غلطی کا مطلب کسی کام میں کوئی کوتاہی کر دینا کوئی
کام سہی طریقے سے نہ کرنا۔ غلطی ایک دلدل کی مانند ہوتی ہے اگر ہم دلدل کو کیچڑ سمجھیں
گے تو اس میں دھنس جائیں گے لیکن دلدل کو دلدل سمجھنے والا انسان اپنے آپ کو اس سے
نکالنے کی کوشش کرتا ہے نہ کہ وہی پر جما رہتا ہے۔
غلطی پر اڑ جانے والا خود کو تاریک اندھیروں میں ڈال
دیتا ہے۔ ایک کمرہ ابھی تک بند نہیں ہوا اس میں ہلکی ہلکی روشنی رہتی ہے۔ لیکن جب ہم
اس کو بند کر دیتے ہے تو مکمل اندھیرے میں گھر جاتے ہیں۔
غلطی کر کے ہمارے پاس معافی مانگنے کا موقع ہوتا ہے
یہ ہمارے ہاتھ میں ہوتا ہے کہ ہم اس مغفرت دروازے کو انا کے آڑے آ کر بند کر دیتے ہیں
یا پھر معافی مانگ کر اسے دوبارہ کھول لیتے ہیں اور روشنیوں کے امنڈتے سیلاب سے سراب
ہو جاتے ہیں۔
حضرت آدم اور شیطان کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ حضرت آدم
غلطی پر نہ اڑے اور معافی مانگ لی جس کی وجہ سے آج پوری نوع انسانی ان کی شکرگزار ہے
اور خاص طور پر امت مسلمه کو یہ شرف حاصل ہے کہ وہ نبیﷺ کی امت ہے، شیطان اپنی غلطی
پر اڑا رہا معافی نہ مانگی اور آج جہالت کے اندھیروں میں پڑا ہوا ہے۔
اگر غلطی ہو گئی تو اعتراف کرنا آپ کو چھوٹا نہیں بنا
دیتا بلکہ مستقبل میں ایک ابھرتا ہوا ستارہ بنتا ہے۔ ایک ماہر چیف وہ نہیں جس نے کبھی
غلطی نہ کی ہو بلکہ وہ ہے جس نے غلطیاں کی ہو اور پھر ان سے سیکھا ہو۔
انسان گر کر ہی اٹھتا ہے لیکن جو انسان کبھی گرا ہی
نہ ہو وہ نہیں جانتا کہ اب اٹھنا کیسے ہے۔ غلطی پر اڑ جانے سے بعض اوقات ہم اپنے قیمتی
رشتوں کو بھی کھو دیتے ہیں۔ غلطی ہم اپنی انا کی وجہ سے بھی نہیں مانتے۔ جس طرح کامیابیوں
کو ہم اپنا حصہ مانتے ہیں تو ناکامیاں اور غلطیاں بھی تو ہماری ہوتی ہیں، پھر ہم ان
سے منہ کیوں پھیر دیتے ہیں اور انہیں کسی دوسرے پر کیوں ڈال دیتے ہیں۔ غلطی نہ ماننا
کم ظرفی کی علامت ہے۔ ہم اپنی غلطی پر دوسروں پر چیخ چلا رہے ہوتے ہیں بس اپنی غلطی
کو چھپانے کے لیے اس پر غصہ تو کرتے ہیں لیکن دراصل اپنی کم عقلی اور اپنے نفسیاتی
مرض کو ظاہر کر رہے ہوتے ہیں۔ اپنی غلطی مان لیں کیا ہو گا لوگ آپ کے بارے میں یہی
سمجھیں گے کہ آپ کو یہ کام نہیں آتا یا آپ پر طعنے کسیں گے یا کچھ لوگ آپ کی بےعزتی
کر دیں گے۔ لیکن یہ اس سے بہتر ہے کہ آپ اپنے نفس کی تسکین کے لیے خاموش رہیں اور دوسروں
پر الزام کشی کرنا شروع کر دیں۔ ایک مشور اردو کہاوت ہے کہ ”ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا“