بدکاری ایک ایسا جرم ہے کہ دنیا کی تمام قوموں کے نزدیک فعل قبیح اور جرم و گناہ ہے اور اسلام میں یہ کبیرہ گناہ ہے اور دنیا اور آخرت میں ہلاکت کا سبب اور جہنم میں لے جانے والا بدترین فعل ہے، اس کی مذمت میں اللہ کریم نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا: وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ سَبِیْلًا(۳۲) (پ 15، بنی اسرائیل: 32) ترجمہ کنز الایمان: اور بدکاری کے قریب نہ جاؤ بے شک وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی بری راہ۔

اللہ پاک نے فرمایا کہ زنا کے قریب بھی مت جاؤ یعنی ان باتوں سے بھی بچتے رہو جو تمہیں زنا کاری کی طرف لے جائیں۔ بدکاری کی مذمت و مخالفت کے بارے میں مندرجہ ذیل چند احادیث بھی پڑھ لیجیے۔

احادیث مبارکہ:

1۔ جو شخص زنا کرتا یا شراب پیتا ہے تو اللہ اس سے ایمان یوں نکالتا ہے جیسے انسان اپنے سر سے قمیص اتارے۔ یعنی ان گناہ کے وقت مجرم نورِ ایمان سے نکل جاتا ہے۔(مستدرک، 1/175، حدیث: 64)

2۔ چار طرح کے لوگوں کو اللہ پاک مبغوض رکھتا ہے؛ بکثرت قسمیں کھانے والا تاجر، متکبر فقیر، بوڑھا زانی اور ظالم حکمران۔ (76 کبیرہ گناہ، ص 57)

پیارے آقا ﷺ سے سوال کیا گیا: کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ ارشاد فرمایا: تو کسی کو اللہ کا ہمسر قرار دے حالانکہ اس نے تجھےپیدا کیا، عرض کی گئی: پھر کون سا؟ ارشاد فرمایا: تیرا اپنی اولاد کو اس خوف سے قتل کر دینا کہ وہ تیرے ساتھ کھائے گی، عرض کی گئی: پھر کون سا؟ ارشاد فرمایا: تیرا اپنی پڑوسی کی بیوی سے زنا کرنا۔ (مسلم، ص 59، حدیث: 86)

4۔ زانی جس وقت زنا کرتا ہے تو ایمان اس سے نکل جاتا ہے پس وہ اس کے سر پر سائبان کی طرح ہو جاتا ہے پھر جب بندہ زنا سے فارغ ہوتا ہے تو ایمان اس کی طرف لوٹ آتا ہے۔ (ترمذی،4/283، حدیث: 2634)

5۔ زناکار قوم میں بکثرت موتیں ہوں گی۔ (جہنم کے خطرات، ص 33)

الغرض دنیا و آخرت میں اس فعل بد کا انجام ہلاکت و بربادی ہے لہٰذا مسلمانوں پر لازم ہے کہ اپنے معاشرے کو اس ہلاکت خیز بدکاری کی نحوست سے بچائیں ورنہ ہمارا خالق اگر ہم سے اس فعل کے سبب ناراض ہو گیا تو ہماری ہلاکت ہوگی۔ جھٹ پٹ توبہ کر لیجیے رب تعالیٰ غفور الرحیم ہے اللہ پاک تمام مسلمانوں کو اس بلائے عظیم سے محفوظ فرمائے۔ آمین


پارہ 15 سورۂ بنی اسرائیل آیت نمبر 32 میں ارشاد ہوتا ہے: وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ سَبِیْلًا(۳۲) (پ15، بنی اسرائیل:32) ترجمہ کنز الایمان: اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بےشک وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی بُری راہ۔

مفسر شہیر حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ نور العرفان میں اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں: زنا یعنی بدکاری کے اسباب سے بھی بچو لہٰذا بدنظری، غیر عورت سے خلوت (تنہائی) عورت کی بے پردگی وغیرہ سب ہی حرام ہیں بخار روکنے کے لیے نزلہ روکو، طاعون سے بچنے کے لیے چوہوں کو ہلاک کرو، پردہ کی فرضیت، گانے باجے کی حرمت، نگاہ نیچی رکھنے کا حکم یہ سب زنا سے روکنے کے لیے ہے۔ (نور العرفان، پ 15، بنی اسرائیل، تحت الآیۃ: 32)

آج ہم اپنے مسلم معاشرے پر نگاہ ڈالیں تو حالات انتہائی نازک ہیں، مردوں اور عورتوں کا اختلاط، بے پردگی، مخلوط تعلیمی اداروں کا نظام، الغرض ہر طرف فحاشی و عریانی کا ایک سیلاب ہے جو ہمیں تباہی و بربادی کی طرف بہائے لیے جا رہا ہے لیکن ہمیں اس سیلاب کے آگے بند باندھنا ہوگا ہمیں ہتھیار نہیں ڈالنے ہمیں نہ صرف بدکاری بلکہ اس کی طرف لے جانے والے تمام اسباب کا بھی سد باب کرنا ہوگا تاکہ ہم ایک پاکیزہ اور صاف ستھری زندگی گزار سکیں جس طرح قرآن پاک میں بدکاری سے بچنے کا حکم آیا بالکل اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی اس فعل بد کی ممانعت آئی ہے، چنانچہ ذیل میں چند احادیث ذکر کی جاتی ہیں۔

احادیث مبارکہ:

1۔ زنا کبیرہ گناہوں میں سے بہت بڑا گناہ ہے اور زانی پر قیامت تک اللہ پاک، ملائکہ اور تمام انسانوں کی لعنت برستی رہے گی اور اگر وہ توبہ کر لے تو اللہ اس کی توبہ قبول فرما لے گا۔(آنسوؤں کا دریا، ص 226)

2۔ نبی کریم ﷺ نے حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے فرمایا: جب بندہ اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہوگا تو شرک کے بعد اس کا کوئی گناہ زنا سے بڑھ کر نہ ہوگا اور اسی طرح وہ شخص جو اپنے نطفے کو حرام رحم میں رکھتا ہے وہ بھی ایسا ہی ہے قیامت کے دن زانی کی شرمگاہ سے ایسی پیپ نکلے گی کہ اگر اس میں سے ایک قطرہ سطحِ زمین پر ڈال دیا جائے تو اس کی بو کی وجہ سے ساری دنیا والوں کا جینا دوبھر ہو جائے۔ (آنسوؤں کا دریا، ص 227)

3۔ زنا تنگ دستی پیدا کرتا ہے اور چہرے کا نور ختم کر دیتا ہے اللہ فرماتا ہے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں زانی کو تنگ دست کر دوں گا اگرچہ کچھ عرصہ بعد سہی۔ (آنسوؤں کا دریا، ص 227)

4۔ زنا سے بچتے رہو کیونکہ یہ جسم کی تازگی کو ختم کرتا ہے اور طویل محتاجی کا سبب ہے اور آخرت میں اللہ کی ناراضگی حساب کی سختی اور ہمیشہ کے لیے جہنم میں جانے کا سبب ہے۔ (آنسوؤں کا دریا، ص 228)

5۔ حضرت لقمان حکیم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے بیٹے سے ارشاد فرمایا: بیٹا بدکاری سے بچ کر رہنا کیونکہ اس کی ابتدا خوف اور انتہا ندامت ہے اور اس کا انجام جہنم کی وادی آثام ہے۔ (آنسوؤں کا دریا، ص 235)

اب بدکاری کے چند اسباب کے متعلق بھی جان لیتے ہیں، چنانچہ

پہلا سبب یہ ہے کہ اجنبی عورتوں سے بے تکلف ہونا اور انہیں چھونا و مس کرنا، بد قسمتی سے آج کل حالات بڑے ناگفتہ بہ ہیں، مردوں اور عورتوں کا اختلاط عام ہو چکا ہے چنانچہ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عورتوں کے ساتھ تنہائی اختیار کرنے سے بچو اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے جو شخص کسی عورت کے ساتھ تنہائی اخیتار کرتا ہے تو ان کے درمیان شیطان ہوتا ہے اور کسی شخص کا سیاہ بدبودار کیچڑ میں لت پت خنزیر کو چھونا اس کے لیے اس سے بہتر ہے کہ اس کے کندھے ایسی عورت کے کندھوں کے ساتھ مس ہوں جو اس کے لیے حلال نہیں۔ (الزواجر عن اقتراف الکبائر، 2/6)

معلوم ہوا جہاں مرد و عورت تنہا ہوتے ہیں وہاں شیطان بھی ہوتاہے لہٰذا اس بے جا اختلاط سے بچیے۔

بدکاری کا دوسرا سبب ہے اخلاق سوز ناول و کتابیں پڑھنا اور حیا سوز تصاویر، فلمیں ڈرامے اور سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کا غلط استعمال بھی بدکاری کی طرف لے جانے کا بہت بڑا سبب ہے، انسان جو کچھ پڑھتا یا دیکھتا ہے اس کا اثر اس کے دل پر ہوتا ہے اور پھر اسی طرح کے خیالات جنم لیتے ہیں موجودہ دور میں میڈیا بدنگاہی اور اس کے نتیجے میں ہونے والی بہت ساری معاشرتی برائیوں کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔

تاجدار رسالت ﷺ نے ارشاد فرمایا: آنکھیں بھی بدکاری کرتی ہیں۔ (الزواجر عن اقتراف الکبائر، 2/6)

اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آنکھوں کی بدکاری دیکھنا ہے۔ (الزواجر عن اقتراف الکبائر، 2/5)

حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جو آدمی اپنی آنکھوں کو بند کرنے پر قادر نہیں ہوتا وہ اپنی شرمگاہ کی بھی حفاظت نہیں کرسکتا۔ (احیاء علوم الدین، 3/125)

تو معلوم ہوا کہ بدنگاہی انسان کے بدکاری میں مبتلا ہونے کا ذریعہ ہے لہٰذا ہمیں اپنی آنکھوں کی حفاظت کرنی چاہیے۔

معاشرے کو فحاشی و بدکاری کے طوفان سے بچانے کے لیے دو مدنی پھول پیش خدمت ہیں:

پہلا یہ کہ معاشرے میں حیا کو عام کرنا ہوگا ہمیں اگر اپنے معاشرے کو پاکیزہ بنانا ہے تو اس کے لیے شرم و حیا کے پیغام کو عام کرنا ہوگا کیونکہ حیا ایک ایسی چیز ہے جہاں یہ ہو وہاں سے برائی ختم ہو جاتی ہے اور جہاں حیا نہ ہو وہاں فحاشی و عریانی ڈیرے ڈال لیتی ہے چنانچہ منقول ہے کہ جس میں حیا نہیں اس کا جو جی چاہے کرے۔ (بخاری، 2/470، حدیث: 3483)

امیر اہلسنت فرماتے ہیں: اللہ سے حیا یہ ہے کہ اس کی ہیبت و جلال اور اس کا خوف دل میں بٹھائے اور ہر اس کام سے بچے جس سے اس کی ناراضگی کا اندیشہ ہو۔

اسلام میں حیا کو بہت اہمیت دی گئی ہے چنانچہ حدیث شریف میں ہے: بے شک ہر دین کا ایک خلق ہے اور اسلام کا خلق حیا ہے۔ (مؤطا امام مالک، 2/405، حدیث: 1724)

ایک اور حدیث شریف میں ہے: حیا ایمان سے ہے۔ (مؤطا امام مالک، 2/405، حدیث: 1725)

تو ہمیں چاہیے کہ خود بھی با حیا بنیں اور اپنے ارد گرد کے ماحول کو بھی حیادار بنانے کی کوشش کریں۔

دوسرا مدنی پھول یہ ہے کہ بے پردگی کا خاتمہ کرنا ہے، بدکاری کا راستہ روکنے کے لیے معاشرے میں بے پردگی کا رواج ختم کرنا ہوگا اور پردہ نافذ کرنا ہوگا کیونکہ عورت کا حسن و جمال اور پھر اس کا بن سنور کر بے پردہ نکلنا بہت سارے گناہوں کے دروازے کھول دیتا ہے اللہ کے محبوب ﷺ نے ارشاد فرمایا: عورت چھپانے کی چیز ہے جب وہ نکلتی ہے تو اسے شیطان جھانک کر دیکھتا ہے۔ (ترمذی، 2/392، حدیث: 1172)

حتی الامکان بے پردگی وغیرہ کے معاملے میں عورتوں کو روکا جائے مگر حکمت عملی کے ساتھ، کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ سختی کر بیٹھیں جس سے گھر کا امن ہی تہہ و بالا ہوکر رہ جائے۔

اللہ پاک ہمیں ان مدنی پھولوں پر عمل کر کے اپنے معاشرے کو بدکاری جیسے گناہ کبیرہ کی نحوست سے بچانے کی توفیق عطا فرمائے۔


ان کی پاکی کا خدائے پاک کرتا ہے بیاں              آیۂ تطہیر سے ظاہر ہے شانِ اہلِ بیت

اللہ پاک پارہ 22 سورۂ احزاب آیت نمبر 33 میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳) ترجمہ کنز الایمان: اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی کو دور فرمادے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا کردے۔

اہلِ بیت سے مراد کون: خزائن العرفان اس آیتِ مبارکہ کی تفسیر میں ہے: اوراہلِ بیت میں نبی کریم ﷺ کے ازواجِ مطہرات اور حضرت خاتونِ جنّت فاطمہ زہرا اور علیِ مرتضٰی اور حسنینِ کریمین رضی اللہ عنہم سب داخل ہیں، آیات و احادیث کو جمع کرنے سے یہی نتیجہ نکلتا ہے۔(خزائن العرفان، ص780)

حضرت علامہ سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: یہ آیتِ کریمہ اہلِ بیت کے فضائل کا منبع یعنی سرچشمہ ہے، اس سے ان کے اعزازِ ماثر یعنی بلند مقام اور علوِ شان یعنی اونچی شان کا اظہار ہوتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ تمام اخلاقِ دنیہ یعنی گھٹیا اخلاق و احوالِ مذمومہ یعنی ناپسندیدہ حالتوں سے ان کی تطہیر یعنی پاکی فرمائی گئی۔ بعض احادیث میں مروی ہے کہ اہلِ بیت نار یعنی جہنم پر حرام ہیں اور یہی اس تطہیر کا فائدہ اور ثمرہ ہے، اور جو چیز ان کے احوال شریف یعنی شرافت والی حالتوں کے لائق نہ ہو اس سے ان کا پروردگار انہیں محفوظ رکھتا اور بچاتا ہے۔ (سوانح کربلا، ص 82)

آئیے! اللہ کریم کے ان مقدس بندوں اور آقا ﷺ کے حقوق کے بارے میں سنتے ہیں:

اچھا سلوک: اہلِ بیت سے اچھا سلوک کیا جائے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو میرے اہلِ بیت میں سے کسی کے ساتھ اچھا سلوک کرے گا میں قیامت کے دن اس کا بدلہ عطا کروں گا۔ (تاریخ ابن عساکر، 45/303، رقم: 5254)

اولاد کو ان کی محبت سکھانا: رسول اللہ ﷺ کے اہلِ بیت کے حقوق میں سے ہے کہ اپنی اولاد کو ان کی محبت سکھائی جائے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اپنی اولاد کو تین باتیں سکھاؤ: اپنے نبی کی محبت، اہلِ بیت کی محبت اور تلاوتِ قرآن۔ (جامع صغیر، ص25، حدیث: 311)

اہلِ بیت کی خدمت کرنا اور انہیں خوش کرنا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص وسیلہ حاصل کرنا چاہتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ میری بارگاہ میں اس کی کوئی خدمت ہو جس کے سبب میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں، تو اسے چاہئے کہ میرے اہلِ بیت کی خدمت کرے اور انہیں خوش کرے۔ (الشرف المؤبد، ص 54)

اہلِ بیت سے محبت کرنا: اہلِ بیت کے حقوق میں سے ہے کہ ان سے محبت کی جائے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس وقت تک کوئی کامل مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کو اس کی جان سے زیادہ پیارا نہ ہوجاؤں اور میری اولاد اس کو اپنی اولاد سے زیادہ پیاری نہ ہوجائے۔ (شعب الایمان، 2/189، حدیث: 1505)

اہلِ بیت سے دشمنی نہ رکھنا: اہلِ بیت کے حقوق میں سے ہے کہ ان سے دشمنی نہ رکھی جائے کہ حدیثِ مبارکہ میں ہے کہ جو شخص اہلِ بیت سے دشمنی رکھتے ہوئے مرا وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کی پیشانی پر لکھا ہوگا: یہ آج اللہ پاک کی رحمت سے مایوس ہے۔ (تفسیر قرطبی، پ 25، الشوریٰ، تحت الآیۃ:23، 8/17)

روایت میں ہے کہ میرے اہلِ بیت میری امت کے لئے امان و سلامتی ہیں۔ (نوادر الاصول، 5/130، حدیث: 1133)

ہمیں چاہئے کہ دنیا و آخرت میں سرخرو ہونے کے لئے رسول اللہ ﷺ کے اہلِ بیت کے تمام حقوق احسن انداز سے ادا کریں اور اپنے درجات کی بلندی کا سامان کریں۔

اللہ پاک ہمیں اہلِ بیت ِ کرام رضی اللہُ عنہم کی سچی و پکی محبت عطا فرمائے اور ان کے صدقے میں ہماری دنیا و آخرت بہتر فرمائے، ان کے غلاموں میں اٹھائے۔ آمین


حقیقت ہے کہ جب کسی سے محبت ہوجائے تو اس سے نسبت رکھنے والی ہر شے سے پیار ہوجاتا ہے۔ ایسے ہی جس کو پیارے آقا ﷺ سے محبت ہوتی ہے وہ ان کی آلِ پاک سے بھی محبت رکھتا ہے اور ان کے صحابہ سے بھی پیار کرتا ہے۔ قرآن پاک میں اہلِ بیت کا ذکر آیا ہے: اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳)(پ 22، الاحزاب: 33) ترجمہ کنز الایمان: اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی کو دور فرمادے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا کردے۔

احادیثِ مبارکہ میں اہلِ بیت کے بہت سارے فضائل بیان کئے گئے ہیں، جن میں سے پانچ درج ذیل ہیں:

(1) اے فاطمہ! بےشک اللہ پاک تمہیں اور تمہاری اولاد کو عذاب نہیں دے گا۔ (معجم کبیر، 11/210، حدیث: 11685)

(2) اپنی اولاد کو تین باتیں سکھاؤ: اپنے نبی کی محبت، اہلِ بیت کی محبت اور تلاوتِ قرآن۔ (جامع صغیر، ص25، حدیث: 311)

(3) میر ی شفاعت میری امت کے اس شخص کے لئے ہے جو میرے گھرانے سے محبت رکھنے والا ہو۔ (تاریخِ بغداد، 2/144)

(4) جو شخص اولادِ عبد المطلب میں کسی کے ساتھ دنیا میں بھلائی کرے گا اس کا بدلہ دینا مجھ پر لازم ہے، جب وہ روزِ قیامت مجھ سے ملے گا۔ (تاریخ بغداد، 1/102)

(5) تم میں بہتر آدمی وہ ہے جو میرے بعد میرے اہلِ بیت کے لئے بہتر ہوگا۔ (مستدرک، 4/369، حدیث: 5410)

ہمیں بھی اہلِ بیت سے محبت کرنی چاہئے اور اہلِ بیت کا ادب و احترام کرنا چاہئے اور ان سے محبت کرکے برکت حاصل کرنی چاہئے۔ اللہ پاک ہمیں اہلِ بیت کا ادب و احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


لفظِ اہل کا معنی ہے والا اور لفظِ بیت کا معنی ہے گھر یعنی اس سے مراد گھر والا یا گھر والے ہیں۔ ہمارے اردو محاورے میں بھی بیوی بچوں کو اہلِ خانہ یا اہل و عیال یا گھر والے کہا جاتا ہے۔ اہلِ بیت نبوت  خانوادۂ نبوت ہے۔ اہلِ بیت ِ نبوت سیدِ مرسلین ﷺ کا گھرانہ ہے۔ اہلِ بیت کی محبت باعثِ تکمیلِ ایمان ہے۔ اہلِ بیتِ نبوت وہ مقدس ہستیاں ہیں کہ جس طرح حضور ﷺ تمام انبیاء ورسل علیہمُ السّلام کے سردار ہیں اسی طرح رسول اللہ ﷺ کے اہلِ بیت تمام انبیاء کرام اور رسلِ عظام علیہمُ السّلام کے اہلِ بیت کے سردار ہیں۔ (عظمت و شانِ اہلِ بیت،ص 23)

انہی نفوسِ قدسیہ کی شان میں اللہ پاک نے قرآن مجید میں فرمایا: اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳)(پ 22، الاحزاب: 33) ترجمہ کنز الایمان: اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی کو دور فرمادے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا کردے۔

مندرجہ بالا آیتِ کریمہ میں اہلِ بیت سے مراد کون لوگ ہیں، اس بارے میں مختلف اقوال ہیں، لیکن اکثر مفسرین کا خیال ہے اور خود حضور نبیِ کریم ﷺ نے اس آیتِ کریمہ کے نازل ہونے کے بعد ارشاد فرمایا: یہ آیتِ تطہیر علی، فاطمہ، حسن اور حسین (رضی اللہُ عنہم )کے متعلق نازل ہوئی۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ کی محبت کا تقاضا ہے کہ اہلِ بیت سے محبت ہو جیسا کہ خود رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: اللہ پاک کی محبت کی بناء پر مجھ سے محبت رکھو اور میری محبت کی بناء پر اہلِ بیت سے محبت رکھو۔(مشکاۃ المصابیح، 2/443، حدیث: 6182)

نسبتِ اہلِ بیت کا طلبگار ہوگیا کرکے وفا ان سے جنت کا حقدار ہوگیا

جسے اہلِ بیت کی محبت مل جائے اسے دونوں جہاں کی عزت مل جائے گی، آخرت میں شفیعِ امت ﷺ کی رفاقت میسر آئے گی، اہلِ بیت کے صدقے اس کی بخشش و مغفرت ہوجائے گی۔ (کراماتِ شیرِ خدا)

اہلِ بیتِ رسول اللہ ﷺ کی ایک دن کی محبت پورے سال کی عبادت سے بہتر ہے اور جو اسی محبت پر فوت ہوا تو وہ جنت میں داخل ہوگیا۔ (الشرف الموبد، ص 92)

اگر کوئی شخص حجرِ اسود اور مقامِ ابراہیم کے درمیان مقیم ہو، پابندِ صوم وصلوۃ ہو اور اس حالت میں فوت ہو کہ وہ محمد مصطفےٰ ﷺ کے اہلِ بیت سے بغض رکھتا ہو وہ آگ میں داخل ہوگا۔(عقائد ومسائل،ص82)

راہِ فقر میں تمام مقامات اور منازل اہلِ بیت کے وسیلے سے عطا ہوتے ہیں، جو اہلِ بیت کا منکر اور بےادب ہے وہ اسلام سے خارج ہے۔

حضر ت زید بن ارقم سے روایت ہے: نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا: ہم تمہارے درمیان وہ شے چھوڑ کر جارہے ہیں کہ اگر تم نے اسے مضبوطی سے تھامے رکھا تو ہمارے بعد ہرگز ہرگز گمراہ نہ ہوگے، ان میں سے ایک دوسری سے بڑی ہے: اللہ پاک کی کتاب جو آسمان سے زمین تک پھیلی ہوئی ہے اور ہماری اولاد اور اہلِ بیت۔ یہ دونوں جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ دونوں ہمارے پاس حوض ِ کوثر پر آئیں گے۔ تم دیکھو کہ ان کے ساتھ ہمارے بعد کیسا معاملہ کرتے ہو۔ (عقائد و مسائل،ص89)

جو شخص امام حسن و حسین اور اہلِ بیت یا صحابہ کرام رضی اللہُ عنہم میں سے کسی کی شان میں گستاخی کے کلمات کہتا ہے اس پر حدیث شریف میں لعنت آئی ہے، ایسا شخص فاسق اور گمراہ ہے۔

دل میں بغضِ اہلِ بیت اور جنت جانے کا جنون

انا للہ وا نا الیہ راجعون

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ سے محبت کرو کہ اس نے تمہیں نعمتوں سے نوازا ہے اور اللہ کی محبت کی خاطر مجھ سے محبت کرو اور میری محبت کی خاطر میرے اہلِ بیت سے محبت کرو۔ (مشکاۃ المصابیح، 2/443، حدیث: 6182)

خدا نے کتے کی طرح نجس کسی کو نہیں پیدا کیا لیکن وہ شخص کتے سے زیادہ نجس ہے جس کے دل میں بغضِ آلِ محمد ہو۔

اللہ پاک ہم مسلمانوں کو اس کشتی میں سوار فرمادے کہ جو ہماری فلاح و بقا کا ذریعہ ہے اور ہمیں ہلاکت سے محفوظ فرمادے اور اہلِ بیت کی ہمارے دلوں میں صحیح عقیدت و احترام نصیب فرمائے۔ آمین


اہلِ بیت میں نبیِ کریم ﷺ کی ازواجِ مطہرات اور حضرت خاتونِ جنت فاطمہ زہرا، حضرت علی مرتضیٰ اور امام حسن و حسین رضی اللہُ عنہم سب داخل ہیں۔ (خزائن العرفان، ص780)

پیاری اسلامی بہنو! قرآن کریم میں اہلِ بیت کی محبت کے بارے میں اللہ پاک کا فرمان ہے: قُلْ لَّاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰىؕ- (پ25، الشوری: 23) ترجمہ کنز الایمان: تم فرماؤ میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا مگر قرابت کی محبت۔

ان کے گھر بےاجازت جبرئیل آتے نہیں قدر والے جانتے ہیں قدر و شانِ اہلِ بیت

مسلمانوں کے دلوں میں جہاں صحابہ کرام رضی اللہُ عنہم کی محبت دینِ اسلام کے لئے ضروری ہے، وہیں حضور ﷺ کے گھرانے اہلِ بیت ِ اطہار رضی اللہُ عنہم سے محبت و عقیدت بھی دینِ اسلام کا حصہ ہے۔ آقا ﷺ نے جہاں اپنے اصحاب کے بارے میں فرمایا: میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں، ان میں سے جس کی اقتدا کروگے ہدایت پاؤ گے۔ (مشکاۃ المصابیح، 2/414، حدیث: 6018) وہیں اپنی آل کے لئے بھی فرمایا:میرے اہلِ بیت کی مثال کشتیِ نوح کی طرح ہے، جو اس میں سوار ہوا وہ نجات پاگیا اور جو پیچھے رہ گیا وہ ہلاک ہوگیا۔ (مستدرک، 3/ 81، حدیث: 3365)

حضرت زید بن ارقم رضی اللہُ عنہ روایت کرتے ہیں: آپ ﷺ نے فرمایا: لوگو! میں تمہیں اللہ یاد دلاتا ہوں، میری اہلِ بیت کی محبت، مودت اور ان کے ساتھ معاملے کو سامنے رکھتے ہوئے اللہ سے ڈرنا اور اس کو یاد رکھنا۔ اس کو آپ ﷺ نے دوبار دہرایا۔ (کنز العمال، 13/276، حدیث: 3762)

کس زباں سے ہو بیان عزو شان اہلِ بیت

ایک بارحضرت صدیقِ اکبر رضی اللہُ عنہ نے فرمایا: رسولِ اکرم ﷺ کے احترام کے پیشِ نظر اہلِ بیت کا احترام کرو۔ (بخاری، 2/438، حدیث: 3713)

اللہ پاک پارہ 22 سورۂ احزاب آیت نمبر 33 میں ارشاد فرماتا ہے:اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳) ترجمہ کنز الایمان: اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی کو دور فرمادے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا کردے۔

ان کی پاکی کا خدائے پاک کرتا ہے بیاں آیۂ تطہیر سے ظاہر ہے شانِ اہلِ بیت

آپ ﷺ نے فرمایا: اس وقت تک کوئی کامل مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کو اس کی جان سے زیادہ پیارا نہ ہوجاؤں اور میری اولاد اس کو اپنی اولاد سے زیادہ پیاری نہ ہوجائے۔ (شعب الایمان، 2/189، حدیث: 1505)

صحابہ کا گدا ہوں اور اہلِ بیت کا خادم یہ سب ہے آپ کی تو عنایت یارسول اللہ

جو شخص وسیلہ حاصل کرنا چاہتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ میری بارگاہ میں اس کی کوئی خدمت ہو جس کے سبب میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں، تو اسے چاہئے کہ میرے اہلِ بیت کی خدمت کرے اور انہیں خوش کرے۔ (الشرف المؤبد، ص 54)

اللہ پاک سے محبت کرو کیونکہ وہ تمہیں اپنی نعمت سے روزی دیتا ہے اور اللہ پاک کی محبت کے لئے مجھ سے محبت کرو اور میری محبت کے لئے میرے اہلِ بیت سے محبت کرو۔ (ترمذی، 5/434، حدیث: 3814)

ہمارے اہلِ بیت کی محبت کو لازم پکڑلو کیونکہ جو اللہ پاک سے اس حال میں ملا اسے میری شفاعت کے سبب جنت میں داخل فرمائے گا اور اس کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! کسی بندے کو اس کا عمل اسی صورت میں فائدہ دے گا جب کہ وہ ہمارا حق پہچانے۔ (معجم اوسط، 1/606، حدیث: 243)

واللہ وہ سن لیں گے فریاد کو پہنچیں گے اتنا بھی تو ہو کوئی جو آہ کرے دل سے


اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳) (پ 22، الاحزاب: 33) ترجمہ کنز الایمان: اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی دور فرمادے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا کردے۔

خزائن العرفان میں ہے: اوراہلِ بیت میں نبی کریم ﷺ کے ازواجِ مطہرات اور حضرت خاتونِ جنّت فاطمہ زہرا اور علیِ مرتضٰی اور حسنینِ کریمین رضی اللہ عنہم سب داخل ہیں، آیات و احادیث کو جمع کرنے سے یہی نتیجہ نکلتا ہے۔ (خزائن العرفان، ص780) امام طبری رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: اے آلِ محمد! اللہ پاک چاہتا ہے کہ تم سے بری باتوں اور فحش یعنی گندی چیزوں کو دور رکھے اور تمہیں گناہوں کے میل کچیل سے پاک و صاف کردے۔ (تفسیر طبری، 1/296)

ان کی پاکی کا خدائے پاک کرتا ہے بیاں آیۂ تطہیر سے ظاہر ہے شانِ اہلِ بیت

جسے پسند ہو کہ اس کی عمر میں برکت ہو اور اللہ پاک اسے اپنی دی ہوئی نعمت سے فائدہ دے تو اسے لازم ہے کہ میرے بعد میرے اہلِ بیت سے اچھا سلوک کرے۔ جو ایسا نہ کرے اس کی عمر کی برکت اڑجائے اور قیامت میں میرے سامنے کالا منہ لے کر آئے۔(کنز العمال، 6/46،حدیث:34166)

سیدوں کا ادب: حضرت علی خواص رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: بعض اہلِ علم نے یہاں تک فرمایا ہے کہ ساداتِ کرام اگرچہ نسب میں رسول اللہ ﷺ سے کتنے ہی دور ہوں، ان کا ہم پر حق ہے کہ اپنی خواہشوں پر ان کی رضا کو مقدم کریں اور ان کی بھر پور تعظیم کریں اور جب یہ حضرات زمین پر تشریف فرماہوں تو اونچی جگہ (کرسی، صوفے وغیرہ)پر نہ بیٹھیں۔ (نور الابصار، ص129)

سادات کو خصوصاً قربانی کا گوشت دینا: اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ اپنے بارے میں فرماتے ہیں: فقیر کا معمول یہ کہ قربانی ہر سال اپنے حضرت والدِ ماجد رحمۃُ اللہِ علیہ کی طرف سے کرتا ہے اور اس کا گوشت پوست سب تصدق یعنی خیرات کردیتا ہے اور ایک قربانی حضورِ اقدس ﷺ کی طرف سے کرتا ہے اور اس کا گوشت پوست سب نذر حضراتِ سادات کرام فرماتا ہے۔ تقبل اللہ تعالیٰ منی و من المسلمین، اللہ پاک میری اور سب مسلمانوں کی طرف سے قبول فرمائے۔(فتاوی روضویہ، 20/456)

دو جہاں میں خادم آل رسول اللہ کر حضرت آل رسول مقتدا کے واسطے

اعلیٰ حضرت سیدوں کو ڈبل دیتے: اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ ساداتِ کرام کا بہت خیال فرماتے یہاں تک کہ جب کوئی چیز تقسیم فرماتے تو سب کو ایک ایک عطا فرماتے اور سید صاحبان کو دو دیتے۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت، 1/183)

محبتِ اہلِ بیت: اہلِ بیت کی محبت کو لازم پکڑلو کیونکہ جو اللہ پاک سے اس حال میں ملا اسے میری شفاعت کے سبب جنت میں داخل فرمائے گا اور اس کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! کسی بندے کو اس کا عمل اسی صورت میں فائدہ دے گا جب کہ وہ ہمارا حق پہچانے۔ (معجم اوسط، 1/606، حدیث: 243)

تم میں بہتر آدمی وہ ہے جو میرے بعد اہلِ بیت کے لئے بہتر ہوگا۔ (مستدرک، 4/369، حدیث: 5410)

کس زباں سے ہو بیاں عزو شان اہلِ بیت مدح گوئے مصطفےٰ ہے مدح خوانِ اہلِ بیت


مسلمانوں کے دلوں میں صحابۂ کرام رضی اللہُ عنہم کی محبت دینِ اسلام کے لئے ضروری ہے، وہیں حضور ﷺ کے گھرانے اہلِ بیت ِ اطہار رضی اللہُ عنہم سے محبت و عقیدت بھی دینِ اسلام کا حصہ ہے۔ آقا ﷺ نے جہاں اپنے اصحاب کے بارے میں فرمایا: میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں، ان میں سے جس کی اقتدا کروگے ہدایت پاؤ گے۔ (مشکاۃ المصابیح، 2/414، حدیث: 6018) وہیں اپنی آل کے لئے بھی فرمایا:میرے اہلِ بیت کی مثال کشتیِ نوح کی طرح ہے، جو اس میں سوار ہوا وہ نجات پاگیا اور جو پیچھے رہ گیا وہ ہلاک ہوگیا۔(مستدرک، 3/ 81، حدیث: 3365)

ساداتِ کرام کی عظمت پر اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: جب عام صالحین کی صلاح (نیکی) ان کی نسل و اولاد کو دین و دنیا و آخرت میں نفع دیتی ہے تو صدیق و فاروق و عثمان و علی و جعفر و عباس و انصار کرام رضی اللہُ عنہم کی صلاح کا کیا کہنا۔ جن کی اولاد میں شیخ، صدیقی و فاروقی عثمانی وعلوی و جعفری و عباسی و انصاری ہیں، یہ کیوں نہ اپنے نسبِ کریم سے دین و دنیا و آخرت میں نفع پائیں گے! اور اللہ اکبر ! حضراتِ علیہ ساداتِ کرام اولادِ امجاد حضرت خاتونِ جنت، بتولِ ِ زہرا رضی اللہُ عنہا کہ حضور پر نور سید الصالحین، سید العلمین، سید المرسلین ﷺ کے بیٹے ہیں کہ جن کی شان تو ارفع و اعلیٰ و بلند و بالا ہے۔ اللہ پاک فرماتا ہے: اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳)(پ 22، الاحزاب: 33) ترجمہ کنز الایمان: اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی کو دور فرمادے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا کردے۔ (فتاویٰ رضویہ، 23/243- 244)

قرآنِ کریم میں اہلِ بیت کی محبت کے بارے میں اللہ پاک کا فرمان ہے: قُلْ لَّاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰىؕ- (پ25، الشوری: 23) ترجمہ کنز الایمان: تم فرماؤ میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا مگر قرابت کی محبت۔

دورِ صحابہ سے لے کر آج تک امتِ مسلمہ اہلِ بیت سے محبت رکھتی ہے، چھوٹے بڑے سبھی اہلِ بیت سے محبت کا دم بھرتے ہیں۔ حضرت علامہ عبد الروف مناوی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: کوئی بھی امام یا مجتہد ایسا نہیں گزرا جس نے اہلِ بیت کی محبت سے بڑا حصہ اور نمایاں فخر نہ پایا ہو۔ (فیض القدیر، 1/256)

تفسیر خزائن العرفان میں ہے: حضور سیدِ عالم ﷺ کی محبت اور آپ کے اقارب کی محبت دین کے فرائض میں سے ہے۔

نبیِ رحمت شفیعِ امت ﷺ کا فرمان ہے: اس وقت تک کوئی کامل مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کو اس کی جان سے زیادہ پیارا نہ ہوجاؤں اور میری اولاد اس کو اپنی اولاد سے زیادہ پیاری نہ ہوجائے۔ (شعب الایمان، 2/189، حدیث: 1505)

حقوقِ اہلِ بیت: (1)آقا کریم ﷺ نے فرمایا: جو میرے اہلِ بیت میں سے کسی کے ساتھ اچھا سلوک کرے گا میں قیامت کے دن اس کا بدلہ عطا کروں گا۔ (تاریخ ابن عساکر، 45/303، رقم: 5254)

مزید فرمایا: جو شخص اولادِ عبد المطلب میں کسی کے ساتھ دنیا میں بھلائی کرے گا اس کا بدلہ دینا مجھ پر لازم ہے، جب وہ روزِ قیامت مجھ سے ملے گا۔ (تاریخ بغداد، 1/102)

(2)ساداتِ کرام کی تعظیم و تکریم کی اصل وجہ یہی ہے کہ یہ حضرات رسولِ کائنات ﷺ کے جسمِ اطہر کا ٹکڑا ہیں۔ اس لئے ساداتِ کرام کی تعظیم فرض ہے ۔

(3)ساداتِ کرام کی تعظیم آقا کریم ﷺ کی تعظیم ہے۔

(4) استاد بھی سید کو مارنے سے پرہیز کریں۔

(5) سید کی بطورِ سید یعنی وہ سید ہے، اس لئے توہین کرنا کفر ہے۔

(6) ساداتِ کرام کو ایسے کام پر ملازم رکھا جاسکتا ہے جس میں ذلت نہ پائی جاتی ہو، البتہ ذلت والے کاموں میں انہیں ملازم رکھنا جائز نہیں۔

اللہ پاک ہمیں ساداتِ کرام کی تعظیم کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور سدا بے ادبی سے بچائے۔ آمین


الحمد اللہ اللہ پاک نے ہمیں قرآن کی دولت عطا فرمائی اور پھر کریم آقا ﷺ کے صدقے ہمیں اہلِ بیت کی دولت ملی، جن کے فضائل اور کمالات کی حد نہیں۔ اہلِ بیت کے ہم پر بےشمار حقوق ہیں جن کا خیال رکھنا زندگی کے اہم افعال میں سے ایک ہے۔ ان کے حقوق میں سے چند درج ذیل ہیں:

(1) حضرت علی خواص رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: بعض اہلِ علم نے یہاں تک فرمایا ہے کہ ساداتِ کرام اگرچہ نسب میں رسول اللہ ﷺ سے کتنے ہی دور ہوں، ان کا ہم پر حق ہے کہ اپنی خواہشوں پر ان کی رضا کو مقدم کریں اور ان کی بھر پور تعظیم کریں اور جب یہ حضرات زمین پر تشریف فرماہوں تو اونچی جگہ (کرسی، صوفے وغیرہ)پر نہ بیٹھیں۔ (نور الابصار، ص129)

(2) آقا ﷺ سے محبت کا تقاضا ہے کہ ان کے اہلِ بیت سے بھی اتنی محبت کی جائے۔ ان سے محبت کرنا پلِ صراط پر ثابت قدمی کا ذریعہ ہے۔ ان سے کسی قسم کی نفرت انسان کے لئے باعثِ آزمائش ہے۔ حدیث کی میں ہے کہ میری شفاعت امت کے اس شخص کے لئے ہے جو میرے گھرانے سے محبت رکھنے والا ہو۔ (تاریخِ بغداد، 2/144)

(3) اہلِ بیت کے ساتھ ہر حال میں اچھا سلوک کرنا چاہئے، ان کے آگے آوازیں نہ بلند کریں۔ اگر ہمارے یہاں کام کریں تو ادب کے دائرے میں عرض کی جائے۔ اگر ان سے کوئی غلطی ہوجائے تو خلوت میں التجاءً گفتگو کی جائے۔ حدیثِ پاک میں ہے: جو میرے اہلِ بیت میں سے کسی کے ساتھ اچھا سلوک کرے گا میں قیامت کے دن اس کا بدلہ عطا کروں گا۔ (تاریخ ابن عساکر، 45/303، رقم: 5254)

(4) اہلِ بیت کی عظمت و شان بہت بلند ہے، ان کی شان میں گستاخی کرنا، ظلم کرنا، حسد یا بغض رکھنا آقا ﷺ کی شفاعت، جنت اور پلِ صراط پر ثابت قدمی سے دوری کا سبب ہے۔ حدیثِ پاک میں ہے: جس شخص نے میرے اہلِ بیت پر ظلم کیا اور مجھے میری عترت کے بارے میں تکلیف دی اس پر جنت حرام کردی گئی۔ (الشرف الموبد، ص 99)

کس زباں سے ہو بیان عزو شانِ اہل بیت مدح گوئے مصطفےٰ ہے مدح خوانِ اہل بیت

(5) سید زادوں کی ہر حاجات کو مقدم رکھا جائے کہ ان کی عزت بڑھاتے ہوئے ان کی حاجات پوری کی جائیں کہ ان کے دل میں ایسی خوشی داخل ہو کہ ان کے نانا جان ﷺ کا بھی دل خوش ہوجائے۔ ان کے حقوق کی پاسداری کے بعد روزِ محشر ان کے نانا جان ﷺ کے قدموں میں جگہ مل جائے، ان کی شفاعت مل جائے، ان کے ہاتھوں سے جامِ کوثر نصیب ہوجائے۔

تیری نسلِ پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا تو ہے عینِ نور تیرا سب گھرانہ نور کا

اللہ پاک ہم سب کو حقوقِ اہلِ بیت کی پاسداری نصیب فرمائے اور ان کاادب نصیب فرمائے۔ آمین


مجھے آج جس موضوع پر قلم کشائی کی سعادت مرحمت ہوئی وہ موضوع اہلِ بیت کے حقوق پر مبنی ہے۔ اہلِ بیت اطہار کے حقوق بیان کرنے سے پہلے یہ جان لینا نہایت ضروری ہے کہ اہلِ بیت کون ہیں اور ان میں کون نیک ہستیاں داخل ہیں۔

اہلِ بیت سے مراد وہ محترم افراد ہیں جو آقا ﷺ کے اہلِ خانہ ہیں، جن میں نبیِ کریم ﷺ کی ازواجِ مطہرات، خاتونِ جنت حضرت فاطمہ، حضرت علی مرتضیٰ اور حسنین کریمین رضی اللہُ عنہم داخل ہیں۔

آقا ﷺ نے فرمایا: میرے اہلِ بیت کی مثال حضرت نوح علیہ السّلام کی کشتی کی طرح ہے، جو اس میں سوار ہوا نجات پاگیا اور سوار نہیں ہوا ہلاک ہوگیا۔ (مستدرک، 3/ 81، حدیث: 3365)

اس حدیثِ مبارکہ سے شانِ اہلِ بیت تو ظاہر ہوئی مگر ان کا بلند مقام بھی ظاہر ہوگیا اور جو بدبخت ان کی شان میں خباثت بکتے ہیں ان کو شریعت کی طرف سے یہ ایسا جواب ہے کہ جس پر ان کی عقلوں کی رسائی ممکن نہیں۔

اللہ پاک فرماتا ہے: اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳)(پ 22، الاحزاب: 33) ترجمہ کنز الایمان: اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی کو دور فرمادے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا کردے۔

امام طبری رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: اے آلِ محمد! اللہ پاک چاہتا ہے کہ تم سے بری باتوں اور فحش یعنی گندی چیزوں کو دور رکھے اور تمہیں گناہوں کے میل کچیل سے پاک و صاف کردے۔ (تفسیر طبری، 1/296)

ان کی پاکی کا خدائے پاک کرتا ہے بیاں آیۂ تطہیر سے ظاہر ہے شانِ اہلِ بیت

اب میں اہلِ بیت کے پانچ حقوق پر قلم اٹھانا چاہوں گی کہ ان حضرات کا پہلا حق تو یہ ہے کہ ہم امتِ مسلمہ ان حضرات سے محبت کریں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ہمارے اہلِ بیت کو لازم پکڑلو کیونکہ جو اللہ سے اس حال میں ملا کہ وہ ہم سے محبت کرتا ہے تو اللہ پاک اسے میری شفاعت کے سبب جنت میں داخل فرمائے گا اور اس کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے! کسی بندے کو اس کا عمل اس صورت میں فائدہ دے گا جبکہ وہ ہمارا حق پہنچائے۔ (فیضانِ اہلِ بیت)

ان حضرات کا دوسرا حق یہ ہے کہ اپنے دلوں کو اہلِ بیت کے بغض سے پاک رکھا جائے اور ان کی تعظیم کی جائے۔ آقا ﷺ نے فرمایا: جس نے ہمارے اہلِ بیت سے بغض رکھا وہ منافق ہے۔ (فضائلِ صحابہ لامام احمد، 2/661، حدیث: 1126) حضور پر نور ﷺ نے فرمایا: میں قیامت کے دن چار طرح کے لوگوں کی شفاعت کروں گا: میری آل کی عزت و تعظیم کرنے والا، میری آل کی پریشانی میں ان کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرنے والا، میری آل کی ضروریات پوری کرنے والا اور اپنے دل و زبان سے میری آل سے محبت کرنے والا۔ (جمع الجوامع، 1/48)

پیارےآقا ﷺ کی حدیثِ مبارکہ سے پتا چلا کہ اہلِ بیت کی تکریم کرنے والا روزِ قیامت آقا ﷺ کی شفاعت سے ضرور بہرا مند ہوگا۔

ان بابرکت حضرات کا تیسرا حق یہ ہے کہ ان پر درود و سلام کی کثرت کی جائے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص کو یہ پسند ہو کہ اسے پورا ثواب ملے تو اسے چاہئے کہ ہمارے اہلِ بیت پر درود بھیجے۔

معلوم ہوا کہ اہلِ بیت پر درود و سلام پڑھنا بھی حقیقتاً اپنے لئے ہی کارِ ثواب ہے۔ ان پر درود و سلام کی کثرت باعثِ ثواب اور خود پر اللہ پاک کی نعمتوں کا باب کھولنا ہے اور یہی نجات کا ذریعہ ہے۔

چوتھا حق یہ ہے کہ ان کی اتباع کی جائے،ان کے عمل کو اپنایا جائے۔ امتِ مسلمہ پر نعمتوں کی فراوانی کا اندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے۔ آوقا ﷺ نے فرمایا: میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں، اگر ان کی تعلیمات پر عمل کروگے تو کبھی گمراہ نہ ہوگے۔ ایک قرآن اور دوسرا میرے اہلِ بیت ہیں۔ (نور المبین)

قرآن ہدایت ہے اور اہلِ بیت قرآن کے احکامات پر عمل کرنے والے ہیں۔ ان کا طرزِ زندگی و عمل اپنانے سے ان کی اتباع کرنے سے جہالت کے اندھیرے مٹ جاتے ہیں اور ہر کوئی ہدایت سے سرفراز ہوتا ہے۔

شکریہ تم نے آل کا صدقہ میری جھولی میں ڈال رکھا ہے

پانچواں حق یہ ہے کہ ان کی ناموس کا دفاع کیا جائے۔ ان کے خلاف کوئی کلام کرے تو اسے روکا جائے۔ یہ محبت و ادب کا تقاضا ہے کہ ہم جس سے محبت رکھتے ہیں اس کے خلاف کوئی بھی ایسی گفتگو برداشت نہیں کرتے جس سے محبوب کی تذلیل ہوتی ہو، تو اہلِ بیت تو بدرجۂ اولیٰ محبت کے حق دار ہیں اور ان کی محبت ہمارے دل میں طبعی ہونی چاہئے۔

میں اپنے مضمون کو اختتام پذیر کرنے سے پہلے اہلِ بیت کی مدح کرنا چاہوں گی اور یہ بھی ان حضرات کے حقوق میں شامل ہے کہ راہِ فقر میں تمام مقامات اور منازل اہلِ بیت کے وسیلے سے عطا ہوتے ہیں، اہلِ بیتِ اطہار کی محبت ہم پر واجب ہے۔ 


اللہ پاک کے آخری نبی ﷺسے نسبت رکھنے والی ہر چیز (خواہ وہ لباس ہو،جگہ ہو یا آپ کی اولاد ہو ان سب) کا ادب و احترام اور دل کی گہرائیوں سے ان کی تعظیم و توقیر کرنا، دشمنی سےپرہیز، فضیلت کا اقرار اور ذکر خیر کرنا عشق کا تقاضا ہے نبی کریم ﷺکی عظمت کا یہ عالم ہے کہ آپ سے نسبت رکھنے والی ہر چیز عظیم ہو جاتی ہے۔ نسبت اولاد ملنے سے سیادت کا شرف میسر آتا ہے۔آپ کی اولاد کو ہم ادب سے آل رسول اور سادات کرام کہتے ہیں۔

اہل بیت سے مراد: اہل بیت میں نبی کریم ﷺکی تمام اولاد اور ازواج مطہرات شامل ہیں۔ حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی گجراتی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اہل بیت کے معنی ہیں گھر والے۔اہل بیت رسول چندمعنی میں آتا ہے: (1)جن پر زکوۃ لینا حرام ہے یعنی بنی ہاشم عباس،علی، جعفر،عقیل،حارث کی اولاد(2)حضور ﷺ کے گھر میں پیدا ہونے والے یعنی اولاد(3)حضورﷺکے گھر میں رہنے والے جیسے ازواج پاک۔(مراٰۃ المناجیح،8/450)

اہل بیت اطہار وہ عظیم ہستیاں ہیں جنہیں ہمارے پیارے آقا ﷺسے خاندانی نسبت بھی حاصل ہے۔اہلِ بیت اطہار کے ہم بہت سے حقوق ہیں جن میں سے پانچ مندرجہ ذیل ہیں:

تعظیم و توقیر کی جائے: جب نبی کریم ﷺسے منسوب ہر شے کا ادب و احترام لازم ہے تو اہل بیت اطہار کا بھی ادب لازم ہے۔چنانچہ حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ سادات کرام کی تعظیم و توقیر بجا لانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ملاقات کے وقت اگر بتا دیا جائے کہ یہ سید صاحب ہیں تو عموماً ان کی تعظیم کے لیے کھڑے ہو جائے سید زادے کا ہاتھ چوم لیا کرتے ہیں۔ انہیں اپنے برابر میں بٹھاتے ہیں۔ حتی کہ سادات کرام کے بچوں سے بے پناہ محبت اور شفقت سے پیش آتے ہیں۔ ہمیں بھی چاہیے کہ سادات کرام کی تعظیم و توقیر اور ادب و احترام کاکوئی موقع ہاتھ سےنہ جانےدیں۔

عقیدت و محبت کی جائے: محبت اہل بیت کامل ایمان کی علامت ہے۔ اہل بیت سے محبت و عقیدت کی برکت سے آقا ﷺ کی شفاعت ملتی ہے اور ایسا شخص جنت کا حقدار بنتا ہے۔چنانچہ حضور اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا: تم اہل بیت کی محبت کو خود پر لازم کر لو۔جو اللہ پاک سے اس حال میں ملےکہ ہم سے محبت کرتا ہو تو وہ ہماری شفاعت کے صدقے جنت میں چلا جائےگا۔(معجم اوسط، 1/606، حدیث: 243) اس کے بغیر ایمان کامل نہیں ہوتا چنانچہ ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: کوئی بندہ اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوتا یہاں تک کہ میں اس کو اس کی جان سے زیادہ پیارا نہ ہو جاؤں اور میری اولاد اس کو اپنی اولاد سے زیادہ پیاری نہ ہو۔(شعب الایمان، 2/189، حدیث: 1505)

عداوت و دشمنی سے پرہیز کیا جائے: ہمیں سادات کرا م سے محبت کرنی چاہیے۔ جو ان سے دشمنی رکھے یا کسی بھی طریقے سے ان کی بے ادبی کرے تو وہ اپنے اس عمل سے نہ صرف سادات کرام کو بلکہ ان کے جد امجد حضور ﷺکو بھی ناراض کرتا اور جہنم کا حقدار بنتا ہے۔جیسا کہ نبی اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا: اس ذات کی قسم جس کےقبضہ قدرت میں میری جان ہے۔ ہمارے اہل بیت سے بغض رکھنے والے کو اللہ جہنم میں داخل فرمائے گا۔ (مستدرک،4/131،حدیث:4771) ہم اللہ پاک سے عافیت کا سوال کرتے ہیں اور اللہ پاک ہمیں سادات کرام کی بے ادبی کرنے سے محفوظ رکھے۔

عظمت و فضیلت کا اقرار: سادات کرام کا ہم پر حق تو یہ ہے کہ ہم ان پر اپنی روح کو قربان کر ڈالیں کیونکہ رسول اللہ کا مبارک خون اور گوشت ان میں سرایت کیے ہوئے ہے اور جب یہ حضرات زمین پر تشریف فرما ہوں تو اونچی نشست پر نہ بیٹھیں۔ ا ن کی خدمت میں پیش پیش رہنا چاہیے اور عظمت و فضیلت کا اقرار کرنا چاہیے چنانچہ ابو مہزم رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک جنازے میں سے تھے تو کیا دیکھاکہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اپنے کپڑوں سے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے پاؤں مبارک سے مٹی صاف کر رہے تھے۔ (سیر اعلام النبلاء، 4/407)

اہل بیت کا ذکر بھلائی سے کیا جائے:جب بھی اہل بیت اطہار کا ذکر کیا جائے تو بھلائی اور اچھے انداز سے کیا جائے ان کے شایان شان الفاظ استعمال کیے جائیں۔جب بھی ان کے اعراس کے ایام آئیں تو ان کے لیے گھر،مسجد وغیرہ میں ایصال ثواب کے اہتمام کیا جائے۔چنانچہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ خود بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اوصاف و کمالات سنائے اور لوگوں کو بھی اس کا حکم دیا۔حاضرین محفل سے مولا علی رضی اللہ عنہ کے شایان شان اشعار سنانے کا کہا اور اس کے بدلے خوب انعام و اکرام فرمائے۔

الحمد للہ شروع ہی سے صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین،سلف صالحین اور اہل سنت نبی کریم ﷺاور آقا کی آلِ پاک سے محبت اور ان کے حقوق کا خیال رکھتے ہیں۔ اعلیٰ حضرت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ تو سادات کرام کی خوشبو سونگھ لیا کرتے تھے۔ لہذا ہمیں بھی چاہیے کہ سادات کرام کا بے حدادب و احترام کریں، ان کی ضروریات کا خیال رکھیں، ان کا ذکر خیر کرتے رہا کریں اور اپنی اولاد کو اہل بیت اطہار کی محبت و احترام سکھائیں۔ جس طرح اہل بیت نے اپنا خاندان دین اسلام کی سر بلندی کے لیے قربان کیا اسی طرح اہل بیت سے محبت کرنےوالوں کو بھی مشکلات پر واویلا کرنے کے بجائے صبر و ہمت سے کام لینا چاہیے۔

دین اسلام ہمیں حقوق کی ادائیگی کی تلقین کرتا ہے۔یعنی دوسروں کا جو ہم پر حق ہے وہ ہم ادا کریں اور اس کو پورا کریں جس طرح باقی حقوق مسلمان کو ادا کرنا لازم ہے اور اس پر فرض ہے جیسے اللہ پاک کے حقوق، انبیاء کے حقوق،صحابہ کے حقوق۔ اسی طرح ان میں سے ایک حق اہل بیت سے محبت رکھنا بھی ہے۔ اب اہل بیت میں وہ گھرانہ حضور پُر نور ﷺکا گھرانہ ہے او ر اس گھرانے میں حضور ﷺ کی ازواج مطہرات بھی ہیں اور ان کا مرتبہ اہل بیت میں سب سے زیادہ ہے۔اہل بیت سے محبت رکھنا مسلمان ہونے کی علامت اور جو ان سے بغض رکھے اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔اہل بیت کے حقوق بیان کرنے سے پہلے جان لیتے ہیں کہ حقوق کسے کہتے ہیں:

حقوق آزادی یااستحقاق کے قانونی،سماجی یا اخلاقی اصول ہیں۔یعنی حقوق بنیادی معیاری قوانین ہیں جو کسی قانونی، نظامی،سماجی کنوشن یا اخلاقی اصول کے مطابق افراد کو ددیگر افراد کی جانب سے اجازت یا واجب الاداء ہیں۔

اہل بیت کے چند حقوق درج ذیل ہیں:

(1)ہم پر یہ حق ہے کہ ہم اہل بیت سے محبت کریں اور ان کی عزت کریں، ان کا احترام کریں اور ان سے ہمیشہ جڑے رہیں اور اپنے بچوں کو بھی یہی سکھائیں کہ وہ بھی اہل بیت سے محبت کریں۔ان کی محبت اپنے بچوں کے دل میں ڈالیے۔اپنے بچوں کا ان کا احترام سکھائیں۔ چنانچہ حضور ﷺنے ارشاد فرمایا: اپنی اولاد کو تین باتیں سکھاؤ: (1)اپنے نبیﷺکی محبت،(2)اہل بیت کی محبت،(3)قرآن کریم کی تلاوت۔ (الجامع الصغیر،ص25، حدیث: 311)دیکھا آپ نے اگر ہم اس حدیث پر عمل کریں تو بچپن ہی سے ہمارے بچے کا ذہن اچھا بن سکتا ہےاور وہ نیک بنیں گے اور ہمیں بھی اس پر عمل کرنا چاہیے۔

(2)ایک اور حدیثِ مبارکہ ہے کہ اہل بیت کے ذریعے حضور ﷺکا وسیلہ حاصل ہوتا ہے۔چنانچہ فرمایا ہے کہ جو شخص وسیلہ حاصل کرنا چاہتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ میری بارگاہ میں اس کی کوئی حرمت ہو جس کے سبب میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں اسے چاہیے کہ میرے اہل بیت کی حرمت کرے اور انہیں خوش کرے۔(الشرف المؤبد،ص54)

اس حدیثِ مبارکہ میں مسلمانوں کو اپنی شفاعت کرانے کا سنہری موقع دیا جا رہا ہےکہ اگر وہ چاہتے ہیں کہ ان کی شفاعت ہو تو اہل بہت کی حرمت کرے اور ان کو خوش رکھے۔

(3)میں تم میں دو عظیم چیزیں چھوڑرہا ہوں۔ ان میں سے پہلی تو اللہ پاک کی کتاب (قرآن مجید)ہے جس میں ہدایت و نور ہے۔تم اللہ پاک کی کتاب (قرآن کریم)پر عمل کرو اور سے مضبوطی سے تھام لو۔ دوسرے میرے اہل بیت ہیں اور تین مرتبہ ارشاد فرمایا:میں تمہیں اہلِ بیت کے متعلق اللہ پاک کی یاد دلاتا ہوں۔ (مسلم،ص1008،حدیث:6225)

امام شرف الدین محمد بن محمد طیبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: معنی یہ ہے کہ میں تمہیں اپنے اہل بیت کی شان کے حوالے سے اللہ پاک سے ڈراتا ہوں اور تم سے کہتا ہوں کہ تم اللہ پاک سے ڈرو۔ انہیں تکلیف نہ دو بلکہ ان کی حفاظت کرو۔ (شرح الطیبی،11/196)

(4)حضرت امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کہ حضور اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا: اللہ پاک سے محبت کرو کیونکہ وہ تمہیں اپنی نعمت سے روزی دیتا ہے اور اللہ پاک کی محبت (حاصل کرنے) کے لیے مجھ سے محبت کرو اور میری محبت پانے کے لیے میرے اہل بیت سے محبت کرو۔(ترمذی،5/434،حدیث:3814)

اس حدیثِ پاک میں حضور ﷺنے ارشاد فرمایا کہ اگر ہم اپنے رب سے محبت کرتے ہیں۔ اس کی اطاعت و فرمانبرداری کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے حضور ﷺکی محبت و اطاعت لازم ہےاور حضور ﷺکی اطاعت و فرمانبرداری کے لیے ان کے اہل بیت سے رحمت اور ان کی اطاعت کرنا ہوگی تبھی ہم کامیاب اور ہماری محبت کامل ہو سکتی ہے۔

(5)اس حدیثِ مبارکہ کے حصے میں ان لوگوں کابیان ہے جو اہل بیت پر ظلم و زیادتی کرتےاور ان کو دکھ پہنچاتے ہیں، ان کو اذیت دیتے ہیں، ان کے بارے میں حضور ﷺنے ارشاد فرمایا: جس شخص نے میرے اہل بیت پر ظلم کیا اور مجھے میری عزت (یعنی اولاد) کے بارے میں تکلیف دی اس پر جنت حرام کر دی گئی۔ (الشرف المؤبد،ص99)

جس طرح وہ مسلمان جو اہل بیت سے محبت کرتے ہیں اور ان کی حرمت کرنے والوں کے لیے اجر و ثواب اور فوائد موجود ہیں اسی طرح ان پر ظلم و زیادتی کرنے والوں پر بھی ان کے نقصانات اور عذاب ہیں۔ اللہ پاک ہمیں اہل بیت سے محبت رکھنے کی توفیق دے اور ان کے حقوق کو پوری طرح سے بجا لانے کی توفیق دے اور ہمیں بد مذہبوں سے محفوظ فرمائے آمین

آل و اصحاب سے محبت ہے اور سب اولیاء سے الفت ہے

یہ سب اللہ پاک کی عنایت ہے مل گئی مصطفیٰ کی امت ہے۔(وسائل بخشش)