اللہ پاک نے علمائے کرام کو بڑا مقام و منصب عطا فرمایا ہے حتیٰ کہ انبیائے کرام کے وارث بننے کا منصب بھی علما ہی کو ملا ہے اس کے ساتھ ساتھ اللہ پاک نے اہل علم کو دیگر فضائل کے ساتھ ساتھ اپنی وحدانیت پر گواہ بھی بنایا ہے چنانچہ ارشادِ باری ہے: شَهِدَ اللّٰهُ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۙ-وَ الْمَلٰٓىٕكَةُ وَ اُولُوا الْعِلْمِ قَآىٕمًۢا بِالْقِسْطِؕ-لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُؕ(۱۸) ترجَمۂ کنزُالایمان: اللہ نے گواہی دی کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتوں نے اور عالموں نے انصاف سے قائم ہو کر اس کے سوا کسی کی عبادت نہیں عزت والا حکمت والا۔(پ3 ، آل عمران :18)

نیز احادیث مبارکہ میں بھی علمائے کرام کے بڑے فضائل بیان کیے گئے ہیں ایک حدیث مبارکہ میں فرمایا: إِنَّ فَضْلَ الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِ كَفَضْلِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ عَلَى سَائِرِ الْكَوَاكِبِ، وَإِنَّ الْعُلَمَاءَ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاءِ، وَإِنَّ الْأَنْبِيَاءَ لَمْ يُوَرِّثُوا دِينَارًا وَلَا دِرْهَمًا، وَرَّثُوا الْعِلْمَ، فَمَنْ أَخَذَهُ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ (سنن ابو داؤد کتاب العلم ،حدیث : 3641 )

نیز علما ہی تو ہیں جو لوگوں کو راہِ راست پر لاتے ہیں شریعت کے احکام سکھاتے ہیں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ہر شخص کو زندگی کے ہر شعبہ میں علما کی رہنمائی کی سخت حاجت ہے یہاں تک کہ قیامت کے دن بھی لوگوں کو علما کی حاجت ہوگی ۔

علمائے کرام کی اتنی اہمیت و فضائل کے باوجود آج لوگ علما سے دور ہیں بلکہ علما کی شان میں گستاخیاں کرتے ہیں برا بھلا کہتے ہیں اسی مناسبت سے علمائے کرام کے چند حقوق بیان کیے جا رہے ہیں تاکہ ان پر عمل کرتے ہوئے ہم اپنے عمل میں بہتری لا سکیں ۔

(1)علما سے حصولِ علم اور وابستگی: ہر شخص کو چاہیے کہ وہ علما سے علم دین حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہے اور علما سے وابستہ رہے اور علما کی مجلس میں حاضر ہوتا رہے اور کم از کم ایک صحیح العقیدہ سنی عاشق رسول عالم دین سے اچھا رابطہ ہونا چاہیے اس کے کئی فوائد ہیں ۔

مجلس علما کے سات فائدے: (حضرت سیدنا) فقیہ ابواللیث سمرقندی (رحمۃُ اللہِ علیہ) فرماتے ہیں کہ جو شخص عالم کی مجلس میں جاوے اُس کو سات فائدے حاصل ہوتے ہیں اگر چہ اس سے استفادہ (کوئی فائدہ حاصل) نہ کرے۔(1) جب تک اس مجلس میں رہتا ہے گناہوں اور فسق و فجور سے بچتا ہے۔ (2) طلبہ میں شمار کیا جاتا ہے۔( 3) طلب علم کا ثواب پاتا ہے۔(4) اس رحمت میں کہ جلسہ علم (علم کی مجلس) پر نازل ہوتی ہے شریک ہوتا ہے۔(5) جب تک علمی باتیں سنتا ہے عبادت میں ہے۔(6) جب کوئی دقیق (مشکل) بات اُن (علما) کی اس کی سمجھ میں نہیں آتی (تو) دل اس کا ٹوٹ جاتا ہے اور شکستہ دلوں (ٹوٹے دل والوں) میں لکھا جاتا ہے۔ (7) علم و علما کی عزت اور جہل وفسق (بے علمی وبرائی) کی ذلت سے واقف ہو جاتا ہے۔ (فیضانِ علم علما، ص 29)

خلاصہ: جب صرف عالم کی مجلس میں بیٹھنے کے اتنے فوائد ہیں تو جو علم دین حاصل کرنے اور خدمت کی نیت سے حاضر ہوگا اس کو کتنے فوائد حاصل ہونگے۔

خواجہ غریب نواز رحمۃُ اللہ علیہ نے 6 چیزوں کے متعلق فرمایا انکی زیارت کرنا عبادت ہے ان میں سے ایک چیز علما کی زیارت کرنا بھی ہے ۔(دلیل العارفین مترجم ،ص 51ضیاءالقراٰن پبلشر)

(2):علما کی اطاعت و فرمانبرداری: اہل علم کا ایک اہم حق یہ ہے کہ یہ جو دین کی باتیں بتائیں اس پر انکی اطاعت کی جائے ارشاد باری ہے : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور ان کا جو تم میں حکومت والے ہیں ۔(پ5، النساء : 59 )

اس آیت میں اولو الامر سے مراد دینی حکماء بھی مراد ہیں۔ جیسے عالم، فقیہ، مرشد ،لیکن دینی حکام ہوں یا دنیاوی انکی اس وقت اطاعت کی جائے گی جب وہ قراٰن و حدیث کے مخالف نہ ہو۔ (نور العرفان، ص 137 ،ملخّصًا )

ایک اور آیت میں ہے : فَسْــٴَـلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۷) ترجَمۂ کنزُالایمان: تو اے لوگو علم والوں سے پوچھو اگر تمہیں علم نہ ہو۔(پ 17 ، الانبيآ : 7)

بکثرت احادیث میں بھی علما کی اطاعت کی ترغیب دی گئی ہے، ان میں سے 2 اَحادیث درج ذیل ہیں :

(1) عن أبي رقية تميم بن أوس الداري رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «الدين النصيحة» قلنا: لمن؟ قال: «لله، ولكتابه، ولرسوله، ولأئمة المسلمين وعامتهم» حضرت تمیم داری رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: دین خیر خواہی (کا نام) ہے۔ صحابۂ کرام رضی اللہُ عنہم نے عرض کی: یا رسولُ اللہ !صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، کس کی خیر خواہی کریں ؟ ارشاد فرمایا : اللہ پاک کی، اس کی کتاب کی، اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی، مسلمانوں کے امام کی اور عام مؤمنین کی۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب بیان انّ الدین النصیحۃ، ص47، حدیث: 55)

(2)حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تین چیزیں ایسی ہیں کہ مؤمن کا دل ان پر خیانت نہیں کرتا (1) اللہ پاک کے لیے خالص عمل کرنا۔ (2 ) علما کی اطاعت کرنا اور (3) (مسلمانوں کی) جماعت کو لازم پکڑنا ۔ (مسند امام احمد، مسند المدنیین، حدیث جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ، 5 / 615، حدیث: 16738)

(3)علما کا احترام کرنا : عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : لَيْسَ مِنْ أُمَّتِي مَنْ لَمْ يُجِلَّ كَبِيرَنَا، وَيَرْحَمْ صَغِيرَنَا، وَيَعْرِفْ لِعَالِمِنَا سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ پاک عنہ سے روایت ہے کہ ہمارے پیارے اور آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو ہمارے بڑوں کی عزت نہ کرے ،اور ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے عالم کو نہ پہچانے وہ میری امت میں سے نہیں۔ (الترغیب، حدیث: 169، رواه أحمد والترمذي)

ایک اور حدیث مبارکہ ہے إن من إجلال الله عز وجل: إكرام ذِي الشَّيْبَةِ الْمُسْلِمِ، وَحَامِل القراٰن غَيْر الغالي فيه والجافي عنه، وإكْرَامِ ذِي السُّلطان المقسط یعنی نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے کہ : سفید ریش ، بزرگ مسلمان کے ، حامل قراٰن (حافظ ، قاری و عالم ) کی جو نہ قراٰن کے بارے میں حد سے تجاوز کرنے والا ہو اور نہ اس سے اعراض و بے وفائی کرنے والا ہو اور منصف بادشاہ کی عزت کرنا اللہ تعالی کی عزت کرنے کے ہم معنی ہے۔ ( سنن ابو داود بتاب الادب، حدیث : 4843، سنن ابو داود بروایت ، ابو موسی )

عن ابی بکرۃ رضی اللہ عنہ قال سمعت النبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم یقول : اغْدُ عَالِمًا أَوْ مُتَعَلِّمًا أَوْ مُسْتَمِعًا أَوْ مُحِبًّا ، وَلَا تَكُنِ الْخَامِسَةَ فَتَهْلِكَ ترجمہ : حضرت سیدنا ابوبکر ہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں فرماتے ہیں میں نے حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے ہوئے سنا کہ :عالم بنویا طالبِ علم بنو یا علمی گفتگو کو کان لگا کر سننے والے بنو، یا علم اور اہلِ علم سے محبت رکھنے والے بنو، مذکورہ چار کے علاوہ پانچویں قسم کے مت بنو، کہ ہلاک ہو جاؤ گے اور پانچویں قسم یہ ہے کہ تم علم اور اہل علم حضرات سے بغض رکھو ۔ (شرح مشكل الآثار ، 10/ 406 ،باب بيان مشكل ماروي عن رسول اللہ)

(4): علما کی برائی اور عیب جوئی سے بچنا : تاریخ شاہد ہے کہ دشمنانِ اسلام نے اسلام کو مٹانے کی ہر دور میں ہر ممکن کوشش کی ہے اور انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ جب تک مسلمانوں کا تعلق علمائے حق اور علمائے ربانیین سے بنا رہے گا وہ اسلام پر باقی رہیں گے۔ لہذا انہوں نے اپنے مذموم مقاصد کو بروئے کار لانے کی خاطر عام مسلمانوں کو وارثینِ انبیا یعنی علماءئے حق سے دور کرنے کی سازشیں شروع کیں اور علما کے تعلق سے لوگوں کے دلوں میں اس قدر نفرت اور دوری پیدا کی کہ وہ صحیح اسلام سے دور ہوگئے۔ اور لوگ علما کی برائیاں کرنے لگے اور بغض رکھنے لگے حتی کہ کچھ لوگوں نے مولوی اور ملا کو گالی بنا لیا ۔

وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا کارواں کے دل سے احساسِ زِیاں جاتا رہا

اگر اہل علم کے عیوب کو برملا بیان کیا گیا تو اس سے لوگوں کا اعتماد اٹھ جائے گا اور یہ اعتماد نہ صرف اہل علم سے اٹھے گا بلکہ علم دین سے بھی اٹھ جائے گا لہذا ہر وقت ہمیں احتیاط کرنی ہے کبھی بھی علمائے حق کے بارے میں زبان درازی نہیں کرنی ۔

عالم کی توہین کے حوالے سے اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : عالم کی توہین کی تین صورتیں ہیں : (1) اگر عالم (دین) کو اس لئے بُرا ہے کہ وہ عالم ہے جب تو صریح کافر ہے (2) اور بوجہ علم اس کی تعظیم فرض جانتا ہے مگر اپنی کسی دُنیوی خُصومت (دشمنی) کے باعث برا کہتا ہے (گالی دیتا ہے اور) تحقیر کرتا ہے تو سخت فاجر ہے (3) اور اگر بے سبب (بلا وجہ ) رنج (بغض) رکھتا ہے تو مَرِيضُ القَلْبِ وَخبيتُ الباطن (دل کا مریض اور ناپاک باطن والا ہے) اور اس (خواہ مخواہ بغض رکھنے والے ) کے کفر کا اندیشہ ہے۔ خلاصہ (کتاب) میں ہے: من اَبغَضَ عَالَمَا مِنْ غَيْرِ سَبَبٍ ظَاهِرٍ خِيْفَ عَلَيْهِ الكُفر یعنی جو بلا کسی ظاہری وجہ کے عالم دین سے بغض رکھے اس پر کفر کا خوف ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ، ج21/ 129، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور )

نوٹ: مزید علم دین و علما کی توہین کے متعلق احکامات معلومات حاصل کرنے کے لیے امیر اہلسنت کی کتاب کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب صفحہ نمبر242تا 359 مطالعہ فرمائیں ۔

(5) علما کی خدمت کرنا : فی زمانہ علما کی خدمت کرنے کی سخت حاجت بھی ہے اور اس کے فوائد دنیا میں ملنے کے ساتھ ساتھ آخرت میں بھی بڑے فوائد حاصل ہونگے یہاں تک کہ لوگ علمائے کرام کے پاس بھی سفارش طلب کرنے آئیں گے کہ ہم نے آپ کے وضو کے لیے فلاں وقت میں پانی بھردیا تھا، کوئی کہے گا ہم نے فلاں خدمت کی تھی آپ کی،علما ان تک کی شفاعت کریں گے۔(بہار شریعت،1/141ملخصاً)

خلاصہ: مسجد و مدرسہ اذان و نماز و اسلام آج بھی صرف اور صرف علما کے دم سے قائم ہے اور ان شاء اللہ قیامت تک مدارس مساجد اور علما کے دم سے قائم و دائم رہیں گے صبح محشر تک یہ زمین اللہ اور اس کے رسول کے کلمات سے منوّر رہے گی علما کی کمزوریوں، خامیوں کے باوجود وہی اس دین کے اصل نگہبان ہیں۔ تمام توقعات انہی سے ہیں، ان کے وجود کے بغیر اسلام زندہ نہیں رہ سکتا۔ حقیقت یہی ہے کہ علما ہی حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مسند اور ان کے علم کے اصل وارث ہیں۔ ان کی عزت، ان سے محبت، ان کی تقلید ،ان کی اتباع ہم سب کا دینی فریضہ ہے۔ جو معاشرہ اور تہذیب علما کی عزت نہیں کرتی یا عزت تو کرتی ہے مگر ان کے حکم کی تعمیل نہیں کرتی۔ وہ تہذیب جلد صفحہ ہستی سے مٹادی جاتی ہے یا عبرت کی ایک شرمناک داستان بن جاتی ہے ۔

اللہ پاک ہمیں علما کے حقوق کی رعایت کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم 


دینِ اسلام حقوق کا دین ہے اس میں ہر ایک کے دوسرے پر کیا کیا حقوق ہیں ان کو بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً والدین کے حقوق ، اولاد کے حقوق ، پڑوسیوں کے حقوق ، رشتہ داروں کے حقوق ، حکمرانوں کے حقوق ، رعایا کے حقوق وغیرھم ۔

ہم علمائے کرام کثرھم اللہ کے حقوق پڑھنے کی سعادت حاصل کریں گے ۔ علما کو اللہ پاک نے بہت بڑا مرتبہ و مقام عطا فرمایا اور قراٰن و حدیث میں ان کی شان بیان ہوئی اسی طرح قراٰن و حدیث میں ان کے حقوق بھی بیان کیے گئے کہ علما کے ساتھ کیسے پیش آنا ہے ۔

(1) علما کا احترام کرنا : علما کا ایک بنیادی اور بہت اہم حق یہ ہے کہ ان کا دل و جان سے احترام کیا جائے چنانچہ حدیث پاک میں ارشاد ہوا کہ بوڑھے مسلمان کی تعظیم کرنا ، حامل قراٰن ( عالم ) کی تعظیم کرنا جو کہ قراٰن میں غلو کرنے والا اور قراٰن سے کنارہ کشی کرنے والا نہ ہو اور عادل بادشاہ کی تعظیم کرنا اللہ کی تعظیم کا ہی ایک حصہ ہے ۔(ابو داؤد ، کتاب الادب ، باب فی تنزیل الناس منازلہم ، حدیث: 4873)

اسلافِ امت رحمہم اللہ بھی علما کا احترام فرمایا کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس خود ایک جید عالم ہونے کے باوجود زین بن ثابت رضی اللہ عنہ کی سواری کی مہار تھامے اور فرمایا : ہمیں اپنے علما اور بڑے بزرگوں کا اسی طرح ادب بجا لانے کا حکم دیا گیا ۔

(2) علما سے علم کا حصول: حقوقِ علما میں سے یہ بھی ہے کہ ان سے علم حاصل کیا جائے چنانچہ حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جو علم کی تلاش میں چلے گا اللہ اس کے ذریعے اس شخص کے لیے جنت کا راستہ آسان فرما دے گا ۔(سنن ابی داؤد ، کتاب العلم ، حدیث: 3640)

(3) علما کی برائی سے بچنا: علما کی گستاخیاں ، ان پہ طعنہ زنی کرنا اور ان کی برائی کرنا عموماً گمراہ لوگوں کا کام ہوتا ہے علما کی برائی سے بچنا لازم ہے۔ چنانچہ فتاوی رضویہ شریف میں ہے کہ اگر عالم کو اس لئے برا کہتا ہے کہ وہ عالم ہے جب تو صریح کافر ہے اور اگر بوجہِ علم اس کی تعظیم فرض جانتا ہے مگر اپنی کسی دنیوی خصومت ( جھگڑے ) کے باعث برا کہتا ہے گالی دیتا ، تحقیر کرتا ہے تو سخت فاسق فاجر ہے اگر بے سبب رنج رکھتا ہے تو مریض القلب خبیث الباطن ہے اور اس کے کفر کا اندیشہ ( ڈر ) ہے۔(فتاوی رضویہ، 21 / 130)

(4) ہم عصر علما کے آپسی اختلافات میں خاموشی اختیار کرنا: جرح و تعدیل میں علما کے اقوال اور ان کی آپس میں ایک دوسرے کے متعلق باتیں یہ ایک علمی معاملہ ہے اس میں اختلاف ہوتا رہتا ہے جس میں ہم پہ لازم و ضروری ہے کہ صحیح العقیدہ علما کے بارے میں کوئی بھی ایسی بات کرنے سے اجتناب برتیں جس کی شریعت میں ممانعت وارد ہے اسی لیے علما نے فرمایا کہ ہم عصروں ( ایک دور کے لوگ ) کی آپسی چپقلش کو سمیٹا جائے گا عام نہیں کیا جائے گا۔

علما پر اعتماد قائم رکھنا: بعض اوقات عوام علما سے کسی ایسے امر کا مطالبہ کرتے ہیں جس کو علما نہیں کرتے کیونکہ وہ اس کام کے انجام اور نتائج پہ نظر رکھتے ہیں کیونکہ بعض مصلحتوں کے لیے اس کام کو نہیں کیا جاتا کہ یہ آگے جا کے کسی فساد و برائی کا پیش خیمہ ثابت ہو گا فلہذا کبھی کوئی ایسا معاملہ ہو تو علما پہ یقین رکھیں علما پہ اعتماد بحال رکھیں اور بدظن ہونے سے بچتے رہیں ۔

اللہ پاک ہمیں علمائے کرام کے حقوق بجا لانے اور ان کا ادب و احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم