حضرت علامہ
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جن خوش نصیبوں نے ایمان کی حالت
میں حضور ﷺ کی صحبت کا شرف پایا اور ایمان ہی پر خاتمہ ہوا انہیں صحابی کہتے ہیں۔
(نزہۃ النظر، ص 111)صحابہ کی جماعت امت میں سب سے افضل اور لوگوں میں سب سے بہتر
ہے، نبی کریم ﷺ نے فرمایا: میرے صحابہ کی عزت کرو وہ تمہارے بہترین لوگ ہیں۔ (مشکوٰۃ
المصابیح، 2/413، حدیث: 6012) صحابہ کرام کو اللہ پاک نے اپنے نبی کریم ﷺ کی
مصاحبت کے لیے منتخب فرمایا، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔
صحابہ کرام کے
ہم پر کچھ خاص حقوق ہیں جن کا ادا کرنا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے، ان میں سے کچھ
حقوق یہ ہیں:
1۔
ان کے جنتی ہونے کا یقین: اللہ پاک نے قرآن مجید میں ارشاد
فرمایا: لٰكِنِ الرَّسُوْلُ وَ
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ جٰهَدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْؕ-وَ
اُولٰٓىٕكَ لَهُمُ الْخَیْرٰتُ٘-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸۸) اَعَدَّ
اللّٰهُ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ
فِیْهَاؕ-ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ۠(۸۹) (التوبۃ:88-89)
ترجمہ: لیکن رسول اور جو ان کے ساتھ ایمان لائے انہوں نے اپنے مالوں جانوں سے جہاد
کیا اور انہیں کے لیے بھلائیاں ہیں اور یہی مراد کو پہنچے۔ اللہ نے ان کے لیے تیار
کر رکھی ہیں بہشتیں جن کے نیچے نہریں رواں ہمیشہ ان میں رہیں گے یہی بڑی مراد ملنی
ہے۔
الخیرات سے
مراد دنیا کی بھلائیاں، قبر کی بھلائیاں، آخرت کی بھلائیاں سب ہی شامل ہیں، اس سے
معلوم ہوا کہ مجاہد کے مال و اعمال میں برکت ہوتی ہے اور قبر کے حساب و عذاب و
وحشت اور نزع کی شدت سے امن ملتا ہے اور آخرت میں درجات نصیب ہوتے ہیں۔ (تفسیر نور
العرفان، ص 242)
2۔
سارے صحابہ عادل ہیں: بعض صحابہ کرام سے گناہ اور معصیت صادر ہوئی مگر
وہ اس پر قائم نہ رہے بلکہ انہیں توبہ کی توفیق ملی لہٰذا یہ درست ہے کہ سارے
صحابہ کرام عادل ہیں۔ اللہ پاک نے ان کے بارے میں فرمایا ہے: وَ كُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ
الْحُسْنٰىؕ-
(پ 27، الحدید: 10) ترجمہ: اور ان سب سے اللہ نے سب سے اچھی چیز (جنت) کا وعدہ
فرما لیا ہے۔ اور فرماتا ہے: رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُؕ- (پ
7، المائدۃ: 119) ترجمہ کنز العرفان:ان سب سے اللہ راضی ہوا اور یہ اللہ سے راضی
ہیں۔ (تفسیر سورۂ نور، ص 35)
3۔
فضیلت کا یقین: میری
امت میں سب سے بہتر لوگ میرے زمانہ کے ہیں اور پھر وہ لوگ جو ان سے ملے ہوئے ہیں
اور پھر ان کے بعد والے لوگ سب سے بہتر ہیں۔ (بخاری، 2/515، حدیث: 3650)
4۔
تعظیم و توقیر:
میرے صحابہ کا احترام کرو کیونکہ وہ تم میں سب سے افضل ہیں۔ (نسائی الکبریٰ)
5۔
عیب جوئی نہ کی جائے: میرے صحابہ کو برا بھلا نہ کہو اس شخص پر اللہ کی
لعنت ہو جو میرے صحابہ کو برا کہے۔ (طبرانی)