١:رسول پاک صلی الله  علیہ و سلم نے فرمایا :جس کی نماز فوت ہوئی تو گویا اس کے اہل و مال جاتے رہے۔ (بخاری جلد ٢ صفحہ ١٠٥،بہار شریعت جلد ١ صفحہ ٤٤١)

ایک اور حدیث میں ہے :جس کی نماز ِعصر جاتی رہی گویا اس کا گهر بار اور مال لٹ گیا ۔

(بخاری جلد ١ صفحہ ٢٠٢ حدیث ٥٥٢مراة المناجیح جلد ١ صفحہ ٣٨)

٢:فرمان مصطفى صلی الله علیہ و سلم :نماز دین کا ستون ہے،جس نے نماز ترک کی اس نے دین کو گرا دیا۔(احیا ء العلوم جلد ١ صفحہ ٢٠١)

٣:مفتی سید عبد الفتاح قادری رحمۃ اللہ علیہ (وفات ١٣٢٣ہجری)فرماتے ہیں: ہمیشہ نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنے سے نیک بختی اور تو نگری (دولت مندی)کی برکت حاصل ہوتی ہے۔بد بختی اور مفلسی (غربت)دور بھاگتی ہے اور جماعت کو ترک کرنے نیز بالکل نماز نہ پڑھنے سے اس کی برکت ختم ہو جاتی ہے۔

٤:امیر المؤمنین حصرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی پاک صلی الله علیہ و سلم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: جس نے جان بوجھ کر نماز چھوڑی الله پاک اس کے عمل برباد کر دے گا اور الله پاک کا ذمہ اس سے اٹھ جائے گا جب تک الله پاک کی بارگاه میں توبہ نہ کرلے۔ (الترغیب والترغیب جلد ١ صفحہ ٢١٦حدیث ١٨)

٥:الله پاک نے حضرت سید داؤد علیہ السلام کو وحی فرمائی :

اے داؤد! بنی اسرائیل سے کہو :جس نے ایک نماز بھی چھوڑی وه مجھ سے اس حال میں ملے گا کہ میں اس پر غضب فرماؤں گا ۔(انوار ِجمال مصطفى صفحہ ٣٤٥)

الحمدلله !نماز ایک عظیم نعمت ہے ۔جو پابندی سے پڑھے گا جنت کا حقدارہو گا اور جو فرض نمازیں نهیں پڑھے گا دوزخ کا حقدار بنے گا۔

الله پاک فرماتا هے: فَخَلَفَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوةَ وَ اتَّبَعُوا الشَّهَوٰتِ فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّا ترجَمۂ کنزُالایمان: تو ان کے بعد ان کی جگہ وہ ناخلف آئے جنہوں نے نمازیں گنوائیں(ضائع کیں)اور اپنی خواہشوں کے پیچھے ہوئے تو عنقریب وہ دوزخ میں غیّ کا جنگل پائیں گے ۔ (پ16،مریم: 59)

بیان کردہ آیتِ مبارکہ میں غی کا تذکره ہے۔ حصرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: غی جھنم میں ایک وادی ہے جس کی گرمی اور گہرائی سب سے زیاده ہے ۔ اس میں ایک کنواں ہے اس کا نام ہب ہب ہے۔جب جھنم کی آگ بجھنے پر آتی ہے، الله پاک اس کنویں کو کھول دیتا ہے جس سے وه بدستور (پہلے کی طرح) بھڑکنے لگتی ہے۔

الله پاک فرماتا ہے:جب بجھنے پرآئے گی ہم اور بھڑک زیاده کریں گے۔

یہ کنواں بے نمازیوں اور زانیوں اور شرابیوں اور سود خوروں اور ماں باپ کو ایذادینے والوں کے لیے ہے۔

مکی مدنی آقا صلی الله علیہ و سلم نے فرمایا :جس نے فرض نمازیں بغیر عذر کے چھوڑیں تو اس کا عمل ضائع ہوگیا۔(مصنف ابن ابی شیبہ، ج8، ص223،حدیث 29)

بے نمازی کی عمر سے برکت ختم کر دی جاے گی،اس کی دعا آسمان تک نہ پہنچے گی اور نیک بندوں کی دعاؤں میں اس کا کوئی حصہ نہ ہو گا۔


اللہ عَزَّ وَجَلَّکا کروڑہاکروڑ احسان ہے کہ اس نے ہم پر دن میں پانچ مرتبہ اپنی بارگاہ میں نماز کے ذریعے حاضری کا شرف بخشا۔ لیکن بدقسمتی کہ اِن سنہری مواقع کو ضائع کر کے رب عزّوجل کا قرب پانے کے بجائے لوگوں نے اسکی ناراضگی کو مول لیا ۔ یقیناً نماز نہ پڑھنے کی وعیدات کثرت سے پائی جاتی ہیں ۔ جبکہ دنیاوی نقصانات کی بھی ایک طویل فہرست ہے۔ چند ایک دنیاوی نقصانات پرروشنی ڈالی جاتی ہے۔

(1)نظم و ضبط سے محرومی :

باجماعت نماز ادا کرنے کے خاصیات میں سے ایک اہم ترین خاصہ نظم و ضبط ہے۔ کہ جب تمام مقتدی ایک امام کے پیچھے شروع تا آخر مل کر نماز ادا کرتے ہیں تو دیکھنے اور عمل کرنے والے دونوں کو نظم و ضبط کا بہترین درس ملتا ہے ۔ لیکن نماز سے دور رہنے سے ممکن ہے کہ زندگی سے نظم و ضبط دور ہو جائے اور زندگی کا ہر پہلو بے ترتیب نظر آئے ۔

(2) تکبّر :

با جماعت نماز ادا کرنے کا ایک سب سے بڑا فائدہ تکبّر کا خاتمہ بھی ہے کہ ایک ہی صف میں امیروغریب دونوں ساتھ کھڑے ہوتے ہیں تو دل و دماغ سے یہ خیال بھی دور ہوتا ہے کہ میں امیر ہوں مجھے سب سے آگے اورالگ کھڑا کیا جائے بلکہ سب کندھے سے کندھا ملائے ایک صف میں کھڑے ہوتے ہیں ۔ لیکن بے نمازی اس عظیم درس سے محروم اور تکبّرانہ زندگی گزارنے میں مصروف غفلت کی چادر اوڑھے رہتا ہے۔

( 3) وقت کی لا پرواہی : نماز وقت پرادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے گویا یہ سمجھانا مقصود ہے کہ اپنا ہر کام مقرّرہ وقت پر کیا جائے ۔ اسی لیے نمازی اپنی روزمرّہ زندگی کو نماز کے اوقات کے ساتھ مرتّب کرتا ہے ۔ مثلًا ظہر کے بعد فلاں کام کرنا ہے ، عصر کے بعد فلاں جگہ جانا ہے وغیرہ ۔ لیکن بےنمازی کو نقصان کا ایک خدشہ یہ ہوسکتا ہے کہ وہ وقت کی پابندی نہ کر سکے اور زندگی کے معاملات عجیب و غریب ترتیب پر ہوں ۔

(5) ۔حقوق العباد میں کوتاہی : نماز خالصًا رب تعالٰی کی رضا پانے کے لیے ادا کی جاتی ہے اور حقوق اللہ میں سے ایک حق نماز بھی ہے۔ لیکن جو شخص حقوق اللہ ادا نہ کرتا ہو بھلا وہ حقوق العباد کیسے ادا کرے گا ؟ ایسے شخص پربھروسہ کرنا بھی مشکل اور ممکن ہے کہ بے نمازی حقوق العباد میں کوتاہی کے سبب دنیا والوں کے سامنے بھی برا ہو جائے اور آخرت کا معاملا بھی برا ہو ۔

(5) ۔بیماریوں کا خدشہ : نماز ادا کرنے کے لیے وضو لازم ہےاور وضو کرنا جسمانی بیماریوں کے خاتمے کا سبب ہے ۔ مثلًا ہائی بلڈ پریشر، ڈپریشن ، فالج ، پاگل پن ، جلد کی بیماریاں، آنکھ کی بیماریاں وغیرہ ۔ جو شخص نماز کا تارک ہو تو خدشہ ہے کہ وہ وضو جیسے بابرکت عمل سے محروم ہونے کی وجہ سے مختلف امراض میں مبتلا ہو جاۓ۔ اسی لیے بلاشبہ یہ بھی نماز نہ پڑھنے کا ایک دنیاوی نقصان ہے۔


تمام تعریفیں تمام اوقات میں تمام کرنے والوں کی اس اللہ کے لیے ہیں جس نے ہم پر نماز فرض کی

نماز دین کی بنیادوں میں سے ایک بنیاد ہے اور نماز ہر عاقل بالغ مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔

نماز کی فرضیت کا انکار کرنے والا دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے

اگر کوئی شخص نماز کی فرضیت کا اقرار کرتا ہے لیکن نماز ادا نہیں کرتا تو وہ دائرہ اسلام سے خارج تو نہیں ہوگا البتہ گنہگار ہوگا ۔

جہاں احادیث میں نماز پڑھنے کی فضیلت بیان کی گئی ہے وہیں نماز نہ پڑھنے کی وعیدیں بھی بیان کی گئیں ہیں ۔آئیے نماز نہ پڑھنے کے بارے میں چند وعیدیں سنتے ہیں اور نیت کرتے ہیں کہ آئندہ کبھی نماز نہیں چھوڑیں گے

فرامین ِمصطفی صلی اللہ علیہ و سلم:

1)سب سے پہلے قیامت کے دن بندے سے نماز کا حساب لیا جائے گا،اگر یہ درست ہوئی تو باقی اعمال بھی ٹھیک رہیں گے اور یہ بگڑی تو سبھی بگڑے۔

(معجم اوسط ج١ ص۵٠۴ حدیث١٨۵٩)

2)جو جان بوجھ کر ایک نماز چھوڑ دیتا ہے اس کا نام جہنم کے اس دروازے پر لکھ دیا جاتا ہے جس سے وہ داخل ہوگا(حلیة الاولیاء ج٧ ص ٩٩٢ حدیث ١٠۵٩٠)

3)جس نے فرض نمازیں بغیر عذر کے چھوڑیں تو اس کا عمل ضائع ہوگیا۔

(مصنف ابن ابی شیبہ ج٧ ص٢٢٣ حدیث۴٩)

4)جس کی امانت نہیں اس کا کوئی ایمان نہیں،جس کی طہارت نہیں اس کی کوئی نماز نہیں،اور جس کی نماز نہیں اس کا کوئی دین نہیں کیونکہ دین میں نماز کا وہی مقام ہے جو بدن میں سر کا۔(معجم اوسط ج١ ص٦٢٦ حدیث٢٢٩٢)

5)جس کی نماز نہیں اس کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں۔

(مسند بزار ج١۵ ص١٧٦ حدیث٨۵٣٩)

نماز نہ پڑھنے کے کچھ دنیوی نقصانات بھی ہیں آئیے ان کے بارے میں کچھ سنتے ہیں۔

1) بے نمازی کا جسم کمزور ہوجاتا ہے۔

2) بے نمازی کے مال میں بے برکتی ہوتی ہے۔

3)بے نمازی بے حیائی اور دیگر گناہوں میں مبتلا ہوجاتا ہے۔

4)بے نمازی کبھی بھی قلبی سکون نہیں پاسکتا۔

5)بے نمازی پر معاشرہ اعتبار نہیں کرتا۔


ترک نماز پر قرآنی وعیدیں قرآن کریم اور احادیث کریمہ میں جہاں نماز کی فضیلتیں بیان ہوئی  ہیں وہیں نماز چھوڑنے پر سخت وعیدیں بھی سنائی گئیں ہیں ۔ ا ﷲ پاک ارشاد فرماتا ہے کہ جہنمیوں سے پوچھا جائے گا: مَا سَلَكَكُمْ فِیْ سَقَرَ ترجمۂ کنزالایمان:تمہیں کیا بات دوزخ میں لے گئی۔ تو وہ جواب دیں گے:قَالُوْا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَ ترجمۂ کنزالایمان:وہ بولے ہم نماز نہ پڑھتے تھے۔ ۲۹، سورۂ مدثر آیت :29)

اس آیت سے بے نمازی سبق حاصل کریں کہ کہیں وہ بھی نماز نہ پڑھنے کی وجہ سے جہنم کے مستحق ہو جائیں۔

دوسری جگہ اﷲ پاک ارشاد فرماتا ہے:فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِھِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوْاالصَّلوٰۃَ وَاتَّبَعُوْالشَّھَوَاتِ فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیّاً ترجمہ کنز الایمان: تو ان کے بعد ان کی جگہ وہ ناخلف آئے جنھوں نے نمازیں گنوائیں اور اپنی خواہشوں کے پیچھے ہوئے تو عنقریب وہ دوزخ میں غی کا جنگل پائیں گے ۔ (پ ۱۶، سورۂ مریم آیت۵۹)

غی کیا ہے؟ حضرت ابن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنھما سے مروی ہے کہ غی جہنم میں ایک وادی ہے جس کی گرمی سے جہنم کے اور وادی بھی پناہ مانگتے ہیں (خزائن العرفان)

حضرت صدر الشریعہ رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :غی جہنم میں ایک وادی ہے جس کی گرمی اور گہرائی سب سے زیادہ ہے ، اس میں ایک کنواں ہے جس کا نام ہب ہب ہے ،جب جہنم کی آگ بجھنے پر آتی ہے ، اﷲ تعالیٰ اس کنویں کو کھول دیتا ہے جس سے وہ بدستور بھڑکنے لگتی ہے

(بہار شریعت حصہ سوم)

فرمان الٰہی ہے : فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ الَّذِیْنَ ھُمْ عَنْ صَلَاتِھِمْ سَاھُوْنَ ترجمہ کنز الایمان: تو ان نمازیوں کی خرابی ہےجو اپنی نماز سے بھولے بیٹھے ہیں ۔۳۰، سورۂ ماعون آیت ۳) (یعنی جو لوگ نماز کو ان کے اوقات سے مؤخر کر کے پڑھا کرتے ہیں )

ویل کیا ہے؟ ویل جہنم کی ایک وادی کانام ہے اگر اس میں دنیا کے پہاڑ ڈالے جائیں تو وہ بھی اس کی شدید گرمی کی وجہ سے پگھل جائیں، اور یہ وادی ان لوگوں کا مسکن ہے جو نمازوں میں سستی کرتے ہیں اور ان کو ان کے اوقات سے مؤخر کر کے پڑھتے ہیں۔

(مکاشفۃ القلوب اردو ص۳۴، مطبوعہ کتب خانہ امجدیہ،دہلی)

ترک نماز پر ترہیبی حدیثیں:۔

نماز چھوڑنے پر وعیدوں کے بارے میں بہت سی احادیث کریمہ وارد ہیں مختصراً یہاں چند احادیث کریمہ پیش کی جارہی ہیں۔

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس کی نماز فوت ہو گئی گویا اس کے اہل وعیال جاتے رہے ۔(بخاری شریف)

ابو سعید خدری رضی ا ﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :جس نے قصداً نماز چھوڑی جہنم کے دروازے پر اس کا نام لکھ دیا جاتا ہے (ابو نعیم)

معلم انسانیت رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن سب سے پہلے تارکین نماز کے منھ کالے کئے جائیں گے اور جہنم میں ایک وادی ہے جسے لملم کہا جاتا ہے اس میں سانپ رہتے ہیں ہر سانپ اونٹ جتنا موٹا اور ایک ماہ کے سفر کے برابر طویل ہوگا وہ بے نمازی کو ڈسے گااور اس کا زہر ستّر سال تک بے نمازی کے جسم میں جوش مارتا رہے گا، پھر اس کا گوشت گل جائے گا (مکاشفۃ القلوب اردو ص۴۰۴)

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن نماز کا تذکرہ کیا اور فرمایا: جس نے ان نمازوں کو پابندی سے ادا کیا ، وہ نماز اس شخص کے لئے قیامت کے دن نور،حجت اور نجات ہوگی اور جس شخص نے نمازوں کو ادانہ کیا، قیامت کے دن اس کے لئے نماز حجت ،نور اور نجات نہ ہوگی اور وہ قیامت کے دن قارون، فرعون،ہامان اور ابی بن خلف کے ساتھ ہوگا (مسند احمد بن حنبل)

حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ مکاشفۃ القلوب میں اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں : ان لوگوں کے ساتھ تارک نماز اس لئے اٹھا یا جائے گا کہ اگر اس نے اپنے مال و اسباب میں مشغولیت کی وجہ سے نماز نہیں پڑھی تو وہ قارون کی طرح ہو گیااور اسی کے ساتھ اٹھایا جائے گا، اگر ملک کی مشغولیت کی وجہ سے نماز نہیں پڑھی تو وہ فرعون کی طرح ہے اور اسی کے ساتھ اٹھایا جائے گا ، اگر وزرات کی مشغولیت نماز سے مانع ہوئی تو وہ ہامان کی طرح ہے اور اسی کے ساتھ اٹھایا جائے گا، اگر تجارت کی وجہ سے نماز نہیں پڑھی تو وہ ابی بن خلف تاجر مکہ کی طرح ہے اور اسی کے ساتھ اٹھایا جائے گا (مکاشفۃ القلوب اردو ص۳۹۳)


مسلمانوں کی چودہ سو سالہ تاریخ بتاتی ہے کہ ہم عزت وعظمت اور شان وشوکت کے تنہا مالک تھے مگر اب آہ! مسلمانوں کی حالتِ زار ہمارے سامنے ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ نمازی تھے اور ہماری اکثریت بے نمازی ، وہ سنت کے دیوانے تھے اور ہم فیشن کے مستانے ، وہ خود بھی نیکیاں کرتے اور دوسروں تک بھی نیکی کی دعوت پہنچاتے تھے جبکہ ہم نہ صرف خود گناہ کرتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی گناہوں کے اسباب مہیا کرتے ہیں ، وہ اسلام کی سر بلندی کی خاطر راہِ خدا میں سفر کرتے جبکہ ہم محض مالِ دنیا کی جستجو میں دور دراز کے سفر اختیار کرتے ہیں ، انہیں نیکیاں کمانے کی جستجو جبکہ ہمیں مال کمانے کی آرزو ۔ جو اسلام ہمیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اولیائے کرام کی بے شمار قربانیوں کے بعد نصیب ہوا ہے ، افسوس صد افسوس ! اس کی ترقی واشاعت کی ہمیں بالکل فکر نہیں۔ آج مسلمان ترکِ نماز اور دیگر گناہوں پر دلیر ہوچکا ہے ، مسجدیں ویران اور گناہوں کے اڈے آباد ہیں ، ہر طرف غفلت کا دور دورا ہے ۔

’’تفسیر صراط الجنان ‘‘ جلد 6 صفحہ 263 پر ہے :جیسے گناہ کا عذاب دنیا و آخرت میں پڑتا ہے یونہی نیکی کا فائدہ دونوں جہان میں ملتا ہے ۔ جو مسلمان پانچوں نمازیں پابندی سے جماعت کے ساتھ ادا کرے اسے رزق میں برکت ، قبر میں فراخی نصیب ہوگی اور پل صراط پر آسانی سے گزرے گا اور جو جماعت کا تارک ہو گا اس کی کمائی میں برکت نہ ہوگی، چہرے پر صالحین کے آثار نہ ہوں گے ، لوگوں کے دلوں میں اس سے نفرت ہوگی، پیاس و بھوک میں جان کنی اور قبر کی تنگی میں مبتلا ہوگا اور ا س کا حساب بھی سخت ہوگا۔

صحت وتندرستی کے باوجود نماز نہ پڑھنے والے کے لئے اللہ پاک نے جو عذاب تیار کر رکھے ہیں ان کے بارے میں ایک روایت میں ہے :

حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں: اللہ کے محبوب، دانائے غیوب، منزّہٌ عنِ العُیُوب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا فرمانِ عالی شان ہے: کافر اور مؤمن کے درمیان فرق نماز چھوڑنا ہے، تندرستی کے باوجود نماز ترک کرنے والے کو اللہ پندرہ قسم کے عذابات میں مبتلا فرمائے گا ۔

ان میں سے چھ عذاب دنیا میں،تین موت کے وقت، تین قبرمیں اور تین اللہ پاک سے ملاقات کے وقت ملیں گے۔

دنیا میں ملنے والے عذاب یہ ہیں:(۱)اللہ پاک اس کی عمر سے بر کت اٹھالے گا (۲)اللہ پاک اس کے رزق سے بر کت اٹھالے گا (۳)اس کے چہرے سے بھلائی کا نور مٹ جائے گا (۴)اس کا کوئی نیک عمل قبول نہ ہوگا(۵) اس کی کوئی دعا قبول نہ ہوگی(۶) اس کا اسلام میں کوئی حصہ نہ ہوگا ۔

عرض کی گئی:یا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم موت کے وقت ملنے والے عذاب کون سے ہیں ؟ فرمایا :ذلیل ورسوا ہو کر مر ے گا، یہ معلوم نہ ہوگا کہ کس دین پرمرا ہے ، بھوکا پیاسا مرے گا اگر اسے تمام دریا ؤں کا پانی بھی پلادیا جائے تب بھی سیراب نہ ہوگا۔ ( یہاں صرف دنیا اور موت کے وقت کے عذابات کو ذکرکیا گیا ہے )، (آنسؤوں کا دریا ، صفحہ ۲۹۴ )

مفتی سیّد عبد االفتّاح رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ہمیشہ نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنے سے نیک بختی اور تونگری ( یعنی دولت مندی )کی برکت حاصل ہوتی ہے ، بد بختی اور مفلسی دور بھاگتی ہے اور جماعت کو ترک کرنے نیز بالکل نماز نہ پڑھنے سے برکت ختم ہو جاتی ہے ۔ (فیضان نماز ،ص ۴۴۳ )


نماز رب کا انعام معراج کا تحفہ دین کا ستون جنت کی کنجی اور قلبی سکون کا ذریعہ ہے ۔قرآن پاک میں الله پاک کا ارشاد رحمت بنیاد ہے: اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَىٕنُّ الْقُلُوْبُؕ(۲۸) ترجمہ کنزالعرفان:سن لو اللہ کی یادسے ہی دل چین پاتے ہیں۔(پارہ13 ،سورۃ الرعد آیت: 28)

اللہ تعالیٰ کی سب سے بہترین یاد نماز ہے۔جو تمام مخلوقات خدا کی عبادات کا مجموعہ ہے نماز میں ذکر باللسان ذکربالقلب اور ذکر بالجوارح تینوں ہیں ۔نماز نہ پڑھنا دنیا آخرت میں خسارے کا سبب ہے۔

نماز نہ پڑھنے کے دنیوی نقصانات:

(1)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی الله تعالیٰ عنہم سے ارشاد فرمایا :دعا کرو

اے اللہ ہم میں بدبخت اور محروم شخص کو نہ رہنے دینا ۔ پھر ارشاد فرمایا کیا تم جانتے ہو بدبخت اور محروم کون ہے ۔صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کی : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ کون ہے ؟فرمایا: نماز ترک کرنے والا-(الزواجر جلد 1 ص296)

2۔رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس کی ایک نماز فوت ہو گئی اس کے اہل اور مال میں کمی ہو گئی ۔(صحیح ابن حبان جلد 3 ص 14 حدیث: 1466)

(3) مفتی سید عبد الفتاح حسینی قادری رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں : جماعت کو ترک کرنے نیز بالکل نہ پڑھنے سے برکت ختم ہو جاتی ہے ۔(دولت بے زاول ص 20 )

(4) اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جس نے ایک نماز قصدا ً (جان بوجھ کر ) ایک وقت کی (نماز )چھوڑی ہزاروں برس جہنم میں رہنے کا مستحق ہوا ،جب تک توبہ نہ کر لے اور اس کی قضا نہ کر لے۔

مسلمان اگر اس کی زندگی میں اسے یک لخت (بالکل) چھوڑ دیں ، اس سے بات نہ کریں ، اس کے پاس نہ بیٹھیں ، تو ضرور وہ ( بے نمازی) اس (بائیکاٹ) کا سزاوار (لائق ) ہے ۔

(فتاوی جلد 9 ص 159، 158)

(5)نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا فرمانِ عبرت نشان ہے : جو سستی کی وجہ سے نماز چھوڑے گا اس کی عمر میں سے برکت ختم کر دی جائے گی ،اس کے چہرے سے نیک بندوں کی نشانی مٹا دی جائے گی ۔اللہ پاک اسے کسی عمل پر ثواب نہ دے گا ۔اس کی دعا آسمان تک نہ پہنچے گئی ۔ اور نیک بندوں کی دعاوں میں اس کا کوئی حصہ نہ ہو گا۔(کتاب الکبائر،ص24)

فقیہ ابو للیلث سمر قندی کی نقل کردہ کی روایت میں ہے :دنیا میں اس سے مخلوق نفرت کرے گی۔(نیکیوں کی جزائیں اور گناہوں کی سزائیں ،ص 14) ۔

توفیق دے اے الہی مجھے تو نماز کی

صدقے میں مصطفے کے بنے خُو نماز کی


اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:" نمازِ پنج گانہ( یعنی پانچ وقت کی نمازیں) اللہ پاک کی وہ نعمتِ عظمٰی ہے کہ اس نے اپنے کرمِ عظیم سے خاص ہم کو عطا فرمائی، ہم سے پہلے کسی اُمت کو نہ ملی، بے شک اللہ پاک نے نماز فرض کر کے ہم پر یقیناً احسانِ عظیم فرمایا ہے، ہم تھوڑی ہی کوشش کریں، نماز پڑھیں تو اللہ کریم ہمیں بہت سارا اَجر و ثواب عنایت فرماتا ہے، اللہ پاک نے قرآن مجید میں جا بجا نماز کی تاکید فرمائی ہے، سورۃ طہٰ آیت 14 میں ارشادِ ربّانی ہے: وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِیْ(۱۴) ترجمہ کنزالایمان : اور میری یاد کے لئے نماز قائم رکھ ۔(طہ : 14)

جس طرح نماز پڑھنے کےکئیں فوائدو فضائل ہیں اِسی طرح نماز نہ پڑھنے کے دنیا وی نقصانات بھی بہت سےہیں، یہ اللہ پاک کی نافرمانی اور اللہ پاک کی ناراضگی کا سبب بھی ہے ، نماز نہ پڑھنے کے چند دنیاوی نقصانات یہ بھی ہیں ۔

مخلوق کی نفرت کا سبب: اللہ پاک مخلوق کے دلوں میں بے نمازی کی نفرت پیدا کر دیتا ہے۔لوگ اس کی صحبت سے دُور رہتے اور اس کو ناپسند کرتے ہیں۔ (فیضان نماز ص 8)

رزق میں تنگی کا سبب : اللہ پاک بے نمازی کے رزق میں تنگی فرما دیتا ہے۔

(فیضان نماز ص 427)"

مفتی سید الفتاح قادری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جماعت کو ترک کرنا نیز بالکل نہ پڑھنے سے برکت ختم ہو جاتی ہے۔"(فیضان نماز ص 443)

دعا کی عدم قبولیت کا سبب: بے نمازی وقت کا پابند نہیں ہوتا اور اس کی زندگی میں بہت پریشانیاں زیادہ ہوتی ہیں، اور اس کی کوئی دعا آسمان تک نہیں پہنچتی، اللہ پاک اس کی دعائیں قبول نہیں فرماتا۔

عمر میں تنگی کا سبب:بے نمازی کی عمر میں برکت ختم کر دی جاتی ہے۔

نیک بندوں کی نشانی کے خاتمے کا سبب:اس کے چہرے سے نیک بندوں کی نشانی مٹا دی جاتی ہے اور نیک بندوں کی دعاؤں میں اس کا کوئی حصّہ نہیں ہوتا۔(فیضان نماز ص 426)

اس کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کی نماز فوت ہو گئی گویا اس کے اہل و مال جاتے رہے۔(فیضان نماز ص 431)

اور تو اور اللہ پاک بے نمازی کو کسی بھی نیک عمل پر ثواب نہیں دے گا۔

استغفراللہَ رَبِّی یہ لمحہ فکریہ ہے کہ جب دنیاوی طور پر نماز نہ پڑھنے کے اتنے نُقصانات ہیں تو اُخروی طور پر اس کے کتنے عذابات ونُقصانات ہوں گے؟آہ! اللہ کی پناہ۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں خُلوصِ نیّت، خشوع خضوع کے ساتھ وقت پر نماز پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْهِكُمْ اَمْوَالُكُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِۚ-وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ(۹) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو تمہارے مال نہ تمہاری اولاد کوئی چیز تمہیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کرے اور جو ایسا کرے تو وہی لوگ نقصان میں ہیں ۔

(پ28،المنافقون:9)

غنیۃ الطالبین میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جو شخص نماز کو سستی کی وجہ سے چھوڑے گا اللہ پاک اس کو پندرہ سزائیں دے گا ۔ان میں سے 5 دنیاوی سزائیں یہ ہیں:

1۔غافل نمازی کو صالحین کی فہرست سے خارج کر دیا جائے گا

2۔اس کی زندگی سے برکت دور کر دی جائے گی

3۔اس کا کوئی نیک عمل قبول نہیں کیا جائے گا

4۔اس کی دعا قبول نہیں ہوتی

5۔وہ نیکو ں کی دعاؤں سے محروم کر دیا جاتا ہے۔

اللہ پاک ہمیں نمازوں کو مقررہ اوقات میں پڑھنے کی سعادت عطا فرمائے۔


حضرت علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جو شخص نماز ترک کرتا ہے:

۱ -اسکی عمر سے برکت اٹھا لی جاتی ہے۔

۲-جو شخص نماز ترک کرتا ہے اس کے چہرے سے صالحین کا نور اٹھا لیا جاتا ہے۔

۳-جو شخص نماز ترک کرتا ہے اسکی دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔

۴- جو شخص نماز ترک کرتا ہے اسکا نیک لوگوں کی دعاؤں میں حصہ نہیں ہوتا۔

۵- جو شخص نماز ترک کرتا ہے نزع کے وقت وہ

1-بھوکا مرتا ہے

2-پیاسا مرتا ہے

3-ذلیل ہو کر مرتا ہے۔


نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صریحاً نماز ہی کو مسلمان اور کافر کے درمیان فارق متمیّز قرار دیا ہے:جس نے جان بوجھ کر نماز ترک کی ، اس نے گویا کفر کیا۔

(ترمذی شریف، باب ماجاءفی ترک الصلوۃ)

ایک اور مقام پر اسی مفہوم کی توضیح اس طرح فرمائی گئی ہے: ہمارے اور ان کے درمیان جو عہد ہے، وہ نماز ہے جس نے نماز کو ترک کیا گویا اس نے کفر کیا، (یعنی عہد سے منہ موڑ لیا)۔

(سنن نسائی، جلد 1 ، صفحہ 54 )

نماز اس قدر اہم عمل ہے کہ دنیا اور آخرت میں دین کا سارا دارومدار اسی پر ہے، اس سلسلے میں کوتاہی کرنے والے کی ہر دو مقامات پر سخت گرفت فرمائی جائے گی۔ نماز ادا نہ کرنے والوں کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اللہ پاک نے متعدد انبیاء و رسُل کی انفرادی خوبیوں کا ذکر کرنے اور ان کی تعریف کرنے کے بعد فرمایا:

فَخَلَفَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوةَ وَ اتَّبَعُوا الشَّهَوٰتِ فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّا ، ترجَمۂ کنزُالایمان: تو ان کے بعد ان کی جگہ وہ ناخلف آئے جنہوں نے نمازیں گنوائیں(ضائع کیں) اور اپنی خواہشوں کے پیچھے ہوئے تو عنقریب وہ دوزخ میں غیّ کا جنگل پائیں گے ۔(پ16،مریم: 59)

نماز ضائع کرنے کی دو صورتیں ہیں، ایک صورت تو یہ ہے کہ انسان نماز کے بارے میں لاپرواہ ہو جائے، کبھی جی میں آیا تو پڑھ لی اور جب پڑھ بھی لی تو وقت بے وقت اور اتنی جلدی کہ جیسے مرغ ٹھونگ مار رہا ہے، نماز کے دوران کپڑوں یاجسم سے کھیلنا شروع کر دیا، اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کا دل نماز میں نہیں بلکہ جسم باندھا ہوا ہے، اللہ پاک نے ایسے نمازیوں کے لیے اجر و ثواب کے بجائے سخت وعید سنائی ہے۔

سورۃ الماعون آیت نمبر 4،5 میں ارشادِ باری ہے: فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَۙ(۴)الَّذِیْنَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُوْنَۙ(۵) ترجَمۂ کنزُالایمان: تو ان نمازیوں کی خرابی ہےجو اپنی نماز سے بھولے بیٹھے ہیں ۔

(پ30، الماعون:4،5)

نماز ضائع کرنے کی دوسری صورت یہ ہے کہ انسان بالکل نماز نہ پڑھے، مسلمان کہلانے کے باوجود اسے نماز کے الفاظ تک نہ آتے ہوں، یہ صورت پہلی صورت سے بھی زیادہ گھمبیر اور خطرناک ہے۔

نماز نہ پڑھنے کے دنیوی نقصانات:

(1) اس کی عمر سے برکت اٹھا لی جاتی ہے یعنی اس کی زندگی بے برکت ہوتی ہے۔

(2) نیک لوگوں کی نشانی اس کے چہرے سے مٹا دی جاتی ہے۔

(3)ایسا شخص جو بھی نیکی کرے گا اللہ پاک کے ہاں ثواب نہ پائے گا۔

(4) نماز پڑھنے والا شخص جو بھی دعا مانگے قبول نہ ہو گی۔

(5)اگر اللہ کے نیک بندے اس کے حق میں کوئی دعا کرتے ہیں تو ان کی دعا بھی بے اثر ہوتی ہے۔


صدمحترم قارئین! As a Muslim ہم بچپن سے ہی سنتے آر ہے ہیں کہ آخرت میں سب سے پہلا سوال نماز کے بارے میں ہوگا اور اپنے پیارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان بھی بارہاں ہمارے کانوں سے ٹکرایا ہوگا کہ نماز ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ دیانت داری سے سے ہم اپنے اعمال کا جائزہ لیں تو ہم اس بات کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس معاملے میں ہم میں کس قدر کوتاہیاں ہیں۔

امیردعوت اسلامی مولانا الیاس قادری رضوی دامت برکاتہم العالیہ اپنے محبوبین و متعلقین کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: میری مان لیجئے ورنہ ڈاکٹر کی ماننا پڑے گی ۔ یہ درست ہے کہ ہم نفسیاتی مریض ہیں، اللہ خاص کرم فرمائے ۔اگر کسی بھی حوالے سے ہمارے سامنے side effects آئیں تو ہماری آنکھیں کھل جاتیں اور اس چیز کی اہمیت اجاگر ہو جاتی ہے، آئیے آج نماز نہ پڑھنے کے دنیوی side effects بھی نظروں سے گزارتے ہیں شاید اسی بہانے ہم نماز کے پابند بن جائیں۔

بنتے کاموں کا بگڑ جانا:

اللہ پاک فرماتا ہے : وَ اْمُرْ اَهْلَكَ بِالصَّلٰوةِ وَ اصْطَبِرْ عَلَیْهَاؕ لَا نَسْــَئـلُكَ رِزْقًاؕ نَحْنُ نَرْزُقُكَؕ وَ الْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوٰى ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دے اور خود اس پر ثابت رہ کچھ ہم تجھ سے روزی نہیں مانگتے ہم تجھے روزی دیں گے

اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں آتا ہے:حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جسے آخرت کی فکر ہواللہ پاک اس کا دل غنی کر دیتا ہے اور اس کے بکھرے ہوئے کاموں  کو جمع کر دیتا ہے اور دنیاا س کے پاس ذلیل ہو کر آتی ہے،ا ور جسے دنیا کی فکر ہو، اللہ پاک محتاجی اس کی دونوں  آنکھوں  کے سامنے اور اس کے جمع شدہ کاموں  کو مُنْتَشر کر دیتا ہے اور دنیا (کامال ) بھی اسے اتنا ہی ملتا ہے جتنا اس کے لئے مقدر ہے۔

(ترمذی کتاب صفۃ القیامۃ، ۳۰-باب،۴ / ۲۱۱، الحدیث:۲۴۷۳)

ماتحتوں کی نافرمانی:

نماز نہ پڑھنے والے کے ماتحت غیر ارادی طور پر اس کے نافرمان بن جاتے ہیں خواہ اولاد ہی کیوں نہ ہو۔ common sense جب آپ اللہ پاک کی فرمانبرداری کرتے ہیں تو ساتھ رہنے والے آپ سے محبت کرنے لگتے ہیں کیونکہ جب وہ آپ کی اطاعت الہی دیکھتے ہیں تو ہماری عزت و محبت ان کے دل میں اجاگر ہوتی ہے اور یہ نہ ہو تو پھر اولاد یا ماتحتوں کو الزام کس منہ سے دیا جائے۔

جسم کے اعضاء میں کمزوری :

نماز کے ارکان ادا کرنے سے انسان کا جسم تندرست و توانا رہتا ہے ، صحت برقرار رہتی اور بہت سارے جسمانی فوائد حاصل ہوتے ہیں ۔

وقت کی بے قاعدگی:

نماز نہ پڑھنے والے کے اوقات کار میں بے قاعدگی آجاتی ہے جس کی بنا پر بہت سارے کام یا تو رہ جاتے ہیں یا ان میں بگاڑ آجاتا ہے اور اگر time management ہو تو بہت سے کاموں کے لئے وقت مل جاتا ہے۔

اعضاء کی خوبصورتی میں کمی:

نماز کی ادائیگی نہ ہونے سے چہرے اور دیگر اعضاء کے حسن و جمال میں بھی درجہ بدرجہ (gradually) کمی آتی رہتی ہے اور بالخصوص چہرے کی رونق ماند پڑ جاتی ہے کیونکہ جب بندہ اپنے مہربان رب کے آگے سجدے میں سر جھکاتا ہے تو خون کا دورانیہ چہرے کے گرد بڑھ جاتا ہے جس کی بناء پر چہرے میں نئی خوبصورتی پیدا ہوتی رہتی ہے جبکہ نماز سے محروم شخص اس دنیوی فائدے سے محروم رہ جاتا ہے۔

یاد رہے کہ نماز کی حالت کا سجدہ ہی یہ فائدہ دیتا ہے اور اس خوبصورتی سے مراد دنیوی خوبصورتی نہیں بلکہ چہرے پر رونق و نور کا آنا ہے کہ سیاہ رنگ کا نماز پڑھنے والا مسلمان بھی بارونق چہرے والا ہوتا ہے ۔اللہ پاک ہمیں بے غرض اپنا مطیع و فرمانبردار بنائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


جس طرح نماز نہ پڑھنے کے اخروی نقصانات بے شمار ہیں اسی طرح دنیاوی نقصانات بھی بے شمار ہیں جن میں سے چند یہ ہیں:

1 ۔ اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے: جو نماز کو سستی کی وجہ سے چھوڑ دے گا اللہ پاک اسے پندرہ سزائیں دے گا جن میں سے پانچ دنیا میں ملنے والی ہیں اور وہ یہ ہیں:1 ۔ اس کی عمر سے برکت ختم کر دی جائے گی 2 ۔اس کے چہرے سے نیک بندوں کی نشانیاں مٹا دی جائے گی3 ۔اللہ پاک اس کے عمل پر ثواب نہ دے گا 4 ۔اس کی کوئی دعا آسمان تک نہیں پہنچے گی 5 ۔نیک بندوں کی دعاؤں میں اس کا کوئی حصہ نہ ہوگا ۔

(کتاب الکبائر للامام الحافظ الذہبی صفحہ 24)

2 ۔جس طرح گناہ کا عذاب دنیا و آخرت میں بھگتنا پڑتا ہے یوں ہی نیکی کا فائدہ دونوں جہاں میں ملتا ہے جو بندہ پانچوں نمازیں باجماعت ادا کرے اس کے رزق میں برکت، قبر میں فراخی نصیب ہوگی اور پل صراط پر سے آسانی سے گزرے گا جو جماعت کا پابند نہ ہو گا اس کی کمائی میں برکت نہ ہوگی، چہرے پر مصلحین کے آثار نہ ہوں گے لوگوں کے دلوں میں اس سے نفرت ہوگی ۔ پیاس اور بھوک کی حالت میں جان کنی اور قبر میں تنگی میں مبتلا ہو گا اور اس کے حساب میں بھی سختی ہوگی ۔ (صراط الجنان جلد 6 صفحہ 263)

3 ۔ سلطان مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین سے فرمایا کہ دعا کرواے اللہ کریم ہم میں سے محروم اور بدبخت شخص کو نہ رہنے دینا ۔ فرمایا :جانتے ہو کہ محروم اور بدبخت شخص کون ہے؟ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین نے عرض کی :یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! وہ کون ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: نماز ترک کرنے والا ۔ (الزواجر، جلد 1، صفحہ 296)

4 ۔ والداعلی حضرت حضرت علامہ مولانا نقی علی خان علیہ رحمۃ اللہ الحنان فرماتے ہیں :کہ نماز کا ترک کرنا اور اپنے مالک کا حکم ٹال دینا سب گناہوں سے بڑا گناہ اور سب بے حیائیوں سے بڑی بے حیائی ہے ۔( انوار جمال مصطفی، صفحہ 345)