مقالے کی PDF کے لئے ڈاؤن لوڈ پر کلک کریں Download PDF

امام المحدثین کی سندسنن نسائی

حافظ الحدیث امام احمد بن شعیب نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے السنن الکبریٰ کے نام سے ایک کتاب تصنیف کی جس میں کم وبیش بارہ ہزاراحادیث جمع فرمائیں۔پھراس میں سے چھ ہزارکے قریب صحیح احادیث منتخب کرکے اس کااختصارتیارکیاجس کانام السنن الصغریٰ رکھا، اسے سنن مجتبیٰ اورسنن نسائی بھی کہاجاتاہے،سنن نسائی کا اسلوب اکثرکتب صحاح کا جامع ہے ،احادیث مبارکہ فقہی ابواب کے تحت لائی گئی ہیں اوران سے مسائل کا استخراج کیاگیاہے اس سے کئی احادیث مکرربھی ہوگئی ہیں، حدیث پاک کے تمام طرق کو اختلاف الفاظ کے ساتھ ایک جگہ جمع کردیا ہے، بسااوقات امام نسائی نے علل حدیث کوبھی بیان کیاہے، سنن نسائی حسن ترتیب کے اعتبارسے بہترین اورعمدہ نمونہ ہے۔([1])

ہمارے بلادمیں ہونے والے دورہ ٔ حدیث میں سنن نسائی کو بھی شامل کیا گیاہے، امام المحدثین حضرت علامہ مفتی سیِّد محمد دِیدار علی شاہ مَشْہدی نقشبندی قادِری مُحدِّث اَلْوَری رحمۃ اللہ علیہ(ولادت،1273ھ مطابق 1856ھ، وفات 22رجب المرجب 1354ھ مطابق 20اکتوبر 1935ء)نے 1295ھ مطابق 1878ء میں افضل المحدثین علامہ احمدعلی سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ سے دورۂ حدیث کرکے اسانیداحادیث بشمول سنن نسائی کی اجازت حاصل کی۔)[2](انھوں نے علامہ شاہ محمد اسحاق دہلوی مہاجر مکی سے اورانھوں نےسراج الہند علامہ شاہ عبدالعزیزمحدث دہلوی سے، اسی طرح امام المحدثین مفتی سیدمحمددیدارعلی شاہ صاحب نے ذوالحجہ 1337ھ کو اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان سے جملہ اجازات و اسانید حاصل کیں،)[3](اوراعلیٰ حضرت نے اپنے مرشد حضرت شاہ آل رسول مارہروی سے اور انھوں نے سراج الہندعلامہ شاہ عبدالعزیز سے اورسراج الہندتحریرفرماتے ہیں :

(میرے والدگرامی علامہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے اجازت وسند سنن نسائی حضرت شیخ ابو طاہر سے اور) حضرت شیخ ابو طاہر نے(اسے) شیخ ابراہیم کردی سے اور انہوں نے شیخ احمد قشاشی سےاور انہوں نے شیخ احمد بن عبد القدوس شنادی سے اور انہوں نے شیخ شمس الدین محمد بن احمد بن محمد رملی سے اور انہوں نے شیخ زین الدین زکریا سے اور انہوں نے شیخ عز الدین عبد الرحیم بن محمد بن الفرات سے اور انہوں نے عمر بن الحسن المراغی([4]) سے اور انہوں نے فخر الدین بن البخاری سے اور انہوں نے ابی المکارم احمد بن محمد البان سے (جو عمل بالسنتہ کی طرف منسوب ہے) اور انہوں نے ابو علی حسن بن احمد حداد سے اور انہوں نے قاضی ابو نصر احمد بن الحسین الکسار سے اور انہوں نے حافظ ابو بکر المعروف بابن السنی احمد بن محمد بن اسحق الدینوری سے (جو معتمد محد ثین میں سے ہیں اور کتاب مجالسۃ الدينوری ([5])آپ ہی کی تصنیفات سے ہے) اور انہوں نے کتاب حافظ ابو عبدالرحمن احمد بن شعیب بن علی نسائی سے ،جو منسوب ہے ”بلد ۂ نسا“ ([6])کی طرف اور وہ خراسان میں ابیو رد([7])کے قریب مشہور شہر ہے ۔)[8](

سند سنن نسائی کےرواۃ و شیوخ کا مختصرتعارف

امام المحدثین مفتی سیدمحمد دیدارعلی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کی سند سنن نسائی بطریق ِعلامہ احمدعلی سہارنپوری اوربطریق امام احمدرضا 23واسطوں سے نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے مل جاتی ہے ،ذیل میں ان تمام محدثین کا مختصرتعارف بیان کیا جاتاہے:

۞امامُ الْمُحدِّثین حضرت مولانا سیِّد محمد دِیدار علی شاہ مَشْہدی نقشبندی قادِری مُحدِّث اَلْوَری رحمۃ اللہ علیہ، جَیِّد عالِم، اُستاذُالعُلَما، مفتیِ اسلام اور اکابرین اہل سنّت سے تھے۔آپ 1273ھ مطابق 1856ھ کو اَلْوَر (راجِسْتھان، ہِند )میں پیدا ہوئے اور لاہورمیں 22رجب المرجب 1354ھ مطابق 20اکتوبر1935ء کو (بروزپیر)نمازعصرکے سجدے میں وصال فرمایا،جامع مسجدحنفیہ محمدی محلہ اندرون دہلی گیٹ لاہورسے متصل جگہ میں تدفین کی گئی ۔ دارُالعُلُوم حِزْبُ الْاَحْناف لاہور([9]) اور فتاویٰ دِیداریہ([10]) آپ کی یادگار ہیں۔( [11])

(1)افضل المحدثین علامہ احمدعلی سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت1225ھ مطابق 1810ءکو ہوئی اور 6 جمادَی الاُولیٰ 1297ھ مطابق 16اپریل 1880ء کوتقریباً بہتَّر (72) سال کی عمر میں داعیِ اجل کو لبیک کہا۔ آپ اپنے آبائی قبرستان متصل عید گاہ سہارنپور میں سپردِ خاک کئے گئے۔آپ حافظِ قرآن، عالمِ اجل، استاذُالاساتذہ، مُحدّثِ کبیر اور کثیرالفیض شخصیت کےمالک تھے، اشاعتِ احادیث میں آپ کی کوشش آبِ زر سے لکھنے کےقابل ہے، آپ نےصحاح ستہ اوردیگرکتب احادیث کی تدریس، اشاعت، حواشی اور درستیٔ متن میں جو کوششیں کی وہ مثالی ہیں ۔([12] )

(2)علامہ شاہ محمد اسحاق دہلوی مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش ذوالحجہ 1197ھ مطابق 1782ھ دہلی میں ہوئی ،یہ حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کےنواسے، شاگرد اور جانشین تھے ،پہلے دہلی پھرمکہ شریف میں تدریس کرتے رہے وفات رجب 1262ھ کو مکہ شریف میں ہوئی اورجنت المعلیٰ میں دفن کئے گئے ۔([13] )

(3)اعلیٰ حضرت، مجددِدین وملّت، امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 10شوال 1272ھ مطابق6جون 1856ءکو بریلی شریف(یو۔پی) ہند میں ہوئی، یہیں 25صفر 1340ھ مطابق28اکتوبر1921ءکو وصال فرمایا۔ مزار جائے پیدائش میں مرجعِ خاص وعام ہے۔آپ حافظِ قرآن، پچاس سے زیادہ جدیدوقدیم علوم کے ماہر، فقیہ اسلام، مُحدّثِ وقت،مصلحِ امت، نعت گوشاعر، سلسلہ قادریہ کے عظیم شیخ طریقت، تقریباً ایک ہزار کتب کے مصنف، مرجع علمائے عرب وعجم، استاذ الفقہاومحدثین، شیخ الاسلام و المسلمین، مجتہدفی المسائل اور چودہویں صدی کی مؤثر ترین شخصیت کے مالک تھے۔ کنزالایمان فی ترجمۃ القرآن([14])،فتاویٰ رضویہ([15]) ، جدّ الممتارعلی ردالمحتاراور حدائقِ بخشش آپ کی مشہور تصانیف ہیں۔ ( [16]) ([17])

(4) خاتِمُ الاکابِر ،قدوۃ العارفین حضرت علامہ شاہ آلِ رسول مار ہَروی رحمۃ اللہ علیہ عالمِ باعمل،صاحبِ وَرَع وتقوی اورسلسلہ قادریہ برکاتیہ رضویہ کے شیخِ طریقت ہیں۔ آپ کی ولادت 1209ھ کو خانقاہ برکاتیہ مار ہرہ شریف (ضلع ایٹہ،یوپی) ہند میں ہوئی اور یہیں 18ذوالحجہ1296ھ کو وصال فرمایا، تدفین دلان شرقی گنبددرگاہ حضرت شاہ برکت اللہ([18]) رحمۃ اللہ علیہ میں بالین مزارحضرت سیدشاہ حمزہ([19]) ہوئی ۔ آپ ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد حضرت سید شاہ آل احمد اچھے میاں مارہروی ([20])رحمۃ اللہ علیہ کے ارشاد پر سراج الہند حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃاﷲ علیہ کے درسِ حدیث میں شریک ہوئے۔ صحاحِ ستہ کا دورہ کرنے کے بعد حضرت محدث دہلوی قدس سرہ سے سلسلہ علویہ منامیہ کی اجازت اور احادیث و مصافحات کی اجازتیں پائیں،فقہ میں آپ نے دوکتب مختصرتاریخ اور خطبہ جمعہ تحریرفرمائیں ۔([21])

(5)سِراجُ الہند حضرت شاہ عبد العزیز محدّثِ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ، علوم و فُنون کے جامع، استاذُ العلماء و المحدثین، مُفَسِّرِ قراٰن، مصنّف اور مفتیِ اسلام تھے۔ تفسیرِ عزیزی، بُستانُ المُحدّثین، تحفۂ اِثنا عشریہ اورعاجلہ نافعہ( [22])آپ کی مشہور کُتُب ہیں۔آپ 1159ہجری میں پیدا ہوئے اور 7 شوال 1239ہجری میں وِصال فرمایا، مزار مبارک درگاہ حضرت شاہ وَلِیُّ اللہ مہندیاں، میردرد روڈ، نئی دہلی میں ہے۔([23] )

(6) حضرت مولانا شاہ ولی اللہ احمدبن عبدالرحیم محدث دہلوی فاروقی حنفی نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش دہلی میں 3شوال 1110ھ مطابق 1699ء کو ہوئی ،اوریہیں 1176ھ مطابق 1762ء کو وصال فرمایا ،آپ حافظ قرآن،علوم عقلیہ ونقلیہ کے ماہر، عرب کے کبارشیوخ سے مستفیض تھے ،1143ھ کو حجازمقدس حاضرہوئے اوروہاں آٹھ عرب مشائخ سے استفادہ کیا،آپ نے زندگی بھر حدیث پاک کا درس دیا،قوم وملت کی رہنمائی کی۔کئی کتب مثلا فتح الرحمن فی ترجمہ القرآن فارسی،الفوز الکبیرفی اصول التفسیر، مؤطا امام ملک کی دوشروحات المصفیٰ فارسی،المسوّی عربی، حجۃ اللہ البالغہ،ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء فارسی،الانتباہ فی سلاسل اولیاء اللہ فارسی، انسان العين فی مشايخ الحرمين اور الارشاد الی مہمات الاسنادعربی)[24] ( تصنیف کیں،آپ کا شمار ہندکی مؤثرشخصیات میں ہوتا ہے ۔([25] )

(7)حضرت شیخ جمال الدین ابوطاہرمحمدبن ابراہیم کورانی مدنی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت مدینہ شریف میں 1081ھ مطابق 1670ء کو ہوئی اوریہیں 1145ھ مطابق 1733ء کو وصال فرمایا اورجنت البقیع میں دفن کئے گئے،آپ جیدعالم دین ،محدث ومسند،مفتی ٔ شافعیہ مدینہ منورہ،علامہ شیخ ابراہیم کردی آپ کے والدصاحب اورشیخ احمدقشاشی نانامحترم تھے ۔والدصاحب کے علاوہ ،مفتی شافعیہ مدینہ منورہ شیخ سیدمحمدبن عبدالرسول برزنجی([26])،شیخ حسن بن علی عُجَیْمی([27] ) اور شیخ عبداللہ بن سالم([28] )سے اجازات حاصل کیں ،کئ کتب بھی لکھیں ،جواب تک مطبوع نہیں ہوسکیں ،مکتبہ حرم مکی میں آپ کی ثبت کا مخطوط پانچ اوراق میں محفوظ ہے ۔([29] )

(8)حضرت امام شیخ برہان الدین، ابوالعرفان ابراہیم بن حسن کورانی کردی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت کردستان(عراق) میں 1025ھ کو ہوئی،آپ شافعی عالم دین،محدث و مسند اور سلسلہ نقشبندیہ کے شیخ طریقت ہیں۔ 80سے زائدکتب لکھیں جن میں اسانید و مرویات پر مشتمل کتاب الامم لایقاظ الھمم([30] )مطبوع ہے۔آپ عراق سے ہجرت کرکے مدینہ شریف مقیم ہوگئے تھے،یہیں ایک قول کے مطابق18ربیع الآخر 1101ھ مطابق29 جنوری 1690ء میں وصال فرمایا۔([31] )

(9) قطب زماں ،حضرت سیدصفی الدین احمدقشاشی بن محمدبن عبدالنبی یونس قدسی مدنی حسینی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت12ربیع الاول 991ھ مطابق1583ء کو مدینہ منورہ میں ہوئی، آپ حافظ قرآن، شافعی عالم دین ،عرب وعجم کے تقریبا سوعلماومشائخ سے مستفیض، سلسلہ نقشبندیہ کے شیخ طریقت ، 70کے قریب کتب کے مصنف،نظریہ وحدۃ الوجودکے قائل وداعی تھے،کثیرشاگردوں میں نمایاں شیخ برہان الدین ابراہیم کردی کورانی شافعی مدنی ،صاحب درمختارعلامہ علاؤالدین حصکفی) [32] (اورحضرت حسن عجیمی رحمۃ اللہ علیہم تھے۔ آپ نے 19ذوالحجہ 1071ھ مطابق 1661ء کو مدینہ شریف میں وصال فرمایااورجنت البقیع میں مدفون ہوئے ،تصانیف میں روضہ اقدس کی زیارت کے لیے سفرِ مدینہ کے اثبات پر کتاب ’’الدرۃ الثمینۃ فیمالزائرالنبی الی المدینۃ‘‘([33])آپ کی پہچان ہے ۔([34] )

(10)حضرت ابوالمواہب احمدبن علی شناوی مصری مدنی رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش 975ھ کو موضع شنو(صوبہ غربیہ )مصرمیں پیداہوئےاورمدینہ شریف میں 6یا 8ذوالحجہ 1028 ھ کو وصال فرمایا ،جنت البقیع میں حضرت ابراہیم بن رسول اللہ (رضی اللہ عنہ وصلی اللہ علیہ والہ وسلم )کے قبہ مبارک کے عقب میں تدفین ہوئی،آپ جیدعالم دین ،محدث وقت ،ثقہ راوی،کئی کتب کےمصنف اورسلسلہ قادریہ اکبریہ کےشیخ طریقت تھے ۔([35] )

(11)شافعی صغیر حضرت سیّدنا امام شمسُ الدّین محمد بن احمد رمْلی مصری رحمۃ اللہ علیہ شیخ الاسلام، عالمِ کبیر، فقیہِ شافعی، مُجدّدِ وقت اور استاذُالعُلَماء ہیں، تصانیف میں نہایۃ المحتاج شرح المنہاج ([36])مشہور ہے۔ 919ھ میں رملہ صوبہ منوفیہ مِصْر میں پیدا ہوئے اور 13جُمادَی الاُولیٰ 1004ھ میں وفات پائی، تدفین قاہرہ میں ہوئی۔([37] )

(12)شیخ الاسلام حضرت قاضی زین الدین ابویحییٰ زکریاانصاری الازہری رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 824ھ مطابق1421ء کو سُنیکہ(موجودہ نام حلمیہ)صوبہ شرقیہ مصرمیں ہوئی اور ایک قول کے مطابق 4ذوالحجہ926ھ مطابق 15نومبر1520ء کوقاہرہ مصرمیں وفات پائی،تدفین قبرستان قرافہ صغریٰ میں مزارامام شافعی کےقرب میں ہوئی،آپ حافظ و قاری قرآن،فقیہ شافعی،محدث کبیر،حافظ الحدیث، مصنف کتب،شارح احادیث، مؤرخ و محقق،صوفی کامل،عبادات وذکروفکرمیں رہنے والے اور دولتِ مملوکیہ([38] )کے قاضی القضاۃ(چیف جسٹس)تھے، جلالت علم اورخدمات کثیرہ کی وجہ سےعلمانے آپ کو نویں صدی ہجری کا مجدد قراردیا ہے،ساری زندگی تدریس وتصنیف میں مصروف رہے، علامہ شمس الدین رملی ،علامہ عبدالوہاب شعرانی([39] ) اورعلامہ ابن حجرہیتمی( [40])آپ کے ہی شاگردہیں، آپکی 28کتب میں فتح الرحمن([41])،تحفۃالباری([42])،منہج الطلاب ( [43])اوراسنی المطالب ([44] )زیادہ مشہور ہیں۔([45] )

(13)عزالملت والدین حضرت شیخ ابن الفرات ابومحمد عبدالرحیم بن محمد حنفی مصری کی ولادت 759ھ کو قاہرہ مصرکے ایک علمی گھرانے میں ہوئی،حفظ قرآن وقرأت کے بعد علوم معقول ومنقول کے تحصیل میں مصروف ہوگئے ،علمائے احناف،شوافع اورحنابلہ سے استفادہ کیا ،جب حج پر گئے تو علمائے حجازکی انہارعلم سےبھی سیراب ہوئے ،اجازاتِ عامہ وخاصہ حاصل کیں،آپ احنافِ مصرکے جیدعالم دین،محدث وقاضی اورمصنف کتب تھے،آپ نے اپنی ساری زندگی درس وتدریس،تصنیف وتالیف میں گزاری،نخبة الفوائد المستنتجة([46])آپ کی یادگارتصنیف ہے،آپ نے 16ذوالحجہ  851ھ کوقاہرہ میں وصال فرمایا،باب النصرمیں نمازجنازہ ہوئی اورخانقاہ سعیدالسعداء قاہرہ کے احاطے میں دفن کئے گئے۔([47])

(14) زین الملت والدین حضرت ابوحفص عمربن حسن بن مزیدبن امیلہ مراغی مزی دمشقی رحمۃ اللہ علیہ ولادت 8رجب 679یا 680ھ کومِزَّہ دمشق میں ہوئی اور 98سال کی عمرمیں 8ربیع الاخر 778ھ کومراغی دمشق شام میں وصال فرمایا،آپ محدث وقاری، مسندالشام اوراکابرین اہل سنت سے تھے، آپ نے اپنے وقت کے جید علما، قراء اورمحدثین سے خوب استفادہ کیا اوراشاعت علوم وفنون میں مصروف ہوئے حتی کہ علما وفقہا اور محدثین کے مرجع قرارپائے،آپ سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد کثیرہے ، مشيخۃ الامام ابی حفص عمر المراغی([48]) آپ کی اسناد کا مجموعہ ہے۔([49])

(15)محدث الاسلام، ابن بخاری حضرت امام فخرالدین ابوالحسن علی ابن احمد مقدسی صالحی حنبلی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 595ھ کو ایک علمی گھرانے میں ہوئی ، اورآپ نے ربیع الآخر690ھ میں وصال فرمایا،آپ عالم وفقیہ، فاضل وادیب،صاحب وقاروہیبت، تقوی وورع کے پیکر اورعلم ووعقل میں کامل تھے ،محدثین میں بھی آپ بہت مکرم ومحترم تھے، آپ کو مسند العالم کہاجاتاہے ،عرصہ دارازتک خدمت قرآن وسنت میں مصروف رہے، شام،مصراورعراق کے محدثین نے آپ سے استفادہ کیا۔([50])

(16)حضرت شیخ قاضی ابنِ لَبَّان ابوالمکارم احمد بن ابوعیسیٰ محمد تیمی رحمۃُ اللہِ علیہ کی ولادت صفر507ھ کواصفہان ) ([51] کے ایک علمی گھرانے میں ہوئی اور27ذوالحجہ 597ھ کو وصال فرمایا،آپ عالم دین،محدث وقت،مسند اصفہان،صدوق،حسن الحدیث اوراپنے شہر کے قاضی تھے ۔)[52](

(17) حضرت امام ابوعلی حسن بن احمدحداد اصفہانی رحمۃُ اللہِ علیہ 419ھ میں پیدا ہوئے اور96سال کی عمرمیں 26ذوالحجہ 515ھ میں وصال فرمایا،آپ عالم دین، قاری قرآن،ثقہ وصدوق راوی حدیث ،مسندالعصر اورکثیر التلامذہ تھے ۔آپ نے طلب علم میں بہت سے سفرفرمائے،پھرایک وقت آیا کہ خراسان،عراق اورماوراءالنہرکے طلبہ گروہ درگروہ آپ کی خدمت میں حاضرہوکراجازت حدیث کا شرف پاتے ۔آپ کی شہرت چاردانگ عالم میں تھی۔)[53](

(18)حضرت شیخ قاضی ابونصراحمد بن حسین دینوری کَسَّار رحمۃُ اللہِ علیہ قاضی جلیل، عالم باعمل،صدوق راوی حدیث تھے ۔آپ نے امام ابوبکرابن سنی رحمۃُ اللہِ علیہ سے 363ھ میں سنن نسائی کی سماعت کی،آپ سے کئی محدثین نے حدیث پاک کی اجازت لی ،زندگی کے آخری ایام میں مسنداصفہان حضرت ابوعلی حداد رحمۃُ اللہِ علیہ نے آپ سےاجازت لی۔)[54](

(19) حافظ الحدیث حضرت شیخ ابن سنی ابوبکراحمد بن محمددینوری شافعی رحمۃ اللہ علیہ کےجدمحترم ابوابرہیم اسباط حضرت جعفربن ابوطالب رضی اللہ عنہ کے غلام تھے ،آپ کی پیدائش 280ھ میں ہوئی اور84 سال کی عمرمیں 364ھ کو وصال فرمایا ،آپ نے عراق، شام اورجزیرہ کے علماسے علم دین حاصل کیا،آپ محدث جلیل،ثقہ راوی حدیث،صاحب تصنیف اورتلمیذ امام نسائی تھے،آپ نے اپنی مرویات کو اپنی کتاب عمل اليوم واللیلۃ([55]) میں جمع فرمایا ہے،آپ کی کتاب الطب النبوی)[56]( بھی شائع شدہ ہے۔)[57](

(20) صاحب سُننِ نَسَائی، حافظُ الحدیث حضرت امام ابو عبدالرحمٰن احمد بن شعیب بن علی نَسَائی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت215ھ کو شہر نسا (نزد عشق آباد، ترکمانستان) میں ہوئی اور 13صفر 303 ھ کو رملہ (فلسطین) میں جامِ شہادت نوش کیا۔اپنے علاقے کے علماسے علم دین حاصل کرکے علوم فنون میں مہارت حاصل کی،اس کے بعدعراق میں شیخ الاسلام علامہ قتیبہ بن سعیدثقفی کی صحبت میں دوسال رہے ،ان کے علاوہ عراق ، شام ومصرکے دیگرمحدثین سے استفادہ کیا ،آپ ساری زندگی عراق،شام اورفلسطین میں احادیث مبارکہ کی ترویج و اشاعت میں مصروف رہے، آپ کی کتاب سُنن النسائی کو عالمگیرشہرت حاصل ہوئی اوریہ صحاح ستہ میں شامل ہے۔)[58](

۞ سنن نسائی میں ہرحدیث پاک سند کے ساتھ ہے اس کی پہلی سند کے راویوں کامختصرتعارف ملاحظہ کیجئے:

(21)شیخ الاسلام حضرت ابورجاء قتیبہ یحییٰ بن سعید ثقفی بغلانی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 149ھ میں ہوئی،آپ بنی ثقیف کے غلام تھے مگرعلم دین کے حصول اورخدمت حدیث نے آپ کوزمانے کا امام بنادیا،آپ نے کثیرمحدثین سے احادیث مبارکہ سماعت کی جن میں امام مالک([59])،امام لیث([60]) اور حضرت سفیان بن عیینہ رحمۃُ اللہِ علیہم جیسے اکابر محدثین بھی شامل ہیں،آپ صدوق وثقہ راوی حدیث اورکثیرالحدیث تھے۔ آپ نے حجازمقدس، کوفہ اور بغداد(عراق) وغیرہ میں مسندحدیث بچھائی اورامام بخاری ومسلم جیسے بڑے بڑے محدثین کو علم حدیث سے سیراب فرمایا، اللہ پاک نے حسن باطنی کے ساتھ آپ کو حسن ظاہری سے بھی نوازاتھا،آپ کا وصال 28شعبان240ھ میں ہوا۔)[61](

(22)تبع تابعی بزرگ، امام العلم،شیخ الحجاز،محدثِ حرم، حضرت ابومحمدسفیان بن عیینہ کی ولادت 107ھ کو کوفہ (عراق) میں ہوئی۔ مکہ مکرمہ میں یکم رجب 198ھ کو وصال فرمایا۔ آپ شاگردِامامِ اعظم ابوحنیفہ، حافظ و مفسر قرآن، امام و محدثِ حرم، مفتی و شیخ الاسلام، جامع زہد و تقویٰ، استاذ امام شافعی اور وسیع و پختہ علم کے مالک تھے۔ آپ نے حدیثِ نبوی کی ترتیب و تدوین میں بھرپور حصہ لیا۔)[62](

(23)حضرت امام ابنِ شہاب ابوبکرمحمد بن مسلم زہری قرشی رحمۃُ اللہِ علیہ کی ولادت 51ھ کو مدینہ منورہ میں ہوئی اور 17رمضان 123ھ یا 124ھ میں وصال فرمایا تدفین شغب (ضباء ،صوبہ مدینہ منورہ،عرب شریف) میں ہوئی،آپ علم القرآن و سنت اورعلم انساب وغیرہ میں ماہر تھے ،آپ جلیل القدرتابعی بزرگ ،محدث ومفتی ،حسن ظاہری وباطنی سے مالامال ،محدث جلیل اوراپنے زمانے کی مؤثرشخصیت تھے ،آپ سے 2200احادیث مروی ہیں۔)[63](

(24)فقیہ مدینہ حضرت ابوسلمہ عبداللہ بن عبدالرحمن زہری قرشی رحمۃ اللہ علیہ عشرہ مبشرہ جلیل القدرصحابی رسول حضرت عبدالرحمن بن عوف ([64])رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے، حسن ظاہری وباطنی سے مالامال ،مشہورفقیہ مدینہ،مجتہد،تابعی بزرگ، عالی مرتبت اورامام الوقت تھے۔عظیم المرتبت صحابہ کرام کی صحبت اورسماعت حدیث نے آپ کو امام حدیث بنادیا،فقیہ الامت حضرت عبداللہ بن عباس([65]) کی طویل صحبت کی وجہ سے آپ عظیم فقیہ بن گئےاورفقہائے سبعہ میں شمارہونے لگے،آپ بڑے ائمہ تابعین میں کثیرالعلم، جیدعالم دین،ثقہ راوی حدیث اورکثیرالحدیث تھے،آپ کچھ عرصہ مدینہ شریف کے قاضی بھی رہے۔آپ کی ولادت تقریباً 20ھ میں اور وصال 104ھ کو 73سال کی عمرمیں مدینہ منورہ میں ہوا۔([66])

(25) حضرت ابوہریرہ عبدالرحمن بن صخردوسی رضی اللہ عنہ یمن سے غزوہ خیبر (7ھ) کے ایام میں کم وبیش 30سال کی عمرمیں مدینہ شریف آئے اوراسلام قبول کیا ،متعدد غزاوت میں شرکت کی،آپ اصحاب صفہ میں شامل ہوئے ،علم سیکھنے کا اتنا جذبہ وشوق تھاکہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے سوالات کرنے سے نہ شرماتے ،صحابہ کرام کو بھی علم حاصل کرنے کی ترغیب دلاتے، بحرین کے گورنراوردورِ امیرمعاویہ میں قائم مقام گورنربھی رہے، 78سال کی عمرمیں 57ھ کووصال فرمایا اورجنت البقیع میں دفن کئے گئے۔ آپ صحابہ کرام علیہم الرضوان میں حدیث کے سب سے بڑے حافظ تھے۔امام ذہبی فرماتے ہیں: آپ قرآن،سنت اور فقہ تینوں میں پیشوا تھے۔ آپ کو علم کی اشاعت سے محبت تھی، آپ کی مرویات کی مجموعی تعداد 5374 ہے، ان میں326متفق علیہ ہیں اور 79میں بخاری اور 93 میں مسلم منفرد ہیں۔ آپ نے ایک مجموعہ احادیث بھی مرتب کرایا۔ آپ  خوف خدا کے پیکر،اچھے اخلاق کے مالک،سچے عاشق رسول، سادگی وجودوسخاکے پیکر، متبع سنت، شب بیدار اور روزانہ 12ہزارمرتبہ  تسبیح پڑھتے تھے،ذوق وشوق سے عبادت میں مصروف رہنے والے تھے۔ فرمان مصطفی (صلی اللہ علیہ والہ وسلم ):ابوہریرہ علم کا ظرف ہے ۔ )[67](

۞ ہمارے پیارے آقاحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت 12ربیع الاول مطابق 20اپریل 571ء کو وادی بطحا مکہ شریف کے معززترین قبیلے قریش میں ہوئی اور 12ربیع الاول 11ھ مطابق 12 جون 632ء کو مدینہ منورہ میں وصال ظاہری فرمایا۔آپ وجہِ تخلیق کائنات،محبوب خدا،امام المرسلین، خاتم النبیین اورکائنات کی مؤثرترین شخصیت کے مالک تھے،آپ نے 40 سال کی عمرمیں اعلان نبوت فرمایا ،13سال مکہ شریف اور10سال مدینہ شریف میں دین اسلام کی دعوت دی ،اللہ پاک نے آپ پر عظیم کتاب قرآن کریم نازل فرمایا۔اللہ پاک کے آپ پر بے شمار دُرُوداورسلام ہوں ۔([68])

حواشی



[1] ...فیوض الزاھی فی شرح سنن النسائی ،1/51،80،75

[2] ... مہرِمنیرسوانحِ حیات ، ص، 84 ،تذکرۂ محدثِ سُورتی ،ص، 26

[3] ... مقدمہ مِیزانُ الادیان بتفسیرالقرآن،ص،80

[4] ...حضرت شیخ ابوحفص عمربن حسن بن مزیدبن اُمیلہ مراغی رحمۃ اللہ علیہ کا نام عجالۃ النافعہ صفحہ 22میں عمربن ابی الحسن المراغی جبکہ مقدمہ تفسیرمیزان الادیان صفحہ 76میں عمربن ابی الحسن المراعی لکھا ہے ،دونوں درست نہیں ہیں ،آپ کا درست نام و نسب یہ ہے : عمر بن حسن بن مزيد بن أميلة بن جمعة المراغي المزي مسند الشام زين الدين أبو حفص ہے،اس لیے سند میں اس کی درستی کردی ہے ۔

[5] ...علامہ ابن سنی حافظ ابوبکراحمد بن محمد بن اسحاق دینوری کے اذکارمیں آپکی تصانیف میں اختصارسنن نسائی المجتبیٰ، الصراط المستقیم ،فضائل الاعمال ،عمل الیوم واللیلہ،الطب النبوی اورالقناعہ کے نام ہیں ،مجالسۃ الدینوری نام سےکوئی کتاب کا تذکرہ نہیں ملا البتہ ایک اورشخصیت علامہ ابوبکراحمد بن مروان بن محمد الدینوری قاضی المالکی (وفات، صفر 298ھ) کی کتاب المجالسۃ الدینوری وجواہرالعلم ہے جسے دارابن حزم بیروت نے دس جلدوں میں شائع کیا ہے ۔

[6] ...نِساخراسان کاایک شہرہے، یہ سرخس سے دودن، مروسے پانچ دن،ابیوردسے ایک دن اورنیشاپورسے چھ یاسات دین کے فاصلے پرہے۔(معجم البلدان،4/385)اب یہ ترکمانستان کے دارالحکومت اشک آبادسے جانب جنوب مغرب 18کلومیٹرکے فاصلے پرایران کی سرحد کے قریب واقع ہے اورایک گاؤں کی مانندہے۔

[7] ...ابیوردخراسان کا ایک شہرتھا ،جسے 31ھ میں صحابی جلیل حضرت عبداللہ بن عامربن کریزقرشی نے فتح کیاتھا ،اب یہاں کوئی آبادی نہیں ہے البتہ اس کے قریب ایران کے صوبے خراسان کا شہردرغز(Dargaz)واقع ہے۔

[8] ... تفسیرمیزان الادیان ،1/ 76

[9] ... امام المحدثین نے دارُالعُلُوم حِزْبُ الْاَحْناف لاہورکو 1924ء میں مسجدوزیرخاں اندرون دہلی گیٹ میں شروع فرمایا، پھر یہ جامع مسجدحنفیہ محمدی محلہ اندرون دہلی گیٹ منتقل کردیا گیا ،جگہ تنگ ہونے کی وجہ سے آپ کے صاحبزادے مفتی اعظم پاکستان مفتی شاہ ابوالبرکات سیداحمدرضوی صاحب نے اس کی وسیع وعریض عمارت بیرون بھاٹی گیٹ گنج بخش روڈ پر بنائی ،جو اب بھی قائم ہے ۔

[10] ...فتاویٰ دیداریہ کے مرتب مفتی محمد علیم الدین نقشبندی مجددی رحمۃ اللہ علیہ ہیں، اس میں 344فتاویٰ ہیں، 87فتاویٰ کے علاوہ تمام فتاویٰ مفتی سیددیدارعلی شاہ صاحب کے تحریرکردہ ہیں،اسے مکتبۃ العصرکریالہ جی ٹی روڈ گجرات پاکستان نے 2005ء کو بہت خوبصورت کاغذپر شائع کیا ہے ،اس کے کل صفحات 864ہیں ۔

[11] ... فتاویٰ دیداریہ، ص2،ہفتہ واراخبارالفقیہ ، 21تا28،اکتوبر1935ء، ص23

[12]... حدائقِ حنفیہ،ص،510۔صحیح البخاری مع الحواشی النافعۃ،مقدمہ،1/37

[13]... حیات شاہ اسحاق محدث دہلوی،18،33،77

[14] ... کنزالایمان فی ترجمۃ القرآن اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان رحمۃ اللہ علیہ کا قرآن کریم کا بہترین ،تفسیری اردوترجمہ ہے ،جسے پاک وہند اوربنگلادیش میں مقبولیت حاصل ہے اس پر صدرالافاضل علامہ سیدمحمد نعیم الدین مرادآبادی نے خزائن العرفان فی تفسیرالقران اورحکیم الامت مفتی احمدیارخان نعیمی نے نورالعرفان علی کنزالایمان کے نام سے تفسیری حواشی ہیں ۔

[15]... اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان رحمۃ اللہ علیہ کے کثیرعلوم میں دسترس تھی ،اس پر آپ کی تقریبا ایک ہزارکتب ورسائل شاہدہیں ،مگرآپ کا میلان فتاویٰ نویسی کی جانب سے تھا آپ کے جو فتاویٰ محفوظ کئے جاسکے انہیں العطایہ النبویہ فی الفتاویٰ الرضویہ کے نام سے جمع کیا گیا ،پہلی جلدتو آپ کی حیات میں ہی شائع ہوگئی تھی ،یک بعددیگرےاس کی بارہ جلدیں شائع ہوئیں،1988ء میں مفتی اعظم پاکستان ،استاذالعلمامفتی عبدالقیوم ہزاروی (بانی رضا فاؤنڈیشن جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور)نے اسکی تخریج وترجمہ کا کام شروع کیا ،جس کی تکمیل 2005ء کو 33جلدوں کی صورت میں ہوئی ،جس کے صفحات 21 ہزار،9سو70ہیں ۔(فتاویٰ رضویہ ،30/5،10)

[16]... جدالممتارعلی ردالمحتار،اعلیٰ حضرت کا فقیہ حنفی کی مستندکتاب ردالمحتارالمعروف فتاویٰ شامی پر عربی میں حاشیہ ہے جس پر دعوت اسلامی کے تحقیقی وعلمی شعبے المدینۃ العلمیہ نے کام کیا اور2006ء کو اسے 7 جلدوں میں مکتبۃ المدینہ کراچی سے شائع کروایا ہے ،2022ء میں اس کی اشاعت دارالکتب العلمیہ بیروت سے ہوئی۔

[17] ... حدائق بخشش اعلیٰ حضرت کا نعتیہ دیوان ہے جسے مختلف مطابع نے شائع کیا ہے ،المدینۃ العلمیہ (دعوت اسلامی)نےپہلی مرتبہ اسے 2012ء میں 446صفحات پرشائع کیا ہے ،اب تک اس کے کئی ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔

[18] ... سلطانُ العاشقین، حضرت سیّد شاہ بَرَکَتُ اللہ مارہروی علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی ولادت1070ھ کو بلگرام (اودھ، یوپی) ہند میں ہوئی۔ 10 محرَّمُ الحرام 1142ھ کو مارہرہ مطہرہ (ضلع ایٹہ، یوپی) ہند میں وصال فرمایا۔ آپ عالمِ باعمل، شیخ المشائخ، مصنفِ کتب، صاحبِ دیوان شاعر، عوام و خواص کے مرجع اور بانیِ خانقاہ برکاتیہ ہیں۔(تاریخ خاندان برکات، ص12تا17)

[19] ... زبدۃ الواصلین، حضرت سیّد شاہ حمزہ مارہروی علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی ولادت 1131ھ مارہرہ شریف (یوپی) ہند میں ہوئی اور یہیں 14 محرَّمُ الحرام 1198ھ کو وصال فرمایا، آپ کا مزار ”درگاہ شاہ بَرَکَتُ اللہ“ کے دالان میں شرقی گنبد میں ہے۔ آپ عالمِ باعمل، عظیم شیخِ طریقت، کئی کتب کے مصنف اور مارہرہ شریف کی وسیع لائبریری کے بانی ہیں۔(تاریخ خاندان برکات، ص20تا23)

[20] ... شمس مارَہرہ، غوثِ زماں، حضرت سیّد شاہ ابوالفضل آلِ احمد اچھے میاں مارَہروی قادری علیہ رحمۃ اللہ الوَالی کی ولادت 1160ھ کو مارَہرہ مطہرہ (ضلع ایٹایوپی) ہند میں ہوئی، وصال 17 ربیع ُالاوّل 1235ھ کو یہیں فرمایا۔ آپ جَیِّد عالمِ دین، واعِظ، مصنّف اور شیخِ طریقت تھے، آدابُ السالکین اور آئینِ احمدی جیسی کتب آپ کی یادگار ہیں۔ آپ سلسلہ قادریہ رضویہ کے 36ویں شیخِ طریقت ہیں۔ (احوال و آثارِ شاہ آل ِاحمد اچھے میاں مارہروی، ص26)

[21]... تاریخ خاندان برکات، ص37تا46،مشائخ مارہرہ کی علمی خدمات ،221

[22] ...آپ کی یہ پانچوں تصانیف فارسی میں ہیں تحفہ اثنا عشریہ کو بہت شہرت حاصل ہوئی ،اس کا موضوع ردرفض ہے، تفسیرعزیزی کا نام تفسیرفتح العزیزہے ،جو چارجلدوں پر مشتمل ہے ،بستا ن المحدثین میں محدثین کے مختصرحالات دیئے گئے ہیں جبکہ آپ کا رسالہ عاجلہ نافعہ فن حدیث پرہے جس میں آپ نے اپنی اسنادواجازت کو بھی ذکرفرمایا ہے ،اسکے 26صفحات ہیں ۔

[23]... الاعلام للزرکلی، 4/ 14۔ اردو دائرہ معارفِ اسلامیہ، 11/634

[24]...پہلی چارکتب کا موضوع نام سے واضح ہے ،آپ نے اپنی تصنیف حجۃ اللہ البالغہ میں احکام اسلام کی حکمتوں اورمصلحتوں کوتفصیل کے ساتھ بیان کیاہے،اس میں شخصی اوراجتماعی مسائل کوزیرِبحث لایاگیا ہے، بڑی خوبصورتی سے بیان کیا ،کتاب ازالۃ الخفاء ردرفض پرہے ،آپ کے رسالے الانتباہ فی سلاسل اولیاء اللہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ عقائد ومعمولاتِ اہل سنت پر کاربند تھے،آپ کی آخری دونوں تصانیف آپ کی اسنادواجازات اورآپ کے مشائخ کے تذکرے پرمشتمل ہیں ۔

[25]... الفوزالکبیر،7،8،شاہ ولی اللہ محدث کے عرب مشائخ ،23

[26] ...مُجدّدِوقت حضرت سیّد محمدبن عبدالرسول بَرْزَنْجی مَدَنی شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت شہرزُور (صوبہ سلیمانیہ، عراق) 1040 ھ میں ہوئی اور یکم محرم 1103 ھ کو مدینۂ منوّرہ میں وصال فرمایا اور جنّتُ البقیع میں دفن ہوئے۔آپ حافظِ قراٰن، جامعِ معقول ومنقول، علامۂ حجاز، مفتیِ شافعیہ، 90کتب کے مصنّف، ولیِ کامل اور مدینہ شریف کے خاندانِ بَرْزَنجی کے جدِّ امجدہیں۔ (الاشاعۃ لاشراط الساعۃ، ص13، تاریخ الدولۃ المکیۃ، ص59)

[27] ... عالمِ کبیر، مسند العصرحضرت سیّدُنا شیخ ابو الاسرار حسن بن علی عُجَیْمی حنفی مکی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت10ربیع الاول 1049ھ مکۂ مکرمہ میں ہوئی۔ 3شوَّالُ المکرَّم 1113ھ کو وصال طائف (عرب شریف) میں فرمایا، تدفین احاطۂ مزار حضرت سیّدُنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما میں ہوئی۔ آپ عالم اسلام کے سوسے زائدعلماوصوفیا کے شاگرد، حافظ قران، محدثِ شہیر،فقیہ حنفی،صوفیِ کامل،مسندِ حجاز،استاذالاساتذہ، اور 60 سے زائد کتب کے مصنف تھے،آپ نے طویل عرصہ مسجدحرم،مسجدنبوی اورمسجدعبداللہ بن عباس (طائف)میں تدریس کی خدمات سرانجام دیں۔(مختصرنشرالنور ،167 تا173 ،مکہ مکرمہ کے عجیمی علماء،ص6تا54)

[28] ... خاتم المحدثین حضرت امام عبداللہ بن سالم بصری شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 1049ھ کو مکہ میں ہوئی اوریہیں 4 رجب 1134ھ کو وصال فرمایا،جنۃ المعلی میں دفن کئے گئے،بصرہ میں نشوونما پائی،پھرمکہ شریف میں آکر مقیم ہوگئے،آپ مسجدحرام شریف میں طلبہ کو پڑھایا کرتے تھے،زندگی بھریہ معمول رہا،کثیر علمانے آپ سے استفادہ کیا،آپ جیدعالم دین،محدث وحافظ الحدیث اورمسند الحجازتھے، کئی کتب تصنیف فرمائیں جن میں سے ضیاء الساری فی مسالک ابواب البخاری یادگار ہے۔(مختصر نشر النور، ص290تا292، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے عرب مشائخ،18تا20)

[29]... اعلام الزرکلی،304/5، سلک الدرر،24/4،شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے عرب مشائخ ،25

[30] ... کتاب الامم لایقاظ الھمم کو مجلس دائرۃ المعارف النظامیہ حیدرآباددکن نے 1328ھ میں دیگر4،اسنادومرویات کے رسائل کے ساتھ شائع کیاہے ، الامم لایقاظ الھمم کے کل صفحات 134ہیں ۔

[31]... سلک الدرر فی اعیان القرن الثانی عشر، 1/9، اعلام للزکلی، 1/35، البدرالطالع بمحاسن من بعد قرن السابع، 1/11

[32]... صاحبِ درِمختار، عمدۃ المتاخرین حضرتِ سیّدناعلّامہ مفتی محمدعلاؤ الدین حصکفی دمشقی حنفی کی ولادت 1025ھ دمشق شام میں ہوئی اور وصال 10 شوال 1088ھ کو فرمایا، مزار بابِ الصغیر (دمشق)شام میں ہے۔آپ جامع ِمعقولات و منقولات اورعظیم فقیہ تھے۔ اپنی کتاب ’’درمختار شرح تنویر الابصار‘‘کی وجہ سے مشہور ہیں۔ (جد الممتار، 1/245، 242، 79)

[33] ... الدرۃ الثمینۃ فیمالزائرالنبی الی المدینۃ،فضائل مدینہ پر مشتمل کتاب ہے جسے دارالکتب العلمیہ بیروت نے شائع کیا ہے۔

[34]... الامم لایقا ظ الھمم ،125تا127،شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے عرب مشائخ،8تا10،42

[35]... الامم لایقا ظ الھمم ،127،128،معجم المؤلفین ،1/205،رقم1519

[36] ... نہایۃ المحتاج شرح المنہاج فقہ شافعی کی امہات الکتب میں سے ہے ،یہ امام یحیی نووی کی کتاب منهاج الطالبين وعمدة المفتين کی شرح ہے، دارالکتب العلمیہ بیروت نے اسے چھ جلدوں میں میں شائع کیا ہے ۔

[37]... معجم المؤلفین،3/61

[38] ...دولت مملوکیہ کو سلطنت مملوک بھی کہاجاتاہے ،اسے ایوبی سلطنت کے زوال کے بعدمصراورشام میں1250ء میں عزالدین ترکمانی نے قائم کیا ،بحری مملوک ملک صالح ایوبی کے ترک غلام تھے ،اس نے انہیں دریائے نیل کے کنارے آبادکیا،بعدمیں یہ حکمران بنے اور1389ء تک حکمرانی کی،اس کے بعدبرجی مملوک (قفقازکے سرکیشی غلاموں)کی حکومت شروع ہوئی جوالاشرف طومان بیگ دوم کے دورِحکومت 1517ء تک قائم رہی اس کے بعدمصرسلطنت عثمانیہ کا حصہ بن گیا ۔ یوں دولت مملوکیہ کا دورحکومت 267سال پر محیط ہے ۔

[39] ... امام ابوالمَوَاہِب عبدالوہاب شعرانی شافعی رحمۃ اللہ علیہ صوفی، عالمِ کبیراورصاحبِ تصانیف ہیں،تنبیہُ الْمُغْتَرِّیْن، اَنوارُالقُدسیہ اور طبقات شعرانی مشہورتصانیف ہیں۔ پیدائش 898ھ اور وصال جمادی الاولیٰ973ھ میں ہوا، مزارمبارک باب شعری، مدینۃُ البُعُوث،قاہرہ مصرمیں ہے۔(معجم المؤلفین،/2339)

[40] ... شیخ الاسلام ،شہاب الملت والدین،مفتی حجازحضرت امام ابو االعباس،ابن حجر احمد بن محمد سعدی ہیتمی شافعی الازہری کی پیدائش رجب 909 ھ کو محلہ ابی الہيتم (صوبہ غربیہ ،مصر)میں ہوئی اورمکہ مکرمہ میں رجب974ھ کو وصال فرمایا،آپ علم تفسیر،حدیث ،فقہ،تاریخ اورکلام وغیرہ میں ماہرتھے ،آپ نے جیدعلمائے عصرسے استفادہ کیا اورمحدث وفقیہ شافعی ہونے کا شرف حاصل کیا ،آپ تقریبا 33سال تدریس ،افتااورتصنیف وتالیف میں مصروف رہے، کثیرعلما نےآپ سے اجازات حاصل کیں ۔آپ کی تصانیف میں الصواعق المحرقہ، الفتاوى الحدیثیہ ، تحفۃ الاخبار فی مولد المختار،اتحاف اہل الاسلام بخصوصيات الصيام، تحفۃالمحتاج بشرح المنہاج اور مبلغ الارب فی فخر العرب ہیں ۔(الاعلام، الزركلی، ج1 ص234، الكواكب السائرة ، 3 /101)

[41] ... فتح الرحمن بكشف ما يلتبس من القرآن  بہترین تفسیرقرآن ہے،دارالقرآن الکریم بیروت نے اسے ایک جلدمیں شائع کیاہے جس کے638 صفحات ہیں ۔

[42] ... تحفۃ الباری یا منحۃ الباری بشرح صحيح البخاری کو  مکتبۃ الرشد نے 10جلدوں میں شائع کیا ہے ،یہ10 شروحات ِبخاری کاخلاصہ ہے۔

[43] ... منہج الطلاب فی فقہ الامام الشافعی  امام نووی کی کتاب منہاج الطالبین کا خلاصہ ہے ،اس کی اشاعت مختلف مطابع سے ہوئی ہے مثلا دارالبشائرنے اسے 456صفحات پر شائع کیا ہے ۔

[44] ... اسنى المطالب شرح روض الطالب  کا موضوع بھی فقہ ہے ،شوافع کے ہاں اس کی اس قدراہمیت ہے کہ کہاجاتاہے کہ جس نے اسنی المطالب نہیں پڑھی تو وہ شافعی ہی نہیں ، دارالکتب العلمیہ نے اسے 9جلدوں شائع کیا ہے ،کئی دیگرمطابع سے بھی اس کی اشاعت ہوئی ہے ۔

[45]...کواکب السائرہ، 1/198 تا 208، النورالسافر، ص172تا177، شذرات الذھب، 8/174تا176

[46]... علامہ عبد الوهاب بن احمد بن وهبان دمشقی(متوفی،768ھ) نے فقہ حنفی میں منظوم کتاب’’ عقد القلائد فی حل قيد الشرائد‘‘تحریرفرمائی علامہ ابن الفرات نے اس کا خلاصہ نخبة الفوائد المستنتجةتحریرفرمایا۔

[47]... الضوء اللامع، ج4ص 186 ، اعلام زرکلی، ج3، ص348

[48] ... شیخ عمربن حسن مراغی نے اپنی اسنادومرویات کا مجموعہ تیارفرمایا جو مشیخۃ الامام ابی حفص عمرالمرغی کے نام سے معروف ہے ،شرکۃدارالبشائرالاسلامیہ بیروت نے اسے 64صفحات پر2003ء میں شائع کیا ہے ۔

[49]... معجم الشیوخ سبکی،1/312 ، الدرر الكامنہ، 3/ 159،شذرات الذہب،8/444

[50] ... شذرات الذهب 5/ 414، تاریخ الاسلام الذہبی، 15/565

[51] ... اصفہان شہر ایران کے صوبے اصفہان کا دارالحکومت ہے۔

[52] ... سیراعلام النبلاء ،21/362، شذرات الذھب، 4 / 329

[53] ... سیراعلام النبلاء،19/303

[54] ... سیراعلام النبلاء ،17/514

[55] ... علامہ ابن سنی رحمۃ اللہ علیہ کتاب عمل الیوم واللیلہ کوشرکۃ دارالارقم بن ابی الارقم بیروت نے 1418ھ کو 512صفحات پر شائع کیا ہے،کئی دیگرمطابع سے بھی اس کی اشاعت ہوئی ۔

[56] ...علامہ ابن سنی رحمۃ اللہ علیہ کتاب الطب النبوی کو دارالرسالہ بیروت نے 272صفحات پر شائع کیاہے ۔

[57] ... سیراعلام النبلاء ،16/256،اعلام زرکلی،1/209

[58] ... تاریخ ابن عساکر، 71/170، 176، بستان المحدثین، ص298

[59] ... عالم مدینہ،کروڑوں مالکیوں کے امام حضرتِ سیِّدنا امام مالِک بن انس اصبحی حمیری مدنی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 93ھ میں مدینۂ منورہ میں ہوئی اور 14ربیعُ الاوّل 179ھ کو وصال فرمایا۔ قبر شریف جنۃ البقیع میں ہے۔ آپ، صحابی رسول حضرت ابوعامراصبحی رضی اللہ عنہ کےپڑ پوتے، تابعی بزرگ،کثیرالعبادات،محدث وفقیہ،ادب وحیا کے پیکر، عمدہ فہم ووسیع علم والے متبع سنت،مؤثرترین شخصیت کے مالک،درازعمر اورعالی سند والے تھے،آپ کی کتاب مؤطا امام مالک احادیثِ مبارکہ کے مقبول و معروف مجموعوں میں قدیم ترین ہے۔زندگی بھرمدینہ شریف میں رہ کر حدیث وفقہ کی تدریس میں مصروف رہے۔( سیر اعلام النبلاء، 7/382، 435، تذکرۃ الحفاظ، 1/154، 157)

[60] ... شیخ الاسلام حضرت سیّدنا امام لیث بن سعد مصری علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی ولادت 94ھ قرقشندہ(القلَج صوبہ قلیوبیہ) مصر میں ہوئی۔ آپ محدثِ زمانہ اور مفتی اہلِ مصر تھے۔ 15شعبان 175ھ کو مصر میں وصال فرمایا، مزار مبارک قَرافہ صُغریٰ (شارع امام لیث، قاہرہ) مصر میں ہے۔ (حدائق الحنفیہ، ص140، تاریخ ابن عساکر، 50/349،347)

[61] ... سیراعلام النبلاء ،11/14،اعلام زرکلی،5/189

[62] ... وفیات الاعیان، 2/328، سیر اعلام النبلاء، 7/653

[63] ... سیراعلام النبلاء،5/326

[64] ... حضرت عبدالرحمن بن عوف قرشی زہری رضی اللہ عنہ کی ولادت عام الفیل کے دس سال بعدمکہ مکرمہ میں ہوئی اور 31یا 32ھ میں وصال فرمایا ،تدفین جنۃ البقیع میں ہوئی ،آپ جلیل لقدرصحابی ،حسن ظاہری وباطنی سے متصف ،خوش بخت ونیک خصلت ،دعائے مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی برکت سے مال داراورعشرہ مبشرہ صحابہ سےتھے ،آپ کی شان میں دوفرامین مصطفی(صلی اللہ علیہ والہ وسلم ):عبدالرحمن بن عوف جنتی ہیں اورجنت میں ان کے رفیق حضرت عیسی علیہ السلام ہوں گے، عبدالرحمن بن عوف مسلمان شرفا کے سردارہیں ۔( اصابہ ،8/203،الریاض النضرہ،2/306، 1/35 )

[65] ... ترجمان القرآن، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی ولادت نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے چچاجان حضرت عباس بن عبدالمطلب کے ہاں ہجرت سے تین سال قبل مکہ میں ہوئی اورآپ نے 67ھ کو طائف میں وصال فرمایا ،مزارمبارک مسجدعبداللہ بن عباس طائف کے قریب ایک احاطے میں ہے ، نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کے لیے علم وحکمت،فقہ دین اور تاویل کتاب مبین کی دعافرمائی،آپ علم تفسیر، حدیث، فقہ،شعر،علم وارثت وغیرہ میں کامل دسترس رکھتے تھے،آپ کے القابات بحرالعلوم، امام المفسرین، ربانیِ امت،اجمل الناس،افصح الناس اوراعلم الناس ہیں۔ (تنویرالمقیاس،ص7تا32)

[66]... سیراعلام النبلا جلد 4ص 287 

[67] ... تہذیب الکمال،34/366،سیراعلام النبلاء،2/578 -596

[68]... مدارج النبوت ،2/14،آخری نبی کی پیاری سیرت ، 143تا145