ادب وہ شے ہے جو نصیب بدل دیتی ہے۔ہر بارگاہ کا ایک ادب ہوتا ہے، اس کو بجالانے والوں اور اس کے خلاف کرنے والوں کا حال جدا جدا ہوتا ہے۔ کہیں موسیٰ علیہ اسلام کا ادب کرنے والے کا فرجادوگر مسلمان ہو جاتے ہیں تو کہیں جناب آدم علیہ السلام کی بے ادبی کی وجہ سے مُعَلِّمُ الْمَلَکُوت، عابد و موحد،ابلیس و ملعون ٹھہرتا ہے۔ تو کیا مقام ہوگا اس بارگاہ کا جو تمام نبیوں علیہم السلام کے سردار اور وجہ تخلیق کائنات ہیں۔

استاذ کی بارگاہ کا ادب شاگرد بتائے، پیر کی بارگاہ کا ادب مرید سمجھائے اور (الله الله کہ) مصطفٰے ﷺکی بارگاہ کا ادب خدا بیان فرمائے۔ (شرح حدائقِ بخشش،ص 195)

(1)چنانچہ حضورﷺ صحابہ کو کچھ تعلیم و تلقین فرماتے تو وہ کبھی کبھی کلام اقدس کو اچھی طرح سمجھنے کیلئے عرض کرتے:رَاعِنَا یَارَسُولَ اللّٰه! یعنی ہمارے حال کی رعایت فرمائیے۔ اب یہودیوں کی لغت میں” راعنا“بے ادبی کا معنی رکھتا تھا اور انہوں نے اسی نیت سے کہنا شروع کر دیا،لہٰذا رب کریم نے اپنے حبیبﷺ کی بارگاہ کا ادب بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-(البقرۃ: 104) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو۔

معلوم ہوا کہ رب کریم کو حضور ﷺ کا ادب کتنا ملحوظ ہے کہ جس لفظ کے ایک معنی میں بے ادبی ہوئی اسے کہنے سے اپنے کلام پاک میں منع فرما دیا۔

(2)اور ارشاد فرمایا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ (الحجرات:02) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو! اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے۔ سبحان الله ! خدا کو اپنے حبیب ﷺسے کسی کی آواز بھی اونچی پسند نہیں۔

حاضر ہوئے جبریل امیں بھی تو ادب سے نازل ہوا قرآن بھی تو بے صوت و صدا تھا

(شرح حدائق بخشش،ص 339)

(3)اور فرمایا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو! اللہ و رسول کے بلانےپر حاضر ہو جب رسول تمہیں بلائیں۔حضور ﷺ جب بھی بلائیں تو ان کی بارگاہ میں حاضر ہونا ضروری ہے۔ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ حضورﷺ بلائیں اور بندہ نماز میں ہو تو بھی فورا ًحاضر ہو جائے اور اس سے نماز بھی فاسد نہ ہوگی کہ حضور ﷺ کا بلا نارب ہی کا بلانا ہے۔

مصطفی و ایں چنیں سوء الادب ایں قدر ایمنِ شدید از اخذِرب

(4)فرمایا: لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًاؕ- (النور: 63) ترجمہ کنز الایمان:رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہرا لو جیسا تم میں ایک دوسرے کو پکارتا ہے۔ اس لئے یا محمد کہنے کی اجازت نہیں۔ ثابت ہوا کہ ”یا محمد!، یااحمد!، یا ابنِ عبدالله!“ یا اے بھائی ! اے باپ! وغیرہ خطابات سے پکارنا حرام ہے۔ بلکہ یا رسول اللہ !یا حبیب اللہ !وغیرہ القاب سے پکارو۔ (شان حبیب الرحمن، ص 162)

(5)حضور ﷺ کے گھر ایک تقریب کے موقع پر فارغ ہونے کے بعد بھی کچھ لوگوں کا بیٹھے رہنا الله پاک کو پسند نہ آیا کیونکہ یہ بات حضورﷺ کیلئے باعث تکلیف تھی اور وہ حیا کی وجہ سے کچھ نہیں کہتے تھے۔چنانچہ ارشاد ہوا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیِّ اِلَّاۤ اَنْ یُّؤْذَنَ لَكُمْ(الاحزاب: 53) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو ! نبی کے گھروں میں نہ حاضر ہو جب تک اذن نہ پاؤ۔

ادب گاہ ہیست زیر آسمان از عرش نازک تر نفس گم کرده می آید جنید و بایزید ایں جا

الله پاک ہمیں حضور جانِ عالم ﷺ کا سچاعشق وادب نصیب فرمائے اور ہمارے حق میں یہ دعا قبول فرمائے۔ آمین

محفوظ سدا رکھنا شہا بے ادبوں سے اور ہم سے بھی سرزد نہ کبھی بے ادبی ہو


ادب گاہ ہیست زیر آسمان از عرش نازک تر                     نفس گم کرده می آید جنید و بایزید ایں جا

اس بارگاہ میں جنید بغدادی اور بایزید بسطامی جیسے بڑے بڑے بھی سر جھکائے کھڑے ہیں۔ اس بارگاہ کا ادب ہی ایسا ہے اور کیوں نہ ہو کہ یہ بارگاہ محبوبِ رب کریم ﷺکی ہے۔ یہاں تو زور سے سانس لینا بھی بے ادبی ہے۔ عشق کا دعویٰ کرنے والا بغیر ادب کے اپنے قول میں کیسے صادق ہو سکتا ہے! محبت کی کہانی میں جب محبوب کا لقاء آجاتا ہے تو پھر محب کچھ نہیں کہتا، کوئی عرض نہیں کرتا، بس دور کھڑا رو رہا ہوتا ہے۔ ارے جہاں یار کا جلوہ ہو وہاں عرضیں نہیں کی جاتیں۔ وہاں تو نگاہیں جھکی ہوئی سب جان لیتی ہیں۔ یہ تو وہ بارگاہ ہے کہ رب کریم خود اس کے آداب سکھاتا ہے۔

(1)فرمایا: لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ (پ 26، الحجرات:2 ) ترجمہ کنزالعرفان: اپنی آوازیں نبی کی آواز پر اونچی نہ کرو۔

محبوب کی آواز سے اپنی آواز پست رکھو۔ وہ تم سے کلام فرمائیں اور تم کچھ عرض کرو تو تم پر لازم ہے کہ تمہاری آواز میرے حبیب سے اونچی نہ ہو بلکہ ایسے عرض کرو کہ جیسے عرض کرنے والے کو زیب دیتا ہے۔

(2) اور فرمایا: وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ (الحجرات: 02)ترجمہ کنز العرفان: ان کے حضور زیادہ بلند آواز سے کوئی بات نہ کہو جیسے ایک دوسرے کے سامنے بلند آواز سے بات کرتے ہو۔ اور یہ ادب سکھایا کہ ان کے حضور پورا پورا لحاظ رکھو اور آپس میں جیسےایک دوسرے کو نام لے کر پکارتے ہو اس طرح نہ پکارو کہ آپ ﷺ کی شان میں بے ادبی ہو۔ بلکہ جو عرض کرنا ہو یوں کہو:یا رسول الله، یانبی اللہ۔ ان کی تعظیم و توقیر کا خیال رکھو۔ (تفسیر صراط الجنان، الحجرات:2ملتقطاً)

(3)فرمایا: لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-(البقرۃ: 104) ترجمہ کنز الایمان: راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو۔

صحابہ کرام علیہم الرضوان کو جب پیارے آقا ﷺ تلقین ونصيحت فرماتے تو کبھی صحابہ کرام عرض کرتے: را عنا یار سول الله یعنی یا رسول اللہﷺ!ہمارے حال کی رعایت فرمائیے تو یہودی زبان دباکر”را عینا “ کہتے جس کے معنی چرواہا کے ہیں۔ جب مسلمان ناراض ہوتے تو وہ کہتے کہ تم بھی تو یہی کہتے ہو اس پر وہ رنجیدہ ہو کر بارگاہ عالی میں حاضر ہوتے تو رب کریم نے یہ آیت نازل فرمادی کے را عنا نہ کہو بلکہ” انظرنا“ کہو اور پہلے سے ہی بغور سنو۔

(4)فرمایا: لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًاؕ- (النور: 63) ترجمہ کنز الایمان:رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہرا لو جیسا تم میں ایک دوسرے کو پکارتا ہے۔ حضور علیہ السلام جب کسی کو پکاریں تو اس پر جواب دینا اور عمل کرنا واجب اور ادب سے حاضر ہونا لازم ہو جاتا ہے۔ تو اے لوگو! میرے حبیب کے پکارنے کو آپس میں ایسا معمولی نہ بنا لو کہ جیسے تم میں سے کوئی دوسرے کو پکارتا ہے۔(اے ایمان والو!، ص 69 ملتقطاً)

(5)فرمایا: وَ مَا كَانَ لَكُمْ اَنْ تُؤْذُوْا رَسُوْلَ اللّٰهِ وَ لَاۤ اَنْ تَنْكِحُوْۤا اَزْوَاجَهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖۤ اَبَدًاؕ (الاحزاب:53) ترجمہ کنز الایمان: اور تمہیں نہیں پہنچتا کہ رسول اللہ کو ایذا دو اور نہ یہ کہ ان کے بعد کبھی ان کی بیبیوں سے نکاح کرو۔ الله پاک بارگا ہ رسالت کا کمال ادب سکھاتے ہوئے فرماتا ہے کہ انہیں ایذا نہ دینا، ان کے وصال کے بعد بھی ان کی ازواج مطہرات باقیوں کیلئے حرام ہیں۔ آپ کے وصال ظاہری کے بعد بھی امتیوں کو چاہئے کہ ایسے کام نہ کریں کہ جس سے قلب مقدس رنجیدہ ہو کہ نبی ﷺاپنی امت کے ہر حال سے واقف ہیں اور آپ ہمیں ہمارے سب سے قریبی دوست سے بھی بڑھ کر جانتے اور پہچانتے ہیں۔ ادب میں یہ بھی ہے کہ آپ سے منسوب ہر چیز کا ادب کیا جائے۔ آپ کی مسجد،روضہ انور، مکان و دیوار و خار و گل و سگانِ دربار۔ آپ کی طرف منسوب موئے مبارک کی تصدیق کرنا بھی ہمارا کام نہیں۔ جان لو کہ عزت و عظمت اسی کی ہے جس کی پلکیں محبوب خدا کے قدموں میں ہوں۔ جو اکڑا وہ تو مردود ہو گیا اور جو جھکا اس نے معراج پائی۔پھرجب محبت کے قصے لکھنے بیٹھے تو لکھ ہی دیا کہ ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں۔


قرآنِ پاک میں جہاں نبی کریم ﷺ کی سیرت طیبہ کا بیان ہے وہیں آپ کے ادب واحترام کا حکم بھی ہے۔ اسی طرح آپ کے سامنے ادب و احترام کے تقاضے بجالانے کی تعلیم بھی ملتی ہے بے شمار آیات مبارکہ اس پر شاہد ہیں کہ اہل ایمان پر نبی کریم ﷺ کا ادب اور تعظیم کرنا ایمان کی سلامتی کے لیے لازم اور ضروری ہے۔

آیت نمبر1: آداب بارگاہ نبوی کے متعلق سورۃ الحجر ات کی آیت نمبر 02 میں الله پاک ار شاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲)(پ 26، الحجرات:2) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو !اپنی آواز یں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلا کرنہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت ہو جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ اس آیت مبارکہ میں اللہ پاک نے ایمان والوں کو اپنے حبیب ﷺ کے دو عظیم آداب سکھائے ہیں۔

پہلا ادب: یہ ہے کہ اے ایمان والو!جب نبی کریم ﷺ تم سے کلام فرمائیں اور تم ان کی بارگاہ میں کچھ عرض کرو تو تم پر لازم ہے کہ تمہاری آواز ان کی آواز سے بلند نہ ہو بلکہ جو عرض کرنا ہے وہ آہستہ اور پست آواز سے کرو۔

دوسرا ادب: یہ ہے کہ حضور اقدس ﷺ کو ندا کرنےمیں ادب کا پورا لحاظ رکھو اور جیسے آپس میں ایک دوسرے کو نام لے کر پکارتے ہو اس طرح نہ پکارو بلکہ تمہیں جو عرض کرنا ہو وہ ادب و تعظیم اور توصیف و تکریم کے کلمات اور عظمت والے القابات کے ساتھ عرض کرو جیسے یوں کہو: یا رسول اللہ!یا نبی اللہ! کیونکہ ترک ادب سے نیکیوں کے بربادہونے کا اندیشہ ہے اوراس کی تمہیں خبر نہ ہوگی۔

آیت نمبر02:سورۃ الحجرات کی آیت نمبر 1میں آدابِ بارگاہِ نبوی کے متعلق اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(۱)(پ 26، الحجرات:1) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول سے آ گے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بےشک اللہ سُنتا جانتا ہے۔

اس آیت میں الله پاک ایمان والوں سے مخاطب ہو کر فرماتا ہے:اللہ اور رسول ﷺ دونوں سے آگے نہ بڑھو۔ اللہ پاک سے آگے بڑھنا ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ وہ نہ زمان میں نہ کسی مکان میں اور آگے ہونا یا زمان میں ہوتا ہے یا جگہ میں۔ معلوم ہوا کہ آیت کا مقصد یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ سے آگے نہ بڑھو، ان کی بے ادبی دراصل اللہ پاک کی بے ادبی ہے۔

آیت نمبر03: اللہ پاک نے سورۃ النور کی آیت نمبر 63 کے کچھ حصے میں آداب بارگاہ نبوی ﷺ کے متعلق کچھ یوں ارشاد فرمایا: لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًاؕ- (النور: 63) ترجمہ کنز الایمان:رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہرا لو جیسا تم میں ایک دوسرے کو پکارتا ہے۔ فرمایا گیا کہ اے لوگو ! میرے حبیبﷺ کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ بنا لو جیسے تم ایک دوسرے کو پکارتے ہو۔ اس کا ایک معنی یہ ہے کہ اے لوگو ! میرے حبیب ﷺکے پکارنے کو آپس میں ایسا معمولی نہ بنا لو جیسے تم میں سے کوئی دوسرے کو پکارتا ہے کیونکہ رسول الله ﷺ جسے پکاریں اس پر جواب دینا اورعمل کرنا واجب اور ادب سے حاضر ہونا لازم ہوجاتا ہے۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ اے لوگو! میرے حبیب ﷺ کا نام لے کرنہ پکارو بلکہ تعظیم، تکریم،نرم آواز کے ساتھ انہیں اس طرح کے الفاظ کے ساتھ پکارو: یارسول اللہ،یا نبی الله، یا حبیب اللہ، یا امام المرسلین، یا خا تم النبین۔

اس آیت سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ ہر قسم کی ظاہری حیات طیبہ میں اور وصالِ ظاہری کے بعد بھی انہیں ایسے الفاظ کے ساتھ ندا کر نا جائز نہیں جن میں ادب و تعظیم نہ ہو۔

آیت نمبر 04:سورۃ الانفال کی آیت نمبر 24 کے پہلے حصے میں رسول کریم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہونے کے آداب کے بارے میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو! اللہ و رسول کے بلانےپر حاضر ہو جب رسول تمہیں بلائیں۔

اس آیت سے ثابت ہوا کہ تاجدار رسالت ﷺ جب بھی کسی کو بلائیں تو اس پر لازم ہے کہ وہ آپ کی بارگاہ میں حاضر ہو جائے چاہے وہ کسی بھی کام میں مصروف ہو۔

آیت نمبر 05:سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر 53کے پہلے حصے میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیِّ اِلَّاۤ اَنْ یُّؤْذَنَ لَكُمْ اِلٰى طَعَامٍ غَیْرَ نٰظِرِیْنَ اِنٰىهُۙ-وَ لٰكِنْ اِذَا دُعِیْتُمْ فَادْخُلُوْا فَاِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوْا وَ لَا مُسْتَاْنِسِیْنَ لِحَدِیْثٍؕ-اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیٖ مِنْكُمْ٘-وَ اللّٰهُ لَا یَسْتَحْیٖ مِنَ الْحَقِّؕ- ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والونبی کے گھروں میں نہ حاضر ہو جب تک اذن نہ پاؤ مثلا کھانے کے لیے بلائے جاؤ نہ یوں کہ خود اس کے پکنے کی راہ تکوہاں جب بلائے جاؤ تو حاضر ہو اور جب کھا چکو تو متفرق ہو جاؤ نہ یہ کہ بیٹھے باتوں میں دل بہلاؤ بے شک اس میں نبی کو ایذا ہوتی تھی تو وہ تمہارا لحاظ فرماتے تھے اور الله حق فرمانے میں نہیں شرماتا۔

اس آیت میں اللہ پاک نے اپنے حبیب ﷺکی بارگاہ میں حاضری کے آداب خود بیان فرمائے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ پاک کی بارگاہ میں جو مقام حضور کو حاصل ہے وہ مخلوق میں سے کسی اور کو حاصل نہیں۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے تاجدار رسالت ﷺ کی ظاہری حیات مبارک میں بھی اور وصال ظاہری کے بعد بھی آپ کی بارگاہ کا بے حد ادب واحترام کیا اور اللہ پاک نے اپنے حبیب کی بارگاہ کے جو آداب انہیں تعلیم فرمائے انہیں دل و جان سے بجالائے۔ اسی طرح ان کے بعد تشریف لانے والے دیگر بزرگانِ دین نے بھی دربارِ سالت کے آداب کا خوب خیال رکھا اور دوسروں کو بھی وہ آداب بجالانے کی تلقین کی۔ ہمیں بھی صحابہ کرام اور بزرگان دین کے احکام کے مطابق اور آیت قرآنی کے مطابق بارگاہ نبوی کے آداب بجالانے چاہییں۔

ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے مسجد نبوی میں دو شخصوں کی بلند آواز سنی تو آپ (ان کے پاس) تشریف لائے اور فرمایا: کیا تم دونوں جانتے ہو کہ کہاں کھڑے ہو ؟ پھر ارشاد فرمایا:تم کس علاقے سے تعلق رکھتے ہو؟ دونوں نے عرض کی: ہم طائف کے رہنے والے ہیں، ارشاد فرمایا: اگر تم مدینہ منورہ کے رہنے والے ہوتے تو میں (یہاں آواز بلند کرنے کی وجہ سے )تمہیں ضرور سزا دیتا (کیونکہ مدینہ منورہ میں رہنے والے دربار رسالت کے آداب سے خوب واقف ہیں۔)(تفسیرابن کثیر،7/343)


جو لوگ سید المرسلین ﷺ کی بارگاہ میں اپنی آوازیں نیچی رکھتے ہیں انہیں بخشش اور بڑے ثواب کی بشارت دی گئی ہے۔آپ کی بارگاہ کی شان اتنی بلند ہے کہ ان کی بارگاہ کے آداب اللہ پاک نے ارشاد فرمائے ہیں۔ کسی کام میں حضور سے آگے ہونا منع ہے۔ اگر حضور کے ہمراہ ر استے میں جا رہے ہوں تو آگے آگے چلنا منع ہے مگرخادم کی حیثیت سے یاکسی ضرورت سے اجازت پا کر چلنا منع نہیں۔ اگر ساتھ کھانا ہو تو پہلے شروع کرنا ناجائز ہے۔ اسی طرح اپنی عقل اور اپنی رائے کو حضور کی رائے سے مقدم کرنا حرام ہے۔رسولِ کریم ﷺ کی عزت و حرمت زندگی اور وفات دونوں میں برابرہے۔ تاہم عبادات بدن کا تقویٰ ہیں اور حضور کاادب دل کا تقویٰ ہے۔

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(۱)(پ 26، الحجرات:1) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول سے آ گے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بےشک اللہ سُنتا جانتا ہے۔اس آیت میں اللہ پاک نے ایمان والوں کو اپنے حبیب ﷺ کا ادب و احترام ملحوظ رکھنے کی تعلیم دی۔آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اےایمان والو!الله پاک اور اس کے رسول کریم ﷺ کی اجازت کے بغیر کسی قول و فعل میں اصلاً ان سے آگے نہ بڑھنا تم پر لازم ہے کیونکہ یہ آگے بڑھنا رسولِ کریم ﷺ کے ادب و احترام کے خلاف ہے جبکہ بارگاہِ رسالت میں نیاز مندی اور آداب کا لحاظ رکھنا لازم ہے اور تم اپنے تمام اقوال و افعال میں اللہ پاک سے ڈرو کیونکہ اگرتم اللہ پاک سےڈرو گےتو یہ ڈرنا تمہیں آگے بڑھنے سے روکےگا اور ویسے بھی اللہ پاک کی یہ شان ہے کہ وہ تمہارے تمام اقوال کو سنتا اورتمام افعال کو جانتا ہےاور جس کی ایسی شان ہے اس کاحق یہ ہے کہ اس سے ڈرا جائے۔

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲)(پ 26، الحجرات:2) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو !اپنی آواز یں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلا کرنہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت ہو جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ اس آیتِ مبارکہ میں بھی اللہ پاک نےایمان والوں کواپنے حبیب کے دو عظیم آداب سکھا ئے ہیں۔ پہلا ادب یہ ہے کہ اےایمان والو! جب نبی کریمﷺ تم سے کلام فرمائیں اور تم ان کی بارگاہ میں کچھ عرض کروتو تم پر لازم ہے کہ تمہاری آواز ان کی آواز سے بلند نہ ہو۔ بلکہ جو عرض کرنا ہےوہ آہستہ اورپست آواز سے کرو۔

دوسر اادب یہ ہے کہ حضور اقدس ﷺکو ندا کرنے میں ادب کا پورا لحاظ رکھواور جیسے آپس میں ایک دوسرے کو نام لےکر پکارتے ہو اس طرح نہ پکارو بلکہ تمہیں عرض کرنا ہو تو ادب و تعظیم اور توصیف و تکریم کے کلمات اور عظمت والے القاب کے ساتھ عرض کرو۔جیسے یوں کہو:یا رسول اللہ،یا نبی اللہ، کیونکہ ترکِ ادب سےنیکیوں کے برباد ہونے کا اندیشہ ہے اور اس کی تمہیں خبر بھی نہ ہوگی۔

اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰىؕ-لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ اَجْرٌ عَظِیْمٌ(۳) ( الحجرات:3 ) ترجمہ کنز الایمان: بے شک وہ جو اپنی آوازیں پست رکھتے ہیں رسول اللہ کے پاس وہ ہیں جن کا دل اللہ نے پرہیزگاری کے لیے پرکھ لیا ہے ان کے لیے بخشش اور بڑا ثواب ہے۔جب یہ آیت ” یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ “نازل ہوئی تو اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیق،حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما اور کچھ دیگر صحابہ کرام نے بہت احتیاط لازم کرلی اور سرکارِ دو عالمﷺ کی خدمتِ اقدس میں بہت ہی پست آواز میں عرض معر وض کرتے۔ ان حضرات کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی اوران کے عمل کو سر اہتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا:بےشک جو لوگ ادب اور تعظیم کے طور پر الله کے رسولﷺ کی بارگاہ میں اپنی آوازیں پست رکھتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ پاک نے پرہیزگاری کے لیے پرکھ لیا۔ (اور اس میں موجودپرہیز گاری کو ظاہرفرما دیا) ہے۔ ان کے لیے آخرت میں بخشش اور بڑ اثواب ہے۔

اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ(۴) (الحجرات: 4) ترجمہ کنز الایمان: بےشک وہ جو تمہیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں۔

بنو تمیم کے چند لوگ دو پہر کے وقت رسولِ کریم ﷺ کی خدمت میں پہنچے۔اس وقت حضور آرام فرما رہے تھے۔ ان لوگوں نے حجروں کے باہر سے حضور کو پکارنا شروع کر دیا اور حضور باہر تشریف لے آئے۔ ان لوگوں کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی اور رسولِ کریم ﷺ کی جلالتِ شان کو بیان فرمایا گیا کہ سید المرسلینﷺ کی بارگاہ اقدس میں اس طرح پکارنا جہالت اوربے عقلی ہے۔


کتاب اللہ میں بارگاہ نبوی کے بہت سے آداب بیان کیے گئے ہیں۔ آقاﷺ کی بارگاہ میں بلند آواز سے بات کرنا ادب کے خلاف ہے۔ لہٰذا پیارے آقا کی بارگاہ میں گفتگو کرنے کےجو آداب کتاب اللہ میں بیان ہوئے ان کو بجالانا ہر مسلمان پر لازم ہے۔

آیات مبارک:

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(۱)(پ 26، الحجرات:1) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول سے آ گے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بےشک اللہ سُنتا جانتا ہے۔

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲)(پ 26، الحجرات:2) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو !اپنی آواز یں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلا کرنہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت ہو جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ یعنی تمہیں لازم ہے کہ اصلاً تم سے تقدیم واقع نہ ہو،نہ قول میں نہ فعل میں کہ تقدیم کرنا رسول اللہ ﷺکے ادب واحترام کے خلاف ہے۔

اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰىؕ-لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ اَجْرٌ عَظِیْمٌ(۳) ( الحجرات:3 ) ترجمہ کنز الایمان: بے شک وہ جو اپنی آوازیں پست رکھتے ہیں رسول اللہ کے پاس وہ ہیں جن کا دل اللہ نے پرہیزگاری کے لیے پرکھ لیا ہے ان کے لیے بخشش اور بڑا ثواب ہے۔

تفسیر:یہ آیت” یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ “ نازل ہونے کے بعد حضرت ابو بکر صدیق و عمرفاروق رضی اللہ عنہما اور دیگر صحابہ کرام نے بہت احتیاط لازم کرلی اور خدمت اقدس میں بہت پست آواز سے عرض معروض کرتے ان حضرات کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی-

اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ(۴) (الحجرات: 4) ترجمہ کنز الایمان: بےشک وہ جو تمہیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں۔

تفسیر: یہ آیت وفد بنی تمیم کے حق میں نازل ہوئی کہ رسول کریم ﷺ کی خدمت میں دوپہر کے وقت پہنچے جبکہ حضور آرام فرمارہے تھے۔ ان لوگوں نےحجروں کے باہر سے حضور ﷺکو پکارنا شروع کردیا، حضور باہرتشریف لے آئے۔ نیز اجلالِ شان رسول اللہ کابیان فرمایا گیا کہ بارگاہ اقدس میں اس طرح پکار ناجہالت و بے عقلی ہے اور ان لوگوں کو ادب کی تلقین کی گئی۔

وَ لَوْ اَنَّهُمْ صَبَرُوْا حَتّٰى تَخْرُ جَ اِلَیْهِمْ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۵) (الحجرات: 4) ترجمہ: اور اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ آپ اُن کے پاس تشریف لاتے تو یہ اُن کے لیے بہتر تھا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

تفسیر:اس وقت وہ عرض کرتے جو انہیں عرض کرنا تھا یہ ادب ان پر لازم تھا۔ اس کو بجالائیں ان میں سے اُن کے لیے جو توبہ کریں۔


قرآن کریم میں اللہ پاک نے اپنے پیارے پیغمبر حضرت محمد ﷺکے حوالے سے ہمیں آداب سکھائےکہ پیارے آقا ﷺ کی بارگاہ میں کون سے آداب ملحوظ رکھنے چاہئیں۔

1-آیت: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(۱)(پ 26، الحجرات:1) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول سے آ گے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بےشک اللہ سُنتا جانتا ہے۔

اس آیت میں اللہ نے ایمان والوں کو اپنے حبیب ﷺ کا ادب و احترام ملحوظ رکھنے کی تعلیم دی ہے۔ اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی اجازت کے بغیر کسی قول و فعل میں اصلاً ان سے آگے نہ بڑھنا تم پر لازم ہے اور اللہ سے ڈرو۔(صراط الجنان)

2-آیت: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲)(پ 26، الحجرات:2) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو !اپنی آواز یں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلا کرنہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت ہو جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔

پیارے آقاﷺ کی بارگاہ میں جو عرض کرنا ہوآہستہ عرض کرو اور حضور کوندا کرنے میں ادب کا لحاظ رکھو۔(صراط الجنان)

3-آیت: اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰىؕ-لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ اَجْرٌ عَظِیْمٌ(۳) ( الحجرات:3 ) ترجمہ کنز الایمان: بے شک وہ جو اپنی آوازیں پست رکھتے ہیں رسول اللہ کے پاس وہ ہیں جن کا دل اللہ نے پرہیزگاری کے لیے پرکھ لیا ہے ان کے لیے بخشش اور بڑا ثواب ہے۔

جو لوگ ادب و تعظیم کے طور پر حضور ﷺکی بارگاہ میں اپنی آوازیں پست رکھتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو پرہیزگاری کے لیے پرکھ لیا گیا ہے۔ (صراط الجنان)

4-آیت: اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ(۴) (الحجرات: 4) ترجمہ کنز الایمان: بےشک وہ جو تمہیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں۔

رسول کریمﷺ کی جلالت شان کو بیان فرمایا گیا کہ حضور کی بارگاہ میں اس طرح پکارنا جہالت اور بے عقلی ہے۔(صراط الجنان)

5-آیت: وَ لَوْ اَنَّهُمْ صَبَرُوْا حَتّٰى تَخْرُ جَ اِلَیْهِمْ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۵) (الحجرات: 4) ترجمہ: اور اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ آپ اُن کے پاس تشریف لاتے تو یہ اُن کے لیے بہتر تھا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

اس آیت میں صبر کی تلقین فرمائی گئی ہے کہ حضور ﷺکو پکارنے کی بجائےصبر اورا نتظار کرنا چاہیے تھا۔ اور جن سے یہ بے ادبی سرزد ہوئی اگروہ توبہ کریں تو اللہ بخشنےوالا ہے۔(صراط الجنان)

حضورﷺ کے دربار کے آداب اللہ نے بنائے اور اللہ نے ہی سکھائے ہیں اوریہ آداب جنوں،انسانوں، فرشتوں سب پر جاری ہیں اور ہمیشہ کے لئے ہیں۔حضور کی بارگاہ میں آداب کو ملحوظ رکھا جائے۔ یہ ادب ہی بلند درجات تک پہنچاتا اور دنیا و آخرت کی سعادتوں سے نوازتا ہے۔

واقعہ: حضرت امام مالک رحمۃ الله علیہ درسِ حدیث دے رہے تھے کہ بچھو نے آپ کو16 ڈنک مارے۔درد کی شدت سے مبارک چہرہ پیلا پڑ گیا مگر درس حدیث جاری رکھا اور پہلو تک نہ بدلا۔جب درس حدیث ختم ہوا تو عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ نے عرض کی: میں نے آپ میں عجیب بات دیکھی! اس میں کیا حکمت تھی؟ فرمایا: میں نے حدیث رسول کی تعظیم کی بنا پر صبر کیا۔ ( الشفا)


کسی بھی بلندمر تبہ شخصیت کے پاس جانے کیلئے اس کے آداب کو پیش نظر رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر والدین سے بات کرتے ہوئے اپنی آواز کو ان کی آواز سے آہستہ رکھنا اور ان کی اطاعت کرنا ہم پہ ضروری ہوتا ہے۔ اسی طرح اللہ پاک کے آخری نبی ﷺ کی بارگاہ میں حاضری کیلئے بھی آداب ہیں جو کہ اللہ پاک نے اپنے لاریب کلام میں بیان فرمائے اور خود ہی ہمیں سکھائے۔

قرآن کریم، فرقان حمید میں کئی ایسی آیات مبارکہ ہیں جن کو اللہ پاک نے اپنے پیارے نبی ﷺ کی بارگاہ کے آداب سے متعلق، مجلس میں گفتگو کرنے سے متعلق، آپ کی مجلس میں بیٹھنے سےمتعلق احکامات نازل فرمائےہیں۔ جہاں پیارے آقا کی تعظیم کا ذکر کیا وہاں قرآن مجید نے اس چیز سے بھی منع فرمایا کہ اگر کسی جملے کے اندریاکسی کلمے کے اندر کسی بے ادبی کا شائبہ پایا جاتا ہو تو ایسا کلمہ پیارے آقا کے شایان شان نہیں، لہٰذا ا س کو بولنے کی بالکل اجازت نہیں اگر چہ اس لفظ کا درست معنی بھی موجود ہو اسے اسی وجہ سے ختم کر دیا کہ جس کے اندر بے ادبی کا ادنی سا شائبہ بھی پایا جاتا ہے وہ میرے حبیب کی شان کے لائق نہیں، جیسے ارشاد باری ہے:

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴) (البقرۃ:104) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو ! ر اعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔

2۔ پیارے آقا ﷺکیلئےراعنا کالفظ بولنے سےمنع فرما دیا گیا۔ قرآن کریم کی دیگر آیات بھی ہیں کہ جن میں تعظیمِ مصطفٰے بیان کی گئی تو فرمایا گیا: لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ- (پ26،الفتح:9)ترجمہ کنز الایمان: تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیرکرو۔ علما لکھتے ہیں: ان کلمات کی ترتیب دیکھئے تو پہلے ایمان باللہ،پھرایمان بالرسل کا ذکر ہوا۔اگر ایمان باللہ تو مگر ایمان بالرسل نہ ہو تو کچھ بھی نہیں ہے۔ پھر اس کے بعد سب سے پہلےجس چیز کا حکم دیا کیا وہ پیارے آقا ﷺکی تعظیم آپ کی توقیر کا حکم فرمایا گیا۔پھر اس کے بعد ذکر کیا کہ صبح و شام تسبیح بولو۔

فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِهٖ وَ عَزَّرُوْهُ وَ نَصَرُوْهُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ مَعَهٗۤۙ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۠(۱۵۷) (الاعراف: 157) ترجمہ کنز الایمان: تو وہ جو اس پر ایمان لائیں اور اس کی تعظیم کریں اور اسے مدد دیں اور اس نور کی پیروی کریں جو اس کے ساتھ اُترا وہی بامراد ہوئے۔

اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰىؕ-لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ اَجْرٌ عَظِیْمٌ(۳) ( الحجرات:3 ) ترجمہ کنز الایمان: بے شک وہ جو اپنی آوازیں پست رکھتے ہیں رسول اللہ کے پاس وہ ہیں جن کا دل اللہ نے پرہیزگاری کے لیے پرکھ لیا ہے ان کے لیے بخشش اور بڑا ثواب ہے۔


ہمارے پیارے پیارے آقا، مکی مدنی مصطفٰے ﷺ کا ادب واحترام اور آپ کی تعظیم کرنا ایمان کی شرط اول ہے۔

محمد کی محبت دینِ حق کی شرطِ اول ہے اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نامکمل ہے

اللہ کریم کو اپنے حبیب ﷺ کا ادب واحترام اور تعظیم اس قدر عزیز اور محبوب ہے کہ اس نے اپنے حبیب کی بارگاہ اقدس کے آداب خود بیان فرمائے اور اللہ کریم نے جب بھی قرآن کریم میں کسی بھی نبی کا ذکر فرمایا تو ان کا نام لے کر فرمایا لیکن جب اپنے پیارے حبیب اور تمام انبیائے کرام علیہم السلام اور تمام ملائکہ مقربین سے افضل ہمارے پیارے آقا کا ذکر فرمایا تو آپ کا نام نہیں یاد فرمایا بلکہ آپ کو یایھا المزمل، یایھا الرسول، طہ اوریٰسٓ جیسے القابات سے مخاطب فر مایا۔اور قرآن کریم میں مختلف مقامات پر آپ ﷺ کی بارگاہ عالی کے آداب بیان فرمائے ہیں۔جیسا کہ قرآن کریم میں ارشادرب الا نام ہے۔

1- یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴) (البقرۃ:104) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو ! ر اعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔ اس آیت مبارکہ کی تفسیر کا خلاصہ یہ ہے کہ جب حضور اقدسﷺ صحابہ کرام کو کچھ فرما رہے ہوتے تو کبھی کبھی وہ عرض کرتے: راعنا یا رسول اللہ! یعنی یا رسول اللہ ہماری رعایت فرمائیے۔ اور یہودیوں کی زبان میں یہ لفظ بے ادبی کے لئے استعمال ہوتا تھا تو انہوں نے اسے بے ادبی کے لئے کہنا شروع کر دیا، اس لئے یہ آیت کریمہ نازل ہوئی کہ راعنا نہ کہو اور” انظرنا “ کہنے کا حکم ہوا۔

معلوم ہو!ا پیارے آقاﷺ کے دربار عالی میں ادب کا لحاظ رکھنافرض ہے کہ ایسے الفاظ جن کے ایک معنی اچھے اور دوسرے معنی غلط یعنی برے ہوں تو ایسے الفاظ حضور اقدس ﷺ کی بارگاہ عالیہ میں استعمال نہ کئے جائیں۔ اس کے علاوہ سورہ حجرات، آیت نمبر4 میں ارشادخداوندی ہے:

2- اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ(۴) (الحجرات: 4) ترجمہ کنز الایمان: بےشک وہ جو تمہیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں۔ اس آیت مبارکہ کا پس منظر کچھ اس طرح ہے کہ ایک مرتبہ بنو تمیم کے چند افراد حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اس وقت حضور آرام فرما رہے تھےتو ان لوگوں نے حجرے کے باہر کھڑے ہوکر آپ کو پکارنا شروع کر دیا حتی کہ آپ باہر تشریف لے آئے، ان لوگوں کے بارے میں یہ آیت کریمہ نازل ہوئی اور پیارے آقا کی شان عزت کو بیان فرمایا کہ آپ کی بارگاہ میں اس طرح پکارنا سراسر جہالت و بے عقلی ہے۔ (الحجرات:15-16)

اسی آیت کریمہ کے بعد والی آیت میں اللہ پاک فرماتا ہے:

3- وَ لَوْ اَنَّهُمْ صَبَرُوْا حَتّٰى تَخْرُ جَ اِلَیْهِمْ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۵) (الحجرات: 4) ترجمہ: اور اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ آپ اُن کے پاس تشریف لاتے تو یہ اُن کے لیے بہتر تھا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔اس آیت مبارکہ میں ان لوگوں کو ادب کی تلقین فرمائی گئی جنہوں نے حضور ﷺ کا انتظار کرنے کی بجائے انہیں پکارا بلکہ انہیں چاہئے تھا کہ حضور کو پکارنے کی بجائے آپ کے حجرے سے باہر تشریف لانے کا انتظار کرتے، یہ ادب کرنا ان کے لئے بہتر تھا۔اسی سورت کے شروع میں رب کریم فرماتا ہے۔

4- یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(۱)(پ 26، الحجرات:1) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول سے آ گے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بےشک اللہ سُنتا جانتا ہے۔ اس آیت مبارکہ سے جو باتیں معلوم ہوئیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو لیکن اللہ پاک سے آگے بڑھنا تو ممکن ہی نہیں کہ وہ مکان وز مان سے پاک ہے اور آگے بڑھنا زمان و مکان میں ہوتا ہے اس لئے معلوم ہوا کہ اس آیت کا مقصودیہ ہے کہ رسولﷺ سے آگے نہ بڑ ھو کہ ان کی ادبی در حقیقت کی بے ادبی ہے۔

5-: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ (پ 26، الحجرات:2) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو! اپنی آواز یں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے۔ اس آیت کریمہ میں فرمایا گیا کہ نبی کریمﷺکی بارگاہ میں اگر کچھ عرض کرنا ہو تو اپنی آوازیں ان کی آواز سے بلند نہ کرو بلکہ جو عرض کرنا ہےآہستہ آواز سے کہو اور یہ حکم حضور کے وصال ظاہری کے بعد سے بھی قیامت تک رہے گا۔

واقعہ:امام مالک رحمۃ اللہ علیہ جب مسجد نبوی شریف میں درس حدیث دیا کرتے تو جب آپ کے حلقۂ درس کی تعداد زیادہ ہوگئی تو آپ سے عرض کی گئی کہ آپ ایک آدمی رکھ لیں جو آپ سے حدیث مبارکہ سن کر لوگوں کو سنا دیا کرے۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ اور فرمایا:رسول اللہ ﷺ کی عزت و حرمت زندگی اور وفات دونوں میں برابر ہے اس لئے میں کسی شخص کو یہاں آواز بلند کرنے کے لئے مقرر نہیں کر سکتا۔

اللہ کریم ہمیں بھی اخلاص کے ساتھ اپنے پیارے حبیب ﷺ کا ادب واحترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ 


ہمیں ہر روز کسی نہ کسی بلند رتبہ شخصیت کے سامنےحاضری کا موقع ملتا رہتا ہے اور اس شخصیت کے شایان شان حاضری کے آداب بھی ملحوظ خاطر رکھنے ہوتے ہیں۔ والدین، اساتذہ اور دیگر بھی ہستیاں جن سے ہمیں روزانہ کی بنیاد پر ملنا ہوتا ہے ان کے آداب اور حقوق کو مدنظر رکھنا ہمارےلیے ضروری ہے۔ اللہ پاک کے آخری نبی، محبوب مدنی، محمد عربی ﷺ کی بار گا عز و جاہ کی بابرکت اور مقدس حاضری کے بھی آداب ہیں جو رب کریم نے ہی بنائے اور خود اسی نے سکھائے۔ اور یہ آداب انسانوں پر ہی جاری نہیں بلکہ جنوں انسانوں اور فرشتوں سب پر جاری ہیں اور کسی خاص وقت تک مخصوص نہیں بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جاری ہوئے۔ رب کریم اپنے لاریب کلام کےپارہ 26 سورہ حجرات کی آیات میں اپنے محبوب کی امت کو بارگاہ محبوب میں حاضری کے آداب سکھاتے ہوئے فرماتا ہے:

پہلا ادب: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(۱)(پ 26، الحجرات:1) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول سے آ گے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بےشک اللہ سُنتا جانتا ہے۔

مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کا شان نزول بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس آیت کا شان نزول کچھ بھی ہو مگریہ حکم سب کو عام ہے یعنی کسی بات میں کسی بھی کام میں حضور سے آگے ہونا منع ہے۔

علامہ اسماعیل حقی فرماتے ہیں:علمائے کرام چونکہ انبیائے کرام کے وارث ہیں اس لئے ان سے آگے بڑھنا بھی منع ہے۔اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: حضور ﷺ نے مجھے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سےآگے چلتے دیکھا تو ارشادفرمایا: اے ابو در داء! کیا تم اس کے آگے چلتے ہو جو تم میں بلکہ ساری دنیا سے افضل ہے۔

دوسرا ادب: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲)(پ 26، الحجرات:2) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو !اپنی آواز یں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلا کرنہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت ہو جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔

وضاحت: اس آیت کریمہ میں ایمان والوں کو حبیبِ کریم ﷺ کے 2 عظیم آداب سکھائے گئے۔

پہلا یہ کہ جب تم سے نبی ﷺکلام فرمائیں اور تم ان کی بارگاہ میں کچھ عرض کرو توتم پر لازم ہےکہ تمہاری آوازان کی آواز سے بلند نہ ہو بلکہ جو عرض کرنا ہو وہ پست آواز سے کرو۔

دوسرا ادب یہ کہ حضور ﷺ کو ندا کرنے میں ادب و تعظیم اور توصیف و تکریم کے کلمات اور عظمت والے القاب کے ساتھ عرض کرو۔ جیسے یوں کہو:یارسول اللہ!،یانبی اللہ! کیونکہ ترکِ ادب کے سبب نیکیوں کے برباد ہونے کا اندیشہ ہے اور اس کی تمہیں خبر بھی نہ ہوگی۔(تفسیر سورهٔ حجرات، 5/6)

تیسرا ادب: اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰىؕ-لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ اَجْرٌ عَظِیْمٌ(۳) ( الحجرات:3 ) ترجمہ کنز الایمان: بے شک وہ جو اپنی آوازیں پست رکھتے ہیں رسول اللہ کے پاس وہ ہیں جن کا دل اللہ نے پرہیزگاری کے لیے پرکھ لیا ہے ان کے لیے بخشش اور بڑا ثواب ہے۔

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ:اس آیت مبارکہ کے نازل ہونے کے بعد صحابہ کرام نے بہت احتیاط لازم کر لی اور سر کار دو عالم ﷺ کی خدمت مبارکہ میں بہت ہی پست آواز سے عرض و معروض کرتے تو یہ آیت کریمہ صحابہ کرام کی حوصلہ افزائی میں نازل ہوئی۔

تمام عبادات بدن کا تقویٰ ہیں اور حضور اقدسﷺ کی تعظیم دل کا تقوی ٰہے۔اللہ پاک نے صحابہ کرام کے دل پرہیز نگاری کیلئے پرکھ لئے ہیں تو جو معاذ اللہ انہیں فاسق کہے وہ اس آیت ِمبارکہ کا منکر ہے۔

چوتھا ادب: اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ(۴) (الحجرات: 4) ترجمہ کنز الایمان: بےشک وہ جو تمہیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں۔ اس آیتِ مبارکہ کا شانِ نزول یہ ہے کہ بنو تمیم کے چند لوگ دوپہر کے وقت حضور کی خدمت میں پہنچے۔اس وقت حضور آرام فرما رہے تھے۔ ان لوگوں نے حجروں کے باہر سے حضور کو پکارنا شروع کر دیا توحضور باہر تشریف لے آئے۔ ان لوگوں کے بارے میں یہ آیتِ مبارکہ نازل ہوئی اور حضور ﷺ کی جلالت شان کو بیان فرمایا کیا کہ ان کی بارگاہِ اقدس میں اس طرح پکارنا جہالت اور بے عقلی ہے۔

پانچواں ادب: وَ لَوْ اَنَّهُمْ صَبَرُوْا حَتّٰى تَخْرُ جَ اِلَیْهِمْ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۵) (الحجرات: 4) ترجمہ: اور اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ آپ اُن کے پاس تشریف لاتے تو یہ اُن کے لیے بہتر تھا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔اس آیتِ مبارکہ میں ان لوگوں کو ادب کی تلقین کی گئی ہے کہ انہیں رسولِ کریم ﷺ کو پکارنے کی بجائے صبر اور انتظار کرنا چاہیے تھا یہاں تک کہ حضور خود ہی مقدس حجرے سے باہر تشریف لے آتے۔ اس کے بعد یہ اپنی عرض پیش کرتے تویہ ان کے لیے بہتر تھا اور جن سے یہ بے ادبی سرزد ہوئی اگر وہ توبہ کریں تو اللہ پاک انہیں بخشنے والا مہر بانی فرمانے والا ہے۔

واقعہ:حضرت سلیمان بن حرب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:ایک دن حضرت حماد رحمۃ اللہ علیہ نے حدیثِ مبارکہ بیان کی تو ایک شخص کسی چیز کے بارے میں کلام کرنے لگ گیا۔ اس پر حماد رحمۃ اللہ علیہ غضبناک ہوئے اور کہا:اللہ پاک فرماتا ہے: لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ ترجمہ کنز العرفان:اپنی آوازیں نبی کی آواز پر اونچی نہ کرو۔ اور میں کہہ رہا ہوں کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا، جبکہ تم کلام کر رہے ہو!یعنی آواز اگرچہ میری ہے لیکن کلام تو حضور کا ہے۔ پھر تم اس کلام کو سنتے ہوئے کیوں گفتگو کر رہے ہو؟

اللہ پاک ہمیں بھی پیارے حبیب کے صدقے اپنے حبیب ﷺ کا فرمانبردار اور با ادب بنائے۔آمین


قرآنِ کریم میں جہاں الله پاک کے آخری نبی ﷺ کی سیرت طیبہ کا بیان ہے وہیں آپ ﷺکی اطاعت واتباع کا حکم بھی ہے۔ اسی طرح سرکار دو عالمﷺ کے سامنے ادب واحترام کے تقاضے بجالانے کی تعلیم بھی ملتی ہے۔ آیات مبارکہ اس پر شاہد ہیں کہ اہل ایمان پر نبی آخر الزمان ﷺ کا ادب کرنا اور آپ ﷺ کی تعظیم کو ہر حال میں ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے۔

حضور اکرم ﷺ کی بارگاہ میں بلند آواز کرنے کو حرام قرار دیا گیا۔ قرآنِ پاک میں ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) ترجمہ کنز العرفان:اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز پر اونچی نہ کرو اور ان کے حضور زیادہ بلند آواز سے کوئی بات نہ کہوجیسے ایک دوسرے کے سامنے بلند آواز سے کرتے ہو کہ کہیں تمہارے اعمال بر باد نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔(پ 26، الحجرات: 2)اس آیت مبارکہ کے نزول کے بعد حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ بارگاہ رسالت میں عرض گزار ہوئے: اللہ کی قسم! آئندہ میں آپ ﷺ سے سرگوشی کے انداز میں بات کیا کروں گا!

کسی عمل میں پیش قدمی نہ کریں:ا للہ پاک نے قرآنِ پاک میں ارشاد فرمایا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(۱) ترجمہ: اے ایمان والو! الله اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بے شک الله سنتا اور جانتا ہے۔( الحجرات)

شان نزول: ابن المنذر نے حسن کا بیان نقل کیا ہے کہ قربانی کے دن کچھ لوگوں نے حضور اکرم ﷺ سے پہلے قربانی کر دی تو آپ ﷺنے دوبارہ ان کو قربانی کرنے کا حکم ارشاد فرمایا اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

راعنا کہنے کی ممانعت: حضور اکرم ﷺ کی تعظیم و توقیر کرنا اور آپ کی بارگاہ میں کلمات ادب عرض کرنا فرض ہے۔ ایسے الفاظ جن سے ترک ادب کا شائبہ بھی ہو وہ الفاظ زبان پر لانا ممنوع ہے۔ قرآنِ پاک میں اللہ پاک کا ارشاد ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴) (البقرۃ: 104)ترجمہ: اے ایمان والو! راعنا نہ کہواور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔

آپﷺکے بلانے پر حاضری کا حکم: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا یُحْیِیْكُمْۚ- (پ 9، الانفال: 24 )ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کے بلانےپر حاضر ہو۔ جب رسول تمہیں اس چیز کے لیے بلائیں جو تمہیں زندگی بخشے گی۔اس آیت کریمہ سے ثابت ہوا کہ رسول اللہ ﷺکا بلانا الله پاک کا بلانا ہی ہے۔

تعظیمِ مصطفٰے ایمان کا لازمی جز ہے:پاره26 سورہ فتح کی آیت نمبر 8 اور 9 میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ- ترجمہ کنز الایمان: بے شک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو تم اللہ اوراس کے رسول کی تعظیم و توقیر کرو۔ان دونوں آیات میں اللہ پاک نے رسول اکرم ﷺ کی رسالت ان کے حاضر و ناظر ہونے اور ان پر ایمان لانےکے بیان کے ساتھ ساتھ اپنے پیارے حبیب، احمد مجتبیٰ ﷺ کی تعظیم و تکریم کا حکم دیا ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ ایمان کے ساتھ الله پاک کے آخری نبی، مکی مدنیﷺکی تعظیم فرض ہے۔


حضرت محمدﷺ کی ذات انتہائی احترام کی متقاضی ہے۔ آپ اللہ پاک کے بندے اور رسول ہیں۔تاہم اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ جس طرح مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ پیش آتے ہیں حضور اکرم ﷺ کے ساتھ بھی وہی انداز اختیار کریں۔

ارشاد ہوا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(۱) (الحجرات:1 )ترجمہ: اے ایمان والو!اللہ اور اس کے رسول کے آگے پیش قدمی نہ کرو اللہ سے ڈرو اللہ سب کچھ سننے اور جانے والا ہے۔

نبی کریم ﷺ کے سامنے آواز بلند کرنے کی ممانعت کا مطلب ہے کہ حضور کا احترام ملحوظ ہے اور یہ بھی مطلب ہو سکتا ہے کہ جو حضور کا احترام نہیں کرتا وہ الله پاک کا احترام نہیں کرتا۔

سورۂ حجرات کی ابتدائی آیات میں نبی ﷺ سے آگے بڑھنے،بلند آواز سے گفتگو کرنے اور آرام میں مخل ہونے کو زندگی بھر کے اعمال ضائع ہونے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ بلا شبہ حضور اکرم ﷺ کا احترام اور مقام، مال و دولت، والدین، اولاد گو یاہر شے سے بڑھ کر ہے۔ ادب، آداب کے اہتمام کے حوالے سے ارشاد ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴) (پ2،البقرۃ:104) ترجمہ: اے لوگو !جو ایمان لائے ہو را عنا نہ کہا کروبلکہ انظرنا کہو اور توجہ سے بات سنویہ کافر تو عذاب الیم کے مستحق ہیں۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:جب یہ آیت” یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ“ نازل ہوئی تو میں نے عرض کی: یارسول اللہ! اللہ پاک کی قسم! آئندہ میں آپ سے سرگوشی کے انداز میں بات کیا کروں گا۔ (کنز العمال،1/214)

حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: یہ آیت نازل ہونے کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا حال یہ تھا کہ آپ رسول کریم ﷺکی بارگاہ میں بہت آہستہ آواز سے بات کرتے حتی کہ بعض اوقات خود حضور اکرم ﷺکوسمجھنے کے لئے دوبارہ پوچھنا پڑتا کہ کیا کہتے ہو؟ (ترمذی، 5/177)

ان آداب کو بجالانے کا درس:توحید کا نور صرف انہی دلوں میں اتارا جاتا ہے جن میں ادب مصطفےٰ ہوتا ہے یعنی ادبِ مصطفٰے کا صلہ نور توحیدسے ملتا ہے۔ بے ادبی کفر ہے اور ادب مصطفٰے عین توحیدہے۔ گویا یہ بات واقع ہوگئی کہ جس نے اللہ کی توحیدکو سمجھنا ہو وہ حضور کے آداب کو اپنا لے۔جو دل اللہ کی توحید کے لیے منتخب کر لیے جاتے ہیں وہی انوارالٰہی کی منزل ہوتے ہیں۔لہٰذا کوئی توحید کے بارے میں پوچھے تو جواب ہے ” ادب مصطفیٰ “اور سب سے بڑا کفر بے ادبی مصطفٰے ہے۔یہ درس وہ ہے جو ادب والے عمر بھر دیتے رہے۔ اسی درس کو اپنائیے، اس سے سارے اعمال صالحہ مقبول اور نور بن جائیں گئے۔ اللہ پاک ہمیں ایمان کے اس اصلی جوہر کو پانے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ


حضرت محمد ﷺ کی ذات انتہائی احترام کی متقاضی ہے۔ آپ الله پاک کے بندے اور رسول ہیں۔تاہم اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ جس طرح مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ پیش آتے ہیں۔حضور اکرم ﷺ کے ساتھ بھی وہی انداز اختیار کریں۔

ارشاد ہوا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(۱) ( الحجرات: 42 ) ترجمہ: اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، الله اور اس کے رسول کے آگے پیش قدمی نہ کرو اور الله سے ڈرو، اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔

نبی محترم ﷺ کے سامنے آواز بلند کرنے کی ممانعت کا مطلب یہ ہے کہ حضور اکرم ﷺ کا احترام ملحوظ رہے کیوں کہ رُوگردانی کی صورت میں زندگی بھر کی کمائی ضائع ہونے کا اندیشہ ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جو حضور کا احترام نہیں کرتا وہ اللہ پاک کا احترام نہیں کرتا۔سورۃ الحجرات کی ابتدائی آیات میں نبیﷺ سے آگے بڑھنے، بلند آواز سے گفتگو کرنے اور آرام میں مخل ہونے کو زندگی بھر کے اعمال ضائع ہونے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ بلا شبہ حضور کا احترام اور مقام،مال و دولت،والدین، اولاد گویا ہر شے سے بڑھ کر ہے۔ ادب و آداب کے اہتمام کے حوالے سے ارشاد ربانی ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴) (پ2،البقرۃ:104) ترجمہ: اے لوگو!جو ایمان لائے ہوئے ہوراعنا نہ کہا کرو بلکہ انظرنا کہو اور توجہ سے بات سنو، یہ کافر تو عذاب الیم کے مستحق ہیں۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:جب یہ آیت یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ نازل ہوئی تو میں نے عرض کی: یارسول اللہﷺ! اللہ پاک کی قسم! آئندہ میں آپ سے سرگوشی کے انداز میں بات کیا کروں گا۔ (کنز العمال،1/214)

حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: یہ آیت نازل ہونے کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا حال یہ تھا کہ آپ رسول کریم ﷺکی بارگاہ میں بہت آہستہ آواز سے بات کرتے حتی کہ بعض اوقات خود حضور اکرم ﷺکوسمجھنے کے لئے دوبارہ پوچھنا پڑتا کہ کیا کہتے ہو؟ (ترمذی، 5/177)

ان آداب کو بجالانے کا درس:توحید کا نور صرف انہی دلوں میں اتارا جاتا ہے جن میں ادب مصطفٰےﷺ ہوتا ہے یعنی ادبِ مصطفٰے کا صلہ نور توحیدسے ملتا ہے۔ بے ادبی کفر ہے اور ادب مصطفٰے عین توحیدہے۔ گویا یہ بات واقع ہوگئی کہ جس نے اللہ کی توحیدکو سمجھنا ہو وہ حضور ﷺکے آداب کو اپنا لے۔جو دل اللہ کی توحید کے لیے منتخب کر لیے جاتے ہیں وہی انوارالٰہی کی منزل ہوتے ہیں۔لہٰذا کوئی توحید کے بارے میں پوچھے تو جواب ہے ” ادب مصطفی “اور سب سے بڑا کفر بے ادبی مصطفٰے ہے۔یہ درس وہ ہے جو ادب والے عمر بھر دیتے رہے۔ اسی درس کو اپنائیے، اس سے سارے اعمال صالحہ مقبول اور نور بن جائیں گے۔ اللہ پاک ہمیں ایمان کے اس اصلی جوہر کو پانے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ

آدابِ نیوی کے حوالے سے واقعہ: صحابہ کرام کے ہاں آقا ﷺ کی عظمت کا عقیدہ یہ تھا کہ اُس میں کوئی حد ان کے ساتھ نہیں رہتی تھی۔ حضرت اُم المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاکامعمول یہ تھا کہ جب حضور کاوصال ہو گیا تو مسجد نبوی میں اگر کوئی تعمیر کے دوران کبھی کوئی کیل لگانا پڑ جاتی تھی توکیل لگانے کی تھوڑی سے آواز سے بھی آپ منع فرماتیں کہ خبردار! اس آواز سے آقا کو تکلیف ہو رہی ہےیعنی مسجد کے اندر صحابہ کرام کو کیل تک لگانے کی اجازت نہیں تھی کہ اُس کی آواز سے آپ کے آرام میں خلل آ رہا ہے۔آقا سے محبت،آپ کا ادب، تعظیم وتکریم اس درجے کی ہو تو ایمان، عقیدہ اور اسلام قائم و دائم اور محفوظ رہتا ہے۔ ہمیں دل سے پیارے آقا کی تعظیم کرنی چاہیے۔ اللہ پاک غلطی اور بے ادبی سے بچائے۔ آمین