عشق حقیقی دراصل حقیقت سے محبت ہے اور حقیقت ابدی شے ہوتی ہے جو ہمیشہ زندہ یا موجود رہتی ہے۔ حبّ الہی اور حب رسول ﷺ حقیقی ہیں جن کی نوعیت ابدی ہے جبکہ دنیا کی ہر شے مثلاً حسن، دولت، اقتدار وغیرہ وغیرہ محض فریب نظر ہیں اور سب فانی ہیں یعنی فنا ہونے والی ہیں اس لیے عشق مجازی غیر حقیقی شے ہے جس کی کوئی اصلیت نہیں۔ دل اگر کسی کی جانب مائل ہو جائے تو اسے محبت کہا جاتا ہے اور اگر یہی محبت شدت اختیار کر لے تو عشق کہلاتی ہے۔ عشق دو طرح کا ہوتا ہے: عشق حقیقی اور عشق مجازی۔ عشق مجازی اکثر راہ دوزخ پر لے جاتا ہے جبکہ عشق حقیقی شاہراہ جنت پر گامزن کرتا ہے، عشق مجازی تباہ و برباد کرتا ہے اور عشق حقیقی شاد و آباد کرتا ہے، عشق حقیقی میں بڑی قوت ہوتی ہے یہ کبھی سخت طوفان کا سامنا کرتا، کبھی فرعون کا مقابلہ کرتا، کبھی حکم الہی پر قربان کرنے کے لیے سر رکھ دیتا اور کبھی بے خطر آگ میں کود پڑتا جبکہ عقل تکتی رہ جاتی ہے۔

بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی

عشق حقیقی سے مراد اللہ اور رسول ﷺ کی محبت کامل ہے۔ یہ دولت بے بہا جسکے خزانہ دل میں جمع ہو جاتی ہے اسے فانی کائنات سے بیگانہ کر دیتی ہے وہ ہمہ وقت محبوب کے تصور اور جلووں میں گم رہتا ہے اور محبت اور معرفت کی لذت میں کھو کر دنیا سے کنارہ کش ہو جاتا ہے پھر وہ محبوب کی سنتا، محبوب کی مانتا، اور اسی کی چاہت پر چلتا ہے حتی کہ محبوب کے نام پر جان تک قربان کر دیتا ہے۔

کافر اور مومن کی محبت کا موازنہ: محبت کرنے والوں کی کئی اقسام ہیں لیکن محبین الہی خالص و مخلص لوگ ہیں۔ اللہ کا فرمان محبت نشان ہے: وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِؕ- (پ 2، البقرۃ: 165) ترجمہ کنز الایمان: اور ایمان والوں کو اللہ کے برابر کسی کی محبت نہیں۔اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: اشدّ سے مراد پختگی اور ہمیشگی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مشرکین جب کسی بت کی پوجا کرتے اور پھر کوئی اس سے اچھی چیز دیکھ لیتے تو اس بت کو چھوڑ کر اس سے اچھی چیز کی پوجا پاٹ شروع کر دیتے (یعنی کافر اپنی محبتیں بدلتے رہتے تھے جبکہ مومن صرف اللہ سے محبت کرتے ہیں۔ (تفسیر کبیر، 2/178) حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ اس کی تفسیر یوں کرتے ہیں: اہل ایمان آخرت میں اللہ سے بہت محبت کریں گے۔

محبت کیا ہے؟ جان لیجیے! بے شک محبت فکروں سے کٹ جانے اور رازوں سے چھپ جانے کا نام ہے یہ خواص کے لیے نور اور عوام کے لیے نار (یعنی آگ) ہے جس دل میں محبت داخل ہو جاتی ہے اسے بے چین و مضطرب اور پریشان کر دیتی ہے۔ حب (یعنی محبت) دو حروف کا مجموعہ ہے، حاء اور باء، حاء حتف سے ہے یعنی کاٹنا اور باء بلا سے ہے یعنی آزمائش۔ یہ حقیقةً ایک بیماری ہے جس سے دوا اور شفا نکلتی ہے۔ اس کی ابتداء فنا اور انتہا بقا ہے۔ اس میں بظاہر مشقت و کلفت ہے مگر باطنی طور پر سرور و لذت ہے۔ یہ ناواقفوں کے لیے بدبختی اور بیماری ہے، جبکہ عارفوں کے لیے شفاء اور تندرستی۔ اللہ ارشاد فرماتا ہے: قُلْ هُوَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا هُدًى وَّ شِفَآءٌؕ-وَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ فِیْۤ اٰذَانِهِمْ وَقْرٌ وَّ هُوَ عَلَیْهِمْ عَمًىؕ- (پ24،حم السجدہ: 44) ترجمہ کنز الایمان: تم فرماؤ وہ ایمان والوں کے لیے ہدایت اور شفا ہے اور وہ جو ایمان نہیں لاتے ان کے کانوں میں ٹینٹ (روئی) ہے اور وہ ان پر اندھا پن ہے۔

اللہ اکبر! اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے ایمان کو سلامت رکھے اور عشق مجازی سے اپنی جان چھڑا کر عشق حقیقی نصیب فرمائے۔ آمین 

حضرت فضیل بن عیاض بہت بڑے بزرگ گزرے ہیں جوانی کا زمانہ تھا تو ایک خاتون سے آشنائی ہو گئی محبت کا ربط قائم ہو گیا تو ظاہر ہے جوانی مستانی ہوتی ہے اور جنون کا ایک شعبہ کہا گیا ہے جوانی کو اور پھر دل میں اس طرح کے رجحان پیدا ہو جائیں تو پھر وہ جنون کئی گنا بڑھ جاتا ہے تو اس کے ساتھ وقت طے کیا اور اس کے ملنے کے لیے بے تابی کے ساتھ ان گھڑیوں کا ان لمحوں کا انتظار کرنے لگے پھر جب وہ وقت آیا تو اس کے گھر کی طرف چلے اس کے گھر کی دیوار پھلانگنے لگے تھے کہ ساتھ والے مکان سے کسی قاری قرآن کی تلاوت کی آواز کانوں میں پڑی اور وہ پڑھ رہا تھا: ترجمہ: کیا اہل ایمان پہ وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کے ذکر اور اللہ کی یاد اور اس کی محبت میں تڑپ اٹھیں اور وہ خوف خدا میں مبتلا ہوں اور جو نازل ہوا قرآن اس قرآن کی محبت میں ان کہ دل میں حیثیت پیدا ہو۔ بس یہ کانوں میں پڑنے کی دیر تھی کہ دوبارہ گلی میں چھلانگ لگائی اور کہا: میرے اوپر وہ وقت آگیا ہے اور جنگلوں کو روتے ہوئے نکلے اور حضرت فضیل بن عیاض پھر ولیوں کے امام قرار پائے اس آیت نے ان کی زندگی بدل دی تھی۔

کسی کی 30 سال کسی کی 40 برس کسی کی 50 سال کسی کی 60 سال زندگی موجود لوگوں میں سے کسی کے اس سے بھی زیادہ اور کسی کی کم اس آیت کریمہ کو ذرا اپنے اوپر عبارت کریں تو اللہ ہمیں نصیب کر دے کہ ہمارے دل تیرے خوف سے کانپ اٹھیں اور تیری خشیت سے ہمارے دل لرز اٹھیں اور قرآن کے ساتھ ہمارا ربط مضبوط اور مستحکم ہو جائے اور ہم یہ اقرار کرتے ہوئے تیرے حضور حاضر ہو جائیں مالک وہ وقت آگیا ہے کہ ہمارے دل تیری یاد سے تیری محبت سے تیرے پیار سے مالا مال ہو گئے اور اپنی باقی زندگی ہم تیرے پیار میں تیری محبت میں تیری یاد میں بسر کریں گے، حدیث پاک میں آتا ہے کہ اگر کوئی شخص اللہ کے خوف سے رویا اور اللہ کے خوف سے رونے کی وجہ سے اس کی پلکوں کے بالوں میں سے ایک بال کی جڑ گیلی ہو گئی تو قیامت کے دن وہ بال کھڑا ہو جائے گا اللہ یا تو مجھے نکال لے یا اسے جنت عطا فرما دے تو اللہ جل شانہ اس بال کو تو آنکھ سے نہیں نوچے گا بلکہ اس شخص کو اللہ جنت عطا فرما دے گا۔

اللہ اکبر گنہگار کی آنکھ کا پانی اللہ کے غصے کی آگ کو ٹھنڈا کر دیتا ہے اس لیے ہمیں رونے کا کہا گیا ارشاد فرمایا کہ تھوڑا ہنسا کرو زیادہ رویا کرو صحابہ کو ہنستے ہوئے دیکھا تو آقا کریم علیہ السلام نے فرمایا کہ تمہارے تک اللہ کی امان نہیں پہنچی اور تم ہنس رہے ہو عرض کی حضور اس کا کفارہ، آقا کریم نے فرمایا: اس کا کفارہ یہ ہے کہ جتنا تم ہنسے ہو اتنا ہی تمہیں رونا پڑے گا۔اگر ہم اپنی زندگی پر غور و تدبر کریں تو ہماری زندگی میں ہنسنا زیادہ یا رونا زیادہ ہے سویر سے لے کر شام تک قہقہے زیادہ ہیں، ٹھٹھے زیادہ ہیں، مذاق زیادہ ہیں، لطیفے زیادہ ہیں، یا عبرت زیادہ ہیں، تفکر زیادہ ہے، تدبر زیادہ ہے، سوچ بچار زیادہ ہے، یاد الہی میں تڑپنا زیادہ ہے، آنکھوں سے یاد خدا میں بہنے والے آنسو زیادہ ہیں مجھے اور آپ کو اپنی زندگی کا ضرور موازنہ کرنا چاہیے ٹھٹھوں سے مذاق سے ہماری مجلسیں بھرپور ہوتی ہیں ہم دن میں جتنا ہنستے ہیں کیا اس کا دسواں حصہ بھی ہم تنہائی میں بیٹھ کر اللہ کی یاد میں روتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو مبارک ہو اور اگر ایسا نہیں ہے تو اللہ سے درد مانگو اس کی یاد میں رونا مانگو، اس کے ذکر میں تڑپنا مانگو، اس کی محبت میں بے تابیاں مانگو، آنسو مانگو، سسکیاں مانگو، تڑپنےبھڑکنے کی توفیق دے۔میرے آقا و مولا نے فرمایا! قیامت کے دن جب کوئی سایہ نہیں ہوگا یاد الٰہی میں رونے والے کو اللہ اپنے عرش کا ٹھنڈا سایہ عطا فرما دے گا تو یہ بہت بڑی دولت ہے یہ بہت بڑی سعادت ہے۔ اللہ ہمیں نصیب کرے۔ آمین

تڑپنے پھڑکنے کی توفیق دے دل مرتضی سوز صدیق دے


دل اگر کسی کی جانب مائل ہوجائے تو اسے محبّت کہا جاتا ہے اور یہی محبت اگر شدّت اختیار کرلے تو عشق کہلاتا ہے۔ عشق دو طرح کا ہوتا ہے: مجازی اور حقیقی۔

اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِؕ- (پ 2، البقرۃ: 165) ترجمہ کنز الایمان: اور ایمان والوں کو اللہ کے برابر کسی کی محبت نہیں۔

جو شخص اللہ سے ملاقات کو پسند کرتا ہے اللہ اس سے ملاقات کو پسند کرتا ہے۔ (رسالہ قشیریہ، ص 545)

سبحان اللہ اگر اللہ پاک کی محبوبیت حاصل ہوجائے تو یہ بندے کی معراج ہے اس سے بڑا مقام اور نعمت کوئی نہیں اللہ جو تمام کائنات کا رب ہے وہ اپنے بندے سے محبت فرمائے۔

محبت میں اپنی گما یا الہی نہ پاؤں میں اپنا پتا یا الہی

عشاق الہی کے لیے اہم ترین مقام: عشاق الہی کے لیے رضائے الہی اہم ترین مقام ہے اس ضمن میں ایک واقعہ تحریر ہے، چنانچہ ایک مرتبہ حضرت رابعہ بصری رحمۃ اللہ علیہا عالم شوق میں بار بار سجدے میں سر رکھتی اور پھر اٹھ کھڑی ہوتی اور پھر کہنے لگتی اے اللہ اگر میں سجدے دوزخ کے ڈر سے کرتی ہوں تو مجھے دوزخ میں ڈالنا اور اگر جنت کی امید پر کرتی ہوں تو بھی دوزخ میں ڈالنا اور اگر میں تیری خاطر تیری عبادت کرتی ہوں تو اپنے جمال سے محرم نہ کرنا۔

سجدہ عشق ہو تو عبادت میں مزہ آتا ہے خالی سجدوں میں تو دنیا ہی بسا کرتی ہے

عشق رسول ﷺ: عشق الہی کے لیے عشق رسول ﷺ اور اتباع رسول شرط ہے کہ اس کے بغیر کوئی الله سے محبت کا دعویدار نہیں ہوسکتا۔ الله قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ (پ 3، اٰل عمران: 31) ترجمہ: اے حبیب فرما دو کہ اے لوگو اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرے فرمانبردار بن جاؤ اللہ تم سے محبت فرمائے گا۔

ایمان کی کسوٹی: محبوب خدا سے عشق و محبت ہی ایمان کی کسوٹی ہے۔ عشق مصطفی کے بغیر ایمان کامل ہی نہیں ہو سکتا جیسا کہ حدیث مبارکہ میں آیا ہے: تم میں سے کوئی اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک میں اسکی جان سے زیادہ اسے محبوب نہ ہو جاؤں۔ (شفاء، 2/19)

محمد کی محبت دین حق کی شرط اول ہے اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نامکمل ہے

محبت اطاعت پر ابھارتی ہے: حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ حجر اسود کے پاس آئے اور اسے بوسہ دے کر فرمایا خدا کی قسم! میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے،نہ نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان۔ اگر میں نے نبی کریم ﷺ کو تجھے بوسہ دیتے نہ دیکھا ہوتا تو تجھے میں ہر گز بوسہ نہ دیتا۔ (مسلم، ص 662، حدیث: 1270)

نگاہ عشق و مستی میں وہی اوّل وہی آخر وہی قرآں وہی فرقاں وہی یٰسین وہی طٰہٰ


عشق حقیقی در اصل حقیقت سے محبت ہے اور حقیقت ابدی شے ہوتی ہے جو ہمیشہ زندہ یا موجود رہتی ہے حب الہی اور حب رسول حقیقی ہیں جن کی نوعیت ابدی ہے جب کہ دنیا کی ہر چیز مثلاً حسن دولت، سب فریب اور فانی ہیں۔ ایک مرتبہ ایک صحابی رسول بار گاہ حبیب میں حاضر ہوئے، عرض کی یا رسول اللہ ﷺ قیامت کب آئے گی تو آپ ﷺ نے فرمایا تو نے اس کے لیے کیا تیار کر رکھی ہے؟ تو عرض کرنے لگے: میرے پاس نمازیں اور صدقات تو نہیں مگر میں اللہ اور اس رسول سے محبت کرتا ہوں تو نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: تو اسی کے ساتھ ہوگا جس سے تو محبت کرتا ہے۔ حضرت انس فرماتے ہیں، آج تک ہم اتنے خوش نہ ہوئے جتنے آپ ﷺ کا یہ فرمان سن کر خوش ہو گئے کے یہ محب محبوب کے ساتھ ہوگا۔ (بخاری، 2/527، حدیث: 3688)

اٹھتی نہیں ہے آنکھ کسی اور کی طرف پابند کر گئی ہے اسی کی نظر مجھے

دل اگر کسی جانب مائل ہو تو اسے محبت کہتے ہیں یہی محبت اگر شدت اختیار کر جائے تو عشق کہلاتی ہے۔ عشق حقیقی شاد و آباد کرتا ہے۔ عشق حقیقی میں بڑی قوت ہوتی ہےیہ کبھی طوفان کا سامنا کرتاہے کبھی فرعون کا مقابلہ کبھی حکم الہی پر قربانی کے لیے سر رکھ دیتا، کبھی بے خطر آگ میں کود پڑتا ہے جبکہ عقل تکتی رہ جاتی ہے۔

بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی

عشق ایمان کا مل کی بنیاد ہے عشق الہی کے بعد سب سے بڑی نعمت عشق رسول ہے حقیقت یہ ہے عشق رسول کے بغیر بندہ کا گزارا ہی نہیں ہوسکتا۔ فرمان مصطفی ﷺ ہے: تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک والدین اولاد گھر والوں اور تماملوگوں اپنی جان و مال سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔ (مسلم، ص 47، حدیث: 168)

عشق رسول کا فائدہ: حضرت مولانا صوفی محمد اکرم رضوی فرماتے ہیں کہ عشق رسول اگر پورے طور پر دل میں داخل ہو جائے تو اتباع رسول کا ظہور ہوتا ہے احکام الہی کی تعمیل سیرت نبوی کی پیروی ہوتی ہے دل و دماغ جسم و روح پر کتاب و سنت کی حکومت قائم ہوتی ہےآخرت نکھر جاتی ہے۔

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

صحابہ کرام کا اندا ز عشق: یہ عشق رسول ہی تھا کہ رحمت عالم ﷺ کے وضو کا پانی آپ ﷺ کے موئے مبارک لعاب دھن جسم پر ملتے مصطفیٰ ﷺ پوچھتے کیا چیز ایسا کرنے پر ابھارتی فرماتے کہ اللہ اور اس کے رسول کی محبت۔

اسی لیے تو کوئی صدیق اکبر کوئی فاروق اعظم کوئی غنی وباحیا اور کوئی شیر خدا مشکل کشا بن گیا۔

حرف آخر یہ ہے کہ جس مسلمان کے دل میں عشق رسول کی شمع روشن ہو جاتی ہے شب روز اسی محبت میں گزارتا ہے اور عشق رسول ﷺ کی لازوال لذت سے آشنا ہو جاتاہے پھر بقول اعلیٰ حضرت

جان ہے عشق مصطفیٰ روز فزوں کرے خدا جس کو ہو درد کا مزا ناز دوا اٹھائے کیوں

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں دنیا کی فانی محبت سے جان چھڑا کر عشق حقیقی نصیب فرمائے۔ آمین

محبت میں اپنی گمایا یا الٰہی نہ پاؤں میں اپنا نیا یا الٰہی

رہوں مست وبے خود میں تیری ولا میں پلا جام ایسا پلایا الٰہی

ڈاکٹر اقبال لکھتے ہیں:

تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہوں میری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں

بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی بڑا بےادب ہوں سزا چاہتا ہوں


عشق حقیقی ایک لافانی اور لامحدود انسانی جذبہ ہے جس کا تعلق براہ راست ایک روح سے دوسری روح تک ہوتا ہے عشق الٰہی کے بعد سب سے بڑی نعمت عشق رسول ﷺ ہے اور حقیقت یہ ہے کہ عشق رسول ﷺ کے بغیر بندہ مومن کا گزارہ ہو ہی نہیں سکتا۔ مومن تبھی ہی کامل مومن ہوتا ہے جب وہ ساری کائنات سے بڑھ کر سرور کائنات ﷺ سے محبت کرے۔

عشق و محبت کیا ہے؟ اگر دل کسی پسندیدہ چیز کی جانب مائل ہو جائے تو اسے محبت کہتے ہیں اور یہی محبت حد سے تجاوز کر جائے تو اسے عشق کہتے ہیں۔

عشق حقیقی سے مراد الله و رسول ﷺ کی محبت کامل ہے کیونکہ الله و رسول سے محبت تو ہر مسلمان کرتا ہے لیکن عاشق کا درجہ کوئی کوئی پاتا ہے۔ آقا ﷺ کا فرمان عالیشان ہے: کوئی مومن ایسا نہیں جس کیلئے میں دنیا و آخرت میں سارے انسانوں سے زیادہ اولیٰ و اقرب نہ ہوں۔ (بخاری، 2/108، حدیث:2399)

رسول الله ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اسے اس کے باپ،اس کی اولاد،اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔ (مسلم، ص 47، حدیث: 169)

نبی کریم ﷺ نے فرمایا: تین باتیں جس میں ہوں گی وہ حلاوت ایمان پا جائے گا پہلی بات تو یہ کہ اس مرد مومن کے نزدیک الله اور اس کا رسول ﷺ سب سے زیادہ محبوب ہوں اور دوسری بات یہ کہ وہ کسی سے محبت کرے تو صرف الله کے لئے کرے اور تیسری بات یہ کہ کفر سے نجاب پالینے کے بعد اس کی طرف پلٹ کر آنے کو اس طرح نا پسند کرے جس طرح وہ آگ میں ڈالے جانے کو ناپسند کرتا ہے۔ (بخاری، 1/17، حدیث:16)

حرف آخر یہ ہے کہ جس مسلمان کے دل میں عشق رسول ﷺ کی شمع روشن ہو جاتی ہے وہ محبت رسول کے جام پی لیتا ہے شب و روز اسی محبت میں گزارتا ہے عشق رسول کی لازوال لذت سے آشنا ہو جاتا ہے تو پھر بقول اعلیٰ حضرت وہ اپنی زبان حال سے یہی کہتا نظر آئے گا:

جان ہے عشق مصطفےٰ روز فزوں کرے خدا جس کو ہو درد کا مزہ ناز دوا اٹھائے کیوں


ایمان کی شیرینی کی بنیاد اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت کو بتایا گیا اور اس محبت کو ایمان کی دوسری حلاوتوں پر مقدم کیا گیا۔

جب اللہ سے محبت دل میں اترنے لگتی ہے تو عبادات میں تھکن کی جگہ لذت لے لیتی ہے قرآن مجید کی آیات سمجھ میں آنے لگتی ہیں زبان پر اپنے رب کا نام ہر پل رہنے لگتا ہے۔ دعاؤں میں یقین بڑھنے لگتا ہے ہاتھ تنگ ہوتے ہوئے بھی اللہ کی راہ میں دیتے ہوئے دل کشادہ رہتا ہے اللہ کے راستے میں کام کرتے لوگوں سے الفت دل میں بڑھنے لگتی ہے۔ شیطان کا آپ سے میلوں کا فاصلہ رہنے لگتا ہے اور وہ تمام جہانوں کا رب آپ کو ہر پل اپنے قریب لگنے لگتا ہے۔

عشق حقیقی کسے کہتے ہیں؟ محبت نام ہے پسندیدہ چیز کی طرف میلان طبع کا۔اگر یہ میلان شدت اختیار کر جائے تو اسے عشق کہتے ہیں۔ اس میں زیادتی ہوتی رہتی ہے یہاں تک کہ عاشق محبوب کا بندہ بے دام بن جاتا ہے اور مال و دولت اس پر قربان کر دیتا ہے۔زلیخا کی مثال لے لیجیئے جس نے یوسف علیہ السلام کی محبت میں اپنا حسن اور مال و دولت قربان کر دیا۔ کہتے ہیں کہ جب زلیخا ایمان لائی اور حضرت یوسف علیہ السلام کی زوجیت میں داخل ہوئی تو سوائے عبادت وریاضت اور توجہ الی اللہ کے سوا کوئی کام نہ تھا۔ (مکاشفۃ القلوب، ص72)

محبت کی ابتداء اور انتہاء: جب حضرت منصور حلاج کو قید میں اٹھارہ دن گزر گئے تو حضرت شبلی نے ان کے پاس جا کر دریافت کیا:اے منصور !محبت کیا ہے؟منصور نے جواب دیا آج نہیں کل یہ سوال پوچھنا۔ جب دوسرا دن ہوا اور انکو قید سے نکال کر مقتل کی طرف لے گئے تو وہاں منصور نے شبلی کو دیکھ کر کہا شبلی !محبت کی ابتداء جلنا اور انتہا قتل ہو جانا ہے۔

جب منصور کی نگاہ حق بین نے اس حقیقت کو پہچان لیا کہ اللہ کی ذات کے سوا ہر شے باطل ہے اور ذات الہی ہی حق ہے تو وہ اپنے نام تک کو بھول گئے لہذا جب ان سے سوال کیا گیا کہ تمہارا نام کیا ہے؟تو جواب دیا میں حق ہوں۔ (فتاوی رضویہ، 26/400)

عاشق کی پہچان: ایک شیخ سے عاشق کے متعلق پوچھا گیا انہوں نے کہا عاشق میل ملاپ سے دور، تنہائی پسند، غور وفکر میں ڈوبا ہوا اور چپ چاپ رہتا ہےجب اسے دیکھا جائے وہ نظر نہیں آتا، جب بلایا جائے تو سنتا نہیں، جب بات کی جائے توسمجھتا نہیں اور جب اس پر کوئی مصیبت آ جائے تو غمگین نہیں ہوتا وہ بھوک کی پرواہ اور برہنگی کا احساس نہیں رکھتا، کسی کی دھمکیوں سے مرعوب نہیں ہوتا وہ تنہائی میں اللہ پاک سے التجائیں کرتا ہے اسکی رحمت سے انس و محبت رکھتا ہے، وہ دنیا کے لیے دنیا والوں سے نہیں جھگڑتا۔ (مکاشفۃ القلوب، ص75)

زہر الریاض میں ہے کہ موسی علیہ السلام کا ایک عزیز دوست تھا، ایک دن آپ سے کہنے لگا: اے موسی! میرے لیے دعا کر دیجیے کہ اللہ پاک مجھے اپنی معرفت عطا فرمائے آپنے دعا کی اللہ پاک نے آپ کی دعا قبول فرمائی اور وہ دوست آبادی سے کنارہ کش ہو کر پہاڑوں میں وحوش کے ساتھ رہنے لگا۔ جب موسی علیہ السلام نے اسے نہ پایا تو رب تعالی سے التجا کی الہی میرا دوست کہاں گیا ؟رب تعالی نے فرمایا اے موسی جو مجھے صحیح معنوں میں پہچان لیتا ہے وہ مخلوق کی دوستی پسند نہیں کرتا۔

جب بندہ یہ بات سمجھ لیتا ہے کہ کمالات حقیقی صرف اللہ ہی کے لیے ہیں اور مخلوق کے کمالات بھی حقیقت میں اللہ پاک کے کمالات ہیں اور اللہ ہی کے عطا کردہ ہیں تو اسکی محبت اللہ پاک کے ساتھ اور اللہ کے لیے ہوجاتی ہے۔

آخر میں اللہ پاک سے دعا ہے ہمیں اپنی اور اپنے پیارے حبیب ﷺ کی محبت میں مزید شدت عطا فرمائے۔


اللہ تعالیٰ کی محبت کے سوا ہر محبت کو زوال ہے۔ انسان کا سب سے مضبوط رشتہ اللہ اور اس کے محبوب سے ہے۔ اللہ اور اس کے رسول کی محبت وہ سمندر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں۔ بیشک جس کو اللہ کا رنگ چڑھ جائے وہ  colour blind ہو جاتا ہے اسے اور کوئی رنگ اچھا نہیں لگتا اور بیشک وہ رب ہی ہے جو ایک سجدے میں اپنا بنا لیتا ہے۔ سب سے پاکیزہ عشق کی گواہی لاالہ الااللہ محمد رسول ﷺ ہے۔ اگر عشق حقیقی پہ لکھا جائے تو اوراق کم پڑ جائیں گے لیکن اللہ اور اس کے رسول کی محبت کا ایک باب بھی مکمل نہ ہوگا۔

ارشاد باری ہے: یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ (پ 1، البقرۃ:21) ترجمہ: اے لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تم کو پیدا کیا۔

اب عبادات اور بندگی کا تقاضا ہے کہ پیدا اللہ تعالی نے کیا ہے تو حکم بھی اللہ تعالی کا مانا جائے، آنکھیں اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمت ہیں تو آنکھوں سے اللہ تعالی کی رضا کے مطابق دیکھا جائے۔ کان اللہ تعالی نے عطا کیا تو اس کے فرمان کے مطابق سننے کی عادت ڈالی جائے۔ سوچنے کی قوت پرور دگار نے عطا کی ہے تو ہر لمحہ اس کی ذات قدرت اور اس کے احکامات پر غور کیا جائے، سوچ کا یہ درست زاویہ اللہ تعالیٰ کی محبت کی دعوت دیتا ہے۔ عام زندگی کا اصول ہے کہ کسی ایک کا معمولی حسن سلوک ساری عمر کی احسان مندی کا باعث بنتا ہے تو اللہ تعالی نے تو انسان کو زندگی عطا کی ہے اس لئے اللہ تعالی سے محبت کے جذبے سب سے زیادہ پروان چڑھنے چاہئیں۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے: وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِؕ- (پ 2، البقرۃ: 165) ترجمہ کنز الایمان: اور ایمان والوں کو اللہ کے برابر کسی کی محبت نہیں۔

ایمان کی تکمیل محبت کے بغیر ممکن نہیں ہے کیوں کہ جس عمل میں محبت کی کار فرمائی نہ ہو وہ کھو کھلا اور بےتوفیق ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کوئی محبت کرنے والا جس سے محبت کرتا ہے اس کا فرماں بردار ہوتا ہے ایمان کا تقاضا ہے کہ اللہ تعالی سے محبت کی جائے۔ اللہ تعالیٰ سے محبت کا مفہوم یہ ہے کہ اس کے احکامات کو تسلیم کی جائے اور اس پر پوری دلجمعی سے عمل کیا جائے اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا خوف ہمیشہ دل میں رکھا جائے اور اللہ تعالی کی خوشنودی کے حصول کی ہمیشہ کوشش کی جائے اللہ تعالی کی رحمت ہے کہ اس نے ہر دور میں انسانوں کی رہنمائی کے لئے انبیائے کرام مبعوث فرمائے اور ان پاک لوگوں کو اپنے احکامات کتابوں اور صحیفوں کی شکل میں عطا فرمائے۔ حضرت محمد ﷺ انبیائے کرام کے سلسلہ کے آخری نبی ہیں اور قرآن مجید حضرت محمد ﷺ پر نازل کیا گیا۔ قرآن مجید اللہ تعالی کے احکامات پر مشتمل اللہ تعالی کا آخری پیغام ہے۔

اللہ تعالی کی محبت وحدانیت کی تعلیم دیتی ہے اور اس کی بنیاد پر انسان کو معاشرتی رسوم اختیار کرنے میں مدد دیتی ہے۔ اللہ تعالی کی محبت انسان میں ایک ایسی اعلی ہستی کا تصور قائم کر دیتی ہے جس کی ذات صفات اور اقتدار میں کوئی شریک نہیں ہے۔

اللہ تعالی کی محبت انسان کی عبادت اور شکر گزاری کے تمام عوامل کو خالق حقیقی سے وابستہ کر دیتی ہے۔ اللہ تعالی کی محبت سے انسان میں ایک اعلی ترین قوت کی خود مختار حاکمیت کا تصور قائم ہو جاتا ہے۔

محبت آخر کیا چیز ہے کہ بندہ اپنے محبوب پر سب کچھ وار دینے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ لہذا یہ جاننا ضروری ہے کہ محبت کسے کہتے ہیں؟ چنانچہ امام غزالی فرماتے ہیں کہ محبت اس کیفیت اور جذبے کا نام ہے جو کسی پسندیدہ شے کی طرف طبعیت کے میلان کو ظاہر کرتا ہے، اگر یہ میلان شدت اختیار کر جائے تو اسے عشق کہتے ہیں۔ (مکاشفۃ القلوب، ص 42)

ایک شیخ سے عاشق کے متعلق پوچھا گیا: انہوں نے کہا: عاشق میل ملاپ سے دور، تنہائی پسند، غور وفکر میں ڈوبا ہوا اور چپ چاپ رہتا ہے جب اسے دیکھا جائے وہ نظر نہیں آتا، جب بلایا جائے تو سنتا نہیں، جب بات کی جائے تو سمجھتا نہیں اور وہ تنہائی میں اللہ تعالیٰ سے التجائیں کرتا ہے، اس کی رحمت سے انس و محبت رکھتا ہے، وہ دنیا کے لیے دنیا والوں سے نہیں جھگڑتا۔

زہر الریاض میں ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کا ایک عزیز دوست تھا، ایک دن آپ سے کہنے لگا: اے موسیٰ! میرے لیے دعا کر دیجیے کہ اللہ پاک مجھے اپنی معرفت عطا فرمائے آپ نے دعا کی، الله پاک نے آپ کی دعا قبول فرمائی اور وہ دوست آبادی سے کنارہ کش ہو کر پہاڑوں میں وحوش کے ساتھ رہنے لگا۔ جب موسیٰ علیہ السلام نے اسے نہ پایا تو رب العزت سے التجا کی: الٰہی! میرا دوست کہاں گیا؟ رب تعالیٰ نے فرمایا: اے موسیٰ! جو مجھے صحیح معنوں میں پہچان لیتا ہے وہ مخلوق کی دوستی کبھی پسند نہیں کرتا (اس لیے اس نے تمہاری اور مخلوق کی دوستی کو ترک کر دیا ہے)۔ (مکاشفۃ القلوب، ص 87)

کہا گیا ہے: سچی معرفت یہ ہے کہ انسان دنیا و آخرت کو چھوڑ کر الله پاک کا ہی ہو جائے اور شراب محبت کا ایسا جام پیے کہ الله پاک کا دیدار کیے بغیر ہوش میں نہ آئے، ایسا شخص ہی ہدایت یاب ہے۔

الله و رسول کی محبت ہر مسلمان پر واجب ہے اور اس بارے میں کسی کا اختلاف نہیں بلکہ یہ بات ضروری ہے کہ ان کی محبت ہر محبوب (کی محبت) پر مقدم ہو۔

ثابت ہوا کہ جملہ فرائض فروع ہیں اصل الاصول بندگی اسی تاجور کی ہے

مسلمان کے کامل مومن ہونے کے لیے عشق رسول کی اشد ضرورت ہے کہ اس کے بغیر وہ کامل مومن نہیں بن سکتا۔ چنانچہ حضرت انس رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ الله پاک کے محبوب ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی اس وقت تک (کامل) مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے ماں باپ، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جاؤں۔ (مسلم، ص 47، حدیث: 169)

خاک ہو کر عشق میں آرام سے سونا ملا جان کی اکسیر ہے الفت رسول الله کی

ایک روایت میں ہے: سرکار ﷺ نے تین باتوں کو حلاوت ایمانی کے حصول کی علامت قرار دیا، جن میں ایک یہ ہے کہ بندے کی نظر میں الله پاک اور اس کے رسول کی ذات کائنات کی ہر چیز سے زیادہ محبوب و پسندیدہ ہو جائے۔ (بخاری، 1/17، حدیث:16)

یہ اک جان کیا ہے اگر ہوں کروڑوں تیرے نام پر سب کو وارا کروں میں

الله پاک کے نیک بندے ہمیشہ راه خدا و مصطفیٰ ﷺ میں اپنے تن من دھن کو قربان کرنے کے لیے تیار رہتے اور اس سلسلے میں کبھی کسی کی پروا نہ کرتے تھے۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ:

نگاہ عشق و مستی میں وہی اوّل وہی آخر وہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یٰسین، وہی طٰہ

الله پاک ہمیں دنیا کی محبت سے بے رغبتی عطا فرما کر فقط اپنی اور اپنے محبوب کی محبت عطا فرمائے۔ عشق حقیقی سے ہمارے دلوں کو منور فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

محبت میں اپنی گما یا الٰہی نہ پاؤں میں اپنا پتہ یا الٰہی

رہوں مست و بے خود میں تیری ولا میں پلا جام ایسا پلا یا الٰہی

جان ہے عشق مصطفی روز فزوں کرے خدا                                   جس کو ہو درد کا مزہ ناز دوا اٹھائے کیوں

محبت اس کیفیت اور جذبے کا نام ہے جو کسی پسندیدہ شے کی طرف طبعیت کے میلان کو ظاہر کرتا ہے اگر یہ میلان شدت اختیار کر جائے تو اسے عشق کہتے ہیں۔

لسان العرب میں عشق کا مطلب یہ مذکور ہے کہ یعنی محبت میں حد سے تجاویز کرنا عشق ہے۔ امام احمد رضا خان عشق کی تعریف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: محبت بمعنی لغوی جب پختہ اور موکدہ ہو جائے تو اسی کو عشق کا نام دیا جاتا ہے۔ (فتاوی رضویہ 15/21 ملتقطا)

عشق کا لفظ اس کائنات میں ہے ہی حضور پاک ﷺ کی ذات کے لیے اور کوئی ذات ہی نہیں جس سے عشق کیا جاسکے۔ اس قابل ہی نہیں کوئی ذات جس سے عشق و محبت کیا جا سکے۔ حقیقی محبت ہوتی ہی اللہ پاک اور اس کے محبوب ﷺ سے ہے۔ کسی عاشق نے کیا خوب فرمایا: عشق کرنا ہے تو بغیر دیکھے بغیر سمجھے بغیر کسی دلیل کے کرو کیونکہ عشق کبھی عقل سے نہیں ہوتا عشق ایسے کرنا چاہیے کہ دیکھنے والا کہے دیوانہ جارہا ہے اگر آپ کے لیے کوئی یہ الفاظ بولے تو سمجھ لیں آپ کو عشق حقیقی حاصل ہو گیا ہے۔

اعلی حضرت کے عشق کا کیا کہنا ہے خود فرماتے ہیں: اگر میرے دل کے دو ٹکڑے کیے جائیں تو ایک میں اللہ تعالیٰ اور دوسرے میں حضور پاک ﷺ کا نام مبارک لکھا ہوگا۔ یعنی ان کے نزدیک عشق کرنے کے لیے صرف دو ہی ذات ہیں اللہ پاک اور اس کے محبوب ﷺ اسی طرح عشق صحابہ کے بھی کیا کہنے! جب غزوہ احد میں شیطان نے بے پر کی یہ خبر اڑا دی کہ سرور کائنات ﷺ شہید ہوگئے ہیں جب یہ ہولناک خبر مدینہ منورہ میں پہنچی تو وہاں کی زمین ہل گئی یہاں تک کہ وہاں کی پردہ نشیں عورتوں کے دل و دماغ میں صدمات غم کا بوچھال آگیا۔

انصاری صحابیہ عشق رسول سے سر شار میدان جنگ کی طرف روانہ ہوئیں گھر سے نکل کے راستے میں انہیں دل لرزا دینے والے مناظر کا سامنا کرنا پڑا، کہیں بھائی اور بیٹے کے لاشے کو دیکھا تو کہیں شوہر اور باپ کی میت پڑی دیکھی مگر وہ عاشقہ صحابیہ بغیر پروا کیے آگے بڑھتی جاتیں اور یہی پوچھتی جاتیں، میرے محبوب میرے آقا و مولا کیسے ہیں؟ آپ کے بخیر و عافیت کی خبر ملنے کے باوجود وہ رکی نہیں بلکہ آگے بڑھتی رہیں اور آخر کارجب رخ انور پر نظر پڑی تو بے قرار ہو کر فرط محبت میں دامن مصطفے کو تھام لیا اور عرض کرنے لگیں: اے اللہ کے رسول ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ! جب آپ سلامت ہیں تو مجھے کسی اور کی کوئی پروا نہیں ہے۔ (سیرت ابن ہشام، 3/86)

تسلی ہے پناہ بیکراں زندہ سلامت ہے کوئی پروا نہیں سارا جہاں زندہ سلامت ہے

الله اکبر!قربان جائیں صحابہ کرام اور صحابیات کے عشق مصطفی پر یہ عشق جس کو نصیب ہو جائے! ہمارے اولیائے کرام کا عشق کیا کہتا ہے امام احمد رضا نے عشق کیا تو ہر طرف عشق محبت عشق محبت اعلی حضرت، اعلیٰ حضرت کے نعرے لگ رہے ہیں، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عشق کیا تو لوگ ان کو عاشق اکبر کہہ کر پکارتے ہیں اور پھر بات کی جائے بانی دعوت اسلامی حضرت علامہ محمد الیاس عطار قادری کی تو پوری دنیا میں ان کے عشق رسول کے ڈنکے بج رہے ہیں اور بات ان پر ختم نہیں ہوتی اگر حضور سے محبت کرنے والوں کی بات جائے تو ان میں ایک نام علامہ حافظ خادم حسین رضوی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی ہے جنہوں نے نہ صرف خود حضور سے ٹوٹ کر محبت کی بلکہ کئیوں کو عشق رسول کی راہ پر گامزن کیا اسی وجہ وہ قاسم عشق مصطفیٰ بن گئے!

اے کاش! بزرگوں کے عشق کا ایک قطرہ ہمیں بھی نصیب ہوجائے۔ آمین کسی عاشق رسول نے فرمایا کہ حضور ﷺ سے وفا و عشق ایسے کرنا چاہیے کہ جب انسان اس دنیا فانی سے جائے تو یوں آواز آئے فرش والے ایسے فرمائیں:

جب روح میرے پیراہنِ خاکی سے نکلی تو روضے سے آواز آئی لو میرا فقیر آیا

حضور پاک ﷺ سے محبت ایسے کرنی چاہیے کہ قبر میں جب فرشتے کچھ پوچھیں تو حضور خود ہی فرما دیں جانے دو یہ اپنا ہی ہے۔

حضور پاک ﷺ سے محبت کرنا ہم پر واجب ہے بلکہ اس بارے میں امت کا کوئی اختلاف نہیں ہے اور یہ بات ضروری ہے کہ ان کی محبت محبوب کی محبت پر مقدم ہو۔

ثابت ہوا کہ جملہ فرائض فروع ہیں اصل الاصول بندگی اس تاجور کی ہے۔


قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ عَشِیْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ اﰳقْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِیْ سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۠(۲۴) (پ 10، التوبۃ: 24) ترجمہ کنز الایمان: تم فرماؤ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور تمہارے پسند کے مکان یہ چیزیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں لڑنے سے زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو(انتظار کرو) یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے اور اللہ فاسقوں کو راہ نہیں دیتا۔

امام ابو عبداللہ محمد بن احمد انصاری قرطبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: یہ آیت مبارکہ اللہ و رسول کی محبت کے واجب ہونے پر دلالت کرتی ہے اور اس بارے میں امت کا کوئی اختلاف بھی نہیں ہے بلکہ یہ بات ضروری ہے کہ ان کی محبّت ہر محبوب کی محبت پر مقدم ہو۔

ثابت ہوا کہ جملہ فرائض فروع ہے اصل اصول بندگی اس تاجور کی ہے

حضور ﷺ کا فرمان عالیشان ہے کہ کوئی مومن ایسا نہیں جس کے لئے میں دنیا و آخرت میں سارے انسانوں سے زیادہ اولی و اقرب نہ ہوں۔ (بخاری، 2/108، حدیث:2399)

نگاہ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر وہی قرآں وہی فرقاں وہی یسین وہی طہ

عشق و محبت رسول ﷺ عاشقان رسول کے دلوں کی غذااور ارواح کا رزق ہے، عشق و محبت رسول سے محروم شخص مردوں میں شمار ہوتا ہے، عشق و محبت رسول کی لذت سے جو آشنا نہیں ان کی زندگی غموں اور تکالیف کا شکار رہتی ہے، حقیقی عشق صرف اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے ہے، چنانچہ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ اس کے متلعق مکاشفۃ القلوب میں فرماتے ہیں کہ محبت اس کیفیت اور جذبے کا نام ہے جو کسی پسندیدہ شے کی طرف طبیعت کے میلان کو ظاہر کرتا ہے اگریہ میلان شدت اختیار کر جائے تو اسے عشق کہتے ہیں۔

واقعہ غزوہ خیبر میں رسول اکرم ﷺ نے قبیلہ بنی غفار کی ایک صحابیہ کو اپنے دست مبارک سے ایک ہار پہنایا تھا وہ اس کی اتنی قدر کرتی تھیں کہ عمر بھر گلے سے جدا نہ کیا اور جب انتقال فرمانے لگیں تو وصیت کی کہ ہار بھی انکے ساتھ دفن کیا جائے۔ (مسند امام احمد، 10/324، حدیث: 27206)


محبت آخر کیا چیز ہے کہ بندہ اپنے محبوب پر سب کچھ وار دینے کے لیے تیار ہو جاتا ہے لہذا یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ محبت کسے کہتے ہیں؟ چنانچہ امام غزالی اس کے متعلق مکاشفۃ القلوب میں فرماتے ہیں کہ محبت اس کیفیت اور جدبے کا نام ہے جو کسی پسندیدہ شے کی طرف طبعیت کے میلان کو ظاہر کرتا ہے اگر یہی میلان شدت اختیار کر جائے تو اسے عشق کہتے ہیں۔

بلا شبہ محبت خدا اور رسول ایک نعمت ہے جن کے دل الله و رسول کی محبت سے سرشار ہوتے ہیں ان کی روح بھی اس کی مٹھاس محسوس کرتی ہے ان کی زندگیاں جہاں اس پاکیزه محبت سے سنورتی ہیں وہی یہ محبت تاریکی میں امید کا چراغ بن کر انہیں راہ حق سے بھٹکنے سے بھی بچاتی ہے۔

محبت و عشق کے معنی و مفہوم میں قدرے فرق ہے کیونکہ اللہ و رسول سے محبت تو ہر مسلمان کرتا ہے مگر عاشق کا درجہ کوئی کوئی پاتا ہے۔ محبت میں حد سے تجاوز کرنا عشق ہے۔

قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ عَشِیْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ اﰳقْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِیْ سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۠(۲۴) (پ 10، التوبۃ: 24) ترجمہ کنز الایمان: تم فرماؤ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور تمہارے پسند کے مکان یہ چیزیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں لڑنے سے زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو(انتظار کرو) یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے اور اللہ فاسقوں کو راہ نہیں دیتا۔

اَلنَّبِیُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ (پ 21، الاحزاب: 6) ترجمہ کنزالایمان:یہ نبی مسلمانوں کے ان کی جانوں سے زیادہ مالک ہیں۔

نبی کریم ﷺ ارشاد فرمایا: تم میں سے کوئی بھی اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کی جان سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔(مسلم، ص 47، حدیث: 168)

محبت مصطفیٰ کے تقاضے: عشق حقیقی کا تقاضا یہ ہے کہ احکام باری تعالیٰ کو غور سے سنیے اور ان پر عمل کیجیے جیسا کہ آپ کو پردے میں رہنے کا حکم دیا گیا ہے تو آپ پر لازم ہے کہ آپ پردے میں رہا کریں اور اپنے شوہر او آباؤ اجداد کی عزت و عظمت اور ناموس کو برباد مت کیجئے یہ دنیا کی چند روزہ زندگی فانی ہے یاد رکھئے کہ ایک دن مرنا ہے اور پھر قیامت کے دن خدا و مصطفیٰ کو منہ بھی دکھانا ہے۔

اس کے علاوہ سرور کائنات کے ساتھ والہانہ عقیدت اور ایمانی محبت یہ ہے کہ آپ کے والدین اور آباؤ اجداد کے ادب و احترام کا التزام رکھا جائے۔

آخر میں اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں حقیقی معنوں میں عشق حقیقی عطا فرمائے۔ آمین 


قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِؕ- (پ 2، البقرۃ: 165) ترجمہ کنز الایمان: اور ایمان والوں کو اللہ کے برابر کسی کی محبت نہیں۔

اللہ تعالیٰ کے مقبول بندے تمام مخلوقات سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں۔ محبت الہی میں جینا اور محبت الہی میں مرنا ان کی مرنا ان کی حقیقی زندگی ہوتا ہے۔ اپنی خوشی پر اپنے رب کی رضا کوترجیح دینا نرم وگداز بستروں کو چھوڑ کر بارگاہ نیاز میں سر بسجو دہونا، یاد الہی میں رونا، رضائے الہی کے حصول کیلئے تڑپنا سردیوں کی طویل راتوں میں قیام اور گرمیوں کے لمبے دنوں میں روزے، اللہ تعالی کیلئے محبت کرنا، اس کی خاطر دشمنی رکھنا، اس کی خاطر کسی کو کچھ دینا اور اس کی خاطر کسی سے روک لینا نعمت پر شکر، مصیبت میں صبر، ہر حال میں خدا پر توکل، اپنے ہر معاملے کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دینا، احکام الہی پر عمل کیلئے ہمہ وقت تیار رہنا، دل کو غیر کی محبت سے پاک رکھنا، اللہ تعالیٰ کے محبوبوں سے محبت اور اللہ تعالیٰ کے دشمنوں سے نفرت کرنا، اللہ تعالیٰ کے پیاروں کا نیاز مندر ہنا اللہ تعالیٰ کے سب سے پیارے رسول ومحبوب ﷺ کو دل و جان سے محبوب رکھنا، اللہ تعالیٰ کے کلام کی تلاوت، اللہ تعالیٰ کے مقرب بندوں کو اپنے دلوں کے قریب رکھنا، ان سے محبت رکھنا محبت الہی صحبت اختیار کرنا، الله تعا کرنا اللہ تعالیٰ کی تعظیم سمجھتے ہوئے ان کی تعظیم کرنا، یہ تمام امور اور ان کے علاوہ میں اضافے ضافے کیلئے ان کی سینکڑوں کام ایسے ہیں جو محبت الہی کی دلیل بھی ہیں اور اس کے تقاضے بھی ہیں۔

محبت اور عشق میں فرق: محبت و عشق دل اگر کسی کی جانب مائل ہو جائے تو اسے محبت کہا جاتا ہے اور یہی محبت اگر شدت اختیار کرلے تو عشق کہلاتی ہے۔ عشق دو طرح کا ہوتا ہے: مجازی اور حقیقی۔ عشق مجازی اکثر راہ دوزخ پر لے جاتا جبکہ عشق حقیقی شاہراہ جنت پر گامزن کرتا ہے، عشق مجازی تباہ و برباد کرتا ہے اور عشق حقیقی شاد و آباد کرتا ہے۔ عشق حقیقی میں بڑی قوت ہوتی ہے، یہ کبھی سخت طوفان کا سامنا کرتا، کبھی فرعون کا مقابلہ کرتا، کبھی حکم الہی پر قربانی کے لئے سر رکھ دیتا اور کبھی بے خطر آگ میں کود پڑتاہے جبکہ عقل تکتی رہ جاتی ہے۔

بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی

سرکار کے پسینے سے صحابیات کی محبت:خادم رسول حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: حضور خاتم المرسلین ﷺ ہمارے یہاں تشریف لائے اور قیلولہ فرمایا، حالت خواب میں حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا نے ایک شیشی لی اور رسول کریم ﷺ کا پسینہ مبارک اس میں ڈالنا شروع کر دیا۔ جب آپ بیدار ہوئے تو دریافت فرمایا: اے ام سلیم ! یہ کیا کر رہی ہو ؟ انہوں نے عرض کی: یہ آپ کا پسینہ ہے ہم اس کو اپنی خوشبو میں ڈالتی ہیں اور یہ سب خوشبوؤں سے عمدہ خوشبو ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت ام سلیم نے عرض کی: یارسول اللہ! ہم اپنے بچوں کے لیے آپ ﷺ کے پسینہ مبارک سے برکت کی امید رکھتے ہیں۔ تو آپ نے ارشادفرمایا: تم ٹھیک کرتی ہو۔ (مسلم، ص 913، حدیث: 2341)

عشق حقیقی سے مراد: عشق حقیقی سے مراداللہ و رسول کی محبت کامل ہے، یہ دولت بے بہا جس کے خزانہ دل میں جمع ہوجاتی ہے اسے فانی کائنات سے بیگانہ کردیتی ہے، وہ ہمہ وقت محبوب کے تصوروجلوؤں میں گم رہتا ہے اور محبت ومعرفت کی لذت میں کھو کردنیا سے کنارہ کش ہوجاتا ہے،پھر وہ محبوب کی سنتا، محبوب کی مانتا اور اسی کی چاہت پر چلتا ہے حتی کہ محبوب کے نام پر جان تک قربان کردیتا ہے۔

عشق الٰہی کے بعد سب سے بڑی نعمت عشق رسول ہے اور حقیقت یہ ہے کہ عشق رسول کے بغیر بندۂ مومن کا گزارا ہوہی نہیں سکتا۔مومن تبھی کامل مومن ہوتا ہے جب وہ ساری کائنات سے بڑھ کر سرور کائنات ﷺ سے محبت کرے۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی اس وقت تک کامل مومن نہ ہو گا جب تک کے میں اسے اس کے باپ اسکی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔ (مسلم، ص 47، حدیث: 169)

کی محمد سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا لوح وقلم تیرے ہیں

عشق رسول کے نتیجے میں کوئی صدیق اکبر،کوئی فاروق اعظم،کوئی غنی وباحیا اورکوئی شیرخدا ومشکل کشا بن گئے، الغرض اس نعمت عظمٰی کی بدولت ہرصحابی آسمان ہدایت کا درخشندہ ستارہ بن گیا۔ عشق رسول انسانوں تک محدود نہیں عشق رسول سے نہ صرف انسان مزین وآراستہ ہوئے بلکہ دیگر مخلوقات بھی روشن ومنور ہوئیں،کتب احادیث و سیرت کے مطالعہ سے یہ بات عیاں ہے کہ جن وانس ہوں یاحوروملک،شجر و حجرہوں یاچرندوپرند،چوپائے ہوں یا حشرات الارض الغرض مخلوق میں عاشقان رسول کی طویل فہرستیں ہیں،محبت رسول کے ایمان افروز واقعات ہیں،الفت رسول کی لازوال داستانیں ہیں اورچاہت رسول کی خوبصورت یادیں ہیں۔

عاشق رسول کی چند نشانیاں: عاشق رسول کی کچھ علامات ونشانیاں ہوتی ہیں،ہمیں اپنے اندر ان نشانیوں کو تلاش کرنا چاہیے،وہ یہ ہیں: (1)عاشق رسول اپنے محبوب اعظم ﷺ کی بے انتہا تعظیم وتکریم کرتا ہے(2)وہ رسول اکرم ﷺ کا ذکر کثرت سے کرتا ہے(3)وہ ان پر بکثرت درود وسلام پڑھتا ہے (4)وہ اپنے رسول کریم ﷺ کی شان وعظمت سن کر خوش ہوتا ہے اور چاہتا ہے کہ مزید شان سامنے آجائے (5)وہ اپنے مقدس ومطہر نبی ﷺ کا عیب سننا ہرگز گوارا نہیں کرتا ہے کیونکہ جب عیب زدہ محبوب کا عیب لوگ نہیں سنتے تو پھر جو ہستی ہر طرح کے ظاہری وباطنی عیب سے منزّہ وپاک ہو تو اس کا عیب کیسے سنا جاسکتا ہے(6)وہ اپنے محبوب کریم ﷺ سے ملاقات کا شوق رکھتا ہے(7)عاشق رسول اپنے محبوب رسول کریم ﷺ کی اطاعت واتّباع کرتا ہے۔ حرف آخر یہ ہے کہ جس مسلمان کے دل میں عشق رسول کی شمع روشن ہوجاتی ہے،وہ محبت رسول کے جام پی لیتا ہے شب وروز اسی محبت میں گزارتا ہے اورعشق رسول کی لازوال لذت سے آشنا ہوجاتا ہے تو پھر وہ بقول اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان وہ اپنی زبان سے یہی کہتا نظر آئے گا:

جان ہے عشق مصطفے روز فزوں کرے خدا جس کو ہو درد کا مزہ وہ ناز دوا اٹھائے کیوں

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں صحیح معنوں میں پیارے پیارے آقا ﷺ کا عشق حقیقی عطا فرمائے۔ آمین