کلیم اللہ چشتی عطّاری
(درجہ سابعہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ فاروقِ اعظم سادھو کی لاہور )
قراٰنِ مجید
فرقانِ حمید میں اللہ ربُّ العزت نے جن چیزوں کی قسم یاد فرمائی ہے ان میں سے ایک
قلم بھی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿نٓ
وَالْقَلَمِ وَمَا یَسْطُرُوْنَۙ(۱)﴾
ترجَمۂ کنزالایمان: قلم اور ان کے لکھے کی قسم ۔ (پ29،القلم: 1)
ذاتِ باری
تعالیٰ کا قلم کی قسم یاد فرمانے سے معلوم ہوا کہ بارگاہِ خداوندی میں قلم کی کتنی
حرمت اور قدرو منزلت ہے ۔ قلم اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے قلم نہ ہوتا تو دین
و دنیا کے علوم محفوظ نہ ہوپاتے۔ تصانیف و تالیف کے عظیم الشان ذخائر شاہد ہیں
کہ قلم نے دین و دنیا کے علوم اور اقوام کی تواریخ کو محفوظ رکھنے میں بنیادی
کردار ادا کیا۔
احادیثِ
مبارکہ اور دنیا کا کوئی بھی فن ہو وہ قلم کے ذریعے ہی محفوظ ہوا۔ قلم تلوار سے
بھی زیادہ طاقتور ہے اس کی ایک بڑی مثال امامِ اہلِ سنت امام احمد رضا خان رحمۃُ
اللہِ علیہ کی ذاتِ مبارکہ ہے جنہوں نے قلم کے ذریعے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کی ختمِ نبوت پر پہرہ دیا اور دین کی اشاعت کے لئے تقریباً ایک
ہزار کتب تصنیف فرمائیں۔ قلم کی اتنی اہمیت ہے کہ اس کا ذکر قراٰنِ پاک اور احادیثِ
مبارکہ میں موجود ہے، اللہ تعالیٰ قراٰنِ مجید فرقانِ حمید میں ارشاد فرماتا ہے:﴿الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِۙ(۴) عَلَّمَ
الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْؕ(۵)﴾
ترجَمۂ کنزالایمان: جس نے قلم سے لکھنا سکھایا آدمی کو سکھایا جو نہ جانتا تھا۔
(پ30، العلق: 4، 5)
تفسیر صِراطُ
الجنان میں ہے: وہ رب عزوجل بڑا کریم ہے جس نے قلم سے لکھنا سکھایا جس کے ذریعے
غائب اُمور کی پہچان حاصل ہوتی ہے۔ (صراط الجنان، 10/764) معلوم ہوا کہ قلم کے ذریعے
علم کو سیکھنا زیادہ آسان ہے۔
پیارے اسلامی
بھائیو! کہا جاتا ہے کہ دنیا کے معاملات سین اور قاف سے چلتے ہیں”سین“ سے مراد ہے
سیف یعنی تلوار اور قاف سے مراد ہے:”قلم“ سیف و قلم عالمِ اسلام میں نہایت اہمیت
کے حامل ہیں، شیطان صفت انسانوں کو لگام ڈالنی ہو یا جہالت کے اندھیروں میں زندگی
گزارنے والوں کو شعور و آگاہی فراہم کرنی ہو، ہر جگہ قلم اپنی قوتِ گویائی سے
سرکرداں ہے قلم کی طاقت کبھی کمزور نہیں پڑ سکتی کہ جب بھی نوکِ قلم سینۂ قرطاس
پر چلنا شروع کرتی ہے تو میدان میں چلنے والی تلوار سے کم نہیں ہوتی، یہی وجہ ہے
کہ دینِ اسلام نے قلم کے حقوق کو اُجاگر فرمایا تاکہ علم و فن، شعور و آگاہی اور
قدیم و جدید علوم کے چراغ روشن رہیں چنانچہ آپ بھی قلم کے چند حقوق ملاحظہ کیجئے
اور عمل کی نیت کیجئے:
(1)ادب
کرنا: قلم کا ایک حق یہ ہے کہ اس
کا ادب کیا جائے کیونکہ قلم حصولِ علم کا ایک آلہ ہے چنانچہ قلم کے تراشے اور قلم
کو زمین اور بے ادبی والی جگہ نہ پھینکا جائے بلکہ اس کو محفوظ جگہ رکھا جائے جیسا
کہ بہار شریعت میں ہے: مستعمل قلم کا تراشہ احتیاط کی جگہ میں رکھا جائے پھینکا
نہ جائے۔(بہار شریعت، 2/496)
(2)ناجائز
معاملہ نہ لکھنا:قلم کے ساتھ کوئی
بھی ناجائز معاملہ اور جھوٹ نہ لکھنا کیونکہ اس کا وبال لکھنے والے پر ہے جیسا کہ
حضرت جابر رضی اللہُ عنہ سے مروی کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے سود لکھنے والے اور اُس کے گواہوں پر لعنت فرمائی اور یہ فرمایا کہ وہ سب
برابر ہیں۔ (دیکھئے: مسلم، ص 663، حدیث: 4093)
(3)سونے
چاندی کے قلم سے نہ لکھنا: سونے چاندی
کے قلم سے لکھئے کیونکہ اس کی ممانعت ہے جیسا کہ دُرِّ مختار میں ہے: سونے چاندی
کے قلم دوات سے لکھنا مرد عورت دونوں کے لئے ممنوع ہے۔(درمختار، 9/564)
(4)تحریر
دل آزاری کا سبب نہ بنے: جب معاشرتی
مسائل پر لکھا جائے تو ضروری ہے کہ تحریر سے کسی کی کردار کُشی نہ ہو، حالات اور
مسائل کو گمنام یا فرضی کرداروں کے ذریعے پیش کیا جاسکتا ہے تاکہ کسی کی دل آزاری
نہ ہو ۔