جان ہے عشق مصطفی روز فزوں کرے خدا                                   جس کو ہو درد کا مزہ ناز دوا اٹھائے کیوں

محبت اس کیفیت اور جذبے کا نام ہے جو کسی پسندیدہ شے کی طرف طبعیت کے میلان کو ظاہر کرتا ہے اگر یہ میلان شدت اختیار کر جائے تو اسے عشق کہتے ہیں۔

لسان العرب میں عشق کا مطلب یہ مذکور ہے کہ یعنی محبت میں حد سے تجاویز کرنا عشق ہے۔ امام احمد رضا خان عشق کی تعریف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: محبت بمعنی لغوی جب پختہ اور موکدہ ہو جائے تو اسی کو عشق کا نام دیا جاتا ہے۔ (فتاوی رضویہ 15/21 ملتقطا)

عشق کا لفظ اس کائنات میں ہے ہی حضور پاک ﷺ کی ذات کے لیے اور کوئی ذات ہی نہیں جس سے عشق کیا جاسکے۔ اس قابل ہی نہیں کوئی ذات جس سے عشق و محبت کیا جا سکے۔ حقیقی محبت ہوتی ہی اللہ پاک اور اس کے محبوب ﷺ سے ہے۔ کسی عاشق نے کیا خوب فرمایا: عشق کرنا ہے تو بغیر دیکھے بغیر سمجھے بغیر کسی دلیل کے کرو کیونکہ عشق کبھی عقل سے نہیں ہوتا عشق ایسے کرنا چاہیے کہ دیکھنے والا کہے دیوانہ جارہا ہے اگر آپ کے لیے کوئی یہ الفاظ بولے تو سمجھ لیں آپ کو عشق حقیقی حاصل ہو گیا ہے۔

اعلی حضرت کے عشق کا کیا کہنا ہے خود فرماتے ہیں: اگر میرے دل کے دو ٹکڑے کیے جائیں تو ایک میں اللہ تعالیٰ اور دوسرے میں حضور پاک ﷺ کا نام مبارک لکھا ہوگا۔ یعنی ان کے نزدیک عشق کرنے کے لیے صرف دو ہی ذات ہیں اللہ پاک اور اس کے محبوب ﷺ اسی طرح عشق صحابہ کے بھی کیا کہنے! جب غزوہ احد میں شیطان نے بے پر کی یہ خبر اڑا دی کہ سرور کائنات ﷺ شہید ہوگئے ہیں جب یہ ہولناک خبر مدینہ منورہ میں پہنچی تو وہاں کی زمین ہل گئی یہاں تک کہ وہاں کی پردہ نشیں عورتوں کے دل و دماغ میں صدمات غم کا بوچھال آگیا۔

انصاری صحابیہ عشق رسول سے سر شار میدان جنگ کی طرف روانہ ہوئیں گھر سے نکل کے راستے میں انہیں دل لرزا دینے والے مناظر کا سامنا کرنا پڑا، کہیں بھائی اور بیٹے کے لاشے کو دیکھا تو کہیں شوہر اور باپ کی میت پڑی دیکھی مگر وہ عاشقہ صحابیہ بغیر پروا کیے آگے بڑھتی جاتیں اور یہی پوچھتی جاتیں، میرے محبوب میرے آقا و مولا کیسے ہیں؟ آپ کے بخیر و عافیت کی خبر ملنے کے باوجود وہ رکی نہیں بلکہ آگے بڑھتی رہیں اور آخر کارجب رخ انور پر نظر پڑی تو بے قرار ہو کر فرط محبت میں دامن مصطفے کو تھام لیا اور عرض کرنے لگیں: اے اللہ کے رسول ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ! جب آپ سلامت ہیں تو مجھے کسی اور کی کوئی پروا نہیں ہے۔ (سیرت ابن ہشام، 3/86)

تسلی ہے پناہ بیکراں زندہ سلامت ہے کوئی پروا نہیں سارا جہاں زندہ سلامت ہے

الله اکبر!قربان جائیں صحابہ کرام اور صحابیات کے عشق مصطفی پر یہ عشق جس کو نصیب ہو جائے! ہمارے اولیائے کرام کا عشق کیا کہتا ہے امام احمد رضا نے عشق کیا تو ہر طرف عشق محبت عشق محبت اعلی حضرت، اعلیٰ حضرت کے نعرے لگ رہے ہیں، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عشق کیا تو لوگ ان کو عاشق اکبر کہہ کر پکارتے ہیں اور پھر بات کی جائے بانی دعوت اسلامی حضرت علامہ محمد الیاس عطار قادری کی تو پوری دنیا میں ان کے عشق رسول کے ڈنکے بج رہے ہیں اور بات ان پر ختم نہیں ہوتی اگر حضور سے محبت کرنے والوں کی بات جائے تو ان میں ایک نام علامہ حافظ خادم حسین رضوی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی ہے جنہوں نے نہ صرف خود حضور سے ٹوٹ کر محبت کی بلکہ کئیوں کو عشق رسول کی راہ پر گامزن کیا اسی وجہ وہ قاسم عشق مصطفیٰ بن گئے!

اے کاش! بزرگوں کے عشق کا ایک قطرہ ہمیں بھی نصیب ہوجائے۔ آمین کسی عاشق رسول نے فرمایا کہ حضور ﷺ سے وفا و عشق ایسے کرنا چاہیے کہ جب انسان اس دنیا فانی سے جائے تو یوں آواز آئے فرش والے ایسے فرمائیں:

جب روح میرے پیراہنِ خاکی سے نکلی تو روضے سے آواز آئی لو میرا فقیر آیا

حضور پاک ﷺ سے محبت ایسے کرنی چاہیے کہ قبر میں جب فرشتے کچھ پوچھیں تو حضور خود ہی فرما دیں جانے دو یہ اپنا ہی ہے۔

حضور پاک ﷺ سے محبت کرنا ہم پر واجب ہے بلکہ اس بارے میں امت کا کوئی اختلاف نہیں ہے اور یہ بات ضروری ہے کہ ان کی محبت محبوب کی محبت پر مقدم ہو۔

ثابت ہوا کہ جملہ فرائض فروع ہیں اصل الاصول بندگی اس تاجور کی ہے۔