اسلام ایسا پاکیزہ مذہب ہے جو دینی،اخلاقی اور معاشرتی معاملات کے ساتھ ساتھ زندگی کے تمام گوشوں میں ہماری رہنمائی کرتا ہے۔اسلام نے میانہ روی کی تعلیم دے کر اس کے کثیر فوائد بیان فرمائے ہیں اور کسی بھی معاملے میں افراط و تفریط کا شکار ہونے کو قابل مذمت قرار دیا  ہے۔میانہ روی اور اعتدال پسندی دونوں مترادف الفاظ ہیں جس کے معنی افراط و تفریط کی درمیانی حالت ہے۔اگر ہم کھانے پینے،سونے جاگنے وغیرہ معمولات زندگی میں اعتدال پسندی کے عادی ہوں گے تو یہ اچھی عادت ہمارے لئے دنیا و آخرت میں مفید ثابت ہوگی۔قرآن مجید میں کئی مقامات پر میانہ روی کا حکم دیا گیا ہے۔ سورہ اعراف کی آیت نمبر 31 میں کھانے پینے کے بارے میں یہ حکم ہے کہ: اور کھاؤ اور پیئو اور حد سے نہ بڑھو۔سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 29 میں خرچ کرنے کا یہ اصول دیا گیا کہ اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھ اور نہ پورا کھول دے۔اسی طرح نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بہترین کام وہ ہیں جو میانہ روی کے ساتھ کیے جائیں۔اسی طرح ایک اور حدیث شریف میں ہے کہ اعمال میں میانہ روی اختیار کرو اور اللہ کا قرب حاصل کرو۔(معجم اوسط،78/2،حدیث :2583)

معمولات زندگی اور اعتدال پسندی:

(1)عبادت میں میانہ روی:

اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت کے لئے پیدا فرمایا ہے اور اس عبادت پر آخرت میں ملنے والے اَجر و ثواب کا وعدہ فرمایا ہے لیکن عبادات میں فرائض و واجبات کے علاوہ نفلی عبادات کی ایسی کثرت جو ہمیں فرائض سے غافل کر دے اس کی ممانعت فرمائی ہے۔مثلا کوئی دن رات صرف نفل نمازیں پڑھتا رہے اور اپنے بیوی بچوں کے لئے طلب معاش ہی نہ کرے،یا اپنے بچوں کی دینی تربیت سے غفلت برتے،یا ماں باپ،بہن بھائی اور رشتہ داروں سے میل جول نہ رکھے تو آخرت میں ایسی نفلی عبادت کوئی فائدہ نہیں دے گی۔نفلی عبادت اگرچہ کم ہو لیکن ہمیشگی کے ساتھ ہو تو یہ اللہ پاک کو زیادہ پسند ہے، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :اللہ کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل وہ ہے جو ہمیشہ کیا جائے اگرچہ تھوڑا ہو۔(مسلم،حدیث: 782،ص394)

لہذا فرض نمازوں کی پابندی کے ساتھ ساتھ نفلی نماز اور دیگر اعمال بھی کیجیئے مگر گھر اور معاشرے سے متعلق جو ذمہ داری آپ پر لازم ہے اسے بھی پورا کیجیے۔

(2)سونے میں میانہ روی:

نیند اللہ پاک کی بڑی نعمت ہے جو جسمانی صحت کے لیے بے حد ضروری ہے سورہ النباء کی آیت نمبر 9 میں ہے کہ ہم نے تمہاری نیند کو آرام بنایا۔

یہی وجہ ہے کہ جب ہم سو کر اٹھتے ہیں تو بالکل فریش ہو جاتے ہیں،اگر ہم کئی راتوں کے جاگے ہوں تو جسمانی تھکاوٹ اور سستی کی وجہ سے کوئی کام ڈھنگ سےنہیں کیا جاتا۔لہذا نیند کے معاملے میں بھی میانہ روی سے کام لینا چاہیے ،ایسا بھی نہ ہو کہ دن رات سونے کے علاوہ کوئی کام نہ کریں اور نہ ایسا ہو کہ دن رات جاگ کر اپنے اوپر ظلم کریں بلکہ طبی نقطہ نظر پر عمل کرتے ہوئے جس عمر کے افراد کے لیے جتنے گھنٹے کی نیند ضروری ہے اسے پورا کریں۔کیونکہ نیند پوری نہیں ہوگی تو ملازم آفس میں کام نہیں کر سکے گا،اسٹوڈنٹ ٹیچر کی بات سمجھنے سے قاصر رہے گااور طبیعت میں چڑچڑا پن،غصہ جیسی بری عادات پیدا ہوجائیں گی جو کہ اخلاقی اعتبار سے درست نہیں ہیں۔اسی طرح اگر کوئی دن رات سوتا ہی رہے تو مشہور کہاوت ہے کہ"جو سوتا ہے وہ کھوتا ہے"کے مصداق ایسا شخص اپنے بہت سے کام وقت پر نہیں کر سکتا، سو کر اپنا قیمتی وقت الگ ضائع کرتا ہے اور لوگوں میں سست،کاہل اور نیستی جیسے القابات سے یاد کیا جاتا ہے ۔لہذا ہمیں پرسکون زندگی گزارنے کے لیے نیند کے معاملے میں بھی میانہ روی سے کام لینا چاہیے۔

(3)خرچ میں میانہ روی:

امیر ہو یا غریب ہر ایک کو اپنی خواہشات اور ضروریات کو پورا کرنے کے لئے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے،جس کے پاس جتنا پیسہ ہوتا ہے وہ اپنے معاملات میں اسی اعتبار سے خرچ کرتا ہے۔اسلام نے جس طرح مال کمانے کے احکام بیان فرمائے ہیں ایسے ہی مال خرچ کرنے کے آداب بتا کر اس میں میانہ روی کا حکم دیا ہے۔مال خرچ کرنے میں میانہ روی اسلام کے نزدیک اچھا عمل ہے جب کہ فضول خرچی اور کنجوسی برے اوصاف ہیں جو ایک مسلمان کی شان کے لائق نہیں،قرآن مجید نے مومن کی یہ شان بتائی ہے: اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں،نہ حد سے بڑھیں اور نہ تنگی کریں اور ان دونوں کے بیچ اعتدال پر رہیں۔(پارہ 19،الفرقان: 67) لہذا مال خرچ کرتے وقت ایسی فضول خرچی بھی نہ کی جائے کہ بعد میں اپنی ضروریات کے لئے بھی کچھ باقی نہ بچے اور دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانا پڑے اور نہ ہی ایسا بخیل ہوں کہ جہاں اسلامی اور معاشرتی اعتبار سے خرچ کرنا ضروری ہو وہاں بھی خرچ نہ کریں بلکہ اعتدال کے ساتھ جہاں جتنا خرچ کرنا ضروری ہو اتنا ہی خرچ کریں۔حدیث پاک میں ہے :جو شخص اعتدال قائم رکھتا ہے،اللہ پاک اسے مالدار بنا دیتا ہے اور جو آدمی ضرورت سے زائد خرچ کرتا ہے اللہ پاک اسے فقیر کر دیتا ہے ۔ (کنز العمال،2/الجزء الثالث،ص22, حدیث 5434)

(4)کھانے پینے میں میانہ روی:

اللہ پاک نے ہمارے کھانے پینے کے لئے طرح طرح کی نعمتیں پیدا فرمائی ہیں جن میں ہمارے لئے بے شمار فوائد ہیں،کھانا پینا ہمارے جسم کی ضرورت ہے۔اگر ہم کچھ دن کے لیے کھانا پینا ہی چھوڑ دیں تو کمزوری کے سبب فرض عبادات اور دیگر معاملات انجام دینے میں مشکل پیش آسکتی ہے حتی کہ جان بھی جا سکتی ہے۔لہذا توانائی اور صحت کو برقرار رکھنے کے لیے بقدر ضرورت کھانا پینا معیوب نہیں بلکہ یہ تو جسم کا حق ہے۔ اسی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کثرت سے نفلی روزے رکھنے والے ایک صحابی سے ارشاد فرمایا: تم پر تمہارے جسم کا بھی حق ہے (بخاری، ج 1،ص649،حدیث: 1975)

یعنی ہمیشہ روزہ رکھنے سے تمہارا جسم کمزور ہو جائے گا (مراۃالمناجیح،ج3،ص188) معلوم ہوا کہ جسمانی طاقت اور قوت کے لیے کھانا پینا ضروری ہے اور بالکل چھوڑ دینا برا کام ہے۔ اسی طرح بہت زیادہ کھانا بھی مذموم فعل ہے،بعض ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو اس نعرے "کھاؤ پیو! جان بناؤ"کی عملی تصویر نظر آتے ہیں اور کھاتے پیتے ذرا نہیں تھکتے۔ایسے لوگ بھی اسلامی تعلیمات اور معاشرتی آداب کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔

جس طرح کچھ نہ کھانا پینا جسمانی صحت کے لیے نقصان دہ ہے اسی طرح زیادہ کھانا بھی مضر صحت ہے۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: پیٹ بھر کر کھانے پینے سے بچو کیوں کہ یہ جسم کو خراب کرتا،بیماریاں پیدا کرتا اور نماز میں سستی لاتا ہےاور تم پر کھانے پینے میں میانہ روی لازم ہے کیونکہ اس سے جسم کی اصلاح ہوتی ہے اور فضول خرچی سے نجات ملتی ہے۔

(کنز العمال،138/15،حدیث 4170)

لہذا ہمیں چاہیے کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنے تمام معاملات میں میانہ روی اختیار کریں تاکہ ہماری زندگی سکون و چین سے گزرے۔


اعتدال اور میانہ روی  کی اہمیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، دینِ اسلام کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس نے اعتدال، توسط اور میانہ روی کی تلقین کی ہے اور ہمیں اُمّتِ وسط اور میانہ روی اختیار کرنے والی بنایا۔

اعتدال اور میانہ روی کا مطلب: میانہ روی کا مطلب ہے، تمام احکام و اُمور میں ایسی راہ اختیار کرنا جس میں نہ افراط ہو نہ تفريط یعنی "نہ شدت ہونہ ہی از حد کوتاہی"

آیتِ قرآنی سے میانہ روی کی اہمیت:

ربّ تعالی فرماتا ہے: ترجمہ کنزالایمان:"اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں، نہ حد سے بڑھیں اور نہ تنگی کریں اور ان دونوں کے بیچ اعتدال پر رہیں۔" (پارہ 19، سورةالفرقان ، آیت نمبر 67)

دیکھئے! کتنی صاف ہدایت ہے اور کس قدر وضاحت سے سمجھایا گیا ہے کہ میانہ روی مؤمن کی صفت ہے اور مؤمن نہ ضرورت سے زیادہ خرچ کرتا ہے نہ ضروری خرچ کے موقع پر ہاتھ روكتا ہے، بلکہ معتدل رہتا ہے اور میانہ روی کو اپنا کر زندگی کو حُسنِ خوبی سے گزارتا ہے۔

حدیثِ مبارکہ کی روشنی میں:

سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طيبہ ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے اور توازن و اعتدال کی اعلیٰ ترین مثال بھی ہے۔

مسلم شریف کی حدیث ہے:" نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" میانہ روی اختیار کرو کیونکہ جس کام میں میانہ روی ہوتی ہے، وہ کام سنور جاتا ہے اور جس کام میں میانہ روی نہیں ہوتی، وہ کام بگڑ جاتا ہے۔"

میانہ روی سب کے لیے ضروری ہے اور ہر کام میں ضروری ہے، صرف دنیاوی معاملات اور معاشی مسائل ہی میں مفید نہیں ہے، بلکہ دینی معاملات میں بھی اعتدال مستحسن ہے۔

اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا گو ہیں کہ اللہ ہمیں میانہ روی کی اہمیت کو سمجھنے اور اس پر عمل کی توفیق عنایت فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


     ہر انسان اپنی زندگی کو خوشحال بنانا چاہتا ہے لیکن وہ اپنے روز مرّہ کے معاملات کی وجہ سے کافی پریشان رہتا ہے۔ جس طرح آج کے دور میں دنیا جیسے جیسے ترقی کرتی جارہی ہے اسی طرح ہمارے اخراجات میں بھی اضافہ ہوتا جارہاہے۔

سب سے پہلے یہ بات ذہن میں رکھ لیں کہ بے تحاشہ اخراجات اور جو خواہشات ہمارے دل میں اٹھتی ہیں ان پر عمل کرنا یا ان کو حاصل کرنا یا کسی صاحبِ حیثیت کی طرز زندگی کو اپنانا یہ عقلمندوں کا کام نہیں۔

اپنے اخراجات کو ( balance) میں رکھنا یعنی اعتدال میں رکھنا یہ بڑی عقلمندی دانائی اور تدبر کی بات ہے ۔چنانچہ اللہ پاک اپنے بندوں کو قرآن کریم میں نصیحت فرماتا ہے

الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ ترجمہ کنزالایمان: وہ جو بے دیکھے ایمان لائیں اور نماز قائم رکھیں اور ہماری دی ہوئی روزی میں سے ہماری راہ میں اٹھائیں۔(پ1 ، البقرہ :3)

آیت مبارکہ میں فرمایا گیا جو ہمارے دیے ہوئے میں سے کچھ ہماری راہ میں خرچ کرتے ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ راہ خدا میں خرچ کرنے میں ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ اتنا زیادہ مال خرچ کر دیا جائے کہ خرچ کرنے کے بعد آدمی پچھتائے اور نہ ہی خرچ کرنے میں کنجوسی سے کام لیا جائے بلکہ اس میں اعتدال ہونا چاہیے ۔ (صراط الجنان جلد 1 صفحہ 67)

اسی چیز کی تعلیم دیتے ہوئے ایک اور مقام پر اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:وَ لَا تَجْعَلْ یَدَكَ مَغْلُوْلَةً اِلٰى عُنُقِكَ وَ لَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا ترجمہ کنزالایمان:اور اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھ اور نہ پورا کھول دے کہ تو بیٹھ رہے ملامت کیا ہوا تھکا ہوا ۔ (پ15 ،بنی اسرائیل :29)

نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :التدبیر نصف المعیشۃ تدبیر سے کام لینا نصف معیشت ہے (مسند الفردوس)

مال میں تنگی کی تین احادیث مبارکہ:

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مالدار بخل کرنے کی وجہ سے بلا حساب جہنم میں داخل ہوں گے۔(فردوس الاخبار باب سین 444/1 الحدیث 2511)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ،پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :کوئی بخیل جنت میں نہیں جائے گا ۔

(معجم الاوسط باب العین من اسمہ علی 125/3 الحدیث: 4066)

  اللہ  پاک سے دعا ہے کہ ہمیں زندگی کے تمام معاملات اور اپنی عبادات میں میانہ روی اور اعتدال سے کام لینے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


حضور پرنور  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ پاک کی محبت اور عبادت کے شوق میں کثرت سے راتوں کو قیام کرتے تھےاور راتوں کی عبادت اس قدر شدت سے کرتے کہ پاؤں مبارک میں ورم پڑجاتا اور قدم مبارک سوج جا یا کرتے، اس پر اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: طٰهٰۚ(۱)مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰۤىۙ(۲) ترجمہ کنزالایمان : اے محبوب! ہم نے تم پر یہ قرآن اس لیے نہ اُتارا کہ تم مشقت میں پڑو۔ (پ:١٦،طہ:٢)

اللہ پاک نے حکم دیا کہ اپنے نفس کو کچھ راحت د یجئے کہ اس کا بھی حق ہے ۔

ایک اور شانِ نزول کچھ اس طرح سے ہے کہ حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کفار کے ایمان نہ لانے کی وجہ سے شدید رنج و الم میں مبتلا رہتے اور دل مبارک انتہائی افسردہ رہتا، تو اس آیت میں فرمایا گیا کہ آپ رنج وملال کی کوفت نہ اٹھائیں کیونکہ قرآن مجید آپ کی مشقت کے لیے نازل نہ کیا گیا ہے ۔

اس آیت میں اگرچہ کلام حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ بابرکت سے ہے لیکن مقصود امتِ مسلمہ کو نصیحت کرنا ہے کہ زندگی کا پہیہ اعتدال سے چلانے میں ہی عافیت و آسانی ہے۔

اس بات کو یوں سمجھا جا سکتا ہے، جیسا کہ ہم جانتےہیں کہ اسلام دینِ فطرت ہے اور فطرتِ کائنات پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہر چیز اور ہر نظام ایک معتدل انداز میں رواں دواں ہے ،کمی ہے نہ شدّت ۔ اسی طرح اسلام بھی میانہ روی اور اعتدال کے دامن کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم دیتا ہے ،کیونکہ شدّت پسندی وبےاعتدالی کوہرگز پسند نہیں کیا جاتا اور اسکے برعکس اعتدال و میانہ روی کو لازمی پسند کیا جاتا ہے اور جاتا رہے گا ۔ کامل ایمان والے بھی وہی ہیں جن کا نظامِ حیات اعتدال و میانہ روی کے اصولوں پر گامزن ہو گا۔جیسا کہ اللہ پاک قرآن مجید میں فرماتا ہے :

وَ الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَ لَمْ یَقْتُرُوْا وَ كَانَ بَیْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا ترجمہ کنزالایمان : اور وہ کہ جو خرچ کرتے ہیں نہ حد سے بڑھیں اور نہ تنگی کریں اور ان دونوں کے بیچ اعتدال پر رہیں۔ (پ١٩،الفرقان:٦٧)

کتنی وضاحت کے ساتھ فرمادیاگیا کہ رحمٰن کے بندے وہی ہیں جو نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ تنگی بلکہ دونوں برے کاموں سے پرہیز کرتے ہوئے اعتدال اور میانہ روی کو اپنا کر زندگی کو حسین بناتے ہیں کہ اسراف یعنی فضول خرچی سے زندگی کا سکون اورچین برباد ہوجاتا ہے اور زندگی کا بیشتر وقت انہی معاملات کو سلجھانے میں لگ جاتا ہے اور زندگی کی راحت ختم ہوجاتی ہے۔ ایک بزرگ فرماتے ہیں : اسراف میں کوئی بھلائی نہیں ،تو دوسرے بزرگ نے فرمایا : بھلائی کے کام میں اسراف ہوتا ہی نہیں ۔

اسی طرح حد سے کم خرچ کرنا بخل کہلاتا ہے۔ بخل کی عادت انسان کو اللہ پاک کی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے سے محروم کر دیتی ہے ۔ مال کو جمع کرنے کی لالچ و ہوس انتہائی عجیب وغریب ہے کہ بے مقصد اپنے آپ کو مشکل حالات میں ڈالنا ہے ۔ اللہ پاک فرماتا ہے :وَ لَا تَجْعَلْ یَدَكَ مَغْلُوْلَةً اِلٰى عُنُقِكَ وَ لَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا ترجمہ کنزالایمان : اور اپنا ہاتھ اپنی گریبان سے بندھا ہوا نہ رکھ اور نہ پورا کھول دے کہ تو بیٹھ رہے ملامت کیا ہوا تھکا ہوا(پ:١٥،بنی اسرائیل:٢٩)۔

اس آیت کا مقصدہی یہی ہے کہ انسان نہ توبالکل ہاتھ روک لے اور خرچ ہی نہ کرے یا ضروت سے کم کرے اور نہ ہی خرچ کرنے میں اتنا بڑھ جائے کہ پلّےکچھ بھی نہ بچے۔ اسی لیے اللہ پاک نے دینِ اسلام کو اسقدر آسان بنایا اوردرمیانی راہ کو اختیار کرنے کا حکم دیا کہ لوگ دین اسلام کو چھوڑ کر دوسرادین اختیار نہ کرلیں۔


اللہ پاک قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: وَ الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَ لَمْ یَقْتُرُوْا وَ كَانَ بَیْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا ترجمہ کنز الایمان: اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں نہ حد سے بڑھیں اور نہ تنگی کریں اور ان دونوں کے بیچ اعتدال پر رہیں۔(پ۱۹، الفرقان: ۶۷)

میانہ روی کے بارے میں ہمارے پیارے آقا مدینے والے مصطفےٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے خوب ترغیب دلائی ہے۔چنانچہ حضرت سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہ علیہ وَالہٖ وَسلَّم نے ارشاد فرمایا:میانہ روی سے خرچ کرنا نصف معیشت ہے اورلوگوں سے محبت کرنا نصف عقل ہے اوراچھا سوال کرنا آدھا علم ہے ۔(حسن اخلاق ،ص:۵۳ )

اللہ پاک کے آخری نبی مکی مدنی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : جو میانہ روی اختیار کرتا ہے اللہ پاک اسے غنی فرما دیتا ہے، جو فضول خرچی کرتا ہے اللہ پاک اسے تنگدست کر دیتا ہے اور جو کثرت سے اللہ پاک کا ذکرکرتا ہے اللہ اس سے محبت کرنے لگتا ہے۔(جہنم میں لیجانے والے اعمال (جلد اوّل) ۲۵۹ )

حضرت سیِّدُنا جابربن عبد اللہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سرکارِ مدینہ راحت قلب وسینہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ایک شخص کے پاس سے گزرے جو مکہ مکرمہ میں ایک چٹان پرنماز پڑھ رہاتھا ۔ واپسی پر بھی اسے اسی حالت میں پایا تو ارشادفرمایا: اے لوگو! تم پرمیانہ روی لازم ہے، اےلوگو! تم پر میانہ رَوِی لازم ہے، ا ے لوگو!تم پرمیانہ روی لازم ہے۔ بے شک !اللہ پاک (اجرعطافرمانے سے) نہیں اکتاتابلکہ تم (عبادت سے ) اُ کتا جاتے ہو۔ (ریاض الصالحین جلد ۲ صفحہ ۴۲۱ )

نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَرصلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے : اعتدال پسندی، میانہ روی اور اچھی نیت نبوت کے 24 اجزاء میں سے ایک جُز ہے۔

(جامع الترمذی، ابواب البر والصلۃ، باب ماجاء فی التأنی، الحدیث:۲۰۱۰،ص۱۸۵۳)

دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَرصلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے : عملِ آخرت کے علاوہ ہر چیز میں اعتدال پسندی اچھی چیز ہے۔(المستدرک ،کتاب الایمان، باب التؤدۃ فی کل شیء، الحدیث: ۲۲۱،ج۱،ص۲۳۹)

آدمی کو چاہیے کہ عبادت میں میانہ روی اختیار کرے اور اتنا ہی عمل کرے جس کو آسانی کے ساتھ ہمیشہ کرسکے کیونکہ تھوڑا عمل جو ہمیشہ کیا جائے وہ ا س عمل سے بہتر ہے جو انسان ہمیشہ نہ کرسکے کیونکہ زیادہ کے لالچ میں تھوڑے کو بھی چھوڑنے پر مجبور ہوجائے گا۔اسی کو امام غزالی رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ نے مثال دے کر یوں سمجھایا ہے کہ جب پتھر پر پانی قطرہ قطرہ ٹپکتا ہے تو سوراخ کردیتا ہےبر خلاف یکدم اگر پانی گرجائے تو اثر تک بھی نہیں ہوتا۔

اے عاشقان رسول !میانہ روی اِستقامت کی کنجی ہے۔ کثرت سےنعمتوں کا اِستعمال بھی غفلت کاسبب ہے اِس لیے اعتدال سے کام لیناچاہیے۔ بخاری شریف کی ایک روایت میں ہے: سیدھی راہ چلو، میانہ روی اختیار کرو صبح وشام اور رات کے کچھ حصے میں (عبادت کے ذریعے) مدد طلب کرو ، میانہ روی اختیار کرو تم اپنے مقصد کو پا لو گے ۔

اللہ پاک ہمیں ہر معاملہ میں اعتدال اور میانہ روی اختیار کرنے کی توفیق عطا فرماۓ ۔

آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم


قرآن پاک میں ہے: وَ لَا تَعْتَدُوْاؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ ترجمۂ کنزالایمان: اور حد سے نہ بڑھو بے شک اللہ حد سے بڑھنے والوں کو ناپسند فرماتا ہے ۔(پ7،المائدہ:87)

اس پوری آیت مبارکہ کا شان نزول یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی الله عنھم کی ایک جماعت سرور کائنات صلی الله علیہ وسلم کا وعظ سن کر ایک روز حضرت عثمان بن مظعون رضی الله عنہ کے ہاں جمع ہوئی اور انہوں نے آپسں میں ترک دنیا کا عہد کیا اور اس پر اتفاق کیا کہ وہ ٹاٹ پہنیں گےاور ہمشہ دن میں روزے رکھیں گےاور ساری رات عبادت الہی میں گزارا کریں گے بستر پر نہ لیٹیں گے اور گوشت اور چکنائی نہ کھائیں گے اور عورتوں سے جدا رہیں گے نیز خوشبو نہ لگائیں گے۔ اس پر آیت کریمہ نازل ہوئی اور انہیں اس ارادہ سے روک دیا گیا۔

(تفسیر قرطبی، المائدہ، تحت الآیۃ8، 156/3،الجزء السادس)

اگر اس آیت مبارکہ میں تھوڑا غور کیا جائے تو اس سے معلوم ہو گاکہ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اعتدال اختیار کرو اور قرآن پاک میں جس چیز کا ذکر آئے وہ کوئی عام نہیں ہوتی۔اعتدال اور میانہ روی کی اہمیت کیا ہے؟اس کا اندازا ہم اپنی روز مرہ کی زندگی کے معاملات سے بھی لگا سکتے ہیں ۔

مثلا ڈرائیونگ کرنا ہمارے زندگی کے معاملات میں سے ہے۔ اگر گاڑی چلانے میں حد سے تیزی کریں گے تو ٹکرا جانے کا اندیشہ ہے اور اگر بالکل ہی آہستہ چلائیں گے تو عین ممکن ہے پیچھے سے آنے والی گاڑی ہم سے ٹکرا جائے، اگر ہم میانہ روی سے چلائیں تو حادثے سے بچ سکتے ہیں۔ دین اسلام ایک ایسا دین ہے جو بالکل انسانی فطرت کے مطابق ہےاسی لئے اعتدال و میانہ روی کا حکم دیتا ہے، عبادت میں بھی اور دیگر معاملات میں بھی ۔عبادت میں میانہ روی کی مثال یہ حدیث مبارکہ ہے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنھما فرماتی ہیں رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم ان کے پاس تشریف فرما تھے۔ ایک خاتون ان کے پاس سے گزریں حضرت عائشہ رضی الله عنہا نے تاجدار رسالت صلی الله عليه وسلم سے عرض کی: ان کے بارے میں لوگ کہتے ہیں کہ یہ رات بھرنہیں سوتیں۔ رسول اللہ صلی الله عليه وسلم نےارشاد فرمایا: رات بھر نہیں سوتیںاتنا عمل کیا کرو جتنا آسانی سے کر سکو۔ اللہ نہیں اکتائے گا تم اکتا جاؤ گے۔

حدیث پاک میں عبادت میں میانہ روی نہ کرنے کا نتیجہ اکتاہٹ بتایا گیا ہےاور اگر دنیاوی معاملات میں اعتدال نہ ہو تو دنیا کا نظام نہ چل سکے گا ۔


تمام خوبیاں اس خالق کائنات کے لیے جس نے ہمیں انسان بنایا اور سب سے بہترین امت میں پیدا فرمایا۔ بے شمار درود وسلام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  پر جنہوں نے عبادات پر ہماری رہنمائی فرمائی، عبادات میں زیادتی کے مختلف طریقے بتائے اورساتھ ہی عبادات میں میانہ روی کا درس عظیم دیا۔

فرمان باری تعالی ہے:طٰهٰۚ(۱)مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰۤىۙ(۲) ترجمہ کنزالایمان:اے محبوب ہم نے تم پر یہ قرآن اس لیے نہ اُتارا کہ تم مشقت میں پڑو۔(پ16،طہ:2)

علامہ علاؤ الدین علی بن محمد خازن فرماتے ہیں: جب مشرکین نے رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عبادت میں بہت زیادہ کوشش کرتے دیکھا تو کہا؛اے محمد! تم پر قرآن اس لیے اتارا گیا ہے کہ تم مشقت میں پڑ جاؤ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

ایک قول یہ بھی ہے کہ سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کے کفر اور ان کے ایمان سے محروم رہنے پر بہت زیادہ متا سف و متحسر(افسردہ) رہتے تھے اور خاطر مبارک پر اس سبب سے رنج و ملال رہا کرتا تھا۔ اس آیت میں فرمایا گیا کہ آپ رنج وملال کی کوفت نہ اٹھائیں، قرآن پاک آپ کی مشقت کے لیے نازل نہیں کیا گیا۔

ایک اور جگہ اللہ پاک فرماتا ہے: یُرِیْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ

ترجمۂ كنزالايمان:اللہ تم پر آسانی چاہتا ہے اور تم پر دشواری نہیں چاہتا۔(پ2،البقرۃ:185)

تفسیر خازن میں ہے:اسکا معنی یہ ہے کہ اللہ پاک اس عبادت میں تم پر آسانی چاہتا ہے اور وہ آسانی مسافرو مریض کے لیے روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے۔ وَ لَا یُرِیْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ پاک نے دین کے معاملے میں تم سے تنگی و پریشانی کو دور کر دیا۔

ایک قول یہ ہے کہ اللہ پاک کو یہ بات بہت پسند ہے کہ کسی شخص کو دو چیزوں کا اختیار دیا جائے اور وہ ان میں سے آسان چیز کو اختیار کرے۔

یعنی اللہ پاک تم پر آسانی چاہتا ہے اس لیے اس نے بچوں اور دیوانوں پر روزہ معاف کردیااوربیماراورمسافرکومہلت دے دی اور اسی لیے روزہ کے واسطے ماہ رمضان مقرر کیاتاکہ تمہیں حساب اورقضامیں آسانی ہو۔ وَ لَا یُرِیْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ کا مقابل یعنی دشواری اور سختی ہے۔ یعنی تم پر سختی نہیں چاہتا ورنہ روزے کسی اور مہینے میں فرض فرماتا۔

( فیضان ریاض الصالحین(مکتبہ المدینہ) صفحہ :421،423)

دائمی قلیل عمل عارضی طورپرکثیرعمل سے افضل ہے اس لیے ہمیں چاہیے کہ اپنے ہر طرح کےدینی و دنیاوی معاملات جیسے عبادت و ریاضت،اور دیگر ضروریات میں مال خرچ کرنے میں اسراف سے بچیں اور میانہ روی سے کام لیں اور عبادت وریاضت میں بھی اپنی جان پر زیادہ بوجھ نہ ڈالیں بلکہ میانہ روی کو اختیار کریں۔

اللہ کریم اپنے محبوب کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے ہم پر خصوصی نظر کرم فرمائے۔ ہمیں میانہ روی اور اعتدال کی اہمیت کو سمجھنے کی اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم


اعتدال ومیانہ روی دین اسلام کی ایسی عظیم صفت ہے جو اس کے ہر معاملہ اور ہر حکم میں جلوہ گر نظر آتی ہے۔ اعتدال و میانہ روی کا مطلب ہے: تمام احکام وامور میں ایسی درمیان راہ اختیار کرنا جس میں نہ افراط ہو نہ تفریط یعنی نہ شدت ہو اور نہ از حد کوتاہی۔ جب دین اسلام کی یہ نمایاں خصوصیت ہے جو اس کو تمام ادیان سے ممتاز بناتی ہے   تو لازمی طور پر امت مسلمہ کی خصوصیت بھی یہی ہوگی کہ وہ عدل و اعتدال سے متصف اور افراط و تفریط سے مبرار ہے۔

الله تعالیٰ کا ارشاد ہے:-

1: وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ وَ یَكُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْكُمْ شَهِیْدًا ترجمہ کنزالایمان: اور بات یوں ہی ہے کہ ہم نے تمہیں کیا سب امتوں میں افضل کہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور یہ رسول تمہارے نگہبان و گواہ۔(پ2، البقرۃ: 143)

امام طبری رحمۃ الله علیہ نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا ہے : میں سمجھتا ہوں کہ الله نے اس امت کو’ امت وسط ‘ کا خطاب اس لئے دیا کہ وہ دین میں میانہ روی اختیار کر تے ہیں، نہ تو ان کے یہاں نصاری جیسا غلو ہے جنھوں نے رہبانیت کی دعوت دی اور عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں انتہاپسندی پر مبنی باتیں کہیں ،اور نہ یہودیوں جیسی کوتاہیوں اور مجرمانہ حرکتوں کا تصور ہے کہ اللہ کی کتاب میں تبدیلی پیدا کرڈالی ، ا نبیاء کا قتل کیا ،اپنے رب پر جھوٹ باندھا اور اس کے ساتھ کفر اختیار کیا ؛ لہٰذا اللہ نے اس امت کا یہ وصف اس لئے بیان کیا کہ الله کو اعتدال ومیانہ روی پسند ہے۔

اسلام نے نہ صرف یہ کہ تمام شعبہ ہائے زندگی میں درمیانی راستہ اختیار کرنے کی دعوت دی ہے، بلکہ غلو و تقصیر میں سے کسی ایک جانب جھک جانے سے ڈرایا بھی ہے جیساکہ سورہ فاتحہ کی ان دعائیہ آیتوں سے واضح ہے جن کا ہمیں پوری سورت کے ساتھ اپنی ہر نماز کی ہر رکعت میں پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے ؛تاکہ نہ صرف یہ کہ ہم بغیر کسی افراط و تفریط کے ہمیشہ راہ حق و اعتدال پر رہیں بلکہ اپنے رب سے اس کی توفیق کے طالب بھی بنے رہیں۔

فرمان ربانی ہے: صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ ﴰ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ۠(۷) ترجمۂ کنزالایمان:راستہ اُن کا جن پر تُو نے احسان کیا نہ اُن کا جن پر غضب ہوا اور نہ بہکے ہوؤں کا۔ (پ1، الفاتحہ: 6،7)

علمائے تفسیر نے بیان فرمایا ہے کہ ’المغضوب علیھم ‘سے مراد یہودی ہیں اور ’الضالین ‘سے مراد نصاری ہیں، اور ان دونوں گروہوں کی کج روی کا اندازہ آپ نے امام طبری رحمۃ اللہ علیہ کی باتوں سے لگا لیا ہو گا کہ وہ راہ استقامت سے ہٹ گئے تھے ۔ یہودیوں کی بڑی گمراہی یہ تھی کہ وہ جانتے بوجھتے ہوئے صحیح راستہ پر نہیں چلتے تھے، آیات الہی میں اپنی خواہشات کے مطابق تحریف و اضافہ سے گریز نہیں کرتے تھے ۔ نیکی کا حکم نہیں دیتے تھے، برائیوں سے نہیں روکتے تھے اور حضرت عزیر علیہ السلام کو ’ابن الله‘کہتے تھے۔ نصاریٰ کی بڑی غلطی یہ تھی کہ انھوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کی شان میں غلو کیا اور انہیں ’ابن اللہ‘ اور ’ثالث ثلاثة‘ یعنی اللہ کا بیٹا اور تین خداؤں میں سے ایک قرار دیا ۔

یہود ونصاری کی غلو وتقصیر اور افراط وتفریط کے برعکس ہمارے دین نے اعتدال کی راہ دکھائی اور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے اپنی ایک حدیث میں جو کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے ، ’’سَدِّدُوْا وَقَارِبُوْا‘‘( متفق علیہ) کی تعلیم دی۔’ قاربوا‘ کا مطلب ہے درمیانی راستہ اپناؤ ،اور ’سدّدوا ‘کا مطلب ہے اس راستہ پر جم جائو اور استقامت اختیار کرو۔یہی ہمارے دین کا قول واعتقاد ، عمل و عبادات اور معاملات وضروریات میں شیوہ ہے ۔مثال کے طور پر عقیدے کے باب میں ہم یہ پاتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مدح و تعریف میں حد سے تجاوز کرنے سے منع فرمایا ؛تاکہ اللہ کے ساتھ شرک نہ واقع ہو جائے،آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:

لَاتُطْرُوْنِی کَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَی ابنَ مَرْیَمَ ،فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدٌ، فَقُوْلُوْا عَبْدُاللّٰہِ وَرَسُوْلُہُ (بخاری)

(میری مدح سرائی میں غلو وانتہا پسندی سے کام نہ لو جیسا کہ نصاری عیسی بن مریم کی تعریف میں حد سے آگے بڑھ گئے،میں صرف ایک بندہ ہوں تو مجھے الله کا بندہ اور اس کا رسول کہا کرو)۔

اسی طرح عبادات کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آپ کو مشقت و ہلاکت میں ڈالنے یا دنیا سے بے تعلقی اختیار کرلینے سے منع فرمایا۔

عبادتوں میں میانہ روی کی تاکید نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت ساری حدیثوں سے ثابت ہے ، جن میں ایک مشہور متفق علیہ حدیث ہے: جس کا خلاصہ ہے کہ تین آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادتوں کے بارے میں دریافت کر نے کے لئے آپ کے گھر والوں کے پاس آئے ۔ جب انہیں تفصیل بتائی گئی تو انہوں نے اسے کم خیال کیا اور کہا کہ ہمارا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا مقابلہ؟ لہٰذا ایک نے ہمیشہ نماز پڑھنے کا، دوسرے نے مسلسل روزہ رکھنے کا اور تیسرے نے کبھی شادی نہ کرنے کا عہد کیا ، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ نے یوں تنبیہ فرمائی: سن لو !الله کی قسم میں یقینا تم سب لوگوں سے زیادہ الله سے ڈرنے والا اور تقوی اختیار کرنے والا ہوں، لیکن میں روزہ بھی رکھتا ہوں اور نہیں بھی رکھتا ہوں، نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں، اور عورتوں سے شادی بھی کر تاہوں، جس نے ہماری سنت سے بے رغبتی كى وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

ہمارے دین اسلام نے اگرچہ آخرت کو مطمحِ نظر اور مقصد حیات بنانے پر سعادت و کامرانی کا دار ومدار رکھا ہے لیکن اس طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ دنیاوی زندگی کی استواری کے لئے جائز طریقوں سے مال واسباب کا حصول اور مباحات میں اس کا خرچ تمہارا فطری حق ہے۔

فرمان الہٰی ہے:

وَ ابْتَغِ فِیْمَاۤ اٰتٰىكَ اللّٰهُ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ وَ لَا تَنْسَ نَصِیْبَكَ مِنَ الدُّنْیَا وَ اَحْسِنْ كَمَاۤ اَحْسَنَ اللّٰهُ اِلَیْكَ ترجمۂ کنزالایمان: اور جو مال تجھے اللہ نے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر طلب کر اور دنیا میں اپنا حصہ نہ بھول اور احسان کر جیسا اللہ نے تجھ پر احسان کیا۔(پ20، القصص: 77)

مال کے خرچ، کھانے پینے حتی کہ صدقہ وخیرات میں بھی حکم دیا گیا ہے کہ نہ فضول خرچی کرو اور نہ کنجوسی، الله پاک نے فرمایا:

وَ الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَ لَمْ یَقْتُرُوْا وَ كَانَ بَیْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا ترجمۂ کنزالایمان:اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں نہ حد سے بڑھیں اور نہ تنگی کریں اور ان دونوں کے بیچ اعتدال پر رہیں ۔(پ19،الفرقان:67)

اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے: کھائو پیو پہنو اور صدقہ کرو جب تک اس میں اسراف اور تکبر کی آمیزش نہ ہو ۔( سنن ابن ماجۃ)

خلاصہ کلام یہ ہے کہ دین اسلام کی تعلیمات تمام تر اعتدال ومیانہ روی پر مبنی ہیں،چاہے ان کا تعلق قول و عمل سے ہو یا اخلاق و معاملات یادوسرے امور سے۔ یہ عظیم ونمایاں خصوصیت اسی کا حصہ ہے جس سے دنیا کے تمام ادیان ومذاہب عاری ہیں اور یہ ان خصوصیات و اوصاف میں سے ایک ہے جن کی وجہ سے دین اسلام کو دنیا وآخرت میں کامیابی کا و احد ذریعہ ہونے کا امتیازحاصل ہے۔الله پاک کا ارشاد ہے:

اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ ترجمۂ کنزالایمان: بے شک اللہ کے یہاں اسلام ہی دین ہے۔(پ3،آل عمران: 19)

اللہ پاک ہم سب کواپنے ہر عمل میں میانہ روی اپنانے کی توفیق عطافرمائےاور دین پر مکمل طور پر عمل کرنے والا بنائے۔


"میانہ روی" طرفین کے بیچ مُعتدل موقف سے عبارت ہے،    جس میں افراط و تفریط نہ ہو ، غلو و زیادتی اورکمی و زیادتی، اور کمی و کوتاہی نہ ہو، یہ روحانیت و مادیّت، واقعیت و مقالیّت اور اِنفرادیت و اجتماعیت کے درمیان ایک دُرُست پیمانہ ہے اور جیسا کہ کہا گیا ہے :

" الوسط فضیلۃ بین رذیلتین " یعنی "دو کمتریوں کے بیچ ایک فضیلت و برتری اعتدال اور میانہ روی کہلاتا ہے ۔

اللہ سبحانہ و تعالی فرماتا ہے :وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ وَ یَكُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْكُمْ شَهِیْدًاؕ-

ترجمہ کنز الایمان :" اور بات یوں ہی ہے کہ ہم نے تمہیں کیا سب امتوں میں افضل کہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور یہ رسول تمہارے نگہبان و گواہ "۔(پارہ 2، البقرہ ،آیت 143)

پھرمزیدفرمایا: كُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِؕ-

ترجمہ کنزالایمان:"تُم بہتر ہو، ان سب امتوں میں جو لوگوں میں ظاہر ہوئیں بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو" ۔(پارہ 3، آل عمران ، آیت 110)


میانہ روی کے معنی ہیں" درمیانی راستہ"،  اس سے مراد ہے زندگی گزارتے ہوئے تمام مُعاملات میں درمیانہ راستہ ہی اختیار کیا جائے، میانہ روی اعتدال پسندی ہےاور یہ زندگی گزارنے کا بہترین اُصول ہے، اللہ ربُّ العزت نے اپنے پاک کلام میں ارشاد فرمایا ہے: "اور میانہ چال چل"۔ ( پارہ 21 ، سورۃ لقمان، آیت نمبر19)

قرآن مجید کی روشنی میں میانہ روی:

اللہ ربُّ العزت اپنے پاک کلام میں ارشاد فرماتا ہے: یُرِیْدُ اللّٰهُ اَنْ یُّخَفِّفَ عَنْكُمْۚ وَ خُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا(۲۸) ترجمہ کنزالایمان:" اللہ چاہتا ہے کہ تم پر تخفیف(آسانی)کرے اور آدمی کمزور بنایا گیا۔ (پارہ 5، سورۃ النساء، آیت نمبر28)

حدیث مبارکہ کی روشنی میں میانہ روی:

عبادت میں میانہ روی کا حکم:

حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار مسجد ِنبوی میں داخل ہوئے تو سُتُونوں کے درمیان ایک رسی کو بندھے ہوئے دیکھا تو اِستفسار فرمایا:"یہ رسی کیسی ہے؟" لوگوں نے عرض کی، " یہ اُمّ المؤمنین حضرت سیّدنا زینب بنتِ جحش رضی اللہ عنہا کی رسّی ہے، جب (رات کی نماز میں) تھک جاتی ہیں تو اسے تھام لیتی ہیں، سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"نہیں!(اور)اس رسّی کو کھول دو، تم میں سے ہر شخص اپنی نشاط بھر( یعنی خوشی، تازگی اور مُسْتَعِدی کی مقدار رات کی)نماز پڑھے، جب تھک جائے تو (اس وقت) عبادت (نماز) سے بیٹھ جائے۔( اصلاح اعمال، جلد ا ول، صفحہ669)

بول چال میں میانہ روی کی تعلیم:

بول چال میں میانہ روی اختیار کرنے کی تعلیم بھی حدیثِ مبارکہ سے ملتی ہے، بِلا ضرورت گفتگو سے اِجتناب کرنے اور خاموشی اختیار کرنے کے بارے میں سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے اِرشاد فرمایا:" جس کی شاھد بخاری شریف کی یہ حدیثِ مبارکہ ہے۔ " جو اللہ اور قیامت پر یقین رکھتا ہے، اُسے چاہئے کہ بھلائی کی بات کرے یا خاموش ر ہے ۔

( بخاری، جلد4، ص105، حدیث6018)

روزی کی تلاش میں میانہ روی:

آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے روزی کی تلاش میں میانہ روی کی تعلیم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:"دنیا کی طلب میں اِعتدال سے کام لو، اس لیے کہ ہر ایک کو وہ کچھ ضرور ملے گا، جو اس کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔"( صحیح مسلم، جلد1 ، حدیث1097)

مختلف اقوال:

اِمام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:" ہمیشہ گوشت نہیں کھانا چاہیے، کیونکہ امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فرمانِ نصیحت ہے:"جو چالیس دن تک گوشت نہیں کھاتا، اُس کے اَخلاق بگڑ جاتے ہیں اور جو چالیس دن تک لگاتار گوشت کھاتا ہے اس کا دل سخت ہو جاتا ہے ۔"

( اصلاح اعمال، ج 1 ، صفحہ نمبر659)

امیر ِاہلسنت دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں:"ہر کام میں اعتدال یعنی( میانہ روی) ہونا چاہیے۔"( 12 شوال، 1435ھ، مدنی مذاکرہ)



وسط   کا لفظ افراط و تفریط سے پاک، بالکل "درمیان" کے معنٰی میں استعمال ہوتا ہے ، یعنی میانہ روی اور اعتدال۔

اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے، جس کا سارا نظام مُعتدل ہے اور اس کے تمام امور اعتدال پر قائم ہیں، اس کے اعتقادات میں اعتدال، اعمال و عبادات میں اعتدال، معاشرت و تمدن میں اعتدال، اقتصادیات وسیاسیات میں اعتدال، معاملات و تعلیمات میں اعتدال ، غرض کہ حیاتِ انسانی کے تمام شعبوں اور ادوار میں اسلام نے میانہ روی اور اعتدال کا درس دیا ہے، اور یہ اسلام کا طُرہ امتیاز ہے۔

قرآن پاک میں اعتدال کا حکم :

قَالَ اللہُ تَعٰالٰی فیِ الْقُرْآنِ الْمَجِیْدِ ! وَ الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَ لَمْ یَقْتُرُوْا وَ كَانَ بَیْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا(۶۷)ترجمہ کنزالایمان:"اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں، نہ حد سے بڑھیں اور نہ تنگی کریں اور ان دونوں کے بیچ اعتدال پر رہیں۔" (پارہ 19، سورةالفرقان ، آیت نمبر 67)

تفسیر خزائن العرفان:"اسراف معصیت میں خرچ کرنے کو کہتے ہیں اور تنگی کرنا یہ ہے کہ اللہ تعالٰیکے مقرر کیے ہوئے حقوق ادا کرنے میں کمی کرے۔"

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے کسی حق کو منع کیا اس نے اقتار کیا یعنی تنگی کی اور جس نے ناحق میں خرچ کیا، اس نے اسراف کیا اور اس آیت میں ان بندوں کے خرچ کرنے کا حال ذکر فرمایا جا رہا ہے کہ جو اسراف و اِقتار کے دونوں مذمُوم طریقوں سے بچتے ہیں۔

حدیث مبارکہ کی روشنی میں اعتدال کی اہمیت:

سید السّادات، فخر ِموجودات صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"دولت مندی میں میانہ روی کتنی اچھی ہے اور تنگدستی میں میانہ روی کتنی اچھی ہےاور عبادت میں میانہ روی کتنی اچھی ہے۔"

آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مُشکبار ہے:"جو میانہ روی اختیار کرے گا، وہ تنگ دست نہیں ہو گا۔

اعتدال پر قولِ بزرگان دین رَحِمَھُمُ اللہُ الْمُبِیْن :

"ہر کام میں میانہ روی بہت سی تکالیف سے بچاؤ کا ڈھال ہے۔" ( حضرتِ شیخ سعدی)

اللہ کریم ہمیں اعتدال کی راہ اپناتے ہوئے، زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔

امین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم



افراط و تفریط ،انتہا پسندی ،شدت اور بے اعتدالی اُن خصوصیات میں شامل ہیں،  جن کو کبھی مفید اور پسندیدہ قرار نہیں دیا گیا ہے، اس کے برعکس میانہ روی اور اعتدال کو ہمیشہ قابلِ تعریف قرار دیا گیا ہے اور ہمیشہ دیا جاتا رہے گا، اِسلام دینِ فطرت ہےاور اسی لیے اس کا دیا ہوا نظامِ حیات نہایت مکمل،متوازن اور معتدل نظام ہے۔

نبی کریم صلی الله عليه وسلم جب منصبِ نبوت پر فائز ہوئےاور آپ صلی الله عليه وسلم کو دعوتِ حق کےاعلان کا حکم دیا گیا، تو آپ صلی الله عليه وسلم نے اس حکم کی تعمیل میں لوگوں کو دینِ حق کی جانب بلانا شروع کیا، لیکن اُس وقت عرب كے لوگ اس قدر بے راہ تھے اور کفروشرک کی اتنی تاریکی میں تھے کہ حق کی روشنی میں ان کے لئے کشش نہ رہی تھی، انکی بے حسی نے ان کو اعلانِ حق پر بھی کان دھرنے نہ دیا ، نبی کریم صلی الله عليه وسلم کو معلوم تھا کہ دینِ حق کی یہ آخری دعوت فیصلہ کُن ہے، جو اس دعوت کو قبول کرے گا وہ رحمتوں اور نعمتوں سے نوازا جائے گا، اللہ تعالیٰ نے جب آپ کو دین اسلام کے لئے اس قدر پریشان دیکھا تو فرمایا:

مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰۤىۙ(۲) ترجمہ کنز الایمان: "اے محبوب! ہم نے تم پر یہ قرآن اس لیے نہ اُتارا کہ تم مشقت میں پڑو"(سورت طہٰ، آیت 2 )

کسی آدمی کو اتنا کنجوس نہیں ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی دولت کو کسی چیز میں خرچ ہی نہ کرے اور اپنی اپنے خاندان اور اپنے اعزاء کی جائز ضروریات بھی پوری نہ کرے اور اپنے آپ کو اور اپنے متعلقین کو بلا وجہ تکلیف میں مبتلا رکھےاور نہ اتنا فراخ دست اور فضول خرچ ہو کہ بے جا خرچ کرے ،نمودونمائش میں پیسہ ضائع کرے ، یہ دونوں طریقے میانہ روی کے خلاف ہیں اور دونوں کا نتیجہ مایوسی اور تباہی ہے۔

بخل کی عادت انسان کو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں سے لُطف اندوز نہیں ہونے دیتی اور فضول خرچی سے بالآخر انسان تنگ دست ہو کر دوسروں کا محتاج ہو جاتا ہے، اسی لئے اعتدال اور میانہ روی کی تاکید فرمائی گئی ہے ۔

سورۃ فرقان میں ارشاد ہوتا ہے:وَ الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَ لَمْ یَقْتُرُوْا وَ كَانَ بَیْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا(۶۷) ترجمہ کنزالایمان:اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں، نہ حد سے بڑھیں اور نہ تنگی کریں اور ان دونوں کے بیچ اعتدال پر رہیں۔" (پارہ 19، سورةالفرقان ، آیت نمبر 67)

دیکھئے کتنی صاف ہدایت ہےاور کس قدر وضاحت سے سمجھا دیا گیا ہے کہ میانہ روی مؤمن کی صفت ہے، مؤمن نہ ضرورت سے زیادہ خرچ کرتا ہےاور نہ ضروری خرچ کے موقع پر ہاتھ روکتا ہے، بلکہ معتدل رہتا ہے اور میانہ روی کو اپنا کر زندگی کو حُسن خوبی سے گزارتا ہے ، نبی کریم صلی الله عليه وسلم کی حیاتِ مبارکہ ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے۔

حدیث مبارکہ میں ہے :

نبی کریم صلی الله عليه وسلم نے فرمایا :"اے مسلمانو! میانہ روی اختیار کرو، کیونکہ جس کام میں میانہ روی ہوتی ہے وہ کام سنْور جاتا ہےاور جس کام میں میانہ روی نہیں ہوتی وہ بگڑ جاتا ہے ، میانہ روی سب کے لیے ضروری ہے اور ہر کام میں ضروری ہے ۔"(صحیح مسلم)

صرف دنیاوی معاملات اور معاشی مسائل ہی میں میانہ روی مفید نہیں ہے، بلکہ دینی معاملات میں بھی اعتدال مستحسن ہے۔

اسلام دینِ فطرت ہے اور ایک مکمل نظام ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بے اعتدالی سے جو ایک غیر ضروری فطری کیفیت ہے، اس سے بچنا چاہئے اور اس طرح زندگی بسر کرنی چاہیے کہ جس میں حقوق اور فرائض کے درمیان توازن ہو، نہ اپنے فرائض کو فراموش کیا جائے ، نہ ہی ان سے غفلت برتی جائے ، اللہ تعالیٰ سختی پسند نہیں فرماتا، اس نے اپنے دین کوآسان بنایا ہے، تاکہ لوگ سختی اور شدّت سے گھبرا کر ترکِ دین پر مائل نہ ہوں۔