خوف خدا کے معنی: خوفِ خدا کا مطلب یہ ہے کہ  اللہ پاک کی بے نیازی، اس کی ناراضی، اس کی گرفت اور اس کی طرف سے دی جانے والی سزاؤں کا سوچ کر انسان کا دل گھبراہٹ میں مبتلا ہوجائے، اس کے قہر و غضب سے خوفزدہ ہو جائے، جب کبھی بھی گناہ کا ارادہ ہو تو اسے اُس کے ربّ کریم کا خوف گناہوں سے باز رکھے، اسی طرح جیسے بندہ خوفِ خدا رکھنے سے گناہوں سے محفوظ رہتا ہے، اسی طرح خوف خدا کے سبب اس کے گناہوں کو مٹا دیا جاتا ہے، خوف خدا میں رونے اور گریہ و زاری کرنے کے بہت فضائل ہیں، انسان کو چاہئے کہ وہ حقیقت میں اپنے اندر خوف خدا پیدا کرے۔خوف خدا کی ترغیب و فضائل قرآن کی روشنی میں:سورۂ رحمٰن میں خوفِ خدا رکھنے والوں کے لئے دو جنتوں کی بشارتیں ہیں، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِۚ ۔ترجمۂ کنز الایمان:اور جو اپنے ربّ کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرے اس کے لئے دو جنتیں ہیں۔اسی طرح سورۂ الِ عمران، آیت 175 میں ارشاد ہوتا ہے:وَخَافُوْنِ اِنْ کُنْتُمْ مُؤمِنِیْن۔ترجمۂ کنزالایمان:اور مجھ سے ڈرو اگر ایمان رکھتے ہو۔سورۂ بقرہ، آیت نمبر 40 :وَاِ یَّایَ فَارْھَبُوْن۔ترجمۂ کنزالایمان:اور خاص میرا ہی ڈ ررکھو۔اس طرح بے شمار آیات کریمہ میں خوف خدا کی فضیلت اور ترغیب بیان کی گئی ہے۔خوف خدا کی ترغیب و فضائل احادیث کی روشنی میں:نبی اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:حکمت کی اصل اللہ پاک کا خوف ہے۔(شعب الایمان، ج1،ص480) رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اللہ پاک فرمائے گا: اسے آگ سے نکالو، جس نے مجھے کبھی یاد کیا ہو یا کسی مقام پر میرا خوف کیا ہو۔(شعب الایمان، ج1،ص480)خوف خدا میں رونے کے فضائل:سرور عالم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: جس مؤمن کی آنکھوں سے اللہ پاک کے خوف سے آنسو نکلتے ہیں، اگرچہ مکھی کے پَر کے برابر ہوں، پھر وہ آنسو اس کے چہرے کا ظاہری حصّے تک پہنچیں تو اللہ پاک اسے جہنم پر حرام کر دیتا ہے۔(شعب الایمان، ج1،ص490) حضرت عطاء رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں: میں اور میرے ساتھ حضرت ابن عمر اور حضرت عبید بن عمر ایک مرتبہ اُمّ المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کی:ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بارے میں کوئی بات بتائیے! تو آپ رو پڑیں اور فرمایا: ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور فرمانے لگے:مجھے رخصت دو کہ میں ربّ کریم کی عبادت کر لوں۔ تو میں نے عرض کی:مجھے آپ کا ربّ کریم کے قریب ہونا اپنی خواہش سے زیادہ عزیز ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم گھر کے ایک کونے میں کھڑے ہوگئے اور رونے لگے، پھر وضو کر کے قرآن پاک پڑھنا شروع کیا تو دوبارہ رونا شروع ہو گئے، یہاں تک کہ آپ کی چشمانِ مبارک سے نکلنے والے آنسو زمین تک جا پہنچے۔اتنے میں حضرت بلال رضی اللہُ عنہ حاضر ہوئے اور آپ کو روتے دیکھ کر عرض کی: میرے ماں باپ آپ پر قربان! آپ کیوں رو رہے ہیں؟حالانکہ آپ کے سبب تو اگلوں پچھلوں کے گناہ بخشے جاتے ہیں تو ارشاد فرمایا: میں شکر گزار بندہ نہ بنوں؟ اور مجھے رونے سے کون روک سکتا ہے،جبکہ اللہ پاک نے یہ آیت نازل فرمائی: اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّهَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِۚۙ۔الَّذِینَ یَذْكُرُوْنَ اللہ قِیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰى جُنُوْبِهِمْ وَ یَتَفَكَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ۚرَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًا ۚسُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔(پ4، ال عمران:190 ،191)پھر فرمایا:اے بلال جہنم کی آگ کو آنکھ کے آنسو ہی بجھا سکتے ہیں، لوگوں کے لئے ہلاکت ہے، جو یہ آیت پڑھیں اور غور نہ کریں۔(درۃ الناصحین، صفحہ 394)حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما سے مروی ہے، سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: دو آنکھوں کو آگ نہ چھوئے گی، ایک وہ جو رات کے اندھیرے میں ربّ کریم کے خوف سے روئے اور دوسری وہ جو راہِ خدا پاک میں پہرہ دینے کے لئے جاگے۔(شعب الایمان،ص478)رسول اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: اللہ پاک کواس قطرے سے بڑھ کر کوئی قطرہ پسند نہیں، جوآنکھ سے اس کے خوف سے بہے یا خون کا وہ قطرہ، جو اس کی راہ میں بہایا جاتا ہے۔(احیاء العلوم، جلد 4، صفحہ30)حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہُ عنہما نے فرمایا:اللہ پاک کے خوف سے ایک آنسو کا بہنا میرے نزدیک ایک ہزار دینار صدقہ کرنے سے بہتر ہے۔(شعب الایمان، ج1،ص503)ان آیات مبارکہ اور احادیث مبارکہ سے خوف خدا میں رونے کی فضیلت معلوم ہوتی ہے، اللہ پاک ہمیں بھی حقیقی خوفِ خدا نصیب کرے اور اپنے خوف میں رونے والی آنکھیں اور تڑپنے والا دل عطا کرے۔آمین