مسئلہ ختمِ
نبوت پر کردارِ صحابہ از بنت عمران، جامعہ غوث جیلانی میرپورخاص

صحابہ کرام
علیہم الرضوان اس امت کا سب سے بہترین طبقہ ہیں۔ انہوں نے براہ راست پیارے آقا ﷺ سے
دین سیکھا۔ان کا کسی بات پر اتفاق اس بات کے حق ہونے کی دلیل ہے۔ صحابہ کرام کا اس
بات پر اجماع ہے کہ پیارے آقا ﷺ خاتم النبیین ہیں اور آپ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں
آئے گا۔ اس عقیدے کے تحفظ کے لیے صحابہ کرام نے نمایاں کردار ادا کیا۔ آئیے ملاحظہ
کیجئے:
کردار
خلیفہ اول: جنگ
یمامہ یہ وہ جنگ ہے جو عہدِ ابوبکر صدیق میں آپ کے حکم سے نبوت کے جھوٹے دعویدار
مسیلمہ کذاب کے خلاف لڑی گئی۔ اس جنگ میں مسیلمہ کذاب سمیت اس کے لشکر کے 20 ہزار
لوگ ہلاک ہوئے۔ اور 1200 صحابہ کرام نے جام شہادت نوش فرمایا۔ اتنے کثیر صحابہ
کرام نے شہید ہو کر اپنا یہ عقیدہ واضح کردیا کہ حضور ﷺ ہی خاتم النبیین ہیں۔ (الکامل
فی التاریخ،2/218تا 224)
کردار
خلیفہ ثالث: حضرت
عثمان غنی کو خط کے ذریعے اس بات کی خبر پہنچی کہ جو لوگ نبوت کے جھوٹے دعویدار
مسیلمہ کذاب کی تشہیر کرتے تھے وہ پکڑے گئے ہیں تو آپ نے جواباً لکھا۔ ان پر دین
حق اور لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ کی گواہی پیش کرو جو اسے قبول کرلے اور
مسیلمہ کذاب سے علیحدگی اختیار کرلے اسے قتل نہ کرنا،اور جو مسیلمہ کذاب کے مذہب
کو نہ چھوڑے اسے قتل کر دینا۔ چنانچہ اس فرمان پر عمل کیا گیا۔ (سنن کبریٰ للبیہقی،8/350،
رقم:16852)
کردار
فیروز دیلمی: حضور
ﷺ کے زمانے میں اسود عنسی نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا حضرت فیروز دیلمی نے اسے قتل
کر دیا۔ حضور نے فرمایا: فیروز کامیاب ہو گیا۔ (خصائص کبریٰ، 1/467)
حدیث پاک میں
ہے: میرے صحابہ ستاروں کی طرح ہیں ان میں سے جس کے پیچھے چلو گے راہ پاؤ گے۔
(مشکوٰۃ المصابیح، 2/414، حدیث:6018)

اسلام کے
بنیادی عقائد میں سب سے اہم اور فیصلہ کن عقیدہ ختم نبوت ہے۔ نبی کریم ﷺ کے بعد نہ
کوئی نبی آئے گا اور نہ ہی کوئی نیا رسول، یہی عقیدہ ایمان کی بنیاد ہے۔ مَا كَانَ مُحَمَّدٌ
اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ
النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠(۴۰) (پ
22، الاحزاب: 40) ترجمہ: محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ہاں اللہ کے رسول
ہیں اور سب نبیوں میں پچھلے اور اللہ سب کچھ جانتا ہے۔
یہی وہ عقیدہ
ہے جس پر صحابۂ کرام علیہم الرضوان نے ہر موقع پر پہرہ دیا، اپنی جانیں قربان کیں
لیکن ختم نبوت پر کبھی سمجھوتہ نہ کیا۔
جھوٹے
نبیوں کے خلاف پہلا جہاد: نبی پاک ﷺ کے پردہ فرمانے کے بعد مختلف
جھوٹے نبی پیدا ہوئے جنہوں نے لوگوں کو گمراہ کیا۔ سب سے بڑا فتنہ مسیلمہ کذاب کا
تھا۔
حضرت ابوبکر
صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر مدینے کے کتے بھی مجھے گھیر لیں تو میں جھوٹے
نبیوں کے خلاف جہاد سے پیچھے نہ ہٹوں گا۔ (سیرت صدیق اکبر، ص 119)
حضرت خالد بن
ولید رضی اللہ عنہ کو سپہ سالار بنا کر لشکر روانہ کیا گیا۔ یمامہ کی جنگ میں 1200
سے زائد صحابہ و حفاظ قرآن شہید ہوئے، لیکن مسیلمہ مارا گیا اور ختمِ نبوت کا پرچم
سربلند رہا۔ (سیرت صدیق اکبر، ص 116)
دیگر
جھوٹے نبیوں کا انجام: اسود عنسی کو حضرت فیروز دیلمی رضی اللہ عنہ نے قتل
کیا اور طلیحہ اسدی کو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے شکست دی۔ (سیرت صدیق
اکبر، ص 120)
حضرت
عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا عزم: حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں بھی ختمِ
نبوت کا پہرہ برقرار رہا۔ وہ فرمایا کرتے: قرآن مکمل، دین مکمل اور نبوت مکمل ہو
چکی ہے، اب جو شخص نبوت کا دعویٰ کرے گا اس کا علاج صرف تلوار ہے۔ (فضائل فاروق
اعظم، ص 88)
حضرت علی رضی
اللہ عنہ نے فرمایا: اگر ساری دنیا جھوٹے نبیوں کا ساتھ دے تو بھی ہم ختمِ نبوت پر
ڈٹے رہیں گے۔ (فضائل اہل بیت، ص 76)
امیر
اہل سنت کے ایمان افروز فرامین: میرے شیخ طریقت امیر اہل سنت حضرت علامہ مولانا محمد
الیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ ختمِ نبوت پر بار بار ایمان افروز فرامین
ارشاد فرماتے ہیں، مثلاً:
٭ ختمِ
نبوت کا انکار کفر ہے، جو منکر ہے وہ اسلام سے خارج ہے۔ (مدنی مذاکرہ، رمضان
1441ھ)
٭ صحابۂ
کرام نے ختمِ نبوت کیلئے جانیں قربان کیں، ہمیں بھی عقیدہ ختمِ نبوت کا سچا محافظ
بننا ہے۔ (مدنی مذاکرہ، شعبان 1440ھ)
٭ ختمِ
نبوت کا تحفظ عشق مصطفی ﷺ کا لازمی تقاضا ہے۔ (مدنی مذاکرہ، ربیع الاول)
٭ ختمِ
نبوت کے دشمنوں کا ردّ ایمان کی علامت ہے۔ (مدنی مذاکرہ، صفر المظفر 1443ھ)
الغرض ختمِ
نبوت کا تحفظ ہر مسلمان کا دینی فریضہ ہے۔ صحابۂ کرام نے جانوں کا نذرانہ دے کر
اس عقیدہ کو محفوظ کیا۔ ہم بھی اسی راہ پر چلیں اور ختمِ نبوت کا دفاع ایمان کا
حصہ سمجھیں۔
یا اللہ ہمیں
عقیدہ ختمِ نبوت پر پختہ ایمان اور سچی محبت عطا فرما۔ آمین
مسئلہ ختمِ
نبوت پر کردارِ صحابہ از بنت محمد سعید، جامعۃ المدینہ جوہر ٹاؤن لاہور

پیاری پیاری
اسلامی بہنو! اس مضمون میں عقیدہ ختمِ نبوت کے تحفظ پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا
کردار بیان کیا جائے گا جن کے پڑھنے سے ان شاءاللہ عقیدہ ختمِ نبوت کو مزید تقویت
و پختگی ملے گی۔ عقیدہ ختمِ نبوت صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین، سلف صالحین،
علمائےکاملین اور تمام مسلمانوں کا اجماعی و اتفاقی عقیدہ ہے اور تمام صحابہ کرام
اس آیت مبارکہ (مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ
اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠(۴۰) (پ
22، الاحزاب: 40) ترجمہ: محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ہاں اللہ کے رسول
ہیں اور سب نبیوں میں پچھلے اور اللہ سب کچھ جانتا ہے۔) پر مکمل یقین اور ایمان
رکھتے تھے۔
حضرت
ابوبکر صدیق کا کردار: مسلمانوں کے پہلے خلیفہ امیر المومنین حضرت ابوبکر
صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول کریم ﷺ کے زمانے میں نبوت کا جھوٹا دعوی کرنے والے مسیلمہ
کذاب اور اس کے ماننے والوں سے جنگ کے لیے صحابی رسول حضرت خالد بن ولید رضی اللہ
عنہ کی سربراہی میں 24 ہزار کا لشکر بھیجا جس نے مسیلمہ کذاب کے 40 ہزار کے لشکر
سے جنگ کی۔ تاریخ میں اسے ”جنگ یمامہ“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اس جنگ میں 1200
مسلمانوں نے جام شہادت نوش فرمایا جن میں 700 حافظ قاری قرآن صحابہ بھی شامل تھے
جبکہ مسیلمہ کذاب سمیت اس کے لشکر کے 20 ہزار لوگ ہلاک ہوئے اور اللہ پاک نے
مسلمانوں کو عظیم فتح نصیب فرمائی۔ (عقیدہ ختم نبوت، ص 26)
حضرت
عثمان غنی کا کردار: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کوفہ میں
کچھ لوگ پکڑے جو نبوت کے جھوٹے دعویدار مسیلمہ کذاب کی تشہیر کرتے اور اس کے بارے
میں لوگوں کو دعوت دیتے تھے آپ رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کے تیسرے خلیفہ حضرت
عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو اس بارے میں خط لکھا حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ
نے جواب میں لکھا کہ ان کے سامنے دین حق اور لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ﷺ کی
گواہی پیش کرو جو اسے قبول کر لے اور مسیلمہ کذاب سے علیحدگی اختیار کرے اسے قتل
نہ کرنا اور جو مسیلمہ کذاب کے مذہب کو نہ چھوڑے اسے قتل کر دینا ان میں سے کئی
لوگوں نے اسلام قبول کر لیا تو انہیں چھوڑ دیا گیا اور جو مسیلمہ کذاب کے مذہب پر
رہے ان کو قتل کر دیا گیا۔ (عقیدہ ختمِ نبوت، ص 27، 28)
حضرت
فیروز دیلمی کا کردار: نبی کریم ﷺ کے زمانے میں اسود عنسی نامی شخص نے یمن
میں نبوت کا دعوی کیا سرکار دو عالم ﷺ نے اس کے شر و فساد سے لوگوں کو بچانے کے
لیے صحابہ کرام سے فرمایا: کہ اسے نیست و نابود کر دو حضرت فیروز دیلمی رضی اللہ
عنہ نے اس کے محل میں داخل ہو کر اسے قتل کر دیا رسول کریم ﷺ نے غیب کی خبر دیتے
ہوئے مدینہ منورہ میں مرض وصال کی حالت میں صحابہ کرام کو یہ خبر دی کہ آج اسود
عنسی مارا گیا اور اسے اس کے اہل بیت میں سے ایک مبارک مرد فیروز نے قتل کیا ہے
پھر فرمایا فیروز کامیاب ہو گیا۔ (عقیدہ ختمِ نبوت، ص 26)
مسئلہ ختمِ
نبوت پر کردارِ صحابہ از بنت فیاض احمد، جامعۃ المدینہ جوہر ٹاؤن لاہور

عقیدہ ختمِ
نبوت سے مراد یہ ہے کہ محمد ﷺ آخری نبی ہیں کہ آپﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا
نبوت آپ پرختم ہو گئی۔ (صراط الجنان، 8/47)
مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ
مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ
كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠(۴۰) (پ 22، الاحزاب:
40) ترجمہ: محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب
نبیوں میں پچھلے اور اللہ سب کچھ جانتا ہے۔
حضرت ثوبان سے
روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: عنقریب میری امت میں تیس کذّاب پیدا ہوں
گے اور سب کے سب نبوت کا دعوی کریں گے حالانکہ میں سب سے آخری نبی ہوں اور میرے
بعد کوئی نبی نہیں۔ (ابو داود، 4/133،
حدیث : 4252)
ختمِ نبوت پر
کردار صحابہ:
اسود عنسی کا
فتنہ:اس کا پورا نام عبہلہ بن کعب
عنسی اور لقب ذوالخمار ہے۔ بعض نے ذوالحمار ذکر کیا ہے۔ دس ہجری یمن میں اس کذّ اب
کا ظہور ہوا۔ عہد رسالت ﷺ میں ہی اس نے نبوت کا دعوی کر دیا تھا۔اس کا خروج حجۃ
الوداع کے بعد ہوا۔ البتہ اللہ کے نبی ﷺ نے پہلے ہی اس کے ظہور کی پیش گوئی فرمائی
تھی۔
صنعا (یمن) کے
علاقے کے گورنر حضرت شہر بن باذان تھے۔ اس نے صنعاء پر قبضہ کر لیا۔ ان کو شہید
کرکے ان کی زوجہ کو نکاح کا پیغام بھیجا۔جب رسول محتشم ﷺ کو اس کی اطلاعات پہنچیں تو
پیارے آقاﷺ نے ارشاد فرمایا :جس طرح ہو سکے اس کے شر کو ختم کردیں۔
ماہ صفر
المظفر میں 11سن ہجری میں ہی کذاب اسود عنسی کو صحابی رسول فیروز دیلمی نے واصل
جہنم کر دیا۔
اسود عنسی کو
قتل کرنے والے حضرت فیروز دیلمی رسول اللہ ﷺ کے جیّد صحابی اور نجاشی بادشاہ کے
بھانجے تھے اور انہیں خود رسول اللہ ﷺنے اس کذّاب کے قتل کا حکم دیا۔ اس کے قتل کی
خبر آپﷺ کو اپنے وصال سے ایک دن اور ایک رات پہلے دی گئی۔
مسیلمہ کذّاب
کا فتنہ: اس کا پورا نام مسیلمہ بن حبیب تھا، کنیت ابو ثمامہ اور تعلق بنو حنیفہ
سے تھا۔ نبوت کا دعوی تو اس خبیث نے دور رسالت ﷺ میں ہی کر دیا تھا لیکن لوگوں کی
حمایت اس نے وصال نبیﷺکے بعد حاصل کی۔ امیر المومنین ابو بکر صدیق نے پےدر پے حضرت
عکرمہ بن ابی جہل، شرحبیل بن حسنہ اور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہم کو اس کی
سرکوبی میں بھیجا۔
ایک طویل قتل
و غارت کے بعد بالآخر مشرکین کو شکست ہوئی اور وہ بھاگ کھڑے ہوئے۔مسیلمہ کے لشکری
جب بھاگے تو خود مسیلمہ بھی بھاگ کھڑا ہوا اور ایک دیوار کے پیچھے جا کھڑا ہوالیکن
ایک جیّد صحابی حضرت وحشی نے اسے دیکھ لیا اور اسے زور کی نیزہ مارا کہ اس کے سینے
کے آر پار ہو گیا اور وہ واصل جہنم ہوا۔
حاصل
کلام: اس
سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ختمِ نبوت کے متعلق کیا عقیدہ تھا
اور کس جوش و جذبے سے انہوں نے ناموس رسالت پر پہرا دیا اور اس کی حفاظت کرتے ہوئے
اپنی جانیں اور اپنے عزیز و اقارب کی جانیں دینے سے بھی گریز نہ کیا، جیسا کہ جنگ
یمامہ میں ایک ہزار دو سو صحابہ نے ناموس رسالت کی حفاظت میں اپنی جانیں بطور
نذرانہ پیش کیا اور جام شہادت نوش فرمایا جن میں حضرت عمر کے بھائی حضرت زید بن
خطاب اور خطیب الانصار حضرت زید بن ثابت بن شماس رضی اللہ عنہما شامل ہیں۔ اور
ابھی تک پہراداران ناموس رسالت اپنی شمشیر و قلم سے ختمِ نبوت پر پہرا دیتے رہے
ہیں۔
تخلیق
میں پہلے نور ان کا آخر میں ہوا ہے ظہور ان کا
تکوین
جہاں ہےان کیلئے ختم ان پہ نبوت ہوتی ہے
محمد
مصطفی۔۔۔ سب سےآخری نبیﷺ
مسئلہ ختمِ
نبوت پر کردارِ صحابہ از بنت خلیل، جامعۃ المدینہ جوہر ٹاؤن لاہور

اللہ نے حضور
اکرم ﷺ کو خاتم النبیین بنا کر بھیجا۔ اس کے بعد کسی کو نبوت ملنا ممکن نہیں۔ یہ
عقیدہ ضروریات دین میں سے ہے۔ جس میں ذرہ برابر بھی شک و شبہ کرنے والا دائرہ
اسلام سے خارج ہو کر کافر و مرتد ہو جاتا ہے۔ عقیدہ ختمِ نبوت ایک ایسا عقیدہ ہے
جس کا ذکر قرآن سے بکثرت ملتا ہے۔ پیارے آقا ﷺ کی احادیث بھی حد تواتر تک پہنچتی
ہیں۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے بھی اس کے منکرین کے خلاف اعلان جنگ کیا۔ یہاں تک
کہ علمائے اہل سنت نے اس عقیدے میں ذرہ برابر بھی شک کرنے کی گنجائش نہیں چھوڑی۔
تمام علما کا اتفاق ہے کہ اس میں تھوڑی سی بھی گنجائش نکالنے والا کافر و مرتد ہے۔
کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا؟ لا نبی بعدی یعنی میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے
گا اور قرآن میں بھی اللہ نے آپ کو خاتم النبیین فرمایا ہے۔ اب یہاں صحابہ کرام علیہم
الرضوان کے عقیدہ ختمِ نبوت کے متعلق کچھ اقوال صحابہ ملاحظہ کریں۔
حضرت
ابو بکر صدیق اور جماعت صحابہ کا عقیدہ: مسلمانوں کے پہلے خلیفہ، امیر
المؤمنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں نبوت کا
جھوٹا دعوی کرنے والے مسیلمہ کذاب اور اس کے ماننے والوں سے جنگ کے لئے صحابی رسول
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی سربراہی میں 24 ہزار کا لشکر بھیجا جس نے
مسیلمہ کذاب کے 40 ہزار کے لشکر سے جنگ کی۔ تاریخ میں اسے جنگ یمامہ کے نام سے یاد
کیا جاتا ہے۔ اس جنگ میں 1200 مسلمانوں نے جام شہادت نوش فرمایا جن میں 700 حافظ و
قاری قرآن صحابہ بھی شامل تھے۔ جبکہ مسیلمہ کذاب سمیت اس کے لشکر کے 20 ہزار لوگ
ہلاک ہوئے اور اللہ پاک نے مسلمانوں کو عظیم فتح نصیب فرمائی۔ (الکامل فی التاریخ،
2/218تا 224)
صحابہ کرام
علیہم الرضوان نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر کے اپنا عقیدہ واضح کر دیا کہ حضور
خاتم النبیین ﷺ اللہ کے آخری نبی ہیں۔ ان کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آئے گا اور اگر
کوئی نبوت کا دعوی کرے تو اس سے اعلان جنگ کیا جائے گا۔
حضرت
عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا عقیدہ: حضرت عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ
نے کوفہ میں کچھ لوگ پکڑے جو نبوت کے جھوٹے دعویدار مسیلمہ کذاب کی تشہیر کرتے اور
اس کے بارے میں لوگوں کو دعوت دیتے تھے۔ حضرت عثمان غنی رضی الله عنہ نے فرمایا: ان
کے سامنے دین حق اور لا الہ الا الله محمد رسول اللہ کی گواہی پیش کرو۔ جو اسے
قبول کر لے اور مسیلمہ کذاب سے براءت و علیحدگی اختیار کرے اسے قتل نہ کرنا اور جو
مسیلمہ کذاب کے مذہب کو نہ چھوڑے اسے قتل کر دینا۔ ان میں کو سے کئی لوگوں نے
اسلام قبول کر لیا تو انہیں چھوڑ دیا اور جو مسیلمہ کذاب کے مذہب پر رہے تو ان کو
قتل کر دیا۔ (سنن کبری للبیہقی، 8 / 350، رقم : 16852 )
مسئلہ ختمِ
نبوت پر کردارِ صحابہ از بنت محمد فہیم کھتری،فیض مدینہ نارتھ کراچی

ختمِ نبوت سے
مراد یہ ہے کہ جو سلسلہ نبوت اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السلام سے شروع کیا اس کی
انتہا محمد عربی ﷺ کی ذات اقدس پر فرمائی یعنی حضور ﷺ پر نبوت ختم ہو گئی آپ ﷺ آخری
رسول ہیں آپ کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا اس عقیدے کو شریعت کی اصطلاح میں
عقیدہ ختمِ نبوت کہا جاتا ہے۔
عقیدہ ختمِ
نبوت ان عقائد میں سے ہے جس کو اسلام کے اصول اور ضروریات دین میں شمار کیا گیا ہے
اسی لیے عہد نبوت سے لے کر آج تک ہر مسلمان بغیر کسی تاویل و تخصیص کے آپ ﷺ کے
خاتم النبیین ہونے پر ایمان رکھتا آیا ہے۔
اس عقیدے کی
اہمیت کا اندازہ یوں بھی لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن کریم کی 100 آیات مبارکہ اور
نبی کریم ﷺ کی 200 سے زائد احادیث مبارکہ سے یہ مسئلہ ثابت ہے اس کا منکر کافر و
مرتد ملعون ہے اس میں ادنی سا شک کرنے والا بھی کافر ہے اور عذاب نار کا حقدار ہے۔
(میزان الادیان بالاسلام، ص 54)
عقیدہ
ختمِ نبوت پر صحابہ کرام کا کردار: امیر المؤمنین حضرت ابوبکر صدیق رضی
اللہ عنہ نے رسول کریم ﷺ کے زمانے میں نبوت کا جھوٹا دعوی کرنے والے مسیلمہ کذاب
اور اس کے ماننے والوں سے جنگ کے لیے صحابی رسول حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ
کی سربراہی میں 24 ہزار کا لشکر بھیجا جس نے مسیلمہ کذاب کے 40 ہزار کے لشکر سے
جنگ کی، تاریخ میں اسے جنگ یمامہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اس جنگ میں 1200
مسلمانوں نے جام شہادت نوش فرمایا جن میں 700 حافظ و قاری قرآن صحابی بھی شامل تھے
جبکہ مسیلمہ کذاب سمیت اس لشکر کے 20 ہزار لوگ ہلاک ہوئے اور اللہ پاک نے مسلمانوں
کو فتح نصیب فرمائی۔
نبوت کا جھوٹا
دعوی کرنے والا یہ مسیلمہ کذاب حضرت وحشی رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں واصل جہنم ہوا اس
وقت حضرت وحشی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں زمانہ کفر میں سب سے اچھے آدمی کا قاتل
تھا اور زمانہ اسلام میں سب سے بدتر کا قاتل ہوں۔ (کتاب العقائد، ص 54)
اس عقیدے کی
اہمیت کا اندازہ یوں بھی لگایا جاسکتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کی ظاہری حیات میں اسلام
کے تحفظ اور دفاع کے لیے جتنی بھی جنگی لڑی گئیں ان میں شہید ہونے والے صحابہ کرام
کی کل تعداد 259 ہے اور عقیدہ ختمِ نبوت کی دفاع کے لیے جنگ یمامہ میں 1200 صحابہ
کرام شہید ہوئے صحابہ کرام علیہم الرضوان کی اس عقیدے پر جانثاری سے اس کی عظمت کا
اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
اسی طرح جب
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کوفہ میں کچھ لوگ پکڑے جو نبوت کے جھوٹے
دعویدار مسیلمہ کذاب کی تشہیر کرتے اور اس کے بارے میں لوگوں کو دعوت دیتے۔ حضرت
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو جب اس کے بارے میں
خط لکھا تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جواب میں لکھا کہ ان کے سامنے دین حق کی
گواہی پیش کرو جو اسے قبول کرے اور مسیلمہ کذاب سے علیحدگی اختیار کر لے اسے قتل
نہ کرنا اور جو مسیلمہ کذاب کے مذہب کو نہ چھوڑے اسے قتل کر دینا ان میں سے جو
مسیلمہ کذاب کے دین پر تھے ان لوگوں کو قتل کر دیا گیا۔
حضرت ثمامہ بن
اثال رضی اللہ عنہ نبوت کے جھوٹے دعویدار مسیلمہ کذاب سے اس قدر نفرت کیا کرتے تھے
کہ جب کوئی آپ کے سامنے اس کا نام لیتا تو جوش ایمانی سے آپ کے جسم پر لرزہ طاری
ہو جاتا اور رونگٹے کھڑے ہو جاتے۔ آپ نے ایک مرتبہ مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے یہ
تاریخی جملے ادا کیے: محمد رسول ﷺ کے ساتھ نہ تو کوئی اور نبی ہے نہ ان کے بعد
کوئی نبی ہے جس طرح اللہ پاک کے الوہیت میں کوئی شریک نہیں ہے اسی طرح محمد ﷺ کی
نبوت میں کوئی شریک نہیں ہے ۔
اسی طرح نبوت
کا جھوٹا دعوی کرنے والا اسود عنسی اس کو صحابی رسول حضرت فیروز دیلمی رضی اللہ
عنہ نے قتل کر کے واصل جہنم کر دیا اس کا واقعہ کچھ یوں ہے کہ قبیلہ مراد سے تعلق
رکھنے والے کچھ افراد نے نبی کریم ﷺ کو اسود عنسی کے بارے میں خبر دی تو پیارے آقا
ﷺ نے ان کو خط لکھا کہ تم اکھٹے ہو کر جس طرح ممکن ہو اسود عنسی کے شر و فساد کو
ختم کرو اس پر دو اشخاص اسود عنسی کی خواب گاہ میں داخل ہوئے اور حضرت فیروز دیلمی
نے اسے قتل کر دیا۔ حضور نبی کریم ﷺ نے اپنی وفات ظاہری سے پہلے ہی خبر دے دی تھی
کہ آج رات اسود عنسی مارا گیا ہے اور مرد مبارک نے جو اس کے اہل بیت سے ہے اس نے
اسے قتل کیا ہے اس کا نام فیروز ہے اور فرمایا : فاز فیروز یعنی فیروز کامیاب ہوا۔
(کتاب العقائد، ص 50)
یہ صحابہ کرام
علیہم الرضوان کا ایمانی جذبہ تھا کہ ان لوگوں نے عقیدہ ختمِ نبوت کے لیے اپنی
جانوں کی قربانیاں پیش کیں اور نبوت کے جھوٹے دعویداروں کو واصل جہنم کیا۔
مسئلہ ختمِ
نبوت پر کردارِ صحابہ از بنت محمد فہیم عطاری،فیض مدینہ نارتھ کراچی

اللہ پاک نے
حضرت محمد ﷺ کو تمام انبیا و مرسلین کے بعد سب سے آخری میں دنیا میں بھیجا حضرت
محمد ﷺ پر رسالت و نبوت ختم ہو گئی رسول اللہ ﷺ کے زمانہ مبارکہ اور آپ کی ظاہری
وصال کے بعد سے قیامت تک کسی کو نبوت ملنا ممکن نہیں ہے اگر کوئی حضور کو آخری نبی
نہ مانے یا اس میں ذرہ برابر بھی شک کرے تو وہ کافر و مرتد ہو کر دائرہ اسلام سے
نکل جاتا ہے۔
ختمِ نبوت کا
عقیدہ ان اجماعی عقیدے میں سے ہے جو اسلام کے حصول اور ضروریات دین میں شمار ہوتے
ہیں اور عہد نبوت سے لے کر آج تک ہر مسلمان اس پر ایمان رکھتا آ یا کہ حضور ﷺ بلا
کسی تاویل و تخصیص کے خاتم النبیین ہیں اور یہ مسئلہ قرآن و کریم میں صریح آیات
اور احادیث متواتر اور اجماعِ امت سے ثابت ہے جس کا منکر قطعا کافر ہے اور کوئی
تاویل و تخصیص اس بارے میں قبول نہیں کی گئی۔
حضرت
ابوبکر اور جماعتِ صحابہ کا کردار: حضرت ابوبکر نے رسول کریم ﷺ کے زمانے
میں نبوت کا جھوٹا دعوی کرنے والے مسیلمہ کذاب اور اس کے لوگوں سے جنگ کے لئے
صحابی رسول حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی سربراہی میں 24 ہزار کا لشکر بھیجا
جس نے مسیلمہ کذّاب کے 40ہزار کے لشکر سے جنگ کی، تاریخ میں اسے جنگ یمامہ کے نام
سے یاد کیا جاتا ہے، اس جنگ میں 1200 مسلمانوں نے جام شہادت نوش فرمایا جن میں 700
حافظ و قاری قرآن صحابہ بھی شامل تھے جبکہ مسیلمہ کذّاب سمیت اس کے لشکر کے 20ہزار
لوگ ہلاک ہوئے اور اللہ پاک نے مسلمانوں کو عظیم فتح نصیب فرمائی۔ (الکامل فی
التاریخ، 2 / 218 تا 224)
آپ نے مدعی
نبوت اور اس کے لوگوں سے جہاد و قتال کو یہود اور نصاری اور مشرکین سے جہاد و قتل
پر مقدم سمجھا جس سے معلوم ہوا کہ مدعی نبوت اور اس کے لوگوں کا کفر یہود اور
نصاری اور مشرکین کے کفر سے بڑا ہے عام کفار سے صلح ہو سکتی ہے اور ان کا جزیہ بھی
قبول کیا جا سکتا ہے مگر مدعی نبوت سے نہ تو کوئی صلح ہو سکتی ہے اور نہ ہی ان سے
کوئی جزیہ قبول کیا جا سکتا ہے۔
مسیلمہ کذاب
کا کفر فرعون کے کفر سے بڑھ کر ہے اس لیے کہ فرعون مدعی الوہیت تھا اور الوہیت میں
کوئی التباس اور اشتباہ نہیں ادنی عقل والا سمجھ سکتا ہے کہ جو شخص کھاتا اور پیتا
اور سوتا اور جاگتا اور ضرورت انسانی میں مبتلا ہوتا ہے وہ خدا کہاں سے ہو سکتا
ہے؟ مسیلمہ کذاب مدعی نبوت تھا اور ظاہری بشر کے اعتبار سے سچے نبی اور جھوٹے نبی
میں التباس ہو سکتا ہے اس لیے مدعی نبوت کا فتنہ مدعی الوہیت کے فتنے سے کہیں اہم
اور عظیم ہے اور ہر زمانے میں خلفا اور سلاطین اسلام کا یہی معمول رہا ہے کہ جس نے
نبوت کا دعوی کیا اسی وقت اس کا سر قلم کیا۔
حضرت
عثمان غنی کا کردار: حضرت عبداللہ بن مسعود نے کوفے میں کچھ لوگ پکڑے جو
نبوت کے جھوٹے دعوی دار مسیلمہ کذاب کی تشہیر کرتے اور اس کے بارے میں لوگوں کو
دعوت دیتے تھے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ان پر اسلام پیش کرو جو
اسلام قبول کر لے ان کو چھوڑ دو اور جو نہ کرے ان کو قتل کر دو۔ (سنن کبریٰ للبیہقی،
8/ 350، رقم: 16852)
حضرت
فیروز دیلمی کا کردار: نبی کریم ﷺ کے زمانے میں اسود عنسی نامی شخص نے یمن
میں نبوت کا دعوی کیا حضرت محمد ﷺ نے اس کے شر و فساد سے لوگوں کو بچانے کے لیے
صحابہ کرام سے فرمایا کہ اسے نیست و نابود کر دو حضرت فیروز دیلمی رضی اللہ عنہ نے
اس کے محل میں داخل ہو کر اس کو قتل کر دیا حضرت محمد ﷺ نے حالتِ وصال میں غیب کی
خبر دیتے ہوئے فرمایا : اسود عنسی مارا گیا ہے اور اس کے اہل بیت کے ایک مرد نے اس
کو قتل کیا ہے۔ حضور نے فرمایا: فیروز کامیاب ہوگیا۔ (مدارج النبوۃ مترجم، 2/ 481ملخصا
)
نبی کریم ﷺ نے
نبوت کے دعوے کرنے والوں کے بارے میں پہلے سے خبر دے دی تھی جن صحابہ کرام کے زمانہ
مبارکہ میں نبوت کے جھوٹے دعویدار پیدا ہوئے صحابہ کرام کا ایمان جوش مارا اور
انہوں نے نبوت کا جھوٹا دعوی کرنے والوں کو قتل کر دیا۔
مسئلہ ختمِ
نبوت پر کردارِ صحابہ از بنت عبدالرشید،فیض مدینہ نارتھ کراچی

الله پاک نے
حضور ﷺ کو دنیا میں تمام انبیاء و مرسلین کے بعد سب سے آخر میں بھیجا اور رسول ﷺ پر
رسالت و نبوت کا سلسلہ ختم فرمادیا۔ سرکار مدینہ ﷺ کے بعد قیامت تک کسی کو نبوت
ملنا ناممکن ہے اور یہ دین اسلام کا ایسا بنیادی عقیدہ ہے کہ جس کا انکار کرنے
والا یا اس میں ذرہ برابر شک کرنے والا کافر و مرتد ہو کر دائرہ اسلام سے خارج
ہوجاتا ہے۔
اس مضمون میں ختمِ
نبوت پر صحابہ کرام کے اعمال و اقوال پڑھیں گے جن کے پڑھنے سے ان شاء اللہ عقیدہ ختمِ
نبوت کو مزید تقویت و پختگی ملے گی کہ عقیدہ ختمِ نبوت صحابہ کرام تابعین تبع
تابعین سلف وصالحین علمائے کاملین اور تمام مسلمانوں کا اجتماعی و اتفاقی عقیدہ
ہے۔
مسلمانوں کے
پہلے خلیفہ امیر المومنین حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے رسول کریم ﷺ کے زمانے
میں نبوت کا جھوٹا دعوی کرنے والے مسیلمہ کذاب اور اسکے ماننے والوں سے جنگ کیلئے
صحابی رسول خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی سربراہی میں 24 ہزار کا لشکر بھیجا جس نے
مسیلمہ کذاب کے 40 ہزار کے لشکر سے جنگ کی تاریخ میں اسے جنگ یمامہ کے نام سے یاد
کیا جاتا ہے۔ (الکامل فی التاریخ، 2/218 تا 224 )

اللہ پاک نے
حضور نبی کریم ﷺ کو دنیا میں تمام انبیا و مرسلین کے بعد سب سے آخر میں بھیجا اور
رسول کریم ﷺ پر رسالت و نبوت کا سلسلہ ختم فرمادیا۔ سرکار مدینہ ﷺ کے زمانے یا
حضور اکرم ﷺ کے بعد قیامت تک کسی کو نبوت ملنا ناممکن ہے، یہ دین اسلام کا ایسا
بنیادی عقیدہ ہے کہ جس کا انکار کرنے والا یا اس میں ذرہ برابر بھی شک و شبہ کرنے
والا کافر و مرتد ہوکر دائرۂ اسلام سے نکل جاتا ہے۔
مسلمانوں کے
پہلے خلیفہ، امیر المؤمنین حضرت سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول کریم ﷺ کے
زمانے میں نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والے مسیلمہ کذّاب اور اس کے ماننے والوں سے
جنگ کے لئے صحابی رسول حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی سربراہی میں 24 ہزار کا
لشکر بھیجا جس نے مسیلمہ کذّاب کے 40ہزار کے لشکر سے جنگ کی، تاریخ میں اسے جنگ
یمامہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، اس جنگ میں 1200 مسلمانوں نے جام شہادت نوش
فرمایا جن میں 700 حافظ و قاری قرآن صحابہ بھی شامل تھے جبکہ مسیلمہ کذّاب سمیت اس
کے لشکر کے 20ہزار لوگ ہلاک ہوئے اور اللہ پاک نے مسلمانوں کو عظیم فتح نصیب
فرمائی۔
مفکر اسلام
حضرت علّامہ شاہ تراب الحق قادری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ رحمت عالم ﷺ کے دس
سالہ مدنی دور میں غزوات اور سرایا ملا کر کل 74 جنگیں ہوئیں جن میں کل 259 صحابہ
شہید ہوئے جبکہ مسیلمہ کذّاب کے خلاف جو جنگ یمامہ لڑی گئی وہ اس قدر خونریز تھی
کہ صرف اس ایک جنگ میں 1200صحابہ شہید ہوئے جن میں سات سو حفاظ صحابہ بھی شامل
ہیں۔ ختمِ نبوت کے معاملے میں جنگ یمامہ میں 24ہزار صحابۂ کرام نے شریک ہوکر اور
1200 صحابۂ کرام نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرکے اپنا عقیدہ واضح کردیا کہ حضور
نبیّ کریم ﷺ اللہ پاک کے آخری نبی و رسول ہیں، حضور اکرم ﷺ کے بعد کوئی نیا نبی
نہیں ہوسکتا اور اگر کوئی نبوت کا دعویٰ کرے تو اس سے اعلان جنگ کیا جائے گا۔
صحابہ کرام
رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ختمِ نبوت کے تحفظ میں کردار ایک عظیم اور ابدی میراث
ہے۔ ان کی قربانیاں، تعلیمات اور عمل نے نہ صرف عقیدہ ختمِ نبوت کو امت مسلمہ میں
راسخ کیا بلکہ اسے ہر قسم کے اندرونی و بیرونی چیلنجز سے محفوظ بھی رکھا۔ ان کی
خدمات کا فیض آج تک جاری ہے اور رہتی دنیا تک جاری رہے گا۔
مسئلہ ختمِ
نبوت پر کردارِ صحابہ از بنت شہزاد احمد، جامعۃ المدینہ دھوراجی کراچی

اللہ پاک قرآن
پاک میں ارشاد فرماتا ہے: مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ
وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ
شَیْءٍ عَلِیْمًا۠(۴۰) (پ
22، الاحزاب: 40) ترجمہ: محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ہاں اللہ کے رسول
ہیں اور سب نبیوں میں پچھلے اور اللہ سب کچھ جانتا ہے۔
آیت کے اس حصے
وخاتم النبیین کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے: یعنی محمد مصطفیٰ ﷺ آخری نبی ہیں کہ
اب آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اورنبوت آپ پر ختم ہوگئی ہے اور آپ کی نبوت
کے بعد کسی کو نبوت نہیں مل سکتی حتّٰی کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہو ں گے
تو اگرچہ نبوت پہلے پاچکے ہیں مگر نزول کے بعد نبی کریم ﷺ کی شریعت پر عمل پیرا
ہوں گے اور اسی شریعت پر حکم کریں گے اور آپ ہی کے قبلہ یعنی کعبہ معظمہ کی طرف
نماز پڑھیں گے۔
یاد رہے کہ
حضور اقدس ﷺ کا آخری نبی ہونا قطعی ہے اور یہ قطعیّت قرآن و حدیث و اجماع امت سے
ثابت ہے۔ قرآن مجید کی صریح آیت بھی موجود ہے اور احادیث تواتر کی حد تک پہنچی
ہوئی ہیں اور امت کا اجماع قطعی بھی ہے، ان سب سے ثابت ہے کہ حضور اکرم ﷺ سب سے آخری
نبی ہیں اور آپ کے بعد کوئی نبی ہونے والا نہیں۔ جو حضور پر نور ﷺ کی نبوت کے بعد
کسی اور کو نبوت ملنا ممکن جانے وہ ختمِ نبوت کا منکر، کافر اور اسلام سے خارج ہے۔
(صراط الجنان، 8/46)
کردارِ
صحابہ کرام: جنگ
یمامہ کے موقع پر حضرت صدیق اکبر، حضرت خالد بن ولید، حضرت وحشی، حضرت ابو دجانہ
سماک بن حرب رضی اللہ عنہم کا مبارک طرز عمل اس پر گواہ ہے کہ صحابہ کرام علیہم
الرضوان نے عقیدہ ختمِ نبوت کے تحفظ میں اہم کردار ادا کیا۔ جیسا کہ
مسلمانوں کے
پہلے خلیفہ، امیر المؤمنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول کریم ﷺ کے زمانے
میں نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والے مسیلمہ کذّاب اور اس کے ماننے والوں سے جنگ کے
لئے صحابی رسول حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی سربراہی میں 24 ہزار کا لشکر
بھیجا جس نے مسیلمہ کذّاب کے 40ہزار کے لشکر سے جنگ کی، تاریخ میں اسے جنگ یمامہ کے
نام سے یاد کیا جاتا ہے، اس جنگ میں 1200 مسلمانوں نے جام شہادت نوش فرمایا جن میں
700 حافظ و قاری قرآن صحابہ بھی شامل تھے جبکہ مسیلمہ کذّاب سمیت اس کے لشکر کے
20ہزار لوگ ہلاک ہوئے اور اللہ پاک نے مسلمانوں کو عظیم فتح نصیب فرمائی۔
بخاری شریف کی
شرح عمدۃ القاری میں ہے:یعنی یمامہ کی جنگ میں ستر صحابہ شہید ہوئے۔ یمامہ یمن کا
ایک شہر ہے جو طائف سے دو منزل کے فاصلے پر واقع ہے۔ جب رسول اللہ ﷺ کے بعد حضرت
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو انہوں نے مسیلمہ کذاب کے خلاف ایک لشکر
روانہ کیا، جس نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا، اور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ
عنہ کو اس لشکر کا امیر بنایا۔
اس واقعے کی
تفصیل طویل ہے، لیکن خلاصہ یہ ہے کہ جب حضرت خالد مسیلمہ کے قریب پہنچے اور دونوں
لشکروں کا آمنا سامنا ہوا، تو زبردست جنگ ہوئی۔ مسلمانوں نے ایسی استقامت دکھائی
جو اس سے پہلے نہ دیکھی گئی۔ آخرکار اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی،
کفار نے پیٹھ پھیر دی، اور ان میں سے اکثر ایک باغ (حدیقہ) میں داخل ہو گئے۔ صحابہ
نے انہیں گھیر لیا، پھر باغ کی دیواریں اور دروازے توڑ کر اندر داخل ہو گئے، اور
باغ کے اندر موجود تمام مرتدوں کو قتل کر دیا۔ یہاں تک کہ وہ مسیلمہ (اللہ کی لعنت
ہو اس پر) تک پہنچ گئے۔
پھر حضرت وحشی
بن حرب (رضی اللہ عنہ)، جنہوں نے پہلے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو قتل کیا تھا
(اسلام سے پہلے)، انہوں نے مسیلمہ پر نیزہ مارا جو اس کے جسم کو چیرتا ہوا پار ہو
گیا۔ اس کے بعد حضرت ابو دجانہ سماک بن حرب رضی اللہ عنہ نے اس پر تلوار کا وار
کیا، جس سے وہ گر گیا۔
اس جنگ اور
باغ میں مارے جانے والوں کی تعداد قریباً دس ہزار تھی، اور ایک قول کے مطابق اکیس
ہزار تک پہنچتی ہے۔ مسلمانوں میں سے چھ سو یا پانچ سو شہید ہوئے (واللہ اعلم)۔ ان
شہداء میں ستر صحابہ کرام شامل تھے۔ کہا جاتا ہے کہ مسیلمہ کی عمر قتل کے وقت ایک
سو چالیس سال تھی۔
حضرت
فیروز دیلمی کا کردار: نبیّ کریم ﷺ کے زمانے میں اسود عنسی نامی شخص نے
یمن میں نبوت کا دعویٰ کیا، سرکار دو عالم ﷺ نے اس کے شر و فساد سے لوگوں کو بچانے
کے لئے صحابۂ کرام سے فرمایا کہ اسے نیست و نابود کردو۔ حضرت فیروز دیلمی رضی اللہ
عنہ نے اس کے محل میں داخل ہوکر اسے قتل کردیا۔ رسول کریم ﷺ نے غیب کی خبر دیتے
ہوئے مدینۂ منورہ میں مرض وصال کی حالت میں صحابۂ کرام کو یہ خبر دی کہ آج اسود
عنسی مارا گیا اور اسے اس کے اہل بیت میں سے ایک مبارک مرد فیروز نے قتل کیا ہے،
پھر فرمایا : فاز فیروز یعنی فیروز کامیاب ہوگیا۔ (الخصائص الکبری، 2/464)
حضرت
عبداللہ بن زید:
آپ رضی اللہ عنہ خود بھی صحابی ہے اور آپ کے والدین بھی۔ آپ نے وحشی کے ساتھ مل کر
مسیلمہ کذاب کو قتل کیا۔ (مراۃ المناجیح، 2/391)
حضرت
ثابت بن قیس: حضرت
ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ پیارے آقا ﷺ سے بہت محبت کرنے والے اور آپ کو خاتم
النبیین ماننے والے ہیں، انہوں نے بھی غزوہ یمامہ جو خلافت صدیقی میں ہوئی مسیلمہ
کذاب سے اعلی درجے کا جہاد کیا اور اسی جنگ میں شہید ہوگئے۔ (الاکمال فی اسماء
الرجال، ص 588)
حضرت
ثمامہ بن اثال کا جوش ایمانی: حضرت ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ نبوّت
کے جھوٹے دعویدار مسیلمہ کذّاب سے اس قدر نفرت کیا کرتے تھے کہ جب کوئی آپ رضی
اللہ عنہ کے سامنے اس کا نام لیتا تو جوش ایمانی سے آپ رضی اللہ عنہ کے جسم پر
لرزہ طاری ہوجاتا اور رونگٹے کھڑے ہوجاتے۔ آپ نے ایک مرتبہ مسلمانوں سے خطاب کرتے
ہوئے یہ تاریخی جملے ادا کئے : محمد رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نہ تو کوئی اور نبی ہے نہ
ان کے بعد کوئی نبی ہے، جس طرح اللہ پاک کی الوہیّت میں کوئی شریک نہیں ہے اسی طرح
محمد مصطفےٰ ﷺ کی نبوّت میں کوئی شریک نہیں ہے۔ (ثمار القلوب فی المضاف والمنسوب،
ص 149، حدیث:207)
سب
صحابہ کا ہے یہ عقیدہ اٹل ہیں
یہ خیر الورٰی خاتم الانبیا
اسی طرح تمام
صحابہ کرام کا یہی عقیدہ رہا کہ پیارے آقا ﷺ خاتم النبیین ہیں اور آپ کے بعد کوئی
نبی نہیں آئے گا کئی صحابہ کرام نے نبوت کے دعوی کرنے والوں سے جنگ و جدال کیا اور
عقیدہ ختم نبوۃ کا تحفظ کیا۔
بعد
آپ کے ہر گز نہ آئے گا نبی نیا واللہ
ایماں ہے میرا اے آخری نبی
مسئلہ ختمِ
نبوت پر کردارِ صحابہ از بنت محمد اشرف، جامعۃ المدینہ سمندری فیصل آباد

ختمِ نبوت اسلام
کا ایک بنیادی اور قطعی عقیدہ ہے جس کا تحفظ ہر مسلمان پر لازم ہے۔ قرآن مجید نے
نبی کریم ﷺ کو خاتم النبیین (تمام انبیاء کے خاتم) قرار دیا، اور خود رسول اللہ ﷺ
نے متعدد احادیث میں یہ بات واضح فرما دی کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔
جب رسول اللہ
ﷺ کا وصال ظاہری ہوا اور مسیلمہ کذاب جیسے جھوٹے مدعیان نبوت نے سر اٹھایا تو اس
فتنے کا سب سے پہلا اور بھرپور رد عمل صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف سے آیا۔ ان
عظیم شخصیات نے اپنی جانیں قربان کر کے، اپنی تلواریں نیام سے نکال کر اور اپنی
زبانوں سے کھل کر اعلان کر کے ثابت کیا کہ ختمِ نبوت کا دفاع ایمان کا تقاضا ہے۔
ان کے نزدیک
یہ مسئلہ صرف ایک نظریاتی بحث نہ تھا، بلکہ ایمان و کفر کا فیصلہ کن معیار تھا۔
یہی وجہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مرتدین اور جھوٹے نبیوں کے خلاف
جہاد کو سب سے پہلی ترجیح دی، حالانکہ اس وقت امت کو کئی دوسرے بڑے مسائل درپیش
تھے۔
نبیّ کریم ﷺ کے
زمانے میں اسود عنسی نامی شخص نے یمن میں نبوت کا دعویٰ کیا، سرکار دو عالم ﷺ نے
اس کے شر و فساد سے لوگوں کو بچانے کے لئے صحابۂ کرام سے فرمایا کہ اسے نیست و
نابود کردو۔ حضرت فیروز دیلمی رضی اللہ عنہ نے اس کے محل میں داخل ہوکر اسے قتل
کردیا۔ رسول کریم ﷺ نے غیب کی خبر دیتے ہوئے مدینۂ منورہ میں مرض وصال کی حالت میں
صحابۂ کرام کو یہ خبر دی کہ آج اسود عنسی مارا گیا اور اسے اس کے اہل بیت میں سے
ایک مبارک مرد فیروز نے قتل کیا ہے، پھر فرمایا : فیروز کامیاب ہوگیا۔ (خصائص
الکبریٰ، 1 / 467)
مسلمانوں کے
پہلے خلیفہ، امیر المؤمنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول کریم ﷺ کے زمانے
میں نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والے مسیلمہ کذّاب اور اس کے ماننے والوں سے جنگ کے
لئے صحابی رسول حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی سربراہی میں 24 ہزار کا لشکر
بھیجا جس نے مسیلمہ کذّاب کے 40ہزار کے لشکر سے جنگ کی، تاریخ میں اسے جنگ یمامہ کے
نام سے یاد کیا جاتا ہے، اس جنگ میں 1200 مسلمانوں نے جام شہادت نوش فرمایا جن میں
700 حافظ و قاری قرآن صحابہ بھی شامل تھے جبکہ مسیلمہ کذّاب سمیت اس کے لشکر کے
20ہزار لوگ ہلاک ہوئے اور اللہ پاک نے مسلمانوں کو عظیم فتح نصیب فرمائی۔ (الکامل
فی التاریخ، 2 / 218 تا 224)
مفکر اسلام
حضرت علّامہ شاہ تراب الحق قادری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ رحمت عالم ﷺ کے دس
سالہ مدنی دور میں غزوات اور سرایا ملا کر کل 74 جنگیں ہوئیں جن میں کل 259 صحابہ
شہید ہوئے جبکہ مسیلمہ کذّاب کے خلاف جو جنگ یمامہ لڑی گئی وہ اس قدر خونریز تھی
کہ صرف اس ایک جنگ میں 1200صحابہ شہید ہوئے جن میں سات سو حفاظ صحابہ بھی شامل
ہیں۔ (ختم نبوت، ص83)
ختمِ نبوت کے
معاملے میں جنگ یمامہ میں 24ہزار صحابۂ کرام نے شریک ہوکر اور 1200 صحابۂ کرام نے
اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرکے اپنا عقیدہ واضح کردیا کہ حضور نبیّ کریم ﷺ اللہ
پاک کے آخری نبی و رسول ہیں، حضور اکرم ﷺ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں ہوسکتا اور اگر
کوئی نبوت کا دعویٰ کرے تو اس سے اعلان جنگ کیا جائے گا۔
صحابۂ کرام
رضی اللہ عنہم نے ختمِ نبوت کے عقیدے کی حفاظت کے لیے جو قربانیاں دیں، وہ رہتی
دنیا تک مسلمانوں کے لیے مشعل راہ ہیں۔ انہوں نے نہ صرف جھوٹے مدعیان نبوت کے خلاف
جہاد کیا بلکہ پوری امت کو یہ پیغام دیا کہ عقیدہ ختمِ نبوت پر کوئی سمجھوتہ ممکن
نہیں۔ حضرات صحابہ نے جس عزم، غیرت ایمانی اور قربانی کا مظاہرہ کیا، وہ اس بات کا
ثبوت ہے کہ ختمِ نبوت ایمان کا بنیادی ستون ہے، اور اس کے تحفظ کے لیے ہر دور کے
مسلمانوں کو ویسی ہی بیداری، قربانی اور استقامت دکھانی ہوگی۔

سرکار مدینہ ﷺ
کے زمانے یا حضور اکرم ﷺ کے بعد قیامت تک کسی کو نبوت ملنا ناممکن ہے، یہ دین
اسلام کا ایسا بنیادی عقیدہ ہے کہ جس کا انکار کرنے والا یا اس میں ذرہ برابر بھی
شک و شبہ کرنے والا کافر و مرتد ہو کر دائرہ اسلام سے نکل جاتا ہے۔
صحابہ کرام
علیہم الرضوان جہاں دیگر معاملات میں آقا کریم ﷺ کے وفادار رہے اسی طرح ختمِ نبوت کے
تحفظ میں بھی نہایت اہم کردار ادا کیا اور نبوّت کے جھوٹے دعویداروں کے خلاف جہاد
اور سخت کاروائیاں کیں،خواہ انہوں نے نبوت کا دعویٰ عہد نبوی میں کیا یا اس کے
بعد،صحابہ کرام علیہم الرضوان کا تحفظ ختمِ نبوت میں جو عظیم کردار رہا اس کا
اندازہ ذیل میں بیان کی گئی روایات سے لگایا جا سکتا ہے، چنانچہ
حضور خاتم
الانبیا کے دور مبارک میں اسود عنسی نامی ایک بدبخت نے نبوّت کا دعویٰ کیا، 10 سن ہجری یمن میں اس کذاب کا ظہور ہوا
اس کا پورا نام عبھلہ بن کعب عنسی اور لقب ذوالخمار تھا۔ بعض نے ذوالحماربھی ذکر
کیا ہے۔ اس کے قتل کیلئے حضرت فیروز دیلمی رضی اللہ عنہ کو خود نبی کریم ﷺ نے ایک
خصوصی مہم پر روانہ فرمایا حضرت فیروز دیلمی رضی اللہ عنہ اسود کے شہر صنعاء
(یمن)میں پہنچ کر چھپ گئے اور ایک رات اسود کی رہائش گاہ کی دیوار میں نقب لگائی
اور بڑی جدوجہد کے بعد اسود عنسی کو جہنم واصل کیا۔
اسی طرح طلحہ
اسدی یہ بھی حضور ﷺ کے زمانہ میں مرتد ہوگیا تھا اور پھر نبوت کا دعویٰ کیا۔ نبی
کریم ﷺ نے اس کے قتل کیلئے حضرت ضرار بن ازور کو بھیجا تھا۔ لیکن نبی کریم ﷺ کی
رحلت کے بعد اس شخص کا معاملہ انتہائی سنگین ہوگیا اور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ
عنہ کی قیادت میں اس کیخلاف جہاد کیا گیا۔
اسی طرح امیر
المؤمنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں کفار و مرتدین کے خلاف
لڑی جانے والی جنگوں میں سے ایک اہم جنگ جنگ یمامہ بھی ہے جو نبوت کے جھوٹے دعویدار مسیلمہ کذاب اور اس کے متبعین کے خلاف لڑی گئی، مفکر اسلام
حضرت علّامہ شاہ تراب الحق قادری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ رحمت عالم ﷺ کے دس
سالہ مدنی دور میں غزوات اور سرایا ملا کر کل 74 جنگیں ہوئیں جن میں کل 259 صحابہ
شہید ہوئے جبکہ مسیلمہ کذّاب کے خلاف جو جنگ یمامہ لڑی گئی وہ اس قدر خون ریز تھی
کہ صرف اس ایک جنگ میں 1200صحابہ کرام شہید ہوئے جن میں سات سو حفاظ صحابہ بھی
شامل ہیں۔ (ختم نبوت، ص83)
اس جنگ میں
حضرت وحشی رضی اللہ عنہ بھی شریک ہوئے اور آپکو یہ سعادت حاصل ہوئی کہ نبوت کا
جھوٹا دعویدار مسیلمہ کذاب آپ ہی کے
ہاتھوں واصل جہنم ہوا۔ مسیلمہ کذاب کو قتل کرنے کے بعد حضرت وحشی رضی اللہ عنہ
فرمایا کرتے تھے : اگر میں نے (اسلام لانے سے قبل ) بہترین انسان ( یعنی حضرت حمزہ
رضی اللہ عنہ) کو شہید کیا ہے تو ( اسلام لانے کے بعد ) بدترین انسان ( یعنی
مسیلمہ کذاب ) کو بھی قتل کیا ہے۔ (فیضان صدیق اکبر، ص 388)
نہ صرف مرد
بلکہ بنو تمیم کے قبیلہ تغلب سے تعلق رکھنے والی ایک عورت نے بھی حضرت ابوبکر صدیق
رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں جھوٹی نبوت کا دعوی کردیا۔اور بنی تغلب کے بعض
سردار بھی اس کے ہمراہ ہوگئے۔عراق سے بڑا لشکر ساتھ لائی اور مدینہ پر قبضہ کرنے
کا منصوبہ بنایا۔ یہ پھر مسیلمہ کذاب سے مل گئی اور اس سے نکاح کرلیا۔ حضرت خالد
بن ولیدرضی اللہ عنہ نے اس کے خلاف بھی جہاد کیا۔
ان تمام
روایات و واقعات کے علاوہ دیگر بھی کئی روایات ہیں جس سے یہ بات ظاہر ہوگئی کہ
صحابۂ کرام نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرکے اپنا عقیدہ واضح کردیا کہ حضور نبیّ
کریم ﷺ اللہ پاک کے آخری نبی و رسول ہیں، حضور اکرم ﷺ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں
ہوسکتا اور اگر کوئی نبوت کا دعویٰ کرے تو اس کے ساتھ کسی طرح کی نرمی نہیں برتی
جائے گی بلکہ اس سے اعلان جنگ کیا جائے گا۔
اللہ کریم صحابہ
کرام علیہم الرضوان کے صدقے ہمیں بھی عقیدہ ختمِ نبوت کی حفاظت کے لیے جان مال
اولاد سب کچھ قربان کرنے کا جذبہ عطا فرمائے۔ آمین