آقاﷺ کی قرآن سے محبت بے مثال تھی اور آپ کی پوری
زندگی قرآن کی تعلیمات کی عملی تصویر تھی۔ یہاں کچھ اہم پہلو بیان کیے گئے ہیں جو
آپ کی قرآن سے محبت کو ظاہر کرتے ہیں۔
1عملی نمونہ: حضرت محمد ﷺ کی پوری زندگی قرآن کی
تعلیمات پر عمل کرنے کا نمونہ تھی۔ آپ نے قرآن کے احکامات کو اپنی زندگی میں نافذ
کیا اور دوسروں کو بھی ان پر عمل کرنے کی تلقین کی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے
روایت ہے: آپ ﷺ کا اخلاق قرآن تھا۔ (مسند امام احمد، 9/380، حدیث: 24655)
2تلاوت: آپ ﷺ باقاعدگی سے قرآن کی تلاوت کرتے تھے،
خاص طور پر رات کی عبادات میں آپ خود بھی قرآن پڑھتے اور دوسروں سے بھی قرآن سننے
کا شوق رکھتے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
نبی کریم ﷺ سب سے زیادہ سخی تھے، اور سب سے زیادہ سخاوت رمضان کے مہینے میں کرتے
تھے جب جبرائیل علیہ السلام آپ سے ملتے اور آپ کے ساتھ قرآن کا دورہ کرتے۔ (بخاری،
1/627، حدیث: 1902)
3. تعلیم و تدریس: آقاﷺ نے صحابہ کو قرآن کی تعلیم
دی اور اس کی تعلیمات کو پھیلایا۔ آپ نے لوگوں کو قرآن کے معانی اور مفاہیم سکھائے
اور اس کی حکمتیں بیان کیں۔
4. حب الوحي: آقا ﷺ وحی کا انتظار کرتے تھے اور جب
وحی آتی تو خوشی اور سکون محسوس کرتے۔ آپکے دل میں قرآن کے الفاظ کی قدر و منزلت
بہت زیادہ تھی۔
5دعا اور ذکر: آقا ﷺ کی دعاؤں اور اذکار میں قرآن
کے الفاظ شامل ہوتے تھے۔ آپ کی دعاؤں میں قرآن کی آیات کا ذکر اور استعمال ہوتا
تھا۔
اللہ تعالیٰ کی کتابوں پر ایمان لانا اور یہ عقیدہ
رکھنا کہ جو کتابیں اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائیں اور اپنے رسولوں کے پاس وحی کے ذریعے بھیجیں، وہ بے شک و
شبہ سب حق اور سچ ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں۔ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی وہ
آخری کتاب ہے جو حضرت جبریل علیہ السلام لے کر آئے اور ہمارے پیارے نبی حضرت ﷺ کے
مبارک دل پر نازل ہوئی۔ وہ ہمارے لیے ہدایت اور دنیا اور آخرت میں کامیابی کا
ذریعہ ہے۔ ہمارے لیے قرآن حکیم ایک فیصلہ کن کلام کی حیثیت رکھتا ہے۔ جیسا کہ
ارشاد باری تعالیٰ ہے: اِنَّهٗ لَقَوْلٌ
فَصْلٌۙ(۱۳) (پ
30، الطارق: 13) ترجمہ: بے شک یہ قرآن ایک فیصلہ کن کلام ہے۔
آخرت میں بھی کامیابی کا دار و مدار قرآن حکیم کے
احکام پر عمل کرنے اور رسول ﷺ کی کامل اتباع کے ساتھ وابستہ ہے۔ جیسا کہ رسول ﷺ نے
فرمایا: قرآن تمہارے حق میں دلیل ہوگا یا تمہارے خلاف۔ (مسلم، ص 140، حدیث: 223)
اس کے علاوہ یہ ایک حقیقت ہے کہ حضور اکرم کا سب سے اہم پیغمبرانہ وظیفہ وحی کے ذریعے قران کو اللہ تعالیٰ سے لینا، اس کی حکمت کو سمجھنا، اس کو سیکھنا اور دوسروں تک پہنچانا اور سکھانا تھا ۔ لہٰذا جو قیامت تک قرآن پڑھنے، سیکھنے اور سکھانے کا مشن
بنائے گا۔ وہ رسول ﷺ کا علمبردار اور خادم
ہو گا اور اس کو رسول ﷺ سے خاص نسبت حاصل ہوگی۔ حدیث مبارکہ ہے: تم میں بہتر شخص
وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔ (بخاری،3 /410، حدیث: 5027)
نبی ﷺ کی قرآن سے محبت کا عالم یہ تھا کہ حضرت
عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کھڑے ہو کر نماز پڑھتے لیکن جب بڑی
عمر ہوگئی اور وزن مبارک میں اضافہ ہوا تو نفل نماز بیٹھ کر پڑھتے تھے۔ جب 30 سے
40 آیات پڑھ لیتے تو کھڑے ہو جاتے۔ ہم اس
سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہم سورہ فاتحہ کے بعد سورہ اخلاص یا سورہ کوثر پڑھنے پر
اکتفا کرتے، جب کہ وہ بڑی عمر میں اتنی
آیات پڑھا کرتے۔ ان کے صدقے میں اللہ سبحان تعالیٰ ہمیں بھی توفیق عطا فرمائیں
آمین۔
حضور اکرم ﷺ کی قرآن سے محبت ایسی تھی کہ وہ قرآن
پڑھتے بھی اور سنتے بھی تھے۔ آپ کے ذوق کا عالم یہ تھا کہ پڑھنے اور سننے کا انداز
لطف والا ہوتا تھا۔ بخاری شریف میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا
فرمان ہے: جب سورہ مرسلات نازل ہوئی اور نبی اکرم ﷺ تلاوت فرما رہے تھے اور آپ کا
چہرہ مبارک تر تھا یعنی انداز یوں تھا جب انسان ذوق اور خشوع کے ساتھ پڑھتا۔ ماشاءاللہ
اسی طرح حضور اکرم اور صحابہ کرام جب آپس میں ملتے
تو قرآن سننے کا بڑا اہتمام کرتے تھے۔ یعنی جب ملاقات فرماتے تو کہتے کچھ قرآن
سناؤ۔ یہ انداز ہوا کرتا تھا۔ بخاری شریف میں موجود ہے کہ ایک
مرتبہ حضور اکرم ﷺ نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے فرمایا: میرے سامنے
قرآن پڑھو انہوں نے فرمایا کہ یا رسول
اللہ میں آپ کے سامنے قرآن کیسے پڑھوں۔ آپ پر تو قرآن نازل ہوا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے
فرمایا: پڑھو میں تم سے قرآن سننا چاہتا ہوں۔ انہوں نے سورۃ النساء کی تلاوت شروع
کی اور نگاہیں جھکائے حضرت عبداللہ بن مسعود پڑھ رہے تھے۔ آپ فرماتے ہیں کہ جب میں
اس حصے پر پہنچا۔ ترجمہ: ہم اُس دن آپ کو
ان تمام لوگوں پر یعنی ہر اُمت میں سے ایک گروہ کو لے کر آئیں گے یعنی نبی کریم ﷺ کو لے کر آئیں گے اور
ان تمام کے اوپر آپ کو گواہ لے کر آئیں گے۔ تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: کافی ہے!
کافی ہے! حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ جب میں نے آنکھیں اٹھا کے دیکھا تو
نبی کریم ﷺ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ اس کے علاوہ آپ نے فرمایا کہ قرآن حزن کے
ساتھ نازل ہوا ۔ حزن کے ساتھ پڑھا کرو۔(مجمع الزوائد، 7/351، حدیث: 11694)
حضور
ﷺ کی قرآن سے محبت از بنت غلام عباس، جامعۃ المدینہ معراج کے سیالکوٹ
نبی کریم ﷺ کی زندگی قرآن پاک کے ساتھ گہری محبت
اور عقیدت سے عبارت تھی۔ وہ قرآن پاک کو اپنے لیے رہنمائی، ہدایت اور تسلی کا
ذریعہ سمجھتے تھے۔ ان کی زندگی میں قرآن پاک کی اہمیت کا اندازہ ان واقعات سے
لگایا جا سکتا ہے جو ان کی زندگی میں پیش آئے۔ نبی کریم ﷺ نے قرآن پاک کی تلاوت کو
اپنی زندگی کا لازمی حصہ بنایا تھا۔ وہ ہر روز قرآن پاک کی تلاوت کرتے تھے اور اس
کی تعلیم کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے تھے۔ آپ نے اپنے صحابہ کرام کو بھی قرآن پاک
کی تلاوت اور اس کی تعلیم پر زور دیا۔ ان کی زندگی میں قرآن پاک کی اہمیت کا
اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ وہ قرآن پاک کی آیتوں کو اپنے خطبوں،
خطبات اور تقریروں میں شامل کرتے تھے۔
نبی کریم ﷺ کی قرآن پاک سے محبت کا ثبوت ان کی
زندگی کے مختلف واقعات سے ملتا ہے۔ ایک واقعہ یہ ہے کہ جب انہیں پہلی وحی ملی تو
انہوں نے اسے بڑی عقیدت اور محبت سے قبول کیا۔ اس کے بعد انہوں نے قرآن پاک کی
تلاوت کو اپنی زندگی کا لازمی حصہ بنایا اور اس کی تعلیم کو سب سے زیادہ اہمیت دی۔
نبی کریم ﷺ کی قرآن پاک سے محبت ہمیں بھی اس کی
اہمیت اور فضیلت کا احساس دلاتی ہے۔ ہمیں بھی ان کی زندگی سے سبق لینا چاہیے اور
قرآن پاک کی تلاوت کو اپنی زندگی کا لازمی حصہ بنانا چاہیے۔
نبی کریم ﷺ کی زندگی کا ہر پہلو قرآن پاک سے جڑا
ہوا تھا۔ وہ قرآن پاک کو اپنے لیے ہدایت، رہنمائی اور تسلی کا ذریعہ سمجھتے تھے۔
ان کی محبت کا اندازہ ان کی زندگی کے واقعات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
نبی کریم ﷺ قرآن پاک کی تلاوت کو بہت پسند کرتے تھے
اور اس کی تلاوت میں بہت زیادہ وقت گزارتے تھے۔ وہ قرآن پاک کی تلاوت کو اپنے لیے
ایک نعمت سمجھتے تھے اور اس کی تلاوت سے انہیں بہت سکون ملتا تھا۔ ان کی محبت کا
اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ وہ قرآن پاک کی تلاوت کے دوران بہت
زیادہ متاثر ہوتے تھے اور ان کی آنکھوں سے آنسو بہتے تھے۔
نبی کریم ﷺ قرآن پاک کی تعلیمات کو اپنی زندگی کے
ہر پہلو میں لاگو کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ وہ قرآن پاک کی آیتوں کو یاد رکھنے اور
ان پر عمل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے تھے۔ ان کی زندگی قرآن پاک کی تعلیمات کا
عملی نمونہ تھی۔ وہ قرآن پاک کی تعلیمات کو اپنے لیے ایک رہنما سمجھتے تھے اور ان
کی زندگی میں ہر قدم پر ان کی رہنمائی حاصل کرتے تھے۔