سرور کائنات فخر موجودات ﷺ کے ساتھ والہانہ عقیدت اور ایمانی محبت کا تقاضا یہ بھی ہے کہ حضور کے والدین، تمام آباؤ اجداد اور ان کے صحابہ کرام کا ادب و احترام کیا جائے، کیونکہ یہ تو دنیا کا بھی دستور ہے ہمیں جس انسان سے محبت ہو جاتی ہے پھر اس سے نسبت رکھنے والی ہر چیز ہر انسان سے ہمیں پیار ہو جاتا ہے، اسی طرح جس طرح ہمیں اپنے پیارے آقا ﷺ سے عشق و محبت ہے پھر ہمیں بھی چاہیے کہ حضور سے نسبت رکھنے والے ہر انسان سے محبت کریں، ان میں صحابہ کرام بھی شامل ہیں۔

صحابی کسے کہتے ہیں: حضرت علامہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جن خوش نصیبوں نے ایمان کی حالت میں حضور ﷺ کی صحبت کا شرف پایا اور ایمان ہی پر خاتمہ ہوا انہیں صحابی کہتے ہیں۔ (نزہۃ النظر، ص 111)

صحابہ کرام سے محبت حضور سے محبت کا تقاضا کرتی ہے، کیونکہ یہ حضور ﷺ کے باوفا دوست، مخلص ساتھی اور والہانہ محبت کرنے والے تھے اس لیے ہمیں بھی چاہیے کہ ہم ان کے حقوق کو پورا کریں جو ہم پر لازم ہیں جو کہ مندرجہ ذیل ہیں:

صحابہ کرام کے حقوق:

1۔ تعظیمِ صحابہ: صحابہ کرام کی قدر و منزلت وہی شخص جان سکتا ہے جو نبی کریم ﷺ کی عظمت و رفعت سے واقف ہوگا کیونکہ ان کی تعظیم گویا کہ نبی کریم ﷺ ہی کی تعظیم ہے جیسا کہ حضرت امام قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: یعنی نبی پاک ﷺ کی تعظیم میں سے یہ بھی ہے کہ آپ کے صحابہ کرام کی تعظیم کرنا، ان سے اچھا سلوک کرنا، ان کے حق کو پہچاننا، ان کی پیروی کرنا، ان کی تعریف و توصیف کرنا اور ان کے لیے مغفرت کی دعا کرنا۔ (الشفاء، 2/52)

2۔ محبت صحابہ: میرے صحابہ کے بارے میں اللہ پاک سے ڈرو اللہ پاک سے ڈرو! میرے بعد انہیں نشانہ نہ بنانا کیونکہ جس نے ان سے محبت کی تو اس نے میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا تو اس نے میرے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا اور جس نے انہیں ستایا اس نے مجھے ستایا اور جس نے مجھے ستایا اس نے اللہ پاک کو ایذا دی اور جس نے اللہ پاک کو ایذا دی تو قریب ہے کہ اللہ پاک اس کی پکڑ فرمائے۔ (ترمذی، 5/463، حدیث: 3888)

3۔ افضل الاولیاء: صحابہ کرام افضل الاولیاء ہیں یعنی قیامت تک کے تمام اولیائے کرام اگرچہ وہ درجہ ولایت کی بلند ترین منزل پر فائز ہو جائیں مگر ہرگز ہرگز کبھی بھی وہ کسی صحابی کے کمالات ولایت تک نہیں پہنچ سکتے، اس لیے ہم پر یہ حق ہے کہ ہم صحابہ کرام کو غیر صحابہ اولیائے کرام سے بہت زیادہ افضل و اعلیٰ اور بلند و بالا مانیں، اس میں شک نہیں کہ حضرات صحابہ سے اس قدر زیادہ کرامتوں کا صدور نہیں ہوا جس قدر دوسرے اولیائے کرام سے کرامتیں منقول ہیں لیکن واضح رہے کہ کثرتِ کرامت افضلیت کی علامت نہیں، کیونکہ ولایت در حقیقت قربِ الٰہی کا نام ہے، یہ قرب الٰہی جس کو جس قدر زیادہ حاصل ہوگا اسی قدر اس کی ولایت کا درجہ بلند سے بلند تر ہوگا۔ (کرامات صحابہ، ص 52)

4۔ اتباعِ صحابہ: صحابہ کرام کا اہم ترین حق یہ ہے کہ ان کے اعمال و افعال میں اور ان کے اخلاق میں ان کی اتباع و پیروی کی جائے کیونکہ اللہ پاک نے سابقین اولین صحابہ کرام کی اتباع و اقتدا پر ہم تمام مومنوں کو اپنی خوشنودی کی بشارت دی ہے، اسی طرح احادیث مبارکہ میں ان کی اتباع و پیروی کی تاکید و ترغیب بہت اہتمام سے بیان ہوئی ہے ایک حدیث میں ہے حضور ﷺ نے فرمایا: میرے صحابہ ستاروں کی طرح ہیں جس کی اتباع کروگے ہدایت پاؤگے۔ (مشکوٰۃ المصابیح، 2/414، حدیث: 6018)

5۔ دفاعِ صحابہ: صحابہ کرام کے اور بھی بہت زیادہ حقوق ہیں لیکن دفاعِ صحابہ سب سے زیادہ اہم ہے، موجودہ حالات میں اس حق کی ادائیگی بہت ضروری ہے اس حق سے پہلوتہی باعث لعنت ہے چنانچہ ایک حدیث میں ہے: جب فتنے یا بدعت ظاہر ہونے لگیں اور میرے صحابہ کو برا کہا جانے لگے تو عالم کو چاہیے کہ اپنے علم کو کام میں لا کر صحابہ کرام کا دفاع کرے اور جو شخص حضرات صحابہ کا دفاع نہیں کرے گا تو اس پر اللہ کی لعنت، فرشتوں کی لعنت اور تمام لوگوں کی لعنت ہو اور اللہ پاک نہ ان کے فرض قبول فرمائے گا اور نہ ہی نفل۔ (مرقاۃ)


صحابہ ہونا بہت بڑا مرتبہ ہے اور صحابہ اللہ کے وہ محبوب بندے ہیں جو تمام اولیائے کرام سے بلند مرتبہ والے ہیں، بعض جگہ حضور ﷺنے فرمایا: جب تم لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہ کو گالیاں دیتے ہیں تو کہو تمہارے شر پر اللہ کی لعنت ہو۔ (ترمذی، 5/464، حدیث: 3892)

صحابہ کی اہمیت اور عظمت: حدیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ حدیث میں بھی ان کی اہمیت و عظمت کو اجاگر کیا گیا اور ان کے پاکیزہ اوصاف اور فضائل کو واضح انداز میں بیان کیا گیا اور تمام عالم انسانی کو ان کی پیروی کرنے کا حکم دیا گیا اور انہیں یہ شرف عطا کیا گیا کہ انبیائے کرام کے بعد صحابہ و صحابیات کی مقدس جماعت ہی تمام مخلوق میں سب سے افضل و اعلیٰ ہے اور انہیں دنیا میں ہی مغفرت، جنت اور رضائے خداوندی کی ضمانت دے دی گئی اور ان سے عظمت و محبت کا تعلق رکھنا ہر صاحبِ ایمان کے لیے لازمی قرار دیا گیا۔

صحابہ کرام کے حقوق:

1۔ حضور ﷺ نے فرمایا: میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو اللہ سے ڈرو! میرے بعد انہیں نشانہ نہ بنانا کیونکہ جس نے ان سے محبت کی تو اس نے میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا تو اس نے میرے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا۔ (ترمذی، 5/463، حدیث: 3888)

2۔ حضور ﷺ نے فرمایا: اس مسلمان کو جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی جس نے مجھے دیکھا یعنی میرے صحابہ کو یا مجھے دیکھنے والوں کو دیکھا (یعنی تابعین کو)۔ (ترمذی، 5/694، حدیث:3858)

3۔ آخری زمانے میں ایک قوم ہوگی جو میرے صحابہ کو گالیاں دے گی پس تم ان کی مجلس میں نہ بیٹھو ان کے ساتھ مل کر نہ کھاؤ، نہ ان سے رشتہ بندی کرو، نہ ان کے جنازے کی نماز پڑھو اور نہ ان کے ساتھ مل کر نماز پڑھو۔ (غنیۃ الطالبین، ص 178)

4۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے: رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کو گالیاں نہ دو ان کا نبی اکرم ﷺ کی صحبت میں ایک لمحہ رہنا تمہاری ساری زندگی کے عمل سے بہتر ہے۔ (ابن ماجہ، ص 162، حدیث: 1006)

5۔ میرے صحابہ کی تنقیص نہ کرو میرے صحابہ کو برا بھلا نہ کہو اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرے تو کسی صحابہ کے ایک مد یا اس کے نصف کے برابر بھی نہیں ہو سکتا۔(بخاری، 2/522، حدیث:3673)

صلح حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام کو مخاطب کر کے فرمایا تھا: آج تم اس روئے زمین پر سب سے بہتر انسان ہو۔ (بخاری، حدیث: 4154) ایک اور موقع پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں پس تم ان میں سے جس کی بھی اقتدا کروگے تو ہدایت پالوگے۔ (مشکوٰۃ المصابیح، 2/414، حدیث: 6018)

کسی شاعر نے اس کی منظر کشی اپنے ان اشعار میں کی ہے:

ہیں مثل ستاروں کے میری بزم کے ساتھی اصحاب کے بارے میں یہ فرمایا نبی نے

ہیں آپ کے ہاتھوں ہی سے ترشے ہوئے ہیرے اسلام کے دامن میں یہ تابندہ نگینے

اے اللہ! ہمیں تمام صحابہ اور تابعین کی محبت نصیب فرما اور مرتے دم تک ان کی عزت اور ان سے محبت کرنا نصیب فرما۔ آمین


صحابی وہ ہوتا ہے جس نے ایمان کی حالت میں آقائے دو جہاں ﷺ کی زیارت کی ہو اور ایمان کی حالت میں ہی وفات پائی ہو۔ صحابہ کرام کی تعظیم کرنا فرض ہے، ملائکہ مرسلین اور ساداتِ فرشتگان مقربین کے بعد بڑی عزت و منزلت اور قرب ِقبولِ احدیت پر فائز اصحاب سید المرسلین ﷺ ہیں ان کی قدر و منزلت وہی خوب جانتا ہے جو سید المرسلین ﷺ کی عزت و رفعت سے آگاہ ہے ہم پر صحابہ کرام کے کچھ حقوق لازم ہیں ان میں سے پانچ حقوق کو انتہائی مختصر طور پر پیش کرتی ہوں:

پہلا حق: ہم سب پر لازم ہے کہ ہم صحابہ کرام کو تمام امت سے افضل جانیں، تابعین سے لے کر تا قیامت امت کا کوئی ولی کیسے ہی پایہ عظیم کو پہنچے صاحب سلسلہ ہو، خواہ غیر ان کا ہرگز ہرگز ان میں سے ادنی کے رتبے کو نہیں پہنچتا اور ان میں سے ادنی کوئی نہیں۔ (اعتقاد الاحباب) جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میرے صحابہ کو برا نہ کہو کیونکہ اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر سونا خیرات کرے تو ان کے ایک مُد تو کیا آدھے کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔ (بخاری، 2/522، حدیث: 3673) معلوم ہوا کہ صحابہ کرام کا مقام و مرتبہ اور افضلیت ہماری عقلوں سے وراء ہے۔

دوسرا حق: ہم پر لازم ہے کہ ہم صحابہ کرام کو انتہا درجے کا متقی مانیں اور ان کے احوال کی تفاصیل کہ کس نے کس کے ساتھ کیا کیا اور کیا نہ کیا اس پر نظر کرنا حرام مانیں، کیونکہ صحابہ کرام کے رتبے ہماری عقلوں سے وراء ہیں پھر ان کے معاملات میں ہم کیسے دخل اندازی کر سکتے ہیں اور ان کے جو آپس میں اختلافات ہوئے اسے ان کی اچھی نیت اور قلبی اخلاص پر محمول کریں، اللہ کا سچا فرمان سن کر دل کے آئینے میں تفتیش کے زنگ کو جگہ نہ دیں اور الحمد للہ اہلسنت کے خواص و عوام کا یہی طرز عمل ہے۔ (صراط الجنان، جلد 9، تحت الآیۃ: 9)

تیسرا حق: ہم پر لازم ہے کہ جب بھی ہم ان کا ذکر کریں خیر کے ساتھ کریں اور اہلسنت و جماعت کا عقیدہ ہے کہ صحابہ کرام کا جب بھی ذکر ہو خیر کے ساتھ کرنا فرض ہے ہم ہرگز ایسا نہ کریں کہ ایک کی طرف داری میں دوسرے کو برا کہنے لگیں یا ایک کو دنیا کا حریص ٹھہرائیں ہم ان کا فیصلہ کرنے والے کون؟ جیسا کہ یہ قول ہے کہ "تیرا منہ ہے کہ تو بولے یہ سرکاروں کی باتیں ہیں" (اعتقاد الاحباب، ص 90 تا 98)

چوتھا حق: ہمیں چاہیے کہ صحابہ کرام اور اہل بیت رضی اللہ عنہم کے عرس، ختم، نیاز، فاتحہ کا اہتمام کریں، کیونکہ ان چیزوں میں ان بزرگوں کے لیے دعا ہے، جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد ہے: وَ الَّذِیْنَ جَآءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ (پ 28، الحشر: 10) ترجمہ کنز الایمان: اور وہ جو اُن کے بعد آئے عرض کرتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں بخش دے اور ہمارے بھائیوں کو جو ہم سے پہلے ایمان لائے۔ صحابہ کرام وہ پاکیزہ ہستیاں ہیں جنہیں اللہ پاک نے اپنے حبیب ﷺ کی صحبت اختیار کرنے کے لیے منتخب فرمایا، ان کی عظمت و شان کو قرآن مجید میں بیان فرمایا، لیکن افسوس کچھ لوگ خود کو مسلمان بھی کہتے ہیں اور ان کے سینے صحابہ کرام کے بغض سے بھرے ہوئے ہیں۔ اللہ پاک ایسے لوگوں کو ہدایت اور عقل سلیم عطا فرمائے۔ (صراط الجنان، پ 28، الحشر، 10/77)

پانچواں حق: ہم پر لازم ہے کہ ہم صحابہ کرام کی پیروی کریں، کیونکہ یہ وہ ہستیاں ہیں جنہوں نے اللہ پاک کے پیارے حبیب ﷺ کی خدمت بابرکت میں رہنے کی سعادت حاصل کی، جیسا کہ حبیبِ خدا ﷺ نے ارشاد فرمایا: میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں تم ان میں سے جس کسی کی بھی اقتدا کروگے فلاح و ہدایت پا جاؤگے۔ (مشکوٰۃ المصابیح، 2/414، حدیث: 6018)

حضور ﷺ نے خود اپنے اصحاب کی پیروی کرنے کا حکم فرمایا ہمیں چاہیے کہ ہم صحابہ کرام کی اعمال و عبادات میں پیروی کریں اور ان کا ذکر جب بھی کریں ادب و احترام کے ساتھ کریں اور ان کی برائیاں کرنے والوں سے دور رہیں۔ یقینا جو صحابہ کرام کے بارے میں برا بھلا کہتے ہیں وہ حضور کو ناراض کرتے ہیں۔

نبی کریم ﷺ کے تمام صحابہ امت مسلمہ میں افضل اور برتر ہیں، اللہ پاک نے ان کو رسول اللہ ﷺ کی صحبت، نصرت اور اعانت کےلیے منتخب فرمایا، ان نفوس قدسیہ کی فضیلت و مدح قرآن پاک میں کئی آیات مبارکہ میں مذکور ہے، جن میں ان کے حسن عمل، حسن اخلاق اور حسن ایمان کا تذکرہ ہے اور انہیں دنیا ہی میں مغفرت اور انعامات اخروی کا مژدہ سنا دیا گیا ہے، اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّاؕ-لَهُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَ مَغْفِرَةٌ وَّ رِزْقٌ كَرِیْمٌۚ(۴) (پ 9، الانفال: 04) ترجمہ کنز الایمان: یہی سچے مسلمان ہیں ان کے لیے درجے ہیں ان کے رب کے پاس اور بخشش ہے اور عزت کی روزی۔ نبی کریم ﷺ کے بعد سب سے افضل حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں اس کے بعد حضرت عمر پھر حضرت عثمان اور پھر اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہم افضل ہیں، جیسے انبیائے کرام کے حقوق بیان ہوئے ہیں ایسے ہی صحابہ کرام کے حقوق ہیں جن میں پانچ حقوق مندرجہ ذیل ہیں:

1۔ انبیائے کرام کے بعد تمام انسانوں میں صحابہ کرام سب سے زیادہ تعظیم و توقیر کے لائق ہیں، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: میرے صحابہ کی عزت کرو کیونکہ وہ تم میں سب سے بہتر ہیں۔ (مشکوٰۃ المصابیح، 2/413، حدیث: 6012)

2۔ نبی کریم ﷺ کے تمام صحابہ کرام کی پیروی کرنا۔ جس کا ذکر اللہ پاک نے قرآن کریم میں بھی فرمایا ہے: وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍۙ-رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ وَ اَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ-ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ(۱۰۰) (التوبۃ:100) ترجمہ کنز الایمان: اور سب میں اگلے پہلے مہاجر اور انصار اور جو بھلائی کے ساتھ ان کے پیرو ہوئے اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اور ان کے لیے تیار کر رکھے ہیں باغ جن کے نیچے نہریں بہیں ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں یہی بڑی کامیابی ہے۔

3۔ تمام صحابہ کرام سے محبت و عقیدت رکھنا۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو صحابہ سے محبت کرتا ہے وہ میرے ساتھ محبت کی بنا پر ان سے محبت کرتا ہے اور جو ان سے بغض رکھتا ہے وہ میرے ساتھ بغض رکھنے کی وجہ سے ان سے بغض رکھتا ہے۔ (الجامع، 3/360)

4۔ صحابہ کرام کا ادب کرنا اور ان پر تنقید کرنے سے بچنا اور ان سے اچھا گمان رکھنا۔

5۔ صحابہ کرام سے بغض نہ رکھنا اور ان کی سیرت کا مطالعہ کرنا اور گستاخی نہ کرنا۔ رسول اللہ ﷺ حکم فرما چکے: جب میرے صحابہ کا ذکر آئے تو باز رہو۔ (یعنی بد عقیدگی اور واقعات کی چھان بین اور ان کے نتائج کی ٹوہ میں نہ پڑو) مسلمانوں کو تو یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ سب حضرات آقائے دو عالم ﷺ کے جاں نثار اور سچے غلام ہیں خدا و رسول کی بارگاہوں میں معظم و معزز اور آسمانِ ہدایت کے روشن ستارے ہیں، ہمیں چاہیے کہ ان کے حقوق کو پوری طرح ادا کریں اور ان سے سچی محبت و عقیدت رکھیں۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں صحابہ کرام کی روشن سیرت پر چلنے اور پیروی کرنے اور ان کے حقوق پوری طرح ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

صحابی کے اصل معنی ساتھی اور رفیق کے ہیں لیکن یہ اسلام کی ایک مستقل اور اہم اصطلاح ہے، اصطلاحی طور پر صحابی کا اطلاق ان لوگوں پر ہوتا ہے جنہوں نے بحالتِ ایمان حضور ﷺ سے ملاقات کی اور ایمان ہی کی حالت میں دنیا سے رخصت ہوئے ہوں۔

حقوقِ صحابہ:

1۔ بے شک تمام صحابہ کی تعظیم اور ان کے بارے میں طعن و تشنیع سے باز رہنا واجب ہے کیونکہ اللہ پاک نے اپنی کتاب میں کئی مقامات پر ان کی تعظیم اور تعریف بیان فرمائی ہے: وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ هَاجَرُوْا وَ جٰهَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ الَّذِیْنَ اٰوَوْا وَّ نَصَرُوْۤا اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّاؕ-لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ رِزْقٌ كَرِیْمٌ(۷۴) (پ 10، الانفال: 74) ترجمہ کنز الایمان: اور وہ جو ایمان لائے اور ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں لڑے اور جنہوں نے جگہ دی اور مدد کی وہی سچے ایمان والے ہیں ان کے لیے بخشش ہے اور عزت کی روزی۔

سب صحابہ سے ہمیں تو پیار ہے ان شاء اللہ دو جہاں میں اپنا بیڑا پار ہے

2۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان عظمت نشان ہے: میرے صحابہ کو برا نہ کہو کیونکہ اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ سونا خیرات کرے تو میرے صحابہ میں سے کسی ایک کے نہ مد کو پہنچ سکتا ہے اور نہ ہی مد کے آدھے کو۔ (بخاری، 2/522، حدیث:3673)

3۔ ہمارے پیارے نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا: میرے صحابہ کے معاملے میں میرا لحاظ کرنا کیونکہ وہ میری امت کے بہترین لوگ ہیں۔ (حلیۃ الاولیاء، 1/311)

4۔ سرکار عالی وقار ﷺ نے ارشاد فرمایا: اس مسلمان کو جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی جس نے میرے صحابی کی زیارت کا شرف حاصل کیا ہو۔(ترمذی، 5/694، حدیث:3858)اس حدیث مبارکہ سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ اگر صحابہ کرام کی زیارت کرنے والے کو جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی تو جو صحابہ کرام کی تعظیم کرتا ہو اسے کیسا اجر ملے گا، اس لیے سب مسلمانوں کو صحابہ کرام کی تعظیم اپنی جان سے بڑھ کر کرنی چاہیے تا کہ اس کا آخرت میں اچھا اجر ملے۔

5۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب میرے صحابہ کا تذکرہ ہو تو نہایت احتیاط سے بولو۔ اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام کے تذکرہ میں نہایت احتیاط سے بولنا چاہیے۔ ایک جگہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: بہتر لوگ اس زمانے کے ہیں جس میں میں ہوں، اس کے بعد دوسرے زمانے کے اور اس کے بعد تیسرے زمانے کے۔ (مسلم، ص 1371، حدیث: 2533)

صحابہ ہیں تاجِ رسالت کے لشکر رسولِ خدا تاجدارِ صحابہ

صحابہ کرام کی قدر و منزلت وہی شخص جان سکتا ہے جو نبی کریم ﷺ کی عظمت و رفعت سے واقف ہوگا کیونکہ ان کی تعظیم گویا کہ نبی کریم ﷺ ہی کی تعظیم ہے جیسا کہ حضرت امام قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: یعنی نبی پاک ﷺ کی تعظیم میں سے یہ بھی ہے کہ آپ کے صحابہ کرام کی تعظیم کرنا، ان سے اچھا سلوک کرنا، ان کے حق کو پہچاننا، ان کی پیروی کرنا، ان کی تعریف و توصیف کرنا اور ان کے لیے مغفرت کی دعا کرنا۔ (الشفاء، 2/52)

صحابی: حضرت علامہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جن خوش نصیبوں نے ایمان کی حالت میں حضور ﷺ کی صحبت کا شرف پایا اور ایمان کی حالت پر ان کا خاتمہ ہوا انہیں صحابی کہتے ہیں۔ (نزہۃ النظر، ص 111)

دو عالم نہ کیوں ہو نثارِ صحابہ کہ ہے عرش منزل وقار صحابہ

قارئین کرام! صحابہ کرام کے ہم پر کئی حقوق ہیں جن میں سے پانچ ذکر کئے جاتے ہیں:

1۔ محبتِ صحابہ: اس میں کوئی شک نہیں کہ نبی کریم ﷺ اور ان کے حقیقی اہل بیت کو تمام صحابہ کرام سے بے حد محبت ہے، دور حاضر کی بدبختی ہے کہ آج ایک گروہ صحابہ کے بارے میں برا بھلا کہنے میں حد سے بڑھ گیا ہے، حالانکہ نبی پاک ﷺ نے فرمایا: میرے صحابہ کو برا نہ کہو کیونکہ تم میں سے کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر بھی سونا اللہ کی راہ میں دے تو بھی میرے صحابہ کی آدھی مٹھی کے برابر بھی نہیں ہو سکتا۔ (بخاری، 2/522، حدیث:3673)

2۔ امت کے بہترین افراد: پیارے آقا ﷺ نے بھی صحابہ کرام کی تعظیم کا حکم دیتے ہوئے انہیں امت کے بہترین افراد ہونے کی سند عطا فرمائی اور ارشاد فرمایا: میرے صحابہ کی عزت کرو کہ وہ تمہارے بہترین لوگ ہیں۔ (مشکوٰۃ المصابیح، 2/413، حدیث: 6012) ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے کہ میری امت میں سب سے بہتر لوگ میرے زمانہ کے ہیں اور پھر وہ لوگ جو ان سے ملے ہوئے ہیں اور پھر ان کے بعد والے لوگ سب سے بہتر ہیں۔ (مصنف عبد الرزاق، 10/296، حدیث: 20876)

3۔ صحابہ کے باہمی اختلافات پر زبان بند رکھنا: اہل سنت کا اس بات پر عقیدہ ہے کہ ہر صحابی بہت بڑا پرہیزگار ہے اور ان کے آپسی معاملات پر کیا یا کیوں کرنے کو حرام جانتے ہیں، حافظ امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: صحابہ کرام کے باہمی اختلافات سے متعلق ہمارا طریقہ یہ ہے کہ اس بارے میں اپنی زبانیں بند رکھیں اور ان حضرات کے لیے دعائے مغفرت کریں کیونکہ ہم ان کے درمیان ہونے والے اختلافات کا ذکر نا پسندیدہ جانتے ہیں اور اس عمل سے اللہ پاک کی پناہ مانگتے ہیں اور ہم امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت کرتے ہیں۔ (سیر اعلام النبلاء، 3/39)

4۔ دفاعِ صحابہ: اللہ پاک نے صحابہ کرام کو اپنے نبی ﷺ کی صحبت و رفاقت کے لیے منتخب فرمایا، انبیائے کرام کے بعد صحابہ کی مقدس جماعت تمام مخلوق سے افضل و اعلیٰ ہے یہ عظمت و فضیلت صرف صحابہ کو ہی حاصل ہے، اللہ نے انہیں دنیا میں ہی مغفرت، جنت اور اپنی رضا کی ضمانت دی ہے، صحابہ کرام سے محبت اور نبی کریم ﷺ نے احادیث مبارکہ میں جو ان کی فضیلت بیان کی ہے ان کو تسلیم کرنا ایمان کا حصہ ہے، حضرت علامہ مسعود بن عمر سعد الدین تفتازانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: صحابہ کرام کا ذکر صرف خیر ہی کے ساتھ کیا جائے کیونکہ ان کے فضائل میں احادیث صحیحہ وارد ہیں نیز ان پر نکتہ چینی سے رکنا واجب ہے۔ (شرح عقائد نسفیہ، ص 341)

5۔ مدحِ صحابہ: ہم اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ دنیا کا بڑے سے بڑا ولی، قطب، ابدال، غوثیت کبریٰ پر متمکن اغواث بھی ایک ادنیٰ صحابی کے فضل و کمال تک نہیں پہنچ سکتا، حقیقت تو یہ ہے کہ صحابہ کرام سے محبت کے بغیر رسول اللہ ﷺ سے سچی محبت نہیں ہو سکتی صحابہ کی پیروی کے بغیر حضور کی پیروی کا تصور محال ہے کیونکہ صحابہ نے جس انداز سے اپنی زندگی بسر کی ہے وہ عین اسلام اور اتباع سنت ہے، ان کی وفاداری و جاں نثاری کی سند خود رب کائنات نے اپنے کلام مقدس میں دی ہے، جن کی طبیعت میں ہی گناہوں سے نفرت کی بنیاد رکھ دی گئی ہو بھلا کیوں کر وہ کسی پر ظلم کر سکتا ہے گویا ہر صحابی کی زبان پر بس یہی رہتا تھا:

میری زندگی کا مقصد تیرے دیں کی سرفرازی میں اسی لیے مسلماں میں اسی لیے نمازی

اے کاش ہمیں بھی وہ جذبہ مل جائے جو صحابہ کرام کے دلوں میں موجزن تھا وہ عشق رسول وہ حوصلہ وہ جذبہ وہ جرات مل جاتی دن رات خدمت اسلام میں مصروف رہتے مگر افسوس ہمیں دنیا کے دھندوں سے فرصت نہیں آئیے صحابہ کے نقش قدم پر چلتی ہوئی آج ہی سے ہم دعوت اسلامی کے ہفتہ وار اجتماع میں پابندی سے شرکت کی نیت کر لیتی ہیں اللہ پاک صحابہ کرام کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تمام جہان کے مسلمانوں سے افضل ہیں، روئے زمین کے سارے ولی، غوث، قطب ایک صحابی کے گردِ قدم کو بھی نہیں پہنچ سکتے، صحابہ میں خلفائے راشدین بترتیبِ خلافت افضل ہیں، پھر عشرۂ مبشرہ پھر بدر والے پھر بیعت رضوان والے، پھر صاحب قبلتین افضل ہیں، اللہ پاک قرآن مجید میں صحابہ کرام کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے: وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍۙ-رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ وَ اَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ-ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ(۱۰۰) (پ 11، التوبۃ: 100) ترجمہ: اور سب میں اگلے پہلے مہاجر اور انصار اور جو بھلائی کے ساتھ ان کے پیرو ہوئے اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اور ان کے لیے تیار کر رکھے ہیں باغ جن کے نیچے نہریں بہیں ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں یہی بڑی کامیابی ہے۔

صحابی کی تعریف: صحابہ جمع ہے صاحب کی یا صحابی کی بمعنی ساتھی، شریعت میں صحابی وہ انسان ہے جو ہوش و ایمان کی حالت میں حضور اکرم ﷺ کو دیکھے یا صحبت میں حاضر ہو اور ایمان پر اس کا خاتمہ ہوجائے اگر درمیان میں مرتد ہو گیا پھر مسلمان ہو کر مرا تب بھی صحابی ہے جیسے اشعث بن قیس کے متعلق مشہور ہے۔ (مراٰۃ المناجیح، 8/281) قرآن اور احادیث میں صحابہ کرام کے بہت سے حقوق وارد ہوئے ہیں جیسے ان کی تعظیم و توقیر کرنا، ان سے محبت کرنا، ان کے لیے دعا و استغفار کرنا وغیرہ وغیرہ۔

پہلا حق۔ صحابہ کرام سے محبت: ان کا سب سے اہم حق یہ ہے کہ ان سے محبت کی جائے، رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ایمان کی نشانی انصار سے محبت کرنا ہے اور نفاق کی نشانی انصار سے بغض رکھنا ہے۔ (بخاری، 1/715، حدیث: 3787)

دوسرا حق۔ ان کی تعظیم و توقیر کی جائے: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: میرے صحابہ کی عزت کرو کیونکہ وہ تمہارے بہترین ہیں۔ (مشکوٰۃ المصابیح، 2/413، حدیث: 6012)

تیسرا حق۔ انہیں برا بھلا نہ کہا جائے: حدیث شریف میں ہے: میرے صحابہ کو برا بھلا نہ کہو اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرے تو وہ ان کے مد یا نصف کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔ (ابو داود، 2/296، حدیث: 4660)

چوتھا حق۔ صحیح دلیل سے ثابت ان کے فضائل کا اقرار کیا جائے: جیسے عشرہ مبشرہ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا، حضرت فاطمہ، حضرات حسنین کریمین کے فضائل میں وارد احادیث۔

پانچواں حق۔ ان کی عدالت کا اعتراف کیا جائے: یعنی وہ ہر قسم کے گناہ سے پیرہیز کرتے تھے، تقویٰ کا التزام کرتے تھے، ہر معاملہ پر حق و صواب کو حرز جاں بناتے تھے، اگر ان میں سے کسی سے کوئی غلطی ہو جائے تو وہ اجتہادی غلطی ہے یا پھر بتقائے بشریت ہے جس پر وہ اصرار نہیں کرتے تھے۔

وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ فِیْكُمْ رَسُوْلَ اللّٰهِؕ-لَوْ یُطِیْعُكُمْ فِیْ كَثِیْرٍ مِّنَ الْاَمْرِ لَعَنِتُّمْ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ حَبَّبَ اِلَیْكُمُ الْاِیْمَانَ وَ زَیَّنَهٗ فِیْ قُلُوْبِكُمْ وَ كَرَّهَ اِلَیْكُمُ الْكُفْرَ وَ الْفُسُوْقَ وَ الْعِصْیَانَؕ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الرّٰشِدُوْنَۙ(۷) (پ 26، الحجرات: 7) ترجمہ کنز الایمان: اور جان لو کہ تم میں اللہ کے رسول ہیں بہت معاملوں میں اگر یہ تمہاری خوشی کریں تو تم ضرور مشقت میں پڑجاؤ لیکن اللہ نے تمہیں ایمان پیارا کر دیا ہے اور اسے تمہارے دلوں میں آراستہ کر دیا اور کفر اور حکم عدولی اور نا فرمانی تمہیں ناگوار کردی ایسے ہی لوگ راہ پر ہیں۔

اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں صحابہ کرام سے سچی محبت، ان کی تعظیم و توقیر کی توفیق عطا فرمائے اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق مرحمت فرمائے ان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق دے۔

حضرت علامہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جن خوش نصیبوں نے ایمان کی حالت میں حضور ﷺ کی صحبت کا شرف پایا اور ایمان ہی پر خاتمہ ہوا انہیں صحابی کہتے ہیں۔ (نزہۃ النظر، ص 111)صحابہ کی جماعت امت میں سب سے افضل اور لوگوں میں سب سے بہتر ہے، نبی کریم ﷺ نے فرمایا: میرے صحابہ کی عزت کرو وہ تمہارے بہترین لوگ ہیں۔ (مشکوٰۃ المصابیح، 2/413، حدیث: 6012) صحابہ کرام کو اللہ پاک نے اپنے نبی کریم ﷺ کی مصاحبت کے لیے منتخب فرمایا، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔

صحابہ کرام کے ہم پر کچھ خاص حقوق ہیں جن کا ادا کرنا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے، ان میں سے کچھ حقوق یہ ہیں:

1۔ ان کے جنتی ہونے کا یقین: اللہ پاک نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا: لٰكِنِ الرَّسُوْلُ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ جٰهَدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْؕ-وَ اُولٰٓىٕكَ لَهُمُ الْخَیْرٰتُ٘-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸۸) اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاؕ-ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ۠(۸۹) (التوبۃ:88-89) ترجمہ: لیکن رسول اور جو ان کے ساتھ ایمان لائے انہوں نے اپنے مالوں جانوں سے جہاد کیا اور انہیں کے لیے بھلائیاں ہیں اور یہی مراد کو پہنچے۔ اللہ نے ان کے لیے تیار کر رکھی ہیں بہشتیں جن کے نیچے نہریں رواں ہمیشہ ان میں رہیں گے یہی بڑی مراد ملنی ہے۔

الخیرات سے مراد دنیا کی بھلائیاں، قبر کی بھلائیاں، آخرت کی بھلائیاں سب ہی شامل ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ مجاہد کے مال و اعمال میں برکت ہوتی ہے اور قبر کے حساب و عذاب و وحشت اور نزع کی شدت سے امن ملتا ہے اور آخرت میں درجات نصیب ہوتے ہیں۔ (تفسیر نور العرفان، ص 242)

2۔ سارے صحابہ عادل ہیں: بعض صحابہ کرام سے گناہ اور معصیت صادر ہوئی مگر وہ اس پر قائم نہ رہے بلکہ انہیں توبہ کی توفیق ملی لہٰذا یہ درست ہے کہ سارے صحابہ کرام عادل ہیں۔ اللہ پاک نے ان کے بارے میں فرمایا ہے: وَ كُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰىؕ- (پ 27، الحدید: 10) ترجمہ: اور ان سب سے اللہ نے سب سے اچھی چیز (جنت) کا وعدہ فرما لیا ہے۔ اور فرماتا ہے: رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُؕ- (پ 7، المائدۃ: 119) ترجمہ کنز العرفان:ان سب سے اللہ راضی ہوا اور یہ اللہ سے راضی ہیں۔ (تفسیر سورۂ نور، ص 35)

3۔ فضیلت کا یقین: میری امت میں سب سے بہتر لوگ میرے زمانہ کے ہیں اور پھر وہ لوگ جو ان سے ملے ہوئے ہیں اور پھر ان کے بعد والے لوگ سب سے بہتر ہیں۔ (بخاری، 2/515، حدیث: 3650)

4۔ تعظیم و توقیر: میرے صحابہ کا احترام کرو کیونکہ وہ تم میں سب سے افضل ہیں۔ (نسائی الکبریٰ)

5۔ عیب جوئی نہ کی جائے: میرے صحابہ کو برا بھلا نہ کہو اس شخص پر اللہ کی لعنت ہو جو میرے صحابہ کو برا کہے۔ (طبرانی)

اللہ پاک ہمارے دلوں میں صحابہ کرام کی محبت ڈال دے اور ہم سب کو صحابہ کرام کے نقشِ قدم پر چلنے اور ان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

صحابہ کرام کے حقوق کا خیال رکھنا بھی عقیدے کا تقاضا ہے، صحابی کسے کہتے ہیں؟ حضرت علامہ حافظ ابن حجر عسقلانی شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جن خوش نصیبوں نے ایمان کی حالت میں اللہ کے پیارے نبی ﷺ سے ملاقات کی ہو اور ایمان ہی پر ان کا انتقال شریف ہوا ان خوش نصیبوں کو صحابی کہتے ہیں۔ (نخبۃ الفکر، ص 111) اکابر محدثین کے مطابق صحابہ کرام کی تعداد ایک لاکھ سے سوا لاکھ کے درمیان تھی، اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: تمام صحابہ کرام کے نام معلوم نہیں، جن کے معلوم ہیں ان کی تعداد تقریبا 7000 ہے۔ (ملفوظات اعلیٰ حضرت، ص 400)

صحابہ سے محبت رکھنا کیوں ضروی ہے؟ اللہ پاک کا ارشاد ہے: وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍۙ-رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ وَ اَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ-ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ(۱۰۰) (پ 11، التوبۃ: 100) ترجمہ: اور سب میں اگلے پہلے مہاجر اور انصار اور جو بھلائی کے ساتھ ان کے پیرو ہوئے اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اور ان کے لیے تیار کر رکھے ہیں باغ جن کے نیچے نہریں بہیں ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں یہی بڑی کامیابی ہے۔

تمام صحابہ کرام اعلیٰ و ادنیٰ اور ان میں ادنیٰ کوئی نہیں سب جنتی ہیں و جہنم کی بھنک نہ سنیں گے اور ہمیشہ اپنی من مانتی مرادوں میں رہیں گے محشر کی بڑی گھبراہٹ انہیں غمگین نہ کرے گی فرشتے ان کا استقبال کریں گے کہ یہ ہے وہ دن جس کا تم سے وعدہ تھا یہ سب مضمون قرآن عظیم کا ارشاد ہے۔ (بہار شریعت، 1/254) آئیے صحابہ کرام کے بارے میں احادیث ملاحظہ کرتے ہیں:

انصار سے محبت رکھنا ایمان کی نشانی ہے اور انصار سے کینہ (بغض) رکھنا نفاق کی نشانی ہے۔ (بخاری، حدیث: 17)

میرے اصحاب کو برا بھلا مت کہو اگر کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر بھی سونا اللہ کی راہ میں خرچ کر ڈالے تو ان کے ایک مد غلہ کے برابر بھی نہیں ہو سکتا اور نہ ان کے آدھے مد کے برابر۔ (بخاری، 2/522، حدیث: 3673)

صحابہ کرام سے محبت کا تعلق رکھنا دین ایمان اور احسان کا تقاضا ہے اس لیے صحابہ کرام کی عزت کرنا اور ان سے محبت رکھنا ہماری ضرورت ہے خدا تعالیٰ نے اپنی پاک کتاب میں ارشاد فرمایا: ان کی ہدایت کی پیروی کرو۔ اور پہلے پارے کے اختتام پر فرمایا: پھر اگر تم بھی اسی طرح ایمان لاؤ جس طرح وہ ایمان لائے تو ہدایت پاؤگے۔ آقا ﷺ کے اہل بیت اور آپ کے صحابہ کے بارے میں ہم پر کیا واجب ہے صحابہ کرام کا ذکر اللہ پاک نے تورات، انجیل اور قرآن مجید میں کیا ہے، ان کے بارے میں صحیح احادیث موجود ہیں، اہل بیت اور صحابہ کرام کے بارے میں ہم پر واجب ہے کہ ہم ان کے بارے میں اپنے دل صاف رکھیں، اپنی زبانیں پاک رکھیں ان کے فضائل بیان کریں ان کے اختلافات کے بارے میں خاموشی اختیار کریں، ان کی شان میں گستاخی نہ کریں جیسا کہ بخاری کی روایت سے واضح ہوا، ان تمام باتوں پر عمل پیرا ہونا چاہیے، یہ بات عام طور پر سمجھ نہیں آتی کہ صحابہ کرام کے درمیان جو اختلافات تھے ان کے بارے میں ہمیں کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے ہم نہیں جانتے ان معاملات کی اصل حقیقت کو اور یہ کہ جب اللہ پاک نے لوگوں کو جنت کی بشارت دے دی اب ان کے اختلافات کے بارے میں تذکرہ کر کے ہم کیا کر لیں گے! اس لیے ہمیں اس بارے میں خاموشی اختیار کرنی چاہیے اور ان کی شان میں گستاخی نہیں کرنی چاہیے۔ بہارِ شریعت میں ہے: تمام صحابہ کرام اہل خیر و صلاح (یعنی بھلائی والے) اور عادل ہیں، ان کا ذکر جب کیا جائے تو خیر یعنی بھلائی ہی کے ساتھ ہونا فرض ہے کسی صحابی کے ساتھ سوءِ عقیدت (برا عقیدہ) بد مذہبی و گمراہی و استحقاقِ جہنم ہے کہ وہ (بد اعتقادی) حضور اقدس ﷺ کے ساتھ بغض (دشمنی) ہے، کوئی ولی کتنے ہی بڑے مرتبے کا ہو کسی صحابی کے رتبے کو نہیں پہنچتا۔

کیوں نہ ہو رتبہ بڑا اصحاب و اہل بیت کا ہے خدائے مصطفیٰ اصحاب و اہل بیت کا

آل و اصحابِ نبی سب بادشہ ہیں بادشاہ میں فقط ادنیٰ گدا اصحاب و اہل بیت کا

اللہ پاک کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو اور ہمیں صحابہ کرام سے محبت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

ایک بزرگ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ زبان ایک درندے کی طرح ہے اگر تم اسے باندھ کر نہیں رکھوگے تو یہ تمہاری دشمن بن جائے گی۔(المستطرف) یاد رہے کہ ایک مسلمان پر حق ہے کہ وہ نہ تو دوسرے مسلمان کو گالی دے اور نہ ہی بلا اجازت شرعی کسی کو برا بھلا کہے، لیکن افسوس کہ عیب جوئی جیسی منحوس بیماری نے ہر طبقہ میں اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہیں، انسان کسی کی کمزوریاں گننے بیٹھے تو خونی رشتے بھی اس کی نظر میں بے قدر و قیمت ہو جاتے ہیں اور کبھی کبھار تو بد بختی ایسی غالب آتی ہے کہ ہدایت کے روشن ستاروں یعنی صحابہ کرام جیسی مقدس ہستیوں پر بھی طعن و تشنیع کرنےمیں مبتلا ہو جاتا ہے، ایسوں کو اللہ کی خفیہ تدبیر سے ڈر جانا چاہیے کیونکہ صحابہ کرام وہ مبارک ہستیاں ہیں جن کے بارے میں ہمارا مسلمہ عقیدہ ہے کہ تمام صحابہ کرام اہلِ خیر و صلاح ہیں اور عادل، ان کا جب ذکر کیاجائے تو خیر ہی کے ساتھ ہونا فرض ہے۔ (بہار شریعت)

1۔ دوجہاں کے تاجور ﷺ نے ارشاد فرمایا: میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو، میرے بعد انہیں تنقید کا نشانہ نہ بنانا جس نے ان سے محبت رکھی تو اس نے میری محبت کے سبب ان سے محبت رکھی اور جس نے ان سے بغض رکھا تو اس نے مجھ سے بغض کے سبب ان سے بغض رکھا اور جس نے انہیں اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی اور جس نے مجھے اذیت دی اس نے اللہ پاک کو اذیت دی اور قریب ہے کہ اللہ اس کی پکڑ فرمالے۔(ترمذی، 5/463، حدیث: 3888)

2۔ میرے اصحاب میری امت کے لیے امان ہیں اور جب وہ چلے جائیں گے تو میری امت پر وہ فتنے آجائیں گے جن سے اس کو ڈرایا گیا ہے۔ (شرح صحیح مسلم، 6/1206)

3۔ اس مسلمان کو آگ نہ چھوئے گی جس نے مجھے دیکھا یا مجھے دیکھنے والے کو دیکھا۔ (ترمذی، 5/694، حدیث:3858)

4۔ میرے صحابہ کی مثال میری امت میں کھانے میں نمک کی سی ہے کہ کھانا نمک کے بغیر درست نہیں ہوتا۔ (مراٰۃ المناجیح، جلد 8)

5۔ میرے صحابہ کو برا نہ کہو کیونکہ اگر تم میں کوئی احد پہاڑ بھر سونا خیرات کرے تو ان کے نہ مد کو پہنچے گا نہ آدھے کو۔(بخاری، 2/522، حدیث:3673)

امیر اہل سنت اپنے مشہور زمانہ نعتیہ دیوان وسائل بخشش میں یوں عرض کرتے ہیں:

محفوظ سدا رکھنا شہا بے ادبوں سے اور مجھ سے بھی سرزد نہ کبھی بے ادبی ہو

حضرت علامہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جن خوش نصیبوں نے ایمان کی حالت میں اللہ کریم کے پیارے نبی ﷺ سے ملاقات کی اور ایمان پر ہی ان کا انتقال شریف ہوا ان خوش نصیبوں کو صحابی کہتے ہیں۔ تمام صحابہ کی فضیلت کا اعتقاد رکھنا واجب ہے، صحابہ کرام کے حقوق مندرجہ ذیل ہیں:

1۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: میرے صحابہ کرام کی عزت کرو کہ وہ تمہارے نیک ترین لوگ ہیں۔ (مشکوٰۃ المصابیح، 2/413، حدیث: 6012)

2۔ میرے صحابہ کی عزت کرو کہ وہ تم میں سے بہترین لوگ ہیں۔ (مشکوٰۃ المصابیح، 2/413، حدیث: 6012)

3۔ جب تم لوگوں کو دیکھو کہ وہ میرے صحابہ کرام کو براکہہ رہے ہیں تو کہو! اللہ کی لعنت ہو تمہارے شر پر۔ (ترمذی، 5/464، حدیث: 3892)

شرحِ حدیث: حضرت علامہ مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں: یعنی میرے صحابہ کرام تو خیر ہی خیر ہیں تم ان کو برا کہتے ہو تو وہ برائی تمہاری طرف ہی لوٹتی ہے اور اس کا وبال تم پر ہی پڑتا ہے۔ (مراٰۃ المناجیح، 8/344)

4۔ میرے صحابہ کی جس نے میری وجہ سے عزت کی تو میں بروز قیامت اس کا محافظ ہوں گا اور جس نے میرے صحابہ کو گالی دی تو اللہ نے اس پر لعنت کی ہے۔ ( فضائل الصحابہ للامام احمد، 2 /908، حدیث: 1733)

5۔ یعنی جب میرے صحابہ کا ذکر آئے تو باز رہو(یعنی برا کہنے سے باز رہو)۔ (معجم کبیر، حدیث: 1427)

شرحِ حدیث: حضرت علامہ علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: یعنی صحابہ کرام کو برا بھلا کہنے سے باز رہو یعنی قرآن کریم میں ان کے لیے رضائے الٰہی کا مژدہ (یعنی خوشخبری) بیان ہوچکا ہے یعنی ضرور ان کا انجام پرہیزگاری اور رضائے الٰہی کے ساتھ جنت میں ہوگا، یہ وہ حقوق ہیں جو امت کے ذمہ باقی ہیں، لہٰذا جب ان کا ذکر کرو تو صرف صرف بھلائی اور نیک دعاؤں کے ساتھ ہی کرو۔ (مرقاۃ المفاتیح، 9/282)

اللہ پاک ہمیں حقیقی معنوں میں صحابہ کرام کی تعظیم کرنا اور ان کی محبت عطا فرمائے۔ آمین

صحابہ کا گدا ہوں اور اہل بیت کا خادم یہ سب ہے آپ ہی کی تو عنایت یا رسول اللہ


صحابی وہ خوش نصیب مسلمان ہیں جنہوں نے ایمان اور حالت بیداری میں حضور ﷺ کی صحبت پائی پھر وہ ایمان کی حالت میں دنیا سے رخصت ہوئے۔ قرآن مجید میں صحابہ کرام کے بارے میں ارشاد ہے: رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ وَ اَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ-ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ(۱۰۰) (پ 10، التوبۃ: 100) ترجمہ: اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اور ان کے لیے تیار کر رکھے ہیں باغ جن کے نیچے نہریں بہیں ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں یہی بڑی کامیابی ہے۔

1۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میرے صحابہ کی عزت کرو کہ وہ تمہارے نیک ترین لوگوں میں سے ہیں۔ (مشکوٰۃ المصابیح، 2/413، حدیث: 6012)

2۔ ایک روایت میں ہے: میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں تم ان میں سے جس کی بھی اقتدا کروگے یعنی پیروی کروگے تو ہدایت پاجاؤگے۔(مشکوٰۃ المصابیح، 2/414، حدیث: 6018)

3۔ ارشاد فرمایا: میرے صحابہ کو گالی نہ دو قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر تم میں سے ایک شخص احد پہاڑ کی مثل سونا خرچ کر دے تو ان کے سیر اور آدھے سیر کو نہیں پہنچ سکے گا۔ (عقائد و مسائل، ص 98) اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام کا مقام و مرتبہ بہت بلند و اعلیٰ ہے کوئی ولی صحابہ کرام کے مرتبے تک نہیں پہنچ سکتا۔

4۔ جو میرے صحابہ کو برا کہے اس پر اللہ کی لعنت اور جو ان کی عزت کی حفاظت کرے میں قیامت کے دن اس کی حفاظت کروں گا۔ (ابن عساکر، 44/222) اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام کی بارگاہ میں ادنیٰ گستاخی بھی منع ہے، کیونکہ یہ حضرات اللہ کے محبوب ﷺ کے قریب تر ساتھی ہیں۔

5۔ حضور ﷺ نے فرمایا: میرے صحابہ کے معاملے میں اللہ سے ڈرو میرے صحابہ کے معاملے میں اللہ سے ڈرو! میرے بعد انہیں طعن و تشنیع کا نشانہ نہ بنانا کیونکہ جس نے ان سے محبت کی تو اس نے میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا تو اس نے میرے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا اور جس نے انہیں ایذا پہنچائی تو اس نے ضرور مجھے ایذا پہنچائی اور جس نے مجھے کو ایذا پہنچائی تو ضرور اس نے اللہ پاک کو ایذا پہنچائی تو قریب ہے کہ اللہ اس کی پکڑ فرمائے گا۔ (ترمذی، 5/463، حدیث: 3888)

اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں اللہ کے محبوب ﷺ کے پیارے صحابہ کا حقیقی عشق عطا فرمائے اور ادب و احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین