غلطی کا مطلب کسی کام میں کوئی کوتاہی کر دینا کوئی کام سہی طریقے سے نہ کرنا۔ غلطی ایک دلدل کی مانند ہوتی ہے اگر ہم دلدل کو کیچڑ سمجھیں گے تو اس میں دھنس جائیں گے لیکن دلدل کو دلدل سمجھنے والا انسان اپنے آپ کو اس سے نکالنے کی کوشش کرتا ہے نہ کہ وہی پر جما رہتا ہے۔

غلطی پر اڑ جانے والا خود کو تاریک اندھیروں میں ڈال دیتا ہے۔ ایک کمرہ ابھی تک بند نہیں ہوا اس میں ہلکی ہلکی روشنی رہتی ہے۔ لیکن جب ہم اس کو بند کر دیتے ہے تو مکمل اندھیرے میں گھر جاتے ہیں۔

غلطی کر کے ہمارے پاس معافی مانگنے کا موقع ہوتا ہے یہ ہمارے ہاتھ میں ہوتا ہے کہ ہم اس مغفرت دروازے کو انا کے آڑے آ کر بند کر دیتے ہیں یا پھر معافی مانگ کر اسے دوبارہ کھول لیتے ہیں اور روشنیوں کے امنڈتے سیلاب سے سراب ہو جاتے ہیں۔

حضرت آدم اور شیطان کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ حضرت آدم غلطی پر نہ اڑے اور معافی مانگ لی جس کی وجہ سے آج پوری نوع انسانی ان کی شکرگزار ہے اور خاص طور پر امت مسلمه کو یہ شرف حاصل ہے کہ وہ نبیﷺ کی امت ہے، شیطان اپنی غلطی پر اڑا رہا معافی نہ مانگی اور آج جہالت کے اندھیروں میں پڑا ہوا ہے۔

اگر غلطی ہو گئی تو اعتراف کرنا آپ کو چھوٹا نہیں بنا دیتا بلکہ مستقبل میں ایک ابھرتا ہوا ستارہ بنتا ہے۔ ایک ماہر چیف وہ نہیں جس نے کبھی غلطی نہ کی ہو بلکہ وہ ہے جس نے غلطیاں کی ہو اور پھر ان سے سیکھا ہو۔

انسان گر کر ہی اٹھتا ہے لیکن جو انسان کبھی گرا ہی نہ ہو وہ نہیں جانتا کہ اب اٹھنا کیسے ہے۔ غلطی پر اڑ جانے سے بعض اوقات ہم اپنے قیمتی رشتوں کو بھی کھو دیتے ہیں۔ غلطی ہم اپنی انا کی وجہ سے بھی نہیں مانتے۔ جس طرح کامیابیوں کو ہم اپنا حصہ مانتے ہیں تو ناکامیاں اور غلطیاں بھی تو ہماری ہوتی ہیں، پھر ہم ان سے منہ کیوں پھیر دیتے ہیں اور انہیں کسی دوسرے پر کیوں ڈال دیتے ہیں۔ غلطی نہ ماننا کم ظرفی کی علامت ہے۔ ہم اپنی غلطی پر دوسروں پر چیخ چلا رہے ہوتے ہیں بس اپنی غلطی کو چھپانے کے لیے اس پر غصہ تو کرتے ہیں لیکن دراصل اپنی کم عقلی اور اپنے نفسیاتی مرض کو ظاہر کر رہے ہوتے ہیں۔ اپنی غلطی مان لیں کیا ہو گا لوگ آپ کے بارے میں یہی سمجھیں گے کہ آپ کو یہ کام نہیں آتا یا آپ پر طعنے کسیں گے یا کچھ لوگ آپ کی بےعزتی کر دیں گے۔ لیکن یہ اس سے بہتر ہے کہ آپ اپنے نفس کی تسکین کے لیے خاموش رہیں اور دوسروں پر الزام کشی کرنا شروع کر دیں۔ ایک مشور اردو کہاوت ہے کہ ”ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا“



غلطی پر اڑ جانے کی تعریف: نصیحت قبول نہ کرنا، اہل حق سے بغض رکھنا اورناحق یعنی باطل اور غلط بات پر ڈٹ کر اہل حق کو اذیت دینے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہ جانے دینا اِصرار باطل کہلاتا ہے۔ (1)

ہم انسان ہیں اور ہم سے بہت سی غلطیاں سرزد ہو جاتی ہیں لیکن ہمیں ان غلطیوں پر نہیں اڑنا چاہیے اسلام ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ہمیں اپنی غلطیوں کو قبول کرنا چاہیے ان سے سبق سیکھنا چاہیے اور ان کو درست کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ہمیں غلطی کے بعد توبہ اور اصلاح کی راہ تھامنی چاہیے غلطیوں سے سیکھنا اور بہتر بننے کی کوشش کرنا ہمیں ایک بہتر انسان بناتا ہے۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَیْلٌ لِّكُلِّ اَفَّاكٍ اَثِیْمٍۙ(۷) یَّسْمَعُ اٰیٰتِ اللّٰهِ تُتْلٰى عَلَیْهِ ثُمَّ یُصِرُّ مُسْتَكْبِرًا كَاَنْ لَّمْ یَسْمَعْهَاۚ-فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ(۸) (پ 25، الجاثیۃ: 7، 8) ترجمہ کنز العرفان: ہر بڑے بہتان باندھنے والے گنہگار کے لیے خرابی ہے جو اللہ کی آیتوں کو سنتا ہے کہ اس کے سامنے پڑھی جاتی ہیں پھر تکبر کرتے ہوئے ضد پر ڈٹ جاتا ہے گویا اس نے ان آیتوں کو سننا ہی نہیں تو ایسوں کو دردناک عذاب کی خوشخبری سناؤ۔

مفسر شہیر حکیم الامت مولانا مفتی احمد یار خان نعیمی اپنی تفسیر نور العرفان میں فرماتے ہیں: معلوم ہوا کہ تکبر وہٹ دھرمی ایمان سے روکنے والی آڑ ہیں۔(3)

حدیث مبارکہ میں ہے: ہلاکت و بربادی ہے ان کے لئے جو نیکی کی بات سن کراُسے جھٹلا دیتے ہیں اور اُس پر عمل نہیں کرتے اور ہلاکت و بربادی ہے اُن کے لئے جو جان بوجھ کرگناہوں پر ڈٹے رہتے ہيں۔ (4)

ایک مقام پر پیغمبر محمد ﷺ نے فرمایا: تمام بنی آدم خطاکار ہیں اور بہترین خطاکار وہ ہیں جو توبہ کرتے ہیں۔ (5) یہ حدیث اس بات کو واضح کرتی ہے کہ ہر انسان غلطیاں کرتا ہے، مگر جو لوگ اپنی غلطیوں سے توبہ کرتے ہیں، وہ اللہ کے نزدیک بہترین ہیں۔

اللہ ہمیں اصرار باطل سے بچائے اور نیکیوں پر ثابت قدمی عطا فرمائے۔ آمین

حوالہ جات:

1۔ باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ 157

2۔پارہ 25 الجاثیہ آیت نمبر 7،8

3۔ تفسیر نور العرفان، ص 796

4۔ مسند امام احمد، 2/682، حدیث: 7062

5۔ مسند امام احمد، 2/682، حدیث: 7062


غلطی انسان سے ہی ہوتی ہے اور ہر انسان خطا کا پتلا ہے لیکن اس غلطی پر ڈٹ جانا یا اپنی غلطی کا انکار کر دینا شیطانی صفت ہے اپنی غلطی تسلیم کرنا اپنے آپ کو انسان ماننا اور منوانا ہے کیونکہ شیطان نے اپنی غلطی تسلیم نہیں کی جب شیطان کو حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا اور اس نے انکار کیا تو اللہ تعالی کے حکم کے باوجود وہ اپنے اس غلطی پر قائم رہا اور اپنی غلطی ماننے اور اللہ تعالی سے معافی مانگنے کے بجائے غرور اور تکبر میں مبتلا ہو کر مردود قرار پایا جب حضرت آدم علیہ السلام نے گندم کا دانہ کھا لیا اور اللہ تعالی نے انہیں جنت سے نکال دیا تو انہوں نےاپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے اللہ تعالی سے معافی طلب کی اور روتے رہے۔ حضرت آدم علیہ السلام کا غلطی کرنے کے بعد اس پر رنجیدہ ہونا اور معافی طلب کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اپنی غلطیوں پر نادم ہونا انبیاء علیہم السلام کی سنت ہے حضرت آدم علیہ السلام اپنی غلطی پر شرمندہ ہو کر سرخرو ہوئے اور اللہ تعالی نے ان کی توبہ قبول فرمائی اور انہیں دوبارہ جنت کا حقدار بنا دیا ہمیں بھی اپنی غلطیوں پر اڑنے کے بجائے انہیں تسلیم کرنا چاہیے اور اس شخص سے معافی مانگنی چاہیے جس کا ہم کسی بھی طرح کا نقصان کرنے کا سبب بنے ہیں چاہے وہ دل آزاری ہو یا کوئی اور نقصان ہو۔

اگر ہمیں اس بات کا احساس ہو جاتا ہے کہ ہم سے یہ غلطی ہو گئی ہے تو ہمیں ابلیس کی طرح اپنی غلطی پر ڈٹ جانے کے بجائے نادم ہونا چاہیے اور اسے تسلیم کر لینا چاہیے اور اپنی غلطی کو صحیح کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے اگر ہم اپنی غلطی کو صحیح سمجھ کر اس پر ثابت قدم رہیں گے تو ہم کبھی بھی دنیا اور دین میں اپنے صحیح مقام پر نہیں پہنچ سکیں گے بلکہ ہماری چھوٹی چھوٹی غلطیاں جنہیں ہم نظر انداز کرتے رہیں گے کسی بڑے خسارے کا سبب بن جائیں گی غلطی ہر انسان سے سرزد ہو جاتی ہے لیکن غلطی کا احساس اور اس پر نادم ہونا انسان کو معتبر بنا دیتا ہے۔

اپنی غلطی پر ڈٹ جانے کے چند اسباب ہیں، مثلا آپ کی انا، خودغرضی آپ کو اپنی غلطی ماننے اور معافی مانگنے پر آمادہ ہونے کی راہ میں رکاوٹ ہے اگر آپ غرور میں مبتلا ہیں یا آپ کا کوئی ذاتی مفاد ہے تو آپ اپنی غلطی پر قائم رہیں گے آپ اپنے مفاد کے لیے دوسرے شخص کو غلط ثابت کرنے کی پوری کوشش کریں گے اور اس میں کامیاب بھی ہو جائیں گے لیکن ذرا سوچیے کہ یہ کامیابی آپ کو دلی سکون اور سچی خوشی دے سکتی ہے؟ دوسری طرف آپ کی انا یہ بات گوارا نہیں کرتی کہ آپ اپنی غلطی تسلیم کریں لیکن اپنے نفس کی اس خواہش کو پورا کرنا ہی آپ کی دوسری غلطی ہوگی کیونکہ اگر نفس قابو سے باہر ہو جائے تو وہ ہمیں گناہوں کی طرف لے جاتا ہے اور یوں ہم گناہوں کی دلدل میں پھنستے چلے جاتے ہیں اپنی غلطی نہ ماننے کا ایک سبب بغض بھی ہوتا ہے اگر آپ کے دل میں کسی شخص کے لیے بغض ہے تو یہ بغض آپ کو اس کے سامنے اپنی غلطی ماننے نہیں دے گا اسی لیے اسلام میں دل میں بغض رکھنے سے منع فرمایا گیا ہے۔

دوسری طرف اپنی غلطی سے انکاری ہونا معاشرے میں بھی بگاڑ کا سبب بنتا ہے اور اس سے دلوں میں نفرتیں جنم لیتی ہیں اور اپس میں لڑائی جھگڑے کا سبب بنتا ہے جس کی اسلام میں سختی سے مخالفت کی گئی ہے بلکہ اسلام میں درگزر، محبت اور امن کا پیغام دیا گیا ہے اپنی غلطی تسلیم کرنے سے آ پس میں محبت اور اتفاق پیدا ہوتا ہے جس کا ہمارا دین بھی تقاضہ کرتا ہے۔

کسی کا بتایا ہوا کام آپ کرنا بھول جائیں آپ کی وجہ سے کسی کو کوئی نقصان ہو جائے کسی کو آپ کی وجہ سے کوئی تکلیف پہنچ جائے تو معذرت کر لیجئے اور کوشش کیجئے کہ اپنے تمام غلطیوں کی دنیا ہی میں لوگوں سے معافی مانگ لیجئے ورنہ بروز حشر آپ کے نیک اعمال اس شخص کو دے دیے جائیں گے جس کی آپ نے ذرا سی بھی حق تلفی کی ہوگی اور اس وقت آپ کے پاس افسوس کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں ہوگا آپ کے اعمال اس شخص کو مل جائیں گے اور آپ کچھ بھی نہیں کر سکیں گے۔

اللہ پاک عاجزی کو پسند فرماتا ہے لہذا ہمیں عاجزی اختیار کرتے ہوئے اپنی غلطیوں کی معافی مانگ لینی چاہیے تاکہ ہمارا یہ عمل ہمارے رب کو خوش کرنے کا باعث بن سکے معافی ہمیشہ دل سے مانگیے کہ ائندہ اس غلطی کو دہرانے کا ارادہ نہ ہو ورنہ دکھاوے کے لیے مانگی جانے والی معافی بھی بیکار جائے گی جو دنیا میں بھی آپ کا اعتبار کھودے گی اور آخرت میں بھی آپ کے اعمال ضائع ہو جائیں گے ہم اپنی غلطی پر ڈٹ کر اپنے سب سے بڑے دشمن شیطان کو خوش کرتے ہیں جبکہ ہمیں اپنے رب کی خوشنودی کا ہر لمحہ خیال رکھنا چاہیے جو کہ ہمارے لیے آخرت میں سرخروئی اور جنت میں جانے کا سبب بنے گا۔


غلطی پر اڑ جانے کی تعریف: نصیحت قبول نہ کرنا، اہل حق سے بغض رکھنا اورناحق یعنی باطل اور غلط بات پر ڈٹ کر اہل حق کو اذیت دینے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہ جانے دینا اِصرار باطل کہلاتا ہے۔ (1)

ہم انسان ہیں اور ہم سے بہت سی غلطیاں سرزد ہو جاتی ہیں لیکن ہمیں ان غلطیوں پر نہیں اڑنا چاہیے اسلام ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ہمیں اپنی غلطیوں کو قبول کرنا چاہیے ان سے سبق سیکھنا چاہیے اور ان کو درست کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ہمیں غلطی کے بعد توبہ اور اصلاح کی راہ تھامنی چاہیے غلطیوں سے سیکھنا اور بہتر بننے کی کوشش کرنا ہمیں ایک بہتر انسان بناتا ہے۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَیْلٌ لِّكُلِّ اَفَّاكٍ اَثِیْمٍۙ(۷) یَّسْمَعُ اٰیٰتِ اللّٰهِ تُتْلٰى عَلَیْهِ ثُمَّ یُصِرُّ مُسْتَكْبِرًا كَاَنْ لَّمْ یَسْمَعْهَاۚ-فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ(۸) (پ 25، الجاثیۃ: 7، 8) ترجمہ کنز العرفان: ہر بڑے بہتان باندھنے والے گنہگار کے لیے خرابی ہے جو اللہ کی آیتوں کو سنتا ہے کہ اس کے سامنے پڑھی جاتی ہیں پھر تکبر کرتے ہوئے ضد پر ڈٹ جاتا ہے گویا اس نے ان آیتوں کو سننا ہی نہیں تو ایسوں کو دردناک عذاب کی خوشخبری سناؤ۔

مفسر شہیر حکیم الامت مولانا مفتی احمد یار خان نعیمی اپنی تفسیر نور العرفان میں فرماتے ہیں: معلوم ہوا کہ تکبر وہٹ دھرمی ایمان سے روکنے والی آڑ ہیں۔(3)

حدیث مبارکہ میں ہے: ہلاکت و بربادی ہے ان کے لئے جو نیکی کی بات سن کراُسے جھٹلا دیتے ہیں اور اُس پر عمل نہیں کرتے اور ہلاکت و بربادی ہے اُن کے لئے جو جان بوجھ کرگناہوں پر ڈٹے رہتے ہيں۔ (4)

ایک مقام پر پیغمبر محمد ﷺ نے فرمایا: تمام بنی آدم خطاکار ہیں اور بہترین خطاکار وہ ہیں جو توبہ کرتے ہیں۔ (5) یہ حدیث اس بات کو واضح کرتی ہے کہ ہر انسان غلطیاں کرتا ہے، مگر جو لوگ اپنی غلطیوں سے توبہ کرتے ہیں، وہ اللہ کے نزدیک بہترین ہیں۔

اللہ ہمیں اصرار باطل سے بچائے اور نیکیوں پر ثابت قدمی عطا فرمائے۔ آمین

حوالہ جات:

1۔ باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ 157

2۔پارہ 25 الجاثیہ آیت نمبر 7،8

3۔ تفسیر نور العرفان، ص 796

4۔ مسند امام احمد، 2/682، حدیث: 7062

5۔ مسند امام احمد، 2/682، حدیث: 7062


آئیے سب سے پہلے مختصراً غلطی کے متعلق جانتے ہیں غلطی کے اُردو معنی: بھول چوک،خطا لغزش،عدم صحت،غلط بیانی،ناسمجھی،غلط فہمی،کسی امر یا شے کی حقیقت یا تہہ تک نہ پہنچنا۔

مختصراً تمہید: غلطی پر اڑ جانا حق بات کو قبول نہ کرنا ایک نہایت ہی برا اور قبیح عمل ہے انسان کا اپنی غلطی پر ڈٹ جانا نقصان کا باعث بن جاتا ہے اپنی غلطی مان کر اصلاح کرنے سے نہ صرف نقصان سے بچ جاتا ہے بلکہ بہتری کے راستے پر چل پڑتا ہے ہر انسان کو اپنی اصلاح کر لینی چاہیے ورنہ وقت گزرنے میں دیر نہیں لگتی۔

اللہ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَیْلٌ لِّكُلِّ اَفَّاكٍ اَثِیْمٍۙ(۷) یَّسْمَعُ اٰیٰتِ اللّٰهِ تُتْلٰى عَلَیْهِ ثُمَّ یُصِرُّ مُسْتَكْبِرًا كَاَنْ لَّمْ یَسْمَعْهَاۚ-فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ(۸) (پ 25، الجاثیۃ: 7، 8) ترجمہ کنز العرفان: ہر بڑے بہتان باندھنے والے گنہگار کے لیے خرابی ہے جو اللہ کی آیتوں کو سنتا ہے کہ اس کے سامنے پڑھی جاتی ہیں پھر تکبر کرتے ہوئے ضد پر ڈٹ جاتا ہے گویا اس نے ان آیتوں کو سننا ہی نہیں تو ایسوں کو دردناک عذاب کی خوشخبری سناؤ۔

مفسر شہیر حکیم الامت مولانا مفتی احمد یار خان نعیمی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْقَوِی اپنی تفسیر نور العرفان میں پھر ہٹ پر جمتا ہے کے تحت فرماتے ہیں: معلوم ہوا کہ تکبر وہٹ دھرمی ایمان سے روکنے والی آڑ ہیں۔ (تفسیر نور العرفان، ص 796)

جس طرح قرآن پاک میں غلطی پر ڈٹ جانے والے کے لیے وعید ہے اسی طرح احادیثِ مبارکہ میں بھی اس متعلق بیان ہوا ہے۔

حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: ہلاکت وبربادی ہے ان کے لئے جو نیکی کی بات سن کراُسے جھٹلا دیتے ہیں اور اُس پر عمل نہیں کرتے اور ہلاکت وبربادی ہے اُن کے لئے جو جان بوجھ کرگناہوں پر ڈٹے رہتے ہيں۔ (مسند امام احمد، 2/682، حدیث: 7062)

ہم انسان ہیں ہمارے اندر بہت سی خامیاں پائی جاتی ہیں انہی میں سے ایک خامی جو آجکل بہت زیادہ ہو رہی ہے وہ غلطی پر اڑ جانا ہے۔شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے وہ کبھی بھی نہیں چاہے گا کہ مسلمان آپس میں بھائی چارگی اور محبت کے ساتھ رہے وہ انسان کو طرح طرح سے ورغلانے کی کوشش کرتا ہے۔ غلطی پر ڈٹ جانا اور غلطی قبول نہ کرنا بہت برا عمل ہے اس کے بہت سے نقصانات ہیں آئیے ان میں سے چند جان لیتے ہیں۔

غلطی قبول نہ کرنے والا اکثر اوقات دوسروں کے حق بھی تلف کرتا ہے، غلطی پر اڑ جانے والے کو لوگ پسند نہیں کرتے، غلطی پر اڑنے حق بات کو قبول نہ کرنے والا تکبر میں پڑ جاتا ہے، غلطی پر ڈٹے رہنے والا جھگڑے سے نہیں بچ سکتا، غلطی پر ڈٹے رہنے والا لوگوں کی نظروں میں ذلیل ہوتا ہے اور بعض اوقات اس وجہ سے رشتوں میں دراڑیں بھی پڑ جاتی ہے۔

غلطی پر ڈٹ جانا اور حق بات قبول نہ کرنا فضول بحث و مباحثہ میں پڑنے کی وجہ ہے۔ جبکہ اس کے برعکس دیکھا جائے تو غلطی قبول کر کے معافی مانگ کر آگے بڑھنے والا بہت عزت پاتا ہے آئیے غلطی کو قبول کرنے کے چند فوائد جان لیتی ہیں تاکہ ہمارا بھی غلطی مان کر معافی مانگنے کا ذہن بنے:

غلطی مان کر معافی مانگنے والے کو لوگ پسند کرتے ہیں، غلطی ماننا اور حق بات کو قبول کرنا عاجزی کی علامت ہے، معاف کرنا بڑے ظرف کی بات ہوتی ہے اور کامیاب انسان بھی وہی ہے جو غلطی مان کر حق بات کو قبول کر کے آگے بڑھ جائے، غلطی ماننے والے کی قدر و منزلت لوگوں کی نظر میں اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ وغیرہ وغیرہ

جس بھی خامی کو ہمیں اپنے اندر سے دور کرنا ہو پہلے اس کے پیدا ہونے کے اسباب کے متعلق جاننا چاہیے تاکہ اس بیماری کو جڑ سے ختم کیا جا سکے آئیے اصرار باطل کے چند اسباب جان لیتی ہیں۔

اصرار باطل کاپہلا سبب تکبر ہے، اصرارِ باطل کادوسراسبب بغض و کینہ ہے، اصرارِ باطل کاتیسرا سبب ذاتی مفادات کی حفاظت ہے، اصرارِ باطل کاچوتھاسبب طلب شہرت و ناموری ہے اس کے علاوہ اطاعت الٰہی کو ترک کر دینا اور بھی بہت سے اسباب ہیں ہمیں چاہیے کہ ہم ان اسباب کو پہلے ختم کریں۔

اپنی غلطی مان لیجیئے: انسان خطا اور بھول کا مرکب ہے لہٰذا جب بھی کوئی آپ کی کسی غلطی کی نشاندہی کرے اپنی غلطی مان لیجئے چاہے وہ عمر، تجربے اور رتبے میں آپ سے کم ہی کیوں نہ ہو۔

غلطی کا اعتراف: جلیل القدر محدث امام دار قطنی رحمۃ اللہ علیہ جب نو عمر طالب علم تھے تو ایک دن حضرت نا امام انباری علیہ رحمۃ اللہ الباری کی درسگاہ میں حاضر ہوئے۔ حدیث لکھوانے میں امام انباری نے ایک راوی کے نام میں غلطی کی، امام دار قطنی کمال ادب کے سبب امام انباری کو تو ٹوک نہیں سکے مگر ان کے مستملی کو جو ان کی آواز شاگردوں تک پہنچاتا تھا اس غلطی سے آگاہ کر دیا۔ جب دوسرے جمعہ کو امام دار قطنی پھر مجلس درس میں گئے تو امام انباری کا جوش حق پسندی اور بے نفسی کا عالم دیکھئے کہ انہوں نے بھری مجلس کے سامنے یہ اعلان فرمایا کہ اُس روز فلاں نام میں مجھ سے غلطی ہوگئی تھی تو اس نوجوان طالب علم نے مجھ کو آگاہ کر دیا۔ (تاریخ بغداد، 3/400)

امیرِ اہلسنّت کا انداز: شیخ طریقت امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کے صدقے میں ایسے عظیم الشان اوصاف و کمالات سے نوازا ہے کہ فی زمانہ اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ وقتاً فوقتاً مختلف مقامات پر ہونے والے مدنی مذاکرات میں اسلامی بھائی مختلف قسم کے مثلاً عقائد و اعمال، فضائل و مناقب، شریعت و طریقت، تاریخ وسیرت، سائنس وطب، اخلاقیات و اسلامی معلومات، معاشی و معاشرتی و تنظیمی معاملات اور دیگر بہت سے موضوعات کے متعلق سوالات کرتے ہیں اور شیخ طریقت امیر اہلسنّت انہیں حکمت آموز و عشق رسول میں ڈوبے ہوئے جوابات سے نوازتے ہیں۔ علم کا سمندر ہونے کے باوجود آپ آغاز میں شرکائے مدنی مذاکرہ سے کچھ اس طرح عاجزی بھرے الفاظ ارشاد فرماتے ہیں: آپ سوالات کیجئے، مگر ہر سوال کا جواب وہ بھی بالصواب (یعنی درست) دے پاؤں، ضروری نہیں، معلوم ہوا تو عرض کرنے کی کوشش کروں گا۔ اگر مجھے بھول کرتا پائیں تو فوراً میری اصلاح فرمائیں، مجھے اپنے موقف پر بےجا اڑتا ہوا نہیں، ان شاء اللہ شکریہ کے ساتھ رجوع کرتا پائیں گے۔

اللہ کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو! آمین

ہمارے بزرگانِ دین کا اتنا پیارا انداز تھا کہ وہ کسی کی غلطی پر اس کو معاف فرما دیتے تھے اللہ پاک ہمیں بھی غلطی قبول کر کے اس سے درس حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یارب العالمین

درست بات کو قبول نہ کرنا اور غلط بات پر ڈٹ جانا اصرار باطل ہے۔

اصرار باطل کے اسباب: اصرار باطل کا پہلا سبب تکبر ہے۔ اصرار باطل کا دوسرا سبب بغض وکینہ ہے۔ اصرار باطل کا تیسرا سبب ذاتی مفادات کی حفاظت ہے۔ اصراد باطل کا چوتھا سبب طلب شہرت و نامور۔ اصرار باطل کا پانچواں سبب ہاں میں ہاں ملانا اور چاپلوسی کرنے کی عادت ہے۔ اصرار باطل کا چھٹا سبب اطاعت الٰہی کو ترک کر دینا ہے۔ اصرار باطل کا ساتواں سبب اتباع نفس ہے۔

تکبر: خود کو افضل اور دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر ہے۔ جس کے دل میں تکبر ہو اسے متکبر اور مغرور کہتے ہیں۔

بغض و کینہ: کینہ یہ ہے کہ انسان اپنے دل میں کسی کو بوجھ جانےاس سے غیر شرعی دشمنی و بغض رکھے نفرت کرے اور یہ کیفیت ہمیشہ ہمیشہ باقی رہے۔

چاپلوسی: اپنے سے بلند رتبہ شخصیت کے سامنے محض مفاد حاصل کرنے کے لیے عاجزی و انکساری کرنا یا اپنے آپ کو نیچا دکھانا چاپلوسی کہلاتا ہے۔ رسول اللہﷺ نےارشاد فرمایا: جس نے کسی غنی کے لیے عاجزی اختیار کی اور اپنے آپ کو اس کی تعظیم اور مال و دولت کی لالچ کے لیے بچھا دیا تو ایسے شخص کی دو تہائی غیرت اور دین کا آدھا حصہ جاتا ہے۔

مفسر شہیر حکیم الامت مولانا مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ تکبر و ہٹ دھرمی ایمان سے روکنے والی آڑ ہے۔ (تفسیر نور العرفان، ص 796) اگر کوئی غلطی ہو جائے تو اس پر اڑ نہیں جانا چاہیے بلکہ اس غلطی کو درست کرنا چاہیے اور فورا معافی مانگ لینی چاہیے اور ہمیں اپنے دل میں کسی کے لیے برا گمان نہیں رکھنا چاہیے بلکہ اچھا گمان رکھنا چاہیے۔ اللہ پاک ہمیں غیبت چغلی حسد تکبر اور بدگمانی وغیرہ سے محفوظ فرمائے۔ آمین


نصحیت قبول نہ کرنا،اہل حق سے بغض رکھنا،اور ناحق بات پر ڈٹ کر اہل حق کو اذیت دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دینا اصرار باطل (غلطی پر ڈٹ جانا) کہلاتا ہے۔

اصرار باطل کا حکم: اصرار باطل نہایت ہی مذموم،برا اور حرام کام ہے۔

غلطی پر ڈٹے بغیر حق بات قبول کرنے کے فوائد: حق بات قبول کرنے والے کو لوگ پسند کرتے ہیں، حق بات قبول کرنے والا تکبر سے دور ہوتا ہے،قبول حق عاجزی کی علامت ہے،حق کو قبول کرنا صالحین کا طریقہ ہے،قبول حق کے سبب آدمی بحث و مباحثہ سے بچ جاتا ہے،حق بات قبول کرنے والے کی لوگوں میں قدرو منزلت بڑھ جاتی ہے،حق بات قبول کرنے والا جھگڑے سے بچا رہتا ہے۔

غلطی پر ڈٹے رہنے کے نقصانات: غلطی پر ڈٹے رہنے والے کو لوگ حق کی تلقین کرنے سے رک جاتے ہیں،غلطی پر ڈٹ جانے اور حق بات قبول نہ کرنے والے کو لوگ نا پسند کرتے ہیں،حق بات قبول نہ کرنے والا تکبر میں پڑ جاتا ہے،غلطی پر ڈٹے رہنے والا لوگوں کی نظروں میں ذلیل ہوتا ہے،حق بات قبول نہ کرنے والا بحث و مباحثہ سے نہیں بچ سکتا۔

صالحین اور حق قبول کرنے والوں کی صحبت کی برکت سے قبول حق کا جذبہ ملے گا اور باطل پر اصرار سے آدمی بچ جائے گا۔

احادیثِ مبارکہ:

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عاجزی یہ ہے کہ تم حق کے آگے جھک جاؤاور اس کی پیروی کرو۔اگر تم سب سے بڑے جاہل سے بھی حق بات سنو تو اسے بھی قبول کر لو۔ (الزواجر، 1/163)

حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں: جب تک تم نیک لوگوں سے محبت رکھو گے بھلائی پر رہو گے اور تمہارے بارے میں جب کوئی حق بات بیان کی جائے تو اسے مان لیا کرو حق کو پہچاننے والا اس پر عمل کرنے والے کی طرح ہوتا ہے۔ (شعب الایمان، 6/503، حدیث:9063)

نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ہلاکت اور بربادی ہے ان کے لیے جو جان بوجھ کر گناہوں پر ڈٹے رہتے ہیں۔ (مسند امام احمد، 2/672)

ہمیں غلطیوں پر ڈٹے رہنے کے بجائے حق بات کو قبول کر لینا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین 


انسان خطاؤں اور لغزشوں کا پتلا ہے انسان کبھی خطا سے پاک نہیں ہوتا۔ انسانوں سے خطائیں سر زد ہونا عام سی بات ہے کیونکہ فطری طور پر اس میں کمزوری پائی جاتی ہے۔ اس کی فطرت ہے کہ وہ اپنے رب کی طرف سے مطلوبہ امور کو انجام نہیں دیتا اور اس کی منع کردہ اشیا کو ترک نہیں کرتا۔

نصیحت قبول نہ کرنا، اہل حق سے بغض رکھنا اورناحق یعنی باطل اور غلط بات پر ڈٹ کر اہل حق کو اذیت دینے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہ جانے دینا اِصرار باطل کہلاتا ہے۔ (الحدیقۃ الندیۃ، 2/164ملتقطاً)

اصرار باطل کے بارے میں تنبیہ: اِصرار باطل یعنی نصیحت قبول نہ کرنا، اہل حق سے بغض رکھنا اورناحق یعنی باطل اور غلط بات پر ڈٹ کر اہل حق کو اذیت دینے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہ جانے دینانہایت ہی مذموم، قبیح یعنی برا اور حرام فعل ہے، اس سے ہر مسلمان کو بچنا لازم ہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 159)

قرآن پاک کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیں ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ حق بات قبول کرےکہ حق بات معلوم ہونے کے باوجود انانیت کی وجہ سے اسے قبول نہ کرنا فرعونیوں کا طریقہ ہے۔

چنانچہ قرآنِ پاک میں فرعونیوں کے متعلق ہے: فَلَمَّا جَآءَهُمُ الْحَقُّ مِنْ عِنْدِنَا قَالُوْۤا اِنَّ هٰذَا لَسِحْرٌ مُّبِیْنٌ(۷۶) (پ 11،یونس:76) ترجمہ کنز الایمان:تو جب ان کے پاس ہماری طرف سے حق آیا بولے یہ تو ضرور کھلا جادو ہے۔ اس آیت مبارکہ کے تحت تفسیرصراط الجنان میں ہے:اس آیت سے معلوم ہوا کہ حق بات معلوم ہوجانے کے بعد نفسانیت کی وجہ سے اسے قبول نہ کرنا اور اس کے بارے میں ایسی باتیں کرنا جو دوسروں کے دلوں میں حق بات کے بارے میں شکوک وشبہات پیدا کر دیں فرعونیوں کا طریقہ ہے، اس سے ان لوگوں کو نصیحت حاصل کرنی چاہئے جو حق جان لینےکے باوجود صرف اپنی ضد اور اَنا کی وجہ سے اسے قبول نہیں کرتے اور اس کے بارے میں دوسرو ں سے ایسی باتیں کرتے ہیں جن سے یوں لگتا ہے کہ ان کا عمل درست ہے اور حق بیان کرنے والا اپنی بات میں سچا نہیں ہے۔ (تفسیر صراط الجنان، 4/363)

اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: وَیْلٌ لِّكُلِّ اَفَّاكٍ اَثِیْمٍۙ(۷) یَّسْمَعُ اٰیٰتِ اللّٰهِ تُتْلٰى عَلَیْهِ ثُمَّ یُصِرُّ مُسْتَكْبِرًا كَاَنْ لَّمْ یَسْمَعْهَاۚ-فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ(۸) (پ 25، الجاثیۃ: 7، 8) ترجمہ کنز العرفان: ہر بڑے بہتان باندھنے والے گنہگار کے لیے خرابی ہے جو اللہ کی آیتوں کو سنتا ہے کہ اس کے سامنے پڑھی جاتی ہیں پھر تکبر کرتے ہوئے ضد پر ڈٹ جاتا ہے گویا اس نے ان آیتوں کو سننا ہی نہیں تو ایسوں کو دردناک عذاب کی خوشخبری سناؤ۔

تفسیر صراط الجنان میں ہے: اس سے پہلی آیت میں بیان فرمایاگیا کہ کافر اللہ تعالیٰ اور اس کی آیتوں کو چھوڑ کر کو ن سی بات پر ایمان لائیں گے، اور جب وہ ایمان نہ لائے تو اس آیت سے ان کے لئے بہت بڑی وعید بیان کی جا رہی ہے،چنانچہ اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر بڑے بہتان باندھنے والے، گناہگار کے لئے خرابی ہے اور یہ وہ شخص ہے جس کے سامنے قرآن کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو وہ انہیں سن کر ایمان لانے سے تکبر کرتے ہوئے اپنے کفر پراصرار کرتا ہے اور وہ ایسا بن جاتا ہے گویااس نے ان آیتوں کو سنا ہی نہیں ،تو اے حبیب! ایسے شخص کو قیامت کے دن جہنم کے درد ناک عذاب کی خوشخبری سنادو۔

مفسّرین نے اس آیتِ مبارکہ کا شان نزول یہ بھی بیان کیاہے کہ نَضْر بن حارِث عجمی لوگوں (جیسے رستم اور اسفندیار) کے قصے کہانیاں سنا کر لوگوں کو قرآنِ پاک سننے سے روکتا تھا،اس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔

یاد رہے کہ اس آیت کا نزول اگرچہ نَضْر بن حارِث کے لئے ہے لیکن اس وعید میں ہر وہ شخص داخل ہے جو دین کو نقصان پہنچائے اور ایمان لانے اور قرآن سننے سے تکبر کرے۔ (تفسیر طبری، 11/254)

احادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں:

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ہلاکت و بربادی ہے ان کے لئے جو نیکی کی بات سن کراُسے جھٹلا دیتے ہیں اور اُس پر عمل نہیں کرتے اور ہلاکت وبربادی ہے اُن کے لئے جو جان بوجھ کرگناہوں پر ڈٹے رہتے ہيں۔ (مسند امام احمد، 2/682، حدیث: 7062)

حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں: جب تک تم نیک لوگوں سے محبت رکھوگے بھلائی پر رہو گے اور تمہارے بارے میں جب کوئی حق بات بیان کی جائے تواسے مان لیا کرو کہ حق کو پہچاننے والا اس پر عمل کرنے والے کی طرح ہوتا ہے۔ (شعب الایمان، 6/503، حدیث:9063)

غلطی پر اڑ جانے کے بجائے حق قبول کرنے کا ذہن بنانے اور اس کی رکاوٹوں کو دور کرنے کے طریقے:

اصرار باطل کے نقصانات میں غور کیجئے جو کہ درج ذیل ہیں:

٭حق بات قبول نہ کرنے والے کو لوگ حق کی تلقین کرنے سے رُک جاتے ہیں۔

٭حق بات قبول نہ کرنے والوں کو لوگ ناپسند کرتے ہیں۔

٭حق بات قبول نہ کرنے والا اصرارِ باطل اور عنادِ حق میں مبتلا ہوجاتا ہے۔

٭حق بات قبول نہ کرنے والا تکبر میں پڑ جاتا ہے۔

٭حق بات نہ ماننے والا جھگڑے سے نہیں بچ پاتا۔

٭حق بات قبول نہ کرنے والا فضول بحث ومباحثہ میں مبتلا ہوجاتا ہے۔

٭حق بات نہ ماننے والے کو لوگوں کی نظروں میں ذلیل ہونا پڑتا ہے۔

غلطی پر اڑ جانے سے بچنا اور حق قبول نہ کرنے کے فوائد پر نظر کیجئے جو کہ درج ذیل ہیں:

٭حق بات قبول کرنے والے کو لوگ پسند کرتے ہیں۔

٭حق بات قبول کرنے والا تکبر سے دور ہوتا ہےکیونکہ کسی کو خود سے حقیر سمجھنا اور حق بات قبول نہ کرنا تکبر ہے۔

٭قبول حق عاجزی کی علامت ہے۔

٭قبول حق صالحین اور نیک لوگوں کا طریقہ ہے۔

٭قبول حق کے سبب آدمی فضول بحث ومباحثہ سے بچ جاتا ہے۔

٭حق بات قبول کرنے والے کی لوگوں میں قدر ومنزلت بڑھ جاتی ہے۔

٭حق بات قبول کرنے والا جھگڑے سے بچا رہتا ہے۔

٭قبول حق کے سبب آدمی عنادِ حق اور اِصرارِ باطل سے بچ جاتا ہے۔

ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھئے: جب بندہ یہ محسوس کرتا ہے کہ حق کی تائید کرنے سے ذاتی مفادات خطرے میں پڑ جائیں گےجبکہ غلط کام پر اڑےرہنے سے میری ذات کو خاطر خواہ فائدہ ہوگا تو وہ حق بات کو قبول کرنے سے رُک جاتا ہے لہٰذا قبول حق کے لیے ضروری ہے کہ ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھا جائے۔

صالحین اور حق قبول کرنے والوں کی صحبت اختیار کیجئے، صالحین اور حق قبول کرنے والوں کی صحبت کی برکت سے قبول حق کا جذبہ ملے گااور باطل پر اِصرار سے آدمی بچ جائے گا۔

حب جاہ اور طلب شہرت کو ختم کیجئے، کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی بات کا حق ہونا روزِ روشن کی طرح واضح ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود مخالفت میں اپنا باطل اور غلط موقف پیش کیا جارہا ہوتا ہے جس کاسبب حب جاہ اور شہرت کا حصول ہوتا ہے لہٰذا قبولِ حق کے لیے حب جاہ اور طلب شہرت کو ختم کرنا ضروری ہے۔ (نجات دلانے والے اعمال کی معلومات، ص 265 تا 267)

غلطی پر ڈٹے رہنا یعنی اس بات پر اڑ جانا جس کا معلوم بھی ہو کہ یہ بات غلط ہے اور میرے لیے اس پر ڈٹے رہنا گناہ ہے اس کے باوجود بھی اس پر زور دینا یہ غلطی پر ڈٹے رہنا ہے اسے اصرار باطل بھی کہتے ہیں۔

اصرار باطل سے مراد حق بات کو قبول نہ کرنا اور اپنی غلط یا باطل بات پہ ڈٹے رہنا اور اہل حق کو اذیت پہنچانا اصرار باطل ہے گناہوں پر ڈٹے رہنا اور نصیحت کو قبول نہ کرنا یہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے دل پہ پردہ ہے کہ انسان جانتا بھی ہے کہ یہ کام یا بات درست نہیں لیکن پھر بھی وہ خود کو اس سے دور نہیں رکھتا اور اہل ایمان کو اذیت اور پریشانی دینے میں لگا رہتا ہے اسے اس کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ اس کے اعمال برباد ہو جائیں۔ اس کے بارے میں قرآن پاک ہے: وَیْلٌ لِّكُلِّ اَفَّاكٍ اَثِیْمٍۙ(۷) یَّسْمَعُ اٰیٰتِ اللّٰهِ تُتْلٰى عَلَیْهِ ثُمَّ یُصِرُّ مُسْتَكْبِرًا كَاَنْ لَّمْ یَسْمَعْهَاۚ-فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ(۸) (پ 25، الجاثیۃ: 7، 8) ترجمہ کنز العرفان: ہر بڑے بہتان باندھنے والے گنہگار کے لیے خرابی ہے جو اللہ کی آیتوں کو سنتا ہے کہ اس کے سامنے پڑھی جاتی ہیں پھر تکبر کرتے ہوئے ضد پر ڈٹ جاتا ہے گویا اس نے ان آیتوں کو سننا ہی نہیں تو ایسوں کو دردناک عذاب کی خوشخبری سناؤ۔

مفسر شہیر حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی فرماتے ہیں: معلوم ہوا کہ تکبر و ہٹ دھرمی ایمان سے روکنے والی آڑ ہیں۔ (تفسیر نور العرفان، ص 796)

نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ہلاکت و بربادی ہے ان کے لئے جو نیکی کی بات سن کر اسے جھٹلا دیتے ہیں اور اُس پر عمل نہیں کرتے اور ہلاکت و بر بادی ہے اُن کے لئے جو جان بوجھ کر گناہوں پر ڈٹے رہتے ہیں۔ (مسند امام احمد، 2/682، حدیث: 7062)

اصرار باطل یعنی نصیحت قبول نہ کرنا، اہل حق سے بغض رکھنا اور ناحق یعنی باطل اور غلط بات پر ڈٹ کر اہل حق کو اذیت دینے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہ جانے دینا نہایت ہی مذموم، فتیح یعنی برا اور حرام فعل ہے، اس سے ہر مسلمان کو بچنا لازم ہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 159)

جیسے کہ ہم نے اصرار باطل یعنی غلط بات پر ڈٹے رہنا اس کے بارے میں معلومات لیں اس کے بارے میں حدیث مبارکہ پڑھی تو آیے اس کے چند علاج بھی پڑھ لیتی ہیں۔

اصرار باطل کے اسباب و علاج درج ذیل ہیں:

اصرار باطل کا ایک سبب اتباع نفس ہے کیوں کہ بعض اوقات بندہ اپنی انانیت کی وجہ سے غلط بات پر جم جاتا ہے اور کسی طرح بھی اس سے دست بردار ہونے کے نہیں ہوتا۔ اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ نفس کی اس چال لیے تیار کو ناکام بناتے ہوئے حق بات کی تائید کرے اور اس حوالے سے اپنے نفس کی تربیت بھی کرے اور وقتاً فوقتاً نفس کا محاسبہ بھی کرتا رہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 161 تا 163)

اصرار باطل کا دوسرا سبب بغض و کینہ ہے۔اسی سبب کی وجہ سے بندہ حق قبول کرنے میں پس و پیش سے کام لیتا ہے اور اپنی غلطی کو تسلیم نہیں کرتا۔ اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ بزرگان دین کی سیرت طیبہ کے اس پہلو کو مد نظر رکھے کہ بزرگان دین یہ نہیں دیکھتے تھے کہ کون کہہ رہا ہے ؟ بلکہ یہ دیکھتے تھے کہ کیا کہہ رہا ہے نیز اپنے سینے کو مسلمانوں کے بغض و کینے سے پاک رکھنے کی کوشش کرے۔

اصرار باطل کا تیسرا سبب اطاعت الٰہی کو ترک کر دینا ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ بنده اطاعت الٰہی کو مقدم رکھے کیوں کہ بعض صورتوں میں اس سبب کا نتیجہ ایمان کی بربادی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔

اصرار باطل کا چوتھا سبب ذاتی مفادات کی حفاظت ہے۔ کیوں کہ جب بندہ یہ محسوس کرتا ہے کہ حق کی تائید کرنے سے ذاتی مفادات خطرے میں پڑ جائیں گے جب کہ غلط کام پر اڑے رہنے سے میری ذات کو خاطر خواہ فائدہ ہوگا۔ یہ ذہن میں رکھ کر بندہ اس غلط کام کے لیے اپنی تمام تر توانائی صرف کرنے پر تیار ہو جاتا ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ اللہ کی رضا اور حق کی تائید کو ذاتی مفادات پر مقدم رکھے اور یہ ذہن بنائے کہ ذاتی فائدے کے لیے غلط بات پر ڈٹے رہنے سے عارضی نفع تو حاصل کرنا ممکن ہے لیکن اللہ کی ناراضگی کے سبب رحمت الٰہی اور اس کی دیگر نعمتوں سے محروم کر دیا گیا تو میرا کیا بنے گا؟

اصرار باطل کا پانچواں سبب ہاں میں ہاں ملانے اور چاپلوسی کرنے کی عادت ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ تملق (یعنی چاپلوسی) کے نقصانات پیش نظر رکھے کہ چاپلوسی ایک فتیح اور معیوب کام ہے، چاپلوس شخص کی کوئی بھی دل سے عزت نہیں کرتا، چاپلوسی کا انجام ذلت ورسوائی ہے، چاپلوسی کی وجہ سے بسا اوقات کسی مسلمان کا شدید نقصان بھی ہو جاتا ہے، چاپلوسی میں اکثر اوقات بندہ جھوٹ جیسے کبیرہ گناہ میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں ہر طرح کے گناہ سے بچائے رکھے اور ہم سے دین اسلام کے لیے کام لے لے اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل و رحمت سے بخش دے۔ آمین


ایک انسان کبھی بھی سو فیصد درست نہیں ہو سکتا ہے انسان سے کوئی نہ کوئی غلطی کا صدور ہو جاتا ہے اور انسان کو چاہئے کہ اس غلطی کو مانے اس غلطی پر ڈٹا نہ رہے کیونکہ غلطی پر اڑ جانے سے بہت سی لڑائیاں، فساد اور بہت سی برائیوں کو فروغ ملتا ہے اس لیے انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی غلطی کو مانے کیونکہ غلطی ماننے سے کوئی چھوٹا بڑا نہیں ہوتا۔

آئیے جانتی ہیں غلطی پر اڑ جانا کسے کہتے ہیں۔ نصیحت قبول نہ کرنا، اہل حق سے بغض رکھنا اورناحق یعنی باطل اور غلط بات پر ڈٹ کر اہل حق کو اذیت دینے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہ جانے دینا اِصرار باطل کہلاتا ہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 157)

ارشاد ہوتا ہے: وَیْلٌ لِّكُلِّ اَفَّاكٍ اَثِیْمٍۙ(۷) یَّسْمَعُ اٰیٰتِ اللّٰهِ تُتْلٰى عَلَیْهِ ثُمَّ یُصِرُّ مُسْتَكْبِرًا كَاَنْ لَّمْ یَسْمَعْهَاۚ-فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ(۸) (پ 25، الجاثیۃ: 7، 8) ترجمہ کنز العرفان: ہر بڑے بہتان باندھنے والے گنہگار کے لیے خرابی ہے جو اللہ کی آیتوں کو سنتا ہے کہ اس کے سامنے پڑھی جاتی ہیں پھر تکبر کرتے ہوئے ضد پر ڈٹ جاتا ہے گویا اس نے ان آیتوں کو سننا ہی نہیں تو ایسوں کو دردناک عذاب کی خوشخبری سناؤ۔

مفسر شہیر حکیم الامت مولانا مفتی احمد یار خان نعیمی فرماتے ہیں: معلوم ہوا کہ تکبر وہٹ دھرمی ایمان سے روکنے والی آڑ ہیں۔ (تفسیر نور العرفان، ص 796)

حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: ہلاکت و بربادی ہے ان کے لئے جو نیکی کی بات سن کراُسے جھٹلا دیتے ہیں اور اُس پر عمل نہیں کرتے اور ہلاکت وبربادی ہے اُن کے لئے جو جان بوجھ کرگناہوں پر ڈٹے رہتے ہيں۔ (مسند امام احمد، 2/682، حدیث: 7062)

اصرار باطل کے پانچ اسباب وعلاج:

اصرار باطل کاپہلا سبب تکبر ہے کہ اکثر تکبر کے سبب ہی بندہ اصرار باطل جیسی آفت میں مبتلا ہوجاتا ہے، اسی سبب کی وجہ سے شیطان اصرار باطل میں مبتلا ہو کر دائمی ذلت وخواری کا حق دار قرار پایا۔اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ شیطان کے انجام پر غور کرے،تکبر کا علاج کرےاور اپنے اند ر عاجزی پیدا کرے۔تکبر کی تباہ کاریوں، اس کے علاج اوراس سےمتعلق مزید معلومات کے لیے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ کتاب تکبرکا مطالعہ نہایت مفید ہے۔

اصرارِ باطل کادوسراسبب بغض و کینہ ہے۔اسی سبب کی وجہ سے بندہ حق قبول کرنے میں پس و پیش سے کام لیتا ہے اور اپنی غلطی کو تسیلم نہیں کرتا اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ بزرگان دین کی سیرت طیبہ کے اس پہلو کو مد نظر رکھے کہ بزرگان دین یہ نہیں دیکھتے تھے کہ کون کہہ رہا ہے بلکہ یہ دیکھتے تھے کہ کیا کہہ رہا ہے نیز اپنے سینے کو مسلمانوں کے بعض وکینے سے پاک رکھنے کی کوشش کرے۔

اصرار باطل کا تیسرا سبب ذاتی مفادات کی حفاظت ہے کیوں کہ جب بندہ یہ محسوس کرتا ہے کہ حق کی تائید کرنے سے ذاتی مفادات خطرے میں پڑ جائیں گے جب کہ غلط کام پر اڑے رہنے سے میری ذات کو خاطر خواہ فائدہ ہوگا یہ ذہن میں رکھ کر بندہ اس غلط کام کے لیے اپنی تمام تر توانائی صرف کرنے پر تیار ہو جاتا ہے اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ اللہ کی رضا اور حق کی تائید کو ذاتی مفادات پر مقدم رکھے اور یہ ذہن بناے کہ ذاتی فائدے کے لیے غلط غلط بات پر ڈاٹے رہنے سے عارضی نفع تو حاصل کرنا ممکن ہے لیکن اللہ کی ناراضگی کے سبب رحمت الٰہی اور اس کی دیگر نعمتوں سے محروم کر دیا گیا تو میرا کیا بنےگا۔

اصرار باطل کا چوتھا سبب طلب شہرت و ناموری ہے بعض لوگ بدنامی کے ذریعے نام کما کر سستی شہرت حاصل کرتے ہیں چونکہ اصرار باطل بھی سستی شہرت حاصل کرنے کا ذریعہ ہے لہذا اس میں رغبت پائی جاتی ہے اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ سوچے کہ غلط بات پر ڈٹے رہنے سے لوگوں میں وقتی شہرت تو مل جاے گی لیکن ان کے دلوں سے قدر ومنزلت بالکل ختم ہو جاے گی کیا یہ بہتر نہیں کہ آپنی غلطی تسلیم کر کے اور حق بات کو تسلیم کر کے اللہ کی رضا حاصل کی جائے اس طرح اللہ مجھے دنیا و آخرت میں سرخرو فرمائے گا۔

اصرار باطل کا پانچواں سبب ہاں میں ہاں ملانے اور چاپلوسی کرنے کی عادت ہے اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ تملق یعنی چاپلوسی کے نقصانات پیشں نظر رکھے کہ چاپلوسی ایک قبیح اور معیوب کام ہے چاپلوس شخص کی کوئی بھی دل سے عزت نہیں کرتا چاپلوسی کا انجام ذلت ورسوائی ہے چاپلوسی کی وجہ سے بسا اوقات کسی مسلمان کا شدید نقصان بھی ہوجاتا ہے چاپلوسی میں اکثر اوقات بندہ جھوٹ جیسے کبیرہ گناہ میں مبتلا ہو جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔

اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں ہر کام شریعت کے مطابق کرنے کی توفیق عطا فرمائے ہماری ہمارے والدین پیرومرشد اساتذہ کرام اور ساری امت محمدیہ ﷺ کی بے حساب مغفرت فرمائے۔ آمین

قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے: وَیْلٌ لِّكُلِّ اَفَّاكٍ اَثِیْمٍۙ(۷) یَّسْمَعُ اٰیٰتِ اللّٰهِ تُتْلٰى عَلَیْهِ ثُمَّ یُصِرُّ مُسْتَكْبِرًا كَاَنْ لَّمْ یَسْمَعْهَاۚ-فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ(۸) (پ 25، الجاثیۃ: 7، 8) ترجمہ کنز العرفان: ہر بڑے بہتان باندھنے والے گنہگار کے لیے خرابی ہے جو اللہ کی آیتوں کو سنتا ہے کہ اس کے سامنے پڑھی جاتی ہیں پھر تکبر کرتے ہوئے ضد پر ڈٹ جاتا ہے گویا اس نے ان آیتوں کو سننا ہی نہیں تو ایسوں کو دردناک عذاب کی خوشخبری سناؤ۔

مفسر شہیر حکیم الامت مولانا مفتی احمد یار خان نعیمی فرماتے ہیں: معلوم ہوا کہ تکبر وہٹ دھرمی ایمان سے روکنے والی آڑ ہیں۔ (تفسیر نور العرفان، ص 796)

ہر گناہ کے کوئی اسباب ہوتے ہیں اگر ہم ان اسباب کا علاج کریں تو اس گناہ سے بچنا آسان ہو جاتا ہے اسی طرح غلطی پر اڑ جانے کہ کچھ اسباب ہیں اور ان کا علاج بھی آئیے ملاحظہ ہو:

1 ۔ اصرارِ باطل کاپہلا سبب ذاتی مفادات کی حفاظت ہے۔کیوں کہ جب بندہ یہ محسوس کرتا ہے کہ حق کی تائید کرنے سے ذاتی مفادات خطر ے میں پڑ جائیں گے جب کہ غلط کام پر اڑے رہنے سے میری ذات کو خاطر خواہ فائدہ ہوگا۔ یہ ذہن میں رکھ کربندہ اس غلط کام کے لیے اپنی تمام تر توانائی صرف کرنے پر تیار ہو جاتا ہے۔اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ اللہ کی رضا اور حق کی تائید کو ذاتی مفادات پر مقدم رکھے اور یہ ذہن بنائے کہ ذاتی فائدے کے لیے غلط بات پر ڈٹے رہنے سے عارضی نفع تو حاصل کرنا ممکن ہے لیکن اللہ کی ناراضگی کے سبب رحمت الٰہی اوراس کی دیگر نعمتوں سے محروم کردیا گیا تو میرا کیا بنے گا؟

2۔ اصرارِ باطل کا دوسرا سبب طلب شہرت و ناموری ہے۔بعض لوگ بدنامی کے ذریعے نام کما کر سستی شہرت حاصل کرتے ہیں چونکہ اصرارِ باطل بھی سستی شہرت حاصل کرنے کا ذریعہ ہے لہٰذااس میں زیادہ رغبت پائی جاتی ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ یہ سوچےکہ غلط بات پر ڈٹے رہنے سےلوگوں میں وقتی شہرت تو مل جائے گی لیکن اُن کے دلوں سےمیر ی قدر ومنزلت بالکل ختم ہوجائے گی،کیا یہ بہتر نہیں کہ اپنی غلطی تسلیم کرکے اورحق بات کو تسلیم کرکے اللہ کی رضا حاصل کی جائے،اس طرح اللہ مجھے دنیاوآخرت میں سُرخُرو فرمائے گا۔

3۔ اصرارِ باطل کا تیسرا سبب ہاں میں ہاں ملانے اور چاپلوسی کرنےکی عادت ہے۔اِس کا علاج یہ ہے کہ بندہ تَمَلُّقْ (یعنی چاپلوسی) کے نقصانات پیش نظر رکھے کہ چاپلوسی ایک قبیح اور معیوب کام ہے، چاپلوس شخص کی کوئی بھی دل سے عزت نہیں کرتا، چاپلوسی کا انجام ذلت ورسوائی ہے، چاپلوسی کی وجہ سے بسا اوقات کسی مسلمان کا شدید نقصان بھی ہوجاتا ہے، چاپلوسی میں اکثر اوقات بندہ جھوٹ جیسے کبیرہ گناہ میں مبتلا ہوجاتاہے۔ وغیرہ وغیرہ

4۔ اصرارِ باطل کاچوتھا سبب اطاعت الٰہی کو ترک کردینا ہے۔اس کاعلاج ہے کہ بندہ اطاعت الٰہی کومقدم رکھےکیوں کہ بعض صورتوں میں اس سبب کا نتیجہ ایمان کی بربادی کی صورت میں ظاہر ہوتا۔

5۔اصرارِ باطل ایک سبب اتباعِ نفس ہے کیوں کہ بعض اوقا ت بندہ اپنی انانیت کی وجہ سے غلط بات پر جم جاتا ہے اور کسی طرح بھی اس سے دست بردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ نفس کی اس چال کو ناکام بناتے ہوئے حق بات کی تائید کرے اوراس حوالے سے اپنے نفس کی تربیت بھی کرے اور وقتاً فوقتاً نفس کا محاسبہ بھی کرتا رہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 161 تا 163)

اللہ کریم سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ہر کام شریعت کے مطابق کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری ہمارے والدین پیرومرشد اساتذہ کرام اور ساری امت محمدیہ ﷺ کی بے حساب مغفرت فرمائے۔ آمین

اصرار باطل کی تعریف: نصیحت قبول نہ کرنا، اہل حق سے بغض رکھنا اورناحق یعنی باطل اور غلط بات پر ڈٹ کر اہل حق کو اذیت دینے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہ جانے دینا اِصرار باطل کہلاتا ہے۔

آیت مبارکہ: اللہ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَیْلٌ لِّكُلِّ اَفَّاكٍ اَثِیْمٍۙ(۷) یَّسْمَعُ اٰیٰتِ اللّٰهِ تُتْلٰى عَلَیْهِ ثُمَّ یُصِرُّ مُسْتَكْبِرًا كَاَنْ لَّمْ یَسْمَعْهَاۚ-فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ(۸) (پ 25، الجاثیۃ: 7، 8) ترجمہ کنز العرفان: ہر بڑے بہتان باندھنے والے گنہگار کے لیے خرابی ہے جو اللہ کی آیتوں کو سنتا ہے کہ اس کے سامنے پڑھی جاتی ہیں پھر تکبر کرتے ہوئے ضد پر ڈٹ جاتا ہے گویا اس نے ان آیتوں کو سننا ہی نہیں تو ایسوں کو دردناک عذاب کی خوشخبری سناؤ۔

مفسر شہیر حکیم الامت مولانا مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر نور العرفان میں فرماتے ہیں: معلوم ہوا کہ تکبر وہٹ دھرمی ایمان سے روکنے والی آڑ ہیں۔ (تفسیر نور العرفان، ص 796)

نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ہلاکت و بربادی ہے ان کے لئے جو نیکی کی بات سن کراُسے جھٹلا دیتے ہیں اور اُس پر عمل نہیں کرتے اور ہلاکت وبربادی ہے اُن کے لئے جو جان بوجھ کرگناہوں پر ڈٹے رہتے ہيں۔ (مسند امام احمد، 2/682، حدیث: 7062) یہ نہایت ہی مذموم، قبیح اور حرام فعل ہے اس سے ہر مسلمان کو بچنا لازم ہے۔

ایک بات یہ بھی ذہن نشین رکھنی چاہیے کی جب غلطی ثابت ہو جائے تو عقلمند اپنے آپکو درست کر لیتا یعنی اِصلاح کر لیتا ہے اور جاہل ضد پہ اڑ جااتاہے۔

اصرارِ باطل کا ایک سبب بغض و کینہ ہے اسی سبب سے بندہ حق قبول کرنےمیں پس و پیش سے کام لیتا ہے اور اپنی غلطی کو تسلیم نہیں کرتا۔

اسکا علاج یہ ہے کہ بندہ بزرگانِ دین کی سیرتِ طیبہ کے اِس پہلو کو مدِنظر رکھے کی بزرگانِ دین یہ نہیں دیکھتے تھے کہ کون کہہ رہا ہے؟ بلکہ یہ دیکھتے تھے کہ کیا کہہ رہا ہے ؟

نیز اپنے سینے کو مسلمانوں کے بغض و کینے سے پاک رکھنے کی کوشش کرتے۔

ہمیں بھی چاہیے کہ اگر ہم سے کوئی غلطی سرزد ہو جائے تو اپنی غلطی قبول کر کے اپنی اصلاح کر لیں نہ کہ اپنی غلطی پر ڈٹ جائیں۔

اللہ پاک ہم سب کی گناہوں سے حفاظت فرمائے اور نیکیاں کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین