اللہ پاک کے آخری نبی ﷺسے نسبت رکھنے والی ہر چیز (خواہ وہ
لباس ہو،جگہ ہو یا آپ کی اولاد ہو ان سب) کا ادب و احترام اور دل کی گہرائیوں سے
ان کی تعظیم و توقیر کرنا، دشمنی سےپرہیز، فضیلت کا اقرار اور ذکر خیر کرنا عشق کا
تقاضا ہے نبی کریم ﷺکی عظمت کا یہ عالم ہے کہ آپ سے نسبت رکھنے والی ہر چیز عظیم
ہو جاتی ہے۔ نسبت اولاد ملنے سے سیادت کا شرف میسر آتا ہے۔آپ کی اولاد کو ہم ادب
سے آل رسول اور سادات کرام کہتے ہیں۔
اہل بیت سے مراد: اہل بیت
میں نبی کریم ﷺکی تمام اولاد اور ازواج مطہرات شامل ہیں۔ حکیم الامت حضرت مفتی
احمد یار خان نعیمی گجراتی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اہل بیت کے معنی ہیں گھر
والے۔اہل بیت رسول چندمعنی میں آتا ہے: (1)جن پر زکوۃ لینا حرام ہے یعنی بنی ہاشم
عباس،علی، جعفر،عقیل،حارث کی اولاد(2)حضور ﷺ کے گھر میں پیدا ہونے والے یعنی
اولاد(3)حضورﷺکے گھر میں رہنے والے جیسے ازواج پاک۔(مراٰۃ المناجیح،8/450)
اہل بیت اطہار وہ عظیم ہستیاں ہیں جنہیں ہمارے پیارے آقا
ﷺسے خاندانی نسبت بھی حاصل ہے۔اہلِ بیت اطہار کے ہم بہت سے حقوق ہیں جن میں سے
پانچ مندرجہ ذیل ہیں:
تعظیم و توقیر کی جائے: جب نبی کریم ﷺسے منسوب ہر شے کا ادب و احترام لازم ہے تو
اہل بیت اطہار کا بھی ادب لازم ہے۔چنانچہ حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری
دامت برکاتہم العالیہ سادات کرام کی تعظیم و توقیر بجا لانے کا کوئی موقع ہاتھ سے
نہیں جانے دیتے۔ملاقات کے وقت اگر بتا دیا جائے کہ یہ سید صاحب ہیں تو عموماً ان
کی تعظیم کے لیے کھڑے ہو جائے سید زادے کا ہاتھ چوم لیا کرتے ہیں۔ انہیں اپنے
برابر میں بٹھاتے ہیں۔ حتی کہ سادات کرام کے بچوں سے بے پناہ محبت اور شفقت سے پیش
آتے ہیں۔ ہمیں بھی چاہیے کہ سادات کرام کی تعظیم و توقیر اور ادب و احترام کاکوئی
موقع ہاتھ سےنہ جانےدیں۔
عقیدت و محبت کی جائے: محبت اہل
بیت کامل ایمان کی علامت ہے۔ اہل بیت سے محبت و عقیدت کی برکت سے آقا ﷺ کی شفاعت
ملتی ہے اور ایسا شخص جنت کا حقدار بنتا ہے۔چنانچہ حضور اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا: تم
اہل بیت کی محبت کو خود پر لازم کر لو۔جو اللہ پاک سے اس حال میں ملےکہ ہم سے محبت
کرتا ہو تو وہ ہماری شفاعت کے صدقے جنت میں چلا جائےگا۔(معجم
اوسط، 1/606، حدیث: 243) اس کے بغیر ایمان کامل نہیں ہوتا چنانچہ ایک اور جگہ ارشاد
فرمایا: کوئی بندہ اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوتا یہاں تک کہ میں اس کو اس کی جان
سے زیادہ پیارا نہ ہو جاؤں اور میری اولاد اس کو اپنی اولاد سے زیادہ پیاری نہ ہو۔(شعب الایمان، 2/189، حدیث: 1505)
عداوت و دشمنی سے پرہیز
کیا جائے: ہمیں سادات کرا م سے محبت کرنی چاہیے۔
جو ان سے دشمنی رکھے یا کسی بھی طریقے سے ان کی بے ادبی کرے تو وہ اپنے اس عمل سے
نہ صرف سادات کرام کو بلکہ ان کے جد امجد حضور ﷺکو بھی ناراض کرتا اور جہنم کا
حقدار بنتا ہے۔جیسا کہ نبی اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا: اس ذات کی قسم جس کےقبضہ قدرت میں
میری جان ہے۔ ہمارے اہل بیت سے بغض رکھنے والے کو اللہ جہنم میں داخل فرمائے گا۔ (مستدرک،4/131،حدیث:4771) ہم اللہ پاک سے عافیت کا سوال کرتے ہیں اور اللہ پاک ہمیں سادات کرام کی بے
ادبی کرنے سے محفوظ رکھے۔
عظمت و فضیلت کا اقرار: سادات کرام کا ہم پر حق تو یہ ہے کہ
ہم ان پر اپنی روح کو قربان کر ڈالیں کیونکہ رسول اللہ کا مبارک خون اور گوشت ان
میں سرایت کیے ہوئے ہے اور جب یہ حضرات زمین پر تشریف فرما ہوں تو اونچی نشست پر
نہ بیٹھیں۔ ا ن کی خدمت میں پیش پیش رہنا چاہیے اور عظمت و فضیلت کا اقرار کرنا
چاہیے چنانچہ ابو مہزم رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک جنازے میں سے تھے
تو کیا دیکھاکہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اپنے کپڑوں سے حضرت امام حسین رضی
اللہ عنہ کے پاؤں مبارک سے مٹی صاف کر رہے تھے۔ (سیر اعلام النبلاء، 4/407)
اہل بیت کا ذکر بھلائی سے کیا جائے:جب بھی اہل بیت اطہار کا ذکر کیا جائے تو بھلائی اور اچھے
انداز سے کیا جائے ان کے شایان شان الفاظ استعمال کیے جائیں۔جب بھی ان کے اعراس کے
ایام آئیں تو ان کے لیے گھر،مسجد وغیرہ میں ایصال ثواب کے اہتمام کیا جائے۔چنانچہ
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ خود بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اوصاف و کمالات
سنائے اور لوگوں کو بھی اس کا حکم دیا۔حاضرین محفل سے مولا علی رضی اللہ عنہ کے
شایان شان اشعار سنانے کا کہا اور اس کے بدلے خوب انعام و اکرام فرمائے۔