وقار یونس (درجہ سادسہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ غوثِ اعظم ولیکا سائٹ کراچی پاکستان)
دینِ اسلام کی خصوصیات میں سے ایک اہم خصوصیت اس کا "حقوق
العباد" کا نظام ہے۔ ان حقوق العباد کا تعلق خواہ کسی شعبہ کے افراد سے ہو اسلام
نے بھر پور رہنمانی فرمائی ہے خواہ وہ طبقہ دنیاوی ہو یا دینی ہر کسی کے دین سلام
نے حقوق کو بیان کیا ہے اور جن پر یہ حقوق ہیں ان کو بجالانے کا حکم دیا ہے۔ جس
طرح ایک گھر میں گھڑ کا سر براہ ہوتا ہے، اس پر ان کے ماتحتوں کے حقوق ادا کرنا لازم
ہیں۔ اسی طرح مسجد میں امام یا متولی ہے جن پر مسجد کے مقتدیوں کے حقوق کا لحاظ
لازم ہے کیونکہ فرمانِ مصطفی صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اس سے اس کے ماتحتوں کے بارے میں
پوچھا جائے گا۔
آئیے اب ہم مقتدیوں
کے حقوق میں 5 حقوق کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں:۔
(1) مقتدیوں کو ان کے بنیادی احکامات سے آگا ہی دینا: مسجد کا امام ان
کو ان کے بنیادی احکامات سکھائے ، ان کو سکھانے کیلئے درس و بیان کا اہتمام کرے جیسا
کہ سرکار دو عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم اور صحابۂ کرام کے مبارک عمل سے ہمیں پتا چلتا ہے ۔
(2) مقتدیوں کے حال کی رعایت کرنا : امام پر لازم ہے وہ دورانِ نماز مقتدیوں کے حال کی رعایت
کرے کیونکہ جماعت میں بوڑھے نوجوان اور کم عمر کے افراد سب شامل ہوتے ہیں۔ اس طرح
کا انداز اختیار نہ کرے کہ مقتدی اکتاہٹ کا شکار ہو جائیں۔
(3) مقتدیوں کو بنیادی سہولیات فراہم کرنا: مقتدیوں کا یہ حق مسجد کمیٹی اور مسجد کے متولی کے متعلق ہے
کہ وہ مسجد میں نمازیوں کے لئے بنیادی سہولیات فراہم کرے۔ جیسے سردیوں میں گرم پانی
وغیرہ اور گرمیوں میں ہوا وغیرہ کا معقول انتظام تاکہ مقتدیوں کا دل مسجد میں لگا رہے۔
(4)مقتدیوں سے مشورہ کرتا : امام مسجد اور مسجد کمیٹی کو چاہیے کہ وہ مسجد کے معاملات میں
گاہے بگاہے مشورہ کرتے رہے۔ یوں مقتدیوں اور مسجد انتظامیہ کے درمیان محبت بڑھے گی
اور مسجد کی ترقی کا ذریعہ ہوگا۔
(5) مقتدیوں کی خوشی غمی میں شرکت کرنا :مقتدیوں کا یہ حق ہے کہ مسجد کے متعلقین ان کی خوشیوں اور
غم کے لمحات میں ان کا ساتھ دیں جیسا کہ سرکار دو عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنے غلاموں کے پاس ان کی غم خواری کیلئے
تشریف لے جاتے تھے۔ اس سے ان شاء الله ایک بہترین اسلامی معاشرہ قائم ہوگا۔
ہم اللہ پاک سے دعا
کرتے ہیں ہمیں حقوقُ الله کے ساتھ ساتھ تمام قسم کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا
فرمائے۔ اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محمد انس رضا عطاری(درجہ ثالثہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ بخاری موسیٰ لین ،کراچی پاکستان
)
امامت کی فضیلت و عظمت اِس سے بڑھ کر کیا بیان کی جائے کہ یہ
وہ منصب ہے جسے رسول ُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور خلفائے راشدین رضی
اللہُ عنہ نے نبھایا اور اس کے لئے بہترین افراد منتخب کئے۔ اور مقتدی بھی کتنے
خوش نصیب ہیں کہ اللہ پاک نے انہیں اپنی بارگاہ میں آنے کی دعوت دی بلکہ انہیں حکم
دیا کہ وہ نمازیں پڑھے ۔اب امام و مقتدی کے متعلّق دو روایات قلم بند کرتا ہوں :
(1) رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا : روزِ قیامت تین شخص کستوری کے ٹیلوں پر ہونگے ان میں سے ایک شخص وہ جو
قوم کا امام رہا اور وہ (یعنی قوم کے لوگ ) اِس سے راضی تھے ۔(ترمِذی،3/ 397 ، حدیث:
1993 )
(2) ایک اور
روایت میں ہے کہ اِمام کو اس قدر اجر ملے گا جس قدر اس کے پیچھے نماز ادا کرنے والے
سب مقتدیوں کو ملے گا ۔(نسائی ص 112 ، حدیث : 643 )
اب آتے ہیں ہم مقتدیوں کے حقوق کی جانب :
(1) محافل ، بڑی را توں، اور دیگر مسجد انتظامیہ اور
نمازیوں کو وقت دینے کی عادت ہونی چاہئے۔
(2) مقتدی
اکثر خوشی و غمی کے مواقع پر امام صاحب کی شرکت سے خوش ہوتے ہیں اس لئے چاہئے کہ
اگر کوئی شخص محبت سے دعوت دے تو امام صاحب کو کچھ نہ کچھ وقت نکال کر شرکت کر لینی
چاہئے۔
(3) نمازِ
باجماعت کے بعد کئی لوگ بچوّں کو دم کرانے کے لئے آتے ہیں ۔ امام صاحب اگر باقاعدہ
اَوراد و وظائف اور عملیات نہ بھی کرتے ہوں تو بھی مختصراً اَوْراد جیسے ”درودِ
پاک “ ”یا سلامُ “ سورۃ الفلق یا سورۃ الناس پڑھ کر دم کر دینا چاہئے ۔
(4)امام صاحب کو ایسی
عادات اور باتوں سے اجتناب کرنا چاہئے جو مروّت(رواج ) کے خلاف تصوّر کی جاتی ہوں جیسے
راستے میں عوامی طریقے سے کھانا ، عوامی مقامات پر یا روڈ کنارے استنجا کرنا ،سگریٹ
نوشی کرنا اور ہر دوسرے شخص سے اُ دھار مانگنا ۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ امام صاحبان کو مقتدیوں کے حقوق اور
مقتدیوں کو امام صاحبان کے حقوق نبھانے کی توفیق عطا فرما۔ اٰمین بِجاہِ خَاتمِ
النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محمد کامران عطّاری (درجۂ سادسہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ کنزالایمان کراچی،
پاکستان)
دینِ اسلام ہماری ہر معاملے میں راہنمائی کرتا ہے چاہے وہ
دینی معاملات ہوں یا دنیاوی، ذاتی ہوں یا اجتماعی، معاشی ہوں یا معاشرتی۔الغرض ہم
زندگی کے جس بھی شعبے کو دیکھ لیں ہمیں شریعت میں اس کے متعلق کَمَا حَقُّہٗ
معلومات ملیں گی۔ جب ہم معاشرتی حقوق کی بات کرتے ہیں تو ان میں سے ایک طبقہ مقتدی
حضرات کا بھی ہے، ہمارا پیارا دین ان کے حقوق کا بھی محافظ ہے۔ اسی تعلق سےیہاں
چند حقوق زینت قِرطاس کئے جا رہے ہیں توجہ سے پڑھئے:
(1)مقتدی گویا کہ
امام کواپنی نماز سونپ رہا ہوتا ہے اگر امام کی نماز دُرست ہوگی تب ہی مقتدی کی
نماز بھی درست کہلائے گی تو سب سے پہلا اور بنیادی حق تو یہ ہے کہ امام وہ بنے جس
میں امام بننے کی شرائط پائی جاتی ہوں اور جو اُمور منافیِ امامت ہیں ان سے پاک
ہو۔
(2)امام اس نماز کو
دُرست طریقے سے ادا بھی کرے، نماز میں بھولے سے کوئی واجب رہ جانے کا علم ہوجانے
کے بعد سجدۂ سہو کرکے اپنی اور مقتدیوں کی نماز بچائے۔
(3)امام نماز کے
متعلق احکامات مقتدیوں کو سکھائے تا کہ اگر مقتدیوں کی نماز میں کوئی کمی ہو تو وہ
بھی دور ہو جائے۔ امام صاحب کو چاہئے کہ جمعہ کے علاوہ بھی موقع بموقع درس و بیان
کا سلسلہ جاری رکھے بالخصوص وُضو، نماز، طہارت کے اہم مسائل اور عقائد کے حوالے سے
درس کا سلسلہ جاری رکھے لوگوں کے سوالات کا مناسب انداز میں جواب دے، معلومات نہ
ہونے کی صورت میں اس کے متعلق معلومات حاصل کر کے ہی جواب دینا چاہئے۔
(4)امام کو چاہئے کہ
چھوٹوں، بزرگوں، کمزوروں اور ضعیف لوگوں کا لحاظ رکھتے ہوئے قِراءَت کرے، حدیث سے
یہ بھی ثابت ہے کہ ایک صحابی نے حضور علیہ السّلام کی بارگاہ میں عرض کی: فلاں کے
لمبی نماز پڑھانے کی وجہ سے میں نماز (جماعت سے) نہیں پڑھ پاتا تو نبیِّ کریم
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سخت تنبیہ فرمائی اور ناراضی کا اظہار کیا اور
فرمایا: جو لوگوں کو نماز پڑھائے تخفیف کے ساتھ پڑھائے کیونکہ نمازیوں میں بیمار،
کمزور اور کسی ضروری کام کے لئے جانے والے بھی ہوتے ہیں۔(بخاری،
1/50،حدیث:90ملخصاً)
(5)مقررہ اوقات پر
نماز کی پابندی کے ساتھ مسجد میں حاضر ہو مگر یہ کہ کوئی شرعی عذر مانع ہو۔
(6)مقتدیوں کے
انفرادی مسائل کا خیال رکھے، ان کی پریشانی اور مشکل میں ان کا ساتھ دے، انہیں
اپنی طرف راغب کرے، مُتَنَفر نہ کرے، جیسے اگر کوئی مقتدی اپنے گھر محفل میں شرکت
کرنے، ایصالِ ثواب کرنے،کسی موضوع پر درس و بیان کرنے کا مُطالبہ کرے تو حتی الامکان
قبول کرے، مقتدی اکثر خوشی و غمی کے موقع پر امام صاحب کی شرکت سے خوش ہوتے ہیں،
اس لئے چاہئے کہ اگر کوئی کسی خوشی کے موقع پر دعوت دے تو مناسب صورت میں ضرور
جائے، کوئی نمازی بیمار ہوجائے تو عیادت کیلئے جائے، اسی طرح اگر علاقے میں کوئی
میّت ہوجائے بِالخصوص کسی نمازی یا اس کے رشتے دار کا انتقال ہوجائے تو نمازِ
جنازہ اور کفن دفن کے معاملات میں شرکت کرے، یہ عمل جہاں سوگواروں کیلئے دِلجوئی
کا سبب ہوگا وہیں امام صاحب کی قدر بھی لوگوں کی نظر میں بڑھے گی۔ اسی طرح بعض
مقتدی بچّوں کو دَم کروانے کے لئے آتے ہیں، امام صاحب کو چاہئے کہ امیرِ اہلِ سنّت
دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ نے مدنی پنج سورہ میں جو اوراد وظائف ذکر فرمائے ہیں یا
جو ہمارے بزرگوں سے منقول ہیں ان کے ذریعے دَم کردے۔
اللہ پاک ہمیں حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوقُ العباد بھی
پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم