خاتم کا مطلب ہے، مہر لگانے والا اور خاتم النبیین کا معنیٰ سب سے آخری نبی، جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو آخری نبی اور رسول بنا کر بھیجا ہے اور آپﷺ پر نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ آپﷺ کے بعد کوئی نبی یا رسول نہیں آئے گا۔ یہ مسلمانوں کے بنیادی عقائد میں سے ایک ہے، یہ عقیدہ قرآن و سنت سے ثابت ہے، اس پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے، جو کوئی حضور پر نورﷺ کی نبوت کے بعد کسی اور کو نبوت ملنا ممکن جانے، وہ ختمِ نبوت کا منکر، کافر اور اسلام سے خارج ہے، قرآن مجید میں ارشاد باری ہے: مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠(۴۰) (پ 22، الاحزاب: 40) ترجمہ: محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں میں پچھلے اور اللہ سب کچھ جانتا ہے۔

نبوت آپ پر ختم ہو گئی ہے اور آپ کی نبوت کے بعد کسی کو نبوت نہیں مل سکتی، حتیٰ کہ جب حضرت عیٰسی علیہ السلام نازل ہوں گے تو اگرچہ نبوت پہلے پا چکے ہوں گے، مگر نزول کے بعد نبی کریمﷺ کی شریعت پر عمل پیرا ہونگے اور اسی شریعت پر حکم کریں گے اور آپ ہی کے قبلہ یعنی کعبہ معطمہ کی طرف نماز پڑھیں گے۔(خازن، 3/503)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: میری مثال اور مجھ سے پہلے انبیا کی مثال اس شخص کی طرح ہے، جس نے بہت حسین و جمیل ایک گھر بنایا، مگر اس کے ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی، لوگ اس کے گرد گھومنے لگے اور تعجب سے یہ کہنے لگے کہ اس نے یہ اینٹ کیوں نہ رکھی؟پھر آپ نے ارشاد فرمایا:میں(قصر نبوت کی)وہ اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں۔ (مسلم، ص 1255، حدیث: 2286)

نہیں ہے اور نہ ہوگا بعد آقا کے نبی کوئی

وہ ہیں شاہ رسل ختمِ نبوت اس کو کہتے ہیں

لگا کر پشت پر مہر نبوت حق تعالیٰ نے

انہیں آخر میں بھیجا خاتمیت اس کو کہتے ہیں

ختمِ نبوت اور صحابہ کرام کا کردار: مسلمانوں کے پہلے خلیفہ، امیر المؤمنین حضرت سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول کریمﷺ کے زمانے میں نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والے مسیلمہ کذّاب اور اس کے ماننے والوں سے جنگ کے لئے صحابی رسول حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی سربراہی میں 24 ہزار کا لشکر بھیجا جس نے مسیلمہ کذّاب کے 40ہزار کے لشکر سے جنگ کی، تاریخ میں اسے جنگ یمامہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، اس جنگ میں 1200 مسلمانوں نے جام شہادت نوش فرمایا جن میں 700 حافظ و قاری قرآن صحابہ بھی شامل تھے جبکہ مسیلمہ کذّاب سمیت اس کے لشکر کے 20ہزار لوگ ہلاک ہوئے اور اللہ پاک نے مسلمانوں کو عظیم فتح نصیب فرمائی۔ (الکامل فی التاریخ، 2 / 218 تا 224)

مفکر اسلام حضرت علامہ شاہ تراب الحق قادری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: رحمت عالم ﷺ کے دس سالہ مدنی دور میں غزوات اور سرایا ملا کر کل 74 جنگیں ہوئیں جن میں کل 259 صحابہ شہید ہوئے جبکہ مسیلمہ کذّاب کے خلاف جو جنگ یمامہ لڑی گئی وہ اس قدر خونریز تھی کہ صرف اس ایک جنگ میں 1200صحابہ شہید ہوئے جن میں سات سو حفاظ صحابہ بھی شامل ہیں۔ (ختمِ نبوت ص،83) ختمِ نبوت کے معاملے میں جنگ یمامہ میں 24ہزار صحابۂ کرام نے شریک ہوکر اور 1200 صحابۂ کرام نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرکے اپنا عقیدہ واضح کردیا کہ حضور نبیّ کریمﷺ اللہ پاک کے آخری نبی و رسول ہیں، حضور اکرمﷺ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں ہوسکتا اور اگر کوئی نبوت کا دعویٰ کرے تو اس سے اعلان جنگ کیا جائے گا۔

حضرت عثمان غنی کا کردار: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کوفہ میں کچھ لوگ پکڑے جو نبوت کے جھوٹے دعویدار مسیلمہ کذّاب کی تشہیر کرتے اور اس کے بارے میں لوگوں کو دعوت دیتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کے تیسرے خلیفہ، حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو اس بارے میں خط لکھا۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے جواب میں لکھا کہ ان کے سامنے دین حق اور لآ الٰہ الّا اللہ محمّدٌ رّسول اللہ کی گواہی پیش کرو۔ جو اسے قبول کرلے اور مسیلمہ کذّاب سے براءت و علیحدگی اختیار کرے اسے قتل نہ کرنا اور جو مسیلمہ کذّاب کے مذہب کو نہ چھوڑے اسے قتل کردینا۔ ان میں سے کئی لوگوں نے اسلام قبول کرلیا تو انہیں چھوڑ دیا اور جو مسیلمہ کذّاب کے مذہب پر رہے تو ان کو قتل کردیا۔ (سنن کبریٰ للبیہقی، 8 / 350، رقم : 16852)

اللہ کریم ہمیں عقیدۂ ختمِ نبوت کی حفاظت کرنے اور اس پر ثابت قدم رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیینﷺ

صحابہ کرام کا کردار نبوت کے مسئلے میں بہت اہم اور واضح ہے۔ انہوں نے اس عقیدے کی حفاظت اور ترویج کے لیے اپنی جانوں اور اموال کی قربانی۔

ختمِ نبوت کا عقیدہ: صحابہ کرام کا پختہ عقیدہ تھا کہ نبی کریم ﷺ اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں اور آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ نبوت کے حوالے سے صحابہ کرام کا کردار درج ذیل ہے۔

جھوٹے نبیوں کا مقابلہ: جب مسیلمہ کذاب اور دوسرے جھوٹے نبیوں نے نبوت کا دعوی کیا تو صحابہ کرام نے ان کے خلاف جہاد کیا اور ان کے فتنے کو پھیلنے سے روکا۔

مسلمانوں کے پہلے خلیفہ امیر المومنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول کریم ﷺ کے زمانے میں نبوت کا جھوٹا دعوی کرنے والے مسیلمہ کذاب اور اس کے ماننے والوں سے جنگ کے لیے صحابی رسول حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی سربراہی میں 24 ہزار کا لشکر بھیجا جس نے مسیلمہ کذاب کے 40 ہزار کے لشکر سے جنگ کی، تاریخ میں اسے جنگ یمامہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اس جنگ میں 1200 مسلمانوں نے جامع شہادت نوش فرمایا جن میں سے 700 حافظ و قاری قران صحابہ بھی شامل تھے جبکہ مسیلمہ کذاب سمیت اس کے لشکر کے بھی ہزار لوگ ہلاک ہوئے اور اللہ پاک نے مسلمانوں کو عظیم فتح نصیب فرمائی۔ (الکامل فی التاریخ، 2/218تا 224)

مفکر اسلام حضرت علامہ شاہ تراب الحق قادری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ رحمت عالم ﷺ کے 10 سال مدنی دور میں غزوات اور سرایا ملا کر کل 74 جنگیں ہوئی جن میں کل 259 صحابہ شہید ہوئے جبکہ مسیلمہ کذاب کے خلاف جو جنگ یمامہ لڑی گئی وہ اس قدر خونریز تھی کہ صرف اس ایک جنگ میں 1200 صحابہ شہید ہوئے جن میں سے 700 حفاظ صحابہ بھی شامل ہیں۔ (ختم نبوت، ص 83)

ختمِ نبوت کے معاملے میں جنگ یمامہ میں 24 ہزار صحابہ کرام نے شریک ہو کر اور 1200 صحابہ کرام نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر کے اپنا عقیدہ واضح کر دیا کہ حضور نبی اکرم ﷺ اللہ پاک آخری نبی اور رسول ہیں حضور اکرم ﷺ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں ہو سکتا اور اگر کوئی نیا نبی ہونے کا دعوی کرے تو اس سے اعلان جنگ کیا جائے گا۔

حضرت فیروز دیلمی کا جذبہ: نبی اکرم ﷺ کے زمانے میں اسود عنسی نامی شخص نے یمن میں نبوت کا دعویٰ کیا، سرکار دو عالم ﷺ نے اس کے شر و فساد سے لوگوں کو بچانے کے لیے صحابہ کرام سے فرمایا: اسے نست و نابود کر دو حضرت فیروز دیلمی نے اس کے محل میں داخل ہو کر اسے قتل کر دیا۔ رسول کریم ﷺ نے غیب کی خبر دیتے ہوئے مدینہ منورہ میں مرض وصال کی حالت میں صحابہ کرام کو یہ خبر دی کہ آج اسود عنسی مارا گیا اور اس سے اس کے اہل بیت میں سے ایک مبارک مرد فیروز نے قتل کیا پھر فرمایا: یعنی فیروز کامیاب ہو گیا۔ (خصائص کبریٰ، 1/467ملخصا)

حضرت عثمان غنی کا کردار: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کوفہ میں کچھ لوگ پکڑے جو نبوت کے جھوٹے دعویدار مسیلمہ کذاب کی تشہیر کرتے اور اس کے بارے میں لوگوں کو دعوت دیتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کے تیسرے خلیفہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو اس بارے میں خط لکھا۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے جواب میں لکھا کہ ان کے سامنے دین حق اور لا الٰہ الا الله محمد رسول الله کی گواہی پیش کرو جو اسے قبول کر لے اور مسیلمہ کذاب سے برءات وعلیحدگی اختیار کرے اسے قتل نہ کرنا اور جو مسیلمہ کذاب کے مذہب کو نہ چھوڑے اسے قتل کر دینا ان میں سے کئی لوگوں نے اسلام قبول کر لیا تو انہیں چھوڑ دیا اور جو مسیلمہ کذاب کے مذہب پر رہے تو انہیں قتل کر دیا۔ (سنن کبریٰ للبیہقی، 8/350،رقم: 16852)

حضرت ثمامہ کا کردار: حضرت ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ نبوت کے جھوٹے دعویدار مسیلمہ کذاب سے اس قدر نفرت کیا کرتے تھے کہ جب کوئی آپ رضی اللہ عنہ کے سامنے اس کا نام لیتا تو جوش ایمانی سے آپ کے جسم پر لرزہ طاری ہو جاتا اور رونگٹے کھڑے ہو جاتے۔ آپ نے ایک مرتبہ مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے یہ تاریخی جملے ادا کیے محمد رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نہ تو کوئی اور نبی ہے نہ ان کے بعد کوئی نبی ہے جس طرح اللہ پاک کی الوہیت میں کوئی شریک نہیں ہے اسی طرح محمد مصطفی ﷺ کی نبوت میں کوئی شریک نہیں ہے۔ (ثمار القلوب فی المضاف والمنسوب، 1/261)

حضور ﷺ خاتم النبیین ہے آپ ﷺ کے بعد کسی کو نبوت نہیں مل سکتی مختلف زمانوں میں بہت سے کذاب نے نبوت کا دعویٰ کیا جیسے مسیلمہ کذاب، اسود عنسی اور بہت سے جھوٹوں نے تو ان نبوت کے جھوٹے دعوے داروں کے ساتھ صحابہ کرام، تابعین، تبعِ تابعین، صالحین اور علمائے کرام نے مختلف زمانوں میں جنگ لڑ کر، اعلانات کر کے اور دیگر طریقے اپنا کر عقیدہ ختمِ نبوت کی حفاظت کی تو آئیے عقیدہ ختمِ نبوت کی حفاظت کے لیے چند صحابہ کرام کا کردار ملاحظہ فرمائیں:

حضرت ابوبکر صدیق، خالد بن ولید اور بیشتر صحابہ کرام کا کردار: مسلمانوں کے پہلے خلیفہ، امیر المومنین ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والے مسیلمہ کذاب اور اس کے پیروکار وں سے جنگ لڑنے کے لیے صحابی رسول خالد بن ولید کی سربراہی میں 24 ہزار صحابہ کرام کا لشکر بھیجا گیا جس میں حافظ و قاری قرآن صحابہ کرام بھی شامل تھے انہوں نے مسیلمہ کذاب کے 40 ہزار کے لشکر کے ساتھ جنگ کی، تاریخِ اسلام میں اس جنگ کو جنگ یمامہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اس جنگ میں 1200 صحابہ کرام نے جام شہادت نوش فرمایا جن میں 700 حافظ وقاری قرآن صحابہ کرام تھے جبکہ مسیلمہ کذاب سمیت اس کے لشکر کے 20 ہزار لوگ ہلاک ہوئے اور اللہ پاک نے مسلمانوں کو عظیم فتح نصیب فرمائی۔ (الکامل فی التاریخ،2/218 تا 224)

جنگ یمامہ میں 24 ہزار صحابہ کرام نے شریک ہو کر 1200 نے جام شہادت نوش کر کے عقیدہ ختمِ نبوت کی حفاظت کی اور امت کو درس دیا کہ نبوت کے جھوٹے دعوے داروں کے خلاف جنگ کریں۔

حضرت فیروز دیلمی کا کردار: حضرت فیروز دیلمی ایک صحابی رسول تھے جو دسویں سال ایمان لائے وہ نجاشی کے بھانجے تھے اور یمن میں آباد تھے اور انہوں نے ہی سب سے پہلے ایک نبوت کے جھوٹے دعوے دار کو قتل کیا، چنانچہ نبی کریم ﷺ کے زمانے میں اسود عنسی نامی شخص نے یمن میں نبوت کا دعویٰ کیا سرکار دوعالم ﷺ نے اس کے شر و فساد سے لوگوں کو بچانے کے لیے صحابہ کرام سے فرمایا کہ اسے نیست ونابود کردو حضرت فیروز دیلمی نے اس کے محل میں داخل ہو کر اسے قتل کیا۔

رسول اللہ ﷺ نے غیب کی خبر دیتے ہوئے مدینہ منورہ میں مرض وفات کی حالت میں صحابہ کرام کو خبر دی کہ آج اسود عنسی مارا گیا اور اسے اہل بیت میں سے ایک مبارک مرد فیروز نے قتل کیا ہے پھر آپ ﷺ نے فرمایا: فیروز کامیاب ہوگیا۔ (خصائص کبریٰ 1/467)

حضرت عثمان غنی کا کردار: مسلمانوں کے تیسرے خلیفہ کے دور میں حضرت عبداللہ بن مسعود نے کوفہ میں کچھ لوگ پکڑے جو نبوت کے جھوٹے دعوے دار مسیلمہ کذاب کی تشہیر کرتے اور اس کے بارے میں لوگوں کو دعوت دیتے تھے آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان غنی کو اس بارے میں خط لکھا۔

حضرت عثمان غنی نے جواب میں لکھا کہ ان کے سامنے دین حق لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ کی گواہی پیش کرو جو اسے قبول کر لے اور مسیلمہ کذاب سے براءت و علیحدگی اختیار کرے اسے قتل نہ کرنا اور جو مسیلمہ کذاب کے مذہب کو نہ چھوڑے اسے قتل کر دینا ان میں سے کئی لوگوں نے اسلام قبول کر لیا تو انہیں چھوڑ دیا اور جو مسیلمہ کذاب کے مذہب پر رہے تو ان کو قتل کر دیا۔ (سنن کبریٰ للبیہقی، 8/350، رقم: 16852)

حضرت عثمان غنی کے اس خط اور صحابہ کرام کے اس عمل سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ جو نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرے یا دعویٰ کرنے والوں کی پیروی کرے تو اول اس پر اسلام پیش کیا جائے تو اگر وہ مان لیں اور ایمان لے آئے تو چھوڑ دیا جائے اور اگر ایمان نہ لائے تو اس پر بالکل بھی رحم نہ کھایا جائے اور اسے قتل کر دیا جائے۔

حضرت ثمامہ کا قول: صحابی رسول حضرت ثمامہ بن اثال نبوت کے جھوٹے دعوے دار مسیلمہ کذاب سے بے حد نفرت کرتے تھے ایک مرتبہ آپ نے مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے یہ تاریخی جملے ادا کیے: محمد رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نہ تو کوئی اور نبی ہے نہ ان کے بعد کوئی نبی ہے جس طرح اللہ پاک کی الوہیت میں کوئی شریک نہیں ہے اسی طرح محمد مصطفیٰ ﷺ کی نبوت میں کوئی شریک نہیں ہے۔ (ثمار القلوب فی المضاف و المنسوب،1/261)

عقیدہ ختمِ نبوت میں صحابہ کرام کا بہت ہی اہم کردار ادا کیا ہے جسے اس مختصر تحریر میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔

اللہ کریم سے دعا ہے کہ ہمیں عقیدہ ختمِ نبوت کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارا خاتمہ بالخیر فرمائے۔ آمین

اللہ پاک قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد فرماتا ہے: مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠(۴۰) (پ 22، الاحزاب: 40) ترجمہ: محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں میں پچھلے اور اللہ سب کچھ جانتا ہے۔

اس آیت مبارکہ میں خاتم النبیین کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے کہ محمد مصطفیٰ ﷺ آخری نبی ہیں کہ اب آپ کے بعدکوئی نبی نہیں آئے گا اورنبوت آپ پر ختم ہوگئی ہے اور آپ کی نبوت کے بعد کسی کو نبوت نہیں مل سکتی حتّٰی کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہو ں گے تو اگرچہ نبوت پہلے پاچکے ہیں مگر نزول کے بعد نبی کریم ﷺ کی شریعت پر عمل پیرا ہوں گے اور اسی شریعت پر حکم کریں گے اور آپ ہی کے قبلہ یعنی کعبہ معظمہ کی طرف نماز پڑھیں گے۔ (خازن، 3/ 503)

نبی اکرم ﷺ کا آخری نبی ہونا قطعی ہے: یاد رہے کہ حضور اقدس ﷺ کا آخری نبی ہونا قطعی ہے اور یہ قطعیت قرآن و حدیث و اجماعِ امت سے ثابت ہے۔ قرآن مجید کی صریح آیت بھی موجود ہے اور احادیث تواتر کی حد تک پہنچی ہوئی ہیں اور امت کا اجماع قطعی بھی ہے، ان سب سے ثابت ہے کہ حضور اکرم ﷺ سب سے آخری نبی ہیں اور آپ کے بعد کوئی نبی ہونے والا نہیں۔ جو حضور پر نور ﷺ کی نبوت کے بعد کسی اور کو نبوت ملنا ممکن جانے وہ ختمِ نبوت کا منکر، کافر اور اسلام سے خارج ہے۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اللہ سچا اور اس کا کلام سچا، مسلمان پر جس طرح لا الٰہ الّا اللہ ماننا، اللہ سبحٰنہٗ کو احد، صمد، لا شریک لہ (یعنی ایک، بے نیاز اور اس کا کوئی شریک نہ ہونا) جاننا فرض اوّل و مناطِ ایمان ہے، یونہی محمد رسول اللہ ﷺ کو خاتم النبیین ماننا ان کے زمانے میں خواہ ان کے بعد کسی نبی ٔجدید کی بعثت کو یقینا محال وباطل جاننا فرض اجل وجزءِ ایقان ہے۔ وَ لٰكن رّسول اللہ و خاتم النّبیّٖن نص قطعی قرآن ہے، اس کا منکر نہ منکر بلکہ شبہ کرنے والا، نہ شاک کہ ادنیٰ ضعیف احتمال خفیف سے توہّم خلاف رکھنے والا، قطعاً اجماعاً کافر ملعون مخلّد فی النیران (یعنی ہمیشہ کے لئے جہنمی) ہے، نہ ایسا کہ وہی کافر ہو بلکہ جو اس کے عقیدہ ملعونہ پر مطلع ہو کر اسے کافر نہ جانے وہ بھی کافر، جو اس کے کافر ہونے میں شک و تردّد کو راہ دے وہ بھی کافر بین الکافر جلیّ الکفران (یعنی واضح کافر اور اس کا کفر روشن) ہے۔ (فتاویٰ رضویہ، 15/ 630)

اب اس مسئلہ ختمِ نبوت کے مضمون پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اقوال و افعال ذکر کیے جائیں گے جن کے پڑھنے سے یقینا عقیدہ ختمِ نبوت کو مزید تقویت و پختگی ملے گی ان شاءاللہ۔ ختمِ نبوت صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین، سلف صالحین، علمائے کاملین اور تمام مسلمانوں کا اجماعی و اتفاقی عقیدہ ہے۔

حضرت فیروز دیلمی کا جذبہ: نبی کریم ﷺ کے زمانے میں اسود عنسی نامی شخص نے یمن میں نبوت کا دعویٰ کیا، سرکار اقدس ﷺ نے اس کے شر و فساد سے لوگوں کو بچانے کے لیے صحابہ کرام سے فرمایا : اسے نیست و نابود کردو۔ حضرت فیروز دیلمی رضی اللہ عنہ نے اس کے محل میں داخل ہوکر اسے قتل کردیا۔ آقا ﷺ نے غیب کی خبر دیتے ہوئے مدینہ منورہ میں مرض وصال کی حالت میں صحابہ کرام کو یہ خبر دی کہ آج اسود عنسی مارا گیا اور اسے اس کے اہل بیت میں سے ایک مبارک مرد فیروز نے قتل کیا ہے۔ پھر فرمایا: فاز فیروز یعنی فیروز کامیاب ہوگیا۔ (خصائص کبریٰ، 1/ 467 ملخصا)

اللہ کریم ہمیں عقیدہ ختمِ نبوت کی حفاظت کرنے اور اس پر ثابت قدم رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین