خاتم کا مطلب ہے، مہر لگانے والا اور خاتم النبیین کا معنیٰ سب سے آخری نبی، جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو آخری نبی اور رسول بنا کر بھیجا ہے اور آپﷺ پر نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ آپﷺ کے بعد کوئی نبی یا رسول نہیں آئے گا۔ یہ مسلمانوں کے بنیادی عقائد میں سے ایک ہے، یہ عقیدہ قرآن و سنت سے ثابت ہے، اس پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے، جو کوئی حضور پر نورﷺ کی نبوت کے بعد کسی اور کو نبوت ملنا ممکن جانے، وہ ختمِ نبوت کا منکر، کافر اور اسلام سے خارج ہے، قرآن مجید میں ارشاد باری ہے: مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠(۴۰) (پ 22، الاحزاب: 40) ترجمہ: محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں میں پچھلے اور اللہ سب کچھ جانتا ہے۔

نبوت آپ پر ختم ہو گئی ہے اور آپ کی نبوت کے بعد کسی کو نبوت نہیں مل سکتی، حتیٰ کہ جب حضرت عیٰسی علیہ السلام نازل ہوں گے تو اگرچہ نبوت پہلے پا چکے ہوں گے، مگر نزول کے بعد نبی کریمﷺ کی شریعت پر عمل پیرا ہونگے اور اسی شریعت پر حکم کریں گے اور آپ ہی کے قبلہ یعنی کعبہ معطمہ کی طرف نماز پڑھیں گے۔(خازن، 3/503)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: میری مثال اور مجھ سے پہلے انبیا کی مثال اس شخص کی طرح ہے، جس نے بہت حسین و جمیل ایک گھر بنایا، مگر اس کے ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی، لوگ اس کے گرد گھومنے لگے اور تعجب سے یہ کہنے لگے کہ اس نے یہ اینٹ کیوں نہ رکھی؟پھر آپ نے ارشاد فرمایا:میں(قصر نبوت کی)وہ اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں۔ (مسلم، ص 1255، حدیث: 2286)

نہیں ہے اور نہ ہوگا بعد آقا کے نبی کوئی

وہ ہیں شاہ رسل ختمِ نبوت اس کو کہتے ہیں

لگا کر پشت پر مہر نبوت حق تعالیٰ نے

انہیں آخر میں بھیجا خاتمیت اس کو کہتے ہیں

ختمِ نبوت اور صحابہ کرام کا کردار: مسلمانوں کے پہلے خلیفہ، امیر المؤمنین حضرت سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول کریمﷺ کے زمانے میں نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والے مسیلمہ کذّاب اور اس کے ماننے والوں سے جنگ کے لئے صحابی رسول حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی سربراہی میں 24 ہزار کا لشکر بھیجا جس نے مسیلمہ کذّاب کے 40ہزار کے لشکر سے جنگ کی، تاریخ میں اسے جنگ یمامہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، اس جنگ میں 1200 مسلمانوں نے جام شہادت نوش فرمایا جن میں 700 حافظ و قاری قرآن صحابہ بھی شامل تھے جبکہ مسیلمہ کذّاب سمیت اس کے لشکر کے 20ہزار لوگ ہلاک ہوئے اور اللہ پاک نے مسلمانوں کو عظیم فتح نصیب فرمائی۔ (الکامل فی التاریخ، 2 / 218 تا 224)

مفکر اسلام حضرت علامہ شاہ تراب الحق قادری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: رحمت عالم ﷺ کے دس سالہ مدنی دور میں غزوات اور سرایا ملا کر کل 74 جنگیں ہوئیں جن میں کل 259 صحابہ شہید ہوئے جبکہ مسیلمہ کذّاب کے خلاف جو جنگ یمامہ لڑی گئی وہ اس قدر خونریز تھی کہ صرف اس ایک جنگ میں 1200صحابہ شہید ہوئے جن میں سات سو حفاظ صحابہ بھی شامل ہیں۔ (ختمِ نبوت ص،83) ختمِ نبوت کے معاملے میں جنگ یمامہ میں 24ہزار صحابۂ کرام نے شریک ہوکر اور 1200 صحابۂ کرام نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرکے اپنا عقیدہ واضح کردیا کہ حضور نبیّ کریمﷺ اللہ پاک کے آخری نبی و رسول ہیں، حضور اکرمﷺ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں ہوسکتا اور اگر کوئی نبوت کا دعویٰ کرے تو اس سے اعلان جنگ کیا جائے گا۔

حضرت عثمان غنی کا کردار: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کوفہ میں کچھ لوگ پکڑے جو نبوت کے جھوٹے دعویدار مسیلمہ کذّاب کی تشہیر کرتے اور اس کے بارے میں لوگوں کو دعوت دیتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کے تیسرے خلیفہ، حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو اس بارے میں خط لکھا۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے جواب میں لکھا کہ ان کے سامنے دین حق اور لآ الٰہ الّا اللہ محمّدٌ رّسول اللہ کی گواہی پیش کرو۔ جو اسے قبول کرلے اور مسیلمہ کذّاب سے براءت و علیحدگی اختیار کرے اسے قتل نہ کرنا اور جو مسیلمہ کذّاب کے مذہب کو نہ چھوڑے اسے قتل کردینا۔ ان میں سے کئی لوگوں نے اسلام قبول کرلیا تو انہیں چھوڑ دیا اور جو مسیلمہ کذّاب کے مذہب پر رہے تو ان کو قتل کردیا۔ (سنن کبریٰ للبیہقی، 8 / 350، رقم : 16852)

اللہ کریم ہمیں عقیدۂ ختمِ نبوت کی حفاظت کرنے اور اس پر ثابت قدم رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیینﷺ