تاریخ اسلام کی وہ عظیم القدر ہستیاں جن کے علم کے نور سے زمانہ آج بھی پر نور ہے اور وہ اعلی اخلاق اور عمدہ اوصاف کی وجہ سے آج بھی اسی طرح زندہ وجاوید ہیں جیسے ظاہری حیات میں تھیں ان میں سے ایک مرتبہ رتبہ ذات ام المومنین، زوجہ سید المرسلین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی ہے۔

یہ امیر المومنین حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی نور نظر اور دختر نیک اختر ہیں۔

ازواج مطہرات میں سے یہی کنواری تھیں اور سب سے زیادہ بارگاہ نبوت میں محبوب ترین تھیں۔

حضور ﷺ کا ان کے بارے میں ارشاد ہے کہ کسی کے لحاف میں میرے اوپر وحی نازل نہیں ہوئی مگر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا جب میرے بستر نبوت پر سوتی رہتی ہیں تو اس حالت میں بھی مجھ پر وحی الہی اترتی رہتی ہے۔ (بخاری، 2/552، حدیث: 3775)

امت کی اس عظیم ماں کو اللہ نے اس قدر کثیر فضائل سے نوازا ہے جس کا احاطہ و شمار ممکن نہیں، ایک یہی فضیلت کیا کم ہے کہ آپ رضی اللہ عنہا سرکار عالی وقار، محبوب رب غفار ﷺ کی سب سے محبوب زوجہ محترمہ رضی اللہ عنہا ہیں۔ مزید یہ کہ آپ رضی اللہ عنہا کی پاک دامنی کی گواہی خود رب کریم نے دی اور اس کے لیے قرآن کریم کی 18 آیات نازل فرمائیں، آپ کو حضرت جبریل امین علیہ السلام نے سلام کہا، آپ کے بستر اقدس میں رسول کریم، روف رحیم ﷺ پر وحی نازل ہوئی، آپ ہی کے حجرے میں رسول کریم ﷺ نے دنیا سے ظاہری پردہ فرمایا، یہیں آپ ﷺ کا مزار اقدس بنا اور قیامت تک یہ مزار اقدس فرشتوں کے جھرمٹ میں رہے گا۔

بخاری اور مسلم کی روایت ہے کہ حضور ﷺ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تین راتیں میں خواب میں یہ دیکھتا رہا کہ ایک فرشتہ تم کو ایک ریشمی کپڑے میں لپیٹ کر میرے پاس لاتا رہا اور مجھ سے یہ کہتا رہا کہ یہ آپ کی بیوی ہیں جب میں نے تمہارے چہرے سے کپڑا ہٹا کر دیکھا تو ناگہاں وہ تم ہی تھیں،اس کے بعد میں نے اپنے دل میں کہا کہ اگر یہ خواب اللہ تعالی کی طرف سے ہے تو وہ اس خواب کو پورا کر دکھائے گا۔ (ترمذی، 5/470، حدیث: 3906)

مدینہ منورہ میں ہجرت کے کچھ عرصہ بعد تک تو ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اپنے والدین کے پاس رہیں پھر ہجرت کے 7 ماہ بعد شوال المکرم میں رخصت ہو کر کا شانہ نبوی علی صاحبھا الصلوۃ والسلام میں داخل ہوئیں۔ (سیرت سید الانبیاء، حصہ: دوم، ص 250)

جب آپ کاشانہ اقدس میں آئیں اس وقت آپ رضی اللہ عنہا کی عمر صرف 9 برس تھی۔

چنانچہ آپ رضی اللہ عنہا کے ساتھ آپ کے کھلونے بھی تھے اور آپ ان کے ساتھ کھیلا کرتی تھیں، سرکار نامدار، مدینے کے تاجدار ﷺ بھی آپ رضی اللہ عنہا کی دل جوئی کا خاص اہتمام فرماتے تھے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میری کچھ سہیلیاں تھیں جو میرے ساتھ کھیلا کرتی تھیں جب رسول اکرم، شاہ بنی آدم ﷺ تشریف لاتے تو وی اندر چھپ جاتیں آپ ﷺ انہیں میرے پاس بھیج دیتے اور وہ پھر میرے ساتھ کھیلنے لگتیں۔ (بخاری، 4/134، حدیث: 6130)

اسی طرح ایک روز آپ ﷺ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لائے اور ان کی گڑیوں کو دیکھ کر استفسار فرمایا یہ کیا ہے؟ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: میری گڑیاں ہیں۔ آپ ﷺنے ان گڑیوں میں ایک گھوڑا ملاحظہ فرمایا، جس کے کپڑے کے دو پر تھے۔ فرمایا: یہ ان کے درمیان کیا نظر آتا ہے؟ عرض کی:گھوڑا۔ فرمایا:اس کے اوپر کیا ہے؟ عرض کی: دو پر۔ فرمایا:گھوڑے کے دو پر؟ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: کیا آپ ﷺنے نہیں سنا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے گھوڑے پروں والے تھے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس پر آپ ﷺنے اتنا تبسم فرمایا کہ میں نے دندان مبارک کی زیارت کر لی۔ (مدارج النبوة 2 /471)

بہرحال اس کم عمری کے عالم میں ہی آپ رضی اللہ عنہا نے امور خانہ داری کے گھر کے کام کاج سیکھنے اور نہایت خوش و اسلوبی سے انہیں انجام دیتی رہیں حتی کہ اپنے کپڑے خود سی لیتیں،خود ہی جو شریف کو پیس کرآٹا بناتیں۔ سرکار اقدس ﷺقربانی کے لیے جانور بھیجتے خود اپنے ہاتھوں سے ان کے لیے رسیاں بٹتیں اور اس کے ساتھ رحمت عالم شاہ آدم و بنی آدم ﷺ کی خدمت میں بھی کوئی کمی نہ ہونے دیتیں۔

امیر المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی پاکیزہ مبارک حیات میں ہمارے لیے سیکھنے کے بے شمار مدنی پھول ہیں آپ حضور ﷺکی ازواج مطہرات میں سب سے کم عمر تھی مگر علم و فضل زہد و تقوی سخاوت اور عبادت ریاضت میں بہت نمایاں تھیں اس کے ساتھ ساتھ گھریلو کام کاج نہایت و خوش اسلوبی سے انجام دیتیں، اس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ آرام پسند اور کام کاج سے جی چرانے والی نہ تھیں بلکہ ان کا ہر ہر منٹ اللہ کی عبادت حضور اقدس ﷺکی خدمت، دین سیکھنے اور گھریلو کام کاج کرنے میں گزرتا تھا۔

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا دن رات سرکار والا تبار مکے مدینے کے تاجدار ﷺ کے شربت دیدار سے اپنی آنکھوں کو سیراب کرتے ہوئے کاشانہ اقدس میں آرام و سکون کے ساتھ دن گزار رہی تھیں کہ وہ قیامت خیزسانحہ بپا ہونے کا وقت قریب آیا جب سرکار علی وقار محبوب پروردگارﷺ نے اس دنیا سے ظاہری پردہ فرمایا۔

وصال شریف سے چند روز قبل جب آپ ﷺ بستر علالت پر تشریف فرما ہوئے تو آپ ﷺ کی کیفیت یہ تھی کہ بار بار دریافت فرماتے: کل میں کہاں ہوں گا؟ کل میں کہاں ہوں گا؟

امہات المومنین رضی اللہ عنہن جان گئیں کہ آپ ﷺ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس رہنا چاہتے ہیں لہذا سبھی نے متفقہ طور پر عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ حضور جہاں رہنا پسند فرماتے ہیں، رہیے! چنانچہ پھر آپ ﷺ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس رہنے لگے۔ (بخاری، 3/468، حدیث: 5217)

تقریبا آٹھ روز تک عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں مقیم رہنے کے بعد آپ ﷺ اس دنیا سے پردہ ظاہری فرمایا۔

وصال شریف کے وقت ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے آپ ﷺ کو اپنے سینے پر سہارا دیا ہوا تھا۔ (سیرت الانبیاء، ص 597)

اور رسول خدا ﷺ نے آپ رضی اللہ عنہا کے سوا اور کسی کو کنواری عورت سے نکاح نہیں فرمایا۔

رسول اکرم ﷺ کی حیات شریف کے آخری لمحات میں فرشتوں اور آپ رضی اللہ عنہا کے سوا حضور اقدس ﷺ کے پاس اور کوئی نہ تھا۔

اللہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی سیرت پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ۔


حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اعظم فضائل و مناقب میں سے ان سے حضور ﷺ کا بہت زیادہ محبت فرمانا بھی ہے، کہ پیارے آقا ﷺ نے اپنی شہزادی فاطمۃ رضی اللہ عنہا کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا: رب کعبہ کی قسم !تمہارے والد کو عائشہ (رضی اللہ عنہا) بہت زیادہ پیاری ہیں۔ (ابو داود،4/359، حدیث: 4898)

اظہار محبت: آقا کریم ﷺ وقتا فوقتا حضرت عائشہ رضی اللہ عنھاسے اپنی محبت کا اظہار فرمایا کرتے تھے جیسا کہ مروی ہے کہ ایک شب حضور ﷺ رات بھر چلتے رہے پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایادیکھو !تم مجھے مکھن ملی کھجور سے بھی زیادہ محبوب ہو۔ (طبقات کبری لابن سعد، 10 / 78)

پیارے القابات سے پکارنا: ٭عائشہ رضی اللہ عنہا ارشاد فرماتی ہیں: رسول اللہ ﷺ کے ساتھ (مقام حر سے) واپس آرہے تھے اور میں ایک اونٹ پر سوار تھی جو دوسرے اونٹوں سے آخر میں تھامیں نے رسول اللہ ﷺ کی آواز مبارک سنی آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:واعروساہ ہائے! میری دلہن۔ (مسند امام احمد، 10 / 584، حدیث: 26866)

٭آپ ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ارشاد فرمایا: تم اپنا دو تہائی دین اس حمیرا (یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا) سے حاصل کر لو۔ (مدارج النبوت، 2/469)

وجہ تسکین: آپ رضی اللہ عنہاکی ذات وجہ تسکین جان مصطفی ﷺ تھی چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاخود فرماتی ہیں کہ میری پیشانی پر بوسہ دے کر رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے عائشہ! اللہ پاک تجھے اچھا بدلہ عطا فرمائے تم مجھ سے اتنا خوش نہیں ہوتی ہوگی جتنا میں تم سے خوش ہوتا ہوں۔ (حلیۃ الاولیاء، 2/52، حدیث: 1464)

حیات ظاہر ی کے آخری لمحات کی قربت نبی کریم ﷺ کی حیات شریف کے آخری لمحات میں فرشتوں اور عائشہ رضی اللہ عنہا کے سوا حضور ﷺ کے پاس اور کوئی نہ تھا۔ (فیضان عائشہ صدیقہ، ص 729)

آقا ﷺ بستر علالت پر تشریف فرما ہوئے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنی مرض وفات شریف میں پوچھتے تھے کہ کل میں کہاں ہوں گا؟ کل میں کہاں ہوں گا؟ (راوی کہتے ہیں) کہ آپ ﷺ عائشہ رضی اللہ عنہا کے باری کے دن کو پسند فرما رہے تھے لہذا تمام ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن نے آپ ﷺ کو اجازت دے دی کہ آپ ﷺ جہاں چاہیں رہیں پھر آپ ﷺ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس رہے حتی کہ انہیں کے پاس وصال فرمایا۔ (بخاری، 3/468، حدیث: 5217)

نزع کے وقت بھی سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو نہ بھولے۔ آقاﷺ نے ارشاد فرمایا: مجھے جنت میں عائشہ دکھائی گئی تاکہ مجھ پر موت آسان ہو جائے گویا میں اس کے دونوں ہاتھ دیکھ رہا ہوں۔(طبقات الکبری لا بن سعد، 10/65) آقا ﷺ کو عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے اس قدر پیار تھا کہ آپ ﷺ نزع کے وقت بھی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو نہ بھولے اور مزید آپ ﷺ کا ارشاد کہ مجھے جنت میں عائشہ دکھائی گئی تاکہ مجھ پر موت آسان ہو جائے تو یہ آپ ﷺ کی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ خاص محبت پر دلالت ہے۔ (فیضان عائشہ صدیقہ، ص 277)


رسول اللہ ﷺ کی ازدواجی زندگی اخلاق، محبت، شفقت اور حسن سلوک کا کامل نمونہ ہے۔ آپ ﷺ نے اپنی تمام ازواج کے ساتھ بہترین برتاؤ فرمایا، لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے آپ کی محبت اور قربت ایک خاص مقام رکھتی ہے، جس کے متعدد دلائل قرآن و سنت میں موجود ہیں۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:رسول اللہ ﷺ سے لوگوں نے پوچھا: آپ کو سب سے زیادہ محبت کس سے ہے؟ آپ نے فرمایا: عائشہ سے۔ پھر پوچھا: مردوں میں سے؟ فرمایا: عائشہ کے والد (یعنی ابوبکر) سے۔(بخاری، 2/519، حدیث: 3662)

یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے محبت کا کھلے الفاظ میں اظہار فرمایا، اور ان کی محبت کو سب پر ترجیح دی۔

ایک اور روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:رسول اللہ ﷺ میرے حجرے میں، میری گود میں سر رکھ کر قرآن پڑھتے اور کبھی وحی بھی آتی تھی۔

یہ قربت اور اعتماد اس بات کی دلیل ہے کہ آپ ﷺ ان کے ساتھ راحت محسوس کرتے تھے۔

قرآن کریم کی سورۃ النورکی 18 آیات میں واقعہ افک کے موقع پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی پاک دامنی کی گواہی خود اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی ان کا مقام بلند ہے اور رسول اللہ ﷺ کے دل میں ان کے لیے خاص محبت تھی، جس پر اللہ تعالیٰ نے خود مہر تصدیق ثبت کی۔

ایک اور حدیث میں آتا ہے:نبی ﷺ جب سفر پر جاتے تو قرعہ اندازی فرماتے کہ کس بیوی کا ساتھ ہوگا، اور اکثر حضرت عائشہ کا نام نکلتا، اور وہ آپ کے ساتھ جاتیں۔ یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ آپ ﷺ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی صحبت کو پسند فرماتے تھے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ذہانت، فہم، علم اور دینی بصیرت بھی رسول اللہ ﷺ کی محبت کا سبب تھی۔ وہ کئی احادیث کی راویہ ہیں اور بڑے بڑے صحابہ ان سے علم حاصل کرتے تھے۔

حضور ﷺ نے فرمایا:عائشہ سے دین سیکھو، کیونکہ وہ سب سے زیادہ علم رکھنے والی خاتون ہیں۔

رسول اللہ ﷺ کی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے محبت نہ صرف ایک شوہر کی محبت تھی، بلکہ یہ ایک کامل انسان اور نبی کی اپنے دل کے قریب ترین، باوقار، ذہین اور پاکیزہ بیوی سے محبت تھی۔ قرآن و حدیث کے دلائل اس محبت کی سچائی اور پاکیزگی کا واضح ثبوت ہیں۔


محبت ایک ایسا پاکیزہ رشتہ ہے جو دل سے دل کو جوڑتا ہے نبی کریم ﷺ کی محبت سب کے لیے تھی مگر بعض ہستیاں ایسی تھیں جنہیں اللہ تعالی نے اپنے محبوب ﷺ کے دل میں مقام عطا فرمایا ان میں سر فہرست نام حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کا ہے پیارے آقا ﷺ سے نکاح کے وقت آپ کی عمر مبارک چھ برس تھی اور نو برس کی عمر میں آپ رضی اللہ عنہا کی رخصتی ہوئی۔ازواج مطہرات میں صرف حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہی کنواری اور سب سے زیادہ بارگاہ رسالت میں محبوب ترین زوجہ تھیں۔

حضور پرنور ﷺ کو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے بہت زیادہ محبت تھی جب آپ ﷺ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو خوش پاتے تو خوش ہو جاتے اور جب حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ آپ ﷺ سے ناراض ہو جاتیں تو آپ ان کو مناتے بھی تھے۔

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں جانتا ہوں جب تم مجھ سے راضی ہوتی ہو اور جب خفا ہوتی ہو میں نے پوچھا آپ کیسے پہچانتے ہیں فرمایا جب تم مجھ سے خوش رہتی ہو تو کہتی ہو محمد ﷺ کے رب کی قسم! اور جب ناراض ہوتی ہو تو کہتی ہو ابراہیم علیہ السلام کے رب کی قسم! میں نے عرض کی ہاں یہی بات ہے واللہ یا رسول اللہ ﷺ میں صرف آپ ﷺ کا نام ہی چھوڑتی ہوں۔ (بخاری، 3/471، حدیث: 5228)

حضرت ربیعہ بن عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: ایک مرتبہ سرور کائنات ﷺ رات بھر چلتے رہے پھر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا: دیکھو! تم مجھے مکھن ملی کھجور سے بھی زیادہ محبوب ہو۔ (طبقات الکبری لا بن سعد،10/78)

پیارے آقا ﷺ کو آپ رضی اللہ عنہا سے بے انتہا محبت تھی کہ پیارے آقا ﷺ آپ کے جوٹھے کو بھی پسند فرماتے کبھی جس طرف سے منہ لگا کر حضرت عائشہ پانی پیا کرتی پیارے آقا بھی اسی جگہ سے پانی نوش فرماتے اسی طرح ہڈی کی جس طرف سے آپ رضی اللہ عنہ گوشت نوش فرماتیں پیارے آقا ﷺ بھی اسی جگہ سے گوشت نوش فرماتے۔ (ابو داود، 1/121، حدیث: 259)

اسی طرح سرکار ﷺ آپ رضی اللہ عنہ کی خوشی کے لیے آپ کے ساتھ کبھی کبھار کھیلا بھی کرتے تھے چنانچہ

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ کے ساتھ سفر میں تھی آپ فرماتی ہیں میں نے پیدل دوڑنے میں آپ ﷺ کے ساتھ مقابلہ کیا میں آپ ﷺ سے آگے نکل گئی پھر جب میرے بدن پر گوشت چڑھا (یعنی میں بھاری ہو گئی) آپ ﷺ کے ساتھ پھر دوڑ ہوئی اس دفعہ آپ ﷺ مجھ سے آگے نکل گئے تو آپ نے فرمایا یہ تمہارے اس دن آگے نکل جانے کا بدلہ ہے۔ (سنن کبری للنسائی، 5/304، حدیث: 8943)

حضور ﷺ کا یہ انداز اس بات پر دلالت کرتا ہے بے شک آپ ﷺ بہترین اخلاق کے حامل تھے اور اپنی ازواج کے ساتھ حسن معاشرت اور بے تکلفی کے ساتھ پیش آتے اور آپ ﷺ کی حضرت عائشہ صدیقہ سے محبت کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ آپ ﷺ زندگی کے ہر معاملے میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ بہترین انداز اپنایا کرتے یہاں تک کہ آپ رضی اللہ عنہ کے ناراض ہونے پر آپ ﷺ ان کو مناتے آپ کا جھوٹا کھانا تناول فرماتے اور بھی بے شمار واقعات اور روایات ہیں جو پیارے آقا ﷺ کی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے بے حد محبت پر دلالت کرتی ہیں۔

حضرت اسحاق بن طلحہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مجھے خبر دی گئی کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:مجھے جنت میں عائشہ رضی اللہ عنہ دکھائی گئی تاکہ مجھ پر موت آسان ہو جائے گویا میں اس کے دونوں ہاتھ دیکھ رہا ہوں۔ (طبقات الکبری لا بن سعد، 10/65)

آپ ﷺ کو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے اس قدر پیار تھا کہ آپ ﷺ نز ع کے وقت بھی آپ رضی اللہ عنہ کو یاد کرتے رہے اور آپ کو نہ بھولے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں بے شک اللہ کی نعمتوں میں سے مجھ پر یہ بھی ہے کہ حضور اکرم ﷺ کا وصال میرے گھر میں اور میری باری میں اور میرے سینے اور گلے کے درمیان ہوا اور اللہ نے میرے اور ان کے لعاب کو ان کے وصال کے وقت جمع فرمایا، عبدالرحمن رضی اللہ عنہ میرے پاس ائے ان کے ہاتھ میں مسواک تھی اور رسول اللہ ﷺ مجھ پر ٹیک لگائے ہوئے تھے تو میں نے حضور ﷺ کو دیکھا کہ مسواک کی طرف دیکھ رہے ہیں میں جانتی تھی کہ حضور ﷺ اس بات کو پسند فرماتے ہیں میں نے پوچھا آپ کے لیے مسواک لے لوں تو آپ ﷺ نے سر انور سے اشارہ فرمایا کہ ہاں میں نے مسواک لی اور مسواک سخت تھی میں نے عرض کی: اسے نرم کر دوں تو آپ ﷺ نے سر سے اشارہ فرمایا کہ ہاں تو میں نے اپنے منہ سے چبا کر اسے نرم کر دیا اس طرح میرا اور سرور دو جہاں ﷺ کا لعاب جمع ہو گیا۔ (بخاری، 3/157، حدیث: 4449)


حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا حضور ﷺ کی ازواج مطہرات میں سے ہیں یہ وہ واحد زوجہ ہیں جو کنواری تھیں۔ ان کو دوسری ازواج مطہرات پر کئی باتوں میں فضیلت حاصل تھی۔ چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ کی چند فضیلتیں درج ذیل ہیں:

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے سوا کسی اور زوجہ کے والدین مہاجر نہ تھے۔ ان کی براءت اللہ نے آسمان سے نازل فرمائی۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام ان کی صورت ایک ریشمی کپڑے میں لپیٹ کر حضرت محمد ﷺ کے پاس لائے اور عرض کیا کہ ان سے شادی کر لیجئے، (ترمذی، 5/470، حدیث: 3906)ان کے علاوہ دوسری کسی زوجہ کی تصویر یوں نہ لائی گی۔ ان کے سوا کسی اور زوجہ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کو نہ دیکھا۔ رسول الله ﷺ اور یہ ایک برتن میں غسل فرمایا کرتے تھے۔ رسول الله ﷺ نماز پڑھا کرتے اور یہ سامنے لیٹی ہوتیں۔ رسول الله ﷺ پر وحی نازل ہوتی اور آپ ایک لحاف میں ہوتے۔ حضور ﷺ کا وصال شریف ان ہی کی گود میں ہوا۔ (سیرت رسول عربی، ص 607)

یہ تو ان کے کچھ فضائل تھے لیکن سب سے زیادہ بڑی فضلیت یہ تھی کہ نبی کریم ﷺ کو ازواج مطہرات میں سے سب سے زیادہ محبت حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تھا سے تھی

حضور ﷺ کی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی محبت سے متعلق کچھ واقعات درج ذیل ہیں:

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو حضور ﷺ کے ساتھ گفتگو کرنے کی بہت زیادہ قدرت تھی لہذا وہ جو چاہتیں بلاجھجک عرض کر دیتی تھیں اور یہ اس قرب و محبت کی وجہ سے تھا جو ان کے درمیان تھی۔

چنانچہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ وہ فرماتی ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے میں اپنی گڑیاں گھر کی ایک کھڑکی میں رکھ کراس پر پردہ ڈالے رکھتی تھی۔ سرکار ﷺ کے ساتھ حضرت زید رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ انہوں نے کھڑی کے پردہ کو اٹھا لیا اور گڑیاں حضور ﷺ کو دکھائیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا یہ سب کیا ہے؟ میں نے عرض کی میری گڑیاں ہیں، ان گڑیوں میں ایک گھوڑا ملاحظہ فرمایا جس کے دو بازو تھے فرمایا، کیا گھوڑوں کے بھی بازو ہوتے ہیں؟ میں نے عرض کیا کیا آپ ﷺ نے نہیں سنا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے گھوڑے تھے اور ان کے بازو تھے۔ حضور نے اس پر اتنا تبسم فرمایا کہ آپ کی داڑھیں ظاہر ہوگئیں۔ (مدارج النبوة 2 /471)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں جانتا ہوں جب تم مجھ سے راضی رہتی ہو اور جب تم خفا رہتی ہو۔ میں نے پوچھا آپ کیسے پہچانتے ہیں؟ فرمایا: جب تم مجھ سے خوش رہتی ہو تو کہتی ہو محمد ﷺ کے رب کی قسم! اور جب ناراض ہوتی ہو تو کہتی ہو ابراہیم علیہ السلام کے رب کی قسم! میں نے عرض کیا: ہاں یہی بات ہے میں صرف آپ ﷺ کا نام ہی چھوڑتی ہوں۔ (بخاری، 3/471، حدیث: 5228)

سبحٰن الله کیا شان ہے کیا محبت ہے کہ اپنے محبوب کے کچھ بتائے بنا بھی معلوم ہے کہ وہ کب راضی ہیں اور کب ناراض ہیں کیونکہ ناراض اسی سے ہویا جاتا ہے جس سے محبت ہو۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ رسول الله ﷺ اپنی نعلین مبارک میں پیوند لگا رہے تھے جبکہ میں چرخہ کات رہی تھی میں نے حضور اکرم ﷺ کے چہرہ پر نور کو دیکھا کہ آپ ﷺ کی پیشانی مبارک سے پسینہ بہہ رہا تھا اور آپ ﷺ کے جمال میں ایسی چمک تھی کہ میں حیران تھی حضور اکرم ﷺ نے میری طرف نگاہ کرم اٹھا کر فرمایا: کس بات پر حیران ہو؟ آپ فرماتی ہیں میں نے عرض کی: یارسول الله! آپ کے چہرہ روشن اور پسینے مبارک نے مجھے حیران کر دیا ہے اس پر حضور اکرم ﷺ کھڑے ہوئے اور میرے پاس آئے اور میری دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا اورفرمایا: اے عائشہ! اللہ تمہیں جزائے خیر دے تم اتنا مجھ سے لطف اندوز نہیں ہوئی جتنا تم نے مجھے خوش کر دیا۔ (حلیۃ الاولیاء، 2/52، حدیث: 1464)

صرف یہ واقعات ہی نہیں بلکہ ایسی بہت سی احادیث مبارکہ ملتی ہیں جن میں حضور اکرم ﷺ کا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے محبت کرنا ثابت ہے حتی کہ اگر دوسری ازواج مطہرات نبی کریم ﷺ کو خوش کرنا چاہتی تو اپنی باری کا دن بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو عطا فرمادتیں۔

جہاں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو اللہ پاک نے بے شمار نعمتوں سے سرفراز فرمایا ہے وہی یہ بھی ہے کہ حضور ﷺ کے وصال ظاہری کے وقت اللہ پاک نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا اور نبی کریم ﷺ کا لعاب مبارک جمع فرما دیا، حضور کا وصال آپ کے گھر، ان کی باری، ان کے سینے اور گلے کے درمیان ہوا۔ (بخاری، 3/468، حدیث: 5217)

اللہ ہمیں ان نیک سیرت ہستیوں کی سیرت مبارکہ پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین


حضور ﷺ جسطرح اپنی ذات و صفات کے اعتبار سے ہر چیز میں ہمارے لئے آئیڈیل اور نمونہ ہیں اسی طرح حضور ﷺ بحیثیت زوج بھی ہمارے لئے آئیڈیل ہیں آپ ﷺ اپنی ازواج سے محبت فرماتے تھے مگر ان سب میں سب سے زیادہ حضرت عائشہ سے محبت کرتے تھے آیئےہم سنتے ہیں کہ حضرت عائشہ سے حضور ﷺ کی محبت کا کیا انداز ہوا کرتا تھا۔

حضور ﷺ حضرت عائشہ سے سب ازواج میں سب سے زیادہ محبت فرماتے تھے اور آپ کی محبت کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ خود فرماتی ہیں کہ کچھ فضیلتیں مجھے ایسی حاصل ہیں جو دوسری ازواج مطہرات کو حاصل نہیں:

1۔ حضور نے میرے سوا کسی دوسری کنواری عورت سے نکاح نہیں فرمایا۔

2۔حضور ﷺ نماز تہجد پڑھا کرتے تھے اور میں آپکے سامنے سوئی رہتی تھی۔

3۔ میں حضور ﷺ کے ساتھ ایک لحاف میں سوئی رہتی تھی اور آپ پر خدا کی وحی نازل ہوا کرتی تھی۔

4۔وفات اقدس کے وقت حضور ﷺ کو اپنی گود میں لئے ہوئے بیٹھی تھی۔

5۔حضور ﷺ نے میری باری کے دن وفات پائی۔ (سیرت مصطفیٰ، ص 659)

محبت بھرا انداز: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ارشاد فرماتی ہیں کہ رسول ﷺ مقام حر سے آرہے تھے اور میں ایک اونٹ پر سوار تھی جو دوسرے اونٹوں سے آخر میں تھا میں نے رسول ﷺ کی آواز مبارک سنی آپ نے ارشاد فرمایا: وا عروساہ ہائے مری دلہن۔ (مسند امام احمد، 10 / 584، حدیث: 26866)

مکھن ملی کھجور سے بھی زیادہ محبوب: حضرت ربیعہ بن عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شب سرور کائنات، فخر موجودات رسول الله ﷺ رات بھر چلتے رہے پھر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: دیکھو تم مجھے مکھن ملی کھجور سے بھی زیادہ محبوب ہو۔ (الطبقات الكبرى لابن سعد، 10/78)

سرکار ﷺ کو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے اس قدر محبت تھی کہ آپ ﷺ ان کے جوٹھے کو بھی پسند فرماتے تھے اور جہاں سے آپ ہڈی سے گوشت کھا تیں سرکار والا تبار ﷺ بھی اس جگہ سے گوشت تناول فرماتے تھے۔ چنانچہ حضرت عا ئشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں ہڈی سے (دانتوں کے ساتھ) گوشت اتارتی تھی حالانکہ میں حائضہ ہوتی اور وہ ہڈی حضور ﷺ کو پیش کر دیتی تو آپ اپنا دہن مبارک اسی جگہ رکھتے جس جگہ میں نے رکھا تھا اور میں (پیالے میں) پانی پی کر حضور کو (پیالہ) دیتی تو آپ (پیالے میں) اس جگہ اپنا لب مبارک رکھتے (یعنی پانی نوش فرماتے) جہاں سے میں نے پیا ہوتا۔ (ابو داود، 1/121، حدیث: 259)

سرکار کا عائشہ کو منانا: حضور پرنور ﷺ کو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے اس قدر محبت تھی کہ جب حضرت عائشہ صدیقہ خوش ہوتیں تو سرکار ﷺ بھی خوش ہوتے تھے اور اگر عا ئشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کسی بات سے ناراض ہو جائیں تو سرکا رﷺ ان کو مناتے بھی تھے، چنانچہ حضرت ابو بکر صدیق رضی الله عنہ ایک دن سید عالم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اس حال میں کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رسول كريم ﷺ کے ساتھ بلند آواز سے باتیں کر رہی تھیں تو حضرت صدیق اکبر یہ کہتے ہوئے عائشہ صدیقہ کی طرف بڑھے کہ اے ام رومان کی بیٹی! کیا تو رسول الله ﷺ پر اپنی آواز کو بلند کرتی ہے تونبی کریم ﷺ ان کے درمیان میں حائل ہو گئے۔ جب حضرت صدیق اکبر وہاں سے چلے گئے تو حضور سید عالم ﷺ نے حضرت عا ئشہ صدیقہ کو مناتے ہوئے فرمایا: کیا تم نے نہ دیکھا کہ میں تمہارے اور ان (حضرت ابو بکر) کے درمیان حائل ہو گیا۔ راوی فرماتے ہیں: پھر جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے تو سید عالم ﷺ اور عا ئشہ صدیقہ رضی الله عنہا کو بہت خوش پایا۔ (مسند امام احمد، 7/494، حدیث: 18891)

اللہ کریم ہمارے معاشرے کے مرد حضرات کو بھی حضور ﷺ کے صدقے اچھا شوہر بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا، نبی اکرم ﷺ کی زوجہ اور اسلام کی تاریخ کی ایک اہم اور عظیم خاتون ہیں۔ آپ کا تعلق قریش کے خاندان سے تھا، آپ کا لقب صدیقہ اور حبیبہ رسول ﷺ تھا،آپ کے والد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے، جو خلافت اسلامیہ کے پہلے خلیفہ تھے اور آپ کی والدہ کا نام ام رومان تھا۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی شادی نبی اکرم ﷺ سے بہت کم عمری میں ہوئی، لیکن آپ کی ذہانت، علم اور دینی فہم نے آپ کو بہت بلند مقام عطا کیا۔ آپ نے 2،200 سے زائد حدیثیں روایت کیں، جو کہ دین اسلام کی تعلیمات کا ایک اہم حصہ ہیں۔

نبی کریم ﷺ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے بے پناہ محبت فرماتے تھے۔ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ سوال کیا: یارسول اللہ! لوگوں میں سے آپ کو سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟ ارشاد فرمایا: عائشہ۔ (بخاری، 2/519، حدیث: 3662)

امیر المومنین حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: بے شک حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا حبیبۂ رسول اللہ ﷺ ہیں۔ (الاصابۃ، 8 / 209)

حضور اکرم ﷺ نے حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا سے فرمایا: اے فاطمہ جس سے میں محبت کرتا ہوں کیا تم اس سے محبت نہیں کرو گی؟ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا نے عرض کی: یا رسول اللہ! کیوں نہیں (یعنی میں ضرور محبت کروں گی) اس پر حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا تو اس (عائشہ) سے محبت کرو۔ (مسلم، ص 1017، حدیث: 2442)

پیاری پیاری اسلامی بہنو ! آ پ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے فضائل ملاحظہ فرمائے، آئیے! اب حبیب خدا اور حبیبۂ حبیب خدا کی محبت بھرے سفر کی ایک روایت ملاحظہ کیجئے، چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ ارشاد فرماتی ہیں: رسول اللہ ﷺ کے ساتھ (مقام حر سے) واپس آ رہے تھے اور میں ایک اونٹ پر سوار تھی جو دوسرے اونٹوں میں آخر میں تھا میں نے رسول اللہ ﷺ کی آواز مبارک سنی آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: وا عروساہٗ ہائے میری دلہن۔ (مسند امام احمد، 10/584، حدیث: 26866)

آپ ﷺ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی رضا اور ناراضی کو بھی محسوس کر لیتے تھے۔ چنانچہ آپ ﷺ نے ایک مرتبہ فرمایا: عائشہ! میں تمہاری خوشی اور ناراضی کو پہچان لیتا ہوں۔ عرض کیا: کیسے یا رسول اللہ؟ فرمایا: جب تم راضی ہوتی ہو تو کہتی ہو: محمد ﷺ کے رب کی قسم! اور جب ناراض ہوتی ہو تو کہتی ہو: ابراہیم علیہ السلام کے رب کی قسم! سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا مسکرائیں اور عرض کیا: یارسول اللہ! میں صرف آپ کا نام بدلتی ہوں، مگر محبت وہی رہتی ہے۔ (بخاری، 3/471، حدیث: 5228)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے حضور اکرم ﷺ کی محبت کے متعلق کئی احادیث موجود ہیں جو آپ ﷺ کی ان سے بے پناہ محبت اور قربت کو ظاہر کرتی ہیں۔ یہاں ایک مشہور حدیث پیش کی جا رہی ہے:

حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کو سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: عائشہ۔ میں نے کہا: مردوں میں سے؟ فرمایا: اس کا باپ (یعنی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ)۔ میں نے کہا: پھر کون؟ فرمایا: عمر بن خطاب۔ پھر آپ ﷺ نے چند اور مردوں کے نام گنوائے۔(بخاری، 2/519، حدیث: 3662)

یہ حدیث واضح طور پر ظاہر کرتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بہت محبت کرتے تھے اور اس کا برملا اظہار بھی فرماتے تھے۔

ایک اور اہم واقعہ جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی محبت کو ظاہر کرتا ہے، وہ ہے حادثہ افک۔ جب حضرت عائشہ پر جھوٹے الزامات لگے، تو نبی ﷺ نے کبھی ان کے بارے میں بدگمانی نہیں کی اور حضرت عائشہ کی عزت اور محبت کو اپنی زندگی میں ہمیشہ مقدم رکھا۔

اللہ پاک ہم تمام اسلامی بہنوں کو آپ کی سیرت پر عمل کرنے کی سعادت عطا فرمائے۔


یہ امیر المومنین حضرت ابو بکر صدیق کی صاحبزادی ہیں ان کی ماں کا نام ام رومان ہے ان کا نکاح حضور اقدس ﷺ سے قبل ہجرت مکہ مکرمہ میں ہوا تھا لیکن کاشانہ نبوت میں یہ مدینہ منورہ کے اندر شوال 2ھ میں آئیں یہ حضور ﷺ کی محبوبہ اور بہت ہی چہیتی بیوی ہیں۔ (شرح الزرقانی، 4/381 تا 385)

حضور اقدس ﷺ کا ان کے بارے میں ارشاد ہے کہ کسی بیوی کے لحاف میں میرے اوپر وحی نہیں اتری مگر حضرت عائشہ جب میرے ساتھ نبوت کے بستر پر سوتی رہتی ہیں تو اس حالت میں بھی مجھ پر وحی اترتی رہتی ہے۔ (بخاری، 2/552، حدیث: 3775)

حضور ﷺ کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بڑی محبت تھی چنانچہ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کی یا رسول اللہ! آپ کے نزدیک سب سے پیارا انسان کون ہے؟ فرمایا: عائشہ۔ میں نے پھر پوچھا: اور مردوں میں سے؟ فرمایا ان کے والد (یعنی حضرت ابو بكر صديق)۔ (بخاری، 2/519، حدیث: 3662)

حضور ﷺ نے انکی فضیلت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: عائشہ کی فضیلت تمام عورتوں پر ایسی ہے جیسے ثرید کی سب کھانوں پر۔ (بخاری، 2/454، حدیث:3433)

مفسر شہیر حكيم الامت مولانا مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ رحمۃ الله الغنی فرماتے ہیں: ثرید یعنی روٹی شور با بوٹیاں ایک جان کی ہوئی بہترین غذا ہے ساری غذاؤں سے افضل کہ وہ زود ہضم نہایت ہی مقوی بہت مزے دار، چبانے سے بے نیاز بہت صفات کی جامع غذا ہے ایسے ہی حضرت عائشہ صورت، سیرت علم عمل، فصاحت فطانت، ذکاوت عقل حضور کی محبوبیت وغیرہ ہزار ہا صفات کی جامع ہیں۔ حق یہ ہے کہ آپ رضی الله عنہا ساری عورتوں کی حتی کہ خدیجہ الکبری رضی اللہ عنہا سے بھی افضل ہیں، آپ رضی اللہ عنہا بہت احادیث کی جامع علوم قرآنیہ کی ماہر بی بی ہیں۔ (مراة المناجیج، 8/501)

مزید فرماتے ہیں: جناب حضرت سیدہ عا ئشہ صد يقہ کے فضائل ریت کے ذروں، آسمان کے تاروں کی طرح بے شمار ہیں، آپ رضی اللہ عنہا رب تعالیٰ کا تحفہ ہیں جو حضور انور ﷺ کو عطا ہوئیں۔ آپ رضی اللہ عنہا کی عصمت و عفت کی گواہی خود رب تعالیٰ نے قرآن مجید میں سورہ نور میں دی حالانکہ جناب مریم رضی الله عنہا اور یوسف علیہ السلام کی عصمت کی گواہی بچے سے دلوائی گئی۔

کاشانہ نبوت میں آنے کے بعد: جب آپ رضی الله عنہا کا شانہ اقدس میں آئیں اس وقت آپ کی عمر صرف نو سال تھی چنانچہ آپ کے ساتھ آپ کے کھلونے بھی تھے اور آپ ان کے ساتھ کھیلا کرتی تھیں، سر کار نامدار مدینے کے تاجدار ﷺ بھی آپ کی دل جوئی کا خاص اہتمام فرماتے تھے۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ میری کچھ سہیلیاں تھیں جو میرے ساتھ کھیلا کرتی تھیں جب رسول اکرم، شاہ بنی آدم ﷺ تشریف لاتے تو وہ اندر چھپ جاتیں آپ انہیں میرے پاس بھیج دیتے اور وہ پھر میرے ساتھ کھیلنے لگتیں۔ (بخاری، 4/134، حدیث: 6130)

اسی طرح ایک روز آپ ﷺ حضرت عائشہ کے پاس تشریف لائے اور ان کی گڑیوں کو دیکھ کر استفسار فرمایا: یہ کیا ہے؟ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: میری گڑیاں ہیں آپ نے ان گڑیوں میں ایک گھوڑا ملاحظہ فرمایا جس کے کپڑے کے دو پر تھے۔ فرمایا: یہ ان کے درمیان کیا نظر آتا ہے؟ عرض کی: گھوڑا۔ فرمایا: اس کے اوپر کیا ہے؟ عرض کی: دو پر فرمایا: گھوڑے کے دو پر؟ حضرت عائشہ نے عرض کیا: کیا آپ ﷺ نے نہیں سنا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے گھوڑے پروں والے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس پر آپ ﷺ نے اتنا تبسم فرمایا کہ میں نے دندان مبارک کی زیارت کرلی۔ (مدارج النبوة 2 /471)

یہ حضور ﷺ کی اپنی پیاری زوجہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے محبت تھی کہ وہ ان کی دلجوئی کی خاطر ان کے ساتھ یہ انداز اختیار فرماتے تھے۔

اللہ کریم ہمیں فیضان عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔


حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پیارے آقا مدنی مصطفیٰ ﷺکی سب سے کم عمر زوجہ تھیں،آپ رضی اللہ عنہا کے سوا پیارے آقاﷺ نے کسی کنواری لڑکی سے نکاح نہیں فرمایا اور آپ رضی اللہ عنہا پیارے آقاﷺ کی سب سے محبوب زوجہ تھیں اسی لیے آپکو محبوبۂ محبوب خدا کہا جاتا ہے،پیارے آقا علیہ السلام کی آپ سے محبت کے متعلق متعدد روایات اور احادیث مبارکہ ہیں جن میں سے چند یہ ہیں:

حضرت عائشہ سے محبت کا حکم: حضوراکرمﷺ نے حضرت فاطمۃ الزہراء رضی الله عنہا سے فرمایا: اے فاطمہ جس سے میں محبت کرتا ہوں کیا تم اس سے محبت نہیں کرو گی؟ حضرت فاطمہ نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ کیوں نہیں؟ میں ضرور محبت کروں گی۔ اس پر رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: تو اس (یعنی حضرت عائشہ) سے محبت کرو۔(1)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کھیلنا:پیارے آقاﷺحضرت عائشہ صد یقہ کو خوش کرنے کے لئے ان کے ساتھ کبھی کبھار کھیلا بھی کرتے تھے۔ چنانچہ

حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله تعالی عنہا سے روایت ہے کہ میں حضورنبی کریم ﷺکے ساتھ سفر میں تھی، آپ فرماتی ہیں: میں نے پیدل دوڑنے میں آپﷺ کے ساتھ مقابلہ کیا میں آپ ﷺسے آگے نکل گئی پھر جب میرے بدن پر گوشت چڑھ آیا (یعنی میں بھاری ہوگی) آپﷺ کے ساتھ پھر دوڑی اس دفعہ آپ ﷺمجھ سے آگے نکل گئے تو آپ نے فرمایا: یہ تمہارے اس (دن) آگے نکل جانے کا بدلہ ہے۔ (2)

حضرت عائشہ کے جوٹھے کو بھی پسند فرمانا:پیارے آقاﷺکو حضرت عائشہ سے اس قدر محبت تھی کہ آپﷺ ان کے جوٹھے کو بھی پسند فرماتے تھے اور جہاں سے آپ ہڈی سے گوشت کھاتیں سرکار والا تبارﷺ بھی اسی جگہ سے گوشت نوش فرماتے تھے۔ چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں ہڈی سے (دانتوں کے ساتھ) گوشت اتارتی تھی حالانکہ میں حائضہ ہوتی اور وہ ہڈی حضورﷺ کو پیش کردی تو آپ ﷺ اپنا دہن مبارک اسی جگہ رکھتے جس جگ میں نے رکھا تھا اور میں (پیالے میں) پانی پی کر حضور ﷺکو پیالہ دیتی تو آپ (پیالے میں) اسی جگہ اپنا لب مبارک رکھتے (یعنی پانی نوش فرماتے) جہاں سے میں نے پیا۔ (3)

حالتِ نزع میں حضرت عائشہ کو جنت میں دیکھنا:حضرت اسحاق بن طلحہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مجھے خبر دی گئی کہ رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا: مجھے جنت میں عائشہ دکھائی گئی تا کہ مجھ پر موت آسان ہو جائے گویا میں اس کے دونوں ہاتھ دیکھ رہا ہوں(4)۔ آپ کا ایسا فرمانا حضرت عائشہ سے خاص محبت پر دلالت کرتا ہے۔

حضرت عائشہ کے حجرے میں رہنے کی خواہش:حضرت عروه بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللهﷺ اپنے مرض وفات میں تھے تو اپنی ازواج کی باری پر ان کے یہاں تشریف لے جایا کرتے تھے اور حضر ت عائشہ کے گھر جانے کی خواہش کرتے ہوئے ارشاد فرماتے: میں کل کہاں رہوں گا؟ میں کل کہاں رہوں گا؟ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں: جب میری باری کا دن آتا تو آپﷺ خاموش ہو جاتے۔(5) باقی ازواج مطہرات نے آپ کی یہ حالت دیکھی تو انہوں نے آپکو حضرت عائشہ کے حجرے میں قیام کی اجازت دے دی۔

مکھن ملی کھجور سے بھی زیادہ محبوب:حضرت زید بن عثمان سے مروی ہے کہ ایک شب سرور کائناتﷺرات بھر چلتے رہے پھر حضرت عا ئشہ صدیقہ سے فرمایا: دیکھو تم مجھے مکھن ملی کھجور سے بھی زیادہ محبوب ہو۔ (6)

حضرت عائشہ کی گود میں وصال ظاہری فرمانا:ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: نبی مکرم،نور مجسم ﷺنے میرے گھر، میری باری کے دن میری گردن اور سینے کے درمیان وصال فرمایا اور الله نے موت کے وقت میرا اور آپﷺکا لعاب اقدس ملا دیا۔ (7)

اللہ پاک حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے مزار پر کروڑوں رحمتوں کا نزول فرمائے۔آمین

حوالہ جات:

(1) مسلم، ص 1017، حدیث: 2442

(2) سنن کبری للنسائی، 5/304، حدیث: 8943

(3) ابو داود، 1/121، حدیث: 259

(4) طبقات الکبری لا بن سعد، 10/65

(5) بخاری، 3/468، حدیث: 5217

(6) الطبقات الكبرى لابن سعد، 10/78

(7) بخاری، 3/468، حدیث: 5217


ہر مسلمان بتقاضائے ایمان اللہ اور اس کے رسولﷺ سے محبت کرتا ہے اور دین و دنیا کی بے شمار سعادتوں سے بہرہ مند ہوتا ہے، لیکن اس سے بھی بڑھ کر سعادت مند وہ ہے جس کو اللہ پاک اور اس کے رسولﷺ چاہیں اور اس کے مسکن کو آقا جانﷺ اپنی حیات دنیا و قبر کے لیے مسکن بنائیں۔ ایسی ابدی سعادتیں اور عزتیں جس کا تاج بنیں وہ زوجۂ رسول حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی ذات مبارکہ ہے۔

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو مصطفیٰ کریمﷺ سے خاص قربت حاصل تھی آپ حضور کو بہت محبوب تھیں آئیے اس کے متعلق فرامین مصطفیٰﷺ ملاحظہ کرتی ہیں:

پیارے نبی ﷺ نے اپنی لاڈلی شہزادی حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا: رب کعبہ کی قسم تمہارے والد کو عائشہ بہت زیادہ محبوب ہیں۔1

حضرت ربیعہ بن عثمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک شب پیارے آقاﷺ رات بھر چلتے رہے پھر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ارشاد فرمایا: دیکھو تم مجھے مکھن ملی کھجور سے بھی زیادہ محبوب ہو۔ 2

حضور حضرت عائشہ سے اس قدر محبت فرماتے کہ آپ رضی اللہ عنہا کے جوٹھے کو بھی پسند فرماتے، چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ارشاد فرماتی ہیں: میں ہڈی سے گوشت اتارتی تھی حالانکہ میں حائضہ ہوتی اور وہ ہڈی حضورﷺ کو پیش کر دیتی تو آپ ﷺ بھی اپنا دہن مبارک وہاں رکھتے جہاں میں نے رکھا تھا اور میں پانی پی کر حضورﷺ کو دیتی تو آپ اپنا لب مبارک رکھتے جہاں سے میں نے پیا ہوتا۔ 3

جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا خوش ہوتیں تو سرکار دو عالمﷺ بھی خوش ہوتے جب آپ رضی اللہ عنہا ناراض ہو جاتیں تو آپ ﷺ ان کو منایا کرتے۔

آئیے اب محبوبِ خدا اور حبیبۂ حبیب خدا کے محبت بھرے سفر کی روایت ملاحظہ فرمائیے۔ چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ارشاد فرماتی ہیں: رسول اللہﷺ کے ساتھ (مقام حر) سے واپس آ رہے تھے اور میں ایک اونٹ پر سوار تھی جو دوسرے اونٹوں میں آخر میں تھا میں نے رسولﷺ کی آواز مبارک سنی آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: واعروساہٗ ہائے میری دلہن۔ 4

ہم کو امی عائشہ سے پیار ہے ان شاءاللہ عزوجل اپنا بیڑا پار ہے

(1) فیضان عائشہ صدیقہ، ص 17

(2) طبقات کبری لابن سعد، 10 / 78

(3) ابو داود، 1/121، حدیث: 259

(4) مسند امام احمد، 10 / 584، حدیث: 26866


حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا یہ امیر المومنین حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی نور نظر اور دختر نیک اختر ہیں۔ ان کی والدہ ماجدہ کا نام ام رومان ہے یہ چھ برس کی تھیں جب حضور ﷺ نے اعلان نبوت کے دسویں سال ماہ شوال میں ہجرت سے تین سال قبل نکاح فرمایا اور شوال 2 ہجری میں مدینہ منورہ کے اندر یہ کاشانہ نبوت میں داخل ہو گئیں اور نوبرس تک حضور ﷺ کی صحبت سے سرفراز رہیں ازواج مطہرات میں یہی کنواری تھیں اور سب سے زیادہ بارگاہ نبوت میں محبوب ترین ہوئی تھیں حضور اقدس ﷺ کا ان کے بارے میں ارشاد ہے کہ کسی بیوی کے لحاف میں میرے اوپر وحی نازل نہیں ہوئی مگر حضرت عائشہ جب میرے بستر نبوت پر سوتی رہتی ہیں تو اس حالت میں بھی مجھ پر وحی الہی اترتی رہتی ہے۔ (بخاری،  2/552، حدیث: 3775)

یوں تو تمام ازواج مطہرات ہی بہت زیادہ فضیلت کی حامل ہیں لیکن بی بی عائشہ کو دیگر ازواج مطہرات پر بعض فضائل میں فوقیت حاصل ہے جو درج ذیل ہیں:

ابن سعد نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نقل کیا ہے کہ خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرمایا کرتی تھیں کہ مجھے تمام ازواج مطہرات پر ایسی دس فضیلتیں حاصل ہیں جو دوسری ازواج مطہرات کو حاصل نہیں ہوئیں۔

1۔ حضور ﷺ نے میرے سوا کسی دوسری کنواری عورت سے نکاح نہیں فرمایا۔

2۔ میرے سوا ازواج مطہرات میں سے کوئی بھی ایسی نہیں جس کے ماں باپ دونوں مہاجر ہوں۔

3۔ اللہ تعالیٰ نے میری براءت اور پاکدامنی کا بیان آسمان سے قرآن میں نازل فرمایا۔

4۔ نکاح سے قبل حضرت جبریل علیہ السلام نے ایک ریشمی کپڑے میں میری صورت لا کر حضور کو دکھلا دی تھی اور آپ تین راتیں خواب میں مجھے دیکھتے رہے۔

5۔ میں اور حضور ﷺ ایک ہی برتن میں سے پانی لے لے کر غسل کیا کرتے تھے۔ یہ شرف میرے سوا ازواج مطہرات میں سے کسی کو بھی نصیب نہیں ہوا۔

6۔ حضور اقدس ﷺ نماز تہجد پڑھتے تھے اور میں آپ کے آگے سوئی رہتی تھی۔ امہات المومنین میں سے کوئی بھی حضور ﷺ کی اس کریمانہ محبت سے سرفراز نہیں ہوئی۔

7۔ میں حضور ﷺ کے ساتھ ایک لحاف میں سوتی رہتی تھی اور آپ پر خدا کی وحی نازل ہوا کرتی تھی یہ وہ اعزاز خداوندی ہے جو میرے سوا حضور ﷺ کی کسی زوجہ مطہرہ کو حاصل نہیں ہوا۔

8۔ وفات اقدس کے وقت میں حضور ﷺ کو اپنی گود میں لیے ہوئے بیٹھی تھی اور آپ کا سر انور میرے سینے اور حلق کے درمیان تھا اور اسی حالت میں حضور ﷺ کا وصال ہوا۔

9۔ حضور ﷺ نے میری باری کے دن وفات پائی۔

10۔ حضور اقدس ﷺ کی قبر انور خاص میرے گھر میں بنی۔ (شرح الزرقانی، 3/ 323)

یاد رکھئے! محبت کی بنیاد تین چیزیں ہوتی ہیں:جمال،کمال اور نوال یعنی احسان۔یعنی انسان جس سے محبت کرتا ہے تو اس کے پیش نظر محبوب کی صورت کا حسن ہوتا ہے یا سیرت کا کمال و اکمل ہونا یا وہ اس کے احسانات کی وجہ سے اسے محبوب جانتا ہے۔ سیدہ عائشہ محبوبۂ محبوب خدا تھیں تو یقیناً اس کی وجوہات بھی ہوں گی اور اس مقام کو پانے میں آپ کا اپنا کردار بھی ہوگا،لہٰذا جب اس حوالے سے سیدہ عائشہ کے بطور زوجہ معمولات کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ حضور کی زیب و زینت اور پسند و ناپسند کا خوب خیال رکھا کرتیں، مثلاً حضور کو خوشبو پسند تھی۔ (مراۃ المناجیح، 6/174) لہٰذا حضور کی اس پسند کا بطور خاص اہتمام کرتیں اور حضور کو خوش کرنے کے لئے سب سے عمدہ خوشبو حضور کو لگایا کرتیں۔(بخاری، 4/81، حدیث:5923)

مسلم شریف کی روایت کے مطابق حضور جب اعتکاف کرتے تو مسجد میں رہتے ہوئے اپنا سر اپنے حجرے کی طرف جھکا دیتے اور سیدہ عائشہ کنگھی کر دیتیں۔ (مسلم، ص 138، حدیث: 685) یوں ہی ابو داود شریف کی روایت کے مطابق جب آپ حضور کے سر میں مانگ نکالنے کا ارادہ کرتیں تو حضور کی مانگ(درمیان)سر سے چیرتیں اور پیشانی کے بال دو آنکھوں کے درمیان چھوڑ دیتیں۔ (ابو داود،4/111،حدیث: 4189) مطلب یہ ہے کہ حضور کے بال شریف کے دو حصے کرتیں، ایک حصّہ داہنی جانب دوسرا حصہ بائیں جانب اور پیشانی کے اوپر سے یہ مانگ شروع کرتیں اور سر مبارک سے اسے گزارتیں، پوری مانگ بیچ سر میں ہوتی تھی۔(مراۃ المناجیح،6/162)

الغرض ام المومنین سیدہ عائشہ صدّیقہ رضی اللہ عنہا بلا شبہ ایک بہترین بیوی تھیں،اپنے شوہر کی پسند و ناپسند کا خوب خیال رکھتیں اور اپنے شوہر کا ہر کام خوشی سے کرتیں، یہی وجہ ہے کہ آپ اللہ پاک کے حبیب ﷺ کی بھی محبوب تھیں۔ چنانچہ اگر آپ بھی اپنے شوہر کی محبوب بننا چاہتی ہیں تو یہ محض حسن و جمال کے جلووں سے نہیں بلکہ سیدہ عائشہ کی سیرت پر عمل کر کے ہی ممکن ہو گا۔ اللہ پاک ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


حضور ﷺ کی نسبت مبارکہ کی وجہ سے ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کا بھی بہت ہی بلند مرتبہ ہے ان کی شان میں قرآن کی بہت سی آیات بینات نازل ہوئی ہیں، چنانچہ اللہ پاک نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا: وَ اَزْوَاجُهٗۤ اُمَّهٰتُهُمْؕ- (پ 21، الاحزاب: 6) ترجمہ اور اس نبی کی بیویاں ان (مومنین) کی مائیں ہیں۔

حضور ﷺ کو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے بے پناہ محبت تھی ان کی فضیلت میں چند حدیثوں کا گلدستہ پیش کیا جاتا ہے۔

1۔ امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: بے شک حضرت عائشہ صدیقہ حبیبۂ رسول اللہ ﷺ ہیں۔ (الاصابۃ، 8 / 209)

2۔ جب آپ رضی اللہ عنہا کاشانہ اقدس میں آئیں اس وقت آپ کی عمر صرف نو سال تھی چنانچہ آپ کے ساتھ آپ کے کھلونے بھی تھے اور آپ ان کے ساتھ کھیلا کرتی تھیں، سرکار نامدار ﷺ بھی آپ کی دل جوئی کا خاص اہتمام فرماتے تھے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ میری کچھ سہیلیاں تھیں جو میرے ساتھ کھیلا کرتی تھیں جب آقا کریم ﷺ تشریف لاتے تو وہ اندر چھپ جاتیں آپ ﷺ انہیں میرے پاس بھیج دیتے اور وہ پھر میرے ساتھ کھیلنے لگتیں۔ (بخاری، 4/134، حدیث: 6130)

3۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے میں اپنی گڑیاں گھر کے ایک دریچہ میں رکھ کر اس پر پردہ ڈالے رکھتی تھی سرکار دوعالم ﷺ کے ساتھ حضرت زید رضی اللہ عنہ بھی تھے انہوں نے دریچہ کے پردہ کو اٹھایا اور گڑیا حضور ﷺ کو دکھائیں حضور اکرم نے ارشاد فرمایا: یہ سب کیا ہیں؟ میں نے عرض کیا: میری بیٹیاں (یعنی میری گڑیاں) ہیں، ان گڑیوں میں ایک گھوڑا ملاحظہ فرمایا جس کے دو بازو تھے، استفسار فرمایا: کیا گھوڑوں کے بھی بازو ہوتے ہیں؟ میں نے عرض کیا: کیا آپ ﷺ نے نہیں سنا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے گھوڑے تھے اور ان کے بازو تھے؟ حضور نے اس پر اتنا تبسم فرمایا کہ آپ کی داڑھیں ظاہر ہو گئیں۔ (مدارج النبوة 2 /471)

4۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے عائشہ یہ جبرائیل علیہ السلام تمہیں سلام کہہ رہے ہیں۔ فرماتی ہیں: میں نے کہا: وعلیہ السلام ورحمۃ اللہ یعنی ان پر بھی سلام اور اللہ کی رحمت ہو اور بولیں: آپ ﷺ وہ دیکھتے ہیں جو میں نہیں دیکھ پاتی۔

ان کے بستر میں وحی آئے رسول اللہ پر اور سلام خادمانہ بھی کریں روح الامیں

5۔ حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ (مقام حر سے) واپس آرہے تھے اور میں ایک اونٹ پر سوار تھی جو دوسرے اونٹوں میں آخر میں تھا میں نے رسول اللہ ﷺ کی آواز سنی آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: وا عروساہ ہائے میری دلہن۔ (مسند امام احمد، 10 / 584، حدیث: 26866)

6۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا میں جانتا ہوں جب تم مجھ سے راضی رہتی ہو اور جب تم خفا ہوتی ہو میں نے پوچھا آپ کیسے پہچانتے ہیں فرمایا جب تم مجھ سے خوش رہتی ہو تو کہتی ہو محمد ﷺ کے رب کی قسم اور جب ناراض ہوتی ہو تو کہتی ہو ابراہیم علیہ السلام کے رب کی قسم میں نے عرض کیا! ہاں یہی بات ہے، واللہ یارسول اللہ ﷺ میں صرف آپ ﷺ کا نام ہی چھوڑتی ہوں۔ مطلب یہ ہے کہ اس حال میں صرف آپ ﷺ کا نام نہیں لیتی لیکن آپ ﷺ کی ذات گرامی اور آپ ﷺ کی یاد میرے دل میں اور میری جان آپ ﷺ کی محبت میں مستغرق ہے۔ (بخاری، 3/471، حدیث: 5228)

7۔ حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ ایک سفر میں آقا کریم ﷺ کے ہمراہ تھی ہم نے ایک جگہ قیام کیا تو رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام کو آگے روانہ کر دیا اور مجھ سے دوڑ کا مقابلہ کیا میرا بدن دبلا پتلا تھا اس لیے میں آگے نکل گئی پھر کچھ عرصے کے بعد کسی اور سفر میں حضور کے ہمراہ تھی ہم نے ایک جگہ قیام کیا نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرام کو آگے روانہ کر دیا مجھ سے دوڑ کا مقابلہ کیا اس وقت میں فربہ بدن تھی، لہذا حضور آگے نکل گئے پھر میرے کندھے پر اپنا دست شفقت مارتے ہوئے فرمایا کہ یہ اس جیت کا بدلہ ہوگیا۔ (سنن کبری للنسائی، 5/304، حدیث: 8943)

یاد رہے یہ دوڑ رات کے اندھیرے میں یا دن میں تنہائی میں تھی لہذا فی زمانہ ہونے والی مرد و عورت کی دوڑ کے لیے اس حدیث کو دلیل نہیں بنایا جا سکتا۔

حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ اپنی نعلین مبارک میں پیوند لگا رہے تھے جبکہ میں چرخہ کات رہی تھی میں نے حضور علیہ السلام کے چہرہ انور کی طرف دیکھا آپ ﷺ کی مبارک پیشانی سے پسینہ بہہ رہا تھا اور اس پیسنہ سے آپ ﷺ کی (نوارنی) پیشانی چمک رہی تھی آپ فرماتی ہیں میں حیران ہوئی حضور علیہ السلام نے میری طرف نگاہ اٹھا کر فرمایا کس بات پر حیران ہو سیدہ فرماتی ہیں میں نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ میں نے آپ کی طرف دیکھا تو آپ کی مقدس پیشانی کے پسینے اور آپ ﷺ کے پسینہ مبارک سے نکلتے ہوئے نور نے مجھے حیران کر دیا ہے اس پر حضور میری طرف اٹھے اور میری دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا اور ارشاد فرمایا اے عائشہ اللہ تمہیں جزائے خیر دے تم مجھ سے اتنی مسرور نہیں ہوئی جتنا میں تم سے مسرور ہوا۔ (حلیۃ الاولیاء، 2/52، حدیث: 1464)

اللہ پاک ہمیں بھی حضرت عائشہ صدیقہ سے سچی محبت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

ہم کو امی عائشہ سے پیار ہے ان شاءاللہ اپنا بیڑا پار ہے