بلال غلام نبی ( درجہ سادسہ جامعۃُ المدینہ کنز
الایمان رائیونڈ ، پاکستان)

قلم انسانیت کی
سب سے بڑی اختراعوں میں سے ایک ہے۔ یہ نہ صرف خیالات کی ترسیل کا ذریعہ ہے بلکہ
تہذیب و تمدن کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ قلم کا اصل حق یہ ہے کہ یہ آزادی
اور حقیقت کو سچائی کے ساتھ پیش کرے۔ اس کا مقصد لوگوں کی آگاہی کو بڑھانا، ان کے
دماغ کو مہمیز کرنا اور معاشرتی تبدیلی کی راہ ہموار کرنا ہوتا ہے۔ لیکن جب ہم قلم
کے حقوق کی بات کرتے ہیں تو اس میں صرف اس کی آزادی نہیں بلکہ اس کے تحفظ کی بات
بھی شامل ہوتی ہے۔
(1)
آزادیِ اظہار: قلم کی آزادی
انسانوں کے حقوق میں سب سے اہم حق ہے۔ جب تک انسان اپنی رائے کو آزادانہ طور پر
اظہار نہیں کر سکتا، تب تک معاشرتی ترقی ممکن نہیں ہو سکتی۔ قلم کا یہ حق اس بات
کو یقینی بناتا ہے کہ ہر فرد اپنی بات دنیا کے سامنے رکھ سکے، چاہے وہ رائے حکومت
کے خلاف ہو یا کسی اور طاقتور ادارے کی مخالفت ہو۔ اس حق کے ذریعے لوگ سچ بولنے کی
جرات حاصل کرتے ہیں اور یہ معاشرتی انصاف کے قیام کی طرف ایک اہم قدم ہوتا ہے۔
(2)
سچائی کی تلاش: قلم کا دوسرا حق سچ
کو بے نقاب کرنا ہے۔ صحافت، ادب، اور تاریخ نویسی میں اس بات کی اہمیت ہے کہ قلم
حقیقت کو اس کی اصل شکل میں پیش کرے۔ اس حق کا تحفظ کرنے سے ہم جھوٹ، ملامت اور
پروپیگنڈے کے خلاف لڑ سکتے ہیں۔ سچائی کا اظہار، خواہ وہ کسی کے لئے تکلیف دہ ہی کیوں
نہ ہو، ایک معاشرتی ذمہ داری ہے۔ کسی بھی ملک یا معاشرے میں سچ کو دبانا قلم کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
(3)
تخلیقی آزادی: قلم کا ایک اور اہم
حق تخلیقی آزادی ہے۔ ہر انسان کا حق ہے کہ وہ ادب، شاعری، کہانیاں یا دیگر تخلیقی
مواد تخلیق کرے اور اس میں اپنی انفرادیت کو ظاہر کرے۔ تخلیقی آزادی کا تحفظ اس
بات کو یقینی بناتا ہے کہ نئے خیالات، نئے نقطہ نظر اور نئی تخلیقات سامنے آئیں۔ یہ
معاشرتی ترقی، ثقافتی تنوع اور فنون کے ارتقاء کے لئے ضروری ہے۔
(4)
قلم کا تحفظ:قلم کے حقوق کا ایک
اہم پہلو اس کی حفاظت بھی ہے۔ دنیا بھر میں کئی صحافی، ادیب اور مصنف اپنے خیالات
اور رائے کے اظہار کی وجہ سے جانی نقصان یا قید و بند کا شکار ہو چکے ہیں۔ ان
لوگوں کو تحفظ دینے کی ضرورت ہے تاکہ وہ آزادانہ طور پر اپنے خیالات کا اظہار کر
سکیں۔ اس تحفظ کے بغیر قلم کا صحیح استعمال ممکن نہیں۔
(5)
نقل و اشاعت کے حقوق: قلم کا حق یہ
بھی ہے کہ اس کی تخلیقات کا صحیح طریقے سے نقل اور اشاعت ہو۔ جب تک تخلیق کار کو
اپنی محنت کا مناسب انعام اور تسلیم نہیں ملتا، اس کی تخلیقات کا صحیح استعمال
ممکن نہیں ہوتا۔ یہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ مصنف کی محنت کا اعتراف کیا جائے
اور اس کی تخلیقات کا غلط استعمال نہ ہو۔
(6)
ذاتی آزادی اور عدم مداخلت: قلم کا
ایک حق یہ بھی ہے کہ کسی دوسرے فرد یا ادارے کو کسی تخلیق کار کی ذاتی آزادی میں
مداخلت کرنے کا اختیار نہ ہو۔ ہر تخلیق کار کو اپنی سوچ اور اظہار میں آزادی حاصل
ہونی چاہئے۔ اگر کسی کے کام میں مداخلت کی جاتی ہے یا اس کے مواد میں کسی قسم کی
تبدیلی کی جاتی ہے تو اس سے قلم کے حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔

قرآن مجید
فرقان حمید میں اللہ رب العزت نے جن چیزوں کی قسم کھائی ہے ان میں سے ایک قلم بھی
ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے نٓ وَ الْقَلَمِ وَ مَا یَسْطُرُوْنَۙ(۱) ترجمہ کنزالعرفان: نون، قلم اور اس کی قسم جو لکھتے ہیں۔
( القلم: 1)
ذات باری تعالیٰ کا قلم کی قسم یاد فرمانے سے معلوم ہوا کہ
بارگاہ خداوندی میں قلم کی کتنی حرمت اور قدرو منزلت ہے ۔ قلم اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے قلم نہ ہوتا تو دین و
دنیا کے علوم محفوظ نہ ہوپاتے۔ تصانیف و تالیف کے عظیم الشان ذخائر شاہد ہیں کہ
قلم نے دین و دنیا کے علوم اور اور اقوام کی تواریخ کو محفوظ رکھنے میں بنیادی
کردار ادا کیا ۔ قرآن مجید فرقان حمید ، احادیث مبارکہ اور دنیا کا کوئی بھی فنون
ہو اسی قلم کے ذریعے ہی محفوظ ہوئے ۔ قلم تلوار سے بھی زیادہ طاقت وار ہے اس کی سب
سے بڑی مثال امام اہلسنت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کی ذات مبارکہ
ہے جنہوں نے قلم کے ذریعے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت پر پہرہ دیا
اور دین کی اشاعت کے لیے تقریباً ایک ہزار کتب تصانیف فرمائی ۔ قلم کی اتنی اہمیت
ہے کہ اس کا ذکر قرآن پاک اور احادیث مبارکہ موجود ہے لہذا قلم کے بارے ہمیں
معلومات ہونی چاہیے کہ اس کے کیا حقوق ہیں ۔ آئے اب ہم قلم کے حقوق کے متعلق جانتے
ہیں:
(1)علم کا سیکھنا : اللہ تعالیٰ قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد فرماتا ہے
کہ الَّذِیْ عَلَّمَ
بِالْقَلَمِۙ(۴) عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْؕ(۵) ترجمہ کنز العرفان: جس نے قلم سے لکھنا سکھایا۔انسان کو
وہ سکھایا جو وہ نہ جانتا تھا۔(پ30، العلق، آیت: 4.5)
تفسیر صراط الجنان میں اس آیت مبارکہ کے تحت
لکھا ہے کہ وہ رب عَزَّوَجَلَّ بڑا کریم ہے جس نے قلم سے لکھنا سکھایا جس کے ذریعے
غائب اُمور کی پہچان حاصل
ہوتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ قلم
کے ذریعے علم کو سیکھنا زیادہ آسان ہیں ۔
(2) علم کو قید کر لو: حضرت عبد اللہ بن عمرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا
فرماتے ہیں ،رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے
ارشاد فرمایا’’علم کو قید کر لو۔میں نے عرض کی:اسے قید کرنا کیا ہے؟ ارشاد فرمایا’’علم
کو لکھ لینا(اسے قید کرنا ہے)۔( تفسیر صراط الجنان پ 30.العلق۔ آیت 4.5، مستدرک، کتاب العلم، قیّدوا
العلم با لکتاب، ۱ / ۳۰۳، الحدیث: ۳۶۹)
(3)سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا :روایت ہے حضرت عبادہ بن صامت سے فرماتے ہیں
فرمایا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے: رب نے جو چیز پہلے پیدا کی وہ قلم تھا پھر
فرمایا اس کو لکھ بولا کیا لکھوں فرمایا تقدیر لکھ تب اس نے جو کچھ ہوچکا اور جو
ہمیشہ تک ہوگا لکھ دیا۔ (مراٰة المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح ج 1، ایمان کا بیان، باب تقدیر پر ایمان
لانے کا بیان، حدیث نمبر 94)
(4)قلم کو کان پر رکھنا : روایت ہے حضرت زید بن ثابت سے فرماتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں
حاضر ہوا اور آپ کے سامنے کاتب تھا میں نے حضور کو فرماتے سنا کہ قلم اپنے کان پر
رکھو کہ یہ انجام کو زیادہ یاد کرانے والا ہے۔
مفسرشہیر حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی
رحمۃ اللہ علیہ حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ اگر کاتب قلم کو کان سے لگائے رکھے
تو اسے وہ مقصد یاد رہے گا جو اسے لکھنا ہے۔بہتر یہ ہے کہ قلم داہنے کان پر رکھے
الله تعالٰی نے ہر چیز میں کوئی تاثیر رکھی ہے،قلم کان میں لگانے کی یہ تاثیر ہے
کہ اسے مضمون یاد رہتا ہے۔ (مراة المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح ج 6، اچھی باتوں کا بیان، باب سلام
کا بیان، حدیث نمبر 4658)
قلم
کی اہمیت کا اندازہ پہلی وحی میں قلم کے ذکر سے لگایا جا سکتا ہے۔معاشرے میں توازن
برقرار رکھنے کے لیے اٹھا ہوا قلم قوموں کی تقدیر بدلنے میں اہم کردار ادا کر سکتا
ہے۔ آج بھی ہم قلم کا صحیح استعمال کرکے دین و دنیا کے علوم کو محفوظ کرکے کامیاب
ہو سکتے ہیں ۔
دعا ہے کہ
اللہ تعالیٰ ہمیں قلم کے ذریعے علم کی اشاعت کے لیے زیادہ سے زیادہ کام کرنے کی
توفیق عطا فرمائے آمین ۔ بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم ۔

قلم انسان کی
عقل، فکر اور جذبات کا آلہ ہے۔ اس کے ذریعے انسان اپنے خیالات، علم اور احساسات کو
دوسرے لوگوں تک پہنچاتا ہے۔ قلم کا استعمال علم کی ترسیل، معاشرتی اصلاح اور دین کی
دعوت میں ایک بنیادی وسیلہ ہے۔قلم کے حقوق صرف اس کے استعمال کے حوالے سے نہیں ہیں
بلکہ اس کے ذریعے جتنے بھی کام کیے جاتے ہیں، ان کی اخلاقی اور دینی ذمہ داری بھی
ہے۔ قلم کا استعمال انسان کو سچائی کی طرف راہنمائی فراہم کرتا ہے اور معاشرتی ترقی
کے لیے بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔
قلم کا ایک
اور اہم حق یہ ہے کہ اس کا استعمال علم کے پھیلاؤ اور فہم کی ترقی کے لیے کیا
جائے۔ کسی بھی علم کو صحیح طریقے سے بیان کرنا اور اس کی توہین نہ کرنا ضروری ہے۔
قلم کی مدد سے انسان علم کی اس اہمیت کو اجاگر کر سکتا ہے جو اس کی زندگی کو بہتر
بنانے کے لیے ضروری ہے
قلم کے ذریعے
کسی کی ذاتی زندگی، عزت یا مقام پر حملہ کرنا اسلامی اخلاقی اصولوں کے خلاف ہے۔
قلم کا استعمال دوسروں کی عزت کی حفاظت کے لیے ہونا چاہیے۔ اگر کسی کی برائی لکھنا
مقصود ہو، تو یہ حق استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔ قلم کا ایک اور حق یہ ہے کہ اس
کا استعمال انسانیت کی خدمت کے لیے ہو۔ یہ انسانوں کی فلاح، اصلاح اور ان کے حقوق
کی حفاظت کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو ایک
دوسرے کی مدد کرنے کا حکم دیا ہے، اور قلم کے ذریعے انسان یہ خدمت کر سکتا ہے۔
آئیے قرآن مجید
میں قلم کے حوالے سے رب تعالیٰ کا اِرشاد باری تعالیٰ ملاحظہ فرمائیں : نٓ وَ الْقَلَمِ وَ مَا یَسْطُرُوْنَۙ(۱) ترجمہ کنزالعرفان: نون، قلم اور اس کی قسم جو لکھتے ہیں۔
(سورۃ القلم: 1، پارہ 29)
تفسیر صراط
الجنان: ن یہ حروف مقطعات میں سے ایک حرف ہے ، اس کی مراد اللہ تعالیٰ ہی بہتر
جانتا ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ اس آیت میں قلم سے مراد وہ قلم ہے جس سے لوگ لکھتے ہیں
اور ان کے لکھے “ سے مراد لوگوں کی دینی تحریریں ہیں ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ قلم سے
مراد وہ قلم ہے جس سے فرشتے لکھتے ہیں ہیں اور " ان کے لکھے “ سے بنی آدم کے
اعمال کے نگہبان فرشتوں کا لکھا مراد ہے یا ان فرشتوں کا لکھا مراد ہے جو لوح
محفوظ سے عالم میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات اپنے صحیفوں میں لکھتے ہیں۔ تیسرا
قول یہ ہے کہ اس قلم سے وہ قلم مراد ہے جس سے لوح محفوظ پر لکھا گیا، یہ نوری قلم
ہے اور اس کی لمبائی زمین و آسمان کے فاصلے کے برابر ہے ، اور ”ان کے لکھے “ سے
لوح محفوظ پر لکھا ہوا مراد ہے۔ ( مدارک، القلم، تحت الآیۃ: ١، ص ۱۲۶۶
، خازن، ن، تحت الآيۃ : ۱ ، ۴ / ۲۹۳ ، جمل، القلم، تحت الآية: ۱۰ / ۷۲-۷۱ ، ملتقطاً)
حدیث پاک میں
قلم کے حوالے سے حضورصلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کا فرمان: وَعَنْ عُبَادَةِ بْنِ الصَّامِتِ
قَالَ قَالَ رَسُولُ الله صَلّٰى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنَّ أَوَّلَ مَا
خَلَقَ اللّٰهُ الْقَلَمَ فَقَالَ لَهٗ اُكْتُبْ فَقَالَ مَا أَكْتُبُ قَالَ
اُكْتُبِ الْقَدَرَ فَكَتَبَ مَا كَانَ وَمَا هُوَ كَائِنٌ إِلَى الْأَبَدِ
ترجمہ: روایت ہے حضرت عبادہ ابن صامت سے فرماتے ہیں فرمایا
رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے رب نے جو چیز پہلے پیدا کی وہ قلم تھا پھر فرمایا اس کو لکھ بولا کیا لکھوں فرمایا تقدیر
لکھ تب اس نے جو کچھ ہوچکا اور جو ہمیشہ تک ہوگا لکھ دیا۔ (مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1
ایمان کا بیان باب: تقدیر پر ایمان لانے کا باب , حدیث نمبر:94 )
ایک اور جگہ
ارشاد فرمایا ہے کہ عَنْ زَيْدِ بنِ ثَابِتٍ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى
اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَيْنَ يَدَيْهِ كَاتِبٌ فَسَمِعْتُهٗ يَقُولُ: ضَعِ
الْقَلَمَ عَلٰى أُذُنِكَ فَإِنَّهٗ أَذْكَرُ لِلْمَآلِ
روایت ہے حضرت
زید بن ثابت سے فرماتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر
ہوا اور آپ کے سامنے کاتب تھا میں نے حضور کو فرماتے سنا کہ قلم اپنے کان پر رکھو
کہ یہ انجام کو زیادہ یاد کرانے والا ہے ۔ (مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:6 اچھی باتوں کا بیان:
باب سلام کا باب ، حدیث نمبر:4658)
قلم کی آزادی
ہر انسان کا حق ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی اس کی اخلاقی ذمہ داری بھی ہے۔ اس کا
استعمال اخلاقی حدود کے اندر رہ کر کیا جانا چاہیے۔ انسان کو اپنے خیالات کا اظہار
کرنے کی آزادی حاصل ہے، مگر اس کی قیمت پر دوسروں کی آزادی یا حقوق کو نقصان نہیں
پہنچنا چاہیے۔
قلم کے حقوق کی
اہمیت اس بات میں ہے کہ جب انسان اسے اللہ کی رضا کے لیے استعمال کرتا ہے، تو اس
کا ہر لفظ صدقہ بن جاتا ہے۔ اس کے ذریعے انسان دوسروں تک علم پہنچاتا ہے اور ان کی
فلاح کے لیے کام کرتا ہے۔
قلم ایک
طاقتور اور اہم آلہ ہے جس کا استعمال انسانوں کی فلاح اور معاشرتی ترقی کے لیے کیا
جا سکتا ہے۔ اس کے حقوق کا خیال رکھنا ضروری ہے تاکہ اس کا استعمال اللہ کی رضا کے
لیے ہو اور اس سے لوگوں کی اصلاح ہو۔ قلم کو سچائی، اخلاق، اور علم کی خدمت کے لیے
استعمال کرنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔ اس کے ذریعے انسان اپنے معاشرتی اور دینی
فرائض کی ادائیگی میں مددگار بن سکتا ہے۔
اللہ پاک ہمیں
عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محمد عبدالرحمن فاروق ( درجہ خامسہ جامعۃُ المدینہ
3 ڈی ون ٹاؤن شپ لاہور ، پاکستان)

قلم، جو ازل
سے تا ابد روشنی و بصیرت کا مظہر اور علم و حکمت کا سر چشمہ ہے اور اللہ تبارک
وتعالیٰ کی عظیم ترین نعمتوں میں سے ایک ہے۔ اسی قلم کی عظمت کو ملحوظِ خاطر رکھتے
ہوئے،قرآن و حدیث سے بھی قلم کی اہمیت کے بارے میں پتا چلتا ہے۔ربّ العالمین نے
قرآن مجید میں اس کی قسم کھائی فرمایا:
نٓ وَ الْقَلَمِ وَ مَا
یَسْطُرُوْنَۙ(۱)
ترجمہ
کنزالعرفان: نون، قلم اور اس کی قسم جو لکھتے ہیں۔ (سورۃ القلم: 1، پارہ 29)
اسی طرح حدیث
پاک میں ہے: حضرت
عبادہ ابن صامت سے فرماتے ہیں فرمایا
رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے رب نے جو چیز پہلے پیدا کی وہ قلم تھا پھر فرمایا
اس کو لکھ بولا کیا لکھوں فرمایا تقدیر لکھ تب اس نے جو کچھ ہوچکا اور جو ہمیشہ تک
ہوگا لکھ دیا۔ (مرآۃ
المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد: 1 ،ایمان کا بیان، باب تقدیر پر ایمان لانے کا
بیان، حدیث نمبر: 94)
پتا چلا کہ یہ
محض ایک عام سادہ سی شے ہی نہیں بلکہ ایک امانت ہے، جو انسانی تہذیب و تمدن اور
شعور کی بیداری، اور حق و صداقت کی ترویج کا ناقابلِ تسخیر ذریعہ ہے۔ مگر چونکہ ہر
نعمت کے ساتھ ایک آزمائش جُڑی ہوتی ہے تو اسی طرح قلم کے بھی کچھ حقوق ہیں جو ہم
پر لازم آتے ہیں ان حقوق میں سے بعض درج ہیں:
قلم کا حق ہے: حق گوئی اور سچائی کی پاسداری ، قلم وہ آئینہ ہے جو دل کی گہرائیوں میں چھپے
خیالات کو صفحۂ قرطاس پر منعکس کرتا ہے۔ اسے جھوٹ، فریب اور باطل کے غلاف میں لپیٹ
کر پیش کرنا، درحقیقت خیانت اور ظلم کی انتہا ہے۔ قلم کا حق ہے کہ اس کے ذریعے صرف
اور صرف سچائی کو رقم کیا جائے، خواہ وہ کڑوی ہو یا میٹھی ،کسی کے مفادات پر ضرب
لگاتی ہو یا نہ لگاتی ہو۔
قلم
کا حق ہے: علم و ہدایت کو عام کرنا قلم
کو بے وجہ سفاک اور بے روح تحریروں کا اسیر بنانے کے بجائے، اسے نورِ علم کی روشنی
پھیلانے کا ذریعہ بنانا چاہیے۔ جیسا کہ میرے آقا صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے
فرمان کے مطابق مرنے کے بعد جو تین اعمال آدمی کے کام آنے ہیں ان میں سے ایک ایسا
علم بھی ہے جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں۔ پس، قلم کا حق یہ ہے کہ وہ ایک ایسا ذریعہ
بنے جس کے ذریعے لوگ رشد و ہدایت کے نور سے منور ہوں نہ کہ اندھیروں میں بھٹکتے رہیں۔
قلم
کا حق ہے: عدل و انصاف کا قیام قلم
ایک ایسی تلوار ہے جو ظالم کے خلاف بلند کی جائے تو انقلاب برپا کر سکتی ہے، مگر یہی
قلم اگر بے انصافی کی راہ پر گامزن ہو جائے تو معاشرہ بربادی پستی اور تباہی کی
دلدل میں جا گرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قلم کا حق ہے کہ اسے عدل و مساوات کا عَلَم بنایا
جائے اور کسی بھی قسم کے ذاتی مفاد یا نفرت کی آمیزش سے اسے آلودہ نہ کیا جائے۔
قلم
کا حق ہے: فتنہ و فساد سے اجتناب جب
قلم بے لگام ہو جائے اور شر کے بازار میں عام ہو جائے تو معاشرتی امن و سکون خراب
ہوجاتا ہے آج ہم دیکھتے ہیں کہ سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع میں قلم کو منفی پروپیگنڈے،
نفرت انگیزی، اور جھوٹے بیانیے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، جس کی اسلام میں سخت
ممانعت ہے۔ پس معلوم ہوا کہ قلم کا حق ہے کہ اس کے ذریعے وہ تحریریں رقم کی جائیں
جو انسان کے اخلاق و کردار کو بلند کریں اور اسے اللہ کے قریب کریں۔
قلم کے متعلق میرے
آقا کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا: روایت ہے حضرت زید ابن ثابت سے
فرماتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کے
سامنے کاتب تھا میں نے حضور کو فرماتے سنا کہ قلم اپنے کان پر رکھو کہ یہ انجام کو
زیادہ یاد کرانے والا ہے۔
( مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد: 6 ،اچھی باتوں کا بیان ، سلام کا باب،
حدیث نمبر: 4658)
یعنی اگر کاتب
قلم کو کان سے لگائے رکھے تو اسے وہ مقصد یاد رہے گا جو اسے لکھنا ہے۔ قلم کی حیثیت
محض ایک مادی شے کی نہیں، بلکہ یہ ایک روحانی اور اخلاقی ذمہ داری ہے، جس کا
استعمال انسان کو جنت کے راستے پر بھی لے جا سکتا ہے اور جہنم کی دہلیز تک بھی
پہنچا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اپنے قلم کو ہمیشہ سچ،
علم، عدل، خیر اور اصلاح کے لیے استعمال کرے، تاکہ وہ اللہ کے ہاں سرخرو ہوسکے۔
کلیم اللہ چشتی عطّاری
(درجہ سابعہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ فاروقِ اعظم سادھو کی لاہور )

قراٰنِ مجید
فرقانِ حمید میں اللہ ربُّ العزت نے جن چیزوں کی قسم یاد فرمائی ہے ان میں سے ایک
قلم بھی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿نٓ
وَالْقَلَمِ وَمَا یَسْطُرُوْنَۙ(۱)﴾
ترجَمۂ کنزالایمان: قلم اور ان کے لکھے کی قسم ۔ (پ29،القلم: 1)
ذاتِ باری
تعالیٰ کا قلم کی قسم یاد فرمانے سے معلوم ہوا کہ بارگاہِ خداوندی میں قلم کی کتنی
حرمت اور قدرو منزلت ہے ۔ قلم اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے قلم نہ ہوتا تو دین
و دنیا کے علوم محفوظ نہ ہوپاتے۔ تصانیف و تالیف کے عظیم الشان ذخائر شاہد ہیں
کہ قلم نے دین و دنیا کے علوم اور اقوام کی تواریخ کو محفوظ رکھنے میں بنیادی
کردار ادا کیا۔
احادیثِ
مبارکہ اور دنیا کا کوئی بھی فن ہو وہ قلم کے ذریعے ہی محفوظ ہوا۔ قلم تلوار سے
بھی زیادہ طاقتور ہے اس کی ایک بڑی مثال امامِ اہلِ سنت امام احمد رضا خان رحمۃُ
اللہِ علیہ کی ذاتِ مبارکہ ہے جنہوں نے قلم کے ذریعے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کی ختمِ نبوت پر پہرہ دیا اور دین کی اشاعت کے لئے تقریباً ایک
ہزار کتب تصنیف فرمائیں۔ قلم کی اتنی اہمیت ہے کہ اس کا ذکر قراٰنِ پاک اور احادیثِ
مبارکہ میں موجود ہے، اللہ تعالیٰ قراٰنِ مجید فرقانِ حمید میں ارشاد فرماتا ہے:﴿الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِۙ(۴) عَلَّمَ
الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْؕ(۵)﴾
ترجَمۂ کنزالایمان: جس نے قلم سے لکھنا سکھایا آدمی کو سکھایا جو نہ جانتا تھا۔
(پ30، العلق: 4، 5)
تفسیر صِراطُ
الجنان میں ہے: وہ رب عزوجل بڑا کریم ہے جس نے قلم سے لکھنا سکھایا جس کے ذریعے
غائب اُمور کی پہچان حاصل ہوتی ہے۔ (صراط الجنان، 10/764) معلوم ہوا کہ قلم کے ذریعے
علم کو سیکھنا زیادہ آسان ہے۔
پیارے اسلامی
بھائیو! کہا جاتا ہے کہ دنیا کے معاملات سین اور قاف سے چلتے ہیں”سین“ سے مراد ہے
سیف یعنی تلوار اور قاف سے مراد ہے:”قلم“ سیف و قلم عالمِ اسلام میں نہایت اہمیت
کے حامل ہیں، شیطان صفت انسانوں کو لگام ڈالنی ہو یا جہالت کے اندھیروں میں زندگی
گزارنے والوں کو شعور و آگاہی فراہم کرنی ہو، ہر جگہ قلم اپنی قوتِ گویائی سے
سرکرداں ہے قلم کی طاقت کبھی کمزور نہیں پڑ سکتی کہ جب بھی نوکِ قلم سینۂ قرطاس
پر چلنا شروع کرتی ہے تو میدان میں چلنے والی تلوار سے کم نہیں ہوتی، یہی وجہ ہے
کہ دینِ اسلام نے قلم کے حقوق کو اُجاگر فرمایا تاکہ علم و فن، شعور و آگاہی اور
قدیم و جدید علوم کے چراغ روشن رہیں چنانچہ آپ بھی قلم کے چند حقوق ملاحظہ کیجئے
اور عمل کی نیت کیجئے:
(1)ادب
کرنا: قلم کا ایک حق یہ ہے کہ اس
کا ادب کیا جائے کیونکہ قلم حصولِ علم کا ایک آلہ ہے چنانچہ قلم کے تراشے اور قلم
کو زمین اور بے ادبی والی جگہ نہ پھینکا جائے بلکہ اس کو محفوظ جگہ رکھا جائے جیسا
کہ بہار شریعت میں ہے: مستعمل قلم کا تراشہ احتیاط کی جگہ میں رکھا جائے پھینکا
نہ جائے۔(بہار شریعت، 2/496)
(2)ناجائز
معاملہ نہ لکھنا:قلم کے ساتھ کوئی
بھی ناجائز معاملہ اور جھوٹ نہ لکھنا کیونکہ اس کا وبال لکھنے والے پر ہے جیسا کہ
حضرت جابر رضی اللہُ عنہ سے مروی کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے سود لکھنے والے اور اُس کے گواہوں پر لعنت فرمائی اور یہ فرمایا کہ وہ سب
برابر ہیں۔ (دیکھئے: مسلم، ص 663، حدیث: 4093)
(3)سونے
چاندی کے قلم سے نہ لکھنا: سونے چاندی
کے قلم سے لکھئے کیونکہ اس کی ممانعت ہے جیسا کہ دُرِّ مختار میں ہے: سونے چاندی
کے قلم دوات سے لکھنا مرد عورت دونوں کے لئے ممنوع ہے۔(درمختار، 9/564)
(4)تحریر
دل آزاری کا سبب نہ بنے: جب معاشرتی
مسائل پر لکھا جائے تو ضروری ہے کہ تحریر سے کسی کی کردار کُشی نہ ہو، حالات اور
مسائل کو گمنام یا فرضی کرداروں کے ذریعے پیش کیا جاسکتا ہے تاکہ کسی کی دل آزاری
نہ ہو ۔