اسلام ایک ایسا دین ہے جو صرف انسانوں ہی کو نہیں بلکہ تمام مخلوقات کے ساتھ عدل، رحم، شفقت اور احسان کا درس دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو”خلیفۃ اللہ فی الارض بنایا اور دیگر مخلوقات پر اسے ایک طرح کی فوقیت عطا فرمائی، لیکن اس فوقیت کا مطلب یہ نہیں کہ وہ جانوروں یا کسی بھی بے زبان مخلوق کے ساتھ ظلم، زیادتی یا بدسلوکی کرے۔ قرآن و سنت نے نہ صرف انسانوں کے حقوق بیان کیے بلکہ جانوروں کے بھی حقوق واضح کیے اور رسول اللہ ﷺ نے اپنی سنت مبارکہ سے ہمیں ان حقوق کی پاسداری کا عملی نمونہ سکھایا۔

اسلام میں جانوروں کے حقوق کی بنیاد: اسلام میں جانوروں کے ساتھ حسن سلوک کی بنیاد رحمت اور عدل ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کو ”رحمۃ للعالمین“ فرمایا گیا، اور اس عالم میں جانور بھی شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) ترجمہ کنزالایمان: اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لیے۔ (پ17، الانبیاء: 107)

لہٰذا آپ ﷺ کی تعلیمات میں نہ صرف انسانوں کے ساتھ بلکہ حیوانات کے ساتھ بھی حسن سلوک کی تاکید موجود ہے۔

(1) جانوروں کو ایذا دینا گناہ کبیرہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عُذِّبَتِ امْرَأَةٌ فِي هِرَّةٍ حَبَسَتْهَا ، حَتَّى مَاتَتْ، فَدَخَلَتْ فِيهَا النَّارَ، لَا هِيَ أَطْعَمَتْهَا، وَلَا سَقَتْهَا، إِذْ حَبَسَتْهَا، وَلَا هِيَ تَرَكَتْهَا تَأْكُلُ مِنْ خَشَاشِ الْأَرْضِ (صحیح البخاری: 2365) ایک عورت کو بلی کی وجہ سے عذاب دیا گیا۔ اس نے بلی کو باندھ دیا، نہ اسے کھلایا، نہ پلایا اور نہ ہی اسے آزاد چھوڑا کہ زمین کے کیڑے مکوڑے کھا لیتی، یہاں تک کہ وہ مر گئی۔

اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جانور کو بھوکا مار دینا اتنا بڑا ظلم ہے کہ اس پر جہنم کا عذاب واجب ہو جاتا ہے۔

(2) جانوروں کو پانی پلانا باعث جنت: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:بَيْنَمَا رَجُلٌ يَمْشِي، اشْتَدَّ عَلَيْهِ الْعَطَشُ، فَنَزَلَ بِئْرًا فَشَرِبَ مِنْهَا، ثُمَّ خَرَجَ، فَإِذَا كَلْبٌ يَلْهَثُ، يَأْكُلُ الثَّرَى مِنَ الْعَطَشِ، فَقَالَ: لَقَدْ بَلَغَ هَذَا مِثْلُ الَّذِي بَلَغَ بِي، فَمَلَأَ خُفَّهُ، ثُمَّ أَمْسَكَهُ بِفِيهِ، حَتَّى رَقَى، فَسَقَى الْكَلْبَ ، فَشَكَرَ اللَّهُ لَهُ، فَغَفَرَ لَهُ (صحیح البخاری: 2363)

ایک شخص پیاس کی شدت سے کنویں میں اترا، پانی پیا، واپس نکلا تو ایک کتا دیکھا جو مٹی چاٹ رہا تھا، اس نے کہا: اس کو بھی اتنی ہی پیاس لگی ہے جتنی مجھے لگی تھی۔ اس نے اپنا موزہ پانی سے بھرا اور کتے کو پلایا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے اس عمل کو پسند فرمایا اور اسے بخش دیا۔جانوروں پر رحم کرنا، چاہے وہ کتا جیسا ناپاک سمجھا جانے والا جانور ہو، اللہ کی رضا اور بخشش کا ذریعہ بن سکتا ہے۔

(3) ظلم کرنا حرام ہے، چاہے جانور پر ہی کیوں نہ ہو: حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: إِنَّ اللَّهَ كَتَبَ الإِحْسَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ (صحیح مسلم: 1955)یعنی اللہ تعالیٰ نے ہر چیز پر احسان (نرمی، رحم) لازم کر دیا ہے۔مزید فرمایا: فَإِذَا قَتَلْتُمْ فَأَحْسِنُوا الْقِتْلَةَ، وَإِذَا ذَبَحْتُمْ فَأَحْسِنُوا الذِّبْحَةَ، وَلْيُحِدَّ أَحَدُكُمْ شَفْرَتَهُ، وَلْيُرِحْ ذَبِيحَتَهُ جب تم قتل کرو تو عمدگی سے کرو، جب تم ذبح کرو تو احسن طریقے سے کرو، ہر شخص اپنی چھری کو تیز کرے اور ذبیحہ کو راحت دے۔

یہاں جانور کے ذبح کرنے میں بھی احسان یعنی نرمی اور آسانی کی تاکید کی گئی، تاکہ وہ تکلیف میں نہ آئے۔

(4) جانوروں پر سواری کے وقت نرمی: حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک اونٹ کو دیکھا جو بھوکا اور کمزور تھا، آپ ﷺ نے فرمایا: اتَّقُوا اللَّهَ فِي هَذِهِ الْبَهَائِمِ الْمُعْجَمَةِ ، فَارْكَبُوهَا صَالِحَةً ، وَكُلُوهَا صَالِحَةً(سنن ابی داؤد: 2548)

ترجمہ : ان بے زبان جانوروں کے بارے میں اللہ سے ڈرو۔ انہیں اچھی حالت میں سواری کے لیے استعمال کرو اور جب کھانے کے قابل ہوں تب کھاؤ۔

جانور بیمار، کمزور یا کمزور جسم والا ہو تو اسے نہ کھاؤ، نہ اس پر سوار ہو، بلکہ اس کے ساتھ رحم کا سلوک کرو۔

(5) جانوروں کو کسی کھیل تماشے یا نشانے کا ہدف بنانا حرام: رسول اللہ ﷺ نے ایک صحابی کو دیکھا جو پرندے کو نشانے پر رکھ کر تیر اندازی کر رہے تھے، آپ ﷺ نے فرمایا: لَعَنَ اللَّهُ مَنِ اتَّخَذَ شَيْئًا فِيهِ الرُّوحُ غَرَضًا (صحیح مسلم: 1958) یعنی اللہ تعالیٰ نے اس شخص پر لعنت فرمائی جس نے کسی جاندار کو نشانے کے طور پر استعمال کیا۔

تفریح یا کھیل کے طور پر جانور کو تکلیف دینا، ہدف بنانا، یا اذیت دینا درست نہیں ہے ۔

اسلامی تعلیمات کے چند اصول جو جانوروں کے حق میں ہیں:

1. جانور کو بھوکا یا پیاسا نہ رکھو۔

2. جانور کو باندھ کر یا قید کر کے نہ مارو۔

3. ذبح کرتے وقت چھری تیز کرو اور دوسرے جانوروں کے سامنے ذبح نہ کرو۔

4. جانور کو بے جا بوجھ نہ اٹھاؤ۔

5. جانوروں پر رحم، جنت کا ذریعہ بن سکتا ہے۔

اقوالِ زریں:

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اگر فرات کے کنارے ایک بکری بھی پیاس سے مر گئی، تو مجھے ڈر ہے کہ اللہ عمر سے اس کے بارے میں پوچھے گا۔

شیخ سعدی فرماتے ہیں: جو شخص جانوروں کے ساتھ رحم کرتا ہے، وہ دل کا نرم اور فطرت کا پاکیزہ ہوتا ہے۔

اسلام نے جانوروں کے حقوق کو بھی بیان کیا ہے ۔ ان کی بھوک، پیاس، تکلیف، آرام اور ان کے جذبات تک کو اہمیت دی گئی ہے۔ اگرچہ جانور بول نہیں سکتے، لیکن ان پر ظلم کرنے والا بول کر بھی معذور نہ ہوگا۔ حضور نبی کریم ﷺ کی سیرت طیبہ میں جانوروں کے ساتھ حسن سلوک کے بے شمار نمونے موجود ہیں۔ ہمیں ان سے سبق لیتے ہوئے اپنے اردگرد موجود جانوروں کے ساتھ نرمی، شفقت، اور انصاف کا سلوک اختیار کرنا چاہیے۔ کیونکہ ممکن ہے، کسی بے زبان جانور کے ساتھ حسن سلوک ہماری نجات کا ذریعہ بن جائے۔

اللہ پاک عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


جس طرح ایک انسان کے حقوق ہیں اسی طرح جانوروں کے بھی ہیں، قرآن وحدیث میں جانوروں کے حقوق بھی بیان کیے گئے ہیں جانور بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے ایک انسان کو جانوروں کے حقوق کا خاص خیال رکھنا چاہیے ، مثلاً ظلم نہ کرنا ان کی خوراک کا خیال رکھنا طاقت سے زیادہ بوجھ نہ لادنا وغیرہ ۔۔آیئے جانوروں کے چند حقوق پڑھیے:

(1)جانوروں کو سیراب کرنا : روایت ہے حضرت عمرو ابن شعیب سے وہ اپنے والد سے وہ اپنے دادا سے راوی فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم جب بارش کی دعا کرتےتو کہتے الٰہی اپنے بندوں اپنے جانوروں کو سیراب کر اپنی رحمت پھیلا دے اپنے مردہ شہرکو زندہ کردے ۔ (کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:2 ، حدیث نمبر:1506)

(2)ظلم نہ کرنا: روایت ہے حضرت سہیل ابن حنظلیہ سے فرماتے ہیں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم ایک اونٹ پر گزرے،جس کی پیٹھ پیٹ سے مل گئی تھی تو فرمایا ان بے زبان جانوروں میں اﷲ سے ڈرو ان پر سوار ہو جب وہ لائق سواری ہوں اور انہیں چھوڑ دو لائق سواری کی حالت میں ۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:5 ، حدیث نمبر:3370)

(3)پیٹھ کو منبر نہ بناؤ : روایت ہے حضرت ابوہریرہ سے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے راوی کہ فرمایا : اپنے جانوروں کی پیٹھوں کو منبر نہ بناؤ کیونکہ اﷲ تعالٰی نے انہیں اس لیے تمہارا تابع کیا ہے کہ تم کو اس شہر تک پہنچادیں جہاں تم بغیرسخت مشقت کے نہ پہنچتے اور رب نے زمین تمہارے لیے ہی پیدا کی ہے تو تم زمین پر اپنی ضروريات پوری کرو ۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:5 ، حدیث نمبر:3916)

(4)جانوروں کی دیکھ بھال کرنا: حضرت ام مالک بہزیہ فرماتی ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ و سلم نے فتنہ کا ذکر فرمایا اسے بہت قریب کیا ،میں نے عرض کیا یارسول الله! اس میں بہترین آدمی کون ہوگا ؟ فرمایا وہ شخص جو اپنے جانوروں میں رہے،ان کا حق ادا کردے اور اپنے رب کی عباد ت کرے اور وہ شخص جو اپنے گھوڑے کا سر پکڑے ہو وہ دشمن کو ڈرائے اور دشمن اسے ڈرایئں۔( مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:7 ، حدیث نمبر:5400 )

(5)جانوروں پر خرچ کرنا:حضرت عمر سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ بنی نضیر کے مال ان میں سے تھے جو اللہ تعالٰی نے اپنے رسول پر فئ فرمائے جن پر مسلمانوں نے گھوڑے دوڑائےنہ اونٹ چنانچہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص طور پر رہے کہ آپ اپنے گھر والوں کو ایک سال کا خرچ دےدیتے تھے پھرجو باقی بچتا اسے اللہ کی راہ میں ہتھیاروں جانوروں میں خرچ کرتےتھے ۔ (مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:5 ، حدیث نمبر:4056 )


دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے دین اسلام صرف عبادات اور معاملات پر منحصر نہیں بلکہ دین اسلام نے جس طرح انسان کی عظمت کو بیان کیا اسی طرح اسلام کے خوبی یہ بھی ہے کہ اس نے ہر ذی روح کے ساتھ بھلائی کرنے کا حکم بھی دیا جس طرح انسان کے حقوق بیان فرمائے اسی طرح جانوروں وغیرہ کے حقوق کو بھی اجاکر فرمایا ، چنانچہ آپ بھی جانوروں کے حقوق ملاحظہ کیجیے :

( 1 ) اپنے جانوروں کو راحت پہنچاؤ : حضرت سَیِّدُنا ابو یعلیٰ شداد بن اَوس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مَروی ہےکہ حضورنبی کریم رَءُوْفٌ رحیم صحیح ﷺنے ارشادفرمایا: ”بے شک! اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے ہرچیز میں احسان کو لازم فرمایا ہے، پس جب تم کسی کو قتل کرو تو اچھے طریقے سے قتل کرو ،جب کسی جانور کوذبح کرو تو اچھے طریقے سے کرو اور اپنی چھری کو خوب تیز کرلواور اپنے ذبیحہ کو راحت پہنچاؤ۔“( مسلم کتاب الصید و الذبائح و ما یوکل من الحیوان ،باب الامر باحسان الذبح و القتل ، ص 832 ، حدیث ، 5055 )

( 2 ) جانوروں کے دانہ پانی کا خیال رکھو : حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ایک عورت جہنم میں گئی ایک بلی کے سبب کہ اس سے باندھے رکھا تھا نہ خود کھانا دیا نہ چھوڑا کہ زمین کا گرا پڑایا جو جانور اس کو ملتا کھاتی اس وجہ سے اس عورت کے لیے جہنم واجب ہو گئی ۔ ( جامع الاحادیث ، جلد 4 ،صفحہ 200 ، حدیث ،2381 ، مکتبہ اکبر بک سیلرز لاہور )

( 3 ) جانوروں کے بارے میں اللہ پاک سے ڈرو : روایت ہے حضرت سہیل ابن حنظلیہ سے، فرماتے ہیں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم ایک اونٹ پر گزرے،جس کی پیٹھ پیٹ سے مل گئی تھی تو فرمایا : ان بے زبان جانوروں میں اﷲ سے ڈرو ان پر سوار ہو جب وہ لائق سواری ہوں اور انہیں چھوڑ دو لائق سواری کی حالت میں ۔ ( مشکوٰۃ المصابیح ، جلد ، 5 ، ص ، 198 ، حدیث ، 3223 )

( 4 ) جانوروں کو آپس میں نہ لڑانا : روایت ہے حضرت ابن عباس سے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جانور لڑوانے سے منع فرمایا۔( مشکوٰۃ المصابیح ، جلد:5 ، حدیث نمبر: 4103 )

شرح حدیث :اللہ تعالٰی رحم فرمائے،آج مسلمانوں میں مرغ لڑانا،کتے لڑانا،اونٹ،بیل لڑانے کا بہت شوق ہے یہ حرام سخت حرام ہے کہ اس میں بلا وجہ جانوروں کو ایذاء رسانی ہے،اپنا وقت ضائع کرنا۔بعض جگہ مال کی شرط پر جانور لڑائے جاتے ہیں یہ جوا بھی ہے حرام درحرام ہے۔جب جانوروں کو لڑانا حرام ہے تو انسان کو لڑانا سخت حرام ہے۔خیال رہے کہ اسلامی فوج کو کفار سے لڑانا جہاد ہے،یونہی مشن کے لیے تیاری اور جہاد کے لیے کشتی لڑنا اور لڑانا جہاد کی تیاری ہے یہ دونوں کام عبادت ہیں،مسلمانوں کی آپس میں جنگ کرانا یہ حرام ہے،لڑانا اور چیز ہے،کشتی اور جہاد اور چیز۔( مشکوٰۃ المصابیح ، جلد:5 ، حدیث نمبر: 4103 )

( 5 ) چہرے پر مارنا منع ہے : روایت ہے حضرت جابر سے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چہرے میں مارنے چہرے میں داغ لگانے سے منع فرمایا ۔( مشکوٰۃ المصابیح جلد ، 5 ص ، 673 ، شکار اور ذبیحوں کا بیان)

شرح حدیث :انسان یا جانور کے چہرے پر مارنا سخت منع ہے منہ پر نہ تمانچہ مارے نہ کوڑا وغیرہ کیونکہ چہرے میں نازک اعضاء ہیں جیسے آنکھ ، ناک ، کان ، جس پر چوٹ لگنے سے موت یا اندھے ہو جانے یا چہرا بگڑ جانے کا خطرہ ہے اور چہرے میں داغ لگانا تو بہت ہی برا ہے کہ اس میں تکلیف بھی بہت ہے اور منہ کا بگاڑ دینا ۔ ( مشکوٰۃ المصابیح جلد ، 5 ص ، 673 ، شکار اور ذبیحوں کا بیان)

( 6 ) جانوروں کو مارنا منع ہے : روایت ہے حضرت ابن عباس سے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے چار جانوروں کے قتل سے منع فرمایا چیونٹی،شہد کی مکھی،ہدہد اورممولا ہ (ایک عجیب الخلقت پرندہ)۔ ( کتاب: مشکوٰۃ المصابیح ، جلد:5 ، حدیث ، 4145 )

ہمیں بھی چاہیے کہ ہم جانور کو اچھے طریقے سے ذبح کریں مثلا جانور کو ذبح سے پہلے خوب کھلا پلا لیا جائے ایک کے سامنے دوسرے کو ذبح نہ کیا جائے اس کے سامنے چھری تیز نہ کی جائے ، ماں کے سامنے بچے کو اور بچے کے سامنے ماں کو ذبح نہ کیا جائے یعنی ذبح کرنے کی جگہ کی طرف گھسیٹ کر نہ لے جایا جائے اور جان نکل جانے سے پہلے اس کی کھال نہ اتاری جائے کہ یہ تمام باتیں ظلم اور زیادتی ہیں ذبیحہ کو آرام پہنچاؤ ، تیز چھری سے ذبح کر دینے میں راحت ہے گھنڑی چھری سے ذبح کرنے میں بہت تکلیف ہوتی ہے اس سے بچنا چاہیے پوری گردن نہ کاٹ دیں صرف حلقوم اور رگیں کاٹیں ۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ہر کسی کے ساتھ اس کے منصب کے مطابق بھلائی اور سلوک کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ امین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم


ہمارے پیارے دین اسلام نے ہمیں مسلمانوں کی خیر خواہی حسن سلوک اور غریبوں کی مدد کرنے کا درس دیتا ہے ۔ اسی طرح جانوروں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی بھی تلقین کرتا ہے۔ جانور جو کہ جدا جدا شکل وصورت والے ، الگ الگ اوصاف اور مزاج رکھنے والے ہیں۔ ان کی جنسیں بھی مختلف ہیں۔ آج کے دور میں ان کو بلاوجہ ایذا دی جاتی ہے ۔ جانور پر ظلم انسان پر ظلم کرنے سے زیادہ بڑا ہے ۔ کہ انسان تو اپنا درد کسی سے کہہ سکتا ہے ۔لیکن بے زبان جانور کسی سے فریاد نہیں کر سکتا ۔ ہمیں جانوروں کے حقوق کا خیال رکھنا چاہیے۔ آئیے جانوروں کے حقوق کے متعلق کچھ احادیث ملاحظہ کرتے ہیں۔

(1 ) جانور نہ لڑوانا : آج کے معاشرے میں مرغ ، اونٹ ، بیل لڑانے کا بہت شوق ہے۔ یہ سخت حرام ہے بلاوجہ جانور کو ایذا رسانی دی جاتی ہے۔ روایت ہے حضرت ابن عباس سے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جانور لڑوانے سے منع فرمایا ۔(مشکوۃ المصابیح ، کتاب الصيد والذبائح ، صفحہ نمبر : 372 ، حدیث : 3922)

( 2 ) وقت پر کھانا دینا : ہمیں جانوروں کے دانہ پانی کا خیال رکھناچاہیے۔ انہیں وقت پر کھانا دینا چاہیے۔ چنانچہ حضرت عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ایک عورت جہنم میں گئی ایک بلی کے سبب کہ اسےباندھے رکھا تھا۔ نہ خود کھانا دیا۔ نہ چھوڑا کہ زمین کا گرا پڑا یا جو جانور اس کو ملتا کھاتی۔( جامع الاحادیث ، باب : ، جلد : 4 ، صفحہ نمبر : 199 ، حدیث نمبر : 2380 ،مکتبہ اکبر بک سیلرز لاہور )

( 3 ) جانور کا خیال رکھنا :روایت میں ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک اونٹ کے پاس سے گزرے جس کی کمر پیٹ سے ملی ہوئی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ان بے زبانوں چوپایوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، اُن پر اس وقت سوار ہو جب یہ صحیح حالت میں ہوں اور انہیں اس وقت کھاؤ جب یہ ٹھیک ہوں۔( ابو داود شریف ،کتاب الجھاد ، باب ما يؤمر به من القيام على الدواب والبهائم ، 3 / 32 ، حدیث نمبر : 2548 )

( 4 ) ناحق قتل کرنا : کسی جانور کو بغیر کسی عذر بلاوجہ نہ قتل کیا جائے ۔ چنانچہ حضرت عبداللہ ابن عمر و ابن عاص سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو کوئی چڑیا یا اس سے اوپر کے کسی جانور کو ناحق مار ڈالے ۔ تو اس کے قتل کے متعلق اللہ اس سے پوچھے گا، عرض کیا گیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا حق کیا ہے؟ فرمایا کہ اسے ذبح کر کے کھائے یہ نہ کرے کہ اس کا سر کاٹے پھر اسے پھینک دے۔ ( مشکوۃ المصابيح ، كتاب الصيد والذبائح ، صفحہ نمبر : 371 ، حدیث 3912 )

( 5 ) جانوروں سے نرمی برتنا : جانوروں کے ساتھ نرمی کرنے ان کا خیال رکھنے میں ہماری ہی بھلائی ہے۔ چنانچہ حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جب تم سرسبز زمین میں سفر کرو تو اونٹوں کو زمین سے ان کا حصہ دو اور جب بنجر زمین میں سفر کرو تو اُنہیں تیز چلاؤ اور ان کے تھکنے سے پہلے وہاں سے گزر جاؤ اور جب تم رات میں قیام کرو تو راستے میں اترنے سے بچو کیونکہ وہ جانوروں کا راستہ ہے اور وہ جگہ رات کے وقت کیڑے مکوڑوں کا ٹھکانا ہے۔ (مسلم شریف ، کتاب الامارة و باب مراعاة مصلحة الدواب في السير۔۔۔۔ الخ، صفحہ نمبر : 818 ، حدیث نمبر : 4959 ، 4960 ملتقطا )

( 6 ) بلاوجہ برا نہ کہنا : جانوروں کو برا مت سمجھا جائے ۔ اُن میں سے ایک مرغ بھی ہے یعنی مرغ کو نہ برا کہو نہ برا سمجھو ۔ چنانچہ روایت ہے حضرت خالد ابن زید سے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرغ کو برا کہنے سے منع فرمایا ۔( مشکوۃ المصابيح ، كتاب الصيد والذبائح ، صفحہ نمبر : 374 ، حدیث نمبر : 3953 )

(7) جانور کو مثلہ نہ کرو : ہمیں جانوروں کا مثلہ نہیں کرنا چاہیئے یعنی جانور کے اعضاء کو کاٹنا نہیں چاہیے جیسے : کان ، سینگ ، پاؤں وغیرہ ۔ چنانچہ حضرت عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اُس پر اللہ کی لعنت ہو جو کسی جاندار کو مثلہ کرے۔( جامع الاحادیث ، باب : ، جلد: 4 ، صفحہ نمبر : 201 ، حدیث نمبر : 2384،مکتبہ : اکبر بک سیلرز لاہور )

رضائے الہی کے لیے جو بھی نیک کام کیا جائے وہ کبھی رائیگاں نہیں جاتا ۔ اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ وہ ہمیں جانوروں پر رحم کرنے کی اور ان کا خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین ﷺ 

شریعت مطہرہ جہاں دیگر معاملات میں ہماری رہنمائی فرماتی ہے وہیں جانور کو پالنے پوسنے کے آداب بیان فرماتی۔ آئیے جانوروں کے چند حقوق ملاحظہ فرمائیں :

تکلیف نہ دینا :حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے مروی نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا : جس میں روح ہواس کو نشانہ نہ بناؤ۔(صحیح مسلم ، کتاب العید ، باب النھی عن صبر البهائم، الحدیث : 58 (1957)ص1081 )

جانور کو برا نہ کہنا : حضرت زید بن خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی کہ رسول الله صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے مرغ کو برا کہنے سے منع فرمایا کیونکہ وہ نماز کے لیے اذان کہتا ہے یا خبردار کرتا ہے۔ ( شرح السنہ ، کتاب الطب والرقی، باب الدیک ،الحدیث3163، 6صفحہ 288،289،جلد ، 3)

طاقت سے زیادہ کام نہ لینا: سفر میں جب کہیں قیام کریں تو پہلے سواری کے جانوروں سے بوجھ وغیرہ اتار دیں پھر کوئی اور کام کریں تاکہ جانوروں کو راحت ملے۔ (فیضان ریاض الصالحین، باب سفر میں چلنے اور آرام کرنےکا بیان ، ج 6 ص 693 ، مکتبۃ المدينۃ )

(4) جانور بازی نا جائز ہے: حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جانوروں کو باہم لڑانے سے منع فرمایا ۔ ( فتاوی رضویہ حصہ اول،9 ج ،ص،195 )

(5) جانور کو مثلہ نہ کرو : حضرت عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اس پر اللہ کی لعنت جو کسی جاندار کو مثلہ کرے۔ (حاشیہ مسند امام احمد ،ص: 3 )


اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا اور اس کے لیے زمین و آسمان کی تمام مخلوقات کو مسخر کیا، جن میں جانور بھی شامل ہیں۔ جانور انسان کی ضروریات کی تکمیل، خوراک، سواری، لباس، اور دیگر فوائد کے لیے اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہیں۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، جو نہ صرف انسانوں بلکہ حیوانات کے حقوق اور ان کے ساتھ حسن سلوک کے احکامات بھی بیان کرتا ہے۔ نبی کریم ﷺ کی تعلیمات اور آپ کی عملی زندگی ہر جاندار کے لیے رحمت کا عملی نمونہ پیش کرتی ہیں۔ یہ مضمون جانوروں کے احکامات، ان کے شرعی حقوق، اور موجودہ دور میں ان کے حقوق کی ادائیگی کے طریقوں پر روشنی ڈالتا ہے۔

وَ الْاَنْعَامَ خَلَقَهَاۚ-لَكُمْ فِیْهَا دِفْءٌ وَّ مَنَافِعُ وَ مِنْهَا تَاْكُلُوْنَ۪(۵) وَ لَكُمْ فِیْهَا جَمَالٌ حِیْنَ تُرِیْحُوْنَ وَ حِیْنَ تَسْرَحُوْنَ۪(۶) وَ تَحْمِلُ اَثْقَالَكُمْ اِلٰى بَلَدٍ لَّمْ تَكُوْنُوْا بٰلِغِیْهِ اِلَّا بِشِقِّ الْاَنْفُسِؕ-اِنَّ رَبَّكُمْ لَرَءُوْفٌ رَّحِیْمٌۙ(۷) وَّ الْخَیْلَ وَ الْبِغَالَ وَ الْحَمِیْرَ لِتَرْكَبُوْهَا وَ زِیْنَةًؕ-وَ یَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(۸)ترجمہ کنزالایمان: اور چوپائے پیدا کیے ان میں تمہارے لیے گرم لباس اور منفعتیں ہیں اور ان میں سے کھاتے ہو اور تمہارا ان میں تَجَمُّل ہے جب انہیں شام کو واپس لاتے ہو اور جب چرنے کو چھوڑتے ہو اور وہ تمہارے بوجھ اٹھا کر لے جاتے ہیں ایسے شہر کی طرف کہ تم اس تک نہ پہونچتے مگر ادھ مرے ہوکربےشک تمہارا رب نہایت مہربان رحم والا ہے اور گھوڑے اور خچر اور گدھے کہ ان پر سوار ہو اور زینت کے لیے اور وہ پیدا کرے گا جس کی تمہیں خبر نہیں۔ (النحل: 5تا 8)

ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ جانور انسانوں کے لیے فائدہ، زینت، اور خدمت کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔

نبی کریم ﷺ نے جانوروں کے ساتھ حسن سلوک اور ان کے حقوق کی ادائیگی کی واضح تعلیمات دیں۔

جن میں سے چند اہم احادیث درج ذیل:

حسن سلوک اور ایذا نہ دینے کا حکم: حضرت سہل بن حنظلیہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیِّ کریم ﷺ نے فرمایا: اتَّقُوا اللَّهَ فِي هَذِهِ الْبَهَائِمِ الْمُعْجَمَةِ فَارْكَبُوهَا وَكُلُوهَا صَالِحَةً (ابو داؤد: 2548) یعنی ان بے زبان جانوروں کے بارے میں اللہ سے ڈرو، ان پر اچھی طرح سوار ہوا کرو اور انہیں اچھی طرح کھلایا کرو ۔

یہ حدیث جانوروں کے ساتھ نرمی، ان کی مناسب خوراک، اور ان پر غیر ضروری بوجھ نہ ڈالنے کی تعلیم دیتی ہے۔

جانوروں کی خدمت کا ثواب: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ایک شخص نے ایک کتے کو پانی پلایا جو پیاس سے ہانپ رہا تھا اور گیلی مٹی چاٹ رہا تھا۔ اللہ نے اس کی نیکی کی قدر کی اور اسے جنت عطا کی۔ صحابہ نے پوچھا: یا رسول ﷲ ﷺ کیا جانوروں کی خدمت میں بھی اجر ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہر ذی حیات کو نفع پہنچانے میں اجر ہے۔ (بخاری: 2363)

یہ حدیث جانوروں کے ساتھ رحم دلی اور ان کی خدمت کے ثواب کو بیان کرتی ہے۔

جانوروں کو ایذا دینے کی سزا: حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:ایک عورت کو ایک بلی کی وجہ سے عذاب دیا گیا کہ اس نے اسے باندھ کر رکھا، نہ کھانا دیا، نہ پانی، اور نہ ہی آزاد کیا کہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑے کھاتی۔ (صحیح مسلم: 2100)

یہ حدیث جانوروں کو ایذا دینے کی شدید ممانعت اور اس کی سزا کو واضح کرتی ہے۔

جانوروں کے لیے مناسب خوراک اور پانی کا انتظام کرنا: نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جب تم سبزہ والی زمین سے گزرو تو جانوروں کو چرنے کا موقع دو۔ (صحیح مسلم: 4959)

جانوروں کے ساتھ حسن سلوک کرو: پالتو جانوروں (مثلاً بلی، کتا) کو مناسب خوراک، پانی، اور رہائش فراہم کریں۔ کھیتی باڑی یا بار برداری کے جانوروں پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالیں، جانوروں کو غیر ضروری تکلیف دینے سے اجتناب کریں، جیساکہ انہیں مارنا یا سخت محنت کروانا۔ جانوروں کو لڑانے یا ان سے ریس کروانے سے گریز کریں، کیونکہ اس سے انہیں ایذا پہنچتی ہے اور قمار بازی( جوا، سٹہ بازی) کا عنصر شامل ہو سکتا ہے جوکہ حرام ہے لہذا ایسے کاموں سے بچنا چاہیے۔

اسلام جانوروں کے ساتھ رحمدلی، حسن سلوک، اور ان کے حقوق کی ادائیگی کا درس دیتا ہے۔ قرآن کریم ، احادیث، علما، اور صحابہ کرام کے اقوال سے واضح ہوتا ہے کہ جانور اللہ کی عظیم نعمت ہیں، جن سے انسان فائدہ اٹھا سکتا ہے، لیکن ان کے ساتھ ظلم یا ایذا رسانی حرام ہے، جانوروں کی مناسب دیکھ بھال، اور ماحولیاتی تحفظ کے اقدامات اہم ہیں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں جانوروں کے ساتھ رحم دلی اور ان کے حقوق کی ادائیگی کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ


اللہ کریم کی ذات بلند و برتر جو جمیع مخلوقات کی خالق ، رازق اور مالک ذات ہے ، اپنی اطاعت کی سب سے زیادہ حقدار ہے ۔ جیسے دین اسلام نے والدین ، اولاد ، اساتذہ ، پڑوسی ، وغیرہ کے حقوق کو بیان فرمایا اسی طرح جانور کے حقوق کو بھی واضح طور پر بیان فرمایا اور ان کو ادا کرنے کا حکم بھی ارشاد فرمایا آئیے جانوروں کے حقوق کے بارے ملاحظہ کرتے ہیں۔

(1) جانوروں کو نہ لڑوانا : حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جانوروں کو باہم لڑانے سے منع فرمایا۔ (جامع الاحادیث ، باب : ، جلد 4 ، صفحہ نمبر : 200 ، حدیث نمبر : 2382، مکتبہ اکبر بک سیلز لاہور )

(2) ناحق قتل نہ کرو : روایت ہے حضرت عبداللہ ابن عمرو ابن عاص سے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کوئی چڑیا یا اس سے اوپر کے کسی جانور کو ناحق مار ڈالے تو اس کے قتل کے متعلق اللہ اس سے پوچھے گا عرض کیا گیا رسول الله اس کا حق کیا ہے فرمایا کہ اسے ذبح کرکے کھائے یہ نہ کرے کہ اس کا سر کاٹے پھر اسے پھینک دے۔( مراۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح، باب : شکار اور ذبیحوں کا بیان ، جلد : 5 ، ص : 679 ، ح : 3915 مکتبہ اسلامیہ )

(3) جانوروں پر رحم کرو : حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم رؤف رحیم نے ارشاد فرمایا : جب تم سرسبز زمین میں سفر کرو تو اونٹوں کو زمین سے ان کا حصہ دو اور جب بنجر زمین میں سفر کرو تو انہیں تیز چلاو اور ان کے تھکنے سے پہلے وہاں سے گزر جاو اور جب تم رات میں قیام کرو تو راستے میں اترنے سے بچو کیونکہ وہ جانوروں کا راستہ ہے اور وہ جگہ رات کے وقت کیڑے مکوڑوں کا ٹھکانہ ہے۔ (مسلم شریف ، کتاب الامارتہ ، باب مراعاتہ مصلحتہ الدواب فی السیر ـــ الخ ، ص 818 ، 819 ، حدیث : 4959 ، 4960 ملتقطا )

(4) جانوروں کا خیال کرو : روایت میں ہے کہ رسول اللہ تعالی علیہ وسلم ایک اونٹ کے پاس سے گزرے جس کی کمر پیٹ سے ملی ہوئی تھی تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا: ان بے زبان چو پایوں کے معاملے میں اللہ پاک سے ڈرو ان پر اس وقت سوار ہوں جب یہ صحیح حالت میں ہوں اور انہیں اسی وقت کوڑا مارو جب یہ ٹھیک ہوں ۔ ( ابو داؤد ، کتاب الجہاد ، باب ما یؤمربہ من القیام علی الدواب و البھائم، جلد 4، صفحہ نمبر 32 حدیث نمبر 2548)

(5) جانوروں کو مثلہ نہ کرو : حضرت عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اس پر اللہ کی لعنت جو کسی جاندار کو مثلہ کرے ۔ یعنی جانوروں کے اعضاء کو کاٹے۔ ( جامع الاحادیث ، ج : 4 ، ص : 201 ، ح : 2384 ۔ اکبر بک سیلرز لاہور )


اسلام ایک ایسا پیارا دین ہے، جس نے معاشرے میں ہر چیز کے حقوق بتلائے ہیں۔جس طرح والدین کے حقوق ، رشتہ داروں کے حقوق ، بیوی کے حقوق ، درختوں کے حقوق ، جس طرح والدین ، رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہیں اسی طرح جانوروں کے حقوق بھی بہت ہیں ہمیں ان کے ساتھ حسن سلوک کے ساتھ پیش آنا چاہیئے، آئیں! اس کے متعلق کچھ احادیث ملاحظہ فرماتے ہیں۔

(1) جانوروں پر رحم کرو :امیر المومنین حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی الله تعالی عنہ نے ایک شخص کو دیکھا جو بکری کو ذبح کرنے کیلئے اسے ٹانگ سے پکڑ کر گھسیٹ رہا ہے ۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے ارشاد فرمایا: تیرے لیے خرابی ہو۔ اسے موت کی طرف اچھے انداز میں لے کر جا۔ ( مصنف عبد الرزاق ج 4، ص 376، حدیث 8636۔ ابلق گھوڑے سوار ،ص 20، مكتبۃ المدینہ)

(2) جانوروں کے دانہ پانی کا خیال رکھو : حضرت عبد الله بن عمر رضی اللہ تعالی عنهما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ایک عورت جہنم میں گئی ایک بلی کے سبب کہ اسے باندھے رکھا تھا ، نہ خود کھانا دیا نہ چھوڑا کہ زمین کا گرا پڑا یا جو جانور اس کو ملتا کھاتی۔(جامع الاحاديث، باب: ، ج : 4، ص: 199، حدیث : 2380۔مکتبہ: اکبر بک سیلرز لاہور)

(3) جانوروں کو نہ لڑواؤ : حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے جانوروں کو باہم لڑانے سے منع فرمایا۔(جامع الاحادیث باب کتاب الحيوانات ، ج : 4، ص : 200 ، حدیث : 2382 ، مکتبہ اکبر بک سیلرز )

(4) ناحق قتل نہ کرو : روایت ہے حضرت عبداللہ ابن عمرو ابن عاص سے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کوئی چڑیا یا اس سے اوپر کے کسی جانور کو ناحق مار ڈالے تو اس کے قتل کے متعلق اللہ اس سے پوچھے گا عرض کیا گیا رسول الله اس کا حق کیا ہے فرمایا کہ اسے ذبح کرکے کھائے یہ نہ کرے کہ اس کا سر کاٹے پھر اسے پھینک دے۔( مراۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح، باب : شکار اور ذبیحوں کا بیان ، جلد : 5 ، ص : 679 ، ح : 3915 مکتبہ اسلامیہ )

(5) جانوروں کا خیال کرو : روایت میں ہے کہ رسول اللہ تعالی علیہ وسلم ایک اونٹ کے پاس سے گزرے جس کی کمر پیٹ سے ملی ہوئی تھی تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا: ان بے زبان چو پایوں کے معاملے میں اللہ پاک سے ڈرو ان پر اس وقت سوار ہوں جب یہ صحیح حالت میں ہوں اور انہیں اسی وقت کوڑا مارو جب یہ ٹھیک ہوں ۔ ( ابو داؤد ، کتاب الجہاد ، باب ما یؤمربہ من القیام علی الدواب و البھائم، جلد 4، صفحہ نمبر 32 حدیث نمبر 2548)

اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں جانوروں کے ساتھ حسن سلوک اور ان پر رحم کرنے اور ان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ جس نے ہر کسی کے حقوق بیان فرمائے ہیں۔ جیسے والدین ، اولاد استاتذہ ، پڑوسی وغیرہ کے حقوق کو بیان فرمائے اسی طرح دین اسلام نے جانوروں کے حقوق کو بھی واضح طور پر بیان فرمائے ۔ اور ان کو ادا کرنے کا حکم بھی ارشاد فرمایا ۔ لہذا ان کے ساتھ ہمیں نرمی اختیار کرنی چاہیے۔ ان پر رحم کرنا چاہیے ۔ ان کے حقوق کو پورا کرنا چاہیے ۔ آئیے اس کے متعلق کچھ احادیث ملاحظہ کرتے ہیں ۔

(1) جانوروں کا نہ لڑوانا : حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم نے جانوروں کو باہم لڑانے سے منع فرمایا ۔ ( جامع الاحادیث ، باب : کتاب الحيوانات ، جلد: 4 ، صفحہ نمبر : 200 ، حدیث نمبر : 2382 ، اکبر بک سیلرز لاہور)

(2) جانوروں کو مثلہ نہ کرو : حضرت عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اس پر اللہ کی لعنت جو کسی جاندار کو مثلہ کرے ۔ یعنی جانوروں کے اعضا کو کاٹے۔ ( جامع الاحادیث ، ج : 4 ، ص : 201 ، ح : 2384 ۔ اکبر بک سیلرز لاہور )

(3) جانوروں کے دانہ پانی کا خیال رکھو:حضرت عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ایک عورت جہنم میں گئی ایک بلی کے سبب کہ اسے باندھے رکھا تھا۔ نہ خود کھانا دیا نہ چھوڑا کہ زمین کا گرا پڑا یا جو جانور اس کو ملتا کھاتی۔ ( جامع الاحادیث: باب : جلد : 4، صفحہ نمبر :199 ، حدیث نمبر : 2380 ، اکبر بک سیلرز لاہور )

(4) بلاوجہ جانوروں کو برا نہ کہو : روایت ہے حضرت خالد ابن زید سے فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مرغ کو برا کہنے سے منع فرمایا ۔ ( مراۃ المناجیح شرح مشکوة المصابیح ، باب : کس جانور کا کھانا حلال اور کس کا حرام ، جلد : 5 ، صفحہ نمبر : 700 ، حدیث نمبر : 3955 ، مکتبہ اسلامیہ )

(5) جانوروں پر نرمی کرنا :حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے ارشاد فرمایا : جب تم سر سبز زمین میں سفر کرو تو اونٹوں کو زمین سے ان کا حصہ دو اور جب بنجر زمین میں سفر کرو تو انہیں تیز چلاؤ اور جب تم رات میں قیام کرو تو راستے میں اترنے سے بچو کیونکہ وہ جانوروں کا راستہ ہے اور وہ جگہ رات کے وقت کیڑے مکوڑوں کا ٹھکانہ ہے ۔ (فیضان ریاض الصالحین ، باب : سفر میں چلنے اور آرام کرنے کا بیان ، جلد : 6 ، صفحہ نمبر : 683 ، حدیث نمبر : 692 ،مکتبۃ المدینہ )


پیارے اسلامی بھائیو ! اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ جس میں ہر شے کا واضح بیان ہے ان ہی میں سے ایک جانوروں کے حقوق بھی ہیں۔ جس میں ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا ہے ۔ ان کے حقوق کو ادا کرنا ہے۔ آئیے جانوروں کے حقوق کے بارے میں چند احادیث آپ پڑھیے ۔

(1) جانوروں کا خیال رکھو : روایت میں ہے کہ رسول اللہ تعالی علیہ وسلم ایک اونٹ کے پاس سے گزرے جس کی کمر پیٹ سے ملی ہوئی تھی تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا: ان بے زبان چو پایوں کے معاملے میں اللہ پاک سے ڈرو ان پر اس وقت سوار ہوں جب یہ صحیح حالت میں ہوں اور انہیں اسی وقت کوڑا مارو جب یہ ٹھیک ہوں ۔ ( ابو داؤد ، کتاب الجہاد ، باب ما یؤمربہ من القیام علی الدواب و البھائم، جلد 4، صفحہ نمبر 32 حدیث نمبر 2548)

(2) جانوروں کو وقت پر کھانا دینا : حضرت عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ایک عورت جہنم میں گئی ایک بلی کے سبب کہ اسے باندھے رکھا تھا، نہ خود کھانا دیا نہ چھوڑا کہ زمین کا گرا پڑا یا جو جانور اس کو ملتا کھاتی۔(جامع الاحادیث ، باب : ، جلد: 4 ،ص : 199 ، حدیث : 238 ۔ اکبر بک سیلرز لاہور )

(3) جانور کو مثلہ نہ کرو : حضرت عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اس پر اللہ کی لعنت جو کسی جاندار کو مثلہ کرے ۔ یعنی جانوروں کے اعضاء کو کاٹے۔ ( جامع الاحادیث ، ج : 4 ، ص : 201 ، ح : 2384 ۔ اکبر بک سیلرز لاہور )

(4) ناحق قتل نہ کرو : روایت ہے حضرت عبداللہ ابن عمرو ابن عاص سے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کوئی چڑیا یا اس سے اوپر کے کسی جانور کو ناحق مار ڈالے تو اس کے قتل کے متعلق اللہ اس سے پوچھے گا عرض کیا گیا رسول الله اس کا حق کیا ہے فرمایا کہ اسے ذبح کرکے کھائے یہ نہ کرے کہ اس کا سر کاٹے پھر اسے پھینک دے۔( مراۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح، باب : شکار اور ذبیحوں کا بیان ، جلد : 5 ، ص : 679 ، ح : 3915 مکتبہ اسلامیہ )

(5) بلاوجہ جانوروں کو برا نہ کہو : روایت ہے حضرت خالد ابن زید سے فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مرغ کو برا کہنے سے منع فرمایا ۔ ( مراۃ المناجیح شرح مشکوة المصابیح ، باب : کس جانور کا کھانا حلال اور کس کا حرام ، جلد : 5 ، صفحہ نمبر : 700 ، حدیث نمبر : 3955 ، مکتبہ اسلامیہ )


اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنا نائب بنا کر اس دنیا میں مبعوث فرمایا تو دیگر تمام مخلوقات جیسے حیوانات و نباتات وغیرھم کو اس کے تابع کردیا تاکہ انسان ان سے فائدہ حاصل کرسکے، مگر اس کے ساتھ ساتھ دین اسلام کی روشنی میں ان کے حقوق سے بھی آگاہ کیا تاکہ انسان ان پر رحم اور حسن سلوک والا معاملہ کرے اور حکمت و دانائی کے ساتھ اس نعمت کا شکر بجا لائے ۔ اس سلسلے میں آج جانوروں کے حقوق کے بارے میں چند باتیں قارئین کی خدمت میں پیش کررہا ہوں۔

(1) رحمدلی اور شفقت سے پیش آنا: جانوروں کا سب سے اولین حق انسان پر یہ ہے کہ ان کے ساتھ رحمدلی اور حسن سلوک سے پیش آئیں اگر انہیں کسی چیز کی طلب ہوتو پوری کریں، شریعتِ مطہرہ نے جانوروں پر رحم کرنے کا حکم دیا ہے اور ان کو تکلیف دینے سے سختی سے منع فرمایا ہے، جانورں میں ہمارے رحم کے سب سے زیادہ طلبگار گھریلو جانور ہوتے ہیں جنہیں ہم عموماً گھر میں پالتے ہیں اور اس کے علاؤہ بھی جو جانور ہماری قدرت میں ہوں۔ جیسے کہ احادیث نبویہ سے ہمیں اس سلسلے میں رہنمائی ملتی ہے چنانچہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: عُذِّبَتِ ٱمْرَأَةٌ فِى هِرَّةٍ رَبَطَتْهَا حَتَّى مَاتَتْ، فَدَخَلَتْ فِيهَا النَّارَ

ایک عورت کو ایک بلی کی وجہ سے عذاب دیا گیا، اس نے اسے باندھ کر رکھا یہاں تک کہ وہ مر گئی، اس کی سزا میں وہ عورت جہنم میں داخل ہوئی۔ (صحیح بخاری، جلد اوّل، باب فضل سقی الماء، حدیث نمبر 2365)

(2) طاقت سے زیادہ وزن نہ لادنا: کچھ جانور ایسے ہوتے ہیں جیسے اونٹ، گھوڑا،خچر وغیرہ جنہیں انسان مختلف اشیاء اور سازو سامان لادنے کیلئے استعمال کرتا ہے، ہمیں ان سے ان کی طاقت اور بساط سے زیادہ وزن نہیں ڈالنا چاہیے،کیونکہ مصطفیٰ کریم ﷺ نے ان پر ان کی طاقت سے زیادہ وزن لاد کر ظلم کرنے سے منع فرمایا ہے چنانچہ حدیث پاک میں :

حضرت یعلی بن مرہ ثقفی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : جب ہم (ایک سفر میں) حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ چل رہے تھے تو میں نے حضور نبی اکرم ﷺ سے تین اُمور (معجزات) دیکھے۔ ہمارا گزر ایک اونٹ کے پاس سے ہوا جس پر پانی رکھا جا رہا تھا۔ اس اونٹ نے جب حضور نبی اکرم ﷺ کو دیکھا تو وہ بلبلانے لگا اور اپنی گردن (از راهِ تعظیم) آپ ﷺ کے سامنے جھکا دی۔ حضور نبی اکرم ﷺ اس کے پاس کھڑے ہو گئے اور فرمایا : اس اونٹ کا مالک کہاں ہے؟ اس کا مالک حاضر ہوا تو آپ ﷺ نے اس سے پوچھا : یہ اونٹ مجھے بیچتے ہو؟ اس نے عرض کیا : نہیں، حضور، بلکہ یہ آپ کے لیے تحفہ ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں، بلکہ اسے مجھے بیچ دو۔ اس نے دوبارہ عرض کیا : نہیں، بلکہ یہ آپ کے لیے تحفہ ہے، اور بے شک یہ ایسے گھرانے کی ملکیت ہے کہ جن کا ذریعہ معاش اس کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اب تمہارے ذہن میں یہ بات آئی ہے کہ اس اونٹ نے ایسا کیوں کیا ہے۔ اس نے شکایت کی ہے کہ تم اس سے کام زیادہ لیتے ہو اور چارہ کم ڈالتے ہو۔ اس کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو۔ (مسند امام احمد، رقم الحدیث 17565، جلد 29 صفحہ نمبر 106، مؤسسۃ الرسالہ)

(3) سواری کرتے وقت حسن سلوک سے پیش آنا: جانوروں کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ جن جانوروں پر سواری کی جاتی ہے تو سواری کرتے وقت رحمدلی کا دامن نہ چھوٹے، آقائے دوجہاںﷺ نے اسی کے بارے ارشاد فرمایا:عن سَهْلِ بْنِ الْحَنظَلِيَّةِ، قَالَ:مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِبَعِيرٍ قَدْ لَحِقَ ظَهْرُهُ بِبَطْنِهِ، فَقَالَ: اتَّقُوا اللَّهَ فِي هَذِهِ الْبَهَائِمِ الْمَعْجَمَةِ، فَارْكَبُوهَا صَالِحَةً، وَكُلُوهَا صَالِحَةً

ترجمہ: حضرت سہل بن حَنْظَلِیَّہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، تاجدارِ رسالت ﷺ ایک ایسے اونٹ کے پاس سے گزرے جس کی پیٹھ پیٹ سے مل گئی تھی تو ارشاد فرمایا: ان بے زبان جانوروں کے بارے میں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو، ان پر اچھی طرح سوار ہوا کرو اور انہیں اچھی طرح کھلایا کرو۔(ابوداؤد، جلد اوّل، کتاب الجھاد، باب ما یؤمر به من القیام علی الدواب والبھائم، حدیث نمبر 2548)

(4) جانوروں کو خوراک کی فراہمی: جس طرح ہم انسانوں کو زندہ رہنے کے لیے خوراک کی ضرورت ہوتی ہے بالکل اسی طرح جانور بھی اپنی بقاء کےلئے خوراک کے محتاج ہوتے ہیں، ہمیں چاہیے کہ جو جانور ہماری قدرت میں ہوں یا ہم نے پالے ہوں تو ہمارا فرض بنتا ہے کہ ان کی خوراک کا اچھا انتظام کریں اور انہیں اچھا صاف ستھرا ماحول فراہم کریں۔

(5) جانوروں کے بارے معلومات کی فراہمی کے لیے ہر علاقے میں مراکز کا قیام: اس دور میں ہمارے معاشرے میں حکومتی سطح پر جانوروں خاص کر وہ جانور جن سے عام طور پر عوام کا کم ہی واسطہ پڑتا ہے یا جنہیں لوگ عموماً جان لیوا سمجھتے ہیں جیسے جنگلی حیات ،سانپوں اور ان جیسے دوسرے زمینی اور آبی جانوروں کی اقسام کے بارے معلومات فراہم کرنے کےلئے ایسے مراکز بنانے چاہئیں جہاں سے لوگوں کو ان بےضرر جانوروں کے بارے تعلیم دی جاسکے اور وہ جانور جو انسان کے لیے خطرناک نہیں ہیں بلکہ ماحول دوست ہیں ان کو ناپید ہونے سے بچایا جا سکے اور قدرت کی طرح طرح کی مخلوق سے انسان فائدہ اٹھا سکے۔

الله تعالیٰ ہمیں دین اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں جانوروں کے حقوق کا خیال رکھنے اور انہیں محفوظ ماحول فراہم کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین!


اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ، اسلام اپنے چاہنے والوں کی زندگی میں ہر ہر قدم پر رہنمائی کرتا ہے اسلام میں جس طرح والدین اساتذہ رشتہ داروں اور دیگر اقرباء کے حقوق کو بیان کیا گیا ، وہیں ہمیں جانوروں کے حقوق کے متعلق بھی اسلام ایک مکمل رہنمائی فراہم کرتا ہے جانوروں کے چند حقوق درج ذیل ہیں :

حقوق (1) جانوروں پر ظلم نہ کرنا: حدیث پاک میں ہے : مجھ پر جہنم پیش کی گئی میں نے جہنم میں بنی اسرائیل کی ایک عورت کو دیکھا جس کو بلی کی وجہ سے عذاب ہو رہا تھا اس عورت نے بلی کو باندھ کر رکھا نہ اسے خود کچھ کھانے کو دیا نہ اسے چھوڑا تاکہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑوں سے کچھ چیز کھا لیتی۔ (مسلم ، باب تحریم قتل الھرۃ، حدیث: ۵۹۸۹)

جن جانوروں کو حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے قتل کرنے کا حکم دیا ہے ان کو قتل کر کے حضور کے حکم پر عمل کرنا چاہیے، حربی کافر جن سے مسلمان برسر جنگ ہوں ، مرتد ، کاٹنے والا کتا اور وہ پانچ فاسق جانور جن کا حدیث میں حکم ہے اور جو جانور ان کے حکم میں ہیں یہ سب غیر محترم ہیں اور جو جانور محترم ہیں ان کو کھانا کھلانے پانی پلانے اور ان کے ساتھ دیگر نوع کے احسان کرنے سے ثواب حاصل ہوگا ۔ (شرح مسلم ج2ص237مطبوعہ نور محمد اصح المطابع کراچی)

(2) جانوروں کو آپس میں نہ لڑانا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف یہ کہ گھریلو جانورں کے ساتھ بدسلوکی اوربے جا مارپیٹ کی ممانعت کی، بلکہ غیر پالتو جانوروں کو بھی بے جاپریشان کرنے سے منع فرمایا : حضرت ابنِ عباس سے روایت ہے:’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جانوروں کو آپس میں لڑانے سے منع فرمایا ہے۔“ (ترمذی، باب کراہیۃ التحریش بین البہائم : حدیث: ۱۷۰۹)

(3)جانوروں کو نہ داغنا : رسول اللہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس سے ایک گدھا گزرا، جس کے منہ پر داغا گیا تھا، آپ نے اس کو دیکھ کر فرمایا: اس شخص پر لعنت ہو جس نے اس کو داغا ہے۔ (مسلم : باب النہی عن ضرب الحیوان فی وجہ )

(4) جانوروں کو ذبح کرتے وقت انہیں تکلیف نہ دینا : جانوروں کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید ، آپ ﷺ نے ذبح کیے جانے والے جانوروں کے ساتھ بھی حسن سلوک کی تاکید فرمائی، جب تم ذبح کرو تو اچھے طریقے سے ذبح کرو، اپنی چھری کو تیز کرلو اور جانور کو آرام دو۔ (ترمذی، باب النہی عن المثلۃ، حدیث: ۱۴۰۹)

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں جانوروں کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور ان کے حقوق کو مد نظر رکھ کر ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین