محمد زین ( درجۂ ثالثہ جامعۃُ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور
، پاکستان)

نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم کا انداز تربیت بہت ہی نرالا ہے۔کبھی آپ وعید سنا کر تربیت
فرماتے تو کبھی خوشخبری سنا کر دل کو چین بخشتے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی
بہت سی احادیث مبارکہ ایسی ملتی ہیں جن میں آپ نے لفظ ابغض یعنی نا پسندیدہ چیزوں
کے متعلق بتلایا آئیے ان احادیث میں سے چند کا مطالعہ کرتے ہیں:
(1)
انصار صحابہ کرام سے محبت کی فضیلت: عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رَضِيَ اللهُ
عَنْهُمَا عَنِ النَّبيّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنَّهُ قَالَ فِی
الْاَنْصَارِ : لَا يُحِبُّهُمْ اِلَّا مُؤْمِنٌ وَلَا يُبْغِضُهُمْ اِلاَّ
مُنَافِقٌ مَنْ اَحَبَّهُمْ اَحَبَّهُ اللهُ وَمَنْ اَبْغَضَهُمْ اَبْغَضَهُ اللهُ
ترجمہ : حضرت سیدنا براء بن
عازب رضی اللہ عنہما سے مَروی ہے کہ حسن اَخلاق کے پیکر ، محبوبِ رَبِّ اکبر ﷺنے
انصار کے بارے میں ارشاد فرمایا : ’’ ان سے مؤمن ہی محبت رکھے گا اور منافق ہی بغض
رکھے گا اور جو اِن سے محبت کرے اللہ عَزَّوَجَلَّ اس سے محبت فرماتا ہے اور جو ان
سے بغض رکھے اللہ عَزَّوَجَلَّ اسے ناپسند فرماتا ہے ۔ (کتاب:فیضان ریاض الصالحین
جلد:4 ,صفحہ247 ،حدیث نمبر:380)
(2)
محبوب الٰہی محبوب جبریل: عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ عَنِ
النَّبِىِّ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم قَالَ : اِذَا اَحَبَّ
اللَّهُ تَعَالٰی الْعَبْدَ نَادَى جِبْرِيلَ : اِنَّ اللَّهَ تَعَالٰی يُحِبُّ
فُلاَنًا فَاَحْبِبْهُ فَيُحِبُّهُ جِبْرِيْلُ فَيُنَادِى فِى أَهْلِ السَّمَاءِ :
اِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ فُلاَنًا فَاَحِبُّوهُ فَيُحِبُّهُ اَهْلُ السَّمَاءِ ثُمَّ
يُوضَعُ لَهُ الْقَبُولُ فِى الْاَرْضِ. وَفِيْ رِوَايَةٍ لِمُسْلِمٍ : قَالَ
رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم : اِنَّ اللَّهَ تَعَالٰی اِذَا
اَحَبَّ عَبْدًا دَعَا جِبْرِيْلَ فَقَالَ : اِنِّي اُحِبُّ فُلَانًا فَاَحْبِبْهُ
فَيُحِبُّهُ جِبْرِيلُ ثُمَّ يُنَادِي فِي السَّمَاءِ فَيَقُولُ : اِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ
فُلَانًا فَاَحِبُّوْهُ فَيُحِبُّهُ اَهْلُ السَّمَاءِ ثُمَّ يُوضَعُ لَهُ
الْقَبُولُ فِي الْاَرْضِ وَاِذَا اَبْغَضَ عَبْدًا دَعَا جِبْرِيلَ فَيَقُولُ:
اِنِّي اُبْغِضُ فُلَانًا فَاَبْغِضْهُ فَيُبْغِضُهُ جِبْرِيلُ ثُمَّ يُنَادِي فِي
أَهْلِ السَّمَاءِ اِنَّ اللَّهَ يُبْغِضُ فُلَانًا فَاَبْغِضُوهُ فَيُبْغِضُہُ
اَھْلُ السَّمَاءِ ثُمَّ تُوضَعُ لَهُ الْبَغْضَاءُ فِي الْاَرْضِ
ترجمہ:-
حضرتِ سَیِّدُنا ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ حضور نبی
اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا : ’’اللہ عَزَّوَجَلَّ جب کسی بندے سے محبت فرماتا ہے تو جبریل کو
ندا دیتا ہے کہ بے شک اللہ عَزَّوَجَلَّ فلاں بندے سے محبت فرماتا ہے لہٰذا تم بھی
اس سے محبت کرو چنانچہ جبریل بھی اس سے محبت کرتے ہیں پھر حضرت جبریل عَلَیْہِ
السَّلَام آسمان والوں میں ندا کرتے ہیں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ فلاں شخص سے محبت
فرماتا ہے لہٰذا تم بھی اس سے محبت کرو ، پس آسمان والے بھی اس سے محبت کرتے ہیں
پھر زمین میں اسے مقبول بنادیا جاتا ہے ۔‘‘مسلم شريف کی روايت میں ہے :حضرتِ سَیِّدُنا
ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ دو عالم کے مالک ومختار ،
مکی مَدَنی سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا
: ”اللہ عَزَّوَجَلَّ جب کسی بندے سے محبت فرماتا ہے تو جبریل امین عَلَیْہِ
السَّلَام کو بلاکر فرماتا ہے کہ بے شک میں فلاں آدمی سے محبت کرتا ہوں لہٰذا تم
بھی اس سے محبت کرو ۔ چنانچہ جبریل امین بھی اس سے محبت کرتے ہیں پھر حضرت جبریل
عَلَیْہِ السَّلَام آسمان والوں میں ندا کرتے ہیں کہ ’’اللہ عَزَّوَجَلَّ فلاں شخص
سے محبت فرماتا ہے لہذا تم بھی اس سے محبت کرو ‘‘پس آسمان والے بھی اس سے محبت
کرتے ہیں ، پھر زمین میں اسے مقبول بنادیا جاتا ہے ۔اللہ عَزَّوَجَلَّ جب کسی بندے
کو ناپسند فرماتا ہے تو جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کو بلاکر فرماتا ہے کہ میں فلاں
شخص کو ناپسند کرتا ہوں لہٰذا تم بھی اسے ناپسند کرو ۔ چنانچہ جبریل عَلَیْہِ
السَّلَام بھی اسے ناپسند کرتے ہیں پھر وہ آسمان والوں میں اعلان کرتے ہیں
کہ’’اللہ عَزَّوَجَلَّ فلاں شخص کو ناپسند فرماتا ہے لہٰذا تم لوگ بھی اسے ناپسند
کرو ۔ ‘‘ پھر آسمان والے بھی اس سے ناپسند کرتے ہیں پھر زمین میں بھی اس کے لیے
ناپسندیدگی رکھ دی جاتی ہے ۔ ‘‘ (کتاب:فیضان ریاض الصالحین,جلد:4 , صفحہ 283,حدیث
نمبر:387)
(3)
بروز قیامت قرب مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہ
عَنْہُ اَنَّ رَسُولَ الله صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہِ وَسَلَّم قَالَ: اِنَّ مِنْ
اَحَبِّكُمْ اِليَّ ،وَاَقْرَبِكُمْ مِنِّي مَجْلِسًا يَوْمَ القِيَامَةِ،
اَحَاسِنَكُم اَخْلاَقًا، وَاِنَّ اَبْغَضَكُمْ اِلَيَّ وَاَبْعَدَكُمْ مِنِّي
يَوْمَ القِيَامَةِ، اَلثَّرْثَارُوْنَ وَالمُتَشَدِّقُونَ وَالمُتَفَيْهِقُوْنَ،
قَالُوْا: يَارَسُولَ اللهِ، قَدْ عَلِمْنَا الثَّرْثَارُوْنَ وَالمُتَشَدِّقُونَ،
فَمَا الْمُتَفَيْهِقُوْنَ؟ قَالَ:اَلْمُتَكَبِّرُونَ
ترجمہ:-
حضرتِ سَیِّدُنا جابر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سےمروی ہے کہ نور کے پیکر، تمام
نبیوں کے سَرْوَر صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم نے ارشاد فرمایا:”تم
میں سے میرے نزدیک سب سے زیادہ محبوب اور قیامت کے دن میرے سب سے زیادہ قریب بیٹھنے
والے وہ لوگ ہوں گے جن کے اَخلاق سب سے اچھے ہیں اور تم میں سے میرے نزدیک سب سے زیادہ
نا پسندیدہ اور قیامت کے دن مجھ سے سب سے زیادہ دور وہ ہوں گےجو زیادہ بولنے
والے،زبان درازی کرنے والے اور بڑھا چڑھا کر باتیں کرنے والے ہوں گے۔صحابہ کرام
عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے عرض کیا :یا رسولَ اللّٰہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم زیادہ بولنے والے اور زبان درازی کرنے والے کو تو ہم نے جان لیا
لیکن یہ بڑھا چڑھا کر باتیں کرنے والے کون لوگ ہیں؟ اِرشاد فرمایا:’’تکبر کرنے
والے۔‘‘ (کتاب:فیضان ریاض الصالحین,جلد:5 ،صفحہ 528,حدیث نمبر:631)
(4)
اللہ پاک کے نزدیک نا پسندیدہ شخص : عَن عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالیٰ عَنْھَا
قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ : اِنَّ
اَبْغَضَ الرِّجَالِ اِلَی اللّٰہِ الَٔالَدُّ الْخَصمُ ترجمہ: بیشک اللہ عزوجلَّ کے نزدیک بندوں میں سے نا پسندیدہ
شخص وہ ہے جو سخت جھگڑالو ہے ۔
(5)
نا پسندیدہ حلال کون سا؟ وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: أبْغَضُ الْحَلَالِ إِلَى اللهِ الطَّلَاقُ ترجمہ : حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت
ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا" ناپسندیدہ ترین حلال
الله کے نزدیک طلاق ہے ۔(مشكوة المصابيح ، كتاب النكاح ، باب الخلع و الطلاق ،
الفصل الثانى ، جلد 5 ،حدیث نمبر 3139 ،صفحہ نمبر 136 ، مطبوعہ: مکتبہ اسلامیہ )
اللہ عزوجل
ہمیں ان احادیث پر عمل کرنے اور دوسروں تک پہنچانے اور جن کاموں کو اللہ عزوجل کے ناپسندیدہ
کام کہا ان سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم
محمد رضا عطاری ( درجۂ خامسہ جامعۃُ المدینہ فیضان فاروق اعظم سا دھو
کی لاہور ، پاکستان)

نبی کریم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بہت سی احادیث مبارکہ میں لفظ ابغض کے ذریعے سمجھایا
ہے ۔آئیے ان احادیث میں سے چند احادیث کا مطالعہ کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں:
(1)وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ
قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :أَبْغَضُ النَّاسِ
إِلٰى اللهِ ثَلَاثَةٌ: مُلْحِدٌ فِي الْحَرَمِ، وَمُبْتَغٍ فِي الإِسْلَامِ
سُنَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ، وَمُطَّلِبٍ دَمَ امْرِئٍ بِغَيْرِ حَقِّ لِيُهْرِيقَ
دَمَهُ. رَوَاهُ البُخَارِيُّ روایت
ہے حضرت ابن عباس سے فرماتے ہیں فرمایا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے: الله کی
بارگاہ میں تین شخص ناپسند ترین ہیں حرم میں بے دینی کرنے والا ،اسلام میں جاہلیت
کے طریقے کا متلاشی، مسلمان کے خون ناحق کا جویاں تاکہ اس کی خونریزی کرے۔ (بخاری،
مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:134 پہلی فصل باب قرآن وسنت مضبوطی سے پکڑنا
صفحہ نمبر27)
(2)عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ
عَازِبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا عَنِ النَّبيّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ
اَنَّهُ قَالَ فِی الْاَنْصَارِ : لَا يُحِبُّهُمْ اِلَّا مُؤْمِنٌ وَلَا يُبْغِضُهُمْ
اِلاَّ مُنَافِقٌ مَنْ اَحَبَّهُمْ اَحَبَّهُ اللهُ وَمَنْ اَبْغَضَهُمْ
اَبْغَضَهُ اللهُ حضرت سیدنا براء
بن عازب رضی اللہ عنہ سے مَروی ہے کہ حسن اَخلاق کے پیکر ، محبوبِ رَبِّ اکبرﷺ نے انصارکے
بارے میں ارشادفرمایا : ان سے مؤمن ہی محبت رکھے گا اور منافق ہی بغض رکھے گا اور
جو اِن سے محبت کرےاللہ پاک اس سے محبت فرماتا ہے اور جو ان سے بغض رکھےاللہ عَزَّ
وَجَلَّ اسے ناپسند فرماتاہے۔ (فیضان ریاض الصالحین جلد:4 , حدیث نمبر:380 اللہ کیلے
محبت کرنے کا بیان صفحہ نمبر 247 مکتبۃ المدینہ)
(3)عَنْ عُمَرَ بْنِ
الْخَطَّابِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
إِنَّهٗ تُصِيبُ أُمَّتِي فِي آخِرِ الزَّمَانِ مِنْ سُلْطَانِهِمْ شَدَائِدُ لَا
يَنْجُو مِنْهُ إِلَّا رَجُلٌ عَرَفَ دِينَ اللّٰهِ فَجَاهَدَ عَلَيْهِ
بِلِسَانِهٖ وَيَدِهٖ وَقَلْبِهٖ فَذٰلِكَ الَّذِي سَبَقَتْ لَهُ السَّوَابِقُ
وَرَجُلٌ عَرَفَ دِينَ اللّٰهِ فَصَدَّقَ بِهٖ وَرَجُلٌ عَرَفَ دِينَ اللّٰهِ
فَسَكَتَ عَلَيْهِ فَإِنْ رَأٰى مَنْ يَعْمَلُ الْخَيْرَ أَحَبَّهٗ عَلَيْهِ
وَإِنْ رَأٰى مَنْ يَعْمَلُ بِبَاطِلٍ أَبْغَضَهٗ عَلَيْهِ فَذٰلِكَ يَنْجُو عَلٰى
إِبْطَانِهٖ كلِّهٖ
روایت ہے
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آخری
زمانہ میں میری امت کو اپنے حکمرانوں سے سخت تکلیفیں پہنچیں گی ان سے نجات نہیں
پائے گا مگر وہ شخص جس نے اللہ کے دین کو پہچانا اور اس پر اپنی زبان،ہاتھ اور دل
کے ساتھ جہاد کیا یہ وہ شخص ہے جو پوری طرح سبقت لے گیا دوسرا وہ آدمی جس نے اللہ
کے دین کو پہچانا اور اس کی تصدیق کی،تیسرا وہ آدمی جس نے اللہ کے دین کو پہچانا
اور اس پر خاموش رہا اگر کسی کو نیکی کرتے دیکھا تو اس سے محبت کرنے لگا اور اگر
کسی کو غلط کام کرتے دیکھا تو اس سے ناخوش رہا یہ سب اپنی اندرونی حالت کے باعث
نجات پاجائیں گے۔ (مشکوٰۃ المصابیح جلد:2 ، حدیث نمبر:4921 تیسری فصل باب نیک
باتوں کا حکم دینا ہے صفحہ نمبر452)
(4)وَعَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ
الخُشَنِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ
أَحَبَّكُمْ إِلَيَّ وَأَقْرَبَكُمْ مِنِّي يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَحَاسِنُكُمْ
أَخْلَاقًا وَإِنَّ أَبْغَضَكُمْ إِلَيَّ وَأَبْعَدَكُمْ مِنِّي مَسَاوِيْكُمْ
أَخْلَاقًا اَلثَّرْثَارُوْنَ اَلْمُتَشَدِّقُوْنَ اَلْمُتَفَيْهِقُوْنَ روایت ہے ابو ثعلبہ خشنی سے کہ رسول الله صلی
الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے مجھے سب سے پیارا اور قیامت کے دن مجھ سے
بہت قریب تم میں سے اچھے اخلاق والا ہے اور تم میں سے مجھ کو بہت ناپسند اور مجھ
سے بہت دور برے اخلاق والے ہیں جو زیادہ بولنے و الے منہ پھٹ فراخ گو متکبر ۔ (مشکوٰۃ
المصابیح جلد:2 , حدیث نمبر:4585 دوسری فصل باب واعظ وشعر کا بیان صفحہ نمبر424)
(5)وَعَنْ عَائِشَةَ
قَالَتْ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ أَبْغَضَ
الرِّجَالِ إِلَى اللّٰهِ الأَلَدُّ الْخَصِمُ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ روایت ہے حضرت عائشہ فرماتی ہیں فرمایا رسولﷲ
صلی اللہ علیہ و سلم نے کہ اﷲ کی
بارگاہ میں بہت ناپسندیدہ شخص زیادہ سخت جھگڑالو ہے (مسلم،بخاری، (مشکوٰۃ المصابیح
جلد:2 , حدیث نمبر۔3586 پہلی فصل باب فیصلوں اور گمراہیوں کا بیان صفحہ نمبر 337)

اللہ پاک
کا ہم مسلمانوں پر یقینا بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمیں محبوب ﷺ کا امتی
بنایا،اور نبی کریم ﷺ کو اپنی امت سے بہت زیادہ محبت ہے،جس کا اندازہ اس بات سے
لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا کے ہر معاملہ میں حضور ﷺ نے اپنی امتیوں کی رہنمائی فرمائی ہے،چاہے وہ دنیا کا معاملہ ہو یا پھر
دین کا۔جیسا کہ رسول ﷺ کا کلمہ ‘‘أبْغَضَ یا اُبْغضَ’’ سے تربیت فرمانا۔اس
اندازکی کثیر احادیث پاک موجود ہیں۔
آیئے اسی
تربیت کو حاصل کرنے کی نیت سے چند احادث پاک پڑھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں:
(1)
ناپسندیدہ شخص: اللہ پاک کو جو
سب سے زیدہ ناپسندیدہ شخص ہے اس کے بارے میں نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: إِنَّ اَبْغَضَ
الرِّجَالِ اِلَی اللہِ اَلالَدُّ الْخَصِمٌ یعنی بیشک اللہ پاک کو سب سے زیادہ ناپسند شخص جھگڑا لو
ہے۔ (بخاری،کتاب المظالم،باب قول اللہ:وھوالد الخصم، ج1، ص:677، حدیث: 2457)
اس حدیث
پاک میں سرکارﷺ نے لفظ ‘‘ابغض یعنی سب زیادہ ناپسندیدہ ’’ استعمال فرماکر اپنے
امتیوں کی تربیت فرمائی ۔ عربی میں معنی کی زیادتی کے لیے یہ وزن‘‘اَفْعَلُ’’
استعمال ہوتا ہے۔ یہاں پر حضورﷺ نے لفظ ‘‘ابغض’’ استعمال فرماکر لوگوں کو یہ تاکید
فرمادی کہ اللہ پاک کو سب سے زیادہ ناپسندیدہ شخص وہ ہے جو جھگڑا لو ہے تاکہ لوگ
جھگڑا کرنے سے باز رہیں۔
(2)
ناپسندیدہ قاری: اللہ پاک کو جو
سب سے زیادہ ناپسند قاری ہے اس کے بارے میں نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: إِنَّ مِنْ اَبْغَضِ
الْقُرَّآءِ اِلَی اللہِ تَعَالیٰ الَّذِیْنَ یَزُوْرُوْنَ الْاَمْرَآءَ یعنی بیشک اللہ پاک کو سب سے زیادہ ناپسند
قاری وہ ہیں جو امیروں کی ملاقتیں کرتے ہیں۔(مراۃ المناجیح،کتاب العلم،الفصل
الثالث،ج:1،ص 212،حدیث:256،حسن
پبلیشرز)
اس حدیث
رسولﷺ میں وہ بے دین علماء جو دولت لے کر امیروں کی بدکاریوں کو، ان کے ظلم کرنے
کو جائز ثابت کرتے ہیں ان کے بارے میں فرمایا کہ یہ قاری اللہ پاک کو سب سے زیادہ
ناپسند ہیں۔ حضورﷺ کا ‘‘ابغض’’ کے ساتھ تربیت فرمانا اس لیے تاکہ قاری جب میرا یہ
فرمان سنے تو وہ اللہ پاک کی ناراضگی سے بچنے کے لیے اس کام سے باز آجائے۔ لہٰذا
ہمیں صرف وہ کام کرنے چاہيے جس میں اللہ پاک اور اس کے پیارے حبیبﷺ کی رضا ہو۔
(3)
نبی پاکﷺ کے نزدیک ناپسندیدہ شخص:نبی
پاکﷺ کو جو زیادہ محبوب اور جو زیادہ ناپسندیدہ ہے ان کا اظہار کرتے ہوئے حضورﷺ نے
ارشاد فرمایا: اِنَّ
مِنْ اَحَبِّکُمْ اِلَیَّ، وَ اَقْرَبِکُمْ مَنِّي مَجْلِسًا یَوْمَ القِیَامَۃِ،
اَحَاسِنَکُمْ اَخْلَاقًا، واِنَّ اَبْغَضَکُمْ اِلَیَّ وَاَبْعَدَکُمْ مِنِّی
یَوْمَ القِیَامَۃِ، اَلثَّرْثَارُوْنَ وَ المُتَشَدِّقُوْنَ وَ
المُتَفَیْھِقُوْنَ، قَالُوا:یارسولَ اللہِ،قَدْ عَلِمْنَا الثَّرْثَارُوْنَ وَ
المُتَشَدِّقُوْنَ، فَمَا الْمُتَفَیْھِقُوْنَ ؟قَالَ: اَلْمُتَکَبِّرُوْنَ یعنی تم میں سے میرے نزدیک سب سے زیادہ محبوب اور قیامت
کے دن میرے سب سے زیادہ قریب بیٹھنے والے وہ لوگ ہوں گے جن کے اَخلاق سب سے زیادہ
اچھے ہیں اور تم میں سے میرے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ اور قیامت کے دن مجھ سے
سب سے زیادہ دور وہ ہوں گے جو زیادہ بولنے والے،زبان درازی کرنے والے اور بڑھا
چڑھا کر باتیں کرنے والے ہوں گے۔ صحابہ کرام علیھم الرضوان نے عرض کیا:یارسول
اللہﷺ زیادہ بولنے والے اور زبان درازی کرنے والے کو تو ہم نے جان لیا لیکن بڑھا
چڑھا کر باتیں کرنے والے کون ہیں؟اِرشاد فرمایا:‘‘تکبر کرنے والے۔ ( ریاض الصالحین،کتاب
الاخلاص،باب حسن الخلق،ج:1،ص:390،حدیث:634،شبیر برادرز)
اس حدیث پاک میں حضورﷺ نے‘‘احب’’ سے اپنے
پسندیدہ شخص اور‘‘ابغض’’ سے ناپسندیدہ شخص کا اظہار فرمایا تاکہ میرے امتی اور مجھ
سے محبت کرنے والے ان کاموں سے باز آجائیں جو مجھے پسند نہیں اور وہ کام کریں جو
مجھے پسند ہیں۔
مذکورہ
حدیث پاک سے ایک اصول یہ سیکھنے کو ملا کہ اِیمان والے ایمان کی وجہ سے محبوب ہیں
مگر ان کی اچھائی و بُرائی کی صفت کی وجہ سے لوگ برے اور مبغوض ہوجاتے ہیں،یعنی جس
میں جتنی برائیاں زیادہ وہ اتنا زیادہ ناپسندیدہ اور جس کی اچھائیاں جتنی زیادہ
ہونگی وہ اتنا زیادہ محبوب ہوگا، اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم زیادہ سے زیادہ اچھائی کریں اور برائی سے بچیں ۔

تمام تعریفیں
اس ذات کے لیے جس نے آپ ﷺ کو انسان کی تربیت کے لیے مبعوث فرمایا اور ہمیں آقاﷺ کا
امتی بنایا ، آپ نے تمام لوگوں کی رہنمائی فرمائی اور ناپسندیدہ چیزوں کی پہچان
بتائی ، ناپسندیدہ چیزوں کے لیے عام طور پر لفظ ابغض استعمال کیا جاتا ہے۔
(1)
برے اخلاق کی وجہ سخت ناپسندیدہ ہونا: وَعَن أبي ثَعلبةَ الخُشنيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ
صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ أَحَبَّكُمْ إِلَيَّ
وَأَقْرَبَكُمْ مِنِّي يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَحَاسِنُكُمْ أَخْلَاقًا وَإِنَّ أَبْغَضَكُمْ
إِلَيَّ وَأَبْعَدَكُمْ مني مساويكم أَخْلَاقًا الثرثارون المتشدقون المتفيقهون ترجمہ: ابوثعلبہ خشنی رضى الله عنه سے روایت
ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ بے شک (دنیا میں) تم میں سے مجھے زیادہ پسند و
محبوب اور روزِ قیامت میرے زیادہ قریب وہ شخص ہو گا جو تم میں سے زیادہ بااخلاق ہو
گا، اور تم میں سے (دنیا میں) مجھے سب سے زیادہ ناپسند اور روزِ قیامت مجھ سے سب
سے زیادہ دور وہ شخص ہو گا جو تم میں سے بد اخلاق، بہت باتیں کرنے والے، زبان دراز
اور گلا پھاڑ کر باتیں کرنے والے ہیں۔‘‘ (مشکوٰۃ المصابیح، کتاب: آداب کا بیان، باب:
بیان و شعر کا بیان، حدیث نمبر: 4797، جلد:3۔ صفحہ:1352)
(2)
جھگڑا کرنے والا ناپسندیدہ: وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: قَالَ
رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ أَبْغَضَ الرِّجَالِ
إِلَى اللَّهِ الْأَلَدُّ الخَصِمُ ترجمہ: عائشہ رضى الله عنها بیان کرتی
ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ سخت جھگڑالو شخص اللہ کے نزدیک انتہائی ناپسندیدہ
شخص ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ المصابیح، کتاب:
امارت و قضاء کا بیان، باب: فیصلوں اور گواہیوں کا بیان، حدیث نمبر: 3762، جلد :2۔
صفحہ:1111)
(3)
حلال چیزوں میں سے سب سے زیادہ ناپسندیدہ: وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ
النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أَبْغَضُ الْحَلَالِ إِلَى
اللَّهِ الطلاقُ ترجمہ: ابن عمر
رضى الله عنه سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:’’ حلال چیزوں میں سے اللہ کے نزدیک
سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز طلاق ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ المصابیح، کتاب: نکاح کا بیان، باب:
خلع اور طلاق کا بیان، حدیث نمبر: 3280، جلد:2۔ صفحہ: 978)
(4)
سب سے زیادہ ناپسندیدہ جگہیں: وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ:
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَحَبُّ الْبِلَادِ
إِلَى اللَّهِ مَسَاجِدُهَا وَأَبْغَضُ الْبِلَاد إِلَى الله أسواقها ترجمہ: ابوہریرہ رضى الله عنه بیان کرتے ہیں،
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ مقامات مساجد ہیں اور
سب سے زیادہ ناپسندیدہ جگہیں بازار ہیں۔‘‘ ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، کتاب: نماز کا بیان
، باب: مساجد اور نماز پڑھنے کے مقامات کا بیان، حدیث نمبر: 696، جلد:1۔ صفحہ:
220)
(5)
سخت ناپسندیدہ قسم کے لوگ: وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ
صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَبْغَضُ النَّاسِ إِلَى الله ثَلَاثَة ملحد
فِي الْحرم وميتغ فِي الْإِسْلَام سنة الْجَاهِلِيَّة ومطلب دم امرىء بِغَيْر حق
ليهريق دَمه ترجمہ: ابن عباس
رضى الله عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ تین قسم کے لوگ اللہ کو سخت
ناپسندیدہ ہیں، حرم میں ظلم و ناانصافی کرنے والا، اسلام میں، جاہلیت کا طریقہ
تلاش کرنے والا اور بڑی جدوجہد کے بعد کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنے والا۔‘‘ (مشکوٰۃ
المصابیح، کتاب: ایمان کا بیان، باب: کتاب و سنت کے ساتھ تمسک اختیار کرنے کا بیان،
حدیث نمبر: 142، جلد :1 صفحہ: 51)
(6)سرکش
اور خبیث شخص سخت ناپسندیدہ ہے : عن أبي سعيد أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، بايع الناس
وفيهم رجل ذو جثمان، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: يا عبد الله أرزئت في نفسك
شيئا قط؟ قال: لا، قال: ففي
ولدك؟ قال: لا، قال: ففي أهلك؟ قال: لا، قال: يا عبد الله إن أبغض عباد الله إلى
الله العفريت النفريت، الذي لم يرزأ في نفسه ولا أهله وماله ولا ولده ترجمہ: حضرت ابوسعید رضى الله عنہ سے روایت
ہے کہ رسول اللہ ﷺ لوگوں سے بیعت لے رہے تھے کہ ان میں ایک شخص لحیم شحیم جسم والا
تھا، آپ نے فرمایا: بندہ خدا تجھے بدن میں کبھی کوئی تکلیف بھی ہوئی ہے؟ اس نے
کہا: نہیں ، فرمایا: اولاد کے بارے میں؟ اس نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا:
گھر والوں کے متعلق؟ اس نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: اے اللہ کے بندے! اللہ تعالیٰ
کا سب سے ناپسندیدہ بندہ وہ ہے جو خبیث و سرکش ہو جسے مال، بدن، اولاد اور اہل میں
کوئی مصیبت نہ پہنچی ہو۔ (کنزالعمال، کتاب: کتاب البر، باب: مصائب پر اجر وثواب
ملتا رہتا ہے، حدیث نمبر: 8668، جلد:3۔ صفحہ:756 )
یہ صحیح
اور مستند احادیث ہمیں سکھاتی ہیں کہ کن چیزوں سے بچنا ضروری ہے تاکہ ہم اللہ تعالیٰ
کی ناراضگی سے محفوظ رہ سکیں۔