اعتدال اور میانہ روی  کی اہمیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، دینِ اسلام کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس نے اعتدال، توسط اور میانہ روی کی تلقین کی ہے اور ہمیں اُمّتِ وسط اور میانہ روی اختیار کرنے والی بنایا۔

اعتدال اور میانہ روی کا مطلب: میانہ روی کا مطلب ہے، تمام احکام و اُمور میں ایسی راہ اختیار کرنا جس میں نہ افراط ہو نہ تفريط یعنی "نہ شدت ہونہ ہی از حد کوتاہی"

آیتِ قرآنی سے میانہ روی کی اہمیت:

ربّ تعالی فرماتا ہے: ترجمہ کنزالایمان:"اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں، نہ حد سے بڑھیں اور نہ تنگی کریں اور ان دونوں کے بیچ اعتدال پر رہیں۔" (پارہ 19، سورةالفرقان ، آیت نمبر 67)

دیکھئے! کتنی صاف ہدایت ہے اور کس قدر وضاحت سے سمجھایا گیا ہے کہ میانہ روی مؤمن کی صفت ہے اور مؤمن نہ ضرورت سے زیادہ خرچ کرتا ہے نہ ضروری خرچ کے موقع پر ہاتھ روكتا ہے، بلکہ معتدل رہتا ہے اور میانہ روی کو اپنا کر زندگی کو حُسنِ خوبی سے گزارتا ہے۔

حدیثِ مبارکہ کی روشنی میں:

سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طيبہ ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے اور توازن و اعتدال کی اعلیٰ ترین مثال بھی ہے۔

مسلم شریف کی حدیث ہے:" نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" میانہ روی اختیار کرو کیونکہ جس کام میں میانہ روی ہوتی ہے، وہ کام سنور جاتا ہے اور جس کام میں میانہ روی نہیں ہوتی، وہ کام بگڑ جاتا ہے۔"

میانہ روی سب کے لیے ضروری ہے اور ہر کام میں ضروری ہے، صرف دنیاوی معاملات اور معاشی مسائل ہی میں مفید نہیں ہے، بلکہ دینی معاملات میں بھی اعتدال مستحسن ہے۔

اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا گو ہیں کہ اللہ ہمیں میانہ روی کی اہمیت کو سمجھنے اور اس پر عمل کی توفیق عنایت فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم