مقالے کی PDF کے لئے ڈاؤن لوڈ پر کلک کریں Download PDF

امام المحدثین کی سندسنن نسائی

حافظ الحدیث امام احمد بن شعیب نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے السنن الکبریٰ کے نام سے ایک کتاب تصنیف کی جس میں کم وبیش بارہ ہزاراحادیث جمع فرمائیں۔پھراس میں سے چھ ہزارکے قریب صحیح احادیث منتخب کرکے اس کااختصارتیارکیاجس کانام السنن الصغریٰ رکھا، اسے سنن مجتبیٰ اورسنن نسائی بھی کہاجاتاہے،سنن نسائی کا اسلوب اکثرکتب صحاح کا جامع ہے ،احادیث مبارکہ فقہی ابواب کے تحت لائی گئی ہیں اوران سے مسائل کا استخراج کیاگیاہے اس سے کئی احادیث مکرربھی ہوگئی ہیں، حدیث پاک کے تمام طرق کو اختلاف الفاظ کے ساتھ ایک جگہ جمع کردیا ہے، بسااوقات امام نسائی نے علل حدیث کوبھی بیان کیاہے، سنن نسائی حسن ترتیب کے اعتبارسے بہترین اورعمدہ نمونہ ہے۔([1])

ہمارے بلادمیں ہونے والے دورہ ٔ حدیث میں سنن نسائی کو بھی شامل کیا گیاہے، امام المحدثین حضرت علامہ مفتی سیِّد محمد دِیدار علی شاہ مَشْہدی نقشبندی قادِری مُحدِّث اَلْوَری رحمۃ اللہ علیہ(ولادت،1273ھ مطابق 1856ھ، وفات 22رجب المرجب 1354ھ مطابق 20اکتوبر 1935ء)نے 1295ھ مطابق 1878ء میں افضل المحدثین علامہ احمدعلی سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ سے دورۂ حدیث کرکے اسانیداحادیث بشمول سنن نسائی کی اجازت حاصل کی۔)[2](انھوں نے علامہ شاہ محمد اسحاق دہلوی مہاجر مکی سے اورانھوں نےسراج الہند علامہ شاہ عبدالعزیزمحدث دہلوی سے، اسی طرح امام المحدثین مفتی سیدمحمددیدارعلی شاہ صاحب نے ذوالحجہ 1337ھ کو اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان سے جملہ اجازات و اسانید حاصل کیں،)[3](اوراعلیٰ حضرت نے اپنے مرشد حضرت شاہ آل رسول مارہروی سے اور انھوں نے سراج الہندعلامہ شاہ عبدالعزیز سے اورسراج الہندتحریرفرماتے ہیں :

(میرے والدگرامی علامہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے اجازت وسند سنن نسائی حضرت شیخ ابو طاہر سے اور) حضرت شیخ ابو طاہر نے(اسے) شیخ ابراہیم کردی سے اور انہوں نے شیخ احمد قشاشی سےاور انہوں نے شیخ احمد بن عبد القدوس شنادی سے اور انہوں نے شیخ شمس الدین محمد بن احمد بن محمد رملی سے اور انہوں نے شیخ زین الدین زکریا سے اور انہوں نے شیخ عز الدین عبد الرحیم بن محمد بن الفرات سے اور انہوں نے عمر بن الحسن المراغی([4]) سے اور انہوں نے فخر الدین بن البخاری سے اور انہوں نے ابی المکارم احمد بن محمد البان سے (جو عمل بالسنتہ کی طرف منسوب ہے) اور انہوں نے ابو علی حسن بن احمد حداد سے اور انہوں نے قاضی ابو نصر احمد بن الحسین الکسار سے اور انہوں نے حافظ ابو بکر المعروف بابن السنی احمد بن محمد بن اسحق الدینوری سے (جو معتمد محد ثین میں سے ہیں اور کتاب مجالسۃ الدينوری ([5])آپ ہی کی تصنیفات سے ہے) اور انہوں نے کتاب حافظ ابو عبدالرحمن احمد بن شعیب بن علی نسائی سے ،جو منسوب ہے ”بلد ۂ نسا“ ([6])کی طرف اور وہ خراسان میں ابیو رد([7])کے قریب مشہور شہر ہے ۔)[8](

سند سنن نسائی کےرواۃ و شیوخ کا مختصرتعارف

امام المحدثین مفتی سیدمحمد دیدارعلی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کی سند سنن نسائی بطریق ِعلامہ احمدعلی سہارنپوری اوربطریق امام احمدرضا 23واسطوں سے نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے مل جاتی ہے ،ذیل میں ان تمام محدثین کا مختصرتعارف بیان کیا جاتاہے:

۞امامُ الْمُحدِّثین حضرت مولانا سیِّد محمد دِیدار علی شاہ مَشْہدی نقشبندی قادِری مُحدِّث اَلْوَری رحمۃ اللہ علیہ، جَیِّد عالِم، اُستاذُالعُلَما، مفتیِ اسلام اور اکابرین اہل سنّت سے تھے۔آپ 1273ھ مطابق 1856ھ کو اَلْوَر (راجِسْتھان، ہِند )میں پیدا ہوئے اور لاہورمیں 22رجب المرجب 1354ھ مطابق 20اکتوبر1935ء کو (بروزپیر)نمازعصرکے سجدے میں وصال فرمایا،جامع مسجدحنفیہ محمدی محلہ اندرون دہلی گیٹ لاہورسے متصل جگہ میں تدفین کی گئی ۔ دارُالعُلُوم حِزْبُ الْاَحْناف لاہور([9]) اور فتاویٰ دِیداریہ([10]) آپ کی یادگار ہیں۔( [11])

(1)افضل المحدثین علامہ احمدعلی سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت1225ھ مطابق 1810ءکو ہوئی اور 6 جمادَی الاُولیٰ 1297ھ مطابق 16اپریل 1880ء کوتقریباً بہتَّر (72) سال کی عمر میں داعیِ اجل کو لبیک کہا۔ آپ اپنے آبائی قبرستان متصل عید گاہ سہارنپور میں سپردِ خاک کئے گئے۔آپ حافظِ قرآن، عالمِ اجل، استاذُالاساتذہ، مُحدّثِ کبیر اور کثیرالفیض شخصیت کےمالک تھے، اشاعتِ احادیث میں آپ کی کوشش آبِ زر سے لکھنے کےقابل ہے، آپ نےصحاح ستہ اوردیگرکتب احادیث کی تدریس، اشاعت، حواشی اور درستیٔ متن میں جو کوششیں کی وہ مثالی ہیں ۔([12] )

(2)علامہ شاہ محمد اسحاق دہلوی مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش ذوالحجہ 1197ھ مطابق 1782ھ دہلی میں ہوئی ،یہ حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کےنواسے، شاگرد اور جانشین تھے ،پہلے دہلی پھرمکہ شریف میں تدریس کرتے رہے وفات رجب 1262ھ کو مکہ شریف میں ہوئی اورجنت المعلیٰ میں دفن کئے گئے ۔([13] )

(3)اعلیٰ حضرت، مجددِدین وملّت، امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 10شوال 1272ھ مطابق6جون 1856ءکو بریلی شریف(یو۔پی) ہند میں ہوئی، یہیں 25صفر 1340ھ مطابق28اکتوبر1921ءکو وصال فرمایا۔ مزار جائے پیدائش میں مرجعِ خاص وعام ہے۔آپ حافظِ قرآن، پچاس سے زیادہ جدیدوقدیم علوم کے ماہر، فقیہ اسلام، مُحدّثِ وقت،مصلحِ امت، نعت گوشاعر، سلسلہ قادریہ کے عظیم شیخ طریقت، تقریباً ایک ہزار کتب کے مصنف، مرجع علمائے عرب وعجم، استاذ الفقہاومحدثین، شیخ الاسلام و المسلمین، مجتہدفی المسائل اور چودہویں صدی کی مؤثر ترین شخصیت کے مالک تھے۔ کنزالایمان فی ترجمۃ القرآن([14])،فتاویٰ رضویہ([15]) ، جدّ الممتارعلی ردالمحتاراور حدائقِ بخشش آپ کی مشہور تصانیف ہیں۔ ( [16]) ([17])

(4) خاتِمُ الاکابِر ،قدوۃ العارفین حضرت علامہ شاہ آلِ رسول مار ہَروی رحمۃ اللہ علیہ عالمِ باعمل،صاحبِ وَرَع وتقوی اورسلسلہ قادریہ برکاتیہ رضویہ کے شیخِ طریقت ہیں۔ آپ کی ولادت 1209ھ کو خانقاہ برکاتیہ مار ہرہ شریف (ضلع ایٹہ،یوپی) ہند میں ہوئی اور یہیں 18ذوالحجہ1296ھ کو وصال فرمایا، تدفین دلان شرقی گنبددرگاہ حضرت شاہ برکت اللہ([18]) رحمۃ اللہ علیہ میں بالین مزارحضرت سیدشاہ حمزہ([19]) ہوئی ۔ آپ ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد حضرت سید شاہ آل احمد اچھے میاں مارہروی ([20])رحمۃ اللہ علیہ کے ارشاد پر سراج الہند حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃاﷲ علیہ کے درسِ حدیث میں شریک ہوئے۔ صحاحِ ستہ کا دورہ کرنے کے بعد حضرت محدث دہلوی قدس سرہ سے سلسلہ علویہ منامیہ کی اجازت اور احادیث و مصافحات کی اجازتیں پائیں،فقہ میں آپ نے دوکتب مختصرتاریخ اور خطبہ جمعہ تحریرفرمائیں ۔([21])

(5)سِراجُ الہند حضرت شاہ عبد العزیز محدّثِ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ، علوم و فُنون کے جامع، استاذُ العلماء و المحدثین، مُفَسِّرِ قراٰن، مصنّف اور مفتیِ اسلام تھے۔ تفسیرِ عزیزی، بُستانُ المُحدّثین، تحفۂ اِثنا عشریہ اورعاجلہ نافعہ( [22])آپ کی مشہور کُتُب ہیں۔آپ 1159ہجری میں پیدا ہوئے اور 7 شوال 1239ہجری میں وِصال فرمایا، مزار مبارک درگاہ حضرت شاہ وَلِیُّ اللہ مہندیاں، میردرد روڈ، نئی دہلی میں ہے۔([23] )

(6) حضرت مولانا شاہ ولی اللہ احمدبن عبدالرحیم محدث دہلوی فاروقی حنفی نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش دہلی میں 3شوال 1110ھ مطابق 1699ء کو ہوئی ،اوریہیں 1176ھ مطابق 1762ء کو وصال فرمایا ،آپ حافظ قرآن،علوم عقلیہ ونقلیہ کے ماہر، عرب کے کبارشیوخ سے مستفیض تھے ،1143ھ کو حجازمقدس حاضرہوئے اوروہاں آٹھ عرب مشائخ سے استفادہ کیا،آپ نے زندگی بھر حدیث پاک کا درس دیا،قوم وملت کی رہنمائی کی۔کئی کتب مثلا فتح الرحمن فی ترجمہ القرآن فارسی،الفوز الکبیرفی اصول التفسیر، مؤطا امام ملک کی دوشروحات المصفیٰ فارسی،المسوّی عربی، حجۃ اللہ البالغہ،ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء فارسی،الانتباہ فی سلاسل اولیاء اللہ فارسی، انسان العين فی مشايخ الحرمين اور الارشاد الی مہمات الاسنادعربی)[24] ( تصنیف کیں،آپ کا شمار ہندکی مؤثرشخصیات میں ہوتا ہے ۔([25] )

(7)حضرت شیخ جمال الدین ابوطاہرمحمدبن ابراہیم کورانی مدنی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت مدینہ شریف میں 1081ھ مطابق 1670ء کو ہوئی اوریہیں 1145ھ مطابق 1733ء کو وصال فرمایا اورجنت البقیع میں دفن کئے گئے،آپ جیدعالم دین ،محدث ومسند،مفتی ٔ شافعیہ مدینہ منورہ،علامہ شیخ ابراہیم کردی آپ کے والدصاحب اورشیخ احمدقشاشی نانامحترم تھے ۔والدصاحب کے علاوہ ،مفتی شافعیہ مدینہ منورہ شیخ سیدمحمدبن عبدالرسول برزنجی([26])،شیخ حسن بن علی عُجَیْمی([27] ) اور شیخ عبداللہ بن سالم([28] )سے اجازات حاصل کیں ،کئ کتب بھی لکھیں ،جواب تک مطبوع نہیں ہوسکیں ،مکتبہ حرم مکی میں آپ کی ثبت کا مخطوط پانچ اوراق میں محفوظ ہے ۔([29] )

(8)حضرت امام شیخ برہان الدین، ابوالعرفان ابراہیم بن حسن کورانی کردی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت کردستان(عراق) میں 1025ھ کو ہوئی،آپ شافعی عالم دین،محدث و مسند اور سلسلہ نقشبندیہ کے شیخ طریقت ہیں۔ 80سے زائدکتب لکھیں جن میں اسانید و مرویات پر مشتمل کتاب الامم لایقاظ الھمم([30] )مطبوع ہے۔آپ عراق سے ہجرت کرکے مدینہ شریف مقیم ہوگئے تھے،یہیں ایک قول کے مطابق18ربیع الآخر 1101ھ مطابق29 جنوری 1690ء میں وصال فرمایا۔([31] )

(9) قطب زماں ،حضرت سیدصفی الدین احمدقشاشی بن محمدبن عبدالنبی یونس قدسی مدنی حسینی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت12ربیع الاول 991ھ مطابق1583ء کو مدینہ منورہ میں ہوئی، آپ حافظ قرآن، شافعی عالم دین ،عرب وعجم کے تقریبا سوعلماومشائخ سے مستفیض، سلسلہ نقشبندیہ کے شیخ طریقت ، 70کے قریب کتب کے مصنف،نظریہ وحدۃ الوجودکے قائل وداعی تھے،کثیرشاگردوں میں نمایاں شیخ برہان الدین ابراہیم کردی کورانی شافعی مدنی ،صاحب درمختارعلامہ علاؤالدین حصکفی) [32] (اورحضرت حسن عجیمی رحمۃ اللہ علیہم تھے۔ آپ نے 19ذوالحجہ 1071ھ مطابق 1661ء کو مدینہ شریف میں وصال فرمایااورجنت البقیع میں مدفون ہوئے ،تصانیف میں روضہ اقدس کی زیارت کے لیے سفرِ مدینہ کے اثبات پر کتاب ’’الدرۃ الثمینۃ فیمالزائرالنبی الی المدینۃ‘‘([33])آپ کی پہچان ہے ۔([34] )

(10)حضرت ابوالمواہب احمدبن علی شناوی مصری مدنی رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش 975ھ کو موضع شنو(صوبہ غربیہ )مصرمیں پیداہوئےاورمدینہ شریف میں 6یا 8ذوالحجہ 1028 ھ کو وصال فرمایا ،جنت البقیع میں حضرت ابراہیم بن رسول اللہ (رضی اللہ عنہ وصلی اللہ علیہ والہ وسلم )کے قبہ مبارک کے عقب میں تدفین ہوئی،آپ جیدعالم دین ،محدث وقت ،ثقہ راوی،کئی کتب کےمصنف اورسلسلہ قادریہ اکبریہ کےشیخ طریقت تھے ۔([35] )

(11)شافعی صغیر حضرت سیّدنا امام شمسُ الدّین محمد بن احمد رمْلی مصری رحمۃ اللہ علیہ شیخ الاسلام، عالمِ کبیر، فقیہِ شافعی، مُجدّدِ وقت اور استاذُالعُلَماء ہیں، تصانیف میں نہایۃ المحتاج شرح المنہاج ([36])مشہور ہے۔ 919ھ میں رملہ صوبہ منوفیہ مِصْر میں پیدا ہوئے اور 13جُمادَی الاُولیٰ 1004ھ میں وفات پائی، تدفین قاہرہ میں ہوئی۔([37] )

(12)شیخ الاسلام حضرت قاضی زین الدین ابویحییٰ زکریاانصاری الازہری رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 824ھ مطابق1421ء کو سُنیکہ(موجودہ نام حلمیہ)صوبہ شرقیہ مصرمیں ہوئی اور ایک قول کے مطابق 4ذوالحجہ926ھ مطابق 15نومبر1520ء کوقاہرہ مصرمیں وفات پائی،تدفین قبرستان قرافہ صغریٰ میں مزارامام شافعی کےقرب میں ہوئی،آپ حافظ و قاری قرآن،فقیہ شافعی،محدث کبیر،حافظ الحدیث، مصنف کتب،شارح احادیث، مؤرخ و محقق،صوفی کامل،عبادات وذکروفکرمیں رہنے والے اور دولتِ مملوکیہ([38] )کے قاضی القضاۃ(چیف جسٹس)تھے، جلالت علم اورخدمات کثیرہ کی وجہ سےعلمانے آپ کو نویں صدی ہجری کا مجدد قراردیا ہے،ساری زندگی تدریس وتصنیف میں مصروف رہے، علامہ شمس الدین رملی ،علامہ عبدالوہاب شعرانی([39] ) اورعلامہ ابن حجرہیتمی( [40])آپ کے ہی شاگردہیں، آپکی 28کتب میں فتح الرحمن([41])،تحفۃالباری([42])،منہج الطلاب ( [43])اوراسنی المطالب ([44] )زیادہ مشہور ہیں۔([45] )

(13)عزالملت والدین حضرت شیخ ابن الفرات ابومحمد عبدالرحیم بن محمد حنفی مصری کی ولادت 759ھ کو قاہرہ مصرکے ایک علمی گھرانے میں ہوئی،حفظ قرآن وقرأت کے بعد علوم معقول ومنقول کے تحصیل میں مصروف ہوگئے ،علمائے احناف،شوافع اورحنابلہ سے استفادہ کیا ،جب حج پر گئے تو علمائے حجازکی انہارعلم سےبھی سیراب ہوئے ،اجازاتِ عامہ وخاصہ حاصل کیں،آپ احنافِ مصرکے جیدعالم دین،محدث وقاضی اورمصنف کتب تھے،آپ نے اپنی ساری زندگی درس وتدریس،تصنیف وتالیف میں گزاری،نخبة الفوائد المستنتجة([46])آپ کی یادگارتصنیف ہے،آپ نے 16ذوالحجہ  851ھ کوقاہرہ میں وصال فرمایا،باب النصرمیں نمازجنازہ ہوئی اورخانقاہ سعیدالسعداء قاہرہ کے احاطے میں دفن کئے گئے۔([47])

(14) زین الملت والدین حضرت ابوحفص عمربن حسن بن مزیدبن امیلہ مراغی مزی دمشقی رحمۃ اللہ علیہ ولادت 8رجب 679یا 680ھ کومِزَّہ دمشق میں ہوئی اور 98سال کی عمرمیں 8ربیع الاخر 778ھ کومراغی دمشق شام میں وصال فرمایا،آپ محدث وقاری، مسندالشام اوراکابرین اہل سنت سے تھے، آپ نے اپنے وقت کے جید علما، قراء اورمحدثین سے خوب استفادہ کیا اوراشاعت علوم وفنون میں مصروف ہوئے حتی کہ علما وفقہا اور محدثین کے مرجع قرارپائے،آپ سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد کثیرہے ، مشيخۃ الامام ابی حفص عمر المراغی([48]) آپ کی اسناد کا مجموعہ ہے۔([49])

(15)محدث الاسلام، ابن بخاری حضرت امام فخرالدین ابوالحسن علی ابن احمد مقدسی صالحی حنبلی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 595ھ کو ایک علمی گھرانے میں ہوئی ، اورآپ نے ربیع الآخر690ھ میں وصال فرمایا،آپ عالم وفقیہ، فاضل وادیب،صاحب وقاروہیبت، تقوی وورع کے پیکر اورعلم ووعقل میں کامل تھے ،محدثین میں بھی آپ بہت مکرم ومحترم تھے، آپ کو مسند العالم کہاجاتاہے ،عرصہ دارازتک خدمت قرآن وسنت میں مصروف رہے، شام،مصراورعراق کے محدثین نے آپ سے استفادہ کیا۔([50])

(16)حضرت شیخ قاضی ابنِ لَبَّان ابوالمکارم احمد بن ابوعیسیٰ محمد تیمی رحمۃُ اللہِ علیہ کی ولادت صفر507ھ کواصفہان ) ([51] کے ایک علمی گھرانے میں ہوئی اور27ذوالحجہ 597ھ کو وصال فرمایا،آپ عالم دین،محدث وقت،مسند اصفہان،صدوق،حسن الحدیث اوراپنے شہر کے قاضی تھے ۔)[52](

(17) حضرت امام ابوعلی حسن بن احمدحداد اصفہانی رحمۃُ اللہِ علیہ 419ھ میں پیدا ہوئے اور96سال کی عمرمیں 26ذوالحجہ 515ھ میں وصال فرمایا،آپ عالم دین، قاری قرآن،ثقہ وصدوق راوی حدیث ،مسندالعصر اورکثیر التلامذہ تھے ۔آپ نے طلب علم میں بہت سے سفرفرمائے،پھرایک وقت آیا کہ خراسان،عراق اورماوراءالنہرکے طلبہ گروہ درگروہ آپ کی خدمت میں حاضرہوکراجازت حدیث کا شرف پاتے ۔آپ کی شہرت چاردانگ عالم میں تھی۔)[53](

(18)حضرت شیخ قاضی ابونصراحمد بن حسین دینوری کَسَّار رحمۃُ اللہِ علیہ قاضی جلیل، عالم باعمل،صدوق راوی حدیث تھے ۔آپ نے امام ابوبکرابن سنی رحمۃُ اللہِ علیہ سے 363ھ میں سنن نسائی کی سماعت کی،آپ سے کئی محدثین نے حدیث پاک کی اجازت لی ،زندگی کے آخری ایام میں مسنداصفہان حضرت ابوعلی حداد رحمۃُ اللہِ علیہ نے آپ سےاجازت لی۔)[54](

(19) حافظ الحدیث حضرت شیخ ابن سنی ابوبکراحمد بن محمددینوری شافعی رحمۃ اللہ علیہ کےجدمحترم ابوابرہیم اسباط حضرت جعفربن ابوطالب رضی اللہ عنہ کے غلام تھے ،آپ کی پیدائش 280ھ میں ہوئی اور84 سال کی عمرمیں 364ھ کو وصال فرمایا ،آپ نے عراق، شام اورجزیرہ کے علماسے علم دین حاصل کیا،آپ محدث جلیل،ثقہ راوی حدیث،صاحب تصنیف اورتلمیذ امام نسائی تھے،آپ نے اپنی مرویات کو اپنی کتاب عمل اليوم واللیلۃ([55]) میں جمع فرمایا ہے،آپ کی کتاب الطب النبوی)[56]( بھی شائع شدہ ہے۔)[57](

(20) صاحب سُننِ نَسَائی، حافظُ الحدیث حضرت امام ابو عبدالرحمٰن احمد بن شعیب بن علی نَسَائی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت215ھ کو شہر نسا (نزد عشق آباد، ترکمانستان) میں ہوئی اور 13صفر 303 ھ کو رملہ (فلسطین) میں جامِ شہادت نوش کیا۔اپنے علاقے کے علماسے علم دین حاصل کرکے علوم فنون میں مہارت حاصل کی،اس کے بعدعراق میں شیخ الاسلام علامہ قتیبہ بن سعیدثقفی کی صحبت میں دوسال رہے ،ان کے علاوہ عراق ، شام ومصرکے دیگرمحدثین سے استفادہ کیا ،آپ ساری زندگی عراق،شام اورفلسطین میں احادیث مبارکہ کی ترویج و اشاعت میں مصروف رہے، آپ کی کتاب سُنن النسائی کو عالمگیرشہرت حاصل ہوئی اوریہ صحاح ستہ میں شامل ہے۔)[58](

۞ سنن نسائی میں ہرحدیث پاک سند کے ساتھ ہے اس کی پہلی سند کے راویوں کامختصرتعارف ملاحظہ کیجئے:

(21)شیخ الاسلام حضرت ابورجاء قتیبہ یحییٰ بن سعید ثقفی بغلانی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 149ھ میں ہوئی،آپ بنی ثقیف کے غلام تھے مگرعلم دین کے حصول اورخدمت حدیث نے آپ کوزمانے کا امام بنادیا،آپ نے کثیرمحدثین سے احادیث مبارکہ سماعت کی جن میں امام مالک([59])،امام لیث([60]) اور حضرت سفیان بن عیینہ رحمۃُ اللہِ علیہم جیسے اکابر محدثین بھی شامل ہیں،آپ صدوق وثقہ راوی حدیث اورکثیرالحدیث تھے۔ آپ نے حجازمقدس، کوفہ اور بغداد(عراق) وغیرہ میں مسندحدیث بچھائی اورامام بخاری ومسلم جیسے بڑے بڑے محدثین کو علم حدیث سے سیراب فرمایا، اللہ پاک نے حسن باطنی کے ساتھ آپ کو حسن ظاہری سے بھی نوازاتھا،آپ کا وصال 28شعبان240ھ میں ہوا۔)[61](

(22)تبع تابعی بزرگ، امام العلم،شیخ الحجاز،محدثِ حرم، حضرت ابومحمدسفیان بن عیینہ کی ولادت 107ھ کو کوفہ (عراق) میں ہوئی۔ مکہ مکرمہ میں یکم رجب 198ھ کو وصال فرمایا۔ آپ شاگردِامامِ اعظم ابوحنیفہ، حافظ و مفسر قرآن، امام و محدثِ حرم، مفتی و شیخ الاسلام، جامع زہد و تقویٰ، استاذ امام شافعی اور وسیع و پختہ علم کے مالک تھے۔ آپ نے حدیثِ نبوی کی ترتیب و تدوین میں بھرپور حصہ لیا۔)[62](

(23)حضرت امام ابنِ شہاب ابوبکرمحمد بن مسلم زہری قرشی رحمۃُ اللہِ علیہ کی ولادت 51ھ کو مدینہ منورہ میں ہوئی اور 17رمضان 123ھ یا 124ھ میں وصال فرمایا تدفین شغب (ضباء ،صوبہ مدینہ منورہ،عرب شریف) میں ہوئی،آپ علم القرآن و سنت اورعلم انساب وغیرہ میں ماہر تھے ،آپ جلیل القدرتابعی بزرگ ،محدث ومفتی ،حسن ظاہری وباطنی سے مالامال ،محدث جلیل اوراپنے زمانے کی مؤثرشخصیت تھے ،آپ سے 2200احادیث مروی ہیں۔)[63](

(24)فقیہ مدینہ حضرت ابوسلمہ عبداللہ بن عبدالرحمن زہری قرشی رحمۃ اللہ علیہ عشرہ مبشرہ جلیل القدرصحابی رسول حضرت عبدالرحمن بن عوف ([64])رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے، حسن ظاہری وباطنی سے مالامال ،مشہورفقیہ مدینہ،مجتہد،تابعی بزرگ، عالی مرتبت اورامام الوقت تھے۔عظیم المرتبت صحابہ کرام کی صحبت اورسماعت حدیث نے آپ کو امام حدیث بنادیا،فقیہ الامت حضرت عبداللہ بن عباس([65]) کی طویل صحبت کی وجہ سے آپ عظیم فقیہ بن گئےاورفقہائے سبعہ میں شمارہونے لگے،آپ بڑے ائمہ تابعین میں کثیرالعلم، جیدعالم دین،ثقہ راوی حدیث اورکثیرالحدیث تھے،آپ کچھ عرصہ مدینہ شریف کے قاضی بھی رہے۔آپ کی ولادت تقریباً 20ھ میں اور وصال 104ھ کو 73سال کی عمرمیں مدینہ منورہ میں ہوا۔([66])

(25) حضرت ابوہریرہ عبدالرحمن بن صخردوسی رضی اللہ عنہ یمن سے غزوہ خیبر (7ھ) کے ایام میں کم وبیش 30سال کی عمرمیں مدینہ شریف آئے اوراسلام قبول کیا ،متعدد غزاوت میں شرکت کی،آپ اصحاب صفہ میں شامل ہوئے ،علم سیکھنے کا اتنا جذبہ وشوق تھاکہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے سوالات کرنے سے نہ شرماتے ،صحابہ کرام کو بھی علم حاصل کرنے کی ترغیب دلاتے، بحرین کے گورنراوردورِ امیرمعاویہ میں قائم مقام گورنربھی رہے، 78سال کی عمرمیں 57ھ کووصال فرمایا اورجنت البقیع میں دفن کئے گئے۔ آپ صحابہ کرام علیہم الرضوان میں حدیث کے سب سے بڑے حافظ تھے۔امام ذہبی فرماتے ہیں: آپ قرآن،سنت اور فقہ تینوں میں پیشوا تھے۔ آپ کو علم کی اشاعت سے محبت تھی، آپ کی مرویات کی مجموعی تعداد 5374 ہے، ان میں326متفق علیہ ہیں اور 79میں بخاری اور 93 میں مسلم منفرد ہیں۔ آپ نے ایک مجموعہ احادیث بھی مرتب کرایا۔ آپ  خوف خدا کے پیکر،اچھے اخلاق کے مالک،سچے عاشق رسول، سادگی وجودوسخاکے پیکر، متبع سنت، شب بیدار اور روزانہ 12ہزارمرتبہ  تسبیح پڑھتے تھے،ذوق وشوق سے عبادت میں مصروف رہنے والے تھے۔ فرمان مصطفی (صلی اللہ علیہ والہ وسلم ):ابوہریرہ علم کا ظرف ہے ۔ )[67](

۞ ہمارے پیارے آقاحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت 12ربیع الاول مطابق 20اپریل 571ء کو وادی بطحا مکہ شریف کے معززترین قبیلے قریش میں ہوئی اور 12ربیع الاول 11ھ مطابق 12 جون 632ء کو مدینہ منورہ میں وصال ظاہری فرمایا۔آپ وجہِ تخلیق کائنات،محبوب خدا،امام المرسلین، خاتم النبیین اورکائنات کی مؤثرترین شخصیت کے مالک تھے،آپ نے 40 سال کی عمرمیں اعلان نبوت فرمایا ،13سال مکہ شریف اور10سال مدینہ شریف میں دین اسلام کی دعوت دی ،اللہ پاک نے آپ پر عظیم کتاب قرآن کریم نازل فرمایا۔اللہ پاک کے آپ پر بے شمار دُرُوداورسلام ہوں ۔([68])

حواشی



[1] ...فیوض الزاھی فی شرح سنن النسائی ،1/51،80،75

[2] ... مہرِمنیرسوانحِ حیات ، ص، 84 ،تذکرۂ محدثِ سُورتی ،ص، 26

[3] ... مقدمہ مِیزانُ الادیان بتفسیرالقرآن،ص،80

[4] ...حضرت شیخ ابوحفص عمربن حسن بن مزیدبن اُمیلہ مراغی رحمۃ اللہ علیہ کا نام عجالۃ النافعہ صفحہ 22میں عمربن ابی الحسن المراغی جبکہ مقدمہ تفسیرمیزان الادیان صفحہ 76میں عمربن ابی الحسن المراعی لکھا ہے ،دونوں درست نہیں ہیں ،آپ کا درست نام و نسب یہ ہے : عمر بن حسن بن مزيد بن أميلة بن جمعة المراغي المزي مسند الشام زين الدين أبو حفص ہے،اس لیے سند میں اس کی درستی کردی ہے ۔

[5] ...علامہ ابن سنی حافظ ابوبکراحمد بن محمد بن اسحاق دینوری کے اذکارمیں آپکی تصانیف میں اختصارسنن نسائی المجتبیٰ، الصراط المستقیم ،فضائل الاعمال ،عمل الیوم واللیلہ،الطب النبوی اورالقناعہ کے نام ہیں ،مجالسۃ الدینوری نام سےکوئی کتاب کا تذکرہ نہیں ملا البتہ ایک اورشخصیت علامہ ابوبکراحمد بن مروان بن محمد الدینوری قاضی المالکی (وفات، صفر 298ھ) کی کتاب المجالسۃ الدینوری وجواہرالعلم ہے جسے دارابن حزم بیروت نے دس جلدوں میں شائع کیا ہے ۔

[6] ...نِساخراسان کاایک شہرہے، یہ سرخس سے دودن، مروسے پانچ دن،ابیوردسے ایک دن اورنیشاپورسے چھ یاسات دین کے فاصلے پرہے۔(معجم البلدان،4/385)اب یہ ترکمانستان کے دارالحکومت اشک آبادسے جانب جنوب مغرب 18کلومیٹرکے فاصلے پرایران کی سرحد کے قریب واقع ہے اورایک گاؤں کی مانندہے۔

[7] ...ابیوردخراسان کا ایک شہرتھا ،جسے 31ھ میں صحابی جلیل حضرت عبداللہ بن عامربن کریزقرشی نے فتح کیاتھا ،اب یہاں کوئی آبادی نہیں ہے البتہ اس کے قریب ایران کے صوبے خراسان کا شہردرغز(Dargaz)واقع ہے۔

[8] ... تفسیرمیزان الادیان ،1/ 76

[9] ... امام المحدثین نے دارُالعُلُوم حِزْبُ الْاَحْناف لاہورکو 1924ء میں مسجدوزیرخاں اندرون دہلی گیٹ میں شروع فرمایا، پھر یہ جامع مسجدحنفیہ محمدی محلہ اندرون دہلی گیٹ منتقل کردیا گیا ،جگہ تنگ ہونے کی وجہ سے آپ کے صاحبزادے مفتی اعظم پاکستان مفتی شاہ ابوالبرکات سیداحمدرضوی صاحب نے اس کی وسیع وعریض عمارت بیرون بھاٹی گیٹ گنج بخش روڈ پر بنائی ،جو اب بھی قائم ہے ۔

[10] ...فتاویٰ دیداریہ کے مرتب مفتی محمد علیم الدین نقشبندی مجددی رحمۃ اللہ علیہ ہیں، اس میں 344فتاویٰ ہیں، 87فتاویٰ کے علاوہ تمام فتاویٰ مفتی سیددیدارعلی شاہ صاحب کے تحریرکردہ ہیں،اسے مکتبۃ العصرکریالہ جی ٹی روڈ گجرات پاکستان نے 2005ء کو بہت خوبصورت کاغذپر شائع کیا ہے ،اس کے کل صفحات 864ہیں ۔

[11] ... فتاویٰ دیداریہ، ص2،ہفتہ واراخبارالفقیہ ، 21تا28،اکتوبر1935ء، ص23

[12]... حدائقِ حنفیہ،ص،510۔صحیح البخاری مع الحواشی النافعۃ،مقدمہ،1/37

[13]... حیات شاہ اسحاق محدث دہلوی،18،33،77

[14] ... کنزالایمان فی ترجمۃ القرآن اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان رحمۃ اللہ علیہ کا قرآن کریم کا بہترین ،تفسیری اردوترجمہ ہے ،جسے پاک وہند اوربنگلادیش میں مقبولیت حاصل ہے اس پر صدرالافاضل علامہ سیدمحمد نعیم الدین مرادآبادی نے خزائن العرفان فی تفسیرالقران اورحکیم الامت مفتی احمدیارخان نعیمی نے نورالعرفان علی کنزالایمان کے نام سے تفسیری حواشی ہیں ۔

[15]... اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان رحمۃ اللہ علیہ کے کثیرعلوم میں دسترس تھی ،اس پر آپ کی تقریبا ایک ہزارکتب ورسائل شاہدہیں ،مگرآپ کا میلان فتاویٰ نویسی کی جانب سے تھا آپ کے جو فتاویٰ محفوظ کئے جاسکے انہیں العطایہ النبویہ فی الفتاویٰ الرضویہ کے نام سے جمع کیا گیا ،پہلی جلدتو آپ کی حیات میں ہی شائع ہوگئی تھی ،یک بعددیگرےاس کی بارہ جلدیں شائع ہوئیں،1988ء میں مفتی اعظم پاکستان ،استاذالعلمامفتی عبدالقیوم ہزاروی (بانی رضا فاؤنڈیشن جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور)نے اسکی تخریج وترجمہ کا کام شروع کیا ،جس کی تکمیل 2005ء کو 33جلدوں کی صورت میں ہوئی ،جس کے صفحات 21 ہزار،9سو70ہیں ۔(فتاویٰ رضویہ ،30/5،10)

[16]... جدالممتارعلی ردالمحتار،اعلیٰ حضرت کا فقیہ حنفی کی مستندکتاب ردالمحتارالمعروف فتاویٰ شامی پر عربی میں حاشیہ ہے جس پر دعوت اسلامی کے تحقیقی وعلمی شعبے المدینۃ العلمیہ نے کام کیا اور2006ء کو اسے 7 جلدوں میں مکتبۃ المدینہ کراچی سے شائع کروایا ہے ،2022ء میں اس کی اشاعت دارالکتب العلمیہ بیروت سے ہوئی۔

[17] ... حدائق بخشش اعلیٰ حضرت کا نعتیہ دیوان ہے جسے مختلف مطابع نے شائع کیا ہے ،المدینۃ العلمیہ (دعوت اسلامی)نےپہلی مرتبہ اسے 2012ء میں 446صفحات پرشائع کیا ہے ،اب تک اس کے کئی ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔

[18] ... سلطانُ العاشقین، حضرت سیّد شاہ بَرَکَتُ اللہ مارہروی علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی ولادت1070ھ کو بلگرام (اودھ، یوپی) ہند میں ہوئی۔ 10 محرَّمُ الحرام 1142ھ کو مارہرہ مطہرہ (ضلع ایٹہ، یوپی) ہند میں وصال فرمایا۔ آپ عالمِ باعمل، شیخ المشائخ، مصنفِ کتب، صاحبِ دیوان شاعر، عوام و خواص کے مرجع اور بانیِ خانقاہ برکاتیہ ہیں۔(تاریخ خاندان برکات، ص12تا17)

[19] ... زبدۃ الواصلین، حضرت سیّد شاہ حمزہ مارہروی علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی ولادت 1131ھ مارہرہ شریف (یوپی) ہند میں ہوئی اور یہیں 14 محرَّمُ الحرام 1198ھ کو وصال فرمایا، آپ کا مزار ”درگاہ شاہ بَرَکَتُ اللہ“ کے دالان میں شرقی گنبد میں ہے۔ آپ عالمِ باعمل، عظیم شیخِ طریقت، کئی کتب کے مصنف اور مارہرہ شریف کی وسیع لائبریری کے بانی ہیں۔(تاریخ خاندان برکات، ص20تا23)

[20] ... شمس مارَہرہ، غوثِ زماں، حضرت سیّد شاہ ابوالفضل آلِ احمد اچھے میاں مارَہروی قادری علیہ رحمۃ اللہ الوَالی کی ولادت 1160ھ کو مارَہرہ مطہرہ (ضلع ایٹایوپی) ہند میں ہوئی، وصال 17 ربیع ُالاوّل 1235ھ کو یہیں فرمایا۔ آپ جَیِّد عالمِ دین، واعِظ، مصنّف اور شیخِ طریقت تھے، آدابُ السالکین اور آئینِ احمدی جیسی کتب آپ کی یادگار ہیں۔ آپ سلسلہ قادریہ رضویہ کے 36ویں شیخِ طریقت ہیں۔ (احوال و آثارِ شاہ آل ِاحمد اچھے میاں مارہروی، ص26)

[21]... تاریخ خاندان برکات، ص37تا46،مشائخ مارہرہ کی علمی خدمات ،221

[22] ...آپ کی یہ پانچوں تصانیف فارسی میں ہیں تحفہ اثنا عشریہ کو بہت شہرت حاصل ہوئی ،اس کا موضوع ردرفض ہے، تفسیرعزیزی کا نام تفسیرفتح العزیزہے ،جو چارجلدوں پر مشتمل ہے ،بستا ن المحدثین میں محدثین کے مختصرحالات دیئے گئے ہیں جبکہ آپ کا رسالہ عاجلہ نافعہ فن حدیث پرہے جس میں آپ نے اپنی اسنادواجازت کو بھی ذکرفرمایا ہے ،اسکے 26صفحات ہیں ۔

[23]... الاعلام للزرکلی، 4/ 14۔ اردو دائرہ معارفِ اسلامیہ، 11/634

[24]...پہلی چارکتب کا موضوع نام سے واضح ہے ،آپ نے اپنی تصنیف حجۃ اللہ البالغہ میں احکام اسلام کی حکمتوں اورمصلحتوں کوتفصیل کے ساتھ بیان کیاہے،اس میں شخصی اوراجتماعی مسائل کوزیرِبحث لایاگیا ہے، بڑی خوبصورتی سے بیان کیا ،کتاب ازالۃ الخفاء ردرفض پرہے ،آپ کے رسالے الانتباہ فی سلاسل اولیاء اللہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ عقائد ومعمولاتِ اہل سنت پر کاربند تھے،آپ کی آخری دونوں تصانیف آپ کی اسنادواجازات اورآپ کے مشائخ کے تذکرے پرمشتمل ہیں ۔

[25]... الفوزالکبیر،7،8،شاہ ولی اللہ محدث کے عرب مشائخ ،23

[26] ...مُجدّدِوقت حضرت سیّد محمدبن عبدالرسول بَرْزَنْجی مَدَنی شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت شہرزُور (صوبہ سلیمانیہ، عراق) 1040 ھ میں ہوئی اور یکم محرم 1103 ھ کو مدینۂ منوّرہ میں وصال فرمایا اور جنّتُ البقیع میں دفن ہوئے۔آپ حافظِ قراٰن، جامعِ معقول ومنقول، علامۂ حجاز، مفتیِ شافعیہ، 90کتب کے مصنّف، ولیِ کامل اور مدینہ شریف کے خاندانِ بَرْزَنجی کے جدِّ امجدہیں۔ (الاشاعۃ لاشراط الساعۃ، ص13، تاریخ الدولۃ المکیۃ، ص59)

[27] ... عالمِ کبیر، مسند العصرحضرت سیّدُنا شیخ ابو الاسرار حسن بن علی عُجَیْمی حنفی مکی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت10ربیع الاول 1049ھ مکۂ مکرمہ میں ہوئی۔ 3شوَّالُ المکرَّم 1113ھ کو وصال طائف (عرب شریف) میں فرمایا، تدفین احاطۂ مزار حضرت سیّدُنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما میں ہوئی۔ آپ عالم اسلام کے سوسے زائدعلماوصوفیا کے شاگرد، حافظ قران، محدثِ شہیر،فقیہ حنفی،صوفیِ کامل،مسندِ حجاز،استاذالاساتذہ، اور 60 سے زائد کتب کے مصنف تھے،آپ نے طویل عرصہ مسجدحرم،مسجدنبوی اورمسجدعبداللہ بن عباس (طائف)میں تدریس کی خدمات سرانجام دیں۔(مختصرنشرالنور ،167 تا173 ،مکہ مکرمہ کے عجیمی علماء،ص6تا54)

[28] ... خاتم المحدثین حضرت امام عبداللہ بن سالم بصری شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 1049ھ کو مکہ میں ہوئی اوریہیں 4 رجب 1134ھ کو وصال فرمایا،جنۃ المعلی میں دفن کئے گئے،بصرہ میں نشوونما پائی،پھرمکہ شریف میں آکر مقیم ہوگئے،آپ مسجدحرام شریف میں طلبہ کو پڑھایا کرتے تھے،زندگی بھریہ معمول رہا،کثیر علمانے آپ سے استفادہ کیا،آپ جیدعالم دین،محدث وحافظ الحدیث اورمسند الحجازتھے، کئی کتب تصنیف فرمائیں جن میں سے ضیاء الساری فی مسالک ابواب البخاری یادگار ہے۔(مختصر نشر النور، ص290تا292، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے عرب مشائخ،18تا20)

[29]... اعلام الزرکلی،304/5، سلک الدرر،24/4،شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے عرب مشائخ ،25

[30] ... کتاب الامم لایقاظ الھمم کو مجلس دائرۃ المعارف النظامیہ حیدرآباددکن نے 1328ھ میں دیگر4،اسنادومرویات کے رسائل کے ساتھ شائع کیاہے ، الامم لایقاظ الھمم کے کل صفحات 134ہیں ۔

[31]... سلک الدرر فی اعیان القرن الثانی عشر، 1/9، اعلام للزکلی، 1/35، البدرالطالع بمحاسن من بعد قرن السابع، 1/11

[32]... صاحبِ درِمختار، عمدۃ المتاخرین حضرتِ سیّدناعلّامہ مفتی محمدعلاؤ الدین حصکفی دمشقی حنفی کی ولادت 1025ھ دمشق شام میں ہوئی اور وصال 10 شوال 1088ھ کو فرمایا، مزار بابِ الصغیر (دمشق)شام میں ہے۔آپ جامع ِمعقولات و منقولات اورعظیم فقیہ تھے۔ اپنی کتاب ’’درمختار شرح تنویر الابصار‘‘کی وجہ سے مشہور ہیں۔ (جد الممتار، 1/245، 242، 79)

[33] ... الدرۃ الثمینۃ فیمالزائرالنبی الی المدینۃ،فضائل مدینہ پر مشتمل کتاب ہے جسے دارالکتب العلمیہ بیروت نے شائع کیا ہے۔

[34]... الامم لایقا ظ الھمم ،125تا127،شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے عرب مشائخ،8تا10،42

[35]... الامم لایقا ظ الھمم ،127،128،معجم المؤلفین ،1/205،رقم1519

[36] ... نہایۃ المحتاج شرح المنہاج فقہ شافعی کی امہات الکتب میں سے ہے ،یہ امام یحیی نووی کی کتاب منهاج الطالبين وعمدة المفتين کی شرح ہے، دارالکتب العلمیہ بیروت نے اسے چھ جلدوں میں میں شائع کیا ہے ۔

[37]... معجم المؤلفین،3/61

[38] ...دولت مملوکیہ کو سلطنت مملوک بھی کہاجاتاہے ،اسے ایوبی سلطنت کے زوال کے بعدمصراورشام میں1250ء میں عزالدین ترکمانی نے قائم کیا ،بحری مملوک ملک صالح ایوبی کے ترک غلام تھے ،اس نے انہیں دریائے نیل کے کنارے آبادکیا،بعدمیں یہ حکمران بنے اور1389ء تک حکمرانی کی،اس کے بعدبرجی مملوک (قفقازکے سرکیشی غلاموں)کی حکومت شروع ہوئی جوالاشرف طومان بیگ دوم کے دورِحکومت 1517ء تک قائم رہی اس کے بعدمصرسلطنت عثمانیہ کا حصہ بن گیا ۔ یوں دولت مملوکیہ کا دورحکومت 267سال پر محیط ہے ۔

[39] ... امام ابوالمَوَاہِب عبدالوہاب شعرانی شافعی رحمۃ اللہ علیہ صوفی، عالمِ کبیراورصاحبِ تصانیف ہیں،تنبیہُ الْمُغْتَرِّیْن، اَنوارُالقُدسیہ اور طبقات شعرانی مشہورتصانیف ہیں۔ پیدائش 898ھ اور وصال جمادی الاولیٰ973ھ میں ہوا، مزارمبارک باب شعری، مدینۃُ البُعُوث،قاہرہ مصرمیں ہے۔(معجم المؤلفین،/2339)

[40] ... شیخ الاسلام ،شہاب الملت والدین،مفتی حجازحضرت امام ابو االعباس،ابن حجر احمد بن محمد سعدی ہیتمی شافعی الازہری کی پیدائش رجب 909 ھ کو محلہ ابی الہيتم (صوبہ غربیہ ،مصر)میں ہوئی اورمکہ مکرمہ میں رجب974ھ کو وصال فرمایا،آپ علم تفسیر،حدیث ،فقہ،تاریخ اورکلام وغیرہ میں ماہرتھے ،آپ نے جیدعلمائے عصرسے استفادہ کیا اورمحدث وفقیہ شافعی ہونے کا شرف حاصل کیا ،آپ تقریبا 33سال تدریس ،افتااورتصنیف وتالیف میں مصروف رہے، کثیرعلما نےآپ سے اجازات حاصل کیں ۔آپ کی تصانیف میں الصواعق المحرقہ، الفتاوى الحدیثیہ ، تحفۃ الاخبار فی مولد المختار،اتحاف اہل الاسلام بخصوصيات الصيام، تحفۃالمحتاج بشرح المنہاج اور مبلغ الارب فی فخر العرب ہیں ۔(الاعلام، الزركلی، ج1 ص234، الكواكب السائرة ، 3 /101)

[41] ... فتح الرحمن بكشف ما يلتبس من القرآن  بہترین تفسیرقرآن ہے،دارالقرآن الکریم بیروت نے اسے ایک جلدمیں شائع کیاہے جس کے638 صفحات ہیں ۔

[42] ... تحفۃ الباری یا منحۃ الباری بشرح صحيح البخاری کو  مکتبۃ الرشد نے 10جلدوں میں شائع کیا ہے ،یہ10 شروحات ِبخاری کاخلاصہ ہے۔

[43] ... منہج الطلاب فی فقہ الامام الشافعی  امام نووی کی کتاب منہاج الطالبین کا خلاصہ ہے ،اس کی اشاعت مختلف مطابع سے ہوئی ہے مثلا دارالبشائرنے اسے 456صفحات پر شائع کیا ہے ۔

[44] ... اسنى المطالب شرح روض الطالب  کا موضوع بھی فقہ ہے ،شوافع کے ہاں اس کی اس قدراہمیت ہے کہ کہاجاتاہے کہ جس نے اسنی المطالب نہیں پڑھی تو وہ شافعی ہی نہیں ، دارالکتب العلمیہ نے اسے 9جلدوں شائع کیا ہے ،کئی دیگرمطابع سے بھی اس کی اشاعت ہوئی ہے ۔

[45]...کواکب السائرہ، 1/198 تا 208، النورالسافر، ص172تا177، شذرات الذھب، 8/174تا176

[46]... علامہ عبد الوهاب بن احمد بن وهبان دمشقی(متوفی،768ھ) نے فقہ حنفی میں منظوم کتاب’’ عقد القلائد فی حل قيد الشرائد‘‘تحریرفرمائی علامہ ابن الفرات نے اس کا خلاصہ نخبة الفوائد المستنتجةتحریرفرمایا۔

[47]... الضوء اللامع، ج4ص 186 ، اعلام زرکلی، ج3، ص348

[48] ... شیخ عمربن حسن مراغی نے اپنی اسنادومرویات کا مجموعہ تیارفرمایا جو مشیخۃ الامام ابی حفص عمرالمرغی کے نام سے معروف ہے ،شرکۃدارالبشائرالاسلامیہ بیروت نے اسے 64صفحات پر2003ء میں شائع کیا ہے ۔

[49]... معجم الشیوخ سبکی،1/312 ، الدرر الكامنہ، 3/ 159،شذرات الذہب،8/444

[50] ... شذرات الذهب 5/ 414، تاریخ الاسلام الذہبی، 15/565

[51] ... اصفہان شہر ایران کے صوبے اصفہان کا دارالحکومت ہے۔

[52] ... سیراعلام النبلاء ،21/362، شذرات الذھب، 4 / 329

[53] ... سیراعلام النبلاء،19/303

[54] ... سیراعلام النبلاء ،17/514

[55] ... علامہ ابن سنی رحمۃ اللہ علیہ کتاب عمل الیوم واللیلہ کوشرکۃ دارالارقم بن ابی الارقم بیروت نے 1418ھ کو 512صفحات پر شائع کیا ہے،کئی دیگرمطابع سے بھی اس کی اشاعت ہوئی ۔

[56] ...علامہ ابن سنی رحمۃ اللہ علیہ کتاب الطب النبوی کو دارالرسالہ بیروت نے 272صفحات پر شائع کیاہے ۔

[57] ... سیراعلام النبلاء ،16/256،اعلام زرکلی،1/209

[58] ... تاریخ ابن عساکر، 71/170، 176، بستان المحدثین، ص298

[59] ... عالم مدینہ،کروڑوں مالکیوں کے امام حضرتِ سیِّدنا امام مالِک بن انس اصبحی حمیری مدنی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 93ھ میں مدینۂ منورہ میں ہوئی اور 14ربیعُ الاوّل 179ھ کو وصال فرمایا۔ قبر شریف جنۃ البقیع میں ہے۔ آپ، صحابی رسول حضرت ابوعامراصبحی رضی اللہ عنہ کےپڑ پوتے، تابعی بزرگ،کثیرالعبادات،محدث وفقیہ،ادب وحیا کے پیکر، عمدہ فہم ووسیع علم والے متبع سنت،مؤثرترین شخصیت کے مالک،درازعمر اورعالی سند والے تھے،آپ کی کتاب مؤطا امام مالک احادیثِ مبارکہ کے مقبول و معروف مجموعوں میں قدیم ترین ہے۔زندگی بھرمدینہ شریف میں رہ کر حدیث وفقہ کی تدریس میں مصروف رہے۔( سیر اعلام النبلاء، 7/382، 435، تذکرۃ الحفاظ، 1/154، 157)

[60] ... شیخ الاسلام حضرت سیّدنا امام لیث بن سعد مصری علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی ولادت 94ھ قرقشندہ(القلَج صوبہ قلیوبیہ) مصر میں ہوئی۔ آپ محدثِ زمانہ اور مفتی اہلِ مصر تھے۔ 15شعبان 175ھ کو مصر میں وصال فرمایا، مزار مبارک قَرافہ صُغریٰ (شارع امام لیث، قاہرہ) مصر میں ہے۔ (حدائق الحنفیہ، ص140، تاریخ ابن عساکر، 50/349،347)

[61] ... سیراعلام النبلاء ،11/14،اعلام زرکلی،5/189

[62] ... وفیات الاعیان، 2/328، سیر اعلام النبلاء، 7/653

[63] ... سیراعلام النبلاء،5/326

[64] ... حضرت عبدالرحمن بن عوف قرشی زہری رضی اللہ عنہ کی ولادت عام الفیل کے دس سال بعدمکہ مکرمہ میں ہوئی اور 31یا 32ھ میں وصال فرمایا ،تدفین جنۃ البقیع میں ہوئی ،آپ جلیل لقدرصحابی ،حسن ظاہری وباطنی سے متصف ،خوش بخت ونیک خصلت ،دعائے مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی برکت سے مال داراورعشرہ مبشرہ صحابہ سےتھے ،آپ کی شان میں دوفرامین مصطفی(صلی اللہ علیہ والہ وسلم ):عبدالرحمن بن عوف جنتی ہیں اورجنت میں ان کے رفیق حضرت عیسی علیہ السلام ہوں گے، عبدالرحمن بن عوف مسلمان شرفا کے سردارہیں ۔( اصابہ ،8/203،الریاض النضرہ،2/306، 1/35 )

[65] ... ترجمان القرآن، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی ولادت نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے چچاجان حضرت عباس بن عبدالمطلب کے ہاں ہجرت سے تین سال قبل مکہ میں ہوئی اورآپ نے 67ھ کو طائف میں وصال فرمایا ،مزارمبارک مسجدعبداللہ بن عباس طائف کے قریب ایک احاطے میں ہے ، نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کے لیے علم وحکمت،فقہ دین اور تاویل کتاب مبین کی دعافرمائی،آپ علم تفسیر، حدیث، فقہ،شعر،علم وارثت وغیرہ میں کامل دسترس رکھتے تھے،آپ کے القابات بحرالعلوم، امام المفسرین، ربانیِ امت،اجمل الناس،افصح الناس اوراعلم الناس ہیں۔ (تنویرالمقیاس،ص7تا32)

[66]... سیراعلام النبلا جلد 4ص 287 

[67] ... تہذیب الکمال،34/366،سیراعلام النبلاء،2/578 -596

[68]... مدارج النبوت ،2/14،آخری نبی کی پیاری سیرت ، 143تا145


مقالے کی PDF کے لئے ڈاؤن لوڈ پر کلک کریں Download PDF

امام المحدثین کی سندجامع ترمذی

کتاب الجامع المعروف سنن تِرمِذی صحاح ستہ میں شامل ہے ترتیب کے مطابق یہ صحیح بخاری ،صحیح مسلم ،سنن ابو داؤد اور سنن نسائی کے بعد شمار ہوتی ہے مگر اپنی جامعیت ،حسن ترتیب اور دیگر فوائد کی وجہ سے صحیحین (صحیح بخاری اورمسلم)کے بعد ذکر کی جاتی ہے ،اس میں حدیث کے تمام موضوعات کے تحت احادیث کو لایا گیا ہے، اسی لیے جامع ترمذی کہا جاتا ہے نیز اس کی ترتیب ابواب فقہ کے مطابق بھی ہے اس لیے اسے سنن ترمذی بھی کہا جاتا ہے، یہی وہ خصوصیت ہے جو اسے دیگر کتب احادیث سے ممتاز کرتی ہے البتہ امام ترمذی نے خود اسے ’’المسند الصحیح‘‘تحریر فرمایا ہے ، یوں تو صحیح وہ کتاب ہوتی ہے جس کی تمام احادیث سند صحیح کے ساتھ ہوں ،جامع ترمذی کو صحیح کہنا اکثر کے اعتبار سے ہے ،اس کی دیگر خصوصیات میں یہ بھی ہے کہ ہر حدیث پاک کے بعد اس کا صحیح یا ضعیف ہونا بیان کیا جاتا ہے اور ضعف کی علت بھی ذکر کی ہے ،ہر حدیث پاک کسی نہ کسی فقیہ کی معمول بہ ہے ،ضمنا امام ترمذی مشہور فقہا کی آراء کو بھی ذکر کرتے ہیں ،جامع ترمذی کی ترتیب آسان اور طریقہ واضح ہے ۔ ایک قول کے مطابق اس میں کل احادیث ایک ہزار تین سو پچاسی (1385) ہیں ، اگر متابعات و شواہد کو بھی شامل کرلیا جائے تو کل تعداد تین ہزار نو سو چھپن (3956)بن جاتی ہے ۔ ([1])

ہمارے بلاد میں ہونے والے دورہ ٔ حدیث میں جامع ترمذی کو بھی شامل کیا گیا ، عموما اسے وہ اساتذہ پڑھاتے ہیں جو علم فقہ سے گہری دلچسپی رکھتے ہیں ۔امام المحدثین حضرت علامہ مفتی سیِّد محمد دِیدار علی شاہ مَشْہدی نقشبندی قادِری مُحدِّث اَلْوَری رحمۃ اللہ علیہ (ولادت، 1273ھ مطابق 1856ھ ،وفات 22رجب المرجب 1354ھ مطابق 20 ، اکتوبر 1935ء ) نے 1295ھ مطابق 1878ء میں افضل المحدثین علامہ احمد علی سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ سے دورۂ حدیث کر کے اسانید احادیث مشمول سنن ترمذی کی اجازت حاصل کی۔ ([2]) انھوں نے علامہ شاہ محمد اسحاق دہلوی مہاجر مکی سے اور انھوں نے سراج الہند علامہ شاہ عبد العزیز محدث دہلوی سے ،اسی طرح امام المحدثین مفتی سید محمد دیدار علی شاہ صاحب نے ذوالحجہ 1337ھ کو اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ سے جملہ اجازات و اسانید حاصل کیں ، ([3]) اور اعلیٰ حضرت نے اپنے مرشد حضرت شاہ آل رسول مارہروی سے اور انھوں نے سراج الہند علامہ شاہ عبد العزیز سے اور سراج الہند تحریر فرماتے ہیں :

(میرے والد گرامی علامہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے ) حضرت شیخ ابو طاہرسے، (انھوں )نے اسے(یعنی اجازت و سند جامع ترمذی کو) حضرت شیخ ابو طاہر سے انہوں نے حضرت شیخ ابراہیم کردی سے اور انہوں نے شیخ سلطان مزاحی سے اور انہوں نے شیخ شہاب الدین احمد بن خلیل سبکی سے اور انہوں نے شیخ نجم الدین محمد غیطی سے اور انہوں نے شیخ زین الدین زکریا بن محمد الانصاری سے اور انہوں نے شیخ عز الدین عبد الرحیم بن علی بن الفرات القاہری حنفی([4]) سے اور انہوں نے عمر بن ابو الحسن مراغی([5])سے (مراغہ بفتح میم ، ملک ایران میں ایک مشہور شہر کا نام ہے) اور انہوں نے شیخ فخر الدین ابن البخاری سے اور انہوں نے شیخ عمر بن طبرزد بغدادی([6])سے اور انہوں نے شیخ ابو الفتح عبد الملک بن عبداللہ بن ابی سہل الکروخی سے (کروخ ، فتح کاف اور ضمہ رائے مہملہ محففہ کے ساتھ نواحِ ہرات میں ایک گاؤں کا نام ہے اور یہی شیخ ابوالفتح صاحب نسخہ ترمذی ہیں) اور انہوں نے قاضی ابو عامر محمود بن القاسم بن محمد ازدی سے اور انہوں نے شیخ ابو محمد عبد الجبار بن محمد بن عبد اللہ بن ابی الجراح الجراحی مروزی سے (اور وہ مرو شاہجہان کی طرف منسوب ہے جو خراسان میں ایک مشہور گاؤں ہے) اور انہوں نے ابوالعباس محمد بن محبوب المحبوبی المروزی([7]) سے اور انہوں نے صاحب کتاب ابو عیسی ٰمحمد بن عیسیٰ بن سورۃ بن موسیٰ ترمذی رحمہ اللہ سے ۔ ([8])

سندِ جامع ترمذی کے رواۃ و شیوخ کا مختصر تعارف

امام المحدثین مفتی سید محمد دیدار علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کی سند ِجامع ترمذی بطریق علامہ احمد علی سہارنپوری اور بطریق امام احمد رضا 25 واسطوں سے نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے مل جاتی ہے ،ذیل میں ان تمام محدثین کا مختصر تعارف بیان کیا جاتاہے:

امامُ الْمُحدِّثین حضرت مولانا سیِّد محمد دِیدار علی شاہ مَشْہدی نقشبندی قادِری مُحدِّث اَلْوَری رحمۃ اللہ علیہ، جَیِّد عالِم، اُستاذُالعُلَما، مفتیِ اسلام اور اکابرین اہل سنّت سے تھے۔آپ 1273ھ مطابق 1856ھ کو اَلْوَر (راجِسْتھان، ہِند )میں پیدا ہوئے اور لاہور میں 22 رجب المرجب 1354 ھ مطابق 20 ،اکتوبر 1935 ء کو (بروزپیر) نماز عصر کے سجدے میں وصال فرمایا ،جامع مسجد حنفیہ محمدی محلہ اندرون دہلی گیٹ لاہور سے متصل جگہ میں تدفین کی گئی ۔ دارُ العُلُوم حِزْبُ الْاَحْناف لاہور([9]) اور فتاویٰ دِیداریہ ([10]) آپ کی یاد گار ہیں۔( [11])

(1)افضل المحدثین علامہ احمد علی سہارنپوری کی ولادت 1225 ھ مطابق 1810ء کو ہوئی اور 6 جمادَی الاُولیٰ 1297ھ مطابق 16 اپریل 1880 ء کو تقریباً بہتر (72) سال کی عمر میں داعیِ اجل کو لبیک کہا۔ آپ اپنے آبائی قبرستان متصل عید گاہ سہارنپور میں سپردِ خاک کیے گئے۔آپ حافظِ قرآن، عالمِ اجل، استاذُ الاساتذہ، مُحدّثِ کبیر اور کثیر الفیض شخصیت کے مالک تھے، اشاعتِ احادیث میں آپ کی کوشش آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے، آپ نے صحاح ستہ اور دیگر کتب احادیث کی تدریس، اشاعت، حواشی اور درستیٔ متن میں جو کوششیں کیں وہ مثالی ہیں ۔ ([12])

(2)علامہ شاہ محمد اسحاق دہلوی مہاجر مکی کی پیدائش ذوالحجہ 1197ھ مطابق 1782 ء دہلی میں ہوئی،یہ حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کے نواسے ،شاگرد اور جانشین تھے ،پہلے دہلی پھر مکہ شریف میں تدریس کرتے رہے ،وفات رجب 1262 ھ کو مکہ شریف میں ہوئی اور جنت المعلیٰ میں دفن کئے گئے ۔ ([13])

(3)اعلیٰ حضرت، مجددِ دین و ملّت، امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 10 شوال 1272 ھ مطابق 6 جون 1856 ء کو بریلی شریف(یو۔پی) ہند میں ہوئی، یہیں 25 صفر 1340 ھ مطابق 28 ،اکتوبر 1921 ء کو وصال فرمایا۔ مزار جائے پیدائش میں مرجعِ خاص و عام ہے۔آپ حافظِ قرآن، پچاس سے زیادہ جدید و قدیم علوم کے ماہر، فقیہ اسلام، مُحدّثِ وقت،مصلحِ امت، نعت گو شاعر، سلسلہ قادریہ کے عظیم شیخ طریقت، تقریباً ایک ہزار کتب کے مصنف، مرجع علمائے عرب و عجم ، استاذ الفقہا و المحدثین، شیخ الاسلام و المسلمین، مجتہد فی المسائل اور چودہویں صدی کی مؤثر ترین شخصیت کے مالک تھے۔ کنز الایمان فی ترجمۃ القرآن([14]) ، فتاویٰ رضویہ([15]) ، جدّ الممتار علی رد المحتار([16]) اور حدائقِ بخشش([17]) آپ کی مشہور تصانیف ہیں۔ ([18])

(4) خاتِمُ الاکابِر ،قدوۃ العارفین حضرت علامہ شاہ آلِ رسول مار ہَروی رحمۃ اللہ علیہ عالمِ باعمل،صاحبِ وَرَع و تقوی اور سلسلہ قادریہ برکاتیہ رضویہ کے شیخِ طریقت ہیں۔ آپ کی ولادت 1209 ھ کو خانقاہ برکاتیہ مارہرہ شریف (ضلع ایٹہ،یوپی) ہند میں ہوئی اور یہیں 18ذو الحجہ 1296 ھ کو وصال فرمایا،تدفین دلان شرقی گنبد درگاہ حضرت شاہ برکت اللہ([19])رحمۃ اللہ علیہ میں بالین مزار حضرت سید شاہ حمزہ([20]) ہوئی ۔ آپ ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد حضرت سید شاہ آل احمد اچھے میاں مارہروی ([21])رحمۃ اللہ علیہ کے ارشاد پر سراج الہند حضرت مولانا شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ کے درسِ حدیث میں شریک ہوئے۔ صحاحِ ستہ کا دورہ کرنے کے بعد حضرت محدث دہلوی قدس سرہ سے علویہ منامیہ کی اجازت اور احادیث و مصافحات کی اجازتیں پائیں،فقہ میں آپ نے دو کتب مختصر تاریخ اور خطبہ ٔ جمعہ تحریر فرمائیں۔([22])

(5) سِراجُ الہند حضرت شاہ عبد العزیز محدّثِ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ علوم و فُنون کے جامع، استاذُ العلماء و المحدثین، مُفَسِّرِ قراٰن، مصنّف اور مفتیِ اسلام تھے، تفسیرِ عزیزی، بُستانُ المُحدّثین ، تحفۂ اِثنا عشریہ اور عجالہ نافعہ([23])آپ کی مشہور کُتُب ہیں۔ 1159ھ میں پیدا ہوئے اور 7 شوال 1239 ہجری میں وِصال فرمایا، مزار مبارک درگاہ حضرت شاہ ولی اللہ مہندیاں، میردرد روڈ، نئی دہلی ہند میں ہے۔ ([24])

(6) محدث ہند حضرت شاہ ولی اللہ احمد محدث دہلوی فاروقی رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش 4شوال 1110ھ کو ہوئی اور یہیں 29 محرم 1176 ھ مطابق 1762 ء کو وصال فرمایا، تدفین مہندیاں، میر درد روڈ، نئی دہلی ہند میں ہوئی،جو درگاہ شاہ ولی اللہ کے نام سے مشہور ہے، آپ نے اپنے والد گرامی حضرت شاہ عبد الرحیم دہلوی([25]) رحمۃ اللہ علیہ سے تعلیم حاصل کی،حفظ قرآن کی بھی سعادت پائی، اپنے والد سے بیعت ہوئے اور خلافت بھی ملی، والد کی رحلت کے بعد ان کی جگہ درس و تدریس اور وعظ و ارشاد میں مشغول ہوگئے۔ 1143ھ میں حج بیت اللہ سے سرفراز ہوئے اور وہاں کے مشائخ سے اسناد حدیث و اجازات حاصل کیں۔ 1145 ھ کو دہلی واپس آئے،آپ بہترین مصنف تھے، مشہور کتب میں فتح الرحمن فی تر جمۃ القرآن فارسی ،الفوز الکبیر فی اصول التفسیر،مؤطا امام مالک کی دو شروحات المصفیٰ فارسی،المسوّی عربی، حجۃ اللہ البالغہ فارسی، ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء فارسی ،الانتباہ فی سلاسل اولیاء اللہ فارسی، انسان العين فی مشائخ الحرمين اور الارشاد الی مہمات الاسناد عربی )[26] ( مشہور کتب ہیں۔ ([27])

(7) حضرت شیخ جمال الدین ابو طاہر محمد بن ابراہیم کورانی مدنی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت مدینہ شریف میں 1081ھ مطابق 1670 ء کو ہوئی اور یہیں 1145 ھ مطابق 1733ء کو وصال فرمایا اور جنت البقیع میں دفن کئے گئے ،آپ جید عالم دین ،محدث و مسند،مفتی ٔ شافعیہ مدینہ منورہ،علامہ شیخ ابراہیم کردی آپ کے والد صاحب اور شیخ احمد قشاشی([28])نانا محترم تھے۔ والد صاحب کے علاوہ ،مفتی شافعیہ مدینہ منورہ شیخ سید محمد بن عبد الرسول برزنجی([29])، شیخ عبد اللہ بن سالم([30])اور شیخ حسن بن علی عُجَیْمی سے اجازات حاصل کیں، کئی کتب بھی لکھیں ،جو اب تک مطبوع نہیں ہوسکیں ،مکتبہ حرم مکی میں آپ کی ثبت کا مخطوط پانچ اوراق میں محفوظ ہے ۔ ([31])

(8)حضرت امام شیخ برہان الدین، ابو العرفان ابراہیم بن حسن کورانی کردی کی ولادت کردستان(عراق) میں 1025 ھ کو ہوئی،آپ شافعی عالم دین،محدث و مسند ، سلسلہ نقشبندیہ کے شیخ طریقت ہیں۔ 80 سے زائد کتب لکھیں جن میں اسانید و مرویات پر مشتمل کتاب ”الامم لایقاظ الھمم “ مطبوع ہے۔آپ عراق سے ہجرت کر کے مدینہ شریف مقیم ہوگئے تھے،یہیں ایک قول کے مطابق 18 ربیع الآخر 1101 ھ مطابق 29 جنوری 1690 ء میں وصال فرمایا۔ ([32])

(9)حضرت شیخ ابو العزائم سلطان بن احمد سلامہ مزّاحی مصری ازہری شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 985 ھ مصر میں ہوئی اور یہیں 17 جمادی الآخر1075 ھ میں وصال فرمایا، تدفین مجاورین قبرستان قاہرہ میں ہوئی،آپ نے علمائے عصر سے حفظ قرآن و قرات ،حدیث و فقہ و تصوف اور دیگر علوم حاصل کرکے 1008 ھ میں فارغ التحصیل ہوئے اور جامعۃ الازہر میں تدرس کرنے لگے، آپ امام الائمہ، بحر العلوم، استاذ الفقہاء و القراء،محدث وقت،علامہ زمانہ،نابغہ عصر،زہد و تقویٰ کے پیکر،مرجع خاص و عام، عابد و زاہد اور کئی کتب کے مصنف تھے۔ ([33])

(10)شیخ الاسلام،ناصر الملت و الدین حضرت امام شہاب الدین احمد بن خلیل سبکی شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 939 ھ اور وفات 1032 ھ میں ہوئی، آپ نے مدرسہ باسطیہ ، مصر میں داخلہ لے کر علم دین حاصل کیا،جید علمائے مصر سے استفادہ کرکے محدث و فقیہ بننے کی سعادت پائی،حدیث و فقہ میں آپ کی کئی تصانیف ہیں،ان میں سے” فتح الغفور بشرح منظومۃ القبور([34])مشہور ہے۔ ([35])

(11)شیخ الاسلام حضرت امام نجم الدین ابو المواہب محمد بن احمد غیطی سکندری رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش 910 ھ اور وفات 981 ھ میں ہوئی، آپ کا تعلق مصر کے صوبہ سکندریہ کے مرکزی شہر سکندریہ سے ہے،آپ نے دیگر مشائخ بالخصوص شیخ الاسلام زین الدین زکریا انصاری رحمۃ اللہ علیہ سے علم حدیث،فقہ اور تصوف وغیرہ حاصل کر کے اسناد اور تدریس و افتاء کی اجازات لیں،آپ امام الوقت، مسند العصر، محدث زمانہ، مرشد گرامی، محبوب ِ خاص و عام،بغیر لومۃ لائم برائی سے منع کرنے والے اور کئی کتب کے مصنف تھے۔ ”بهجة السامعين و الناظرين بمولد سيد الاولين و الآخرين اور” قصۃ المعراج الصغری وغیرہ آپ کی تصنیف کردہ کتب ہیں۔ ([36])

(12) شیخ الاسلام حضرت امام زین الدین ابو یحییٰ زکریا بن محمد انصاری الازہری رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 826 ھ کو سُنیکہ(صوبہ شرقیہ)مصر میں ہوئی،جامعۃ الازہر سے علوم اسلامیہ حاصل کئے،قاہرہ میں مقیم ہوگئے ،آپ فقیہ شافعی،محدث وقت،حافظ الحدیث، صوفی با صفا،قاضی القضا ۃ،بہترین قاری،مصنف کتب کثیرہ ، لغوی و متکلم،مؤرخ و مدرس، مفتی اسلام اور نویں صدی ہجری کے مجدد ہیں،آپ نے 4 ذو الحجہ 925 ھ کو قاہرہ مصر میں وفات پائی۔ قاہرہ میں امام شافعی کے مزار کے قریب قرافہ صغریٰ میں تدفین ہوئی،آپ کا مزار مرجع خلائق ہے۔ الدقائق المحكمة فی شرح المقدمة([37])،”تحفۃ الباری علی صحيح البخاری([38]) اور ” اَسنى المطالب([39] ) آپکی مشہور کتب ہیں۔ ([40])

(13)عز الملت و الدین حضرت شیخ ابن الفرات ابو محمد عبد الرحیم بن محمد حنفی مصری کی ولادت 759 ھ کو قاہرہ مصر کے ایک علمی گھرانے میں ہوئی،حفظ قرآن و قراءت کے بعد علوم معقول و منقول کے تحصیل میں مصروف ہوگئے ،علمائے احناف ، شوافع اور حنابلہ سے استفادہ کیا ،جب حج پر گئے تو علمائے حجاز کی انہار علم سے بھی سیراب ہوئے ،اجازات عامہ و خاصہ حاصل کیں ،آپ احناف مصر کے جید عالم دین ، محدث و قاضی اور مصنف کتب تھے ،آپ نے اپنی ساری زندگی درس و تدریس ، تصنیف و تالیف میں گزاری ” نخبة الفوائد المستنتجة ([41])آپ کی یادگار تصنیف ہے ، آپ نے 16 ذو الحجہ  851 ھ کو قاہرہ میں وصال فرمایا ،باب النصر میں نماز جنازہ ہوئی اور خانقاہ سعید السعداء کے احاطے میں دفن کیے گئے۔ ([42])

(14) مراغی کبیر حضرت ابو حفص عمر بن حسن مراغی مزی دمشقی رحمۃ اللہ علیہ ولادت 8 رجب 679 یا 680 ھ کو مِزَّہ ، دمشق میں ہوئی اور 98 سال کی عمر میں 8 ربیع الآخر 778 ھ کو مراغی دمشق ، شام میں وصال فرمایا ،آپ محدث و قاری، مسند الشام اور اکابرین اہل سنت سے تھے، آپ نے اپنے وقت کے جید علماء ،قراء اور محدثین سے خوب استفادہ کیا اور اشاعت علوم و فنون میں مصروف ہوئے حتی کہ علما و فقہا اور محدثین کے مرجع قرار پائے ،آپ سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد کثیر ہے ، مشيخۃ الامام ابی حفص عمر المراغی ([43]) آپ کی اسناد کا مجموعہ ہے ۔ ([44])

(15)محدث الاسلام، ابن بخاری حضرت امام فخر الدین ابو الحسن علی ابن احمد مقدسی صالحی حنبلی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 595 ھ کو ایک علمی گھرانے میں ہوئی ، اور آپ نے ربیع الآخر 690 ھ میں وصال فرمایا ،عالم و فقیہ ،فاضل و ادیب ،صاحب وقار و ہیبت ،تقوی و ورع کے پیکر اور علم و وعقل میں کامل تھے ،محدثین میں آپ بہت مکرم و محترم تھے ،آپ کو ”مسند العالم “ کہا جاتا ہے ،عرصہ دراز تک خدمت قرآن و سنت میں مصروف رہے، شام،مصر اور عراق کے محدثین نے آپ سے استفادہ کیا ۔ ([45])

(16) مُسند الوقت حضرت شیخ ابن طبَرْزَد ابو حفص عمر بن محمد دار قزی بغدادی ذو الحجہ 516 ھ میں پیدا ہوئے اور 87 سال کی عمر میں 9 رجب 607 ھ میں وصال فرمایا ،آپ نے اپنے بڑے بھائی اور دیگر اساتذہ سے علم دین حاصل کیا اور زندگی بھر حدیث پاک کی ترویج و اشاعت میں مصروف رہے،عراق و شام کے محدث و شیخ الحدیث قرار پائے ،آپ کی تالیف کردہ کتب میں مسند الامام عمر بن عبد العزيز “ یادگار ہے۔ آپ خوش اخلاق و ظریف الطبع تھے،آپ سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد کثیر ہے ۔ ([46])

(17)حضرت شیخ ابو الفتح عبد الملک بن عبد اللہ کروخی ہروی کی ولادت کروخ، ہرات (افغانستان) میں ربیع الاول 462 ھ میں ہوئی ،مکہ شریف میں بعد حج 25 ذوالحجہ 548 ھ میں وصال فرمایا ،ہرات ،بغداد اور مکہ شریف میں زندگی گزاری ،آپ شیخ العلما،امام الوقت اور حدیث کے ثقہ راوی تھے ، آپ ترمذی شریف کے نسخے لکھا کرتے تھے اور اسے بیچ کر گزر بسر کرتے تھے ۔آپ اخلاق حسنہ سے متصف ، فقر و ورع کے پیکر،روایت حدیث کے اعتبار سے ثقہ،صدوق،صالح اور مُتَدَیَّن (دیانت دار ) تھے ۔ ([47])

(18)شیخ الاسلام حضرت امام قاضی ابو عامر محمود بن قاسم ازدی ہروی مہلبی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت ایک علمی گھرانے میں 400 ھ کو ہرات (افغانستان )میں ہوئی، اگرچہ اس زمانے میں ہرات علوم وفنون کے کا مرکز تھا لیکن آپ نے اسی پر اکتفانہ کیا بلکہ اجازات واسنادکے حصول کے لیے دیگرممالک کے کثیرسفر کئے ،آپ اپنے ملک میں علمائے شوافع میں سب سے بڑے عالم،قاضی و فقیہ، امام الوقت، محدث و مُسنِد اور زہد و تقوی و ورع کے پیکر تھے ،علمی جلالت کا یہ عالم تھا کہ موافق و مخالف سب تعظیم کرتے تھے،یہی وہ اوصاف تھے جنہوں نے انہیں خاص و عام کا مرجع بنادیا تھا ، آپ کا وصال 87 سال کی عمر میں 8 جمادی الاخریٰ 487 ھ میں ہوا۔ ([48])

(19)علامہ ابو محمد عبد الجبار بن محمد مرزبانی جراحی مروزی کی ولادت مرو میں 331 ھ کو ہوئی ،81سال کی عمر میں 412 ھ کو وصال فرمایا ،ہرات میں سکونت اختیار کی، وہیں امام ابو العباس محمد بن احمد بن محبوب مروزی سے جامع ترمذی کا درس لیا اور اجازت حاصل کی،خلق کثیر نے آپ سے علمی فیضان حاصل کیا ،آپ امام الوقت ،ثقہ ، امین اور صالح روای حدیث تھے ۔ ([49])

(20) حضرت شیخ ابو العباس محمد بن احمد بن محبوب محبوبی مروزی رحمۃ اللہ علیہ 249 ھ کو مرو(صوبہ ماری ،ترکمانستان) میں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم و تربیت مقامی علما سے حاصل کی ، علوم و فنون میں مہارت حاصل کرنے کے بعد 265 ھ میں آپ ترمذ ( صوبہ سرخان دریا، ازبکستان) تشریف لے گئے وہاں حضرت امام ترمذی کی صحبت میں رہ کر جامع ترمذی کی سماعت کر کے اجازت حاصل کی ،آپ عالم فاضل ، محدث ، مسند اور شیخ البلد تھے ۔آپ کا وصال رمضان 346 ھ میں ہوا۔ ([50])

(21) امامُ الائمّہ حضرتِ امام ابوعیسٰی محمد بن عیسٰی سلمی بوغی تِرمِذی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 209 ھ میں موضوع بوغ (ضلع تِرْمِذ، ساحلِ نہرِ جیجون،صوبہ سرخان دریا) اُزْبَکِسْتان میں ہوئی ،آپ نے امام احمد بن حنبل، امام بخاری اور امام ابو داؤد سمیت 30 سے زیادہ علما و محدثین سے حدیث کا درس لیا اور پھر احادیث جمع کرنے کے لئے خراسان ، عراق اور حجاز کا سفر کیا ،آپ کا وصال 13 رجب 279 ھ کو ترمذ میں ہوا۔ آپ شیخ المحدثین، غیر معمولی حافظہ کے مالک ،محسنِ اُمّت،تقویٰ و ورع کے پیکر، علم و عمل کے جامع اور احادیث کی مشہور ’’ جامع تِرمِذی“ کے مصنف ہیں،آپ کی دیگر تصانیف میں شمائل ترمذی([51]) کو عالمگیر شہرت حاصل ہوئی ۔ ([52])

۞جامع ترمذی میں ہر حدیث پاک سند کے ساتھ ہے،ایک حدیث پاک ایسی بھی ہے جس میں امام ترمذی اورنبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے درمیان صرف تین راوی ہیں، اسے سندِ ثلاثی کہتے ہیں ۔ ([53])

اس سند کے روایوں کا مختصر تعارف ملاحظہ کیجئے

(22)حضرت ابو محمد یا ابو اسحاق اسماعیل بن موسی کوفی فزاری کوفہ کے رہنے والے تھے۔ شیوخ عراق سے علم حدیث حاصل کرنے کے بعد دمشق، شام تشریف لے گئے،واپس آکر کوفہ مسند تدریس پر بیٹھے، حضرت امام ترمذی، حضرت امام ابو داؤد([54])،حضرت امام ابن ماجہ قزوینی([55]) جیسے جلیل القدر محدثین نے آپ سے سماعت حدیث کا شرف پایا،آپ صدوق روای حدیث ہیں ،آپ کا وصال 4 شعبان 245 ھ کوہوا۔([56])

(23)حضرت عمر بن شاکر بصری رضی اللہُ عنہ صحابی رسول حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ اور ان کے غلام حضرت ابو بکر محمد بن سیرین بصری ([57]) کے تربیت یافتہ و شاگرد ، صدوق راوی حدیث ،بصرہ کے رہنے والے تھے ،کئی تبع تابعین نے آپ سے احادیث سماعت کیں ،ان کی تاریخ ولادت اور وفات کی معلومات نہ مل سکی۔ ([58])

(24) خادم نبی حضرت سیدنا ابو حمزہ انس بن مالک انصاری خزرجی نجاری رضی اللہ عنہ آٹھ سال کی عمر میں رسول خدا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر معمور ہوئے اور آپ نے دس سال یہ سعادت حاصل کی، غزوہ بدر سمیت تمام غزاوت میں شریک ہوئے ، بارگاہِ رسالت سے یہ دعا ملی :” اَللّٰھُمَّ اَکْثِرْ مَالَہٗ وَوَلَدَہٗ وَاَطِلْ عُمُرَہٗ وَاغْفِرْ ذَنْبَهُ “ یعنی اے اللہ!اس کے مال اور اولاد میں کثرت عطا فرما، اسے درازیِ عمر عطا فرما اور اس کی مغفرت فرما،یہی وجہ ہے کہ آپ مالدار اور کثیر الاولاد تھے ، آپ کچھ عرصہ مدینہ منورہ میں گزار کر دورِ خلافت فاروقی میں بصرہ تشریف لے گئے ،بے شمار افراد نے آپ کے شاگرد ہونے کا شرف حاصل کیا۔ آپ سے روایت کردہ 2286 (دو ہزار دو سو چھیاسی )،احادیث ِمبارکہ کتبِ احادیث و سِیَر میں ہیں ،ان میں سے 168 متفقہ طور پر صحیح بخاری و مسلم شریف میں ہیں ۔ آپ بہت زیادہ عبادت کرتے اور تلاوت قرآن فرمایا کرتے تھے ۔ ، جمہور کے نزدیک 93 ہجری میں آپ نے اس جہانِ فانی سے کوچ فرمایا،بوقتِ انتقال آپ کی عمر مبارک 100 سال سے زیادہ تھی۔آپ بصرہ میں وفات پانے والے آخری صحابی ہیں۔ ([59])

۞ ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت 12 ربیع الاول مطابق 20 اپریل 571 ء کو وادی بطحا مکہ شریف کے معزز ترین قبیلے قریش میں ہوئی اور 12 ربیع الاول 11 ھ مطابق 12 جون 632 ء کو مدینہ منورہ میں وصال ظاہری فرمایا۔آپ وجہ ٔ تخلیق کائنات ،محبوب خدا، امام المرسلین ، خاتم النبیین اور کائنات کی مؤثر ترین شخصیت کے مالک تھے ،آپ نے 40 سال کی عمر میں اعلان نبوت فرمایا ، 13سال مکہ شریف اور 10 سال مدینہ شریف میں دین اسلام کی دعوت دی ، اللہ پاک نے آپ پر عظیم کتاب ” قرآن کریم “ نازل فرمایا ۔اللہ پاک کے آپ پر بے شمار دُرُود اور سلام ہوں ۔ ([60])

حواشی



[1]... سنن ترمذی مترجم،1/38،شرح جامع ترمذی ،1/139

[2]... مہرِمنیرسوانحِ حیات ، ص، 84 ،تذکرۂ محدثِ سُورتی ،ص، 26

[3]... مقدمہ مِیزانُ الادیان بتفسیرالقرآن،ص،80

[4] ... ان نام ونسب عبدالرحیم بن محمد بن عبدالرحیم بن علی بن حسن بن محمد بن عبدالعزیزبن محمد العرّابومحمدبن مؤرخ ناصرالدین بن العِرّ ابوالفضل بن الفرات مصری قاہری حنفی ہے مگریہ ابن الفرات کے نام سے مشہورہیں ،مقدمہ میزان الادیان میں انصرات لکھا ہے جو درست نہیں ،اس لیے اسے دُرست کردیا ہے ۔

[5] ... ان کانام ونسب ابو حفص عمر بن الحسن بن مزيد بن امیلۃ المراغی الحلبی المزی الدمشقی ہے مقدمہ میزان الادیان میں عمربن ابی الحسن مراغی لکھاہے ،لفظ ابی زائدآگیا ہے اس لیے اسے حذف کردیا ہے۔

[6] ...ان کا نام نسب عمر بن محمد بن معمَّربن يحيى ابن احمد بن حسان، ابو حفص، ابن طَبَرْزَدْ، الدارقَزیّ، البغدادی ہے ،مقدمہ میزان الادین میں ابن طبرزد کے بجائےابن طبرزولکھاہے جو درست نہیں اس لیے اسے درست کردیا ہے ۔

[7] ...ان کانام ونسب ابو العباس ، محمد بن احمد بن محبوب بن فضيل المحبوبی المروزی ہے مگرتفسیرمیزان الادیان میں محمد بن محبوب لکھا ہے یعنی ان کے والدکا نام حذف ہوگیا ہے ،اس لیے اس کا اضافہ کردیاہے۔

[8]... تفسیرمیزان الادیان ،1/ 75،76

[9] ... امام المحدثین نے دارُ العُلُوم حِزْبُ الْاَحْناف لاہور کو 1924ء میں مسجد وزیر خاں اندرون دہلی گیٹ میں شروع فرمایا ،پھر یہ جامع مسجد حنفیہ محمدی محلہ اندرون دہلی گیٹ منتقل کردیا گیا ،جگہ تنگ ہونے کی وجہ سے آپ کے صاحبزادے مفتی اعظم پاکستان مفتی شاہ ابوالبرکات سید احمد رضوی صاحب نے اس کی وسیع و عریض عمارت بیرون بھاٹی گیٹ گنج بخش روڈ پر بنائی ،جو اب بھی قائم ہے ۔

[10] ...فتاویٰ دیداریہ کے مرتب مفتی محمد علیم الدین نقشبندی مجددی رحمۃ اللہ علیہ ہیں ، اس میں 344فتاویٰ ہیں ،87فتاویٰ کے علاوہ تمام فتاویٰ مفتی سید دیدار علی شاہ صاحب کے تحریر کردہ ہیں،اسے مکتبۃ العصر کریالہ جی ٹی روڈ گجرات پاکستان نے 2005 ء کو بہت خوبصورت کاغذ پر شائع کیا ہے ،اس کے کل صفحات 864ہیں ۔

[11] ... فتاویٰ دیداریہ، ص2،ہفتہ وار اخبار الفقیہ ، 21تا28،اکتوبر1935ء، ص23

[12]... حدائقِ حنفیہ،ص،510۔صحیح البخاری مع الحواشی النافعۃ،مقدمہ،1/37

[13]... حیات شاہ اسحاق محدث دہلوی،18،33،77

[14]... کنز الایمان فی ترجمۃ القرآن اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کا قرآن کریم کا بہترین، تفسیری اردو ترجمہ ہے ،جسے مقبولیت عامہ حاصل ہے اس پر صدر الافاضل علامہ سید محمد نعیم الدین مرادآبادی نے خزائن العرفان فی تفسیر القران اور حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی نے نور العرفان علی کنزالایمان کے نام سے تفسیری حواشی لکھے ہیں ۔

[15]... اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کے کثیر علوم میں دسترس تھی ،اس پر آپ کی تقریبا ایک ہزار کتب و رسائل شاہد ہیں ،مگر آپ کا میلان فتاویٰ نویسی کی جانب زیادہ تھا آپ کے جو فتاویٰ محفوظ کئے جاسکے انہیں العطایہ النبویہ فی الفتاویٰ الرضویہ کے نام سے جمع کیا گیا ،پہلی جلد تو آپ کے حیات میں ہی شائع ہوگئی تھی ،یکے بعد دیگرے اس کی بارہ جلدیں شائع ہوئیں ، 1988 ء میں مفتی اعظم پاکستان ،استاذ العلما مفتی عبد القیوم ہزاروی (بانی رضا فاؤنڈیشن جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور)نے اسکی تخریج و ترجمہ کا کام شروع کیا ،جس کی تکمیل 2005 ء کو 33جلدوں کی صورت میں ہوئی ،جس کے صفحات 21 ہزار،9سو70ہیں ۔ (فتاویٰ رضویہ ،30/5،10)

[16]... جد الممتار علی رد المحتار،اعلیٰ حضرت کا فقہِ حنفی کی مستند کتاب رد المحتار المعروف فتاویٰ شامی پر عربی حاشیہ ہے جس پر دعوت اسلامی کے تحقیقی و علمی شعبے المدینۃ العلمیہ نے کام کیا اور 2006 ء کو اسے 7 جلدوں میں مکتبۃ المدینہ کراچی سے شائع کروایا ہے ،2022ء میں اس کی اشاعت دار الکتب العلمیہ بیروت سے بھی ہوئی ہے۔

[17]... حدائق بخشش اعلیٰ حضرت کا نعتیہ دیوان ہے جسے مختلف مطابع نے شائع کیا ہے ،المدینۃ العلمیہ (دعوت اسلامی)نے اسے 2012ء میں 446 صفحات پر شائع کیا ہے ،اب تک اس کے کئی ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔

[18]...حیاتِ اعلیٰ حضرت،ص، 1/58، 3/295،مکتبۃ المدینہ،تاریخِ مشائخِ قادریہ رضویہ برکاتیہ، ص،282، 301۔

[19] ... سلطانُ العاشقین، حضرت سیّد شاہ بَرَکَتُ اللہ مارہروی علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی ولادت 1070 ھ کو بلگرام (اودھ، یوپی) ہند میں ہوئی۔ 10 محرَّمُ الحرام 1142 ھ کو مارہرہ مطہرہ (ضلع ایٹہ، یوپی) ہند میں وصال فرمایا۔ آپ عالمِ باعمل، شیخ المشائخ، مصنفِ کتب، صاحبِ دیوان شاعر، عوام و خواص کے مرجع اور بانیِ خانقاہ برکاتیہ ہیں۔(تاریخ خاندان برکات، ص12تا17)

[20] ... زبدۃ الواصلین، حضرت سیّد شاہ حمزہ مارہروی علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی ولادت 1131ھ مارہرہ شریف (یوپی) ہند میں ہوئی اور یہیں 14 محرَّمُ الحرام 1198ھ کو وصال فرمایا، آپ کا مزار ”درگاہ شاہ بَرَکَتُ اللہ“ کے دالان میں شرقی گنبد میں ہے۔ آپ عالمِ باعمل، عظیم شیخِ طریقت، کئی کتب کے مصنف اور مارہرہ شریف کی وسیع لائبریری کے بانی ہیں۔(تاریخ خاندان برکات، ص20تا23)

[21] ...شمس مارَہرہ، غوثِ زماں، حضرت سیّد شاہ ابو الفضل آلِ احمد اچھے میاں مارَہروی قادری علیہ رحمۃ اللہ الوَالی کی ولادت 1160ھ کو مارَہرہ مطہرہ (ضلع ایٹایوپی) ہند میں ہوئی، وصال 17 ربیع ُالاوّل 1235ھ کو یہیں فرمایا۔ آپ جَیِّد عالمِ دین، واعِظ، مصنّف اور شیخِ طریقت تھے، آدابُ السالکین اور آئینِ احمدی جیسی کتب آپ کی یادگار ہیں۔ آپ سلسلہ قادریہ رضویہ کے 36ویں شیخِ طریقت ہیں۔ (احوال و آثارِ شاہ آل ِاحمد اچھے میاں مارہروی، ص26)

[22]... تاریخ خاندان برکات، ص37تا46،مشائخ مارہرہ کی علمی خدمات ،221

[23]...آپ کی یہ چاروں تصانیف تفسیرِ عزیزی، بُستانُ المُحدّثین ، تحفۂ اِثنا عشریہ اورعجالہ نافعہ فارسی میں ہیں ، تحفہ اثنا عشریہ کو بہت شہرت حاصل ہوئی ،اس کا موضوع رد رفض ہے ، تفسیر عزیزی کا نام تفسیر فتح العزیز ہے ،جو چار جلدوں پر مشتمل ہے ،بستان المحدثین میں محدثین کے مختصر حالات دیئے گئے ہیں جبکہ آپ کا رسالہ عجالہ نافعہ فن حدیث پر ہے جس میں آپ نے اپنی اسناد و اجازات کو بھی ذکر فرمایا ہے، اسکے 26صفحات ہیں ۔

[24]... الاعلام للزرکلی، 4/ 14۔ اردو دائرہ معارفِ اسلامیہ، 11/634

[25]...حضرت مولانا شاہ عبد الرحیم دہلوی کی ولادت 1054 ھ میں پھلت (ضلع مظفر نگر ، یوپی ، ہند ) میں ہوئی اور وصال 12صفر1131ھ کو دہلی میں فرمایا ،آپ جید عالم دین ، ظاہری و باطنی علوم سے آگاہ، صوفی بزرگ اور محدث وقت تھے ،علم فقہ میں بھی عبور رکھتے تھے ، فتاوی عالمگیری کی تدوین میں بھی شامل رہے ،کئی سلاسل کے بزرگوں سے روحانی فیضان حاصل کیا ، سلسلہ قادریہ ، سلسلہ نقشبندیہ، سلسلہ ابو العلائیہ، سلسلہ چشتیہ اور سلسلہ قادریہ قابل ذکر ہیں۔ ( انفانس العارفین،21،22،198)

[26]...ان چار کتب فتح الرحمن فی ترجمہ القرآن، الفوز الکبیر فی اصول التفسیر، مؤطا امام مالک کی دو شروحات المصفیٰ ،المسوّی، کا موضوع نام سے واضح ہے، آپ نے اپنی تصنیف حجۃ اللہ البالغہ میں احکام اسلام کی حکمتوں اور مصلحتوں کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے ،اس میں شخصی اور اجتماعی مسائل کو بھی زیرِ بحث لایا گیا ہے ،کتاب ازالۃ الخفاء رد رفض پر ہے ،آپ کے رسالے الانتباہ فی سلاسل اولیاء اللہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ عقائد و معمولاتِ اہل سنت پر کار بند تھے،آپ کی آخری دونوں تصانیف آپ کی اسناد و اجازات اور آپ کے مشائخ کے تذکرے پر مشتمل ہیں ۔

[27]... الفوز الکبیر،7،8،شاہ ولی اللہ محدث کے عرب مشائخ ،23

[28] ... قطب زماں ،حضرت سید صفی الدین احمد قشاشی بن محمد بن عبد النبی یونس قدسی مدنی حسینی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت12ربیع الاول 991ھ مطابق1583ء کو مدینہ منورہ میں ہوئی ،آپ حافظ قرآن، شافعی عالم دین ،عرب و عجم کے تقریبا سو علما و مشائخ سے مستفیض،سلسلہ نقشبندیہ کے شیخ طریقت ، 70 کے قریب کتب کے مصنف،نظریہ وحدۃ الوجود کے قائل و داعی تھے ۔آپ نے 19 ذو الحجہ 1071ھ مطابق 1661ء کو مدینہ شریف میں وصال فرمایا اور جنت البقیع میں مدفون ہوئے ،تصانیف میں روضہ اقدس کی زیارت کے لیے سفرِ مدینہ کے اثبات پر کتاب ’’ الدرۃ الثمینۃ فیما لزائر النبی الی المدینۃ‘‘آپ کی پہچان ہے۔( الامم لایقاظ الھمم ،125تا127،شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے عرب مشائخ،8تا10،42)

[29]...مُجدّدِ وقت حضرت سیّد محمد بن عبد الرسول بَرْزَنْجی مَدَنی شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت شہرزُور (صوبہ سلیمانیہ، عراق) 1040 ھ میں ہوئی اور یکم محرم1103 ھ کو مدینۂ منوّرہ میں وصال فرمایا اور جنّتُ البقیع میں دفن ہوئے۔آپ حافظِ قراٰن، جامعِ معقول و منقول، علامۂ حجاز، مفتیِ شافعیہ، 90 کتب کے مصنّف، ولیِ کامل اور مدینہ شریف کے خاندانِ بَرْزَنجی کے جدِّ امجد ہیں۔ (الاشاعۃ لاشراط الساعۃ، ص13، تاریخ الدولۃ المکیۃ، ص59)

[30]... خاتم المحدثین حضرت امام عبد اللہ بن سالم بصری شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 1049 ھ کو مکہ میں ہوئی اور یہیں 4 رجب 1134ھ کو وصال فرمایا، جنۃ المعلی میں دفن کئے گئے، بصرہ میں نشو و نما پائی، پھر مکہ شریف میں آکر مقیم ہوگئے،آپ مسجد حرام شریف میں طلبہ کو پڑھایا کرتے تھے ، زندگی بھر یہ معمول رہا،کثیر علما نے آپ سے استفادہ کیا،آپ جید عالم دین،محدث و حافظ الحدیث اور مسند الحجاز تھے، کئی کتب تصنیف فرمائیں جن میں سے ”ضیاء الساری فی مسالک ابواب البخاری یادگار ہے۔ (مختصر نشر النور، ص290تا292، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے عرب مشائخ ، 18 تا 20 )

[31]... اعلام للزرکلی،304/5، سلک الدرر،24/4

[32]... سلک الدرر فی اعیان القرن الثانی عشر، 1/9، اعلام للزرکلی، 1/35، البدر الطالع بمحاسن من بعد قرن السابع، 1/11

[33]... امتاَعُ الفُضَلاء بتَراجِم القرّاء،2/135تا139، خلاصۃ الاثر فی اعيان القرن الحادی العشر، 2/210

[34] امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے عالم برزخ کے بارے میں رسالہ منظومۃ القبور لکھا ، علامہ احمد بن خلیل سبکی رحمہ اللہ علیہ نے اس کی شرح فتح الغفور کے نام سے تحریر فرمائی ، دار النوادر بیروت اور دار المنہاج جدہ عرب نے اسے شائع کیا ہے ۔

[35]... خلاصۃ الاثر فی اعیان القرن الحادی عشر، 1/185

[36]... شذرات الذھب، 8/474، الاعلام للزرکلی، 6/6، معجم المؤلفین، 3/83

[37] ... الدقائق المحكمة قراءت کی مشہور کتاب مقدمہ جزریہ کی بہترین شرح ہے، اسے مختلف مطابع نے شائع کیا ہے ،مثلا مکتبۃ ضیاء الشام دمشق نے اسے 248 صفحات پر شائع کیا ہے ۔

[38] ...تحفۃ الباری کا دوسرا نام منحۃ الباری ہے ،یہ بخاری شریف کی بہترین شرح ہے ، دار الکتب العلمیہ بیروت نے اسے 7 جلدوں میں شائع کیا ہے ۔

[39] ... اسنی المطالب فقہ شافعی کی کتاب ہے ،اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جس نے اسے پڑھا نہیں وہ شافعی ہی نہیں ،دار الکتب العلمیہ بیروت نے اسے 9 جلدوں میں شائع کیا ہے۔

[40] ...شذرات الذھب، 8/174تا 176، النور السافر،ص172تا177، الاعلام للزرکلی، 3/ 46

[41] ...علامہ عبد الوهاب بن احمد بن وهبان دمشقی(متوفی،768ھ) نے فقہ حنفی میں منظوم کتاب ’’ عقد القلائد فی حل قيد الشرائد‘‘ تحریر فرمائی علامہ ابن الفرات نے اس کا خلاصہ نخبة الفوائد المستنتجة تحریر فرمایا۔

[42] ... الضوء اللامع، ج4ص 186، اعلام للزرکلی، ج3، ص348

[43] ...شیخ عمر بن حسن مراغی نے اپنی اسناد و روایات کا مجموعہ تیار فرمایا جو مشیخۃ الامام ابی حفص عمر المرغی کے نام سے معروف ہے ،شرکۃ دار البشائر الاسلامیہ بیروت نے اسے 64 صفحات پر 2003 ء میں شائع کیا ہے ۔

[44] ... معجم الشیوخ سبکی،1/312 ، الدرر الكامنہ، 3/ 159،شذرات الذہب،8/444

[45] ... شذرات الذهب 5/ 414، تاریخ الاسلام الذہبی، 15/565

[46] ... اعلام للزرکلی،5/61، سير اعلام النبلاء 21/507

[47] ... سیر اعلام النبلاء،20/273

[48] ...طبقات شافعیہ سبکی،5/327،سیر اعلام النبلاء،19/32، التقييد لمعرفة رواة السنن و المسانيد،ص442

[49] ...سیر اعلام النبلاء،17/258، اللباب فی تہذیب الانساب 1 / 268 ،العبر فی خبر من غبر، 3 / 108

[50] ... سیر اعلام النبلاء،15/537 ،العبر فی خبر من غبر، 2 / 74، الوافی بالوفيات، 2 / 31

[51] ...شمائل ترمذی کا نام ’’الشمائل المحمدیہ ‘‘ہے ۔اس میں نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی عادات و خصائل کا خوبصورت بیان ہے اسے پڑھ کر آپ کی سیرتِ طیبہ کا ہر ہر گوشہ نظروں میں آجاتا ہے ، امام ترمذی نے 56 ابواب میں 97 صحابہ و صحابیات سے روایت شدہ 415 احادیث جمع فرمائی ہیں ۔ ان میں سے تین چوتھائی احادیث وہ ہیں جو امام ترمذی نے اپنی جامع ترمذی میں بھی ذکر کی ہیں ، ایک چوتھائی دیگر احادیث ہیں ۔اس کے کئی تراجم اور شروحات لکھی گئی ہیں ۔

[52] ... جامع الاصول ،1/129،محدثین عظام حیات و خدمات، ص 357 تا 363

[53] ...جامع ترمذی ،4/115،حدیث:2267،تہذیب التہذیب ، 6/65 ،66، فیوض النبی شرح جامع ترمذی ،1/56

[54] ... حافظ الحدیث حضرت سیّدنا امام ابو داؤد سلیمان بن اَشْعَث ازدی سجستانی بصری، محدّث، فقیہ، صوفی ،متقی و زاہِد اور استاذُ المحدّثین تھے۔ 202 ہجری کو سجستان (صوبہ سیستان) ایران میں پیدا ہوئے ،ابتدائی تعلیم کے بعد علم حدیث کی طرف متوجہ ہوئے ، اس کے لیے خراسان ، عراق ، شام ،مصر اور حجاز مقدس کے سفر فرمائے اور 300سے زائد محدثین سے اکتساب فیض کیا، بصرہ کے امیر نے آپ کے لیے بصرہ میں ایک عظیم الشان مدرسہ قائم کیا ، 16شوال 275ہجری کو بصرہ (عراق) میں وِصال فرمایا، آپ کو امیرُ المؤمنین فی الحدیث حضرتِ سیّدنا سفیان ثَوْری رحمۃُ اللہ علیہ کے پہلو میں دفن کیا گیا۔ صِحاح ستّہ میں شامل سُننِ ابی داؤد آپ کی 22کتب میں سے ایک ہے جو آپ کی عالمگیر شہرت کا سبب ہے۔ (سیر اعلام النبلاء، 13/203)

[55] ...محدث کبیر حضرت سیدنا امام ابو عبد اللہ محمد بن یزید ابنِ ماجہ قَزْوِینی کی پیدائش ایران کے مشہور شہر قَزْوِیْن میں 209ھ میں ہوئی اور یہیں 22 رَمَضان 273ھ میں وفات پائی۔آپ مشہور مُحَدِّث، مُفَسِّر اور مُؤَرِّخ تھے ،صحاح ستہ میں شامل کتاب ”سنن ابن ماجہ“ آپ ہی کی تالیف کردہ ہے۔ (البدایہ و النہایہ، 7/429، بستان المحدثین، ص300،298)

[56] ... سیر اعلام النبلاء،11/176،رقم، بغیۃالطلب فى تاريخ حلب،4/1831

[57] ... امام الْمُعبّرین حضرتِ سیّدُنا محمد بن سیرین بصری کی ولادت 33ھ میں ہوئی اور وصال 10 شوال 110ھ میں بصرہ میں ہوا۔آپ تابعی،ثقہ راویِ حدیث، عظیم فقیہ،امام العلماء،تقویٰ و ورع کے پیکر اور تعبیر الرویاء (خوابوں کی تعبیر) کے ماہر تھے۔(الطبقات الکبریٰ، 7/143تا 154، تاریخِ بغداد، 2/422،415(

[58] ... تاريخ الاسلام ،11/275، تہذيب الكمال، 21/384

[59] ...ابن عساکر،9/353،332،سیراعلام النبلاء،3/395، طبقات ابن سعد،7/14

[60] ...مدارج النبوت ،2/14،آخری نبی کی پیاری سیرت ، 143تا145


مقالے کی PDF کے لئے ڈاؤن لوڈ پر کلک کریں Download PDF

امام المحدثین کی سندسنن ابوداؤد

حافظ الحدیث حضرت سیّدنا امام ابو داؤد سلیمان بن اَشْعَث ازدی سجستانی بصری (ولادت 202ھ، وفات16شوال 275ھ)رحمۃ اللہ علیہ نے 241ھ سے قبل کتاب السنن (المعروف سنن ابو داؤد) کے نام سے احادیثِ احکام کا پہلامجموعہ تیار کیا،جو فقہامیں بالخصوص اورعوام میں بالعموم مقبول ہے،آپ نے پانچ لاکھ احادیث کے اپنے ذخیرہ سے پانچ ہزار دوسو چوہتر (5274) احادیث کا انتخاب کرکے اسے تیارکیاہے۔ ([1])مراسیل کے علاوہ اس کے سترہ (17) اجزاء ہیں،امام ابوسلیمان خطابی([2]) رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ احکام دین پر مشتمل ایسی کتاب پہلے تصنیف نہیں کی گئی، لوگوں میں اسے قبولیت عامہ سے نوازاگیا ہے، اہل عراق و مصر، بلادمغرب اوردنیابھرکے لوگ اس پر اعتماد کرتے ہیں۔ ([3])سنن ابوداؤد صحاح ستہ میں سے ایک اور دورۂ حدیث شریف کا اہم جزہے۔

امام المحدثین حضرت علامہ مفتی سیِّد محمد دِیدار علی شاہ مَشْہدی نقشبندی قادِری مُحدِّث اَلْوَری رحمۃ اللہ علیہ(ولادت1273ھ مطابق 1856ھ،وفات 22رجب المرجب 1354ھ مطابق 20اکتوبر 1935ء) نے 1295ھ مطابق 1878ء میں افضل المحدثین علامہ احمدعلی سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ سے دورۂ حدیث کرکے اسانیداحادیث بشمول سنن ابوداؤدکی اجازت حاصل کی۔([4]) انھوں نے علامہ شاہ محمد اسحاق دہلوی مہاجر مکی سے اورانھوں نےسراج الہند علامہ شاہ عبدالعزیزمحدث دہلوی سے،اسی طرح امام المحدثین مفتی سیدمحمددیدارعلی شاہ صاحب نے ذوالحجہ 1337ھ کو اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان رحمۃ اللہ علیہ سے جملہ اجازات و اسانید حاصل کیں([5])اوراعلیٰ حضرت نے اپنے مرشد حضرت شاہ آل رسول مارہروی سے اور انھوں نے سراج الہندعلامہ شاہ عبدالعزیز سے اورسراج الہند تحریر فرماتے ہیں :

(میرے والدگرامی علامہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے ) حضرت شیخ ابو طاہر (سے،انھوں ) نے اسے (یعنی اجازت ِسندسنن ابوداؤد کو) شیخ حسن عجیمی)[6]( سے حاصل کیا اور انہوں نے شیخ عیسیٰ مغربی سےاور انہوں نے شیخ شہاب الدین احمد بن محمد خفاجی سے اور انہوں نے بدرالدین حسن کرخی سے ، جو اپنے وقت کے مستند تھے اور انہوں نے حافظ ابوالفضل جلال الدین سیوطی سے اور انہوں نے شیخ محمد بن مقبل حلبی سے اور انہوں نے شیخ صلاح بن ابی عمر المقدسی سے اور انہوں نے ابوالحسن فخرالدین علی بن محمد بن احمد ابن البخاری سے اور انہوں نے مسند الوقت ابو حفص عمر بن محمد بن طبرز د بغدادی سے اور انہوں نے دو شیخوں بزرگوار ابراہیم بن محمد بن منصور الکرخی اور ابوالفتح مفلح([7])بن احمد بن محمد الدومی سے (جو منسوب تھے طرف دومۃ الجندل سے اور وہ شام و عراق کے درمیان ایک موضع بطور حد فاصل کے واقع ہے) اور ان ہر دو شیوخ نے حافظ ابو بکر احمد بن علی بن ثابت خطیب بغدادی مؤلف تاریخ بغداد([8])سے، جن کی علم حدیث میں بے شمار تصانیف ہیں، انہوں نے ابو عمر قاسم بن جعفر بن عبد الواحد ہاشمی سے اور انہوں نے ابو علی محمد بن احمد لولوی سے اور انہوں نے صاحبِ کتاب علامہ ابوداؤد سلیمان بن اشعث سجستانی سے(اجازت ِسندسنن ابوداؤدحاصل کی ([9])

سند ِسنن ابوداؤد کےرواۃ و شیوخ کا مختصرتعارف

امام المحدثین مفتی سیدمحمد دیدارعلی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کی سند ِسنن ابوداؤد بطریق ِعلامہ احمدعلی سہارنپوری اوربطریق امام احمدرضا 25واسطوں سے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے مل جاتی ہے، ذیل میں ان تمام محدثین کا مختصرتعارف بیان کیا جاتاہے،بعض سطحوں میں ایک سے زیادہ بھی شیوخ ہیں ان کا بھی تعارف بھی بیان کردیا گیا ہےمگرانہیں نمبرشمارنہیں دیاگیا بلکہ اسٹارلگادیا گیا ہے :

۞امامُ الْمُحدِّثین حضرت مولانا سیِّد محمد دِیدار علی شاہ مَشْہدی نقشبندی قادِری مُحدِّث اَلْوَری رحمۃ اللہ علیہ، جَیِّد عالِم، اُستاذُالعُلَما، مفتیِ اسلام اور اکابرین اہل سنّت سے تھے۔آپ 1273ھ مطابق 1856ھ کو اَلْوَر (راجِسْتھان، ہِند )میں پیدا ہوئے اور لاہورمیں 22رجب المرجب 1354ھ مطابق 20،اکتوبر1935ء کو (بروزپیر)نمازعصرکے سجدے میں وصال فرمایا، جامع مسجدحنفیہ محمدی محلہ اندرون دہلی گیٹ لاہورسے متصل جگہ میں تدفین کی گئی۔ دارُالعُلُوم حِزْبُ الْاَحْناف لاہور([10]) اور فتاویٰ دِیداریہ([11]) آپ کی یادگار ہیں۔( [12])

(1)افضل المحدثین علامہ احمدعلی سہارنپوری کی ولادت1225ھ مطابق 1810کو ہوئی اور 6 جمادَی الاُولیٰ 1297ھ مطابق 16اپریل 1880ء کوتقریباً بہتر(72) سال کی عمر میں داعیِ اجل کو لبیک کہا۔ آپ اپنے آبائی قبرستان متصل عید گاہ سہارنپور میں سپردِ خاک کئے گئے۔آپ حافظِ قرآن، عالمِ اجل، استاذُالاساتذہ، مُحدّثِ کبیر اور کثیرالفیض شخصیت کےمالک تھے، اشاعتِ احادیث میں آپ کی کوشش آبِ زرسےلکھنےکےقابل ہے، آپ نےصحاح ستہ اوردیگرکتب احادیث کی تدریس، اشاعت، حواشی اوردرستیٔ متن میں جو کوششیں کیں وہ مثالی ہیں ۔([13])

(2)علامہ شاہ محمد اسحاق دہلوی مہاجر مکی کی پیدائش ذوالحجہ 1197ھ مطابق 1782ھ کو دہلی میں ہوئی ،یہ حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کےنواسے ،شاگرد اورجانشین تھے، پہلے دہلی پھرمکہ شریف میں تدریس کرتے رہے، وفات رجب 1262ھ کو مکہ شریف میں ہوئی اورجنت المعلیٰ میں دفن کئے گئے ۔ ([14])

(3)اعلیٰ حضرت، مجددِدین وملّت، امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 10شوال 1272ھ مطابق6جون 1856ءکو بریلی شریف(یو۔پی) ہند میں ہوئی، یہیں 25 صفر 1340ھ مطابق28،اکتوبر1921ءکو وصال فرمایا۔ مزار جائے پیدائش میں مرجعِ خاص و عام ہے۔آپ حافظِ قرآن، پچاس سے زیادہ جدیدوقدیم علوم کے ماہر، فقیہ اسلام، مُحدّثِ وقت،مصلحِ امت، نعت گوشاعر، سلسلہ قادریہ کے عظیم شیخ طریقت، تقریباً ایک ہزار کتب کے مصنف، مرجع علمائے عرب وعجم،استاذالفقہاوالمحدثین، شیخ الاسلام والمسلمین، مجتہدفی المسائل اور چودہویں صدی کی مؤثر ترین شخصیت کے مالک تھے۔ کنزالایمان فی ترجمۃ القرآن([15])،فتاویٰ رضویہ([16])، جدّ الممتارعلی ردالمحتار( [17]) اور حدائقِ بخشش([18]) آپ کی مشہور تصانیف ہیں۔([19])

(4)خاتِمُ الاکابِر ،قدوۃ العافین حضرت علامہ شاہ آلِ رسول مار ہَروی رحمۃ اللہ علیہ عالمِ باعمل،صاحبِ وَرَع وتقوی اورسلسلہ قادریہ برکاتیہ رضویہ کے شیخِ طریقت ہیں۔ آپ کی ولادت 1209ھ کو خانقاہ برکاتیہ مار ہرہ شریف (ضلع ایٹہ،یوپی) ہند میں ہوئی اور یہیں 18ذوالحجہ1296ھ کو وصال فرمایا،تدفین دلان شرقی گنبددرگاہ حضرت شاہ برکت اللہ([20])رحمۃ اللہ علیہ میں بالین مزارحضرت سیدشاہ حمزہ([21]) میں ہوئی ۔ آپ ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد حضرت سید شاہ آل احمد اچھے میاں مارہروی ([22])رحمۃ اللہ علیہ کے ارشاد پر سراج الہند حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃاﷲ علیہ کے درسِ حدیث میں شریک ہوئے۔ صحاحِ ستہ کا دورہ کرنے کے بعد حضرت محدث دہلوی قدس سرہ سے علویہ منامیہ کی اجازت اور احادیث و مصافحات کی اجازتیں پائیں،فقہ میں آپ نے دوکتب مختصرتاریخ اور خطبہ جمعہ تحریرفرمائیں ۔([23])

(5) سِراجُ الہند حضرت شاہ عبد العزیز محدّثِ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ علوم و فُنون کے جامع، استاذُ العلماء و المحدثین، مُفَسِّرِ قراٰن، مصنّف اور مفتیِ اسلام تھے، تفسیرِ عزیزی، بُستانُ المُحدّثین، تحفۂ اِثنا عشریہ اورعاجلہ نافعہ( [24])آپ کی مشہور کُتُب ہیں۔ 1159ہجری میں پیدا ہوئے اور 7 شوال 1239ہجری میں وِصال فرمایا، مزار مبارک درگاہ حضرت شاہ وَلِیُّ اللہ مہندیاں، میردرد روڈ، نئی دہلی ہند میں ہے۔([25])

(6)محدث ہندحضرت شاہ ولی اللہ احمدمحدث دہلوی فاروقی رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش 4شوال 1110ھ کو ہوئی اوریہیں29محرم 1176ھ مطابق 1762ء وصال فرمایا،تدفین مہندیاں، میردرد روڈ، نئی دہلی ہندمیں ہوئی،جو درگاہ شاہ ولی اللہ کے نام سے مشہور ہے، آپ نے اپنے والدگرامی حضرت شاہ عبدالرحیم دہلوی([26]) رحمۃ اللہ علیہ سے تعلیم حاصل کی، حفظ قرآن کی بھی سعادت پائی، اپنے والد سے بیعت ہوئے اور خلافت بھی ملی،والد کی رحلت کے بعد ان کی جگہ درس وتدریس اور وعظ و ارشاد میں مشغول ہو گئے۔ 1143ھ میں حج بیت اللہ سے سرفراز ہوئے اور وہاں کے مشائخ سے اسناد حدیث و اجازات حاصل کیں۔ 1145ھ کو دہلی واپس آئے،آپ بہترین مصنف تھے، مشہورکتب میں فتح الرحمن فی ترجمہ القرآن فارسی، الفوز الکبیرفی اصول التفسیر،مؤطاامام ملک کی دو شروحات المصفیٰ فارسی،المسوّی عربی، حجۃ اللہ البالغہ فارسی، ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء فارسی، الانتباہ فی سلاسل اولیاء اللہ فارسی، انسان العين فی مشايخ الحرمين اورالارشادالی مہمات الاسناد عربی)[27] (مشہورکتب ہیں۔([28])

(7) حضرت شیخ جمال الدین ابوطاہرمحمدبن ابراہیم کورانی مدنی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت مدینہ شریف میں 1081ھ مطابق 1670ء کو ہوئی اوریہیں 1145ھ مطابق 1733ء کو وصال فرمایا اورجنت البقیع میں دفن کئے گئے،آپ جیدعالم دین،محدث ومسند،مفتی ٔ شافعیہ مدینہ منورہ،علامہ شیخ ابراہیم کردی آپ کے والدصاحب اورشیخ احمدقشاشی([29])نانامحترم تھے۔ والدصاحب کے علاوہ،مفتی شافعیہ مدینہ منورہ شیخ سیدمحمدبن عبدالرسول برزنجی([30])، شیخ عبداللہ بن سالم([31] )اور شیخ حسن بن علی عُجَیْمی سے اجازات حاصل کیں کئی کتب بھی لکھیں،جو،اَب تک مطبوع نہیں ہوسکیں، مکتبہ حرم مکی میں آپ کی ثبت کا مخطوط پانچ اوراق میں محفوظ ہے ۔([32])

(8)عالمِ کبیر، مسند العصرحضرت سیّدُنا شیخ ابو الاسرار حسن بن علی عُجَیْمی حنفی مکی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت10ربیع الاول 1049ھ مکۂ مکرمہ میں ہوئی۔ 3شوَّالُ المکرَّم 1113ھ کو وصال طائف (عرب شریف) میں فرمایا، تدفین احاطۂ مزار حضرت سیّدُنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما میں ہوئی۔ آپ عالم اسلام کے سوسے زائدعلماوصوفیا کے شاگرد، حافظ قراٰن، محدثِ شہیر،فقیہ حنفی،صوفیِ کامل،مسندِ حجاز،استاذالاساتذہ، اور 60 سے زائد کتب کے مصنف تھے،آپ نے طویل عرصہ مسجدحرم،مسجدنبوی اورمسجدعبداللہ بن عباس (طائف) میں تدریس کی خدمات سرانجام دیں۔([33])

(9) مسندالعصرحضرت شیخ ابومہدی عیسی بن محمد جعفری ہاشمی ثعلبی مالکی کی ولادت 1020ھ کو زواوۃ (الجزائر، افریقہ)میں ہوئی اور وصال مکہ شریف میں24 رجب 1080ھ میں ہوا،آپ محدث،مسند،مرشد،فقیہ مالکی،مدرس حرم مکی،امام الحرمین،عالم مغریبین ومشرقین،زہدوتقویٰ کے مالک اورصاحب تصنیف تھے،كنز الروایۃ المجموع فی درر المجاز و يواقیت المسموع([34]) آپ کی یادگارتصنیف ہے۔ ([35])

(10)قاضی علّامہ شہابُ الدّین احمد بن محمد خَفَاجی مصری حنفی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 977ھ سَرْیَاقَوْس (نزد قاہرہ) مصرمیں ہوئی۔12 رَمَضان المبارک1069 ھ کو مصر میں وصال فرمایا۔آپ حنفی عالمِ دین،صاحبِ دیوان شاعر،بہترین ادیب،قاضی القُضاۃ اور درجن سے زائدکتب کے مصنّف ہیں۔آپ کی کتاب نسیمُ الرّیاض فی شرح الشفاء للقاضی عیاض([36]) کو شہرت حاصل ہوئی۔ ([37])

(11)شیخ بدرالدین حسن کرخی حنفی رحمۃ اللہ علیہ نے امام جلالُ الدین ابوالفضل عبدالرحمن سیوطی شافعی سے علم حاصل کیا ،زندگی بھرحدیث پاک کی درس وتدریس میں مصروف رہے حتی کہ مصرکے مسندالمعمر،محدث وقت اورعلامہ دہرقرارپائے ، غالباًآپ کی پیدائش نویں ہجری کے آخرمیں اور وفات دسویں صدی کے آخرمیں ہوئی ، مزید معلومات نہ مل سکیں ۔

(12) مُصَنِّف ِ کُتُبِ کثیرہ، امام جلالُ الدین ابوالفضل عبدالرحمن سیوطی شافعی رَحْمَۃاللہ عَلَیْہ عالم اکبر،مُحدّثِ کبیر، مجددالعصر،عاشقِ رسول اورصوفی باصفا تھے۔ 600سے زائد کتب تصنیف فرمائیں ۔ جن میں تفسیر دُرِّمنثور([38])، اَلْبُدورُ السّافرة اور شرح الصدور([39]) وغیرہ مشہور ہیں۔ مصر کے شہر قاہرہ کے محلہ سیّوط میں 849ھ میں پیدا ہوئے اور یہیں 19جمادی الاولیٰ911ھ میں وصال فرمایا، آپ کا مزار مَرجعِ خلائق ہے۔([40])

(13)شمس الملّت والدین حضرت شیخ ابوعبداللہ محمدبن الحاج مقبل حلبی کی ولادت حلب دمشق میں 779ھ میں ہوئی،آپ نے یہیں پرورش پائی،یہاں کے علماسے خوب استفادہ کیا،خصوصا علامہ صلاح الدین محمد مقدسی صالحیرحمۃ اللہ علیہ سے درس حدیث لیا ،ان کی علم دین سے لگن اورمحنت نے انہیں طلبہ علم دین کا مرجع بنادیا ہے،طویل عرصہ تک آپ تدریس حدیث میں مصروف رہے، رجب 870ھ کو حلب شام میں آپ نے وصال فرمایا ۔ ([41])

(14) حضرت شیخ ابوعبداللہ صلاح الدین محمد بن احمد بن ابراہیم مقدسی صالحی کی ولادت 684ھ اوروفات24شوال 780ھ میں ہوئی، اکابرین اہل سنت سے علوم اسلامیہ میں مہارت حاصل کی اوراسنادوجازات حاصل کیں،حصول علم کے بعد آپ اپنے دادا حضرت ابوعمرکے مدرسے کی مسندپر بیٹھے اورایک زمانہ درس وتدریس میں مشغول ہوگئے یہاں تک مسندالعصرکے لقب سے ملقب ہوئے،آپ وہ ہستی ہیں جنہوں نے امام ابن بخاری فخرالدین علی بن احمد مقدسی رحمۃ اللہ علیہ سے احادیث کی اجازت خاصہ حاصل کی، یوں آپ کی یہ سندسماع متصل بشرط صحیح نوواسطوں سے نبی کریم سے مل جاتی ہے،کئی خوش نصیبوں بالخصوص اہل مصرنے آپ کی خدمت میں حاضرہوکریہ سند حاصل کی ۔([42])

(15) محدث اسلام، ابن بخاری حضرت امام فخرالدین ابوالحسن علی بن احمدمقدسی صالحی حنبلی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 595ھ کو ایک علمی گھرانے میں ہوئی، اورآپ نے ربیع الآخر690ھ میں وصال فرمایا، عالم وفقیہ، فاضل وادیب ،صاحب وقاروہیبت،تقوی وورع کے پیکر اورعلم وعقل میں کامل تھے،محدثین میں آپ بہت مکرم ومحترم تھے،آپ کو مسند العالم کہاجاتاہے،عرصہ دارازتک خدمت قرآن وسنت میں مصروف رہے، شام، مصر اور عراق کے محدثین نے آپ سے استفادہ کیا۔ )[43](

(16) مُسنِدُ الوقت حضرت شیخ ابن طبَرْزَدابوحفص عمربن محمد دارقزی بغدادی ذوالحجہ 516ھ میں پیداہوئے اور87سال کی عمرمیں 9رجب 607ھ میں وصال فرمایا ،آپ نے اپنے بڑے بھائی اوردیگراساتذہ سے علم دین حاصل کیا اورزندگی بھرحدیث پاک کی ترویج واشاعت میں مصروف رہے،عراق وشام کے محدث وشیخ الحدیث قرارپائے،آپ خوش اخلاق وظریف الطبع تھے،آپ سے استفادہ کرنے والوں کی تعدادکثیرہے ۔([44])

(17) حضرت شیخ ابوبدرابرہیم بن محمد کرخی مسندالحدیث،عالم وفقیہ ،نیک اورثقہ راوی حدیث تھے ،آپ نےدیگراساتذہ کے علاوہ مشہورفقیہ ابواسحاق شیرازی([45])سے فقہ کی تعلیم حاصل کی اورحضرت امام ابوبکرخطیب بغدادی سے حدیث کی سماعت کی، آپ کی ولادت تقریبا 450ھ اوروفات 29ربیع الاول 539ھ کو بغدادمیں ہوئی ۔([46])

(18) حضرت شیخ جلیل ابوالفتح مفلِح بن احمد دُومی بغدادی کی ولادت 457ھ کو اور وصال12محرم 537ھ میں ہوا،آپ کاتعلق دومۃ الجندل (منطقۃ الجوف،عرب) سے تھا، آپ محدث کبیر،صدوق اورحسن الحدیث تھے،کرخ کے فقہاسے آپ کی مشاورت ہوتی تھی ۔ آپ سے استفادہ کرنے والوں کی تعدادکثیرہے۔([47])

(19) خطیبِ بغدادی حضرت شیخ ابوبکر احمد بن علی شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 392ھ موضع غزیہ حجاز کے ایک علمی گھرانے میں ہوئی اور 7ذوالحجہ463ھ کو وصال فرمایا، تدفین بغداد کے قبرستان بابِ حرب(مقبرہ قریش) میں حضرت بشر حافی( [48])رحمۃ اللہ علیہ کے پہلو میں ہوئی۔ آپ محدثِ وقت، مؤرخِ اسلام، مفتیِ زمانہ، مدرس جامعُ المنصور، اچّھے قاری، فصیح الالفاظ اور ماہرِ ادب تھے، بعض اوقات شعر بھی کہا کرتے تھے۔ آپ کی تصانیف میں تاریخِ بغداد آپ کی شہرت کا سبب ہے۔([49])

(20) حضرت شیخ ابو عمر قاسم بن جعفرہاشمی عباسی بصری کی ولادت رجب 322ھ اور وصال 19ذیقعدہ 414ھ میں ہوا،آپ امام، فقیہ، امین وثقہ راوی حدیث،مسندالعراق اور بصرہ کے قاضی تھے۔([50])

(21) حضرت امام ابوعلی محمدبن احمدلؤلؤی بصری نے ابتدائی تعلیم مختلف علماء سے حاصل کرنے کے بعد امام ابوداؤدسلیمان بن اشعث سجستانی کی صحبت اختیار کی اوربیس سال آپ کی خدمت میں رہے حتّٰی کہ آپ کو وَرَّاق ابوداؤد کہاجانے لگا،ہندوحجاز،مشرق و مغرب بلکہ اکثرممالک میں آپ کی راویت کردہ سنن ابواؤد معروف ہے۔آپ سے محدثین کی ایک جماعت نے سندحدیث حاصل کی۔آپ کا وصال 333ھ میں ہوا ۔([51])

(22) حافظ الحدیث حضرت سیّدنا امام ابو داؤد سلیمان بن اَشْعَث ازدی سجستانی بصری، محدّث، فقیہ،صوفی،متقی و زاہِد اور استاذُ المحدّثین تھے۔ 202 ہجری کو سجستان (صوبہ سیستان) ایران میں پیدا ہوئے ،ابتدائی تعلیم کے بعد علم حدیث کی طرف متوجہ ہوئے، اس کے لیے خراسان،عراق،شام،مصراورحجازمقدس کے سفرفرمائے اور 300سے زائدمحدثین سے اکتساب فیض کیا، بصرہ کے امیر نے آپ کے لیےبصرہ میں ایک عظیم الشان مدرسہ قائم کیا،جس میں دیگرطلبہ کے ہمراہ اس کےبچے بھی پڑھتے تھے، 16شوال 275ہجری کو بصرہ (عراق) میں وِصال فرمایا، آپ کو امیرُ المؤمنین فی الحدیث حضرتِ سیّدنا سفیان ثَوْری([52])رحمۃُ اللہ علیہ کے پہلو میں دفن کیا گیا۔ صِحاح ستّہ میں شامل سُننِ ابی داؤد آپ کی 22کتب میں سے ایک ہے جوآپ کی عالمگیر شہرت کا سبب ہے۔ ([53])

۞ سنن ابوداؤد شریف میں ہرحدیث پاک سند کے ساتھ ہے، پہلی سند کے روایوں کا مختصر تعارف ملاحظہ کیجئے:

(23)شیخ الاسلام حضرت ابوعبدالرحمن عبداللہ بن مسلمہ بن قعنب حارثی مدنی بصری کی ولادت 130ھ میں اوروصال6 محرم 221ھ کو مکہ شریف کے اطراف میں ہوا،آپ ایک عرصے تک مدینہ شریف میں امام مالک کی صحبت میں رہے،آپ شیخ الاسلام،حافظ الحدیث، عالم وفاضل، عابدوزاہد،مستجاب الدعوات اورراویت حدیث کے اعتبارسے حجت و ثقہ تھے، امام محمد بن اسماعیل بخاری([54])،امام مسلم بن حجاج نیشاپوری([55]) اورامام ابوداؤدسلیمان بن اشعث سجستانی وغیرہ اکابرین آپ کے شاگردتھے ۔ آپ طویل عرصہ بصرہ پھرمکہ شریف میں ترویج حدیث میں مصروف رہے ۔([56])

(24)محدث کبیرحضرت ابومحمدعبدالعزیزبن محمد دراوردی مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے خاندان کا تعلق خراسان کے علاقے دراوردسے ہے پھریہ خاندان مدینہ شریف حاضرہو اوروہیں سکونت اختیارکرلی ، حضرت عبدالعزیزکی پیدائش مدینہ منورہ میں ہوئی، انھوں نے مدینہ شریف میں علم دین حاصل کیا اوراحادیث مبارکہ سماعت کیں ، انہیں حضرت امام جعفر صادق([57]) کی صحبت بھی نصیب ہوئی،آپ سے خلق کثیرنے احادیث مبارکہ سماعت کیں جن میں حضرت سفیان ثوریجیسے اکابرین اسلام بھی ہیں،آپ کا وصال 187ھ کو مدینہ منورہ میں ہوا۔آپ محدث وقت،فقیہ زمانہ،ثقہ وحجت روای حدیث اور کثیرالحدیث تھے۔([58])

(25)حضرت امام ابوالحسن محمد بن عمرو بن علقمہ لیثی رحمۃ اللہ علیہ مشہورروای حدیث ہیں،آپ مدینہ شریف کے رہنے والے تھے بصرہ میں بھی مقیم رہے،آپ محدث مدینہ و عراق اورکثیرالحدیث تھے،آپ روایت کے اعتبارسے صدوق حسن الحدیث کے درجے پر فائزتھے،آپ نے مدینہ شریف میں 144یا 145ھ میں وصال فرمایا،حضرت سفیان بن عیینہ([59]) جیسے محدثین آپ کے شاگردتھے ۔([60])

(26)فقیہ مدینہ حضرت ابوسلمہ عبداللہ بن عبدالرحمن زہری قرشی رحمۃ اللہ علیہ عشرہ مبشرہ جلیل القدرصحابی رسول حضرت عبدالرحمن بن عوف([61]) رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے، حسن ظاہری وباطنی سے مالامال،مشہورفقیہ مدینہ،مجتہد،تابعی بزرگ،عالی مرتبت اورامام الوقت تھے۔عظیم المرتبت صحابہ کرام کی صحبت اورسماعت حدیث نے آپ کو امام حدیث بنادیا،فقیہ الامت حضرت عبداللہ بن عباس([62]) کی طویل صحبت کی وجہ سے آپ عظیم فقیہ بن گئےاورفقہائے سبعہ میں شمارہونے لگے،آپ بڑے ائمہ تابعین میں کثیرالعلم،جیدعالم دین،ثقہ راوی حدیث اورکثیرالحدیث تھے،آپ کچھ عرصہ مدینہ شریف کے قاضی بھی رہے۔آپ کی ولادت تقریبا 20ھ اور73سال کی عمرمیں وصال 104ھ کو مدینہ منورہ میں ہوا۔([63])

(27)حضرت مغیرہ بن شعبہ ثقفی رضی اللہ عنہ کی ولات طائف کے قبیلہ ثقیف میں ہوئی، آپ بڑے سر،طویل قد،بھورے بال اور مضبوط جسم کے مالک تھے،آپ کا شمار عرب کے ذہین ترین افرادمیں ہوتاہے، 5ھ غزوہ خندق میں مدینہ شریف میں حاضر ہوکر مسلمان ہوئے،یہیں سکونت اخیتارکی اور علم حدیث کے حصول میں مصروف رہے، دربار نبوی سے آپ کو ابوعیسی اوربعدمیں دربارفاروقی سے ابوعبداللہ کنیت عطاہوئی،آپ بیعت رضوان میں شامل تھے، بعدفتح مکہ طائف کے بت لات کوگرانے کی مہم میں شریک ہوئے، نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تدفین میں شریک تھے،خلافت صدیقی وفاروقی کی کئی مہمات میں اہم خدمات سرانجام دیں،کئی مرتبہ اسلامی لشکرکی جانب سے سفیربن کر ایرانیوں کے درباروں میں جاکربے باکی سے گفتگوکی، یہ یک بعددیگرے بحرین،بصرہ اور کوفہ کے گورنربنائے گئے،بنیادی طورپر آپ مجاہدوسپاہی، سپہ سالارومدبراوربہترین منتظم تھے مگرآپ کا علمی مقام بھی بہت بلندہے ،آپ سے 133احادیث مبارکہ مروی ہیں، آپ کا وصال سترسال کی عمرمیں شعبان 50ھ میں ہوا ۔([64])

۞ ہمارے پیارے آقاحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت 12ربیع الاول مطابق 20اپریل 571ء کو وادی بطحا مکہ شریف کے معززترین قبیلے قریش میں ہوئی اور 12ربیع الاول 11ھ مطابق 12 جون 632ء کو مدینہ منورہ میں وصال ظاہری فرمایا۔آپ وجہ ٔ تخلیق کائنات،محبوب خدا،امام المرسلین، خاتم النبیین اورکائنات کی مؤثرترین شخصیت کے مالک تھے،آپ نے 40 سال کی عمرمیں اعلان نبوت فرمایا ،13سال مکہ شریف اور10سال مدینہ شریف میں دین اسلام کی دعوت دی،اللہ پاک نے آپ پر عظیم کتاب قرآن کریم نازل فرمایا ۔اللہ پاک کے آپ پر بے شمار دُرُوداورسلام ہوں ۔([65])

حواشی



[1]... سنن ابوداؤد،1/22

[2] ... حضرت ابوسلیمان حَمدبن محمد بستی خطابی شافعی کی پیدائش 319ھ بست(صوبہ ہلمند،افغانستان)میں ہوئی اوریہیں 16ربیع الاخر388ھ کو وصال فرمایا،آپ محدث العصر، فقیہ شافعی، عالم کبیر،عابدوزاہداورمصنف کتب تھے،حصول علم دین کے لیےحجازمقدس،بغداد،بصرہ،خراسان،نیشاپور اوربلاد ما وراء النهرکے اسفارکئے ،ایک درجن سے زائدکتب میں شرح صحیح بخاری اعلام السنن ،شرح سنن ابوداؤد معالم السنن اورغریب الحدیث مشہورہیں ۔(معالم السنن،1/13تا21،الامام الخطابی ومنھجہ فی العقیدہ،25تا28)

[3]... سنن ابوداؤد،1/23

[4]... مہرِمنیرسوانحِ حیات ، ص، 84 ،تذکرۂ محدثِ سُورتی ،ص، 26

[5] ... مقدمہ مِیزانُ الادیان بتفسیرالقرآن،ص،80

[6] ... مقدمہ میزان الادیان میں یہاں عجمی لکھا تھا جو کہ کتابت کی غلطی ہے ،درست عجیمی ہے اس لیے درست کردیا ہے ۔

[7] ... شیخ ابوالفتح کا اسم گرامی مفلح ہے مگرمیزان الادیان میں ملفح لکھاہے جوکاتب کی غلطی ہے اس لیے اسے دُرست کردیا ہے ۔

[8] ...تاریخ بغدادکا دوسرانام مدینۃ السلام ہے،اس کا موضوع تذکرہ اعلام اورجرح وتعدیل ہے اس میں علامہ خطیب بغدادی نے 7831علما،مفکرین،شخصیات اورحکومتی عہدہ داران کا تذکرہ فرمایا ہے ۔یہ کتب علمامیں معروف ہے ۔

[9]... تفسیرمیزان الادیان ،1/ 75

[10] ... امام المحدثین نے دارُالعُلُوم حِزْبُ الْاَحْناف لاہورکو 1924ء میں مسجدوزیرخا ں اندرون دہلی گیٹ میں شروع فرمایا ،پھر یہ جامع مسجدحنفیہ محمدی محلہ اندرون دہلی گیٹ منتقل کردیا گیا ،جگہ تنگ ہونے کی وجہ سے آپ کے صاحبزادےمفتی اعظم پاکستان مفتی شاہ ابوالبرکات سیداحمدرضوی صاحب نے اس کی وسیع وعریض عمارت بیرون بھاٹی گیٹ گنج بخش روڈ پر بنائی ،جو، اب بھی قائم ہے ۔

[11] ...فتاویٰ دیداریہ کے مرتب مفتی محمد علیم الدین نقشبندی مجددی رحمۃ اللہ علیہ ہیں ، اس میں 344فتاویٰ ہیں، 87فتاویٰ کے علاوہ تمام فتاویٰ مفتی سیددیدارعلی شاہ صاحب کے تحریرکردہ ہیں،اسے مکتبۃ العصرکریالہ جی ٹی روڈ گجرات پاکستان نے 2005ء کو بہت خوبصورت کاغذپر شائع کیا ہے،اس کے کل صفحات 864ہیں ۔

[12] ... فتاویٰ دیداریہ، ص2،ہفتہ واراخبارالفقیہ ، 21تا28،اکتوبر1935ء، ص23

[13]... حدائقِ حنفیہ،ص،510۔صحیح البخاری مع الحواشی النافعۃ،مقدمہ،1/37

[14]... حیات شاہ اسحاق محدث دہلوی،18،33،77

[15] ... کنزالایمان فی ترجمۃ القرآن اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان رحمۃ اللہ علیہ کا قرآن کریم کا بہترین،تفسیری اردوترجمہ ہے، جسے مقبولیت عامہ حاصل ہے اس پر صدرالافاضل علامہ سیدمحمد نعیم الدین مرادآبادی نے خزائن العرفان فی تفسیرالقراٰن اورحکیم الامت مفتی احمدیارخان نعیمی نے نورالعرفان علی کنزالایمان کے نام سے تفسیری حواشی لکھا ہیں ۔

[16]... اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی کثیرعلوم میں دسترس تھی ،اس پر آپ کی تقریبا ایک ہزارکتب ورسائل شاہدہیں ،مگرآپ کا میلان فتاویٰ نویسی کی جانب زیادہ تھا آپ کے جو فتاویٰ محفوظ کئے جاسکے انہیں العطایا النبویہ فی الفتاویٰ الرضویہ کے نام سے جمع کیا گیا ،پہلی جلدتو آپ کی حیات میں ہی شائع ہوگئی تھی،یک بعددیگرےاس کی بارہ جلدیں شائع ہوئیں،1988ء میں مفتی اعظم پاکستان،استاذالعلمامفتی عبدالقیوم ہزاروی (بانی رضا فاؤنڈیشن جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور)نے اس کی تخریج وترجمہ کا کام شروع کیا ،جس کی تکمیل 2005ء کو 33جلدوں کی صورت میں ہوئی ،جس کے صفحات 21 ہزار،9سو70ہیں ۔(فتاویٰ رضویہ ،30/5،10)

[17]... جدالممتارعلی ردالمحتار،اعلیٰ حضرت کا فقہِ حنفی کی مستندکتاب ردالمحتارالمعروف فتاویٰ شامی پر عربی حاشیہ ہے جس پر دعوت اسلامی کے تحقیقی وعلمی شعبے المدینۃ العلمیہ نے کام کیا اور2006ء کو اسے 7 جلدوں میں مکتبۃ المدینہ کراچی سے شائع کروایا ہے ،2022ء میں اس کی اشاعت دارالکتب العلمیہ بیروت سےبھی ہوئی ہے۔

[18] ... حدائق بخشش اعلیٰ حضرت کا نعتیہ دیوان ہے جسے مختلف مطابع نے شائع کیا ہے،المدینۃ العلمیہ (دعوت اسلامی)نے اسے 2012ء میں 446صفحات پرشائع کیا ہے ،اب تک اس کے کئی ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔

[19]...حیاتِ اعلیٰ حضرت،ص، 1/58، 3/295،مکتبۃ المدینہ،تاریخِ مشائخِ قادریہ رضویہ برکاتیہ،ص،282، 301

[20] ... سلطانُ العاشقین، حضرت سیّد شاہ بَرَکَتُ اللہ مارہروی علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی ولادت1070ھ کو بلگرام (اودھ، یوپی) ہند میں ہوئی۔ 10 محرَّمُ الحرام 1142ھ کو مارہرہ مطہرہ (ضلع ایٹہ، یوپی) ہند میں وصال فرمایا۔ آپ عالمِ باعمل، شیخ المشائخ، مصنفِ کتب، صاحبِ دیوان شاعر، عوام و خواص کے مرجع اور بانیِ خانقاہ برکاتیہ ہیں۔(تاریخ خاندان برکات، ص12تا17)

[21] ... زبدۃ الواصلین، حضرت سیّد شاہ حمزہ مارہروی علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی ولادت 1131ھ مارہرہ شریف (یوپی) ہند میں ہوئی اور یہیں 14 محرَّمُ الحرام 1198ھ کو وصال فرمایا، آپ کا مزار ”درگاہ شاہ بَرَکَتُ اللہ“ کے دالان میں شرقی گنبد میں ہے۔ آپ عالمِ باعمل، عظیم شیخِ طریقت، کئی کتب کے مصنف اور مارہرہ شریف کی وسیع لائبریری کے بانی ہیں۔(تاریخ خاندان برکات، ص20تا23)

[22] ... شمس مارَہرہ، غوثِ زماں، حضرت سیّد شاہ ابوالفضل آلِ احمد اچھے میاں مارَہروی قادری علیہ رحمۃ اللہ الوَالی کی ولادت 1160ھ کو مارَہرہ مطہرہ (ضلع ایٹایوپی) ہند میں ہوئی، وصال 17 ربیع ُالاوّل 1235ھ کو یہیں فرمایا۔ آپ جَیِّد عالمِ دین، واعِظ، مصنّف اور شیخِ طریقت تھے، آدابُ السالکین اور آئینِ احمدی جیسی کتب آپ کی یادگار ہیں۔ آپ سلسلہ قادریہ رضویہ کے 36ویں شیخِ طریقت ہیں۔ (احوال و آثارِ شاہ آل ِاحمد اچھے میاں مارہروی، ص26)

[23]... تاریخ خاندان برکات، ص37تا46،مشائخ مارہرہ کی علمی خدمات ،221

[24] ...آپ کی یہ چاروں تصانیف تفسیرِ عزیزی، بُستانُ المُحدّثین، تحفۂ اِثنا عشریہ اورعاجلہ نافعہ فارسی میں ہیں، تحفہ اثنا عشریہ کو بہت شہرت حاصل ہوئی، اس کا موضوع ردرفض ہے،تفسیرعزیزی کا نام تفسیرفتح العزیزہے،جو چارجلدوں پر مشتمل ہے،بستا ن المحدثین میں محدثین کے مختصرحالات دیئے گئے ہیں جبکہ آپ کا رسالہ عاجلہ نافعہ فن حدیث پرہے جس میں آپ نے اپنی اسنادواجازات کو بھی ذکرفرمایا ہے،اس کے 26صفحات ہیں۔

[25]... الاعلام للزرکلی، 4/ 14۔ اردو دائرہ معارفِ اسلامیہ، 11/634

[26] ... حضرت مولاناشاہ عبدالرحیم دہلوی کی ولادت 1054ھ میں پھلت (ضلع مظفرنگر،یوپی،ہند)میں ہوئی اوروصال 12صفر1131ھ کودہلی میں فرمایا ،آپ جیدعالم دین ، ظاہر ی و باطنی علوم سے آگاہ، صوفی بزرگ اورمحدث وقت تھے،علم فقہ میں بھی عبوررکھتے تھے، فتاوی عالمگیری کی تدوین میں بھی شامل رہے،کئی سلاسل کے بزرگوں سے روحانی فیضان حاصل کیا،سلسلہ قادریہ،سلسلہ نقشبندیہ،سلسلہ ابوالعلائیہ، سلسلہ چشتیہ اورسلسلہ قادریہ قابل ذکر ہیں۔( انفانس العارفین ،21،22،198)

[27]...ان چارکتب فتح الرحمن فی ترجمہ القرآن،الفوز الکبیرفی اصول التفسیر،مؤطاامام ملک کی دوشروحات المصفیٰ،المسوّی، کا موضوع نام سے واضح ہے،آپ نے اپنی تصنیف حجۃ اللہ البالغہ میں احکام اسلام کی حکمتوں اورمصلحتوں کوتفصیل کے ساتھ بیان کیاہے ،اس میں شخصی اوراجتماعی مسائل کو بھی زیرِ بحث لایا گیاہے،کتاب ازالۃ الخفاء ردرفض پرہے،آپ کے رسالے الانتباہ فی سلاسل اولیاء اللہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ عقائدومعمولاتِ اہل سنت پر کاربند تھے،آپ کی آخری دونوں تصانیف آپ کی اسنادواجازات اورآپ کے مشائخ کے تذکرے پرمشتمل ہیں ۔

[28]... الفوزالکبیر،7،8،شاہ ولی اللہ محدث کے عرب مشائخ ،23

[29] ... قطب زماں ،حضرت سیدصفی الدین احمدقشاشی بن محمدبن عبدالنبی یونس قدسی مدنی حسینی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت12ربیع الاول 991ھ مطابق1583ء کو مدینہ منورہ میں ہوئی،آپ حافظ قرآن، شافعی عالم دین،عرب وعجم کے تقریباً سوعلماومشائخ سے مستفیض،سلسلہ نقشبندیہ کے شیخ طریقت، 70کے قریب کتب کے مصنف،نظریہ وحدۃ الوجودکے قائل وداعی تھے۔آپ نے 19ذوالحجہ 1071ھ مطابق 1661ء کو مدینہ شریف میں وصال فرمایااورجنت البقیع میں مدفون ہوئے،تصانیف میں روضۂ اقدس کی زیارت کے لیے سفرِ مدینہ کے اثبات پرکتاب ’’الدرۃ الثمینۃ فیمالزائرالنبی الی المدینۃ‘‘آپ کی پہچان ہے۔( الامم لایقا ظ الھمم ،125تا127،شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے عرب مشائخ،8تا10،42)

[30] ...مُجدّدِوقت حضرت سیّد محمدبن عبدالرسول بَرْزَنْجی مَدَنی شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت شہرزُور (صوبہ سلیمانیہ، عراق) 1040 ھ میں ہوئی اور یکم محرم 1103 ھ کو مدینۂ منوّرہ میں وصال فرمایا اور جنّتُ البقیع میں دفن ہوئے۔آپ حافظِ قراٰن، جامعِ معقول ومنقول، علامۂ حجاز، مفتیِ شافعیہ، 90کتب کے مصنّف، ولیِ کامل اور مدینہ شریف کے خاندانِ بَرْزَنجی کے جدِّ امجدہیں۔ (الاشاعۃ لاشراط الساعۃ، ص13، تاریخ الدولۃ المکیۃ، ص59)

[31] ... خاتم المحدثین حضرت امام عبداللہ بن سالم بصری شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 1049ھ کو مکہ میں ہوئی اوریہیں 4 رجب 1134ھ کو وصال فرمایا،جنۃ المعلی میں دفن کئے گئے،بصرہ میں نشوونما پائی،پھرمکہ شریف میں آکر مقیم ہوگئے،آپ مسجدحرام شریف میں طلبہ کو پڑھایا کرتے تھے،زندگی بھریہ معمول رہا،کثیر علمانے آپ سے استفادہ کیا،آپ جیدعالم دین،محدث وحافظ الحدیث اورمسند الحجازتھے، کئی کتب تصنیف فرمائیں جن میں سے ضیاء الساری فی مسالک ابواب البخاری یادگار ہے۔(مختصر نشر النور، ص290تا292، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے عرب مشائخ،18تا20)

[32]... اعلام الزرکلی،304/5، سلک الدرر،24/4

[33]... (مختصرنشرالنور ،167 تا173 ،مکہ مکرمہ کے عجیمی علماء،ص6تا54)

[34] ... علامہ شيخ عيسى بن محمد الثعالبی الجزائری کی تصنیف كنز الرواة المجموع من درر المجاز و يواقيت المسموع زیورطباعت سے آراستہ ہوچکی ہے ،اس کا موضوع حدیث اوردیگرعلوم کی اسانیدہے ۔

[35]... الاعلام للزرکلی،5/108،مختصرنشرالنور،383تا385، خلاصۃ الاثر فی اعيان القرن الحادی عشر،3/337

[36] ... قاضی علّامہ شہابُ الدّین احمد خَفَاجی مصری حنفی کی کتاب نسیم الریاض علامہ قاضی عیاض بن موسی مغربی کی مشہورزمانہ کتاب الشفاء بتعریف حقوق المصطفی کی مفصل شرح ہے،دارالکتب العلمیہ بیروت نے اسے چھ جلدوں میں شائع کیا ہے ،اس کے علاوہ بھی کئی مطابع سے اس کی اشاعت ہوئی ہے ،اردومیں اس کاترجمہ بھی ہوچکا ہے ۔

[37]... خلاصۃ الاثر، 1/331،343، معجم المؤلفین، 1/286، حدائق الحنفیہ، ص436، فہرس الفہارس، 1/377

[38] ...علامہ جلال الدین عبدالرحمن سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے قرآن کریم کی تفسیربنام الدر المنثور فی التفسير بالمأثورتحریرفرمائی جس میں آیات کی تفسیراحادیث مبارکہ اورآثارصحابہ سے بیان کی،اس میں دس ہزارسے زائداحادیث کو جمع فرمایا ،دارالکتب العلمیہ بیروت نے اسے سات جلدوں میں شائع کیا ہے ،اس کا اردوترجمہ بھی ہوچکا ہے ۔

[39] ... شرح الصدوراورا لْبُدورُ السّافرة اوردونوں آخرت کے بارے میں ہیں شرح الصدورمیں موت اورقبرکے بارے میں قراٰنی آیات،احادیث مبارکہ اورحالات وواقعات بیان کئے گئے ہیں اورالبدورالسافرہ میں آخرت کے بارے میں تفصیل سے کلا م ہے ،دونوں کے اردوتراجم ہوچکے ہیں مکتبۃ المدینہ کراچی نے شرح الصدورمترجم 587صفحات پراور البدورالسافرہ کااردوترجمہ بنام احوال آخرت شائع کیا ہے ۔

[40]... النور السافر،1/90 تا 93

[41]... الضوء اللامع لاهل القرن التاسع،10/53

[42]... الدررالکامنہ،3/304،رقم:817

[43] ... شذرات الذهب 7/ 723، تاریخ الاسلام الذہبی، 51/422۔

[44] ... اعلام زرکلی،5/61، سير اعلام النبلاء، 21/507۔

[45] ... شیخ الاسلام حضرت ابواسحاق ابراہیم فیروزآبادی شیرازی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 393 ھ کو فیروزآباد(صوبہ فارس) ایران میں ہوئی اور21جمادی الاخریٰ 476 ھ کو بغداد میں وصال فرمایا، تدفین باب ابرز بغدادعراق میں ہوئی۔آپ فقہ شافعی کے مجتہد،امیرُالمؤمنین فی الفقہ، مصنف کتب کثیرہ، اخلاقِ حسنہ سے متصف، فصاحت وبلاغت کے جامع اورمدرس مدرسہ نظامیہ بغداد تھے۔ النكت فی المسائل المختلف آپ کی علمی یادگارہے۔(سیر اعلام النبلاء، 14/7تا12)

[46]... سیراعلام النبلاء،20/79، العبر فی خبر من غبر، 2/455۔

[47]... سير اعلام النبلاء ، 20 /165، شذرات الذهب، 6 / 190۔

[48] ... ولیِ شہیر حضرتِ سیِّدُنا بِشر حافِی علیہ رحمۃ اللہ الکافی کی ولادت 150ھ میں ”مرو“ خُراسان (ایران) میں ہوئی۔ 13ربیعُ الاوّل 227ھ کو بغداد میں وِصال فرمایا، مَزار شریف مَقْبَرَۂ قُریش (کاظمیہ شمالی بغداد) عِراق میں ہے۔ آپ عابد و زاہد، مُحِبِِّ عُلما و اولیا، بُلند دَرَجات کے مالِک اور اَکابِر اولیا سے ہیں۔ (تاریخ الاسلام للذہبی، 5/540،544، الوافی بالوفیات، 10/92،91، المعارف، ص 228)

[49]... ( تاریخ بغداد،1/4تا21)

[50]... ( تاريخ بغداد، 12 / 446 ، سیر اعلام النبلاء،17/226)

[51]... سیراعلام النبلاء،15/307

[52] ... امیرُالمؤمنین فی الحدیث حضرت سیّدُنا سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت98ھ میں کوفہ (عراق) میں ہوئی اورشعبانُ المعظم161ھ میں وصال فرمایا۔مزاربنی کُلیب قبرستان بصرہ میں ہے۔آپ عظیم فقیہ، محدث، زاہد، ولیِ کامل اوراستاذِ محدثین و فقہا تھے۔(سیراعلام النبلاء، 7/229،279، طبقات ابن سعد، 6/350)

[53]... سیر اعلام النبلاء، 13/203

[54] ... امیرالمؤمنین فی الحدیث حضرتِ سیّدنا محمد بن اسماعیل بخاری علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی ولادت 194ھ کو بخارا میں ہوئی اور وصال یکم شوال 256ھ میں فرمایا، مزار خرتنگ (نزدسمرقند) ازبکستان میں ہے۔آپ امام المحدثین والمسلمین، زہد و تقویٰ کے جامع اور قراٰنِ کریم کے بعدصحیح ترین کتاب ’’بخاری شریف‘‘کے مؤلف ہیں۔ (المنتظم، 12/133، سیراعلام النبلاء، 10/319،277)

[55] ... امامُ المسلمین حضرتِ امام مُسلم بن حَجّاج رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 206ھ میں نیشا پور (خُراسَان) میں ہوئی۔ 24رجب 261ھ کووِصال فرمایا، مزارمبارک نیشا پور میں ہے۔ غیر معمولی ذہانت کے مالک، حافظُ الحدیث، اِمامُ المُحَدِّثین اور عظیم شخصیت کے مالک تھے، اپنی تصنیف”صحیح مسلم“ کی وجہ سے عالمگیر شہرت حاصل ہوئی۔ (جامع الاصول، 1/124، محدثین عظام حیات وخدمات، ص 323 تا 332)

[57] ... امامُ الوقت حضرت امام جعفر صادِق رحمۃ اللہ علیہ کی وِلادت 80ھ کو مدینہ منورہ میں ہوئی اور یہیں 15رجب 148ھ کو وِصال فرمایا، جنّتُ البقیع میں دفن کئے گئے،آپ خاندانِ اہلِ بیت کے چشم و چراغ، جلیلُ القدر تابعی، محدِّث و فقیہ، علّامۂ دَہر، استاذِامام اعظم اور سلسلۂ قادِریہ کےچھٹے شیخِ طریقت ہیں۔( سیراعلام النبلاء، 6/438، 447، شواہد النبوۃ، ص245)

[58]... سیراعلام النبلا جلد 8ص 366 ، طبقات ابن سعد: 5 / 424

[59] ...حجۃ الاسلام،امام الحرم حضرت امام ابومحمد سفیان بن عیینہ کوفی مکی رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش 107ھ کوکوفہ میں ہوئی اوریکم رجب 198ھ مطابق 814ء میں مکہ معظمہ میں وفات پائی اور کوہ حجون کے پاس مدفون ہوئے،آپ نے کثیرتابعین کی صحبت پائی،آپ تبع تابعی، عالم الحجاز،ثقہ روای حدیث،وسیع العلم،صاحب تقوی وورع اورعمربھردرس وتدریس میں مصروف رہنے والی شخصیت تھے ،ترتیب وتدوین حدیث میں آپ سرفہرست ہیں۔ ( سير اعلام النبلا ، 8 / 454، تاریخ بغداد،9/183، تذکرۃ الحفاظ، للذھبی،1/193)

[60]... سیراعلام النبلا،6/136

[61] ... حضرت عبدالرحمن بن عوف قرشی زہری رضی اللہ عنہ کی ولادت عام الفیل کے دس سال بعدمکہ مکرمہ میں ہوئی اور 31یا 32ھ میں وصال فرمایا ،تدفین جنۃ البقیع میں ہوئی ،آپ جلیل لقدرصحابی ،حسن ظاہری وباطنی سے متصف ،خوش بخت ونیک خصلت ،دعائے مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی برکت سے مال داراورعشرہ مبشرہ صحابہ سےتھے ،آپ کی شان میں دوفرامین مصطفی(صلی اللہ علیہ والہ وسلم ):عبدالرحمن بن عوف جنتی ہیں اورجنت میں ان کے رفیق حضرت عیسی علیہ السلام ہوں گے، عبدالرحمن بن عوف مسلمان شرفا کے سردارہیں ۔( اصابہ ،8/203،الریاض النضرہ،2/306، 1/35 )

[62] ... ترجمان القرآن، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی ولادت نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے چچاجان حضرت عباس بن عبدالمطلب کے ہاں ہجرت سے تین سال قبل مکہ میں ہوئی اورآپ نے 67ھ کو طائف میں وصال فرمایا ،مزارمبارک مسجدعبداللہ بن عباس طائف کے قریب ایک احاطے میں ہے ، نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کے لیے علم وحکمت،فقہ دین اور تاویل کتاب مبین کی دعافرمائی،آپ علم تفسیر، حدیث ،فقہ،شعر،علم وارثت وغیرہ میں کامل دسترس رکھتے تھے،آپ کے القابات بحرالعلوم، امام المفسرین، ربانیِ امت، اجمل الناس،افصح الناس اوراعلم الناس ہیں۔ (تنویرالمقیاس،ص7تا32)

[63]... سیراعلام النبلا جلد 4ص 287 

[64]...اسد الغابہ:4/406، تہذیب الکمال:385، استیعاب:1/258، ابن سعد:2/77،78،سیراعلام النبلا، 3