امیر حمزہ (درجۂ سابعہ مرکزی
جامعۃُ المدینہ فیضانِ مدینہ سیالکوٹ ، پاکستان)
حضرت یوسف علیہ
السّلام حضرت یعقوب علیہ کے فرزند، حضرت اسحاق علیہ السّلام کے پوتے اور حضرت
ابراھیم علیہ السّلام کے پڑپوتے ہیں۔ آپ علیہ السّلام کا مبارک نام"یوسف"عجمی
زبان کا لفظ ہے۔آیئے!حضرت یوسف علیہ السّلام کی قرآن کریم میں مزکور 5 صفات پڑھتے
ہیں
1_آپ
علیہ السّلام کو علم و حکمت عطا ہونا:
الله پاک نے حضرت یوسف علیہ السّلام کو عین عہدِ شباب میں علم و حکمت عطا فرمائ۔
ارشاد باری تعالی ہے:[وَ لَمَّا بَلَغَ اَشُدَّهٗۤ اٰتَیْنٰهُ حُكْمًا
وَّ عِلْمًاؕ-وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ](22) ترجمۂ کنزالعرفان:اور جب یوسف بھر پور جوانی کی عمر کو
پہنچے تو ہم نے اسے حکمت اور علم عطا فرمایا اور ہم نیکوں کو ایسا ہی صلہ دیتے ہیں۔[پ12،یُوسُف22]
2_اعلانِ
براءَت اور بچے کی گواہی: آپ علیہ
السّلام نے اپنی براءَت بیان کی اور چار ماہ کے بچے نے اس پر گواہی دی۔ ارشادِ حق
تعالی ہے:قَالَ
هِیَ رَاوَدَتْنِیْ عَنْ نَّفْسِیْ وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِّنْ اَهْلِهَاۚ-اِنْ كَانَ قَمِیْصُهٗ
قُدَّ مِنْ قُبُلٍ فَصَدَقَتْ وَ هُوَ مِنَ الْكٰذِبِیْنَ(26)وَ اِنْ كَانَ قَمِیْصُهٗ
قُدَّ مِنْ دُبُرٍ فَكَذَبَتْ وَ هُوَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ(27)ترجمۂ کنزالعرفان:یوسف نے فرمایا: اسی نے میرے
دل کو پھسلانے کی کوشش کی ہےاور عورت کے گھر والوں میں سے ایک گواہ نے گواہی دی کہ
اگر ان کا کرتا آگے سے پھٹا ہوا ہو پھر تو عورت سچی ہے اور یہ سچے نہیں۔اور اگر ان
کا کر تا پیچھے سے چاک ہوا ہے تو عورت جھوٹی ہے اور یہ سچے ہیں.[پ12،یُوسُف26-27]
3_قیدیوں
کے خواب کی تعبیر:اللّٰه پاک نے آپ
علیہ السّلام کو خوابوں کی تعبیر کا علم بھی عطا فرمایا تھا آپ علیہ السّلام نے دو
قیدیوں کے خوابوں کی برحق تعبیر بیان فرمائ۔ ارشادِ ربّ ذوالجلال ہے:یٰصَاحِبَیِ
السِّجْنِ اَمَّاۤ اَحَدُكُمَا فَیَسْقِیْ رَبَّهٗ خَمْرًاۚ-وَ اَمَّا الْاٰخَرُ فَیُصْلَبُ
فَتَاْكُلُ الطَّیْرُ مِنْ رَّاْسِهٖؕ-قُضِیَ الْاَمْرُ الَّذِیْ فِیْهِ
تَسْتَفْتِیٰنِ(41) ترجمۂ کنز
العرفان:اے قید خانے کے دونوں ساتھیو! تم میں ایک تو اپنے بادشاہ کو شراب پلائے گا
اور جہاں تک دوسرے کا تعلق ہے تو اسے سولی دی جائے گی پھر پرندے اس کا سر کھالیں
گے ۔ اس کام کا فیصلہ ہوچکا ہے جس کے بارے میں تم نے پوچھا تھا۔[پ12،یُوسُف41]
4_عاجزی
و انکساری:حضرت یوسف علیہ السّلام
نے اپنے بے گناہ ہونے کو بیان کیا اور خود پسندی سے بچتے ہوۓ اس کمال کو اللّٰه پاک کی مہربانی قرار دیا
چنانچہ اللّٰه پاک کا فرمان ہے: وَمَاۤ اُبَرِّئُ نَفْسِیْۚ-اِنَّ
النَّفْسَ لَاَمَّارَةٌۢ بِالسُّوْٓءِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیْؕ-اِنَّ رَبِّیْ
غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(53) ترجمۂ کنز
العرفان:اور میں اپنے نفس کو بے قصور نہیں بتاتابیشک نفس تو بُرائی کا بڑا حکم دینے
والا ہے مگر جس پر میرا رب رحم کرے بیشک میرا رب بخشنے والا مہربان ہے۔ [پ12،یُوسُف53]
5_بادشاہ
کی طرف یوسف علیہ السّلام کی تعظیم:جب
بادشاہ کو حضرت یوسف علیہ السّلام کے علم و دیانت کا حال معلوم ہوا اور اسے آپ علیہ
السّلام کے حسنِ صبر، حُسنِ ادب کا پتا چلا اس نے آپ علیہ السّلام کی بڑی تعظیم کی
جیسا کہ قرآن پاک میں مذکور ہے: وَقَالَ الْمَلِكُ ائْتُوْنِیْ بِهٖۤ
اَسْتَخْلِصْهُ لِنَفْسِیْۚ-فَلَمَّا كَلَّمَهٗ قَالَ اِنَّكَ الْیَوْمَ لَدَیْنَا
مَكِیْنٌ اَمِیْنٌ(54) ترجمۂ کنز
العرفان:اور بادشاہ نے کہا: انہیں میرے پاس لے آؤ تاکہ میں انہیں اپنے لیے منتخب
کرلوں پھر جب بادشاہ نے یوسف سے بات کی تو کہا۔ بیشک آج آپ ہمارے یہاں
معزز،امانتدارہیں۔ [پ12، یُوسُف54]
اللّٰه پاک ہمیں
انبیاء کرام علیھم السّلام کے مبارک احوالِ زندگی پڑھنے اور ان کی تعلیمات پر عمل
کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النّبیّینﷺ