اللہ پاک کا ہم مسلمانوں پر یقینا بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمیں محبوب ﷺ کا امتی بنایا،اور نبی کریم ﷺ کو اپنی امت سے بہت زیادہ محبت ہے،جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا کے ہر معاملہ میں حضور ﷺ نے اپنی امتیوں کی رہنمائی فرمائی ہے،چاہے وہ دنیا کا معاملہ ہو یا پھر دین کا۔جیسا کہ رسول ﷺ کا کلمہ ‘‘أبْغَضَ یا اُبْغضَ’’ سے تربیت فرمانا۔اس اندازکی کثیر احادیث پاک موجود ہیں۔

آیئے اسی تربیت کو حاصل کرنے کی نیت سے چند احادث پاک پڑھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں:

(1) ناپسندیدہ شخص: اللہ پاک کو جو سب سے زیدہ ناپسندیدہ شخص ہے اس کے بارے میں نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: إِنَّ اَبْغَضَ الرِّجَالِ اِلَی اللہِ اَلالَدُّ الْخَصِمٌ یعنی بیشک اللہ پاک کو سب سے زیادہ ناپسند شخص جھگڑا لو ہے۔ (بخاری،کتاب المظالم،باب قول اللہ:وھوالد الخصم، ج1، ص:677، حدیث: 2457)

اس حدیث پاک میں سرکارﷺ نے لفظ ‘‘ابغض یعنی سب زیادہ ناپسندیدہ ’’ استعمال فرماکر اپنے امتیوں کی تربیت فرمائی ۔ عربی میں معنی کی زیادتی کے لیے یہ وزن‘‘اَفْعَلُ’’ استعمال ہوتا ہے۔ یہاں پر حضورﷺ نے لفظ ‘‘ابغض’’ استعمال فرماکر لوگوں کو یہ تاکید فرمادی کہ اللہ پاک کو سب سے زیادہ ناپسندیدہ شخص وہ ہے جو جھگڑا لو ہے تاکہ لوگ جھگڑا کرنے سے باز رہیں۔

(2) ناپسندیدہ قاری: اللہ پاک کو جو سب سے زیادہ ناپسند قاری ہے اس کے بارے میں نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: إِنَّ مِنْ اَبْغَضِ الْقُرَّآءِ اِلَی اللہِ تَعَالیٰ الَّذِیْنَ یَزُوْرُوْنَ الْاَمْرَآءَ یعنی بیشک اللہ پاک کو سب سے زیادہ ناپسند قاری وہ ہیں جو امیروں کی ملاقتیں کرتے ہیں۔(مراۃ المناجیح،کتاب العلم،الفصل الثالث،ج:1،ص 212،حدیث:256،حسن پبلیشرز)

اس حدیث رسولﷺ میں وہ بے دین علماء جو دولت لے کر امیروں کی بدکاریوں کو، ان کے ظلم کرنے کو جائز ثابت کرتے ہیں ان کے بارے میں فرمایا کہ یہ قاری اللہ پاک کو سب سے زیادہ ناپسند ہیں۔ حضورﷺ کا ‘‘ابغض’’ کے ساتھ تربیت فرمانا اس لیے تاکہ قاری جب میرا یہ فرمان سنے تو وہ اللہ پاک کی ناراضگی سے بچنے کے لیے اس کام سے باز آجائے۔ لہٰذا ہمیں صرف وہ کام کرنے چاہيے جس میں اللہ پاک اور اس کے پیارے حبیبﷺ کی رضا ہو۔

(3) نبی پاکﷺ کے نزدیک ناپسندیدہ شخص:نبی پاکﷺ کو جو زیادہ محبوب اور جو زیادہ ناپسندیدہ ہے ان کا اظہار کرتے ہوئے حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: اِنَّ مِنْ اَحَبِّکُمْ اِلَیَّ، وَ اَقْرَبِکُمْ مَنِّي مَجْلِسًا یَوْمَ القِیَامَۃِ، اَحَاسِنَکُمْ اَخْلَاقًا، واِنَّ اَبْغَضَکُمْ اِلَیَّ وَاَبْعَدَکُمْ مِنِّی یَوْمَ القِیَامَۃِ، اَلثَّرْثَارُوْنَ وَ المُتَشَدِّقُوْنَ وَ المُتَفَیْھِقُوْنَ، قَالُوا:یارسولَ اللہِ،قَدْ عَلِمْنَا الثَّرْثَارُوْنَ وَ المُتَشَدِّقُوْنَ، فَمَا الْمُتَفَیْھِقُوْنَ ؟قَالَ: اَلْمُتَکَبِّرُوْنَ یعنی تم میں سے میرے نزدیک سب سے زیادہ محبوب اور قیامت کے دن میرے سب سے زیادہ قریب بیٹھنے والے وہ لوگ ہوں گے جن کے اَخلاق سب سے زیادہ اچھے ہیں اور تم میں سے میرے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ اور قیامت کے دن مجھ سے سب سے زیادہ دور وہ ہوں گے جو زیادہ بولنے والے،زبان درازی کرنے والے اور بڑھا چڑھا کر باتیں کرنے والے ہوں گے۔ صحابہ کرام علیھم الرضوان نے عرض کیا:یارسول اللہﷺ زیادہ بولنے والے اور زبان درازی کرنے والے کو تو ہم نے جان لیا لیکن بڑھا چڑھا کر باتیں کرنے والے کون ہیں؟اِرشاد فرمایا:‘‘تکبر کرنے والے۔ ( ریاض الصالحین،کتاب الاخلاص،باب حسن الخلق،ج:1،ص:390،حدیث:634،شبیر برادرز)

اس حدیث پاک میں حضورﷺ نے‘‘احب’’ سے اپنے پسندیدہ شخص اور‘‘ابغض’’ سے ناپسندیدہ شخص کا اظہار فرمایا تاکہ میرے امتی اور مجھ سے محبت کرنے والے ان کاموں سے باز آجائیں جو مجھے پسند نہیں اور وہ کام کریں جو مجھے پسند ہیں۔

مذکورہ حدیث پاک سے ایک اصول یہ سیکھنے کو ملا کہ اِیمان والے ایمان کی وجہ سے محبوب ہیں مگر ان کی اچھائی و بُرائی کی صفت کی وجہ سے لوگ برے اور مبغوض ہوجاتے ہیں،یعنی جس میں جتنی برائیاں زیادہ وہ اتنا زیادہ ناپسندیدہ اور جس کی اچھائیاں جتنی زیادہ ہونگی وہ اتنا زیادہ محبوب ہوگا، اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم زیادہ سے زیادہ اچھائی کریں اور برائی سے بچیں ۔

اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ پاک ہم سب کو حضورﷺ کی سچی محبت اور حضورﷺ کے فرامین پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبین ﷺ۔