم نے اپنی جانوں پر زیادتی کی اور اگر تو نے ہماری مغفرت نہ فرمائی اور ہم پر رحم نہ فرمایا تو ضرور ہم نقصان والوں میں سے ہو جائیں گے ۔

آیت میں توبہ کا لفظ ہے ۔یہ لفظ جب اللہ پاک کے لیے آئے تو اس کا معنی اللہ پاک کا اپنی رحمت سے بندے پر رجوع کرنا یا بندے کی توبہ قبول کرنا ہے۔اور جب بندے کے ساتھ آئے تو دوسرے مفہوم میں ہے۔توبہ کا اصل مفہوم اللہ پاک کی طرف رجوع کرنا ہے۔ (صراط الجنان ،1/119)

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:توبہ کی 3 شرائط ہیں :1۔گناہ سے رک جانا۔2۔گناہ پر شرمندہ ہونااور3۔ گناہ کو چھوڑ دینے کا پکا ارادہ کرنا۔اگر گناہ کی تلافی وتدارک ہوسکتا ہو تو وہ بھی ضروری ہے۔(ریاض الصالحین ، ص 5)لہٰذا ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اپنے گناہوں سے توبہ کریں اور اگر تلافی ممکن ہے تو وہ بھی کریں۔