حضرت یوسف علیہ السلام کا اِجمالی ذکرِ خیر قرآنِ کریم میں تین مقامات پر ہے سورهِ انعام، سورہِ مؤمن اور آپ علیہ السلام کا تفصیلی ذکر وہ سورہِ یوسف میں ہے.آئیے اب ہم آپ علیہ السلام کی قرآنی صِفات کا ذکر کرتے ہیں. اللہ تعالٰی قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے :وَ وَهَبْنَا لَهٗۤ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَؕ-كُلًّا هَدَیْنَاۚ-وَ نُوْحًا هَدَیْنَا مِنْ قَبْلُ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِهٖ دَاوٗدَ وَ سُلَیْمٰنَ وَ اَیُّوْبَ وَ یُوْسُفَ وَ مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَؕ-وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ(84)ترجمہ کنز الایمان :اور ہم نے انہیں اسحق اور یعقوب عطا کیے ان سب کو ہم نے راہ دکھائی اور ان سے پہلے نوح کو راہ دکھائی اور اس کی اولاد میں سے داؤد اور سلیمان اور ایوب اور یوسف اور موسیٰ اور ہارون کو اور ہم ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں نیکوکاروں کو۔ (پارہ 7،سورة الأنعام، آیت 84)

اس آیتِ مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے اللہ پاک نے آپ علیہ السلام کو اُن کے زمانے میں تمام جہان والوں پر فضیلت بخشی ،آپ علیہ السلام کو ہدایت و صلاحیت عطا فرمائی اور آپ علیہ السلام کو صراطِ مستقیم کی طرف ہدایت بخشی.

وہ مقام جس میں آپ علیہ السلام کا تفصیلی ذکر ہے کہ ارشادِ خُدا وندی ہے :وَ قَالَ الَّذِی اشْتَرٰىهُ مِنْ مِّصْرَ لِامْرَاَتِهٖۤ اَكْرِمِیْ مَثْوٰىهُ عَسٰۤى اَنْ یَّنْفَعَنَاۤ اَوْ نَتَّخِذَهٗ وَلَدًاؕ-وَ كَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِ٘-وَ لِنُعَلِّمَهٗ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِؕ-وَ اللّٰهُ غَالِبٌ عَلٰۤى اَمْرِهٖ وَ لٰـكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ(21)ترجمہ کنز الایمان :اور مصر کے جس شخص نے اسے خریدا وہ اپنی عورت سے بولا انہیں عزت سے رکھ شاید ان سے ہمیں نفع پہنچے یا ان کو ہم بیٹا بنالیں اور اسی طرح ہم نے یوسف کو اس زمین میں جماؤ دیا اور اس لیے کہ اسے باتوں کا انجام سکھائیں اور اللہ اپنے کام پر غالب ہے مگر اکثر آدمی نہیں جانتے۔(پارہ 12،سورہِ یوسف، آیت 21)

اس آیتِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالٰی نے آپ علیہ السلام کو قتل سے محفوظ رکھا. آپ علیہ السلام کو کنواں سے سلامتی کے ساتھ باہر نکالا. آپ علیہ السلام کو مصر کی سر زمین میں ٹھکانہ دیا اور اللہ پاک نے آپ علیہ السلام کو خوابوں کی تعبیر کرنا سکھایا. (سیرت الانبیاء ص418)

اللہ تعالٰی نے آپ علیہ السلام کو بُرائی اور بے حیائی سے محفوظ رکھا اور آپ علیہ السلام کو اپنے چُنے ہوئے بندوں میں شمار کیا جیسا کہ قرآنِ کریم میں اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے :وَ لَقَدْ هَمَّتْ بِهٖۚ-وَ هَمَّ بِهَا لَوْ لَاۤ اَنْ رَّاٰ بُرْهَانَ رَبِّهٖؕ-كَذٰلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوْٓءَ وَ الْفَحْشَآءَؕ-اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِیْنَ(24)ترجمہ کنز الایمان :اور بیشک عورت نے اس کا ارادہ کیا اور وہ بھی عورت کا ارادہ کرتا اگر اپنے رب کی دلیل نہ دیکھ لیتا ہم نے یونہی کیا کہ اس سے برائی اور بے حیائی کو پھیر دیں بیشک وہ ہمارے چنے ہوئے بندوں میں ہے. (پارہ 12،سورہِ یوسف، آیت 24)

اس آیتِ مبارکہ میں جس دلیل کا ذکر ہوا وہ برہان عصمتِ نبوت ہے. اللہ تعالٰی نے انبیاءِکرام علیھم السلام کے پاکیزہ نفوس کو بُرے اَخلاق اور گندے اَفعال سے پاک پیدا کیا ہےاور پاکیزہ، مقدّس اور شرافت والے اَخلاق پر اُن کی پیدائش فرمائی ہے، اس لیے وہ ہر ایسے کام سے باز رہتے ہیں جس کا کرنا منع ہو.

ایک روایت یہ بھی ہے کہ جس وقت زُلیخا، حضرت یوسف علیہ السلام کے درپے ہوئی اُس وقت آپ علیہ السلام نے اپنے والد ماجد حضرت یعقوب علیہ السلام کو دیکھا کہ حضرت یعقوب علیہ السلام اپنے انگشتِ مبارک دِندانِ اَقدس کے نیچے دبا کر اجتناب کا اشارہ فرماتے ہیں. (سیرت النبياء ص430)

اللہ تعالٰی نے آپ علیہ السلام کو خوابوں کی تعبیر کرنا سکھایا تھا کہ آپ علیہ السلام قید خانے کے ساتھیوں کے خواب کی تعبیر بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اے قید خانے کے دونوں ساتھیوں تم میں ایک ساتھی بادشاہ کو شراب پلانے والا تو اپنے عہدے پر بحال کیا جائے گا اور پہلے کی طرح بادشاہ کو شراب پلائے گا اور تین خوشے جو خواب میں بیان کیے گئے تھے اس سے مراد تین دن ہیں، وہ اِتنے ہی دن قید خانے میں رہے گا پھر بادشاہ اُسے بُلالے گا اور جہاں تک دوسرے یعنی شاہی باورچی کا تعلّق ہے تو اُسے سولی دی جائے گی پھر پرندے اس کا سر کھا لیں گے(سیرت الانبیاء، ص440) جیسا کہ اللہ پاک نے قرآنِ کریم میں اِس واقعہ کی طرف اشارہ فرمایا ہے :

یٰصَاحِبَیِ السِّجْنِ اَمَّاۤ اَحَدُكُمَا فَیَسْقِیْ رَبَّهٗ خَمْرًاۚ-وَ اَمَّا الْاٰخَرُ فَیُصْلَبُ فَتَاْكُلُ الطَّیْرُ مِنْ رَّاْسِهٖؕ-قُضِیَ الْاَمْرُ الَّذِیْ فِیْهِ تَسْتَفْتِیٰنِ(41)ترجمہ کنز الایمان : اے قید خانہ کے دونوں ساتھیو تم میں ایک تو اپنے رب (بادشاہ)کو شراب پلائے گا رہا دوسرا وہ سُولی دیا جائے گا تو پرندے اس کا سر کھائیں گے حکم ہوچکا اس بات کا جس کا تم سوال کرتے تھے۔(پارہ 12،سورہِ یوسف، آیت 41)

اسی سورہِ یوسف میں آگے آپ علیہ السلام کا ذکرِ خیر ہوتا ہےکہ اللہ تعالٰی قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے : وَ كَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِۚ-یَتَبَوَّاُ مِنْهَا حَیْثُ یَشَآءُؕ-نُصِیْبُ بِرَحْمَتِنَا مَنْ نَّشَآءُ وَ لَا نُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ(56)وَ لَاَجْرُ الْاٰخِرَةِ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ كَانُوْا یَتَّقُوْنَ(57) ترجمہ کنز الایمان : اور یونہی ہم نے یوسف کو اس ملک پر قدرت بخشی اس میں جہاں چاہے رہے ہم اپنی رحمت جسے چاہیں پہنچائیں اور ہم نیکوں کا نیگ ضائع نہیں کرتے۔ اوربے شک آخرت کا ثواب ان کے لیے بہتر جو ایمان لائے اور پرہیزگار رہے۔(پارہ 13،سورہِ یوسف، آیت 56،57)

مذکورہ آیتِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالٰی نے آپ علیہ السلام کو قید خانے سے رہائی عطا فرمائی، بادشاہ کی نگاہوں میں آپ علیہ السلام کو معزّز بنایا، آپ علیہ السلام کو مصر کی سرزمین میں اِقتدار عطا فرما کر سب کچھ اُن کے تحتِ تصرّف کر دیا اور اللہ تعالٰی نے آپ علیہ السلام کے لیے آخرت میں بہت زیادہ افضل و اعلٰی ثواب رکھا.

اللہ پاک حضرتِ یوسف علی نبیّنا علیہ الصلوۃ والسلام کے مزارِ پُر انوار پر کروڑوں رحمتوں کا نزول فرمائے اور آپ علیہ السلام کے وسیلہ سے ہماری اور ہمارے فوت شُدگان کی بے حساب بخشش و مغفرت فرمائے.(آمین بجاہِ خاتم النبيّين صلّی الله علیه وآله و اَصحابه وبارک وسلّم)

جس طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں مختلف جگہوں پر مختلف انبیاء کرام علیہم السلام کی صفات اور ان کی قوموں کا ذکر فرمایا اسی طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت یوسف علیہ السلام کا بھی ذکر فرمایا اور ان کی صفات بیان فرمائی آئیے کچھ آیتیں مبارکہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں آپ بھی ملاحظہ فرما لیجئے۔

(1)۔ چاند اور سورج کا سجدہ کرنا:اِذْ قَالَ یُوْسُفُ لِاَبِیْهِ یٰۤاَبَتِ اِنِّیْ رَاَیْتُ اَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَّ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ رَاَیْتُهُمْ لِیْ سٰجِدِیْنَ(4) ترجمۂ کنز الایمان:یاد کرو جب یوسف نے اپنے با پ سے کہا اے میرے باپ میں نے گیارہ تارے اور سورج اور چاند دیکھے انہیں اپنے لیے سجدہ کرتے دیکھا ۔

تفسیر :{اِذْ قَالَ یُوْسُفُ لِاَبِیْهِ:یاد کرو جب یوسف نے اپنے با پ سے کہا۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اپنی قوم کے سامنے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وہ بات بیان کریں جو انہوں نے اپنے باپ حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کہی کہ اے میرے باپ! میں نے گیارہ ستاروں اور سورج اور چاند کو دیکھا ، میں نے انہیں اپنے لئے سجدہ کرتے ہوئے دیکھا۔ ( حوالہ سورتہ یوسف آیت نمبر 4)

(2)۔حضرت یوسف علیہ السلام کا خزانوں کی حفاظت کرنا۔ قَالَ اجْعَلْنِیْ عَلٰى خَزَآىٕنِ الْاَرْضِۚ-اِنِّیْ حَفِیْظٌ عَلِیْمٌ(55) ترجمۂ کنز الایمان:یوسف نے کہا مجھے زمین کے خزانوں پر کردے بیشک میں حفاظت والا علم والا ہوں ۔

تفسیر : حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بادشاہ سے فرمایا: اپنی سلطنت کے تمام خزانے میرے سپرد کردے، بے شک میں خزانے کی حفاظت کرنے والا اور ان کے مَصارف کو جاننے والا ہوں ۔ بادشاہ نے کہا آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے زیادہ اس کا مستحق اور کون ہوسکتا ہے ؟ چنانچہ بادشاہ نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اس مطالبے کو منظور کرلیا۔( حوالہ سورتہ یوسف آیت نمبر 55)

(3)۔ اللہ پاک کا آپ علیہ السلام کو ملک پر قدرت بخشنا:كَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِۚ-یَتَبَوَّاُ مِنْهَا حَیْثُ یَشَآءُؕ-نُصِیْبُ بِرَحْمَتِنَا مَنْ نَّشَآءُ وَ لَا نُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ(56) ترجمۂ کنز الایمان:اور یونہی ہم نے یوسف کو اس ملک پر قدرت بخشی اس میں جہاں چاہے رہے ہم اپنی رحمت جسے چاہیں پہنچائیں اور ہم نیکوں کا نیگ ضائع نہیں کرتے۔

تفسیر : یعنی جس طرح ہم نے اندھیرے کنویں سے نجات دے کر، قید خانے سے رہائی عطا فرما کر اور بادشاہ کی نگاہوں میں معزز بنا کر حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر انعام فرمایا اسی طرح ہم نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کومصر کی سر زمین میں اقتدار عطا فرمایا اور سب کچھ اُن کے تحت ِتَصَرُّف ہے ۔( حوالہ سورتہ یوسف آیت نمبر 56)

(4)۔ حضرت یوسف علیہ السلام کی قمیض سے جنت کی خوشبو:وَ لَمَّا فَصَلَتِ الْعِیْرُ قَالَ اَبُوْهُمْ اِنِّیْ لَاَجِدُ رِیْحَ یُوْسُفَ لَوْ لَاۤ اَنْ تُفَنِّدُوْنِ(94)ترجمہ کنزالایمان:جب قافلہ مصر سے جدا ہوا یہاں ان کے باپ نے کہا بے شک میں یوسف کی خوشبو پا تا ہوں اگر مجھے یہ نہ کہو کہ سٹھ گیا ۔

تفسیر: یعنی جب قافلہ مصر کی سرزمین سے نکلا اور کنعان کی طرف روانہ ہوا تو حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے بیٹوں اور پوتوں یا پوتوں اور پاس والوں سے فرما دیا ’’بیشک میں یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قمیص سے جنت کی خوشبو پا رہا ہوں ۔ اگر تم مجھے کم سمجھ نہ کہو تو تم ضرور میری بات کی تصدیق کرو گے۔( حوالہ سورتہ یوسف آیت نمبر 94)

(5)۔ حضرت یوسف علیہ السلام کا اپنے بھائیوں سے ملنا:قَالُـوْۤا ءَاِنَّكَ لَاَنْتَ یُوْسُفُؕ-قَالَ اَنَا یُوْسُفُ وَ هٰذَاۤ اَخِیْ٘-قَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَیْنَاؕ-اِنَّهٗ مَنْ یَّتَّقِ وَ یَصْبِرْ فَاِنَّ اللّٰهَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ(90) ترجمہ کنزالایمان: بولے کیا سچ مچ آپ ہی یوسف ہیں کہا میں یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی بے شک اللہ نے ہم پر احسان کیا بے شک جو پرہیزگاری اور صبر کرے تو اللہ نیکوں کا نیگ ضائع نہیں کرتا۔

تفسیر: حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بھائیوں نے کہا ’’کیا واقعی آپ ہی یوسف ہیں ؟ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا ’’ہاں ، میں یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی ہے ،بیشک اللہ تعالیٰ نے ہم پر احسان کیا ، ہمیں جدائی کے بعد سلامتی کے ساتھ ملایا اور دین و دنیا کی نعمتوں سے سرفراز فرمایا۔ بے شک جو گناہوں سے بچے اور اللہ تعالیٰ کے فرائض کی بجا آوری کرے، اپنے نفس کو ہر ا س بات یا عمل سے روک کر رکھے جسے اللہ تعالیٰ نے اس پر حرام فرمایا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی نیکیوں کا ثواب اورا س کی اطاعت گزاریوں کی جزا ضائع نہیں کرتا۔ (حوالہ سورتہ یوسف آیت نمبر 90)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ جو کچھ پڑھا اس پر عمل کرنے اور انبیاء علیہم السلام جیسی صفات اپنانے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم


حسن یوسف پہ کٹیں مصر میں انگشتِ زناں

سر کٹاتے ہیں تیرے نام پہ مردان عرب

اللہ پاک نے انسانوں کی ہدایت کےلئے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام علیہم السلام بھیجے۔ جن میں سے 26 کا ذکر قرآن مجید میں بھی ہے ۔اور جن کا ذکر قرآن مجید میں ہے ، ان میں سے ایک حضرت یوسف علیہ السلام بھی ہیں۔

مختصر تعارف:حضرت یوسف علیہ السلام حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹے اور حضرت اسحاق علیہ السلام کے پوتے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پڑپوتے ہیں۔ یعنی نسب نامہ یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراھیم علیھم السلام ہے۔

خود نبی، والد نبی، دادا نبی اور پردادا بھی نبی ہیں۔ (از سیرت الانبیاء ص:416)

حضور علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: لوگوں میں بڑے شرف والے حضرت یوسف علیہ السلام ہیں کہ خود اللہ کے نبی، اور نبی اللہ کے بیٹے، اور وہ نبی اللہ کے بیٹے اور وہ خلیل اللہ کے بیٹے ہیں۔ (بخاری، کتاب احادیث الانبیاء، باب قول اللہ تعالی: و اتخذ اللہ ابراھیم خلیلا،421/2، حدیث:3353 ) آئیے اب حضرت یوسف علیہ السلام کی قرآنی صفات کا مطالعہ کرتے ہیں ۔

1- جوانی میں عطائے علم و حکمت: اللہ پاک نے آپ علیہ السلام کو جوانی میں علم و حکمت عطا فرمائ۔ قرآن مجید میں ہے ۔وَ لَمَّا بَلَغَ اَشُدَّهٗۤ اٰتَیْنٰهُ حُكْمًا وَّ بن عِلْمًا ط وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ (ترجمہ کنزالایمان) اور جب اپنی پوری قوت کو پہنچا ہم نے اسے حکم اور علم عطا فرمایا اور ہم ایسا ہی صلہ دیتے ہیں نیکوں کو۔ (سورۃ یوسف، آیت:22)

یعنی جب حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنی جوانی کی پوری قوت کو پہنچے اور شباب اپنی انتہا پر آیا اور عمر مبارک امام ضحاک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے قول کے مطابق بیس سال، سدی کےقول کے مطابق تیس سال اور کلبی کے قول کے مطابق اٹھارہ اور تیس کے درمیان ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں نبوت اور دین میں فقاہت عطا فرمائی۔ بعض علماء نے فرمایا ہے کہ اس آیت میں حکم سے درست بات اور علم سے خواب کی تعبیر مراد ہے اور بعض علما نے فرمایا ہے کہ چیزوں کی حقیقتوں کو جانناعلم اور علم کے مطابق عمل کرنا حکمت ہے۔(خازن، یوسف، تحت الآیۃ: 22، 3 / 11-12)

2- خوابوں کی تعبیر بتانا:اللہ پاک نے آپ علیہ السلام کو خوابوں کی تعبیر کا علم بھی عطا فرمایا۔ چنانچہ فرمایا: وَ كَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِ٘ وَ لِنُعَلِّمَهٗ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِ ط وَاللّٰهُ غَالِبٌ عَلٰۤى اَمْرِهٖ وَ لٰـكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ (ترجمہ کنزالایمان): اور اسی طرح ہم نے یوسف کو اس زمین میں جماؤ دیا اور اس لیے کہ اسے باتوں کا انجام سکھائیں اور اللہ اپنے کام پر غالب ہے مگر اکثر آدمی نہیں جانتے۔(سورۃ یوسف، آیت:21)

(3٫4)- اللہ پاک نے برائ سے محفوظ رکھا اور اپنے چنے ہوئے بندوں میں شامل فرمایا۔ قرآن مجید میں ہے:وَ لَقَدْ هَمَّتْ بِهٖ ج وَ هَمَّ بِهَا لَوْ لَاۤ اَنْ رَّاٰ بُرْهَانَ رَبِّهٖ ط كَذٰلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوْٓءَ وَ الْفَحْشَآءَ ط اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِیْنَ (ترجمہ کنزالایمان):اور بیشک عورت نے اس کا ارادہ کیا اور وہ بھی عورت کا ارادہ کرتا اگر اپنے رب کی دلیل نہ دیکھ لیتا ہم نے یونہی کیا کہ اس سے برائی اور بے حیائی کو پھیر دیں بیشک وہ ہمارے چنے ہوئے بندوں میں ہے۔(سورۃ یوسف آیت نمبر:24)

(5)- سر زمین مصر میں اقتدار:اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:وَ كَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِ ج یَتَبَوَّاُ مِنْهَا حَیْثُ یَشَآءُ ط نُصِیْبُ بِرَحْمَتِنَا مَنْ نَّشَآءُ وَ لَا نُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ(ترجمہ کنزالایمان):اور یونہی ہم نے یوسف کو اس ملک پر قدرت بخشی اس میں جہاں چاہے رہے ہم اپنی رحمت جسے چاہیں پہنچائیں اور ہم نیکوں کا نیگ ضائع نہیں کرتے۔(سورۃ یوسف ، آیت : 56)

(6)- آخرت میں بہترین اجر و ثواب:وَ لَاَجْرُ الْاٰخِرَةِ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ كَانُوْا یَتَّقُوْنَ ترجمہ کنزالایمان:اوربے شک آخرت کا ثواب ان کے لیے بہتر جو ایمان لائے اور پرہیزگار رہے۔(سورۃ یوسف ، آیت: 57)

(7)- قبولیت دعا:قَالَ رَبِّ السِّجْنُ اَحَبُّ اِلَیَّ مِمَّا یَدْعُوْنَنِیْۤ اِلَیْهِ ج وَ اِلَّا تَصْرِفْ عَنِّیْ كَیْدَهُنَّ اَصْبُ اِلَیْهِنَّ وَ اَكُنْ مِّنَ الْجٰهِلِیْنَ (ترجمہ کنزالایمان):یوسف نے عرض کی: اے میرے رب! مجھے قید خانہ زیادہ پسند ہے اس کام سے جس کی طرف یہ مجھے بلاتی ہیں اور اگر تو مجھ سے ان کا مکر نہ پھیرے گا تو میں ان کی طرف مائل ہوں گا اور نادان بنوں گا۔

یہ یوسف علیہ السلام کی دعا تھی اللہ پاک نے آپ کی دعا کو قبولیت کا شرف بخشا اور عورتوں کا مکر و فریب ان سے پھیر دیا ۔فرمایا:فَاسْتَجَابَ لَهٗ رَبُّهٗ فَصَرَفَ عَنْهُ كَیْدَهُنَّ ط اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ(ترجمہ کنزالایمان):تو اس کے رب نے اس کی سن لی اور اس سے عورتوں کا مکر پھیردیا بیشک وہی ہے سنتا جانتا ۔(سورۃ یوسف آیت نمبر: 33-35)

اور بھی بہت سی صفات اور خوبیاں حضرت یوسف علیہ السلام کی قرآن مجید میں بیان کی گئ ہیں- شیخ الحدیث والتفسیر حضرت علامہ مولانا مفتی قاسم صاحب کی کتاب سیرت الانبیاء اور تفسیر صراط الجنان سے سورۃ یوسف کا مطالعہ بہت مفید ہے۔ اللہ پاک ہمیں انبیاء کرام کی سیرت کا مطالعہ کرنے، اسے سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم


انسان کی زمین پر آمد کے بعد گزرتے وقت کے ساتھ ابلیس کی کوششیں رنگ لانا شروع ہوئیں اور لوگ اس کے بہکاووں اور وسوسوں کا شکار ہو کر گناہ اور گمراہی میں مبتلا ہو گئے یہاں تک کہ خالق حقیقی، معبود برحق کی بندگی چھوڑ دی اور اپنے ہی ہاتھوں سے تراشے بتوں کو خدا کا شریک اور اپنا معبود ٹھہرا لیا۔

ان کی اصلاح کے لئے اللہ تعالیٰ نے مختلف اوقات میں مختلف قوموں کی طرف پے در پے انبیاء و مرسلین علیهم السلام کو روشن نشانیوں اور معجزات کے ساتھ بھیجا، لوگوں کی ہدایت و نصیحت کے لیے ان پیغمبروں پر کئی صحیفے اور کتابیں نازل فرمائیں ۔ ان میں سے حضرت یوسف علیہ السلام بھی ہیں اللہ عزوجل نے قرآن پاک میں ان کی صفات کا ذکر فرمایا ہے آپ بھی پڑھیے اور جھومئے

1) علم و حکمت: اللہ عزوجل قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے : وَ لَمَّا بَلَغَ اَشُدَّهٗۤ اٰتَیْنٰهُ حُكْمًا وَّ عِلْمًاؕ-وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ ترجمۂ کنز الایمان:اور جب اپنی پوری قوت کو پہنچا ہم نے اسے حکم اور علم عطا فرمایا اور ہم ایسا ہی صلہ دیتے ہیں نیکوں کو۔

بعض علماء نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اس آیت میں حکم سے درست بات اور علم سے خواب کی تعبیر مراد ہے اور بعض نے فرمایا ہے کہ چیزوں کی حقیقتوں کو جاننا علم اور علم کے مطابق عمل کرنا حکمت ہے ۔(پارہ 12 آیت 22 سورت یوسف سیرت الانبیاء صفحہ 418)

2)حضرت یوسف علیہ السلام کا خواب :ایک بار آپ علیہ السلام نے خواب دیکھا اور اپنے والد حضرت یعقوب علیہ السلام کو اس کی یوں خبر دی: اِذْ قَالَ یُوْسُفُ لِاَبِیْهِ یٰۤاَبَتِ اِنِّیْ رَاَیْتُ اَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَّ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ رَاَیْتُهُمْ لِیْ سٰجِدِیْنَترجمۂ کنز الایمان: یاد کرو جب یوسف نے اپنے با پ سے کہا اے میرے باپ میں نے گیارہ تارے اور سورج اور چاند دیکھے انہیں اپنے لیے سجدہ کرتے دیکھا ۔ (پارہ 12 آیت 4 سورت یوسف)

3)حضرت یعقوب علیہ السلام کی نصیحت:حضرت یعقوب علیہ السلام کو اپنے فرزند یوسف علیہ السلام سے بہت زیادہ محبت تھی، جس کی وجہ سے ان کےدیگر بھائی یوسف علیہ السلام کے بھائی یہ سمجھتے تھےکہ والد، یوسف سے زیادہ محبت کرتے ہیں تو اس وجہ سے ان کے دل میں کچھ بات آتی تھی اور چونکہ یہ بات حضرت یعقوب علیہ السلام جانتے تھے ، اور وہ بیان کردہ خواب سے ظاہر ہونے والی حضرت یوسف علیہ السلام کی عظمت و فضیلت بھی سمجھ گئے ، اس لئے خواب سن کر فرمایا: قَالَ یٰبُنَیَّ لَا تَقْصُصْ رُءْیَاكَ عَلٰۤى اِخْوَتِكَ فَیَكِیْدُوْا لَكَ كَیْدًاؕ-اِنَّ الشَّیْطٰنَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ ترجمۂ کنز الایمان: کہا اے میرے بچے اپنا خواب اپنے بھائیوں سے نہ کہنا کہ وہ تیرے ساتھ کوئی چال چلیں گے بیشک شیطان آدمی کا کھلا دشمن ہے۔ (پارہ 12 آیت 5 سورت یوسف سیرت الانبیاء صفحہ 420)

4)آپ علیہ السلام بے حیائی اور برائی سے محفوظ:اللہ عزوجل قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:وَ لَقَدْ هَمَّتْ بِهٖۚ-وَ هَمَّ بِهَا لَوْ لَاۤ اَنْ رَّاٰ بُرْهَانَ رَبِّهٖؕ-كَذٰلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوْٓءَ وَ الْفَحْشَآءَؕ-اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِیْنَ

ترجمۂ کنز الایمان:اور بیشک عورت نے اس کا ارادہ کیا اور وہ بھی عورت کا ارادہ کرتا اگر اپنے رب کی دلیل نہ دیکھ لیتا ہم نے یونہی کیا کہ اس سے برائی اور بے حیائی کو پھیر دیں بیشک وہ ہمارے چنے ہوئے بندوں میں ہے۔ (پارہ 12 آیت24 سورت یوسف )

5)آپ علیہ السلام قتل سے محفوظ اور کنویں میں سلامت رہے : اللہ عزوجل نے آپ علیہ السلام کو قتل ہونے سے محفوظ رکھا، کنویں سے سلامتی کے ساتھ باہر نکالا، مصر کی سر زمین میں ٹھکانہ دیا اور خوابوں کی تعبیر نکالناسکھایا۔ ارشاد باری تعالی ہے :-وَ كَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِ٘-وَ لِنُعَلِّمَهٗ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِؕ-وَ اللّٰهُ غَالِبٌ عَلٰۤى اَمْرِهٖ وَ لٰـكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ ترجمۂ کنز الایمان:اور اسی طرح ہم نے یوسف کو اس زمین میں جماؤ دیا اور اس لیے کہ اسے باتوں کا انجام سکھائیں اور اللہ اپنے کام پر غالب ہے مگر اکثر آدمی نہیں جانتے۔(پارہ 12 آیت 21 سورت یوسف)


جس طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں مختلف جگہوں پر مختلف انبیاء کرام علیہم السلام کی صفات اور ان کی قوموں کا ذکر فرمایا اسی طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت یوسف علیہ السلام کا بھی ذکر فرمایا اور ان کی صفات بیان فرمائی آئیے کچھ آیتیں مبارکہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں آپ بھی ملاحظہ فرما لیجئے۔

(1)۔ چاند اور سورج کا سجدہ کرنا: اِذْ قَالَ یُوْسُفُ لِاَبِیْهِ یٰۤاَبَتِ اِنِّیْ رَاَیْتُ اَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَّ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ رَاَیْتُهُمْ لِیْ سٰجِدِیْنَ(4) ترجمۂ کنز الایمان:یاد کرو جب یوسف نے اپنے با پ سے کہا اے میرے باپ میں نے گیارہ تارے اور سورج اور چاند دیکھے انہیں اپنے لیے سجدہ کرتے دیکھا ۔(حوالہ سورتہ یوسف آیت نمبر 4)

تفسیر : یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اپنی قوم کے سامنے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وہ بات بیان کریں جو انہوں نے اپنے باپ حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کہی کہ اے میرے باپ! میں نے گیارہ ستاروں اور سورج اور چاند کو دیکھا ، میں نے انہیں اپنے لئے سجدہ کرتے ہوئے دیکھا۔

(2)۔حضرت یوسف علیہ السلام کا خزانوں کی حفاظت کرنا۔ قَالَ اجْعَلْنِیْ عَلٰى خَزَآىٕنِ الْاَرْضِۚ-اِنِّیْ حَفِیْظٌ عَلِیْمٌ(55) ترجمۂ کنز الایمان:یوسف نے کہا مجھے زمین کے خزانوں پر کردے بیشک میں حفاظت والا علم والا ہوں ۔

( حوالہ سورتہ یوسف آیت نمبر 55)

تفسیر : حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بادشاہ سے فرمایا: اپنی سلطنت کے تمام خزانے میرے سپرد کردے، بے شک میں خزانے کی حفاظت کرنے والا اور ان کے مَصارف کو جاننے والا ہوں ۔ بادشاہ نے کہا آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے زیادہ اس کا مستحق اور کون ہوسکتا ہے ؟ چنانچہ بادشاہ نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اس مطالبے کو منظور کرلیا۔

(3)۔ اللہ پاک کا آپ علیہ السلام کو ملک پر قدرت بخشنا:كَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِۚ-یَتَبَوَّاُ مِنْهَا حَیْثُ یَشَآءُؕ-نُصِیْبُ بِرَحْمَتِنَا مَنْ نَّشَآءُ وَ لَا نُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ(56)

ترجمۂ کنز الایمان:اور یونہی ہم نے یوسف کو اس ملک پر قدرت بخشی اس میں جہاں چاہے رہے ہم اپنی رحمت جسے چاہیں پہنچائیں اور ہم نیکوں کا نیگ ضائع نہیں کرتے۔( حوالہ سورتہ یوسف آیت نمبر 56)

تفسیر : یعنی جس طرح ہم نے اندھیرے کنویں سے نجات دے کر، قید خانے سے رہائی عطا فرما کر اور بادشاہ کی نگاہوں میں معزز بنا کر حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر انعام فرمایا اسی طرح ہم نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کومصر کی سر زمین میں اقتدار عطا فرمایا اور سب کچھ اُن کے تحت ِتَصَرُّف ہے ۔

(4)۔ حضرت یوسف علیہ السلام کی قمیض سے جنت کی خوشبو:وَ لَمَّا فَصَلَتِ الْعِیْرُ قَالَ اَبُوْهُمْ اِنِّیْ لَاَجِدُ رِیْحَ یُوْسُفَ لَوْ لَاۤ اَنْ تُفَنِّدُوْنِ(94)ترجمہ کنزالایمان:جب قافلہ مصر سے جدا ہوا یہاں ان کے باپ نے کہا بے شک میں یوسف کی خوشبو پا تا ہوں اگر مجھے یہ نہ کہو کہ سٹھ گیا ۔ ( حوالہ سورتہ یوسف آیت نمبر 94)

تفسیر: یعنی جب قافلہ مصر کی سرزمین سے نکلا اور کنعان کی طرف روانہ ہوا تو حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے بیٹوں اور پوتوں یا پوتوں اور پاس والوں سے فرما دیا ’’بیشک میں یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قمیص سے جنت کی خوشبو پا رہا ہوں ۔ اگر تم مجھے کم سمجھ نہ کہو تو تم ضرور میری بات کی تصدیق کرو گے۔

(5)۔ حضرت یوسف علیہ السلام کا اپنے بھائیوں سے ملنا:قَالُـوْۤا ءَاِنَّكَ لَاَنْتَ یُوْسُفُؕ-قَالَ اَنَا یُوْسُفُ وَ هٰذَاۤ اَخِیْ٘-قَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَیْنَاؕ-اِنَّهٗ مَنْ یَّتَّقِ وَ یَصْبِرْ فَاِنَّ اللّٰهَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ(90) ترجمہ کنزالایمان: بولے کیا سچ مچ آپ ہی یوسف ہیں کہا میں یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی بے شک اللہ نے ہم پر احسان کیا بے شک جو پرہیزگاری اور صبر کرے تو اللہ نیکوں کا نیگ ضائع نہیں کرتا۔( حوالہ سورتہ یوسف آیت نمبر 90)

تفسیر: حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بھائیوں نے کہا ’’کیا واقعی آپ ہی یوسف ہیں ؟ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا ’’ہاں ، میں یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی ہے ،بیشک اللہ تعالیٰ نے ہم پر احسان کیا ، ہمیں جدائی کے بعد سلامتی کے ساتھ ملایا اور دین و دنیا کی نعمتوں سے سرفراز فرمایا۔ بے شک جو گناہوں سے بچے اور اللہ تعالیٰ کے فرائض کی بجا آوری کرے، اپنے نفس کو ہر ا س بات یا عمل سے روک کر رکھے جسے اللہ تعالیٰ نے اس پر حرام فرمایا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی نیکیوں کا ثواب اورا س کی اطاعت گزاریوں کی جزا ضائع نہیں کرتا۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ جو کچھ پڑھا اس پر عمل کرنے اور انبیاء علیہم السلام جیسی صفات اپنانے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم

آپ کا نام مبارک یوسف ہے اور یہ عجمی زبان کا لفظ ہے آپ علیہ السلام حسب و نسب دونوں میں بہت اعلیٰ ہیں اور انکی تین پشتوں میں نبوت ہے کہ آپ کے والد ،دادا اور پردادا تینوں منصب نبوت پر سرفراز تھے ۔

جوانی میں یوسف علیہ السلام کو عطائے علم و حکمت: جب حضرت یوسف علیہ السلام اپنی جوانی کی پوری قوت کو پہنچے اور شباب اپنی انتہاء پر آیا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں نبوت اور دین میں فقاہت عطاء فرمائی جیسا کہ قرآن مجید میں ہے وَ لَمَّا بَلَغَ اَشُدَّهٗۤ اٰتَیْنٰهُ حُكْمًا وَّ عِلْمًاؕ-وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ ترجمہ کنزالایمان:اور جب اپنی پوری قوت کو پہنچا ہم نے اسے حکم اور علم عطا فرمایا اور ہم ایسا ہی صلہ دیتے ہیں نیکوں کو۔(خازن،یوسف،تحت الآیۃ:22٫3/11،12)

حضرت یوسف علیہ السلام پر احسان الٰہی :اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام پر بہت سے احسان فرمائے جن میں سے چند ایک یہ ہیں آپ علیہ السلام کو قتل ہونے سے محفوظ رکھا،کنویں سے سلامتی کے ساتھ باہر نکالا،مصر کی سرزمین میں ٹھکانہ دیا،اور خوابوں کی تعبیر نکالنا سکھایا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے وَ كَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِ٘-وَ لِنُعَلِّمَهٗ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِؕ-وَ اللّٰهُ غَالِبٌ عَلٰۤى اَمْرِهٖ وَ لٰـكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ ترجمہ کنزالایمان: اور اسی طرح ہم نے یوسف کو اس زمین میں جماؤ دیا اور اس لیے کہ اسے باتوں کا انجام سکھائیں اور اللہ اپنے کام پر غالب ہے مگر اکثر آدمی نہیں جانتے۔(پارہ،12:سورت یوسف: آیت ،21)

آپ علیہ السلام کو چنے ہوئے بندوں میں شمار کرنا :اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو اپنے چنے ہوئے بندوں میں شمار فرمایا جیسا کہ قرآن مجید میں ہے: اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِیْنَ ترجمہ کنزالایمان: بیشک وہ ہمارے چنے ہوئے بندوں میں ہے۔(پارہ ،12سورت یوسف،آیت24)

مصر کی سرزمین کا اقتدار : اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو قید سے رہائی عطاء فرمائی ،بادشاہ کی نگاہوں میں معزز بنایا،مصر کی سرزمین میں اقتدار عطاء فرما کر سب کچھ آپ کے تحت تصرف کردیااور آپ کےلیے آخرت میں بہت زیادہ فضل اور اعلی ثواب رکھا ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَ كَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِۚ-یَتَبَوَّاُ مِنْهَا حَیْثُ یَشَآءُؕ-نُصِیْبُ بِرَحْمَتِنَا مَنْ نَّشَآءُ وَ لَا نُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ(56)وَ لَاَجْرُ الْاٰخِرَةِ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ كَانُوْا یَتَّقُوْنَ ترجمہ کنزالایمان:اور یونہی ہم نے یوسف کو اس ملک پر قدرت بخشی اس میں جہاں چاہے رہے ہم اپنی رحمت جسے چاہیں پہنچائیں اور ہم نیکوں کا نیگ ضائع نہیں کرتے۔اوربے شک آخرت کا ثواب ان کے لیے بہتر جو ایمان لائے اور پرہیزگار رہے۔ (پارہ ،13سورت یوسف،آیت57,56)

حضرت یوسف علیہ السلام کی پاکدامنی کا بیان :حضرت یوسف علیہ السلام انتہائی پاکدامن تھےاور آپ کی پاکدامنی اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بھی بیان فرمائی ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ لَقَدْ هَمَّتْ بِهٖۚ-وَ هَمَّ بِهَا لَوْ لَاۤ اَنْ رَّاٰ بُرْهَانَ رَبِّهٖؕ-كَذٰلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوْٓءَ وَ الْفَحْشَآءَؕ ترجمہ کنزالایمان:اور بیشک عورت نے اس کا ارادہ کیا اور وہ بھی عورت کا ارادہ کرتا اگر اپنے رب کی دلیل نہ دیکھ لیتا ہم نے یونہی کیا کہ اس سے برائی اور بے حیائی کو پھیر دیں ۔ (پارہ ،12سورت یوسف،آیت24)

یوسف علیہ السلام سچا ثابت ہونا :جب عزیز مصر نے حضرت یوسف علیہ السلام کا کرتا پیچھے سے پھٹا ہوا دیکھا تو جان لیا کہ حضرت یوسف علیہ السلام سچے ہیں اور زلیخا جھوٹی ہے قرآن مجید میں ہے:فَلَمَّا رَاٰ قَمِیْصَهٗ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ قَالَ اِنَّهٗ مِنْ كَیْدِكُنَّؕ-اِنَّ كَیْدَكُنَّ عَظِیْمٌ ترجمہ کنزالایمان: پھر جب عزیز نے اس کاکرتا پیچھے سے چرا دیکھا بولا بیشک یہ تم عورتوں کا چرتر ہے بیشک تمہارا چرتر بڑا ہے۔ (پارہ ،12،سورت یوسف،آیت،28)

اللہ کریم ہمیں انبیاء کرام علیہم السلام کے فیضان سے بہرہ ور فرمائے آمین ثم آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم


پیارے اسلامی بھائیو اللہ تبارک و تعالی نے اس دنیا کا نظام چلانے کے لیے اور روح انسانی کی ہدایت کے لیے اپنے مخصوص بندوں کا انتخاب فرمایا : جنہیں ہماری اصطلاح میں انبیاء و رسل کہا جاتا ہے انہی اللہ تبارک و تعالی کے خاص اشخاص میں سے ایک ہستی جنہیں حضرت یوسف علیہ السلام کے نام سے جانا جاتا ہے۔ آئیے ان کے حوالے سے جانتے ہیں :

حضرت یوسف علیہ السلام آپ اللہ تبارک و تعالی کے بہت ہی پیارے نبی ہیں آپ کے والد محترم کا نام حضرت یعقوب علیہ السلام ہیں وہ بھی اللہ کے نبی ہیں بلکہ آپ کے دادا بھی نبی ہیں اور پردادا بھی نبی ہیں اللہ تبارک و تعالی نے حضرت یوسف علیہ السلام کو بڑی ہی نعمتوں سے نوازا ان میں سے ایک بڑی نعمت یہ بھی ہے کہ اللہ تبارک و تعالی نے آپ کو بہت ہی خوبصورت بنایا انتہا کو پہنچا ہوا خوبصورت بنایا آپ علیہ السلام کی مبارک زندگی کے کئی اہم واقعات ملتے ہیں ۔ بلکہ قرآن پاک میں آپ کے نام کی ایک پوری سورت ہے جس کا نام بھی سورہ یوسف. ہے اس کے علاوہ اور بھی چند سورتوں میں آپ کا تذکرہ ملتا ہے

آئیے آپ علیہ السلام کے قرآنی صفات جانتے ہیں :آپ علیہ السلام کا تفصیلی تذکرہ تو سورہ یوسف میں ملتا ہے اور اجمالی تذکرہ سورہ انعام آیت نمبر 84 اور سورہ مومن آیت نمبر 34 میں ملتا ہے ۔

مختصر تعارف: آپ علیہ السلام کا مبارک نام یوسف ہے اور یہ عجمی زبان کا ایک لفظ ہے آپ علیہ السلام کا نسب نامہ یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم علیہم السلام ہے آپ حسب و نسب دونوں میں بہت اعلی ہیں یعنی خود بھی نبی ہیں اور تین پشتوں میں نبوت ہے جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا والد دادا پردادا تینوں نبوت پر سرفراز تھے ۔ بلکہ آقا دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم حضرت یوسف علیہ السلام کے حوالے سے فرمایا کرتے تھے کہ لوگوں میں بڑے شرف والے حضرت یوسف علیہ السلام ہیں کہ خود اللہ تبارک و تعالی کے نبی اور نبي الله کے بیٹے اور وہ نبي الله کے بیٹے اور وہ خلیل اللہ کے بیٹے ہیں سبحان اللہ

آئیے حضرت یوسف علیہ السلام کی قرآنی صفات جانتے ہیں اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے پارہ 13 سورہ یوسف آیت نمبر 56 اور 57 میں ۔ وَ كَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِۚ-یَتَبَوَّاُ مِنْهَا حَیْثُ یَشَآءُؕ-نُصِیْبُ بِرَحْمَتِنَا مَنْ نَّشَآءُ وَ لَا نُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ(56) ترجمۂ کنز الایمان: اور یونہی ہم نے یوسف کو اس ملک پر قدرت بخشی اس میں جہاں چاہے رہے ہم اپنی رحمت جسے چاہیں پہنچائیں اور ہم نیکوں کا نیگ ضائع نہیں کرتے۔

اس کی تفسیر میں ملتا ہے:حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بلا کر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تاج پوشی کی، تلوار اور مُہرآپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سامنے پیش کی، آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جواہرات لگے ہوئے سونے کے تخت پر تخت نشین کیا، اپنا ملک آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سپرد کیا۔(خازن، یوسف، تحت الآیۃ: 56، 3 / 28، روح البیان، یوسف، تحت الآیۃ: 56، 4 / 283-284، ملتقطاً)

ایک اور مقام پر اللہ تبارک و تعالی قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: پارہ 12 سورہ یوسف آیت نمبر 6۔ وَ كَذٰلِكَ یَجْتَبِیْكَ رَبُّكَ وَ یُعَلِّمُكَ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِ وَ یُتِمُّ نِعْمَتَهٗ عَلَیْكَ وَ عَلٰۤى اٰلِ یَعْقُوْبَ كَمَاۤ اَتَمَّهَا عَلٰۤى اَبَوَیْكَ مِنْ قَبْلُ اِبْرٰهِیْمَ وَ اِسْحٰقَؕ-اِنَّ رَبَّكَ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ(6) ترجمۂ کنز الایمان:اور اسی طرح تجھے تیرا رب چن لے گا اور تجھے باتوں کا انجام نکا لنا سکھائے گا اور تجھ پر اپنی نعمت پوری کرے گا اور یعقوب کے گھر والوں پر جس طرح تیرے پہلے دونوں باپ دادا ابراہیم اور اسحق پر پوری کی بیشک تیرا رب علم و حکمت والا ہے۔

اور پیارے اسلامی بھائیو اسی طرح اللہ تبارک و تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے پارہ 12 سورہ یوسف آیت نمبر 21

وَ قَالَ الَّذِی اشْتَرٰىهُ مِنْ مِّصْرَ لِامْرَاَتِهٖۤ اَكْرِمِیْ مَثْوٰىهُ عَسٰۤى اَنْ یَّنْفَعَنَاۤ اَوْ نَتَّخِذَهٗ وَلَدًاؕ-وَ كَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِ٘-وَ لِنُعَلِّمَهٗ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِؕ-وَ اللّٰهُ غَالِبٌ عَلٰۤى اَمْرِهٖ وَ لٰـكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ(21) ترجمۂ کنز الایمان :اور مصر کے جس شخص نے اسے خریدا وہ اپنی عورت سے بولا انہیں عزت سے رکھ شاید ان سے ہمیں نفع پہنچے یا ان کو ہم بیٹا بنالیں اور اسی طرح ہم نے یوسف کو اس زمین میں جماؤ دیا اور اس لیے کہ اسے باتوں کا انجام سکھائیں اور اللہ اپنے کام پر غالب ہے مگر اکثر آدمی نہیں جانتے۔

اور بھی کثیر مقامات پر آپ کا ذکر خیر ملتا ہے حدیث مبارکہ میں بھی حضرت یوسف علیہ السلام کا ذکر خیر ملتا ہے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ آقا دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا حضرت یوسف علیہ السلام کو خوبصورتی کا ایک حصہ دیا گیا (مسند امام احمد ۔مسند انس بن مالک 4/ 570, حدیث: 14052)

اور اسی طرح ایک اور حدیث مبارکہ میں آپ کا ذکر خیر ملتا ہے

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا لوگوں میں کون زیادہ عزت والا ہے فرمایا جو تم میں بڑا پرہیزگار ہے عرض کی ہم اس کے بارے نہیں پوچھ رہے ارشاد فرمایا لوگوں میں بڑے معزز یوسف علیہ السلام ہے اور اس کی وجہ بیان فرمائی کہ یہ خود بھی نبی ہیں باپ بھی نبی دادا بھی نبی پردادا بھی نبی ہیں

(بخاری کتاب احادیث الانبیاء٫ حدیث: 3353٫ ،3347)

اللہ تبارک و تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے پیارے دین کی صحیح معنوں میں سمجھ عطا فرمائے اپنے انبیاء کرام علیہم السلام کے صحیح صحیح اوصاف پڑھ کر آگے پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے آمین


نام مبارک :آپ عَلَیْہِ السّلَام کا نام مبارک " یوسف " ہے اور یہ عجمی زبان کا ایک لفظ ہے

نسب نامہ : آپ عَلَیْہِ السّلَام کا نسب نامہ یہ ہے : یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم عَلَیْھِمُ السّلَام آپ عَلَیْہِ السّلَام حسب و نسب دونوں میں اعلیٰ ہیں کہ خود بھی نبی ہیں اور تین پشتوں میں نبوت ہے کہ والد، دادا اور پردادا تینوں منصبِ نبوت پر سرفراز تھے نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : لوگوں میں بڑے شرف والے صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّم ہیں کہ خود اللہ تعالیٰ کے نبی اور نبیُ اللہ کے بیٹے اور وہ نبیُ اللہ کے بیٹے اور وہ خلیلُ اللہ کے بیٹے ہیں ( بخاری، کتاب احادیث الانبیإ، باب قول اللہ تعالیٰ : واتخذ اللہ ابراہیم خلیلا، ج2/ص421 حدیث 3353، ملخصاً )

حسن یوسف : آپ عَلَیْہِ السّلَام انتہائی حسین و جمیل تھے حدیث پاک ہے نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا معراج کی رات میں نے تیسرے آسمان میں حضرت یوسف کو دیکھا تو وہ ایسے تھے جن کے حسن نے مجھے تعجب میں ڈال دیا وہ نوجوان اور اپنے حسن کے سبب لوگوں پر فضیلت رکھنے والے تھے ( مستدرک حاکم، کتاب تواریخ المقدمین من الانبیإ والمرسلین ، ذکر یوسف بن یعقوب علیھما السلام، ج3/ص452 حدیث 4141 )

جوانی میں میں عطائے علم و حکمت : جب حضرت یوسف عَلَیْہِ السّلَام اپنی جوانی کی پوری قوت کو پہنچے اور شباب اپنی انتہا پر آیا تو اللہ نے انہیں نبوت اور دین میں فقاہت عطا فرمائی اس وقت عمر مبارک امام ضحاک رَضِیَ اللہ عَنْہ کے قول کے مطابق بیس سال،سدی کے قول کے مطابق تیس سال اور کلبی کے قول کے مطابق اٹھارہ اور تیس کے درمیان تھی

( خازن، یوسف، تحت الاٰیة: 22، ج3/ ص11 تا 12، ملتقطاً )

قرآن مجید میں ہے : وَ لَمَّا بَلَغَ اَشُدَّهٗۤ اٰتَیْنٰهُ حُكْمًا وَّ عِلْمًاؕ-وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ ترجمہ کنزالایمان : اور جب اپنی پوری قوت کو پہنچا ہم نے اسے حکم اور علم عطا فرمایا اور ہم ایسا ہی صلہ دیتے ہیں نیکوں کو۔( پارہ 12 سورۃ یوسف آیت 22 )

بعض علمإ نے یہ بھی فرمایا کہ اس آیت میں حکم سے درست بات اور علم سے خواب کی تعبیر مراد ہے اور بعض نے فرمایا ہے کہ چیزوں کی حقیقتوں کو جاننا علم اور علم کے مطابق عمل کرنا حکمت ہے ۔( خازن، یوسف،تحت الاٰیة: 22، ج3 / ص12 )

آپ عَلَیْہِ السّلَام پر احسانِ الہی : اللہ تعالیٰ نے آپ عَلَیْہِ السّلَام پر بہت سے احسان و انعام فرماٸے جن میں سے 4 یہ ہیں آپ عَلَیْہِ السّلَام کو قتل ہونے سے محفوظ رکھا، کنویں سے سلامتی کے ساتھ باہر نکالا، مصر کی سر زمين میں ٹھکانہ دیا اور خوابوں کی تعبیر نکالنا سکھایا ادشاد باری تعالیٰ ہے : وَ كَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِ٘-وَ لِنُعَلِّمَهٗ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِؕ-وَ اللّٰهُ غَالِبٌ عَلٰۤى اَمْرِهٖ وَ لٰـكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ ترجمہ کنزالایمان: اسی طرح ہم نے یوسف کو اس زمین میں جماؤ دیا اور اس لیے کہ اسے باتوں کا انجام سکھائیں اور اللہ اپنے کام پر غالب ہے مگر اکثر آدمی نہیں جانتے۔ ( پارہ 12 سورة یوسف آیت 21 )

اللہ کریم ہمیں انبیائے کرام کے فیضان سے بہرہ ور فرمائے آمین بجاہ النبی امین صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّم

 اللہ پاک نے انسانوں کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے وقتاً فوقتاً بہت سے نبیوں اور رسولوں کو معبوث فرمایا انبیاء کرام کا یہ سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوا اور اللہ پاک کے آخری نبی محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوا. ان ہی انبیاء کرام میں سے ایک نبی حضرت یوسف علیہ السلام ہیں.آپ علیہ السلام کا نام مبارک یوسف ہے اور یہ ایک عجمی زبان کا ایک لفظ ہے.

آپ علیہ السلام حضرت یعقوب علیہ السلام کے فرزند، حضرت اسحاق علیہ السلام کے پوتے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پڑپوتے تھے، چنانچہ حضرت یوسف علیہ السلام کا نسب نامہ یہ ہے کہ: یوسف علیہ السلام بن یعقوب علیہ السلام بن اسحاق علیہ السلام بن ابراہیم علیہ السلام. آپ علیہ السلام حسب و نسب دونوں میں بہت اعلیٰ ہیں کہ خود بھی نبی ہیں اور ان کی تین پشتوں میں نبوت ہے کہ والد، دادا اور پردادا تینوں منصبِ نبوت پر سرفراز تھے.

حضرت یوسف علیہ السلام انتہائی حسین و جمیل تھے. حضرت یوسف علیہ السلام کی حیات مبارکہ کے اہم واقعات قرآن مجید کی ایک مکمل سورت میں تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں اور اسی مناسبت سے اس سورت کا نام سورۃ یوسف رکھا گیا ہے. ۔ اللہ پاک نے آپ علیہ السلام پر بہت سے احسان و انعام فرمائے جن میں سے چند یہ ہیں:

1 تا 4): آپ علیہ السلام کو قتل ہونے سے محفوظ رکھا، کنویں سے سلامتی کے ساتھ باہر نکالا، مصر کی سر زمین میں ٹھکانہ دیا اور خوابوں کی تعبیر نکالنا سکھایا. اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتے ہیں: وَ كَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِ٘-وَ لِنُعَلِّمَهٗ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِؕ-وَ اللّٰهُ غَالِبٌ عَلٰۤى اَمْرِهٖ وَ لٰـكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ ترجمۂ کنز العرفان: اور اسی طرح ہم نے یوسف کو زمین میں ٹھکانا دیا اور تاکہ ہم اسے باتوں کا انجام سکھائیں اور اللہ اپنے کام پر غالب ہے مگر اکثر آدمی نہیں جانتے۔ (سورۃ یوسف آیت نمبر 21)۔

5،6): آپ علیہ السلام کو برائی اور بے حیائی سے محفوظ رکھا اور اپنے چنے ہوئے بندوں میں شمار فرمایا. چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ لَقَدْ هَمَّتْ بِهٖۚ-وَ هَمَّ بِهَا لَوْ لَاۤ اَنْ رَّاٰ بُرْهَانَ رَبِّهٖؕ-كَذٰلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوْٓءَ وَ الْفَحْشَآءَؕ-اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِیْن ترجمہ کنزالایمان: اور بیشک عورت نے اس کا ارادہ کیا اور وہ بھی عورت کا ارادہ کرتا اگر اپنے رب کی دلیل نہ دیکھ لیتا ہم نے یونہی کیا کہ اس سے برائی اور بے حیائی کو پھیر دیں بیشک وہ ہمارے چنے ہوئے بندوں میں ہے۔ ( سورۃ یوسف آیت نمبر 24).

اس آیت کے تحت تفسیر صراط الجنان میں کہ: یعنی زلیخا نے حضرت یوسف علیہ السلام سے برائی کا ارادہ کیا اور اگر حضرت یوسف علیہ السلام اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی دلیل نہ دیکھ لیتے تو انسانی فطرت کے تقاضے کے مطابق وہ بھی عورت کی طرف مائل ہو جاتے لیکن حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے رب تعالیٰ کی دلیل دیکھی اور اس فاسد ارادے سے محفوظ رہے اور وہ دلیل وبُرہان عِصْمت ِنبوت ہے، اللہ تعالیٰ نے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاکیزہ نُفوس کو برے اَخلاق اور گندے اَفعال سے پاک پیدا کیا ہے اور پاکیزہ، مُقَدّس اور شرافت والے اَخلاق پر ان کی پیدائش فرمائی ہے، اس لئے وہ ہر ایسے کام سے باز رہتے ہیں جس کا کرنا منع ہو۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ جس وقت زلیخا حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے درپے ہوئی اس وقت آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے والد ماجد حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دیکھا کہ انگشت ِمبارک دندانِ اَقدس کے نیچے دبا کر اِجتناب کا اشارہ فرماتے ہیں۔

یاد رہے کہ ان آیات میں ذکر کئے گئے واقعے سے متعلق بحث کرنے سے بچنا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے کیونکہ معاملہ اللہ تعالیٰ کے پیارے نبی کی عصمت کا ہے اور بحث کرنا کہیں ایمان کی بربادی کا سبب نہ بن جائے.

یعنی جس طرح ہم نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دلیل دکھائی اسی طرح ہم اس سے ہر برائی اور بے حیائی کو پھیر دیں گے اور بیشک حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہمارے ان بندوں میں سے ہے جنہیں ہم نے نبوت کے لئے منتخب فرما لیا ہے اور دوسرے لوگوں پر انہیں اختیار کیا ہے. (تفسیر صراط الجنان، سورۃ یوسف، آیت نمبر 24).

7 تا 10): قید خانے سے رہائی عطا فرمائی، بادشاہ کی نگاہوں میں معزز بنایا، مصر کی سر زمین میں اقتدار عطا فرماکر سب کچھ ان کے تحت تصرف کردیا.

چنانچہ اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: وَ كَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِۚ-یَتَبَوَّاُ مِنْهَا حَیْثُ یَشَآءُؕ-نُصِیْبُ بِرَحْمَتِنَا مَنْ نَّشَآءُ وَ لَا نُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ ترجمہ کنزالایمان: اور یونہی ہم نے یوسف کو اس ملک پر قدرت بخشی اس میں جہاں چاہے رہے ہم اپنی رحمت جسے چاہیں پہنچائیں اور ہم نیکوں کا نیگ ضائع نہیں کرتے. ( سورۃ یوسف آیت نمبر 56).

11):آپ علیہ السلام کے لیے آخرت میں بہت افضل و اعلیٰ ثواب رکھا. ا رشاد باری تعالیٰ ہے: وَ لَاَجْرُ الْاٰخِرَةِ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ كَانُوْا یَتَّقُوْنَ ترجمہ کنزالایمان: اور بے شک آخرت کا ثواب ان کے لیے بہتر جو ایمان لائے اور پرہیزگار رہے. ( سورۃ یوسف آیت نمبر 57)۔

اس آیت کے تحت تفسیر صراط الجنان میں کہ: آخرت کا اجر و ثواب ان کے لئے دنیا کے اجر سے بہتر ہے جو ایمان لائے اور پرہیز گار رہے۔ اس آیت سے ثابت ہوا کہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لئے آخرت کا اجر وثواب اس سے بہت زیادہ افضل و اعلیٰ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اُنہیں دُنیا میں عطا فرمایا.

انبیاء کرام علیھم السلام کی زندگیاں ہمارے کے لیے بہترین عملی نمونہ ہیں ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے بچوں کو انبیاء کرام کی سیرت کے بارے میں بتاۓ تاکہ ان کے دلوں میں ان کی محبت پیدا ہو اور ہمارے بچے ان سے محبت کرتے ہوۓ ان کی سنتوں پر عمل کرۓ۔ انبیاء کرام کی سیرت کے مطالعہ کے لیے مفتی محمد قاسم عطاری کی کتاب سیرت الانبیاء انتہاہی مفید ہے۔

دعا ہے اللہ پاک ہمیں انبیاء کرام کی سیرت کو پڑھنے اور پڑھ کر اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم 


حضرت یوسف علیہ السّلام حضرت یعقوب علیہ کے فرزند، حضرت اسحاق علیہ السّلام کے پوتے اور حضرت ابراھیم علیہ السّلام کے پڑپوتے ہیں۔ آپ علیہ السّلام کا مبارک نام"یوسف"عجمی زبان کا لفظ ہے۔آیئے!حضرت یوسف علیہ السّلام کی قرآن کریم میں مزکور 5 صفات پڑھتے ہیں

1_آپ علیہ السّلام کو علم و حکمت عطا ہونا: الله پاک نے حضرت یوسف علیہ السّلام کو عین عہدِ شباب میں علم و حکمت عطا فرمائ۔ ارشاد باری تعالی ہے:[وَ لَمَّا بَلَغَ اَشُدَّهٗۤ اٰتَیْنٰهُ حُكْمًا وَّ عِلْمًاؕ-وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ](22) ترجمۂ کنزالعرفان:اور جب یوسف بھر پور جوانی کی عمر کو پہنچے تو ہم نے اسے حکمت اور علم عطا فرمایا اور ہم نیکوں کو ایسا ہی صلہ دیتے ہیں۔[پ12،یُوسُف22]

2_اعلانِ براءَت اور بچے کی گواہی: آپ علیہ السّلام نے اپنی براءَت بیان کی اور چار ماہ کے بچے نے اس پر گواہی دی۔ ارشادِ حق تعالی ہے:قَالَ هِیَ رَاوَدَتْنِیْ عَنْ نَّفْسِیْ وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِّنْ اَهْلِهَاۚ-اِنْ كَانَ قَمِیْصُهٗ قُدَّ مِنْ قُبُلٍ فَصَدَقَتْ وَ هُوَ مِنَ الْكٰذِبِیْنَ(26)وَ اِنْ كَانَ قَمِیْصُهٗ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ فَكَذَبَتْ وَ هُوَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ(27)ترجمۂ کنزالعرفان:یوسف نے فرمایا: اسی نے میرے دل کو پھسلانے کی کوشش کی ہےاور عورت کے گھر والوں میں سے ایک گواہ نے گواہی دی کہ اگر ان کا کرتا آگے سے پھٹا ہوا ہو پھر تو عورت سچی ہے اور یہ سچے نہیں۔اور اگر ان کا کر تا پیچھے سے چاک ہوا ہے تو عورت جھوٹی ہے اور یہ سچے ہیں.[پ12،یُوسُف26-27]

3_قیدیوں کے خواب کی تعبیر:اللّٰه پاک نے آپ علیہ السّلام کو خوابوں کی تعبیر کا علم بھی عطا فرمایا تھا آپ علیہ السّلام نے دو قیدیوں کے خوابوں کی برحق تعبیر بیان فرمائ۔ ارشادِ ربّ ذوالجلال ہے:یٰصَاحِبَیِ السِّجْنِ اَمَّاۤ اَحَدُكُمَا فَیَسْقِیْ رَبَّهٗ خَمْرًاۚ-وَ اَمَّا الْاٰخَرُ فَیُصْلَبُ فَتَاْكُلُ الطَّیْرُ مِنْ رَّاْسِهٖؕ-قُضِیَ الْاَمْرُ الَّذِیْ فِیْهِ تَسْتَفْتِیٰنِ(41) ترجمۂ کنز العرفان:اے قید خانے کے دونوں ساتھیو! تم میں ایک تو اپنے بادشاہ کو شراب پلائے گا اور جہاں تک دوسرے کا تعلق ہے تو اسے سولی دی جائے گی پھر پرندے اس کا سر کھالیں گے ۔ اس کام کا فیصلہ ہوچکا ہے جس کے بارے میں تم نے پوچھا تھا۔[پ12،یُوسُف41]

4_عاجزی و انکساری:حضرت یوسف علیہ السّلام نے اپنے بے گناہ ہونے کو بیان کیا اور خود پسندی سے بچتے ہوۓ اس کمال کو اللّٰه پاک کی مہربانی قرار دیا چنانچہ اللّٰه پاک کا فرمان ہے: وَمَاۤ اُبَرِّئُ نَفْسِیْۚ-اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَةٌۢ بِالسُّوْٓءِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیْؕ-اِنَّ رَبِّیْ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(53) ترجمۂ کنز العرفان:اور میں اپنے نفس کو بے قصور نہیں بتاتابیشک نفس تو بُرائی کا بڑا حکم دینے والا ہے مگر جس پر میرا رب رحم کرے بیشک میرا رب بخشنے والا مہربان ہے۔ [پ12،یُوسُف53]

5_بادشاہ کی طرف یوسف علیہ السّلام کی تعظیم:جب بادشاہ کو حضرت یوسف علیہ السّلام کے علم و دیانت کا حال معلوم ہوا اور اسے آپ علیہ السّلام کے حسنِ صبر، حُسنِ ادب کا پتا چلا اس نے آپ علیہ السّلام کی بڑی تعظیم کی جیسا کہ قرآن پاک میں مذکور ہے: وَقَالَ الْمَلِكُ ائْتُوْنِیْ بِهٖۤ اَسْتَخْلِصْهُ لِنَفْسِیْۚ-فَلَمَّا كَلَّمَهٗ قَالَ اِنَّكَ الْیَوْمَ لَدَیْنَا مَكِیْنٌ اَمِیْنٌ(54) ترجمۂ کنز العرفان:اور بادشاہ نے کہا: انہیں میرے پاس لے آؤ تاکہ میں انہیں اپنے لیے منتخب کرلوں پھر جب بادشاہ نے یوسف سے بات کی تو کہا۔ بیشک آج آپ ہمارے یہاں معزز،امانتدارہیں۔ [پ12، یُوسُف54]

اللّٰه پاک ہمیں انبیاء کرام علیھم السّلام کے مبارک احوالِ زندگی پڑھنے اور ان کی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النّبیّینﷺ


اللہ پاک نے قرآن پاک میں مختلف انبیاء کرام علیہم السلام کی صفات اور ان کی قوموں کا ذکر فرمایا اسی طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت یوسف علیہ السلام کا بھی ذکر فرمایا اور ان کی صفات بھی بیان فرمائی اللہ پاک حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے

(1)۔حضرت یوسف علیہ السلام کی خزانوں پر حکومت :قَالَ اجْعَلْنِیْ عَلٰى خَزَآىٕنِ الْاَرْضِۚ-اِنِّیْ حَفِیْظٌ عَلِیْمٌ(55) ترجمۂ کنز الایمان: یوسف نے کہا مجھے زمین کے خزانوں پر کردے بیشک میں حفاظت والا علم والا ہوں ۔

تفسیر : حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بادشاہ سے فرمایا: اپنی سلطنت کے تمام خزانے میرے سپرد کردے، بے شک میں خزانے کی حفاظت کرنے والا اور ان کے مَصارف کو جاننے والا ہوں ۔ بادشاہ نے کہا آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے زیادہ اس کا مستحق اور کون ہوسکتا ہے ؟ چنانچہ بادشاہ نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اس مطالبے کو منظور کرلیا۔ ( حوالہ سورۃ یوسف، آیت نمبر 55)

(2)۔ قمیص یوسف کی خوشبو کا تذکرہ:وَ لَمَّا فَصَلَتِ الْعِیْرُ قَالَ اَبُوْهُمْ اِنِّیْ لَاَجِدُ رِیْحَ یُوْسُفَ لَوْ لَاۤ اَنْ تُفَنِّدُوْنِ(94)ترجمہ کنزالایمان :جب قافلہ مصر سے جدا ہوا یہاں ان کے باپ نے کہا بے شک میں یوسف کی خوشبو پا تا ہوں اگر مجھے یہ نہ کہو کہ سٹھ گیا ۔

تفسیر: یعنی جب قافلہ مصر کی سرزمین سے نکلا اور کنعان کی طرف روانہ ہوا تو حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے بیٹوں اور پوتوں یا پوتوں اور پاس والوں سے فرما دیا ’’بیشک میں یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قمیص سے جنت کی خوشبو پا رہا ہوں ۔ اگر تم مجھے کم سمجھ نہ کہو تو تم ضرور میری بات کی تصدیق کرو گے۔( حوالہ ؛سورۃ یوسف، آیت نمبر 94)

(3)۔ حضرت یوسف علیہ السلام کا اپنے بھائی سے ملنا:قَالُـوْۤا ءَاِنَّكَ لَاَنْتَ یُوْسُفُؕ-قَالَ اَنَا یُوْسُفُ وَ هٰذَاۤ اَخِیْ٘-قَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَیْنَاؕ-اِنَّهٗ مَنْ یَّتَّقِ وَ یَصْبِرْ فَاِنَّ اللّٰهَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ(90) ترجمہ کنزالایمان: بولے کیا سچ مچ آپ ہی یوسف ہیں کہا میں یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی بے شک اللہ نے ہم پر احسان کیا بے شک جو پرہیزگاری اور صبر کرے تو اللہ نیکوں کی نیکی ضائع نہیں کرتا۔

تفسیر: حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بھائیوں نے کہا ’’کیا واقعی آپ ہی یوسف ہیں ؟ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا ’’ہاں ، میں یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی ہے ،بیشک اللہ تعالیٰ نے ہم پر احسان کیا ، ہمیں جدائی کے بعد سلامتی کے ساتھ ملایا اور دین و دنیا کی نعمتوں سے سرفراز فرمایا۔ بے شک جو گناہوں سے بچے اور اللہ تعالیٰ کے فرائض کی بجا آوری کرے، اپنے نفس کو ہر ا س بات یا عمل سے روک کر رکھے جسے اللہ تعالیٰ نے اس پر حرام فرمایا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی نیکیوں کا ثواب اورا س کی اطاعت گزاریوں کی جزا ضائع نہیں کرتا۔ (حوالہ؛ سورۃ یوسف، آیت نمبر 90)

(4) حضرت یوسف علیہ السلام کو تاروں اور سورج کا سجدہ کرنا :اِذْ قَالَ یُوْسُفُ لِاَبِیْهِ یٰۤاَبَتِ اِنِّیْ رَاَیْتُ اَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَّ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ رَاَیْتُهُمْ لِیْ سٰجِدِیْنَ(4) ترجمۂ کنز الایمان: یاد کرو جب یوسف نے اپنے با پ سے کہا اے میرے باپ میں نے گیارہ تارے اور سورج اور چاند دیکھے انہیں اپنے لیے سجدہ کرتے دیکھا ۔

تفسیر : یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اپنی قوم کے سامنے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وہ بات بیان کریں جو انہوں نے اپنے باپ حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کہی کہ اے میرے باپ! میں نے گیارہ ستاروں اور سورج اور چاند کو دیکھا ، میں نے انہیں اپنے لئے سجدہ کرتے ہوئے دیکھا۔ ( حوالہ سورتہ یوسف آیت نمبر 4)

(5)۔ حضرت یوسف علیہ السلام پر رحمت خدا :كَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِۚ-یَتَبَوَّاُ مِنْهَا حَیْثُ یَشَآءُؕ-نُصِیْبُ بِرَحْمَتِنَا مَنْ نَّشَآءُ وَ لَا نُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ(56) ترجمۂ کنز الایمان: اور یونہی ہم نے یوسف کو اس ملک پر قدرت بخشی اس میں جہاں چاہے رہے ہم اپنی رحمت جسے چاہیں پہنچائیں اور ہم نیکوں کی نیکی ضائع نہیں کرتے۔

تفسیر : یعنی جس طرح ہم نے اندھیرے کنویں سے نجات دے کر، قید خانے سے رہائی عطا فرما کر اور بادشاہ کی نگاہوں میں معزز بنا کر حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر انعام فرمایا اسی طرح ہم نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کومصر کی سر زمین میں اقتدار عطا فرمایا اور سب کچھ اُن کے تحت ِتَصَرُّف ہے ۔ ( حوالہ؛سورۃ یوسف، آیت نمبر 56)

اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ پاک حضرت یوسف علیہ السلام کے درجات میں مزید بلندیاں عطا فرمائے اور ان کی برکت سے ہمیں بھی خوب خوب نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا کیونکہ اللہ پاک نیکو کی نیکی کو ضائع نہیں فرماتا جو بیان ہوسکا اللہ پاک قبول فرمائے آمین


قرآن پاک میں اللہ تعالی نے بہت سے انبیاء اکرام علیہ السلام کا تذکر ارشاد فرمایا ہے۔ ان میں سے بہت ہی پیارے نبی حضرت یوسف عليه السلام کا تذکرے کی سعادت حاصل کرتے ہیں:

آپ علیہ السلام اللہ کے بہت ہی پیارے نبی ہیں۔اپ کا ویسے تو تذکرہ سنتے رہتے ہیں اور آج ہم ان کا ذکر قرآن پاک کی روشنی میں: پڑھنے کی سعادت حاصل کرتے ہے۔اِذْ قَالَ یُوْسُفُ لِاَبِیْهِ یٰۤاَبَتِ اِنِّیْ رَاَیْتُ اَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَّ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ رَاَیْتُهُمْ لِیْ سٰجِدِیْنَ(آیت4سورۃیوسف) ترجمۂ کنز العرفان:یاد کرو جب یوسف نے اپنے با پ سے کہا: اے میرے باپ! میں نے گیارہ ستاروں اور سورج اور چاند کو دیکھا ، میں نے انہیں اپنے لئے سجدہ کرتے ہوئے دیکھا۔ ( تفسیر صراط الجنان)

{اِذْ قَالَ یُوْسُفُ لِاَبِیْهِ:یاد کرو جب یوسف نے اپنے با پ سے کہا۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اپنی قوم کے سامنے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وہ بات بیان کریں جو انہوں نے اپنے باپ حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کہی کہ اے میرے باپ! میں نے گیارہ ستاروں اور سورج اور چاند کو دیکھا ، میں نے انہیں اپنے لئے سجدہ کرتے ہوئے دیکھا۔

(حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا خواب) مفسرین نے یہ واقعہ یوں بیان کیا ہے کہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے خواب دیکھا کہ آسمان سے گیارہ ستارے اترے اور ان کے ساتھ سورج اور چاند بھی ہیں ، ان سب نے آپ کو سجدہ کیا، حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے یہ خواب جمعہ کی رات کو دیکھا اور یہ رات شبِ قدر تھی۔ حضرت قتادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’خواب میں دیکھے گئے ستاروں کی تعبیرآپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے گیارہ بھائی ہیں اور سورج آپ کے والد اور چاند آپ کی والدہ ہیں۔ آپ کی والدہ ماجدہ کا نام راحیل ہے اورمفسرسدی کا قول ہے کہ چونکہ راحیل کا انتقال ہوچکا تھا اس لئے چاند سے آپ کی خالہ مراد ہیں۔ سجدہ کرنے سے مراد ایک قول کے مطابق تواضع کرنا اور فرمانبردار ہونا ہے اور ایک قول یہ ہے کہ حقیقتاً سجدہ مراد ہے کیونکہ اس زمانہ میں سلام کی طرح سجدۂ تحیت یعنی تعظیم کا سجدہ بھی جائز تھا۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی عمرشریف اس وقت بارہ سال کی تھی اور سات سال اور سترہ سال عمر ہونے کے قول بھی کتابوں میں مذکور ہیں۔

ایک اور ایت میں اللہ تعالی نے قران پاک میں ارشاد فرمایا لَقَدْ كَانَ فِیْ یُوْسُفَ وَ اِخْوَتِهٖۤ اٰیٰتٌ لِّلسَّآىٕلِیْنَ(آیت 7سورۃیوسف) ( ترجمۂ کنز العرفان) بیشک یوسف اور اس کے بھائیوں (کے واقعے) میں پوچھنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں ۔

مزید اللہ تعالی قران پاک میں ارشاد فرماتا ہے۔اِذْ قَالُوْا لَیُوْسُفُ وَ اَخُوْهُ اَحَبُّ اِلٰۤى اَبِیْنَا مِنَّا وَ نَحْنُ عُصْبَةٌؕ-اِنَّ اَبَانَا لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنِ ﹰ(آیت8سورہ یوسف) ( ترجمۂ کنز العرفان) یاد کرو جب بھائی بولے :بیشک یوسف اور اس کا سگا بھائی ہمارے باپ کو ہم سے زیادہ محبوب ہیں حالانکہ ہم ایک جماعت ہیں بیشک ہمارے والد کھلی محبت میں ڈوبے ہوئے ہیں ۔

ایک اور آیت میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے : وَ رَاوَدَتْهُ الَّتِیْ هُوَ فِیْ بَیْتِهَا عَنْ نَّفْسِهٖ وَ غَلَّقَتِ الْاَبْوَابَ وَ قَالَتْ هَیْتَ لَكَؕ-قَالَ مَعَاذَ اللّٰهِ اِنَّهٗ رَبِّیْۤ اَحْسَنَ مَثْوَایَؕ-اِنَّهٗ لَا یُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ(آیت23سورۃ یوسف)

( ترجمۂ کنز العرفان) اور وہ جس عورت کے گھر میں تھے اُس نے اُنہیں اُن کے نفس کے خلاف پھسلانے کی کوشش کی اور سب دروازے بند کردئیے اور کہنے لگی: آؤ ، (یہ) تم ہی سے کہہ رہی ہوں ۔ یوسف نے جواب دیا: (ایسے کام سے) اللہ کی پناہ۔ بیشک وہ مجھے خریدنے والا شخص میری پرورش کرنے والا ہے، اس نے مجھے اچھی طرح رکھا ہے۔ بیشک زیادتی کرنے والے فلاح نہیں پاتے۔( تفسیر صراط الجنان)

اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی انتہائی پاکدامنی بیان فرمائی ہے، آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام انتہائی حسین و جمیل تھے، جب زلیخا نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حسن و جمال کو دیکھا تو اس نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں لالچ کیا۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام چونکہ اسی گھر میں رہائش پذیر تھے جہاں زلیخا رہتی تھی، اس لئے زلیخا نے موقع پاکر حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ان کے مُقَدّس نفس کے خلاف پھسلانے کی کوشش کی تا کہ وہ اس کے ساتھ مشغول ہو کر اس کی ناجائز خواہش کو پورا کریں۔زلیخا کے مکان میں یکے بعد دیگرے سات دروازے تھے، زلیخا نے ساتوں دروازے بند کر کے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کہا ’’میری طرف آؤ ،یہ میں تم ہی سے کہہ رہی ہوں۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ا س کی بات سن کر فرمایا’’میں اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتا ہوں اور اسی سے اپنی حفاظت کا طلبگار ہوں کہ وہ مجھے اس قباحت سے بچائے جس کی تو طلب گار ہے۔ بے شک عزیز مصر قطفیر میری پرورش کرنے والا ہے اور اس نے مجھے رہنے کے لئے اچھی جگہ دی ہے اس کا بدلہ یہ نہیں کہ میں اس کے اہلِ خانہ میں خیانت کروں ، جو ایسا کرے وہ ظالم ہے۔

اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نیکی کا بدلہ نیکی ہی ہونا چاہیے اور اپنے مربی کا احسان ماننا انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا طریقہ ہے۔

اللہ تعالی ہمیں بھی ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے