کتاب اللہ میں بارگاہ نبوی کے بہت سے آداب بیان کیے گئے ہیں۔ آقاﷺ کی بارگاہ میں بلند آواز سے بات کرنا ادب کے خلاف ہے۔ لہٰذا پیارے آقا کی بارگاہ میں گفتگو کرنے کےجو آداب کتاب اللہ میں بیان ہوئے ان کو بجالانا ہر مسلمان پر لازم ہے۔

آیات مبارک:

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(۱)(پ 26، الحجرات:1) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول سے آ گے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بےشک اللہ سُنتا جانتا ہے۔

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲)(پ 26، الحجرات:2) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو !اپنی آواز یں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلا کرنہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت ہو جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ یعنی تمہیں لازم ہے کہ اصلاً تم سے تقدیم واقع نہ ہو،نہ قول میں نہ فعل میں کہ تقدیم کرنا رسول اللہ ﷺکے ادب واحترام کے خلاف ہے۔

اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰىؕ-لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ اَجْرٌ عَظِیْمٌ(۳) ( الحجرات:3 ) ترجمہ کنز الایمان: بے شک وہ جو اپنی آوازیں پست رکھتے ہیں رسول اللہ کے پاس وہ ہیں جن کا دل اللہ نے پرہیزگاری کے لیے پرکھ لیا ہے ان کے لیے بخشش اور بڑا ثواب ہے۔

تفسیر:یہ آیت” یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ “ نازل ہونے کے بعد حضرت ابو بکر صدیق و عمرفاروق رضی اللہ عنہما اور دیگر صحابہ کرام نے بہت احتیاط لازم کرلی اور خدمت اقدس میں بہت پست آواز سے عرض معروض کرتے ان حضرات کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی-

اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ(۴) (الحجرات: 4) ترجمہ کنز الایمان: بےشک وہ جو تمہیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں۔

تفسیر: یہ آیت وفد بنی تمیم کے حق میں نازل ہوئی کہ رسول کریم ﷺ کی خدمت میں دوپہر کے وقت پہنچے جبکہ حضور آرام فرمارہے تھے۔ ان لوگوں نےحجروں کے باہر سے حضور ﷺکو پکارنا شروع کردیا، حضور باہرتشریف لے آئے۔ نیز اجلالِ شان رسول اللہ کابیان فرمایا گیا کہ بارگاہ اقدس میں اس طرح پکار ناجہالت و بے عقلی ہے اور ان لوگوں کو ادب کی تلقین کی گئی۔

وَ لَوْ اَنَّهُمْ صَبَرُوْا حَتّٰى تَخْرُ جَ اِلَیْهِمْ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۵) (الحجرات: 4) ترجمہ: اور اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ آپ اُن کے پاس تشریف لاتے تو یہ اُن کے لیے بہتر تھا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

تفسیر:اس وقت وہ عرض کرتے جو انہیں عرض کرنا تھا یہ ادب ان پر لازم تھا۔ اس کو بجالائیں ان میں سے اُن کے لیے جو توبہ کریں۔