خوف کے لغوی معنی خطرہ ، ڈر ،ہیبت ، فکر ، خدشہ ،اصطلاح میں خوف اسے کہتے ہیں کہ بندہ اپنے آپ کو امرِ
مکروہ سے بچائے اور بجا آوریِ احکامِ حق میں عبودیت کے ساتھ سرگرم رہے۔خوف کی دو
اقسام ہیں:(1)لوگوں کا خوف(2)اللہ پاک کا خوف۔اللہ پاک کے خوف کی تعریف یہ ہے کہ انسان تمام منہیات سے بچ کر خالص اللہ والے کاموں میں لگ
جائے۔اللہ پاک کے خوف سے رونے کے بے شمار فضائل ہیں۔جب
ان پر (خدائے) رحمن کی آیتوں
کی تلاوت کی جاتی ہے وہ سجدہ کرتے ہوئے اور (زار و قطار) روتے ہوئے گر پڑتے ہیں۔سورۃ السجدہ۔خوفِ خدا اورعشقِ
مصطَفٰے میں رونا ایک عظیم الشّان نیکیہے۔انبیائے کرام علیہم السلام بھی اللہ پاک کے خوف میں راتوں کو
قیام کرتے اور آنسو بہاتے جیسا کہ ایک روایت کے مطابق حضرت یحیی علیہ
السلام جب نَماز کے لئے کھڑے ہوتے تو ( خوفِ خدا سے ) اِس قدر روتے کہ درخت اور
مٹی کے ڈھیلے بھی ساتھ رونے لگتے حتی کہ آپ کے والِدِ مُحترم حضرت زکر یا علیہ
السلام بھی دیکھ کر رونے لگتے یہاں تک کہ بے ہوش ہوجاتے ۔ مسلسل
بہنے والے آنسوؤں کے سبب حضرت یحیی علیہ السلام کے رُخسارِ مبارَک ( یعنی با بَرَکت گالوں ) پر زَخم ہوگئے تھے۔خوفِ خدا کے فضائل میں کئی احادیث
مبارکہ ہیں ۔جیسا کہ فرمانِ مصطفٰے صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے :جس مومن کی آنکھوں سے اللہ پاک کے خوف سے آنسو نکلتے ہیں اگرچہ مکھی کے سرکے برابر ہوں
،پھر وہ آنسو اُس کے چہرے کے ظاہِر ی حصّے کو پہنچیں تو اللہ پاک
اُسے جہنم پر حرام کر دیتا ہے۔( 2 ) فرمانِ مصطفے ٰ صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم ہے:وہ شخص جہنم میں داخِل نہیں ہوگا جو اللہ پاک
کے ڈر سے رویا ہو۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے،حضور
نبی اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اللہ پاک کے خوف سے رونے والا انسان دوزخ میں داخل نہیں ہو گا یہاں کہ دودھ،تھن میں واپس نہ چلا جائے اور اللہ پاک کی راہ میں پہنچنے والی گرد و غبار اور جہنم کا دھواں جمع
نہیں ہو سکتے۔حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما روایت کرتے ہیں،میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:دو آنکھوں کو آگ نہیں چھوئے
گی:(ایک) وہ آنکھ جو اللہ پاک کے خوف سے روئی اور (دوسری) وہ آنکھ جس نے اللہ پاک کی راہ میں
پہرہ دے کر رات گزاری۔ اللہ پاک ہمیں بھی اپنے خوف
اور عشقِ رسول میں رونا نصیب فرمائے ۔
جی چاہتا ہے
پھوٹ کے روؤں تِرے ڈر سے اللہ ! مگر
دل سے قَساوَت نہیں جاتی
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہُ عنہ نے فرمایا:جو شخص رو سکتا ہے وہ روئے اور اگر رونا نہ آتا
ہو تو رونے جیسی صورت بنا لے۔ حضرت امام ابوالفرج ابنِ جوزی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:خوفِ الٰہی
ہی ایسی آگ ہے، جو شہوات کو جلا دیتی
ہے، اس کی فضیلت اتنی ہی زیادہ ہوگی، جتنا زیادہ یہ شہوات کو جلائے اور جس قدر یہ اللہ پاک
کی نافرمانی سے روکے، اطاعت کی ترغیب دے
اور کیوں نہ ہو کہ اس کے ذریعےپاکیزگی، ورع
،تقویٰ اور مجاہدہ، نیز اللہ پاک
کا قرب عطا کرنے والے اعمال حاصل ہوتے ہیں۔آخرت میں امن:دنیا میں اپنے خالق و مالک
کا خوف رکھنے والے آخرت میں امن کی جگہ پائیں گے، جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ مَقَامِ امین۔ ترجمہ ٔکنزالایمان:بے شک ڈر والے امان کی جگہ میں ہیں۔(پ 25، الدخان:51)اعمال کی
قبولیت:خوفِ الٰہی اعمال کی قبولیت کا ایک سبب ہے، جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللہُ
مِنَ الْمُتَّقِیْنَ۔ترجمۂ کنزالایمان:اللہ اسی
سے قبول کرتا ہے جسے ڈر ہے۔(پ 6، مائدہ:27)حضرت زکریا علیہ
السلام کے بیٹے حضرت یحییٰ علیہ السلام ایک مرتبہ کہیں کھو گئے تھے، تین دن کے بعد ان کی تلاش میں نکلے تو
دیکھا یحییٰ علیہ
السلام نے ایک قبر کھود رکھی اور اس میں کھڑے ہو کر رو رہے
ہیں، آپ نے ارشاد فرمایا:اے میرے بیٹے!میں
تمہیں تین دن سے ڈھونڈ رہا ہوں اور تم یہاں قبر پر کھڑے آنسو بہا رہے ہو! تو انہوں
نے عرض کی:ابَّا جان!کیا آپ نے مجھے نہیں بتایا کہ جنت اور دوزخ کے درمیان ایک
خوش وادی ہے، جس سے رونے والے کے آنسو بھی بُجھا سکتے ہیں؟ آپ نے فرمایا:ضرور میرے بیٹے اور وہ بھی ان کے
ساتھ مل کر رونے لگے۔اللہ پاک کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری مغفرت
ہو۔آمین
تیرے خوف سے
تیرے ڈر سے ہمیشہ میں تھرتھر
رہوں کانپتی یا الٰہی
خوف خدا سے رونا اللہ
والوں کی ادا ہے، یہ بھی ایک عظیم عطائے
الٰہیہ ہے، اس کے متعلق بہت سی روایات بھی
نظر میں آتی ہیں،خوفِ خدا کے چند فضائل:ہر
گز جہنم میں داخل نہیں ہوگا:رحمت للعالمین صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جو اللہ پاک
کے خوف سے روتا ہے، وہ ہرگز جہنم میں داخل
نہیں ہو گا، حتٰی کہ دودھ تھن میں واپس آجائے۔(شعب الایمان، )بخشش کا پروانہ: حضرت انس رضی
اللہُ عنہ سے مروی ہے ، رسول اللہ صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو اللہ پاک
کے خوف سے روئے، وہ اس کی بخشش فرما دے گا۔(کنزالعمال، جلد 3، صفحہ 63)بلا حساب جنت میں:اُم المؤمنین حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی
اللہُ عنہا فرماتی ہیں: میں نے عرض کی:یا رسول اللہ صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کیا آپ کی اُمت میں سے کوئی
بلا حساب بھی جنت میں جائے گا؟ تو فرمایا: ہاں!وہ جو اپنے گناہوں کو یاد کر کے
روئے۔(احیاء العلوم، جلد
4)پسندیدہ قطرہ: رسول اکرم صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک
کو اس قطرے سے بڑھ کر کوئی قطرہ پسند نہیں، جو اس کے خوف سے بہے یا خون کا وہ قطرہ جو اس کی راہ میں بہایا جائے۔(احیاء العلوم، جلد
4)آگ نہ چھوئے گی:حضرت عبد اللہ
بن عباس رضی اللہُ عنہما سے مروی ہے، سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:دو آنکھوں کو آگ نہ چھوئے گی، ایک وہ جو رات کے اندھیرے میں ربّ کریم کے خوف
سے روئے اور دوسری وہ جو راہِ خدا پاک میں پہرہ دینے کے لئے جاگے۔(شعب الایمان، )خوف خدا سے رونے والا:فرمانِ مصطفی:وہ جہنم میں داخل نہیں
ہوگا، جو اللہ پاک کے ڈر سے رویا ہو۔(شعب الایمان، )آنسونہ پونچھو:امیرالمؤمنین حضرت علی المرتضی رضی
اللہُ عنہ نے فرمایا:جب تم میں سے کسی کو رونا آئے تو وہ آنسوؤں کو
کپڑے سے صاف نہ کرے، بلکہ رخساروں پر بہہ
جانے دے کہ وہ اسی حالت میں ربِّ کریم کی بارگاہ میں حاضر ہوگا۔(شعب الایمان، )آگ نہ چھوئے گی:حضرت کعب الاخبار رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : خوف خدا سے آنسو بہانا
مجھے اس سے بھی زیادہ محبوب ہے کہ میں اپنے وزن کے برابر سونا صدقہ کروں، اس لئے کہ جو اللہ پاک کے ڈر سے روئے، اس کے آنسوؤں کا ایک قطرہ بھی زمین پر گر جائے
تو آگ اس کو نہ چھوئے گی۔
خوف خدا میں آنسو بہانا ایک عظیم الشان نیکی اور لازوال نعمت ہے، خوفِ الٰہی
کی خوبی انسان کو اللہ پاک کے بہت قریب کر دیتی ہیں، خوفِ خدا میں رونے کے بہت سے فضائل و برکات ہیں کہ خوفِ خدا میں رونے والی
آنکھ برائی نہیں بلکہ خوبی اور بھلائی دیکھتی ہے، جب انسان اپنے اندر خشیتِ الٰہی پیدا کر لیتا ہے تو وہ ہر قسم کی برائی سے
محفوظ ہوکر اللہ پاک کی بارگاہ میں بہت مقبول ہو جاتا ہے ، جب دلوں کی زمین سے خوفِ خدا پیدا ہو، آنسو بہہ
کر خشیت کے باغیچے کو سیراب کریں تو ندامت
کی کلی کھل اُٹھتی ہے اور انسان کو توبہ کا پھل نصیب ہو جاتا ہے۔ربّ کریم کی خشیت
اس کا بہت بڑا انعام ہے، وہ جس کے لئے
بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے، اسے اپنی خشیت
کے سبب رونا عطا فرماتا ہے، خوفِ خدا میں
رونا انسان کو تقوی کی دولت سے سرفراز فرماتا ہے، یہ تو ایسی لازوال نعمت ہے کہ جب یہ کسی انسان کو مل جائے تو یہ خاکی ہوتے
ہوئے بھی خاکی نہیں رہتا، بلکہ وہ ملکوتی
صفات کا لباس زیب تن کر لیتا ہے، اس پر ہمیشہ
ایک کیفیت طاری رہتی ہے، وہ ہَمہ وقت اپنے
ربّ کی یاد میں مصروف رہتا ہے، دنیا کی
رنگینیاں اس پر اثر نہیں کرتیں، خشیتِ الٰہی
کی چادر اس کو دنیا کی فخاشیوں سے محفوظ فرما لیتی ہے، وہ کامل انسان بن کر کشت حیات میں آخرت کی فصل اگانے میں شب و روز مصروف رہتا ہے۔خوف
خدا کا معنی:خوفِ خدا کا مطلب قلب کی وہ کیفیت کہ اللہ پاک کی گرفت، ناراضی، بے نیازی، اس کی طرف سے دی جانے
والی سزاؤں کا سوچ کر انسان کا دل گھبرا جائے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہو جائیں۔
قرآن کریم سے خوف خدا میں رونے کے فضائل:ارشاد باری ہے:اِذَاتُتْلٰی
عَلَیْھِمْ اٰیٰتُ الرَّحْمٰنِ خَرُّوْ
سُجَّداًوَّبُکِیَّا۔ترجمۂ
کنزالایمان:جب ان کے سامنے رحمن کی آیات کی تلاوت کی جاتی ہے تو یہ سجدہ کرتے ہوئے
اور روتے ہوئے گر پڑتے ہیں۔(پ 16، مریم:58) یعنی ان
سے ہر ایک اپنا چہرہ خاک پر رکھ دیتا ہے اور جب وہ اپنے آپ کو رنجیدگی سے خالی
پاتے ہیں تو یہ لوگ روتے اور گریہ و زاری کرتے ہیں اور آیت سے معلوم بھی ہوا! اللہ پاک
کے خوف کی وجہ سے گریہ وزاری کرنا اللہ پاک کو بہت پسند اور اس کے انبیائے کرام علیہم
الصلوۃ والسلام کی سنت ہے۔
خوف خدا میں رونے کے متعلق احادیث مبارکہ :حدیث: مبارکہ:حضرت یحییٰ علیہ
السلام نے فرمایا:جنت
اور دوزخ کے درمیان ایک گھاٹی ہے،جسے وہی طے کرسکتا ہے،جو بہت رونے والا ہو۔(ریاض الصالحین:48، شعب الایمان، 1/393، حدیث:809) حدیث: مبارکہ:حضرت نضر بن سعد رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: جب کسی آنکھ سے خشیتِ الٰہی کے سبب آنسو بہتے
ہیں تو اللہ
پاک اس کے چہرے کو جہنم پر حرام فرما دیتا ہے، اگر کسی کے رُخسار پر بہہ جائے تو قیامت کے دن
وہ ذلیل نہ ہو گا، اگر کوئی غمگین اللہ پاک
کے خوف سے بندوں میں روئے تو اللہ پاک اس کے رونے کے سبب ان لوگوں پر بھی رحم
فرمائے گا، آنسو کے علاوہ ہر چیز کا وزن
کیا جائے گا اور آنسو کا ایک قطرہ سمندر کی آگ کو بجھا دیتا ہے۔(المرجع السابق، حدیث:
14، جلد 3، صفحہ 182)اللہُ اکبر! کیا شان ہے اللہ پاک کے خوف میں رونے کی! اس کے سبب کتنی
نعمتوں سے نوازا جاتا ہے، وہ نعمتیں جس کا
انسان احاطہ نہیں کر سکتا، یہاں تک کہ
خوفِ الٰہی میں رونا انسان کو جنت میں پہنچا دے گا، تم گناہوں کی بخشش ہو جاتی ہے۔ حکایت:جنت میں
ہنساؤں گا:خوف خدا صفحہ 62 پر ہے:حضرت انس رضی
اللہُ عنہُ سے روایت ہے،ایک
مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی:وَقُوْدُہَا
النَّاسُ وَالْحِجَارَۃ (پ28،
تحریم)پھر ارشاد
فرمایا:جہنم کی آگ ہزار برس تک دہکائی گئی تو سُرخ ہو گئی، پھر ہزار برس تک دھکائی گئی تو سفید ہو
گئی، پھر ہزار برس تک دھکائی گئی تو سیا ہ
ہو گئی، اب نری سیاہ ہے، یہ سن کر ایک حبشی رونے لگا، آقا صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
فرمایا: یہ کون رو رہا ہے؟عرض کی گئی:حبشہ کا رہنے والا ہے۔ تو آپ نے اس کے رونے کو پسند فرمایا۔ اتنے میں جبرئیل آمین
وحی لے کر آئے کہ ربّ کریم فرماتا ہے:مجھے
اپنے عزت و جلال کی قسم! میرا جوبندہ دنیا میں میرے خوف سے روئے گا، میں اسے جنت میں ضرور ہنساؤں گا۔(شعب الایمان،حدیث:799)اللہ
پاک کے خوف میں رونے
والے کو جنت اور جنت کی نعمتیں بھی ملیں گی۔ حکایت:آنسو کا ایک قطرہ:حضرت احمد بن الجواری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:میں نے خواب میں ایک حور کو دیکھا، جس کے چہرے پر نور کی چمک تھی، میں نے پوچھا:تمھارے چہرے کی یہ چمک کیسی ہے؟
وہ بولی: تمہیں یاد ہے وہ رات، جس میں تم
بہت روئے تھے، میں نے کہا:ہاں، اس نے کہا:
تمہارے آنسو مجھے لا کر دیئے گئے تو میں نے ان کو اپنے چہرے پر مَل لیا، میرے چہرے کی یہ دمک آپ کے ان آنسو کی وجہ سے
ہے۔(رسالہ
قشیریہ، صفحہ 422، نیکی کی دعوت)
در نایاب ہیں
بلاشبہ وہ ہیرے انمول اشک آقا کی جو
یادوں میں بہا کرتے ہیں(وسائل
بخشش، صفحہ 143)
ہم بھی
خوف خدا میں آنسو بہائیں۔ اس کے لئے ہمیں غور و فکر کرنا ہوگا کہ اب تک ہم نے اپنی
زندگی کس طرح گزاری، نزع میں ہمارے ساتھ
کیا ہوگا، قبر و حشر اور میزان میں ہمارا
کیا بنے گا، جنت میں داخلہ نصیب ہوگا یا معاذاللہ جہنم
میں جھونک دیا جائے گا اور غوروفکر کرنے سے ربّ کریم نے چاہا تو ہمیں بھی اپنے دل
میں رقت محسوس ہوگی، آنکھ سے خوف خدا کے
سبب ایک قطرہ بھی آنسو کا بہہ گیا تو آخرت سنور جائے گی۔اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں
خوفِ خدا میں رونے والی آنکھیں عطا فرمائے، کثرت سے آنسو بہائیں اور یہ آنسو ہمیں تسکین دیں اور ہمارے لئے ذریعہ نجات
بن جائیں، اس سے پہلے کہ آنسو خون بن
جائیں اور داڑیں انگاروں میں بدل جائیں۔
جی چاہتا ہے
پھوٹ کے روؤں تیرے ڈر سے اللہ
مگر دل سے قساوت نہیں جاتی
خوف خدا پاک ہماری اخروی نجات کے لئے بڑی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ عبادات کی
بجاآوری اور برائیوں سے باز رہنے کا عظیم ذریعہ خوف خدا ہے، خوفِ خدا کا مطلب یہ
ہے کہ اللہ پاک کی بے نیازی، اس کی ناراضی، اس کی گرفت اور اس کی طرف سے دی جانے والی سزاؤں کا سوچ کر انسان کا دل گھبراہٹ
میں مبتلا ہوجائے۔(احیاء
العلوم،ج4) خوف خدا میں رونا ایک عظیم الشان نیکی ہے، جو اللہ پاک اپنے خاص اور مقرب بندوں کو عطا
فرماتا ہے، یہی وہ لوگ ہیں جن کا ذکر اللہ پاک
نے اپنی کتاب قرآن مجید میں فرمایا، چنانچہ ارشادِ باری ہے:ترجمہ ٔکنزالایمان:جب ان پر رحمٰن کی آیتیں پڑھی
جاتیں، گرپڑتے، سجدہ کرتے اور روتے۔خشیتِ الٰہی سے رونے والوں
کے فضائل کے کیا کہنے کہ جس طرح قرآن پاک میں ان کا ذکر کیا گیا ہے، اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی بے شمار فضائل
بیان ہوئے ہیں، چنانچہ حضرت عقبہ بن عامر رضی
اللہُ عنہ نے عرض کی:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم! نجات کیا ہے؟ فرمایا:اپنی زبان کو روک رکھو، تمھارا گھر
تمہیں کفایت کرے اور گناہوں پر رونا اختیار کرو۔(سنن ترمذی، جلد
4، صفحہ 182، حدیث: 2414)حضرت محمد بن منکدر
رضی اللہُ عنہ جب روتے تو آنسوؤں کو اپنے چہرے اور داڑھی سے صاف کرتے اور
فرماتے: مجھے معلوم ہوا ہے کہ آگ اس جگہ کو نہ چھوئے گی، جہاں خوف خدا سے نکلنے والے آنسو لگے ہوں۔(احیاء العلوم، جلد
4، صفحہ 201)ایک ہزار
دینار صدقہ کرنے سے بہتر:حضرت عبداللہ
بن عمرو بن عاص رضی اللہُ عنہ نے فرمایا:اللہ پاک کے خوف سے آنسو کا ایک قطرہ بہنا
میرے نزدیک ایک ہزار دینار صدقہ کرنے سے بہتر ہے۔(شعب الایمان، 1/502، حدیث: 842)خوفِ خدا
سے رونا سنت ہے:حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے: جب یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی:ترجمۂ
کنزالایمان:تو کیا اس بات سے تم تعجب کرتے ہو اور ہنستے ہو اور روتے نہیں۔تو
اصحابِ صُفّہ رضی اللہُ عنہم اس قدر روئے کہ ان کے رخسار آنسوؤں سے تر ہو گئے، انہیں روتا دیکھ کر رحمت عالم صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم بھی رونے
لگے، پھر آپ نے ارشاد فرمایا:وہ شخص جہنم
میں داخل نہیں ہوگا، جو اللہ پاک
کے ڈر سے رویا ہو۔(شعب
الایمان،ج 1، حدیث: 798)اللہ
پاک اپنے حبیب صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے آنسو
کے صدقے ہمیں خوفِ خدا جیسی عظیم نعمت عطا فرمائے۔آمین
مجھ کو عطا اپنا عشق اور
خوفِ خدا کیجئے
خوف خدا کے معنی:
خوفِ خدا کا مطلب یہ ہے کہ اللہ پاک
کی بے نیازی، اس کی ناراضی، اس کی گرفت اور اس کی طرف سے دی جانے والی
سزاؤں کا سوچ کر انسان کا دل گھبراہٹ میں مبتلا ہوجائے، اس کے قہر و غضب سے خوفزدہ ہو جائے، جب کبھی بھی گناہ کا ارادہ ہو تو اسے اُس کے
ربّ کریم کا خوف گناہوں سے باز رکھے، اسی
طرح جیسے بندہ خوفِ خدا رکھنے سے گناہوں سے محفوظ رہتا ہے، اسی طرح خوف خدا کے سبب اس کے گناہوں کو مٹا
دیا جاتا ہے، خوف خدا میں رونے اور گریہ و
زاری کرنے کے بہت فضائل ہیں، انسان کو
چاہئے کہ وہ حقیقت میں اپنے اندر خوف خدا پیدا کرے۔خوف خدا کی ترغیب و فضائل قرآن
کی روشنی میں:سورۂ رحمٰن میں خوفِ خدا رکھنے والوں کے لئے دو جنتوں کی بشارتیں
ہیں، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ
رَبِّهٖ جَنَّتٰنِۚ ۔ترجمۂ کنز الایمان:اور جو اپنے ربّ کے حضور کھڑے ہونے
سے ڈرے اس کے لئے دو جنتیں ہیں۔اسی طرح سورۂ الِ عمران، آیت 175 میں ارشاد ہوتا ہے:وَخَافُوْنِ اِنْ کُنْتُمْ
مُؤمِنِیْن۔ترجمۂ کنزالایمان:اور مجھ سے ڈرو اگر ایمان رکھتے ہو۔سورۂ
بقرہ، آیت نمبر 40 :وَاِ یَّایَ فَارْھَبُوْن۔ترجمۂ کنزالایمان:اور خاص میرا ہی ڈ ررکھو۔اس طرح بے شمار
آیات کریمہ میں خوف خدا کی فضیلت اور
ترغیب بیان کی گئی ہے۔خوف خدا کی ترغیب و فضائل احادیث کی روشنی میں:نبی اکرم صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:حکمت کی اصل اللہ پاک
کا خوف ہے۔(شعب الایمان، ج1،ص480) رسول
اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اللہ پاک فرمائے گا: اسے آگ سے نکالو، جس نے مجھے کبھی یاد کیا ہو یا کسی مقام پر
میرا خوف کیا ہو۔(شعب الایمان، ج1،ص480)خوف خدا میں رونے کے فضائل:سرور عالم صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: جس مؤمن کی
آنکھوں سے اللہ پاک کے خوف سے آنسو نکلتے ہیں، اگرچہ مکھی کے پَر کے برابر ہوں، پھر وہ آنسو اس کے چہرے کا ظاہری حصّے تک پہنچیں تو اللہ پاک
اسے جہنم پر حرام کر دیتا ہے۔(شعب الایمان،
ج1،ص490) حضرت عطاء رضی
اللہُ عنہ فرماتے ہیں: میں اور میرے ساتھ حضرت ابن عمر اور حضرت عبید
بن عمر ایک مرتبہ اُمّ المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کی:ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بارے میں کوئی بات بتائیے! تو آپ رو پڑیں اور فرمایا:
ایک رات رسول
اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور فرمانے لگے:مجھے رخصت دو کہ میں
ربّ کریم کی عبادت کر لوں۔ تو میں نے عرض کی:مجھے آپ کا ربّ کریم کے قریب ہونا
اپنی خواہش سے زیادہ عزیز ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم گھر کے ایک کونے میں کھڑے ہوگئے اور رونے لگے، پھر وضو کر کے قرآن پاک پڑھنا شروع کیا تو
دوبارہ رونا شروع ہو گئے، یہاں تک کہ آپ
کی چشمانِ مبارک سے نکلنے والے آنسو زمین تک جا پہنچے۔اتنے میں حضرت بلال رضی
اللہُ عنہ حاضر ہوئے اور آپ کو روتے دیکھ کر عرض کی: میرے ماں باپ آپ
پر قربان! آپ کیوں رو رہے ہیں؟حالانکہ آپ کے سبب تو اگلوں پچھلوں کے گناہ بخشے
جاتے ہیں تو ارشاد فرمایا: میں شکر گزار بندہ نہ بنوں؟ اور مجھے رونے سے کون روک
سکتا ہے،جبکہ اللہ پاک نے یہ آیت نازل فرمائی: اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ
وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّهَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِۚۙ۔الَّذِینَ یَذْكُرُوْنَ اللہ قِیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰى جُنُوْبِهِمْ وَ یَتَفَكَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ
ۚرَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًا ۚسُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔(پ4، ال عمران:190 ،191)پھر فرمایا:اے بلال جہنم کی آگ کو آنکھ کے آنسو ہی بجھا
سکتے ہیں، لوگوں کے لئے ہلاکت ہے، جو یہ آیت پڑھیں اور غور نہ کریں۔(درۃ الناصحین، صفحہ 394)حضرت عبد اللہ بن عباس رضی
اللہُ عنہما سے مروی ہے، سرکار مدینہ صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: دو آنکھوں کو آگ
نہ چھوئے گی، ایک وہ جو رات کے اندھیرے
میں ربّ کریم کے خوف سے روئے اور دوسری وہ جو راہِ خدا پاک میں پہرہ دینے کے لئے
جاگے۔(شعب الایمان،ص478)رسول اکرم
صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: اللہ پاک کواس قطرے سے بڑھ کر کوئی قطرہ پسند
نہیں، جوآنکھ سے اس کے خوف سے بہے یا خون کا وہ قطرہ، جو اس کی راہ میں بہایا جاتا ہے۔(احیاء العلوم، جلد
4، صفحہ30)حضرت عبداللہ بن عمر رضی
اللہُ عنہما نے فرمایا:اللہ پاک کے خوف سے ایک آنسو کا بہنا میرے
نزدیک ایک ہزار دینار صدقہ کرنے سے بہتر ہے۔(شعب الایمان، ج1،ص503)ان آیات مبارکہ
اور احادیث مبارکہ سے خوف خدا میں رونے کی فضیلت معلوم ہوتی ہے، اللہ پاک ہمیں بھی حقیقی خوفِ خدا نصیب کرے
اور اپنے خوف میں رونے والی آنکھیں اور تڑپنے والا دل عطا کرے۔آمین
خوف خدا میں رونے کے فضائل:خوف سے مراد وہ قلبی کیفیت ہے جو کسی ناپسندیدہ امر کے پیش
آنے کی توقع کے سبب پیدا ہو، مثلا پھل کاٹتے ہوئے چھری سے ہاتھ کے زخمی ہوجانے کا
ڈر۔ جبکہ خوف خدا کا مطلب یہ ہے کہ اللہ پاک کی بےنیازی، اس کی ناراضی، اس کی
گرفت اور اس کی طرف سے دی جانے والی سزاؤں کا سوچ کر انسان کا دل گھبراہٹ میں
مبتلا ہوجائے۔(احیاء
علوم الدین، کتاب الخوف و الرجا، باب بیان حقیقة الخوف، 190/4، ماخوذا،،، خوف خدا،
ص 14)(نجات دلانے والے اعمال کی معلومات، ص 200) خوف خدا میں رونا ایک نہایت عظیم صفت ہے اور اس کے بےشمار
فضائل منقول ہیں۔اللہ پاک کے آخری نبی، محمد عربی صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد
فرمایا: جس بندۂ مومن کی آنکھوں سے اللہ پاک کے خوف کے سبب مکھی کے پر برابر بھی
آنسو نکل کر اس کے چہرے تک پہنچا تو اللہ پاک اس بندے پر دوزخ کو حرام فرمادیتا
ہے۔(سنن ابن ماجہ،
کتاب الزہد، باب الحزن و البکاء، 467/4، حدیث: 4197) جو شخص اللہ پاک کے خوف سے روئے وہ دوزخ میں داخل نہیں ہوگا
یہاں تک کہ دودھ تھنوں میں واپس لوٹ جائے۔(سنن الترمذی، کتاب فضائل الجہاد، باب ما جاء فی فضل الغبار
فی سبیل اللہ،
236/3، حدیث: 1639) اللہ پاک
کے نزدیک اس کے خوف سے بہنے والے آنسو کے قطرے اور اس کی راہ میں بہنے والے خون کے
قطرے سے زیادہ کوئی قطرہ محبوب نہیں۔(الزہد لابن المبارک، باب ما جاء فی الشح، ص235، حدیث: 672) جس دن عرش الہٰی کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا اس دن اللہ پاک
سات قسم کے لوگوں کو اپنے عرش کے سائے میں جگہ عطا فرمائے گا، ان میں سے ایک وہ
شخص ہے جو تنہائی میں اللہ پاک کو یاد کرے اور (خوف خدا سے) اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلیں۔(بخاری شریف، کتاب الاذان، باب من جلس فی المسجد ینتظر الصلوة، 236/1، حدیث: 660)اسلام کے پہلے خلیفہ حضرت ابوبکر صدیق رضی
اللہُ عنہ فرماتے ہیں: جس
سے ہوسکے وہ روئے اور جسے رونا نہ آئے تو وہ رونے جیسی صورت ہی بنالے۔(احیاء العلوم، ج 4، ص 544)حضرت سلیمان دارانی
رحمۃ
اللہ علیہ فرماتے ہیں: جس شخص کی آنکھ خوف خدا میں آنسو بہاتی ہے روز
قیامت نہ اس شخص کا چہرہ سیاہ ہوگا نہ اسے ذلت کا سامنا کرنا پڑے گا، جب اس کی
آنکھ سے آنسو بہتے ہیں تو اللہ پاک ان کے پہلے قطرے سے دوزخ کے شعلوں کو
بجھادیتا ہے اور اگر کسی امت میں ایک بھی شخص خوف خدا سے روتا ہے تو اس کی برکت سے
اس امت پر عذاب نہیں کیا جاتا۔(احیاء العلوم، ج 4، ص 544)حضرت عبداللہ بن عمر رضی
اللہُ عنہما فرماتے
ہیں: اللہ
پاک کے خوف سے میرا ایک آنسو بہانا میرے نزدیک پہاڑ برابر سونا صدقہ کرنے
سے زیادہ محبوب ہے۔(احیاء
العلوم، ج 4، ص 544)البتہ یہ
امر بھی پیش نظر رہے کہ خوف خدا میں رونا اگرچہ بڑی عظیم سعادت ہے لیکن اس کے ساتھ
ساتھ گناہوں سے بچنا اور فرائض و واجبات کو ادا کرنا بھی نہایت اہم ہے۔ درحقیقت
خوف خدا والا بندہ وہی ہے جو اللہ کریم کی نافرمانیوں سے بچے۔اللہ پاک ہمیں اپنا اور اپنے
حبیب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا مطیع و فرمانبردار بنائے اور ہمیں اپنے خوف میں رونے کی
سعادت نصیب فرمائے۔آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم
یا رب! میں ترے
خوف سے روتی رہوں ہر دم دیوانی شہنشاہ مدینہ کی بنادے(وسائل بخشش، ص 119)
رونا لفظ کو عربی
میں البکاءکہتے ہیں، رونا کئی طرح کا ہوتا ہے، جیسا کہ غم سے رونا بہت خوشی میں
رونا، رسول
اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی یاد میں رونا، مدینے کی یاد میں رونا، بادل روتا ہے تو چمن ہنستا ہے، اللہ پاک
کے ڈر سے رونا، اللہ پاک کی یاد میں رونا
وغیرہ، یہاں خوفِ خدا (اللہ پاک کے ڈر) سے رونا مراد ہے، خوف خدا میں بہنے والا آنسو کسی نعمت سے
کم نہیں، یہ بہت بڑی سعادت مندی کی بات ہے، یہ خوف خدا میں بہنے والا آنسو ہر ایک
کو نصیب نہیں ہوتا۔ خوف خدا کا مطلب یہ ہے کہ اللہ پاک کی بے نیازی، اس کی ناراضی، اس کی گرفت اور اس کی طرف سے دی
جانے والی سزاؤں کا سوچ کر انسان کا دل گھبراہٹ میں مبتلا ہوجائے اور آنکھوں سے
آنسو جاری ہو جائیں، خوف سے ہی انسان کی اصلاح ہوتی ہے، اس خوف کی وجہ سے ہی انسان اپنے ربّ کے قریب
ہوتا ہے، اللہ
پاک کو ندامت سے بہنے والے آنسو بہت پسند ہیں، بندے کی شرمندگی اور خوف سے
بہنے والا آنسو اللہ پاک کو بے حد محبوب ہے، میرے ربّ کریم نے خوفِ خدا کی صفت کو
اختیار کرنے کا حکم ارشاد فرمایا:ارشادِ باری:اے ایمان والو! اللہ سے
ڈرو جیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے اور ہرگز نہ مرنا مگر مسلمان۔ (پ4، ال عمران:102)ایک اور مقام پر ارشاد
فرمایا:ارشادِ باری:اللہ تمہیں اپنے غضب سے ڈراتا ہے۔ (پ3، ال عمران :28)ارشاد باری:اے
ایمان والو اللہ سے ڈرو اور سیدھی بات کہو۔ (پ22، الاحزاب:70)پیارے آقا صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی زبانِ حق ترجمان سے نکلنے
والے ان مقدس کلمات کو بھی ملاحظہ فرمائیے: حدیث: مبارکہ: سرور عالم، خاتم النبیین صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا :جس مؤمن کی
آنکھوں سے اللہ پاک کا خوف سے آنسو نکلتا ہے، اگرچہ مکھی کے پر کے برابر ہو، پھر
وہ آنسو اس کے چہرے کے ظاہری حصے تک پہنچیں تو اللہ پاک اسے جہنم پر حرام
کردیا ہے۔(شعب الایمان، ج1، ص490، حدیث: 802)حدیث: مبارکہ:خاتم النبیین صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم کا فرمان عالیشان ہے :جب مؤمن کا دل اللہ پاک
کے خوف سے لرزتا ہے، تو اس کی خطائیں اس طرح جھڑتی ہیں، جیسے درخت سے اس کے پتے جھڑتے ہیں۔ (شعب الایمان، ج1، ص491، حدیث: 803)حدیث: مبارکہ:سید المرسلین صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم کا فرمان ہے :جو اللہ پاک کے خوف سے روتا ہے، وہ ہرگز جہنم میں داخل نہ ہوگا، یہاں تک کہ دودھ(جانور کے) تھن میں واپس
آجائے۔ (شعب الایمان، ج1، ص490، حدیث: 800)قرآن مجید اور احادیث مبارکہ کے ساتھ ساتھ اکابرینِ اسلام کے اقوال میں بھی
خوفِ خدا کی نصیحتیں وارد ہیں:1۔حضرت ابو
سلیمان رحمۃ
اللہ علیہ نے فرمایا:خوف خدا دنیا اور آخرت کی ہر بھلائی
کی اصل ہے۔2۔حضرت سلیمان دارانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:جس دل سے خوف دور ہوجاتا ہے وہ ویران ہوجاتا ہے۔پیاری
اسلامی بہنو!ایک ایسے عظیم شخصیت کی حکایت ملاحظہ فرمائیں، جو یارِ غار اور یارِمزار بھی، جن کو دنیا میں ہی جنت کی بشارت دے دی گئی تھی،
مگر ان کا خوفِ خدا اور تقویٰ مرحبا! ہمارے اور آپ کے پیارے صدیق اکبر رضی
اللہُ عنہ جو خوف خدا سے اس قدر گھبراتے تھے، فرماتے ہیں: کاش !میں
درخت ہوتا، جسے کھالیا جاتا کاٹ دیا جاتا۔اتنی عاجزی، اتنا زہد و تقویٰ، اللہُ اکبر! وہ تو زبان کی احتیاط کیلئے منہ میں
چھوٹے چھوٹے پتھر رکھ لیا کرتے تھے، تاکہ زیادہ نہ بولنا پڑے اور آج دیکھیں ہمارا
حال کیا ہے، ہمیں تو گناہ کرکے شرمندگی تو دور کی بات ہے، رونا تک نہیں آتا اور اس گناہ کے ہم چرچے کررہی
ہوتی ہیں، جیسے ہمیں مرنا ہی نہیں، ربّ کریم کے حضور کھڑا ہی نہیں ہونا۔اے پیاری
بہنو! اتنی بے باکی، اتنی بے خوفی اچھی
نہیں، خدارا! اب بھی وقت ہے، سدھر جائیں، انسان تو جس سے محبت کرتا ہے، اس کی ناراضی سے ڈرتا ہے، مگر ہماری اپنے اللہ پاک
سے کیسی محبت ہے، ہم تو ہر لمحہ اس کی ناراضی والے کام کرتی ہیں، ہم یہ کیوں نہیں
سوچتیں کہ ہم اللہ پاک سے محبت کرنے کے باوجود اس کو ناراض کرنے کے درپے ہیں، یاد
رکھیں! اللہ
پاک کے عذاب اور اس کی وعید سے بچنے کیلئے گناہ چھوڑنا بہت اچھی بات ہے،
مگر اللہ
پاک کی محبت میں گناہ چھوڑنا اس کا اپنا ہی مزہ ہے۔ایسا رونا، ایسا خوف،
مانگا کرو، کیونکہ اللہ پاک
کی محبت جسے نصیب ہوجاتی ہے، اس کو دنیا کی محبت سے پھر کوئی سروکار نہیں ہوتا، اللہ پاک
سے ہی دعا مانگا کرو کہ
میں بس تیرے خوف
سے روتی رہوں ہر دم تو
بس دیوانی مجھے اپنے محبوب کی بنادے
وہ ربّ کریم ہمیں
اپنی یاد میں تڑپنا، پھڑکنا اور آنسو
بہانا نصیب فرمائے۔آمین۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
رونے والی
آنکھیں مانگو رونا سب کا کام نہیں ذکرِ
محبت عام ہے لیکن سوزِ محبت عام نہیں
ہمیشہ آنکھوں کے
پانی سے ایمان کے کھیت کو سینچو، تاکہ اس پانی کی وجہ سے یہ باغ ہرابھرا رہے، اے اللہ پاک!
ہم سب کو اپنے خوف سے معمور دل، رونے والی
آنکھیں اور لرزنے والا بدن عطا فرما۔آمین بجاہ خاتم النبیین صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم
خود کو راہِ راست
پر لانے کے لئے اپنے اندر گناہوں کا احساس پیدا کرنا اور ان کے دنیوی و اُخروی
نقصانات پر غور کرنا بہت ضروری ہے، کیونکہ
جب کسی انسان میں احساسِ گناہ پیدا ہوتا ہے اور وہ گناہ کو گناہ سمجھنے لگتا ہے تو
یقیناً ندامت و پشیمانی سے اس کا سر جھک جاتا ہے، دل توبہ کی طرف مائل ہو جاتا ہے اور آنکھوں سے آنسوؤں کے دھارے بہنے لگتے
ہیں، جب کوئی گناہ گار اللہ پاک
سے معافی مانگتا ہے تو وہ کریم ربّ اس کا بڑے سے بڑے سے بڑا گناہ بھی بخش دیتا ہے۔
اپنے معمولاتِ زندگی کا محاسبہ کرنے کی سب سے بڑی برکت یہ ہے کہ انسان کے دل میں
خوفِ خدا پیدا ہوتا ہے، جس کی وجہ سے
نیکیوں میں رغبت پیدا ہوتی ہے اور گناہوں سے وحشت محسوس ہوتی ہے۔قرآن عظیم میں
وارد خوفِ خدا کے فضائل:1۔سورۂ رحمٰن میں خوف خدا رکھنے والوں کے لئے دو جنتوں کی
بشارت سنائی گئی ہے، چنانچہ ارشاد ہوتا
ہے، ترجمۂ کنزالایمان:اور جو اپنے ربّ کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرے، اس کے لئے دو جنتیں ہیں۔(پ 27، رحمن:46)2۔ربِّ کریم کا خوف ذریعہ
نجات ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا، ترجمۂ
کنزالایمان:اور جو اللہ سے ڈرے، اللہ اس
کے لئے نجات کی راہ نکال دے گا اور اسے وہاں سے روزی دے گا، جہاں اس کا گمان نہ ہو۔(پ 28، الطلاق:2،3)3۔اپنے پروردگار کا خوف جہنم
سے چھٹکارے کا ذریعہ ہے، جیسا کہ ارشاد
ہوتا ہے، ترجمۂ کنزالایمان:اور بہت جلد
اس سے دور رکھا جائے گا، جو سب سے زیادہ
پرہیزگار۔(پ30، اللیل:17)4۔خوفِ الٰہی اعمال کی قبولیت کا ایک سبب ہے، جیسا کہ ارشاد
ہوتا ہے، ترجمہ ٔ کنزالایمان:اللہ اسی سے قبول کرتا ہے، جسے ڈر ہے۔(پ 6، المائدہ:27)5۔اپنے ربّ کریم سے ڈرنے والے سعادت مند اس کی بارگاہ میں
مقرب قرار پاتے ہیں، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے، ترجمۂ کنزالایمان:بیشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے، جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے۔(پ26، الحجرات:13)احادیث
مبارکہ میں وارد ہونے والے خوفِ خدا کے فضائل:1۔اللہ پاک کے آخری نبی، محمد عربی صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جب مؤمن کا
دل اللہ پاک کے خوف سے لرزتا ہے
تو اس کی خطائیں اس طرح جھڑتی ہیں، جیسے
درخت سے اس کے پتے جھڑ تے ہیں۔(شعب الایمان، ج1،ص491، حدیث:803)2۔جنتی صحابی حضرت انس رضی
اللہُ عنہُ سے مروی ہے: حضور اقدس صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک
فرمائے گا: اسے آگ سے نکالو، جس نے مجھے
کبھی یاد کیا ہو یا کسی مقام میرا خوف کیا ہو۔(شعب الایمان، ج1،ص470، حدیث:740)3۔سرورِعالم، شفیع المعظم صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: جس مؤمن کی
آنکھوں سے اللہ پاک کے خوف سے آنسو نکلتے ہیں، اگرچہ مکھی کے پَر کے برابر ہوں، پھر وہ آنسو اس کے چہرے کا ظاہری حصّے تک پہنچیں تو اللہ پاک
اسے جہنم پر حرام کر دیتا ہے۔(شعب الایمان،
ج1،ص490، حدیث:806)4۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک کواس قطرے سے بڑھ کر کوئی قطرہ پسند
نہیں، جو(آنکھ سے) اس کے خوف سے
بہے یا خون کا وہ قطرہ، جو اس کی راہ میں
بہایا جاتا ہے۔(احیاء العلوم، جلد
4، صفحہ 60، خوف خدا، ص138)5۔جنتی ابنِ جنتی، صحابی ابن صحابی
حضرت عبداللہ بن عباس رضی
اللہُ عنہما سے مروی ہے، سرکار مدینہ صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:دو آنکھوں کو آگ
نہ چھوئے گی، ایک وہ جو رات کے اندھیرے
میں ربّ کریم کے خوف سے روئے اور دوسری وہ جو راہِ خدا پاک میں پہرہ دینے کے لئے
جاگے۔(شعب الایمان، ج1،ص478، حدیث:796، خوف خدا، ص138)
ایمان کے تقاضوں
میں سے ایک تقاضا خوفِ خدا بھی ہے، یقیناً
فکرِ آخرت میں رہنا، عذابِ جہنم سے اشکبار
رہنا اور خوفِ خدا میں ڈوبے رہنا بہت بڑی نعمت ہے، آج دنیا کے لئے رونے والے تو ہیں، لیکن فکرِ آخرت و خوفِ خدا میں رونے کا جذبہ کم
ہے، غور کریں تو اس دنیا کی حیثیت ہے ہی
کیا، جو اس کے لئے آنسو بہائے جائیں، جبکہ خوفِ خدا میں رونے کے بہت سے فوائد
ہیں، جس کی برکتیں دنیا میں بھی ملیں گے
اور آخرت میں بھی نجات کا سبب بنیں گے۔یاد رکھئے! خوف خدا میں بہنے والے آنسو
نکلتے تو باہر کو ہیں، لیکن انسان کے اندر
کو صاف کر جاتے ہیں، یہ آنسو بہتے ظاہر پر ہیں، لیکن صفائی انسان کے باطن کی کرتے ہیں، خوف خدا میں رونے کے چند فضائل درج ذیل ہیں:آقا صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:قیامت کے دن سب
آنکھیں رونے والی ہوں گی، مگر تین آنکھیں
نہیں روئیں گی، ان میں سے ایک وہ ہوگی جو
خوف خدا سے روئی ہو گی۔(کنز العمال، کتاب المواعظ8/356، حدیث: 43350)خوف خدا میں رونے والے آنسو قلبی سکون فراہم کرتے ہیں، خوف خدا میں بہنے والے آنسو قبر کی تنگی اور
وحشت کو دور کرتے ہیں، خوف خدا میں بہنے
والے آنسو قبر کو گلِ گلزار بنا سکتے ہیں، خوف خدا میں بہنے والے آنسو کل ہونے والی ندامت سے بچا سکتے ہیں، خوف خدا
میں بہنے والے آنسو بظاہر بےکسی کا اظہار ہوتے ہیں، لیکن درحقیقت عزتوں اور عظمتوں کو پانے کا
ذریعہ بن سکتے ہیں، خوف خدا میں بہنے والے آنسو گناہوں کے بوجھ سے نجات دیتے ہیں، خوف خدا میں بہنے والے آنسو دل کی نرمی کا باعث بنتے ہیں، خوف خدا میں بہنے
والے آنسو قلبی سکون فراہم کرتے ہیں، خوف
خدا میں بہنے والے آنسو دل کی قساوت (سختی) کو دور کرتے
ہیں، خوف خدا میں بہنے والے آنسو پُل صراط پر آسانی کا باعث بن سکتے ہیں۔ان سب سے
خوف خدا میں رونے کی اہمیت معلوم ہوئی، اللہ پاک خوف خدا میں رونا ہمیں بھی نصیب کرے۔آمین
خوف خدا کی تعریف: خوف سے مراد وہ قلبی کیفیت ہے، جو کسی ناپسندیدہ اَمر کے پیش آنے کی توقعات کے
سبب پیدا ہو، خوفِ خدا کا مطلب یہ ہے کہ اللہ پاک کی بے نیازی، اس کی ناراضی، اس کی
گرفت اور اس کی طرف سے دی جانے والی سزاؤں کا سوچ کر انسان کا دل گھبراہٹ میں
مبتلا ہو جائے۔(خوف خدا،
ص14)ربّ کریم نے خود
قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اس صفت کو اختیار کرنے کا حکم فرمایا ہے، ربِّ کریم
ارشاد فرماتا ہے:ترجمۂ کنزالایمان :اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سیدھی بات
کہو۔(پ 22، الاحزاب:
70) حضور صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے بھی
اس صفتِ عظیمہ کو اپنانے کی تاکید فرمائی ہے۔ آقا صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد
فرمایا: حکمت کی اَصل ربّ کریم کا خوف ہے۔(خوف خدا، ص16)خوفِ خدا میں رونے والوں کے فضائل: حضرت محمد مصطفی، احمد مجتبیٰ صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد
فرمایا:جس مؤمن کی آنکھوں سے اللہ پاک کے خوف سے آنسو نکلتا ہے، اگرچہ مکھی کے پر کے برابر ہو، پھر بھی وہ آنسو اس کے چہرے کے ظاہری حصے تک
پہنچے، اللہ پاک اسے جہنم پر حرام کر
دیتا ہے۔حضرت کعب الاحبار رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:خوفِ خدا
سے رونا، آنسو بہانا مجھے اس سے بھی زیادہ
محبوب ہے کہ میں اپنے وزن کے مطابق صدقہ کروں، اس لئے کہ جو شخص اللہ پاک کے ڈر سے روئے اور اس کے آنسوؤں کا ایک قطرہ
بھی زمین پر گر جائے تو آگ اس کو نہ چھوئے گی۔(خوف خدا، ص141)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا:اللہ پاک
کے خوف سے ایک آنسو کا بہنا، میرے نزدیک
ایک ہزار سے صدقہ کرنے سے بہتر ہے۔( خوف خدا ، ص 142)حضرت انس رضی
اللہُ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:وہ ہرگز جہنم میں داخل نہیں ہو گا، حتی کہ دودھ(جانور کے) تھن میں واپس
آجائے۔(خوف خدا، ص137)رحمتِ عالمیان صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم نے
فرمایا:جو شخص اللہ پاک کے خوف سے روئے، وہ
اس کی بخشش فرما دے گا۔(خوف خدا،
ص 137) حضرت عبداللہ
بن عباس رضی
اللہ عنہما سے مروی ہے ،
سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: دو آنکھوں کو آگ نہ چھوئے گی، ایک وہ جو رات کے اندھیرے میں ربّ کریم کے خوف سے روئے اور دوسری وہ جو راہِ خدا میں
پہرہ دینے کے لئے جاگے۔ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد
فرمایا:اللہ
پاک کو اس قطرے سے بڑھ کر کوئی پسند نہیں، جو(آنکھ سے) اس کے خوف سے بہے یاخون کا وہ قطرہ جو اس کی راہ میں بہایاجاتا ہے۔(خوف خدا، ص138) حضرت ابو ہریرہ رضی
اللہُ عنہ سے مروی ہے ،جب
یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی:اَفَمَنْ ھٰذَاحدیث:
تَعْجَبُوْنَ، وَتَضْحَکُوْنَ وَلَا تَبْکُوْنَ۔ترجمۂ کنزالایمان: تو کیا اس بات سے تعجب کرتے ہو اور
ہنستے ہو اور روتے نہیں۔(پ27،
النجم: 59، 60)تو اصحابِ
صفہ رضی اللہُ عنہم اس قدر روئے کہ ان کے رخسار آنسوؤں سے تر ہو گئے، انہیں
روتا دیکھ کر آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم بھی رونے لگے، آپ کے بہتے ہوئے آنسو دیکھ کر وہ اور بھی
زیادہ رونے لگے، پھر آپ صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
فرمایا:وہ شخص جہنم میں داخل نہ ہو گا، جو
اللہ پاک
کے ڈر سے رویا ہو۔(خوف خدا،
ص 139)حضرت ابو سلیمان دارانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:جو آنکھیں آنسوؤں سے ڈبڈبائیں گی، اس چہرے پر قیامت کے دن غبار اور ذلت نہیں چڑھے
گی، اگر اس کے آنسو جاری ہو جائیں تو اللہ پاک
ان آنسوؤں کے پہلے قطرے کے ساتھ آگ کے کئی سمندر بجھا دیتا ہے اور جس اُمّت میں سے
کوئی شخص (خوفِ خدا سے) روتا ہے،اس امت کو عذاب نہیں ہوتا۔(خوف خدا، ص141) اللہ
پاک سے دعا ہے کہ
ہمارے دل سے دنیا کا خوف نکال کر ہمیں اپنے خوف سے رونے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
میرے اشک بہتے
رہیں کاش ہر دم تیرے خوف سے
یا خدا یاالٰہی
اللہ پاک کی خفیہ تدبیر، اس کے احکامات کی
خلاف ورزی کرنا اور اس کے عذاب سے خوف زدہ رہنا خوف خدا ہے اور خوف خدا سے بہنے
والے آنسو دل کی سختی کو دور کرتے ہیں، جبکہ دل کی نرمی کا باعث بنتے ہیں، پُل صراط پر آسانی کا باعث بن سکتے ہیں، بظاہر یہ آنسو یہ بے کسی کا اظہار ہوتے ہیں، لیکن درحقیقت عزت اور عظمت کو پانے کا ذریعہ بن
سکتے ہیں۔منقول ہے: حضرت داؤد علیہ
السلام نے بارگاہِ الٰہی میں عرض کی: اے اللہ پاک! جو تیرے خوف سے
روئے، یہاں تک کہ آنسو اس کے چہرے پر بہہ
جائیں تو تُو اسے کیا اجر عطا فرمائے گا؟ارشاد فرمایا:میں اس کے چہرے کو جہنم کی
آگ سے محفوظ رکھوں گا اور اسے گھبراہٹ والے دن(یعنی قیامت) سے امن عطا فرماؤں گا۔(شرح بخاری لابن بطال، 8/426)اللہ پاک قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:وَ یَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ یَبْكُوْنَ وَ یَزِیْدُهُمْ
خُشُوْعًا۩۔ترجمۂ کنزالایمان:اور ٹھوڑی کے بل گرتے ہیں روتے ہوئے اور
یہ قرآن ان کے دل کا جھکنا بڑھاتا ہے۔(پارہ 15، بنی
اسرائیل:109)مذکورہ آیات مبارکہ میں خوف خدا سے رونے کی فضیلت کو بیان
فرمایا گیا ہے، قرآن کریم کی تلاوت کے وقت
رونا مستحب ہے۔حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے، حضور
پر نور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:بے شک یہ قرآن حُزن کے ساتھ اُترا
ہے، اس لئے جب تم اسے پڑھو تو روؤ اور اگر
رو نہ سکو تو رونے جیسی شکل بناؤ۔(ابن ماجہ، 2/129، حدیث: 1337) اگر یہ رونا اللہ پاک کے خوف سے ہو تو اس کی بڑی فضیلت ہے، چنانچہ ترمذی اور نسائی کی حدیث: میں ہے، حضرت ابوہریرہ رضی
اللہُ عنہ سے روایت ہے، نبی
اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:وہ شخص جہنم میں نہ جائے گا، جو خوفِ خدا سے روئے۔(ترمذی،3/236، حدیث: 1639، نسائی،ص505، حدیث: 3105)خوف خدا سے رونے کے فضائل:خدا کے خوف سے بہائے جانے والے آنسو بندے کو گناہ کے
کاموں سے روکتے ہیں، جب کہ نیک کاموں کی
طرف متوجّہ کرتے ہیں، چنانچہ حدیث: شریف
میں فرمایا گیا ہے: قیامت کے دن سب آنکھیں رونے والی ہوں گی، مگر تین آنکھیں نہیں روئیں گی، ان میں سے ایک وہ ہوگی جو خوف خدا سے روئی
ہوگی۔(کنز العمال، کتاب
المواعظ8/356، حدیث:4335)حضرت یحییٰ علیہ
السلام نے اپنے والد گرامی حضرت زکریا علیہ
السلام کے حوالے سے فرمایا:جنت اور دوزخ کے درمیان ایک گھاٹی
ہے، جسے وہی طے کرسکتا ہے جو بہت رونے
والا ہو۔(شعب الایمان، 1/493، حدیث: 809)آخرت کی خوشی:حضرت عامر بن قیس رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں: آخرت میں سب سے زیادہ خوش وہ شخص ہوگا، جو دنیا میں(آخرت کے بارے میں) سب سے زیادہ متفکر رہنے والا ہو اور آخرت میں سب سے زیادہ
ہنسنا اسی کو نصیب ہوگا، جو دنیا میں(خوف خدا پاک سے) سب سے
زیادہ رونے والا ہوں اور بروزِ قیامت سب سے ستھرا سامان اسی کا ہو گا، جو دنیا میں زیادہ غور و فکر کرنے والا ہے۔(تنبیہ الغافلین،ص 308)رونے کے طبی فوائد:رونے کے طبی فوائد میں سے چند ایک یہ ہیں:٭آنسو انسانی جسم
میں موجود کولیسٹرول لیول کو کم کرتے ہیں٭آنسو کو روکنے سے آنکھوں میں ڈی
ہائیڈریشن ہوجاتی ہے، جس سے بینائی کمزور
ہوتی ہے۔