خدائے احکم الحاکمین جل
جلالہ
کی بے شمار نعمتیں ساری کائنات کے ذرے ذر ے پر بارش کے قطروں سے زیادہ درختوں کے پتوں سے زیادہ ، دنیا بھر کے
پانی کے قطروں سے زیادہ ، ریت کے ذروں سے بڑھ کر ہر لمحہ ہر گھڑی بن مانگے طوفانی
بارشوں سے تیز برس رہی ہیں۔
جن کو شمارکرنا انسان کے بس کی بات نہیں اللہ
تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے۔
وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ لَا
تُحْصُوْهَاؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۱۸)
تَرجَمۂ کنز الایمان: اور اگر اللہ کی نعمتیں گنو تو انہیں شمار نہ کرسکو گے بےشک اللہ بخشنے والا مہربان
ہے ۔(پ
۱۴، النحل ۱۸)
ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا
ہے: وَ اشْكُرُوْا لِیْ وَ لَا تَكْفُرُوْنِ۠(۱۵۲)
ترجمہ
کنزالایمان ۔ میرا حق مانو (شکر ادا کرو) اور میر ی
ناشکری نہ کرو۔(پ ۲۔ البقرہ ۱۵۲)
اور ایک مقام پر اللہ
تعالی ارشاد فرماتاہے: لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ وَ لَىٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ
عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ(۷) تَرجَمۂ کنز الایمان:اور یاد کرو جب
تمہارے رب نے سنادیا کہ اگر احسان مانو گے تو میں تمہیں اور دوں گا اور اگر ناشکری
کرو تو میرا عذاب سخت ہے (پ ۱۳، ابراہیم ۰۷)
ان آیات سے معلوم ہوا کہ اللہ کی نعمتوں پر
شکر کرنا واجب ہے۔(تفسیر خزائن العرفان)
شکر اور ناشکری کی حقیقت :
شکر کی حقیقت یہ ہے کہ آدمی نعمت کو
اللہ
کی طرف منسوب کرے اور نعمت کا اظہار کرے جب کہ ناشکری کی حقیقت یہ ہے کہ آدمی نعمت
کو بھول جائے اور اسے چھپائے۔(تفسیر صراط الجنان)
حضرت امام حسن بصری رحمۃ
اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ بے شک اللہ جب
تک چاہتا ہے اپنی نعمت سے لوگوں کو فائدہ پہنچاتا رہتا ہے اور جب اس کی ناشکر ی کی
جاتی ہے تو وہ اسی کو عذاب بنادیتاہے۔
اور حضرت علی کرم اللہ
تعالیٰ وجہہہ الکریم نے ارشاد فرمایا:بے شک نعمت کا تعلق شکر کے ساتھ ہے اور شکر
کا تعلق نعمتوں کی زیادتی کے ساتھ ہے، پس اللہ کی طرف سے نعمتوں کی زیادتی اسی وقت تک نہیں رکتی، جب تک کہ
بندہ اس کی ناشکر نہیں کرتا۔(شکر کے فضائل ص ۱۱)
عبادت بغیر شکر کے مکمل نہیں ہوتی۔(تفسیر
بیضاوی)
شکر تمام عبادتو ں کی اصل ہے۔(تفسیر
کبیر)
حضرت شیخ ابن عطا رحمۃ
اللہ علیہ فرماتے ہیں: جو نعمتوں کا شکر ادا نہیں
کرتا گویا وہ ان کے زوال کا سامان پیدا کر تا ہے، اور جو شکر ادا کرتا ہے گویا وہ
نعمتوں کو اسی سے باندھ کر رکھتا ہے۔ (التحریر والتنویر ج ۱، ص ۵۱۲)
نعمتوں کے بدلے ناشکری کا نتیجہ ہلاکت و بربادی ہے۔
نعمتوں کی ناشکری میں مشغول ہونا سخت عذاب کا باعث ہے۔(تفسیر
رازی ج ۱۹، ص ۶۷)
شکرکے فوائد:
۱۔اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا زیادہ نعمت کا سبب ہے۔
۲۔ شکر رب عزوجل کی اطاعت حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔
۳۔ شکر میں نعمتوں کی حفاظت ہے۔
۴۔شکر
اللہ والوں کی عادت ہے۔
۵۔ شکر نعمتوں کی بقا کا ذریعہ ہے۔
۶۔شکر ادا کرنا گناہوں کو چھوڑنے کا سبب
ہے۔
۷۔شکر کی توفیق عظیم سعادت ہے۔
۸۔شکر ادا کرنا معرفتِ نعمت کا ذریعہ ہے۔
ناشکری کے نقصانات:
۱۔ ناشکری نعمتوں کے زوال کا ذریعہ ہے۔
۲۔ناشکری
اللہ کو ناراض کرنے کا سبب ہے۔
۳۔ ناشکری باعث ہلاکت ہے۔
۴۔ناشکری اللہ کے عذاب کو بلانا ہے۔
۵۔ناشکری نعمتوں میں رکاوٹ ہے۔
۶۔ناشکری
اللہ کو ناپسند یدہ ہے۔
۷۔ ناشکری ایک بڑا گناہ ہے۔
ناشکری کی مختلف صورتیں:
۱۔دل میں گناہ
کی نیت کرنا۔
۲۔زبان سے شکایت کرنا
۳۔بُرے کام کرنا۔
۴۔ بدگمان رہنا
۵۔اللہ کے
فضل و احسان سے ناامید ہونا۔
۶۔ اللہ سے
خوش نہ ہونا
۷۔اللہ
کی
نافرمانی کرنا۔
۸۔
اللہ
کے علاوہ کسی اور کی عبادت کرنا۔
۹۔ اللہ کی
یاد سے غافل رہنا
۱۰۔ حرام
کھانا۔
۱۱۔ احسان جتانا۔
۱۳۔ اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کو اپنا کمال سمجھنا۔
۱۴۔ دوسروں کی نعمتوں کو دیکھ کر حسد کرنا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے فضل سے شکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی نعمتوں کی ناشکری
کرنے سے محفوظ فرمائے امین۔
میں ہردم کرتا رہوں تیرا شکر ادا یا الہی
تو ناشکری سے مجھے محفوظ رکھ یا الہی
نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ
جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں
اللہ پاک کی بے شمار بے انتہا نعمتیں ہیں، جو بارش
کے قطروں کی طرح برس رہی ہیں ان نعمتوں کو شمار
نہیں کیا جاسکتا، اس کا اعلان اللہ پاک نے اس طرح فرمایا:
وَ
اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَاؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَغَفُوْرٌ
رَّحِیْمٌ(۱۸)
تَرجَمۂ کنز الایمان: اور اگر اللہ کی نعمتیں گنو تو انہیں شمار نہ کرسکو گے بےشک اللہ بخشنے والا مہربان
ہے ۔(پ14،
النحل:18 )
ربِّ کریم کی ان بے شمار نعمتوں کے باوجود انسان
میں ناشکری کا پہلو پایا جاتا ہے، ناشکری کی مختلف صورتیں ہیں کبھی انسان اعضا کی
ناشکری کرتا ہے کبھی کسی کے مال واسباب کو دیکھ کر ناشکری میں مبتلا ہوجاتا ہے
اورکبھی کسی کا منصب و اقتدار اسے ناشکری میں مبتلا کردیتا ہے۔اعضا کی ناشکری کی
صورت: تمام
اعضا کو اللہ پاک کی اطاعت و
فرمانبرداری کے کاموں میں استعمال کریں اگر ان اعضا سے نافرمانی والے کام کئے
تو یہ اعضا کی ناشکری کہلائے گی۔
مال و اسباب میں ناشکری کی
صورت: کسی کا مال و مکان دیکھ کر یہ سوچنا فلاں کے پاس تو اتنا مال ہے مگر میں
بمشکل دو وقت کی روٹی کھاتاہوں، فلاں کے پاس تو عالیشان مکان ہے مگر میں تو دو
کمروں کے ٹوٹے پُھوٹے گھر میں رہتا ہوں۔
منصب واقتدار میں ناشکری کی صورت:اسی طرح کسی کا منصب
واقتدار (Status) دیکھ کر یہ سوچنا
کہ اس کے نوکر چاکر ہیں آگے پیچھے گُھومتے رہتے ہیں کار میں آتا ہے، وغیرہ وغیرہ اور میرے پاس تو سائیکل بھی نہیں بسوں میں دھکے
کھاتا ہوں۔ناشکر ی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس معاملے میں سب سے بڑا عمل
دخل نفسانی خواہشات کابھی ہے ۔اس لئے کہا جاتا ہے کہ ”انسان کی خواہشات کا پیالہ
کبھی نہیں بھرتا کیونکہ اس میں ناشکری کے چھید ہوتے ہیں“۔ علاج: جن کے ساتھ
ایسامعاملہ ہوانہیں چاہئے کہ دنیاوی نعمتوں میں اپنے سے نیچے کی طرف نظر کرے مثلاً
موٹر سائیکل کی سہولت ہے تو کار والے کی طر ف
نظر کرنے کی بجائے سائیکل والے کی طرف نظر کرے، سائیکل والے کو چاہئے کہ پیدل
سفر کرنے والے کو دیکھے، اس طرح ناشکری کا
پہلو ذہن میں نہیں آئے گا۔
دوسری طرف شکر کے فضائل پر غور کریں کہ حضور
اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :اللہ پاک اپنے بندوں کو شکر کی توفیق عطا فرماتا ہے تو پھر
اسے نعمت کی زیادتی سے محروم نہیں فرماتا کیونکہ اس کا فرمانِ عالی شان ہے:
لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ وَ لَىٕنْ
كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ(۷)
تَرجَمۂ کنز الایمان: اگر احسان مانو گے تو میں
تمہیں اور دوں گا اور اگر ناشکری کرو تو میرا عذاب سخت ہے۔
(پ13، ابراہیم: 7)
ہمیں اپنے ربِّ کریم کا شکر ادا کرتے رہنا چاہئے
اور عافیت طلب کرنی چاہئے کہ ہمارے ہزار ہا ہزار گناہ کرنے کے باوجود اللہ پاک ہم
سے اپنا رزق نہیں روکتا۔اللہ پاک سے دعا ہے کہ
وہ ہمیں نفسِ
راضِیَہ نصیب فرمائے، ہمیں اپنی
نعمتوں سے مالا مال فرمائے اور ان نعمتوں پر شکر ادا کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم
نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ
جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں
ناشکری شکر کی ضدہے ،یعنی
ہر وہ شے جن کا شکر ادا کرسکتے ہیں ان کا شکر ادا نہ کرنا یہ ناشکری ہے ناشکری کی مختلف
صورتیں ہیں ناشکری کی بہت بری صورتیں یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کاشکر ادا نہ کرنا اللہ پاک نے ہمیں بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے، مثلا آنکھ ، کان ،
ناک بلکہ انسان کا اپنے سارا جسم ہی باعث نعمت ہی نعمت ہے اگر انسان ان کا غلط
استعما ل کرے تو یہ اللہ پاک کی بہت بڑی
ناشکری ہےـ مثلا ہمیں آنکھ عطا فرمائی ہمیں
چاہیے کہ اس سے ہمیشہ اچھا ہی دیکھیں، ناکہ فلمیں ڈرامے اور بدنگای وغیرہ وغیرہ،
دیگر اعضا کا ن سے
گانے باجے سن کر انسان ناشکری کرتا اور زبان سے فحش کلام و گالیاں دے کر ناشکری کا
ارتکاب کرتا ہے۔ ناشکری کی ایک دوسری صورت یہ ہے کہ انسان اپنے محسن کے احسان کو ہی بھول جاتا ہے کہ تم نے مجھ
پر کون سے احسانات ہے، قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے: ترجمہ ۔ بے شک آدمی اپنے رب کا
بڑا ناشکرا ہے (پ ۳۰، العدیت ۶)
اللہ پاک نے ہم پر بے شمار احسانات فرمائیں، لیکن انسان ناشکری پر ناشکری کرتا ہے
۔
ایک واقعہ پیش خدمت ہے کسی بزرگ کے پاس کوئی شخض کہتا ہے مجھے اللہ پاک نے کچھ نہیں دیا، ان بزرگ نے فرمایااچھا کچھ نہیں دیا ؟بتا ہاں کچھ نہیں دیا؟ تو آپ نے اسے کہا کہ
ایسا کر ایک آنکھ دے دو اور دس لاکھ لے لو، وہ کہنے لگا میں حضور آنکھ دوں گا، تو بوڑھا ہوجاؤ ں گا تو بزرگ نے فرمایا ایک بازو دے دو دس
لاکھ لے اس نے کہا پھر انکار کا بزرگ نے اسی طرح ایک ایک چیز گنوائی او ر مگر وہ
نا ہی کرتا رہا پھر بزرگ نے فرمایا کہ تم لاکھوں کی Property لے کر گھوم رہے
ہو اور کہتے ہو کہ اللہ نے مجھے کچھ نہیں،
لہذا ہمیں اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا
کرنا چاہیے کیونکہ ناشکری عذاب کا باعث ہے، حضرت سیدنا امام حسن بصری رحمۃ
اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں بے شک اللہ عزوجل جب تک چاہتا ہے اپنی نعمت سے لوگوں کو نوازتا ہے اور جب اس کی ناشکری کی جائے
تو وہ اسی نعمت کو ان کے لئے عذاب بنادیتا
ہے۔
ہمیں ناشکری نہیں
کرنی چاہیے، ہر حال میں شکر ہی ادا کرنا چاہیے کیونکہ اللہ عزوجل کا فرمان ہے: ترجمہ کنزالایمان۔ اگر احسان مانو گے تو میں تمہیں اور دوں گا۔(پ ۱۳، ابراہیم ،آیت۷)
آخر میں ایک اہم بات
کہ ہمیں نعمتوں میں اپنے سے پیچھے والے کو دیکھنا چاہیے اور عبادت میں اپنے سے
اوپر والے کو دیکھنا چاہیے، یہ ذہن ہوگا تو اللہ نے چاہا تو ناشکری سے بچے رہیں گے اللہ پاک ہم سب کو ناشکری سے بچائے کیونکہ ناشکری سے نعمت کے
چھن جانے کا ڈر ہوتا ہے۔
نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ
جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں
اللہ عزوجل نے
اپنے بندوں کو بے شمار نعمتوں سے نوازا
ہے، جن کا شمار کرنا ناممکن ہے اگر ہم اپنے آس پاس جہاں کہیں بھی دیکھیں تو ہمیں
ہر طرف اللہ عزوجل کی
نعمتیں نظر آئیں گی، دینِ اسلام ،ایمان ، ہمارےا عضا ء، والدین ، وقت ، دن و رات وغیرہ الغرض اللہ عزوجل
کی اتنی نعمتیں ہیں کہ کوئی بھی قلم انہیں لکھنے کی استطاعت نہیں
رکھتا گویا کہ ہم اپنے رب کی نعمتوں کے سمندر میں ڈوبے ہوئے ہیں، اب ہم یہ غورکریں
کہ ہم اپنے رب کی کتنی نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہیں اور کتنی نعمتوں کی ناشکری کرتے
ہیں ؟ تو یقینا ً ہمیں یہ یاد بھی نہیں
ہوگا کہ ہم نے کتنی اور کس طرح اپنے رب کی نعمتوں کی ناشکری کی ہے۔
ناشکری کے متعلق اللہ عزوجل نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا۔ اِنَّ الْاِنْسَانَ لِرَبِّهٖ لَكَنُوْدٌۚ(۶)
بے شک آدمی اپنے رب کا بڑا ناشکر ہے(پ ۳۰، العدیت ، آیت ۶)
اس آیت کے تحت حضرت سیدنا حسن بن
ابوحین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ انسان اپنے رب کا بڑا ناشکرہ ہے کہ
مصیبتیں گنتا رہتا ہے اور نعمتیں بھول
جاتا ہے۔
انسان کے پاس اگر ایک چیز ہو تو دو کی
خواہش کرتا ہے ،دو ہوں تو تین کی خواہش کرتا ہے، غریب ہو تو امیر ہونے کی خواہش کرتا ہے اور امیر
ہو تو مزید امیر ہونے کی خواہش کرتا ہے یہاں تک کہ انسان اپنے رب کی موجودہ نعمتوں کا شکر ادا کرنے
کے بجائے اس کی نعمتوں کی ناشکری میں مصروف رہتا ہے
چنانچہ حضرت سیدنا امام حسن بصری علیہ رحمۃاللہ القوی
فرماتے ہیں بیشک اللہ عزوجل جب تک چاہتا ہے اپنی نعمت سے لوگوں کو فائدہ پہنچاتا
رہتا ہے اور جب اس کی ناشکری کی جاتی ہے تو وہ اسی نعمت کو ان کے لیے عذاب بنادیتا
ہے۔ (شکر کے فضائل ص 27)
انسان مختلف صورتوں میں اپنے رب کی
ناشکری کرتا ہے اپنے اعضا کے ذریعے اپنے رب کی ناشکری کرتا ہے، مثلا فلمیں ، ڈرامے
دیکھ کر آنکھوں کی ناشکری، گانے باجے سن کر کانوں کی ناشکری، گالی گلوچ اور تلخ
کلامی کرکے زبان کی ناشکری لوگوں کو ایذا دے کر ہاتھوں کی ناشکری،
گناہوں کی طرف جا کر پاؤں کی ناشکری،
رزق میں عیب نکال کر اور اسے ضائع کرکے رزق کی ناشکری وقت ضائع کرکے وقت کی ناشکری
والدین کی نافرمانی کرکے والدین جیسی
نعمت کی ناشکری ،الغرض کہ انسان اپنے رب کی طرح طرح سے ناشکری کرتا ہے ناشکری کی
مختلف قسموں میں سے ایک بدترین قسم حسد ہے،
حسد ایک ایسی چیز ہے جس کے سبب انسان
نہ صرف اپنے رب کی نعمتوں کی ناشکر کرتا ہے بلکہ دوسروں کی نعمت کے چھن جانے کی
تمنا کرتا ہے اس کے سبب اس کی اپنی نعمتیں بھی ضائع ہوجاتی ہیں، انسان کو چاہیے کہ وہ
امور دنیا میں اپنے سے بلند مرتبے والے کے بجائے اپنے سے کم تر مرتبے والے کو
دیکھے اگر بلند مرتبے والے کو دیکھے گا تو احساس کمتری اور حسد میں مبتلاہوجائے گا
اور گر کم مرتبے والے کو دیکھے گاتو اسے اللہ عزوجل کی نعمتوں
کی قدر اور اس کا شکر بجالانے کا ذہن ملے گا اس کے متعلق حضور نبی کریم روِف
الرحیم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (امور دنیا) میں اپنے سے کم مرتبہ
والے کو دیکھا کرو کیونکہ یہی زیادہ مناسب ہے تاکہ جو اللہ عزوجل کی نعمت تم پر ہے اسے حقیر نہ سمجھنے لگو۔(سنن ترمذی، ج ۴، ص
۲۳
، حدیث ۲۵۲۱)
ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے رب کی بے شمار
نعمتوں کی قدر کرکے اس کا شکر ادا کریں تاکہ وہ رب ہمیں مزید اپنی نعمتوں سے
نوازے۔
اللہ کریم ہمیں اپنی ناشکری والے کاموں سے بچا کر اپنا شکر گزار بندہ بننے کی توفیق
عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ
جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں
ہم میں سے بہت سے لوگ
ساری نعمتوں کے ہونے کے باوجود ناشکری کا ارتکاب کرتے ہیں۔ اس سے نا صرف وہ اپنی
صحت کو داؤ پر لگاتے ہیں بلکہ ایک پوری
نسل کو جسے انہوں نے سنوارنا تھا تباہی کی طرف جھونک دیتے ہیں
ناشکری کرنے والے کو اللہ تعالی پسند نہیں فرماتا اوراس سے پھر اس کے
گمان کے مطابق ہی معاملہ فرماتا ہے ۔
ناشکری کی مختلف صورتیں ہیں مثلا ذرا سی تکلیف پہنچی تو واویلا شروع کر دیا یہ
نہ دیکھا اللہ نے کتنی اور
نعمتوں سے نوازہ ہے ۔ بیمار ہوئے تو لگے ہائے ہائے کرنے بندہ سوچے اللہ پاک ہمیں اس سے بھی خطرناک بیماری لگا سکتا تھا منفی
سوچوں کی بجائے یہ سوچیں۔ جب بھی اللہ پاک کی
طرف سے کوئی بیماری کوئی آزمائش آتی ہے وہ ہماری بھلائی کے لئے آتی ہے، تو رویے میں ناشکرا پن نہ ہو گا بلکہ شکر گذاری آئے گی، ہمیں بعض اوقات علم نہیں ہوتا
کہ ہم اپنے رویوں سے کس قدر ناشکر ے پن کی انتہا کر دیتے ہیں۔ ہمارے پاس ہر چیز اللہ پاک کی امانت ہے ان میں سے اللہ سبحانہ و تعالی اگر ایک
نعمت بھی ہم سے لے لیتا ہے تو بجائے الٹی
سیدھی بولنے کے یہ سوچیں اللہ
تعالی با اختیار ہے وہ چاہے تو ہم سے سب کچھ چھین لینے پر قادر ہے صبر وشکر سے
دوسری نعمتوں پر شکر گذاری کیجئے نہ کہ ناشکر ے پن کی انتہا کر دے بندہ۔
قران پاک سورہ ابراہیم آیت نمبر 7 میں ارشاد خداوندی ہے کہ:
اگر تم میری نعمتوں پر شکر کرو گے تو میں تمہیں مزید دوں گا
اور اگر ناشکری کرو گے تو میرا عذاب بہت سخت ہے ۔
آئیے اسی ضمن میں ہم
اپنے پیارے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی حدیث
مبارکہ بھی پڑھ لیتے ہیں حضرت عبد اللہ بن
مسعود رضی
اللہ عنہ روایت ہے کہ سرکار دو عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا جو تھوڑی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ زیادہ نعمتوں کا بھی شکر
ادا نہیں کرتا اور جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ
تعالی کا بھی شکر ادا نہیں کرتا اور اللہ
تعالی کی نعمتوں کو بیان کرنا شکر ہے اور انہیں بیان نہ کرنا ناشکری ہے(شعب الاایمان
الثانی من شعب الاایمان ,الحادیث 9119)
اللہ تعالی اپنے
کرم سے ہمیں اپنا شکر گذار بندہ بنائے اور اپنی عطا کردہ ہر نعمت کی ناشکری سے
محفوظ فرمائے امین ثم اٰمِیْن
بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ
واٰلہٖ وسلَّم
نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں
ناشکری بہت بری عادت
ہے اور اس کے بارے میں قرآن و حدیث میں کئی وعیدیں آئی ہیں اور ساتھ ہی اس کے کئی
نقصان بھی ہیں، جس کا مشاہدہ بخوبی کرسکتے ہیں، کہ علم کی وجہ سے لوگو ں نے ناشکری
کو محدود کردیا، مثال کے طور پر اگر کوئی شخص یہ نہ کہے کہ اللہ کا شکر ہے تو یہ ناشکرہ بلکہ ہمیں قول اور فعل دونوں سے
شکر ادا کرنا چاہیے۔
ناشکری کی چند مختلف
صورتیں بیان کرتا ہوں۔
۱۔ اسراف کرنا۔ یہ بھی ناشکری کی صورت ہے۔
۲۔فرائض ادا نہ کرنا
۳۔ اللہ کی راہ میں مال نہ خرچ کرنا یہ مال
کی ناشکری ہے
۴۔ غیبت، چغلی بہتان وغیرہ، زبان کی ناشکری ہے۔
۵۔ شراب خانوں ، جوؤں کے اڈوں کی طرف جانا پیر کی ناشکری ہے۔
۶۔ گندے خیالات کی طرف دل کو جمانا یہ دل کی ناشکری ہے۔
۷۔ خلاف شڑع تجارت کرنا یہ بھی ناشکری کی ایک صورت ہے
۸۔ خلاف شرع تجارت کرنا یہ بھی ناشکری کی ایک صورت ہے۔
۹۔ اولاد اور گھر
والوں کی صحیح تربیت نہ کرنا اور دین کی طرف نہ بلانا یہ بھی ای ک طرح ناشکری ہے
ان چند صورتوں سے
امید ہے کہ قارئین کی آنکھیں کھلی ہوں گی ، اور اس معاشرے کی بدحالی کا بھی بخوبی
اندازہ ہوگیا ہوگا، معزز قارئین اللہ تعالیٰ کی جو بھی نعمت ملے اور اسے ہم اس کی رضا اور اس کے احکام
کے مطابق استعمال کریں گے تو یہ اس کا شکر اور اس کے احکام کے خلاف اور ناراضی
والے کام کریں گے تو یہ ناشکری ہے، اللہ ہمیں شکر ادا کرنے اور ناشکری سے بچائے۔
نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں