مقالے کا عنوان :امام المحدثین کی اسانید مع تعارف شیوخ ِاسانید قسط 02 :

مقالے کی PDF کے لئے ڈاؤن لوڈ پر کلک کریں Download PDF

امام المحدثین کی اسانیدا حادیث

امام المحدثین، جَید عالِم، اُستاذُالعُلَما، مفتیِ اسلام،محدث العصر حضرت علامہ مفتی سید محمد دِیدار علی شاہ مَشْہدی نقشبندی قادِری مُحدِّث اَلْوَری رحمۃ اللہ علیہ(ولادت: 1273 ھ مطابق 1856 ء ، وفات : 1354 ھ مطابق 1935 ء ) برِعظیم کے مستند عالم دین ،مفتی اسلام ،مسند العصر،شیخ طریقت اور صاحب تصنیف بزرگ تھے آپ نے دورہ حدیث شریف افضل المحدثین علامہ احمد علی سہارنپوری سے کیا،جبکہ استاذ العلما و المشائخ علامہ فضل رحمن گنج مرادآبادی، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان اور تاج العلماء ، اولاد رسول ، علامہ محمد میاں مارہروی رحمۃ اللہ علیہم سے احادیث مبارکہ اور دیگر علوم کی اسناد و اجازات حاصل کیں،اس کی تفصیل ذکر کرتے ہوئے آپ تحریر فرماتے ہیں :

”اورسند کتب فقہ اورحدیث سے مسائلِ فقہ مطابق کرنے کے جو تمام کتب احادیث قراءۃ و سماعۃ حضرت سید پیر مہر علی شاہ صاحب ([1]) مد اللہ ظلہ العالی

مسند آراء گولڑہ شریف ضلع راولپنڈی اور مولانا وصی احمد صاحب مرحوم مغفور سورتی ثم پیلی بھیتی([2]) اور تقریبا ًبیس پچّیس طلبہ کے ساتھ حرفاً حرفاً مولانا احمد علی صاحب سہارنپوری مرحوم مغفور پر 1292ھ (مطابق 1878ء)میں پیش کر کے خاکسار (امام المحدثین مفتی سیدمحمددیدارعلی شاہ رحمۃ اللہ علیہ )نے حاصل کی تھی،وہ یہ ہے : مولانا احمد علی سہارنپوری نے مولانا قاری عبدالرحمن صاحب پانی پتی([3]) کے ساتھ تمام کتب صحاح ستہ و غیرہا معہ طریق استنباط مسائل ضروریہ اور طریق موافق کرنے روایات فقہی کے قرآن اوراحادیث کے ساتھ پیش کی مولانا شاہ محمد اسحاق علیہ الرحمہ پر ، اور مولانا شاہ محمد اسحاق رحمۃ اللہ علیہ نے اسی طرح تمام احادیث کی مولانا شاہ عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ پر اور مولانا شاہ عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ اپنے رسالہ ٔ ’’عجالہ نافعہ“ ([4])میں اپنی سندیں اس طرح تحریر فرماتے ہیں ۔

”اس فقیر (شاہ عبدالعزیز دہلوی)نے علم حدیث اور باقی جملہ علوم اپنے والد ماجد سے لیے ہیں اور بعض کتابیں حدیث کی مثلاً مصابیح و مشکوة و مسوی شرح موطا (جو کہ انہی کی تصنیفات میں سے ہے ( و حصن حصین اور شمائل ترمذی تحقیق و تفتیش کے ساتھ قراءة و سماعا ان سے حاصل کیں اور اوائل بخاری سے بھی کسی قدر بطریق درایت ان سے سنا ہے اور صحیح مسلم اور دیگر کتب صحاح ستہ کو غیر منتظم طریق پر بدیں نوع ان سے سنا ہے کہ دوسرے طلبا آپ کی خدمت میں پڑھتے تھے تو یہ فقیر بھی حاضر رہتا اور ان کی تحقیقات و تنقیحات کو سنتا رہتا تھا۔ یہاں تک کہ خدا کے فضل و کرم سے ادراکِ دقائقِ اسانید و معانی ِاحادیث میں کافی سمجھ اور ملکہ حاصل ہو گیا۔ بعد ازاں آپ کے قابل اعتماد احباب شاہ محمد عاشق پھلتی و خواجہ محمد امین ولی اللہی سے بطور رسم اجازت بھی حاصل کی اور شاہ محمد عاشق پھلتی سماع و قراۃ میں شیخ ابو طاہر قدس سرہ اور دیگر مشائخ محترم سے شریک اور حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے رفیق تھے اور حضرت شاہ صاحب (شاہ ولی اللہ )بعض حدیث کی کتابیں مثل مشکوۃ و صحیح بخاری پر پہلے اپنے ملک میں اپنے 1والد بزرگوار (شاہ عبد الرحیم )کے حضور میں عبور کر کے بطریق درایت ان سے یہ علم حاصل کر چکے تھے اور آپ(شاہ عبد الرحیم ) کی سند محمد زاہد مرحوم کے واسطے سے ملا جمال الدین دوانی تک پہنچتی ہے اور آپ کی حدیث کی سند انموذج العلوم([5]) کی ابتدا میں مفصل مذکور ہے اور فقیر(شاہ عبد العزیز ) کے والد بزرگوار (شاہ ولی اللہ)نے حاجی محمد افضل صاحب سیالکوٹی سے بھی اجازت حاصل کی تھی، جو کہ ان ممالک میں صاحب سندتھے ، ان کی سند بھی آپ کے رسائل میں مذکور ہے۔

بالآخر والد ماجد بزرگوار نے مدینہ منورہ اور مکہ معظمہ میں اجلہ مشائخ حرمین شریفین سے اس علم کی بالاستیعاب تکمیل کی اور آپ نے زیادہ تر 3استفادہ حضرت شیخ ابو طاہر مدنی قدس سرہٗ سے کیا جو اس علم میں اپنے زمانے کے یگانہ و فرید العصر تھے (رحمۃ اللہ علیہ و علی اسلافہ و مشائخہ )اور یہ عجب حسن اتفاقات سے ہے کہ شیخ ابو طاہر قدس سرہٗ صوفیاء کرام و عرفاء عظام کے واسطے سے شیخ زین الدین زکریا انصاری تک مسلسل سند رکھتے ہیں کہ انہوں (شیخ ابو طاہر )نے سند حاصل کی تھی اپنے باپ شیخ ابراہیم کُردی سے اور انہوں نے شیخ احمد قشاشی سے اور انہوں نے شیخ احمد شناوی([6]) سے اور انہوں نے اپنے والد شیخ عبد القدوس شناوی([7])سے ۔نیزشیخ ابو طاہر نے شیخ محمد بن ابی الحسن بکری اور شیخ محمد بن احمد رملی اور شیخ عبد الرحمن بن عبد القادر بن فہد سے بھی استفادہ حاصل کیا ،اور یہ سب لوگ جلیل القدر مشائخ اور عارفین باللہ سے کسب علم کیا ہے ۔ اور شیخ عبد القدوس نے شیخ ابن حجر مکی اور شیخ عبد الوہاب شعراوی سےسند حاصل کی۔ اور ان دونوں بزرگوں نے شیخ الاسلام زین الدین زکریا انصاری سے استفادہ کیا اور شیخ محمد بن بکری نے اپنے والد عارف باللہ ابو الحسن بکری سے اور انہوں (ابو الحسن بکری )نے شیخ زین الدین زکریا سے اور ایسے ہی شیخ محمد رملی نے اپنے باپ سے اور انہوں نے زین الدین زکریا سے تحصیل علم کیا ہے ، لیکن شیخ عبدالرحمن بن عبد القادر بن فہد نے اپنے چچا جار الله بن فہد سے اور انہوں (جار اللہ )نے شیخ جلال الدین سیوطی سے استفادہ کیا ہے ، اور شیخ ابو طاہر قدس سرہٗ نے شیخ حسن عُجَیمی سے بھی استفادہ کیا ہے اور شیخ حسن عُجَیمی ، شیخ عیسی مغربی کے شاگرد تھے اور وہ شیخ محمد بن العلاء بابلی کے ، اور وہ شیخ سالم سنہوری کے ، اور سالم نے شیخ نجم الدین غیطی سے علم حاصل کیا اور نجم الدین غیطی نے شیخ الاسلام زین الدین زکریا انصاری سے استفادہ کیا ، اور شیخ عیسیٰ مغربی کئی واسطوں سے شیخ جلال الدین سیوطی کے شاگرد ہیں ۔ اور شیخ ابو طاہر نے شیخ احمد نخلی سے بھی علم حاصل کیا جو اپنے زمانے میں مکہ مکرمہ کے سب سے بڑے عالم تھے اور شیخ احمد نخلی نے سلطان مزاحی سے ، اور انہوں نے شہاب الدین احمد بن خلیل سبکی سے ، اور انہوں نے شیخ محمد مقدسی سے ، اور انہوں نے شیخ زین الدین زکریا سے تحصیل علم کیا ۔

اور حضرت شیخ ابو طاہر نے شیخ عبداللہ بن سالم بصری سے بھی علم حاصل کیا تھا اور وہ شیخ احمد نخلی کے ہمعصر تھے اور شیخ احمد نخلی کے اساتذہ سے بھی تلمذ رکھتے تھے۔

اور شیخ ابوطاہر نے شیخ محمد بن محمد بن سلیمان مغربی سے بھی تحصیل علم کیا ۔

الغرض ان عزیزوں میں سے ہر ایک نے دو یا تین واسطوں سے بہت سے طرق پر اسناد حاصل کیا اوران کا شجرہ شیخ زین الدین زکریا ، شیخ جلال الدین سیوطی ، شمس الدین سخاوی ، عبدالحق سنباطی اور سید کمال الدین محمد بن حمزہ حسینی تک پہنچتا ہے اور ہر ایک ان میں سے صاحب سند اور اپنے وقت کا حافظ تھا اور ان کی تصنیفات ملکوں میں جاری و ساری اور ان کی اسانید اکناف و آفاق عالم میں مشہور و معروف ہیں۔ ([8])

مذکورہ سندِحدیث کےشیوخ کا مختصرتعارف

۞ امامُ الْمُحدِّثین حضرت مولانا سیِّد محمد دِیدار علی شاہ مَشْہدی نقشبندی قادِری مُحدِّث اَلْوَری رحمۃ اللہ علیہ، جَیِّد عالِم، اُستاذُ العُلَما، مفتیِ اسلام اور اکابرین اہل سنّت سے تھے۔آپ 1273ھ مطابق 1856ھ کو اَلْوَر (راجِسْتھان، ہِند )میں پیدا ہوئے اور لاہور میں 22 رجب المرجب 1354 ھ مطابق 20 ،اکتوبر 1935 ء کو (بروز پیر)نماز عصر کے سجدے میں وصال فرمایا ،جامع مسجد حنفیہ محمدی محلہ اندرون دہلی گیٹ لاہور سے متصل جگہ میں تدفین کی گئی۔ دارُ العُلُوم حِزْبُ الْاَحْناف لاہور([9]) اور فتاویٰ دِیداریہ([10]) آپ کی یادگار ہیں۔ ([11])

۞ افضل المحدثین علامہ احمد علی سہارنپوری کی ولادت 1225 ھ مطابق 1810ءکو ہوئی اور 6 جمادَی الاُولیٰ 1297ھ مطابق 16 اپریل 1880 ء کو تقریباً بہتر (72) سال کی عمر میں داعیِ اجل کو لبیک کہا۔ آپ اپنے آبائی قبرستان متصل عید گاہ سہارنپور میں سپردِ خاک کیے گئے۔آپ حافظِ قرآن، عالمِ اجل، استاذُ الاساتذہ، مُحدّثِ کبیر اور کثیر الفیض شخصیت کے مالک تھے، اشاعتِ احادیث میں آپ کی کوشش آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے، آپ نے صحاح ستہ اور دیگر کتب احادیث کی تدریس، اشاعت ، حواشی اور درستیٔ متن میں جو کوششیں کیں وہ مثالی ہیں ۔ ([12])

۞ علامہ شاہ محمد اسحاق دہلوی مہاجر مکی کی پیدائش ذوالحجہ 1197ھ مطابق 1782ء دہلی میں ہوئی ،یہ حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کےنواسے ، شاگرد اور جانشین تھے ، پہلے دہلی پھر مکہ شریف میں تدریس کرتے رہے ،وفات رجب 1262ھ کو مکہ شریف میں ہوئی اور جنت المعلیٰ میں دفن کئے گئے ۔ ([13])

۞ سِراجُ الہند حضرت شاہ عبد العزیز محدّثِ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ علوم و فُنون کے جامع، استاذُ العلماء و المحدثین، مُفَسِّرِ قراٰن، مصنّف اور مفتیٔ اسلام تھے، تفسیرِ عزیزی، بُستانُ المُحدّثین ، تحفۂ اِثنا عشریہ اور عاجلہ نافعہ([14])آپ کی مشہور کُتُب ہیں۔ 1159 ہجری کو دہلی میں پیدا ہوئے اور 7 شوال 1239ہجری میں وِصال فرمایا، مزار مبارک درگاہ حضرت شاہ وَلِیُّ اللہ مہندیاں، میر درد روڈ، نئی دہلی میں ہے۔ ([15])

۞ مولانا شاہ محمد عاشق پُھلتی کی ولادت 10 رمضان 1110 ھ کو ہوئی ، اور 30 محرم 1176 ھ کو دہلی میں وفات پائی ،تدفین والد ماجد کے پہلو میں درگاہ شریف پھلت ( ضلع مظفرنگر،یوپی،ہند) میں کی گئی ،آپ حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کے ماموں زاد بھائی ،برادرِ نسبتی،سمدھی،بچپن کے دوست،شاگرد اور خلیفہ تھے ،آپ نے علم دین اپنے خاندان کے علما سے حاصل کیا ، 1143ھ کو حج کے لیے حجاز مقدس کا سفر کیا سات ماہ یہاں رہے اور علمائے عرب سے استفادۂ علمی کے بعد مختلف اسناد سے نوازے گئے۔حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی حالات زندگی بنام القول الجلی فی ذکر آثار الولی )[16]( تحریر فرمائی جو آپ کی پہچان ہے ۔ ([17])

۞ خواجہ محمد امین ولی اللہی کشمیری کی پیدائش کشمیر میں ہوئی ،تجارت کی غرض سے لاہور پھر شاہجہاں آباد (یوپی،ہند) آگئے ،خواجہ محمد ناصر نقشبندی (خلیفہ خواجہ محمد زبیر سرہندی)کی صحبت سے دین کی طرف راغب ہوگئے ،حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی سے علوم اسلامیہ حاصل کئے، آپ درجہ ولایت پر فائز اور اپنے مرشد کے معتمد تھے،مرشد کی وفات کے بعد بھی دہلی میں ہی رہے ،وفات 1187 ھ میں ہوئی۔([18])

۞ حضرت مولانا شاہ ولی اللہ احمد بن عبد الرحیم محدث دہلوی فاروقی حنفی نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش دہلی میں 3 شوال 1110 ھ مطابق 1699 ء کو ہوئی اور یہیں 1176 ھ مطابق 1762 ء کو وصال فرمایا ،آپ حافظ قرآن،علوم عقلیہ و نقلیہ کے ماہر،عرب کے کبار شیوخ سے مستفیض تھے ،1143 ھ کو حجاز مقدس حاضر ہوئے اور وہاں آٹھ عرب مشائخ سے استفادہ کیا ،آپ نے زندگی بھر حدیث پاک کا درس دیا ، قوم و ملت کی رہنمائی کی ،آپ کی تصنیف کردہ کتب میں فتح الرحمن فی ترجمۃ القرآن فارسی ،الفوز الکبیر فی اصول التفسیر،مؤطا امام مالک کی دو شروحات المصفیٰ فارسی،المسوّی عربی، حجۃ اللہ البالغہ فارسی، ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء فارسی ،الانتباہ فی سلاسل اولیاء اللہ فارسی، انسان العين فی مشائخ الحرمين اور الارشاد الی مہمات الاسناد عربی ([19]) مشہور ہیں ، آپ کا شمار ہند کی مؤثر شخصیات میں ہوتا ہے ۔ ([20])

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی پہلی سند

۞ حضرت مولانا شاہ عبد الرحیم دہلوی کی ولادت 1054 ھ میں پھلت (ضلع مظفرنگر،یوپی،ہند)میں ہوئی اور وصال 12 صفر 1131 ھ کو دہلی میں فرمایا ،آپ جید عالم دین ، ظاہری و باطنی علوم سے آگاہ، صوفی بزرگ اور محدث وقت تھے ،علم فقہ میں بھی عبور رکھتے تھے ، فتاوی عالمگیری کی تدوین میں بھی شامل رہے ،کئی سلاسل کے بزرگوں سے روحانی فیضان حاصل کیا ، ،سلسلہ قادریہ ،سلسلہ نقشبندیہ،سلسلہ ابو العلائیہ ، سلسلہ چشتیہ اور سلسلہ قادریہ قابل ذکر ہیں ۔ ([21])

۞ حضرت علامہ میر محمد زاہد ہروی ہند کے ایک اہل ثروت علمی گھرانے میں پیدا ہوئے، والد علامہ قاضی محمد ہروی سلطنت مغلیہ کے لشکر شاہی کے قاضی ، جید عالم دین اور صاحب تصنیف تھے ،ابتدائی علوم اسلامیہ ان سے حاصل کئے پھر علمائے کابل،توران اور لاہور سے استفادہ کر کے منقول و معقول میں ماہر ہو کر بارہویں صدی کے علما و فقہا میں شمار ہونے لگے ،آپ بھی سلطنت مغلیہ کے کئی عہدوں مثلا وقائع نگاری،محتسب لشکر شاہی اور صدارتِ کابل پر فائز رہے ،پھر سلطنت کے عہدوں سے مستعفی ہو کر درس و تدریس اور تصنیف کے طرف متوجہ ہوگئے ،بشمول مولانا شاہ عبد الرحیم دہلوی کثیر علما نے آپ سے استفادہ کیا ،آپ کی کتب میں حاشیہ شرح مواقف امور عامہ ،حاشیہ شرح تہذیب علامہ دوانی،حاشیہ رسالہ تصور و تصدیق از علامہ قطب الدین رازی([22]) یادگار ہیں ،آپ کا وصال1101 ھ مطابق 1690ء کو کابل میں ہوا۔ ([23])

۞حضرت علامہ محمد فاضل بدخشی لاہوری حنفی مشہور محدث و فقیہ علامہ عین القضا ہمدانی کے خاندان سے ہیں،آپ روستان نزد بدخشان(افغانستان) کے رہنے والے تھے ، آپ نے اپنے علاقے،کابل ،توران اور لاہور کے علما سے علم حاصل کیا،تحصیل علم کے بعد ہند آکر مغلیہ بادشاہ جہانگیر سے ملاقات کی،بادشاہ آپ سے متاثر ہوا اور پنجاب کی صدارت پر فائز کیا،لشکر کا امیر عدل بھی مقرر کیا، تقریبا 1044ھ میں آپ نے اس عہدے سے مستعفی ہو کر درس و تدریس میں مشغول ہوگئے ، آپ علامہ دہر اور فاضل لاہور تھے کثیر علما نے استفادہ کیا ۔آپ کا وصال 1050 ھ کو لاہور میں وفات پائی اور یہیں تدفین ہوئی۔ ([24])

۞استاذ الکل حضرت مولانا ابو الفضل یوسف بن محمد کوسج قراباغی محمد شاہی رحمۃ اللہ علیہ جید عالم دین ،متکلم و محقق،صاحبِ تصانیف،استاذ العلماء اور اسلامی شاعر تھے، آپ نے کئی کتب ([25]) تصنیف کیں ۔آپ کا وصال1035 ھ میں ہوا۔ ([26])

۞شمس الملت و الدین حضرت علامہ مرزا جان حبیب اللہ بن عبد اللہ باغنوی شیرازی حنفی کا تعلق شیراز(صوبہ فارس ،ایران)کے محلے باغنو سے ہے ،جید عالم دین ،متکلم و اصولی اور فن منطق میں ماہر تھے ،آپ نے کئی کتب اور حواشی لکھے ،آپ کا وصال 994 ھ میں ہوا۔گیارہ سے زائد کتب و حواشی میں حاشیہ شرح مختصر الاصول اور حاشیہ شرح مختصر ابن حاجب ([27]) بھی ہیں ۔ ([28])

۞ملا جمال الدین محمود شیرازی حنفی کا شمار مشہور فضلاء میں ہوتا ہے، 908ھ میں جب شیراز پر صفوی حکومت قائم ہوئی تو آپ حرمین شریفین چلے گئے ،حج کرنے کے بعد گجرات ، ہند آگئے ،وہاں کچھ عرصہ گزار نے کے بعد آگرہ میں آخر مقیم ہوگئے، یہیں حضرت شاہ رفیع الدین محدث اکبر آبادی([29]) کی صحبت اختیار کی ،وصال 999ھ میں ہوا،آپ صاحب تصنیف ([30]) بھی ہیں ۔ ([31])

۞محقق دوانی حضرت علامہ جلال الدین محمد بن اسعد الدین صدیقی شافعی کی پیدائش 830 ھ کو موضع دوان نزد کازرون (صوبہ فارس،ایران)میں ہوئی ، یہیں 9ربیع الاول 908ھ یا 918 ھ کو وصال ہوا۔والد گرامی اور دیگر علما سے علوم اسلامیہ حاصل کئے ،کئی شہروں کا سفر کیا ،کازرون کے قاضی بنائے گئے ،زندگی بھر درس و تدریس اور تصنیف و تالیف میں مصروف رہے ، آپ نے فقہ،اصول،كلام ،فلسفہ اور تفسير میں 84 کتب و حواشی تحریر فرمائے ،مشہور کتب میں انموذج العلوم، تفسير سورة الكافرون ، شواکل الحور،شرح كتاب ہياكل النور سهروردی([32])اور لوامع‌ الاشراق فی مکارم الاخلاق المعروف اخلاق جلالی([33]) ہیں ،آپ فقیہ شافعی ، حازق حكيم  ، متكلّم و منطقی ، مفسر و محقق اور اديب و شاعر تھے۔([34])

۞ علامہ سعدالدین اسعدصدیقی تفتازانی کا تعلق موضع دوان نزد کازرون (صوبہ فارس،ایران) ہے ،آپ محدث اور جامع المرشدی کازرون کے استاذ تھے، آپ نے علم تفسیر اور حدیث علامہ شرف الدین عبدالرحیم صدیقی اور علامہ شمس الدین ابو الخیر محمد بن محمد جزری)[35]( سے حاصل کیا،آپ ایک عرصے تک علامہ سید شریف جرجانی)[36] (کی صحبت میں رہے ،مشہور زمانہ محقق علامہ جلال الدین محمد دوانی آپ کے ہی صاحبزادے اور شاگرد ہیں ۔([37])

۞ شرف الملت و الدین حضرت شیخ ابو فضائل عبد الرحیم صدیقی جرہی شیرازی شافعی کے آبا و اجداد کا تعلق جرہ نزد کازرون (صوبہ فارس،ایران)سے ہے۔ آپ کی ولادت 3صفر 744 ھ کو شیراز (ایران)میں اور وصال 17صفر828ھ کو لار(Lar ،صوبہ فارس ،ایران )میں ہوا ، حفظ قرآن کے بعد آپ نے عرب و عجم کے کثیر علما سے استفادہ کیا ،آپ محدث ،متکلم ،صاحب تصوف اور کثیر الفیض بزرگ تھے ، شیراز ،عراق ،مصر،شام اور فلسطین کے علما آپ سے مستفیض ہوئے ،آپ عبادت و تلاوت میں کثرت کرنے ،نفلی روزے رکھنے اور پنج وقتہ با جماعت نماز کی ادائیگی کا اہتمام کرنے میں حریص تھے ۔([38])

۞علامہ عصر ،امام الملت و الدین ، ابو مکارم علی بن علی بن مبارك شاه صديقی ساوجی شافعی کی پیدائش 766ھ کو ہوئی اور رجب 841ھ کو 75سال کی عمر میں وصال فرمایا، آپ کا تعلق ساوہ (Saveh ،صوبہ ٔمرکزی ،ایران)ہے ،آپ جامع معقول و منقول، مفتی ٔعلاقہ، صاحب تقویٰ و کرامت اور ذکر و فکر میں مشغول رہنے والے تھے۔ ([39])

۞شیخُ الاسلام، عمدۃُ المحدثین، شہابُ الدّین، حافظ احمد بن علی ابنِ حجر عسقلانی شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 773ھ کو قاہرہ مصر میں ہوئی اور یہیں 28ذوالحجہ852ھ کو وصال فرمایا۔ تدفین قَرافہ صُغریٰ میں ہوئی۔ آپ حافظُ القراٰن، محدثِ جلیل، استاذُ المحدثین، شاعرِ عربی اور 150 سے زائد کُتُب کے مصنف ہیں۔ آپ کی تصنیف ”فتح الباری شرح صحیح البخاری“ ([40])کو عالمگیر شہرت حاصل ہے۔ ([41])

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی دوسری سند

۞حضرت مولانا شیخ حاجی محمد افضل محدث سیالکوٹی کی پیدائش سیالکوٹ میں ہوئی،ہند کے علما بالخصوص نبیرہ مجدد الف ثانی شیخ حجۃ اللہ سرہندی ،شیخ عبد الاحد وحدت سرہندی اور مکہ شریف میں حضرت شیخ سالم بن عبداللہ بصری([42]) سے سند حدیث حاصل کی ،دہلی میں مسند حدیث بچھائی ،حضرت شاہ ولی اللہ اور مرزا مظہر جانجان ([43]) رحمۃ اللہ علیہما مشہور شاگرد ہیں،آخر الذکر کے شاگرد و خلیفہ مولانا شاہ نعیم اللہ بہرائچی([44]) نے آپ کی بیاض کا خلاصہ (عربی وفارسی )تحریر کیا ہے۔ 1146ھ کو دہلی میں وصال فرمایا، حضرت خواجہ باقی بااللہ ([45])کے مزار سے متصل تدفین کی گئی۔([46])

۞شاہ گل حضرت شیخ عبد الاحد وحدت سرہندی کی ولادت تقریبا 1050ھ کو سر ہند میں ہوئی اور آپ نے 75سال کی عمر میں 27ذوالحجہ 1126ھ کو وصال فرمایا ، اپنے والد گرامی سمیت کئی علما سے استفادہ کیا ،والد گرامی اور چچا جان حضرت خواجہ معصوم عروۃ الوثقی ([47])سے خلافت حاصل ہوئی ،آپ عالم دین ،شیخ طریقت اور صاحبِ دیوان شاعرتھے ،فارسی میں وحدت اور ریختہ(اردو)میں گل تخلص تھا،آپ نے تقریبا 50کتب تحریر فرمائیں۔ دیوان شعر فارسی ، الجنات الثمانیہ ([48]) وغیرہ آپ کی تصانیف ہیں ۔ ([49])

۞ خازن الرحمت حضرت مولانا شیخ محمد سعید سرہندی کی ولادت ماہِ شعبان 1005ھ میں سرہند شریف اور وفات 27جمادی الاخریٰ 1070ھ یا 1071ھ کو ہوئی ،تدفین والد گرامی حضرت شیخ مجدد الف ثانی کے پہلو میں کی گئی،آپ والد گرامی سے ظاہری و باطنی علوم حاصل کر کے جید عالم دین بنے ،علما کا آپ کی جانب رجوع تھا ، بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر آپ کا عقیدت مند تھا،آپ سے کئی کرامات کا صدور ہوا ، آپ نے کئی کتب بھی تحریر فرمائیں ،آپ کے صاحبزادے حضرت شیخ عبد الاحد وحدت سرہندی نے آپ کے احوال پر کتاب ”لطائف المدینہ“ ([50]) تحریر فرمائی ۔ ([51])

۞تاجدارِ سلسلۂ نقشبندیہ مجددیہ حضرت مجددِ الفِ ثانی شیخ احمد فاروقی سرہندی حنفی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی ولادت 971ھ کو سرہند شریف (ضلع فتح گڑھ، صوبہ مشرقی پنجاب) ہند میں ہوئی اور 28 صَفَرُالْمُظَفَّر 1034ھ کو یہیں وصال فرمایا، روضۂ مبارک مرجعِ انوار ہے۔ آپ عالمِ باعمل، مصنفِ کُتُب اور عالمگیر شہرت کے حامل شیخِ طریقت ہیں۔ ”مکتوباتِ امام ربانی“ ([52])آپ کی کُتُب سے ہے۔ ([53])

۞عالم کبیر،مفسر قرآن ،مسند العصر حضرت مولانا یعقوب بن حسن صرفی کشمیری کی ولادت 908ھ کو کشمیر میں ہوئی ،آپ بچپن سے ہی ذہین،تیز فہم اور علامات بزرگی رکھنے والے تھے ،حفظِ قرآن کے بعد مقامی علمائے اہل سنت سے علوم معقول و منقول حاصل کئے ،پھر سمرقند جا کر حضرت شیخ حسین خوارزمی سے سلسلہ کبرویہ میں بیعت و خلافت حاصل کی ،پھر حجاز مقدس میں جاکر حضرت امام ابن حجر ہیتمی اور دیگر مشائخ سے اسناد لینے کا شرف پایا،واپس آکر ہند میں درس و تدریس اور تصنیف میں مصروف ہوگئے ،تفسیر،حدیث اور فقہ میں کمال درجے کا رسوخ حاصل تھا،کئی تصانیف یادگار ہیں۔ 12ذیقعدہ 1003ھ کو وصال فرمایا۔ہمایوں بادشاہ آپ پر بہت مہربان تھا ،طبعا نہایت فیاض اور سخی تھے ۔صوفیانہ شاعری بھی کرتے تھے۔([54])

۞شیخ الاسلام ،شہاب الملت و الدین،مفتی حجاز حضرت امام ابو العباس،ابن حجر احمد بن محمد سعدی ہیتمی شافعی الازہری کی پیدائش رجب 909 ھ کو محلہ ابی الہيتم (صوبہ غربیہ ،مصر)میں ہوئی اور مکہ مکرمہ میں رجب 974 ھ کو وصال فرمایا ،آپ علم تفسیر، حدیث ،فقہ،تاریخ اور کلام وغیرہ میں ماہر تھے ،آپ نے جید علمائے عصر سے استفادہ کیا اور محدث و فقیہ شافعی ہونے کا شرف حاصل کیا ،آپ نے تقریبا 33 سال تدریس ،افتا اور تصنیف و تالیف میں مصروف رہے ،کثیر علما نے آپ سے اجازات حاصل کیں۔آپ کی تصانیف میں” الصواعق المحرقہ“،”الفتاوى الحدیثیہ، ”تحفۃ الاخبار فی مولد المختار“ اور” تحفۃالمحتاج بشرح المنہاج([55]) ہیں۔([56])

۞شیخ الاسلام حضرت امام زین الدین ابو یحییٰ زکریا بن محمد انصاری الازہری رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 826ھ کو سُنیکہ(صوبہ شرقیہ)مصر میں ہوئی،جامعۃ الازہر سے علوم اسلامیہ حاصل کئے،قاہرہ میں مقیم ہوگئے ،آپ فقیہ شافعی،محدث وقت،حافظ الحدیث، صوفی باصفا،قاضی القضا ۃ،بہترین قاری،مصنف کتب کثیرہ،لغوی و متکلم ، مؤرخ و مدرس، مفتی اسلام اور نویں صدی ہجری کےمجدد ہیں،آپ نے 4 ذوالحجہ 925ھ کو قاہرہ مصر میں وفات پائی۔ قاہرہ میں امام شافعی کے مزار کے قریب قرافہ صغریٰ میں تدفین ہوئی،آپ کا مزار مرجع خلائق ہے۔” الدقائق المحكمة فی شرح المقدمة([57])، ” تحفۃ الباری علی صحيح البخاری([58]) اور ” اَسنى المطالب([59]) آپکی مشہور کتب ہیں۔ ([60])

۞شیخ الاسلام، عمدۃُ المحدثین، شہابُ الدّین، حافظ احمد بن علی ابنِ حجر عسقلانی شافعی رحمۃ اللہ علیہ الکافی کا ذکر گزرچکا ہے ۔

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی تیسری سند

۞حضرت شیخ جمال الدین ابو طاہر محمد بن ابراہیم کورانی مدنی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت مدینہ شریف میں 1081ھ مطابق 1670ء کو ہوئی اور یہیں 1145ھ مطابق 1733ء کو وصال فرمایا اور جنت البقیع میں دفن کئے گئے ،آپ جید عالم دین ،محدث و مسند،مفتی ٔ شافعیہ مدینہ منورہ،علامہ شیخ ابراہیم کردی آپ کے والد صاحب اور شیخ احمد قشاشی نانا محترم تھے ۔ والد صاحب کے علاوہ ،مفتیٔ شافعیہ مدینہ منورہ شیخ سید محمد بن عبد الرسول برزنجی([61])اور شیخ حسن بن علی عُجیمی ([62]) سے اجازات حاصل کیں ، کئ کتب بھی لکھیں ،جواب تک مطبوع نہیں ہوسکیں ،مکتبہ حرم مکی میں آپ کی ثبت کا مخطوط پانچ اوراق میں محفوظ ہے ۔ ([63])

۞حضرت امام شیخ برہان الدین، ابو العرفان ابراہیم بن حسن کورانی کردی کی ولادت کردستان(عراق) میں 1025ھ کو ہوئی،آپ شافعی عالم دین،محدث و مسند ، سلسلہ نقشبندیہ کے شیخ طریقت ہیں۔ 80سے زائد کتب لکھیں جن میں اسانید و مرویات پر مشتمل ” کتاب الامم لایقاظ الھمم ([64]) مطبوع ہے۔آپ عراق سے ہجرت کر کے مدینہ شریف مقیم ہوگئے تھے،یہیں ایک قول کے مطابق18ربیع الآخر 1101ھ مطابق 29 جنوری 1690 ء میں وصال فرمایا۔ ([65])

۞ خاتم المحدثین حضرت امام عبد اللہ بن سالم بصری شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 1049ھ کو مکہ میں ہوئی اور یہیں 4 رجب 1134ھ کو وصال فرمایا، جنتُ المعلی میں دفن کئے گئے،بصرہ میں نشوونما پائی،پھر مکہ شریف میں آ کر مقیم ہوگئے ، آپ مسجد حرام شریف میں طلبہ کو پڑھایا کرتے تھے،زندگی بھر یہ معمول رہا،کثیر علما نے آپ سے استفادہ کیا،آپ جید عالم دین،محدث و حافظ الحدیث اور مسند الحجاز تھے، کئی کتب تصنیف فرمائیں جن میں سے ”ضیاء الساری فی مسالک ابواب البخاری)[66] ( یادگار ہے۔ ([67])

۞حضرت شیخ شمسُ الدّین ابو عبد اللہ محمد بن محمد بن سلیمان رودانی مالکی رحمۃ اللہ علیہ مراکش کے علاقے تارُودَنْت (صوبہ سوس ماسہ)میں 1037ھ کو پیدا ہوئے ، ابتدائی تعلیم وہاں حاصل کر کے آپ الجزائر، مصر، شام، استنبول اور حجاز مقدس آئے اور اولاً مدینہ شریف پھر مکہ مکرمہ میں مقیم ہوگئے، یہیں شادی کی، آپ کا شمار مکہ شریف کی مؤثر و مقبول شخصیات میں ہوتا تھا،آپ حدیث، فقہ، حساب،فلکیات اور عربی ادب میں ماہر تھے۔آپ نے دینی خدمات میں امامت،فتاوی نویسی اور تدریس کو منتخب فرمایا،تحریر و تصنیف میں بھی مصروف رہے،آپ کی سات تصانیف میں سے ” جمع الفوائد من جامع الاصول “ و ” مجمع الزوائد)[68] (آپ کی پہچان ہے،اس عظیم محدث کا وصال 10ذیقعدہ 1094 ھ کو دمشق میں ہوا اور جبل قاسیون میں تدفین کی گئی۔ ([69])

۞قطب زماں ،حضرت سید صفی الدین احمد قشاشی بن محمد بن عبد النبی یونس قدسی مدنی حسینی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 12ربیع الاول 991 ھ مطابق 1583 ء کو مدینہ منورہ میں ہوئی ،آپ حافظ قرآن، شافعی عالم دین ،عرب و عجم کے تقریبا سو علما و مشائخ سے مستفیض،سلسلۂ نقشبندیہ کے شیخ طریقت ، 70کے قریب کتب کے مصنف،نظریہ وحدۃ الوجود کے قائل و داعی تھے،کثیر شاگردوں میں نمایاں شیخ برہان الدین ابراہیم کردی کورانی شافعی مدنی ،صاحب در مختار علامہ علاؤالدین حصکفی ) [70] ( اور حضرت حسن عجیمی رحمۃ اللہ علیہم تھے ۔آپ نے 19ذوالحجہ 1071ھ مطابق 1661ء کو مدینہ شریف میں وصال فرمایا اور جنت البقیع میں مدفون ہوئے ،تصانیف میں روضہ اقدس کی زیارت کے لیے سفرِ مدینہ کے اثبات پر کتاب ’’ الدرۃ الثمینۃ فیماالزائر النبی الی المدینۃ ‘‘ ([71])آپ کی پہچان ہے ۔ ([72])

۞حضرت ابو المواہب احمد بن علی بن عبدالقدوس شناوی مصری خامی مدنی عباسی رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش975ھ کو ہوئی، شناوی کہنے کی وجہ یہ ہے کہ آپ کے آبا و اجداد کا تعلق موضع شنو(صوبہ غربیہ ) مصر سے ہے ،آپ کا وصال مدینہ شریف میں 6یا 8ذوالحجہ 1028 ھ کو ہوا اور جنت البقیع میں حضرت ابراہیم بن رسول اللہ (رضی اللہ عنہ و صلی اللہ علیہ والہ وسلم )کے قبہ مبارک کے عقب میں تدفین ہوئی،آپ جید عالم دین ،محدث وقت ،ثقہ راوی،ادیب و شاعر،کئی کتب کے مصنف اور سلسلہ قادریہ شطاریہ کے شیخ طریقت و صاحب کرامات تھے ۔آپ کی کتب میں ” تجلیۃ البصائر حاشیۃ على كتاب الجواهر) [73](بھی ہے۔ ([74])

۞محدث وقت ،علامہ زماں حضرت نور الدين علی بن عبد القدوس قرشی عباسی شناوی ایک صوفی اور علمی گھرانے میں پیدا ہوئے ،دیگر علمائے عصر کے ساتھ اپنے شیخ ابن حجر عسقلانی اور امام الصوفیہ حضرت شیخ عبد الوہاب شعرانی رحمۃ اللہ علیہما سے علوم و فنون حاصل کئے اور اسناد و اجازات سے نوازے گئے،مشہور محدث شیخ احمد شناوی رحمۃ اللہ علیہ آپ کے قابل فخر فرزند ہیں۔ ([75])

۞امام الوقت،قطب ربانی حضرت شیخ ابو المواہب عبد الوہاب شعرانی شعراوی شافعی رحمۃ اللہ علیہ عالمِ کبیر،محدث وقت ،مفتی ٔ اسلام ،صوفی بزرگ ،زہد و تقویٰ کے جامع اور صاحب تصانیف ہیں ، 300 کتب میں سے ” تنبیہ المغترین “،”اَنوارُالقُدسیہ “اور ”طبقات شعرانی([76]) بھی ہیں۔حضرت امام زکریا انصاری،شیخ شہاب الدین رملی ،امام جلال الدین سیوطی اور امام شہاب الدین قسطلانی آپ کے اساتذہ ہیں ،آپ کی پیدائش 27 رمضان 898ھ کو قلقشندة(طوخ،صوبہ قلیوبیہ،مصر )میں ہوئی اور وصال جمادی الاولی ٰ 973ھ میں ہوا، مزار مبارک باب شعری، مدینۃ البعوث،قاہرہ مصر میں ہے۔ ([77])

۞تاج العارفين ابو الحسن محمد بن محمد بكری صدیقی مصری شافعی کی ولادت 899 ھ قاہرہ مصر میں ہوئی اور یہیں 952 ھ کو وصال فرمایا ،آپ جامعۃ الازہر کے فارغ التحصیل،عالم با عمل، مفسر قرآن،محدث وقت،فقیہ شافعی ،ادیب و شاعر،شیخ طریقت،استاذ الاعظم اور مصنف کتب کثیرہ ہیں،آپ کی چالیس کتب میں تفسیر البکری ([78]) آپ کی پہچان ہے۔ ([79])

۞عارف باللہ حضرت شیخ جلال الدین ابو البقاء محمد بن عبد الرحمن بکری شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 2 صفر 807 ھ میں دَھْرُوط میں ہوئی اور یہیں 15ربیع الآخر 891ھ میں وصال فرمایا ،آپ نے دیگر مشائخ کے ساتھ علامہ ابن حجر عسقلانی سے بھی استفادہ کیا ،آپ علم فقہ میں ماہر،اصول و ادب میں حاوی اور علم حدیث سے مالا مال تھے،فقہ شافعی کی حفاظت،علم حدیث کی ترویج اور معاشرے کی اصلاح کی بھرپور کوششوں نے آپ کو زمانے میں یکتا بنادیا۔ آپ نے کئی شافعی کتب کی شروحات لکھیں۔ ([80])

۞ شافعی صغیر حضرت سیّدنا امام شمسُ الدّین محمد بن احمد رمْلی مصری رحمۃ اللہ علیہ شیخ الاسلام، عالمِ کبیر، فقیہِ شافعی، دسویں سن ہجری کے مجدد،محدث وقت ،ماہر تفسیر و نحو اور استاذُ العُلَما ہیں، تصانیف میں نہایۃ المحتاج شرح المنہاج ([81])مشہور ہے۔ 919ھ میں قاہرہ مصر میں پیدا ہوئے اور 13 جُمادَی الاُولیٰ 1004 ھ میں وفات پائی، تدفین قاہرہ میں ہوئی ۔([82])

۞ شیخ الاسلام حضرت امام شہاب الدین احمد بن حمزہ رملی شافعی کی ولادت منوفیہ مصر میں ہوئی اور جمادی الاُخری 957 ھ مطابق 1550 ء کو قاہرہ میں وصال فرمایا، تدفین جامع میدان بیرون باب قنطرہ (مصر)میں ہوئی ، آپ عالم باعمل ،صوفی با صفا، فقیہ شافعی ،محدث وقت اور ایک درجن سے زائد کتب کے مصنف ہیں ،جن میں ”فتح الجواد بشرح منظومۃ ابن العماد “، غایۃ المأمول فی شرح ورقات الاصول اور فتح الرحمن بشرح زبدابن رسلان([83]) مطبوع ہیں ،ان کے فتاویٰ کا مجموعہ فتاویٰ رملی([84])کے نام سے مشہور ہے۔ ([85])

۞ حضرت ابو زید عبدالرحمٰن بن عبد القادر بن عبد العزیز ہاشمی شافعی مکی ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے ،اپنے چچا علامہ ابن فہد جاراللہ مکی اور علامہ ابن حجر مکی وغیرہ جید علما سے استفادہ کیا ،آپ مکی عالم دین ،مسند وقت اور فقیہ شافعی تھے ،آپ سے کئی علما نے استفادہ کیا۔ ([86])

۞ محب الملت و الدین حضرت ابن فہد ابو الفضل جار اللہ محمد بن عبد العزیز ہاشمی مکی ،امام العلما،مستندمؤرخ ،استاذ المحدثین ،مسند عصر اور کئی درجن کتب کے مصنف ہیں ، آپ نے عرب،شام ،بیت المقدس ،یمن اور مصر کا سفر کیا وہاں کے علما سے استفادہ کیا،امام قاضی زکریا انصاری اور امام جلال الدین سیوطی سے اجازت حدیث حاصل کی،آپ کی ولادت 20 رجب 891 ھ مکہ شریف میں ہوئی اور یہیں 15جمادی الاخریٰ 954 ھ کو وصال فرمایا ،زندگی بھر علوم عقلیہ و نقلیہ کی تدریس میں مصروف رہے، 56 کتب و رسائل تحریر فرمائیں ،تاریخ مکہ پر آپ کی کتب ” بلوغ القریٰ باخبار ام القریٰ “ ، ”حسن القریٰ فی اودیۃ ام القریٰ “ اور” نخبۃ بهجۃ الزمان بعمارة مكۃ الملوك بنی عثمان “ جبکہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے فضائل پر ” کتاب تحفۃ اللطائف([87]) بھی ہے۔ ([88])

۞ شیخ الاسلام حضرت قاضی زین الدین ابو یحیٰ زکریا انصاری الازہری اور شیخ الاسلام، عمدۃُ المحدثین، شہابُ الدّین، حافظ احمد بن علی ابنِ حجر عسقلانی شافعی علیہ رحمۃ اللہ الکافی کا ذکر گزر چکا ہے ۔

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی چوتھی سند

٭علامہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور آپ کے استاذ حضرت شیخ جمال الدین ابو طاہر محمد بن ابراہیم کورانی مدنی کا تذکرہ گزرچکا ہے ۔

۞ عالمِ کبیر، مسند العصر حضرت سیّدُنا شیخ ابو الاسرار حسن بن علی عُجَیْمی حنفی مکی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 10ربیع الاول 1049 ھ مکۂ مکرمہ میں ہوئی۔ 3شوَّالُ المکرَّم 1113 ھ کو وصال طائف (عرب شریف) میں فرمایا، تدفین احاطۂ مزار حضرت سیّدُنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما میں ہوئی۔ آپ عالم اسلام کے سو سے زائد علما و صوفیا کے شاگرد، حافظ قران ، محدثِ شہیر،فقیہ حنفی،صوفیِ کامل،مسندِ حجاز،استاذ الاساتذہ، اور 60 سے زائد کتب کے مصنف تھے،آپ نے طویل عرصہ مسجد حرم ،مسجدنبوی اور مسجد عبد اللہ بن عباس (طائف)میں تدریس کی خدمات سرانجام دیں ([89])

۞مسند العصر حضرت شیخ ابو مہدی عیسی بن محمد جعفری ہاشمی ثعلبی مالکی کی ولادت 1020 ھ کو زواوۃ (الجزائر، افریقہ)میں ہوئی اور وصال مکہ شریف میں24 رجب 1080 ھ میں ہوا،آپ محدث،مسند،مرشد،فقیہ مالکی،مدرسِ حرم مکی ،امام الحرمین ،عالم مغریبین و مشرقین،زہد و تقویٰ کے مالک اور صاحب تصنیف تھے، ”كنز الروایۃ المجموع فی درر المجاز ويواقیت المسموع([90]) آپ کی یادگار تصنیف ہے۔ ([91])

۞استاذ الحرمین و المصر حضرت شیخ شمس الدین ابو عبد اللہ محمد بن علاء الدین بابلی کی ولادت موضوع بابل صوبہ منوفیہ مصر میں 1000 ھ اور وفات 15 جمادی الاولیٰ 1077 ھ کو قاہرہ میں ہوئی ،آپ نے حدیث،فقہ شافعی اور دیگر علوم کے لیے کئی سفر کئے۔ علمائے عرب بالخصوص علمائے مکہ سے بھر پور استفادہ کیا ، کہا جاتا ہے کہ آپ نے شب قدر میں دعا کی کہ میں فن حدیث میں امام ابنِ حجر عسقلانی کی طرح ہوجاؤں،آپ کی دعا قبول ہوئی اور آپ کو یہ مقام حاصل ہوگیا ، آپ حافظ الحدیث ، مسند العصر،فقیہ شافعی، مدرس و مرشد،عبادت گزار،حسن اخلاق کے پیکر اور سوز و گداز کے ساتھ کثرت سے تلاوت قرآن کرنے والے تھے ۔آپ کی اسانید و کتب کو علامہ شیخ عیسی ٰمغربی نے ” ثبت شمس الدين البابلی([92]) کے نام سے جمع فرمایا ہے ۔ ([93])

۞حضرت شیخ ابو النجا سالم بن محمد عز الدین سنہوری مصری مالکی ،محدث کبیر،خاتمۃ الحفاظ، مفتی مالکیہ ،جامع علوم و فنون تھے ،فقہ مالکی میں آپ کی کتاب ” تيسير الملك الجليل([94]) ہے ۔آپ کی پیدائش تقریبا 950 ھ کو سنهور المدینہ ( صوبہ کفر الشیخ مصر)میں ہوئی،علم دین قاہرہ میں حاصل کر کے وہیں خدمات پیش کیں ، آپ کا وصال 3 جَمادی الاُخریٰ 1015ھ کو ہوا اور مجاورین قبرستان میں دفن کئے گئے۔ ([95])

۞شیخ الاسلام حضرت امام نجم الدین ابو المواہب محمد بن احمد غیطی سکندری رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش 910 ھ اور وفات 981 ھ میں ہوئی، آپ کا تعلق مصر کے صوبہ سکندریہ کے مرکزی شہر سکندریہ سے ہے،آپ نے دیگر مشائخ بالخصوص شیخ الاسلام زین الدین زکریا انصاری رحمۃ اللہ علیہ سے علم حدیث،فقہ اور تصوف وغیرہ حاصل کر کے اسناد اور تدریس و افتاء کی اجازات لیں،آپ امام الوقت، مسندالعصر، محدث زمانہ، مرشد گرامی، محبوب ِخاص و عام،بغیر لومۃ اللائم برائی سے منع کرنے والے اور کئی کتب کے مصنف تھے۔ ” بهجة السامعين والناظرين بمولد سيد الاولين و الآخرين “اور” قصۃ المعراج الصغری([96])وغیرہ آپ کی تصنیف کردہ کتب ہیں۔([97])

۞شیخ الاسلام حضرت قاضی زین الدین ابو یحیٰ زکریا انصاری الازہری اور شیخُ الاسلام، عمدۃُ المحدثین، شہابُ الدّین، حافظ احمد بن علی ابنِ حجر عسقلانی شافعی رحمۃُ اللہِ علیہ کا ذکر گزرچکا ہے ۔

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی پانچویں سند

علامہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور آپ کے استاذ حضرت شیخ جمال الدین ابو طاہر محمد بن ابراہیم کورانی مدنی کا تذکرہ گزرچکا ہے ۔

۞حضرت شیخ احمد بن محمد نخلی نقشبندی مکی شافعی ،امام الوقت ،علامہ دہر ، محدث کبیر،فقیہ شافعی،صوفی باصفا اور صاحب تصنیف تھے ۔آپ کی پیدائش 1044 ھ کو مکہ مکرمہ میں ہوئی اور یہیں 1130 ھ کو وصال فرمایا ،تدفین جنت المعلیٰ میں ہوئی ۔آپ نے علمائے عصر سے علوم اسلامیہ حاصل کر کے مسجد حرام میں درس و تدریس میں مشغول ہوگئے ، آپ حضرت خواجہ سید شمس الدین امیر کُلال سوخاری بخاری([98]) کے مرید و خلیفہ ہیں ۔آپ نے اپنی اسناد و مرویات کو کتاب ”ثبت النخلی([99]) میں تحریر فرمایا ہے جو طبع شدہ ہے۔ ([100])

۞حضرت شیخ ابو العزائم سلطان بن احمد سلامہ مزّاحی مصری ازہری شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 985 ھ مصر میں ہوئی اور یہیں 17 جمادی الآخر1075 ھ میں وصال فرمایا، تدفین مجاورین قبرستان قاہرہ میں ہوئی،آپ نے علمائے عصر سے حفظ قرآن و قراٰت،حدیث و فقہ و تصوف اور دیگر علوم حاصل کر کے 1008 ھ میں فارغ التحصیل ہوئے اور جامعۃ الازہر میں تدرس کرنے لگے، آپ امام الائمہ، بحر العلوم، استاذ الفقہاء و القراء،محدث وقت،علامہ زمانہ ، نابغہ عصر،زہد و تقویٰ کے پیکر،مرجع خاص و عام، عابد و زاہد اور کئی کتب کے مصنف تھے۔ ([101])

۞شیخ الاسلام،ناصر الملت و الدین حضرت امام شہاب الدین احمد بن خلیل سبکی شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 939 ھ اور وفات 1032 ھ میں ہوئی، آپ نے مدرسہ باسطیہ مصر میں داخلہ لے کر علم دین حاصل کیا،جید علمائے مصر سے استفادہ کر کے محدث و فقیہ بننے کی سعادت پائی،حدیث و فقہ میں آپ کی کئی تصانیف ہیں،ان میں سے ” فتح الغفور بشرح منظومۃ القبور )[102]( مشہور ہے۔ ([103])

۞ حضرت شیخ شمس الدین محمد صفوی مقدسی شافعی،شیخ الاسلام زکریا انصاری کے شاگرد ہیں ،جب یہ جامع الحاکم (شمالی قاہرہ،مصر)میں تشریف لائے تو امام شہاب الدین احمد بن خلیل سبکی شافعی نے ان سے استفادہ کیا اور اسناد حاصل کیں ۔ ([104])



[1]...قبلۂ عالم، تاجدارِ گولڑہ، حضرت علامہ پیر سیّد مہر علی شاہ گیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 1275 ھ مطابق 1859ء میں گولڑہ شریف (اسلام آباد، پنجاب) پاکستان میں ہوئی اور 29 صفر 1356 ھ مطا بق 11 مئی 1937 ء کو وصال فرمایا، آپ کا مزار گولڑہ شریف میں زیارت گاہ خاص و عام ہے۔ آپ جید عالمِ دین، مرجعِ علما، شیخِ طریقت، کئی کتب کے مصنف، مجاہدِ اسلام، صاحبِ دیوان شاعر اور عظیم و مؤثر شخصیت کے مالک تھے۔فرقۂ مرزائیہ کی بیخ کنی میں آپ کا کردار مثالی ہے۔ ( مہرِ منیر، ص61، 335، فیضانِ پیر مہر علی شاہ، ص4، 32)

[2]...استاذُ العلما و المحدثین، مولانا وصی احمد محدث سورتی رحمۃ اللہ علیہ مُحدِّثِ کبیر، عالمِ باعمل، مفتی اسلام، بانیِ مدرسۃُ الحدیث پیلی بھیت اور علامہ فضل حق گنج مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ کے مرید تھے ، آپ کا شمار اکابر علما اہل سنت میں ہوتا ہے،تصانیف میں جامع الشواہد، حاشیہ شرح معانی الآثار اور حاشیہ منیۃُ المصلی (التَعْلِیْقُ المُجَلّی) مشہور ہیں۔ ولادت 1286 ھ مطابق 1869 ء میں راندھیر سُورت ہند میں ہوئی اور 8 جمادی الاولیٰ 1334 ھ مطابق 12 ، اپریل 1916 ء میں پیلی بھیت (یوپی،ہند) میں وصال فرمایا۔ مزار مبارک یہیں بیلوں والی مسجد سے متصل قبرستان میں ہے۔محدثِ سورتی سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کے گہرے دوست بلکہ جانثار تھے۔ ( تذکرۂ محدث سورتی، ص،180،177،111،65،44)

[3]...علامہ قاری عبد الرحمن انصاری محدث پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش 1227ھ مطابق 1812ء اور وفات 5 ربیع الآخر1314ھ مطابق 13 ستمبر 1896 ء کو پانی پت (ریاست ہریانہ ، ہند)میں ہوئی ،آپ عالم دین،تلمیذ و مرید و خلیفہ شاہ اسحاق دہلوی، استاذ القراء و العلماء اور مصنفِ کتب تھے ۔(اساتذۂ امیرِملّت،ص،61تا68)

[4] ... رسالہ عاجلہ نافعہ سراج الہند علامہ شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی فن حدیث پر فارسی تصنیف ہے جس میں آپ نے اپنی اسناد و اجازات کو بھی ذکر فرمایا ہے ،اسکے 26 صفحات ہیں ، نیٹ پر فارسی نسخہ اور اس کا اردو ترجمہ موجود ہے ۔

[5] ...انموذج العلوم ملا جلال الدین دوانی رحمۃ اللہ علیہ کی تصنیف ہے جس میں انھوں نے کئی علوم مثلا اصول حدیث و فقہ،اصول الدین ،طب،تفسیر،ہندسہ،ہئیت ،منطق اورالارثماطیقی پر لکھا ہے ، اسے مجمع البحوث الاسلامیہ مشہد ایران نے دیگر دو رسائل(تفسیر سورہ کافرون،شواکل الحور مع رسالہ ھیاکل النور) کے ساتھ شائع کیا ہے ، اس کے 160صفحات ہیں ،انموذج العلوم 265 تا 324 صفحات پر ہے۔

[6] ...تفسیر میزان الادیان صفحہ 72 پر شیخ احمد شنادی لکھا ہے جو کہ کاتب کی غلطی معلوم ہوتا ہے ، درست نام شیخ احمد شناوی ہے ۔اس لیے اسے درست کردیا ہے ۔

[7]...شیخ احمد شناوی کے والد شیخ عبد القدوس شناوی نہیں بلکہ ان کے والد شیخ علی بن احمد بن عبد القدوس شناوی ہیں یعنی شیخ عبد القدوس شناوی آپ کے والد کے دادا ہیں ۔مزید تفصیل آگے موجود ہے۔

[8]...تفسیر میزان الادیان ،1/ 71تا73، رسالہ عجالہ نافعہ (فارسی) ، فصل دوم ،17 ۔

[9]...امام المحدثین نے دارُ العُلُوم حِزْبُ الْاَحْناف لاہور کو 1924ء میں مسجد وزیر خاں اندرون دہلی گیٹ میں شروع فرمایا ،پھر یہ جامع مسجد حنفیہ محمدی محلہ اندرون دہلی گیٹ منتقل کردیا گیا ،جگہ تنگ ہونے کی وجہ سے آپ کے صاحبزادے مفتی اعظم پاکستان مفتی شاہ ابوالبرکات سید احمد رضوی صاحب نے اس کی وسیع و عریض عمارت بیرون بھاٹی گیٹ گنج بخش روڈ پر بنائی ،جو اب بھی قائم ہے ۔

[10] ...فتاویٰ دیداریہ کے مرتب مفتی محمد علیم الدین نقشبندی مجددی رحمۃ اللہ علیہ ہیں ، اس میں 344فتاویٰ ہیں ، 87فتاویٰ کے علاوہ تمام فتاویٰ مفتی سید دیدار علی شاہ صاحب کے تحریر کردہ ہیں، مکتبۃ العصر کریالہ جی ٹی روڈ گجرات پاکستان نے 2005 ء کو اسے بہت خوبصورت کاغذ پر شائع کیا ہے ، جن کے کل صفحات 864 ہیں ۔

[11]... فتاویٰ دیداریہ، ص2،ہفتہ وار اخبار الفقیہ ، 21تا28،اکتوبر1935ء، ص23

[12]...حدائقِ حنفیہ،ص،510۔صحیح البخاری مع الحواشی النافعۃ،مقدمہ،1/37

[13]...حیات شاہ اسحاق محدث دہلوی،18،33،77

[14]...آپ کی یہ پانچوں تصانیف فارسی میں ہیں ، تحفہ اثنا عشریہ کو بہت شہرت حاصل ہوئی ،اس کا موضوع رد رفض ہے ،تفسیر عزیزی کا نام تفسیر فتح العزیز ہے ،جو چار جلدوں پر مشتمل ہے ،بستان المحدثین میں محدثین کے مختصر حالات دیئے گئے ہیں جبکہ آپ کا رسالہ عجالہ نافعہ فن حدیث پر ہے جس میں آپ نے اپنی اسناد و اجازت کو بھی ذکر فرمایا ہے ،اسکے 26صفحات ہیں ۔

[15]... الاعلام للزرکلی، 4/ 14۔ اردو دائرہ معارفِ اسلامیہ، 11/634

[16]... ” القول الجلی فی ذکر آثار الولی “ حضرت علامہ شاہ عاشق پھلتی کی فارسی تصنیف ہے جس میں انہوں نے حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے حالات زندگی ،ملفوظات ،مکشوفات اور کرامات کو جمع فرمایا ہے ،مولانا حافظ تقی انور علوی نے اسے اردو قالب میں منتقل کیا ہے،اس ترجمے کے کل صفحات 656 ہیں،اِسے مسلم کتابوی لاہور نے جون 1999ء میں شائع کیا ہے ۔

[17]...القول الجلی فی ذکر آثار الولی،80،64،653

[18]...القول الجلی فی ذکر آثار الولی،598تا608،شاہ ولی اللہ اور ان کے احباب،ص18

[19]...ان چارکتب فتح الرحمن فی ترجمۃ القرآن ،الفوز الکبیر فی اصول التفسیر،مؤطا امام مالک کی دو شروحات المصفیٰ ،المسوّی ، کا موضوع نام سے واضح ہے ،آپ نے اپنی تصنیف حجۃ اللہ البالغہ میں احکام اسلام کی حکمتوں اور مصلحتوں کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے ،اس میں شخصی اور اجتماعی مسائل کو بھی زیرِ بحث لایا گیا ہے ،کتاب ازالۃ الخفاء ردِ رفض پر ہے ،آپ کے رسالے الانتباہ فی سلاسل اولیاء اللہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ عقائد و معمولاتِ اہل سنت پر کار بند تھے ، آپ کی آخری دونوں تصانیف آپ کی اسناد و اجازات اور آپ کے مشائخ کے تذکرے پر مشتمل ہیں ۔

[20]...الفوز الکبیر،7،8،شاہ ولی اللہ محدث کے عرب مشائخ ،23

[21]...انفانس العارفین ،21،22،198

[22]... علامہ میر محمد زاہد ہروی کی یہ تینوں کتب شرح مواقف امورعامہ ،حاشیہ شرح تہذیب علامہ دوانی،حاشیہ رسالہ تصور و تصدیق از علامہ قطب الدین رازی ” حواشی ثلاثہ “کہلاتی ہیں ، عرصہ دراز سے ہند کے عربی مدارس میں یہ کتب نصاب کا حصہ ہیں ۔

[23]...حدائق حنفیہ ،448،تذکرہ علمائے ہند ،366،367

[24]...نزہۃ الخواطر،5/384،فقہائے ہند،جلدچہارم،467

[25] ...علامہ یوسف کوسج قرباغی رحمۃ اللہ علیہ نے جو کتب تصنیف کیں وہ یہ ہیں : تتمۃ الحواشی فی ازالۃ الغواشی ، حاشیۃ قراباغی علی اثبات واجب، حاشیۃ القرباغی على شرح عقائد ملا جلال، ہشت بہشت ‏فی معرفۃ النفس، شرح رسالۃ اثبات الواجب اور شرح الرسالۃ الحنفیۃ لمحمد الحنفی ۔

[26] ...معجم المؤلفین،4/181،رقم : ،18526،ہدایۃ العارفین ،6/566

[27] ... حاشیہ شرح مختصر الاصول اور حاشیہ شرح مختصرابن حاجب دونوں عربی میں ہیں ،ان کے مخطوطہ ایران کے کتب خانہ مجلس شوریٰ اسلامی میں محفوظ ہیں اول الذکر کا نمبر IR11353 اور ثانی الذکر کا نمبر IR28216ہے ۔

[28]...ھدیۃ العارفین مع کشف الظنون،5/262،اعلام الزرکلی،2/167۔ان کے بارے میں لکھا ہے کہ دہلی میں بھی رہے ۔

[29] ... حضرت شاہ رفیع الدین محدث اکبرآبادی کا تعلق شیرازسے تھا علم دین دیگرعلماکے علاوہ علامہ محقق جلدل الدین دوانی سے حاصل کیا ،پھر حج کے لیے حجازمقدس گئے اوروہاں علامہ شمس الدین محمد سخاوی کی صحبت پائی ،پھرہندآئے اورآگرہ(اکبرآباد،یوپی ،ہند)میں سکونت اختیارکی ،آپ کا وصال 954ھ کو آگرہ میں ہوا،آپ ہندکے بڑے علماسے تھے ۔(نزہۃ الخواطر ، 4/ 104 )

[30] ...ملاجمال الدین محمودشیرازی کی تصنیف کردہ کتب میں حاشیہ اثبات الواجب جدید، حاشیۃ القدیمۃ ،شرح المطالع اورشرح التجريد ہیں ۔

[31]... ثلاث رسائل ملاجلال الدین دوانی ،مقدمہ ص23،نزہۃ الخواطر،4/71

[32] ... ملاجلال الدین دوانی کے یہ چاروں رسائل انموذج العلوم، تفسير سورة الكافرون ،شواکل الحورا ورشرح ہياكل النور سهروردی کو مجمع البحوث الاسلامیہ مشہدایران نے اکٹھا 1411ھ میں شائع کیاہے اس کے 340صفحات ہیں ۔ ان رسائل میں انھوں نے کئی علوم ،تفسیرقرآن ،حدیث واصول حدیث، فقہ واصول فقہ ،اصول الدین ،طب،تفسیر،ہندسہ،ہئیت ،منطق اورالارثماطیقی پرلکھا ہے ۔

[33] ... لوامع‌الاشراق فی مکارم الاخلاق المعروف اخلاق جلالی علامہ دوانی کی شہرت یافتہ کتاب ہے یہ فارسی ادب کا شاہکارہے ،اخلاق حسنہ پر مشتمل اس کتاب کوتین حصوں میں تقسیم کیاگیا ہے: (1)تہذیب الاخلاق(2)تدبیر منزل (3)تدبیر شہر اور رسوم بادشاہی ،اسے 1891ھ کو 354 صفحات پر لکھنؤ سے شائع کیا گیا ہے ،انٹرنیٹ پر یہ کتاب موجودہے ۔

[34]...اعلام الزرکلی ،6/32، البدر الطالع 2/ 130، الضوء اللامع لاہل القرن التاسع: 7/ 133

[35]...امام القراء و المحدثین،شمس الدین ابو الخیر محمد بن محمد بن علی بن یوسف جزری 25 رمضان 751 ھ کو دمشق میں پیدا ہوئے، وفات5 ربیع الاول 833 ھ کو شیراز میں ہوئی اور اپنے تعمیر کردہ مدرسہ میں دفن کیے گئے،کئی شہروں میں تحصیل علم کیا ، 793 ھ میں دمشق کے قاضی مقرر ہوئے،انہی دنوں میں آپ نے دارالقرآن دمشق کی بنیاد رکھی، 798 ھ کے بعد آپ نے ہرات ، خراسان ،اصفہان کے شہروں میں جاکر درس و تدریس فرمائی، آپ علم تجوید کے امام،باعمل و متقی عالم دین،مفتی اسلام ،مصنف کتب کثیرہ اور مؤثر شخصیت کے مالک تھے۔ کتابوں میں حصن و حصین اور کتاب النشر آپ کی پہچان ہیں۔ ( شذرات الذھب، 7/336، الضوء اللامع لاہل القرن التاسع للسخاوی، 9/255، الاعلام للزرکلی، 7/45، النشر فی القراءت العشر، مقدمۃ الکتاب )

[36] ...صاحب ِ نحو میر،سید المحققین میر سید شریف علی بن محمد حنفی جُرجانی کی ولادت 740 ھ جرجان( صوبہ گلستان) ایران میں ہوئی۔آپ متکلم، منطقی، حکیم، صوفی، مترجم، ادیب، شاعر، مفسر،مدرس، مناظر اور شارح و حاشیہ نویس بزرگ تھے۔ آپ نے6 ربیع الآخر 816 ھ کو وصال فرمایا ،مزار مبارک شیراز (صوبہ فارس) ایران میں مرجعِ خلائق ہے۔ (ظفر الامانی فی مختصر الجرجانی ، ص12تا15 )

[37] ...ثلاث رسائل ملاجلال الدین دوانی ،انموذج العلوم،ص275

[38] ... الضوء اللامع لاہل القرن التاسع،حرف العین المھملہ،4/180،181

[39] ...الضوء اللامع لاہل القرن التاسع،حرف العین المھملہ،5/262

[40] ... فتح الباری شرح صحیح البخاری ،علامہ ابن حجرکی بہترین کتاب ہے ،اسے قبولیت عامہ حاصل ہے، اس سے بے شمار لوگوں نے استفادہ کیا ہے ،علمانے اسے بارے میں لکھا کہ یہ ایسی کتاب ہے کہ اس کی مثل کوئی کتاب نہیں لکھی گئی ،مختلف مطباع نے اسے شائع کیا ہے،دار طیبہ ریاض کی اشاعت میں اس کی 15جلدیں ہیں ۔

[41] ... بستان المحدثین، ص302 ، الروایات التفسیریہ فی فتح الباری، 1/39، 65

[42] ...محدث جلیل حضرت امام سالم بن عبداللہ بصری شافعی مکی رحمۃ اللہ علیہ مکہ شریف کے جلیل القدرمحدث ،جید عالم دین ،جود و سخا کے مالک ،مسند الحجاز،مرجع علم و علما اور وسیع و عریض لائبریری کے مالک تھے ،آپ نے اپنی اسناد واجازات کو ’’الامدادبمعرفۃ علوالاسناد‘‘کے نام سے جمع فرمایا ،آپ کا وصال 2 محرم 1160ھ کو وصال فرمایا،جنۃ المعلی میں دفن کئے گئے ۔( مختصر نشر النور، ص202 ، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے عرب مشائخ، 48)

[43] ...شمس الملت حضرت خواجہ مرزا مظہر جان جاناں علوی دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 11 رمضان 1110 ھ میں ہوئی ،آپ دینی و دنیاوی علوم و فنون میں ماہر ،فارسی و اردو کے بہترین شاعر ، حسن ظاہری و باطنی سے مالا مال،پابند شریعت و سنت ، مذہباً حنفی اور مشرباً نقشبندی و شیخ طریقت تھے،ایک قاتلانہ حملے میں زخمی ہوئے اور 10 محرم 1195 ھ کو جام شہادت نوش فرمایا ، مزار خانقاہ شاہ ابو الخیر دہلی میں ہے،چھ کتب میں دیوان مظہر (فارسی) بھی ہے ۔ (مرزا جان جاناں کے خطوط ،ص11تا20،دہلی کے بائیس خواجہ،236)

[44] ...نقشبندی بزرگ حضرت علامہ شاہ نعیم اللہ بہرائچی کی ولادت 1153ھ کو موضع بھدوانی ضلع بہرائچ میں ہوئی اور 5 صفر المظفر 1218ھ بہرائچ میں نمازکی حالت میں وصال فرمایا،آپ جید عالم دین ،شیخ طریقت اور مصنف کتب تھے ۔بہرائچ اور لکھنؤ میں درس و تدریس اور رشد و ہدایت میں مصروف رہے ،دو درجن کتب میں سے ”معمولات مظہریہ ،بشارات مظہریہ اور رسالہ در احوال خود“ بھی ہیں ۔(تاریخ مشائخ نقشبندیہ از علامہ نفیس احمد مصباحی،ص696تا722)

[45] ... مؤید الدین حضرتِ سیّدنا خواجہ محمد باقی باللہ نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 971 ہجری کو کابَل(افغانستان) میں ہوئی۔ولیِ کامل اور صاحبِ کرامت بزرگ تھے۔ 25 جُمادَی الاُخریٰ 1012 ہجری کو وِصال فرمایا، مَزار مُبارک بلند دروازہ ، قُطب روڈ ، دہلی (ہند) میں ہے۔ (دہلی کے بائیس خواجہ، ص 182تا188)

[46] ...حدائق حنفیہ ،458،تذکرہ علمائے ہند ،358،شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے عرب مشائخ،48)

[47]...عروۃ الوثقیٰ،مجد الدین حضرت خواجہ محمد معصوم سرہندی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 10شوال 1007 ھ کو سر ہندشریف (مشرقی پنجاب،ہند)میں ہوئی اور یہیں 9 ربیع الاول 1079 ھ کو وفات پائی ،آپ جید عالم دین ،شیخ طریقت ،والد گرامی حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے سچے جانشین اور کثیر الفیض بزرگ تھے ۔ ( تاریخ مشائخ نقشبند،401تا 418)

[48] ... حضرت علامہ شیخ عبد الاحد وحدت سرہندی کا دیوان شعر( فارسی)حقائق و معارف کا مجموعہ ہے جبکہ الجنات الثمانیہ آپ کے سات عربی رسائل کے مجموعے کا حصہ ہے ، یہ رسالہ امام ربانی مجدد الف ثانی ، شیخ احمد سرہندی کی مختصر حالات زندگی پر مشتمل ہے ،علامہ محمد بدر السلام صدیقی صاحب (زیب آستانہ عالیہ کالادے شریف ، جہلم )نے اس کے مخطوطے پر کام کر کے 91 صفحات پر طبع کروایا ہے ،اس کا ترجمہ استاذ العلماء مفتی علیم الدین نقشبندی صاحب نے فرمایا ہے جو 85 صفحات پر محیط ہے ۔

[49] ...لطائف المدینہ ،29تا65

[50] ...حضرت شیخ عبد الاحد وحدت سرہندی نے اپنے والد خواجہ محمد سعید مجددی کے احوال پر عربی میں کتاب ’’لطائف المدینہ‘‘تحریر فرمائی ،جسے پروفیسر محمد اقبال مجددی نے اپنی تحقیق و تعلیق و ترجمہ کے ساتھ حوزہ نقشبندیہ لاہور سے 2004 ھ کو 196 صفحات پر شائع کروایا ہےشروع میں 92 صفحات پر ترجمہ ہے اور بقیہ صفحات پر اس کا مخطوطہ ہے ۔

[51] ...روضۃ القیومیہ ،1/463تا470،لطائف المدینہ ،12

[52] ...مکتوبات امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی کی عالمگیرشہرت رکھنے والی کتاب ہے جو تین دفاتر (حصوں) (1) دار المعرفت (2) نورا لخلائق (3)ثالث پر مشتمل ہے ،ان میں کل 519 مکتوبات ہیں ۔یہ تصوف ، رشد و ہدایت ،علم و معلومات کا گنجینہ ہے ،کئی زبانوں میں اس کے ترجمے ہوچکے ہیں اور کئی مقامات پر اس سے درس کا سلسلہ ہے ۔

[53] ...تذکرۂ مجدد الف ثانی،ص 2 تا39۔

[54] ...تذکرہ علمائے ہند،465،منتخب التواریخ مترجم،639،نزہۃ الخواطر، جلد 5ص 438 ، فقہائے ہند، جلد چہارم،496۔

56 ...علامہ ابن حجر احمد ہیتمی کی کتاب الصواعق المحرقہ صحابہ و اہل بیت اطہار کے فضائل پر مشتمل ہے ،اس کا اردو ترجمہ بھی ہوچکا ہے،فتاویٰ حدیثیہ ،آپ کے فتاوٰی کا مجموعہ ہے، احکام کے ساتھ اس میں کئی دیگر معلومات بھی ہیں ،تحفۃ الاخبار فی مولد المختار کا موضوع کتاب کے نام سے واضح ہے ،تحفۃ المحتاج بشرح المنہاج ، فقہ شافعی کی بنیادی کتب ( امہات الکتب) میں سے ہے ،یہ امام نووی کی کتاب منہاج الطالبین کی شرح ہے ،اسے شوافع میں مقبولیت حاصل ہے ،فتاویٰ لکھتے وقت اس پر اعتمادکیا جاتاہے ۔

[56] ...الاعلام للزركلی، ج1 ص234،الكواكب السائرة باعيان المائۃ العاشرة، نجم الدين الغزی، ج3 ص101،فتح الالہ فی شرح المشکاۃ،ترجمہ الشارح المحقق ابن حجر الہیتمی،1/31

[57] ...الدقائق المحکمہ قرآت کی مشہور کتاب مقدمہ جزریہ کی بہترین شرح ہے، اسے مختلف مطابع نے شائع کیا ہے ،مثلا مکتبۃ ضیاء الشام دمشق نے اسے 248صفحات پر شائع کیا ہے ۔

[58] ...تحفۃ الباری کا دوسرا نام منحۃ الباری ہے ،یہ بخاری شریف کی بہترین شرح ہے ،دار الکتب العلمیہ بیروت نے اسے 7 جلدوں میں شائع کیا ہے ۔

[59] ... اسنی المطالب فقہ شافعی کی کتاب ہے ،اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جس نے اسے پڑھا نہیں وہ شافعی ہی نہیں ،دار الکتب العلمیہ بیروت نے اسے 9جلدوں میں شائع کیا ہے۔

[60] ...شذرات الذھب، 8/174تا 176، النور السافر،ص172تا177، الاعلام للزرکلی، 3/ 46 ۔

[61] ...مُجدّدِ وقت حضرت سیّد محمد بن عبد الرسول بَرْزَنْجی مَدَنی شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت شہرزُور (صوبہ سلیمانیہ، عراق) 1040 ھ میں ہوئی اور یکم محرم 1103 ھ کو مدینۂ منوّرہ میں وصال فرمایا اور جنّتُ البقیع میں دفن ہوئے۔آپ حافظِ قراٰن، جامعِ معقول و منقول، علامۂ حجاز، مفتیِ شافعیہ، 90 کتب کے مصنّف، ولیِ کامل اور مدینہ شریف کے خاندانِ بَرْزَنجی کے جدِّ امجد ہیں۔ (الاشاعۃ لاشراط الساعۃ، ص13، تاریخ الدولۃ المکیۃ ، ص59

[62] ... عالمِ کبیر، مسند العصر حضرت سیّدُنا شیخ ابو الاسرار حسن بن علی عُجَیْمی حنفی مکی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 10 ربیع الاول 1049 ھ مکۂ مکرمہ میں ہوئی۔ 3شوَّالُ المکرَّم 1113 ھ کو وصال طائف (عرب شریف) میں فرمایا، تدفین احاطۂ مزار حضرت سیّدُنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما میں ہوئی۔ آپ عالم اسلام کے سو سے زائد علما و صوفیا کے شاگرد، حافظ قران، محدثِ شہیر،فقیہ حنفی ، صوفیِ کامل،مسندِ حجاز،استاذ الاساتذہ، اور 60 سے زائد کتب کے مصنف تھے،آپ نے طویل عرصہ مسجد حرم،مسجد نبوی اور مسجد عبد اللہ بن عباس (طائف)میں تدریس کی خدمات سر انجام دیں۔ (مختصر نشرالنور ،167 تا173 ،مکہ مکرمہ کے عجیمی علماء،ص6تا54

[63] ...اعلام الزرکلی،304/5، سلک الدرر،24/4۔

[64] ...کتاب الامم لایقاظ الھمم کو مجلس دائرۃ المعارف النظامیہ حیدرآباد دکن نے 1328 ھ میں دیگر 4 ، اسناد و مرویات کے رسائل کے ساتھ شائع کیا ہے ، الامم لایقاظ الھمم کے کل صفحات 134 ہیں ۔

[65] ...سلک الدرر فی اعیان القرن الثانی عشر، 1/9، اعلام للزکلی، 1/35، البدر الطالع بمحاسن من بعد قرن السابع، 1/11 ۔

[66] ... ضیاء الساری فی مسالک ابواب البخاری، 18 جلدوں پر مشتمل صحیح بخاری کی اہم شرح ہے جو بطور حوالہ استعمال ہوتی ہے ،اسے دار النوادر دمشق نے شائع کیا ہے۔

[67] ... مختصر نشر النور، ص 290 تا 292 ، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے عرب مشائخ،18 تا 20 ۔

[68] ... جمع الفوائد من جامع الاصول و مجمع الزوائد،احادیث مبارکہ کا بہترین مجموعہ ہے جس میں 15 کتب احادیث ،بخاری ،مسلم ،ترمذی ،نسانی ،ابوداؤد،ابن ماجہ ،مؤطا امام مالک،معجم طبرانی کبیر، اوسط ، صغیر،مسند ابی یعلی،مسند بزار،مسنداحمد،سنن دارمی اور زوائد زرین کی مرویات کو جمع کردیا گیا ہے ۔

[69] ... صلۃ الخلف بموصول السلف،7تا12، خلاصۃ الاثر 4/204، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے عرب مشائخ،ص37، فہرس الفہارس،1/425۔

[70] ... صاحبِ در ِمختار، عمدۃ المتاخرین حضرتِ سیّدنا علّامہ مفتی محمد علاؤ الدین حصکفی دمشقی حنفی کی ولادت 1025 ھ دمشق شام میں ہوئی اور وصال 10 شوال 1088 ھ کو فرمایا، مزار بابِ الصغیر (دمشق)شام میں ہے۔آپ جامع ِمعقولات و منقولات اور عظیم فقیہ تھے۔ اپنی کتاب ’’درمختار شرح تنویر الابصار‘‘کی وجہ سے مشہور ہیں۔ (جد الممتار، 1/245، 242، 79)

[71] ... الدرۃ الثمینۃ فیمالزائرالنبی الی المدینۃ،فضائل مدینہ پر مشتمل کتاب ہے جسے دارالکتب العلمیہ بیروت نے شائع کیاہے ۔

[72] ...الامم لایقاظ الھمم ،125تا127،شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے عرب مشائخ،8تا10،42۔

[73]...حضرت ابو المواہب احمد شناوی کے مرشد و سسر حضرت صغبت اللہ حسینی بروجی (وفات1015ھ مطابق1616ء)نے اپنے دادا مرشد حضرت شاہ محمد غوث گوالیاری کی کتاب جواہر خمسہ(فارسی) کا عربی ترجمہ الجواھر الخمیس کیا جس پر علامہ شناوی نے حاشیہ بنام تجلیۃ البصائر حاشیۃ على كتاب الجواهر تحریر فرمایا۔(شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے عرب مشائخ ،8،تاریخ الدولۃ المکیہ،27،حضرت شاہ محمدغوث گوالیاری،143)

[74] ...الامم لایقاظ الھمم ،127،128،معجم المؤلفین ،1/205،رقم1519 ۔

[75] ... شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے عرب مشائخ ،8

[76] ...علامہ عبدالوہاب شعرانی کی کتب تنبیہ المغترین ،اَنوارُالقُدسیہ کا موضوع تصوف اور اصلاح نفس ہے،ان دونوں کا اردو ترجمہ ہوچکا ہے ،مکتبۃ اعلیٰ حضرت لاہور نے شیخ الحدیث مفتی محمد صدیق ہزاروی صاحب سے ترجمہ کراوکر شائع کیا ہے ، طبقات امام شعرانی میں علما و اولیائے کرام کے حالات تحریر کیے گئے ہیں ،اردو میں اس کا ترجمہ جامع معقول و منقول حضرت علامہ سیدمحفوظ الحق شاہ قادری رحمۃ اللہ علیہ نے بنام برکات روحانی کیا ہے جسے نوریہ رضویہ پبلی کیشنز لاہور نے شائع کیا ہے ۔

[77] ...معجم المؤلفین،/2339۔

[78] ...تفسیر البکری کا مکمل نام تسہیل السبیل فی معانی التنزيل ہے ،اسے دار الکتب العلمیہ بیروت نے شائع کیا ہے ۔

[79] ...الاعلام للزرکلی، 7/57، شذرات الذهب، 8/345، الکواکب السائرۃ باعیان المأۃ العاشرۃ،2 /194۔

[80] ...الاعلام للزرکلی، 6/194، الضوء اللامع لاھل القرن التاسع للسخاوی،7/285، البدر الطالع، 2/182۔

[81] ... نہایۃ المحتاج شرح المنہاج فقہ شافعی کی بنیادی کتب (امہات الکتب )میں سے ہے ،یہ امام یحیی نووی کی کتاب منهاج الطالبين وعمدة المفتين کی شرح ہے، دارالکتب العلمیہ بیروت نے اسے چھ جلدوں میں شائع کیا ہے ۔

[82] ...معجم المؤلفین،3/61، الاعلام للزرکلی، 6/7۔

[83] ...فتح الجواد بشرح منظومۃ ابن العماد کا عنوان اصول فقہ ہے اسے کئی مطابع نے شائع کیا ہے،دار البشائر اسلامیہ بیروت کا مطبوع میرے پیش نظرہے اس کے 127 صفحات ہیں اور اس پر تحقیق ڈاکٹر عبد الرؤف نے کی ہے ۔ غایۃ المأمول فی شرح ورقات الاصول کا موضوع بھی اصول فقہ ہے ۔یہ امام الحرمين ابو المعالی عبد الملك الجُوَيْنی شافعی کی بہترین تصنیف ورقات الاصول کی شرح ہے ۔اسے مؤسسہ الرسالہ ناشرون بیروت نے 405صفحات پر شائع کیا ہے ۔ جبکہ فتح الرحمن بشرح زبدابن رسلان فقہ کے موضوع پر ہے اسے دار المنہاج بیروت نے 1088 صفحات پر شائع کیا ہے ۔

[84] ...فتاویٰ رملی امام شہاب الدین رملی کے فتاویٰ کا مجموعہ جسے آپ کے بیٹے شافعی صغیر امام شمسُ الدّین رمْلی نے جمع کیا ،یہ فقہ شافعی کی بنیادی کتب(امہات الکتب )میں شمارکی جاتی ہے ۔

[85] ...الاعلام للزركلی، 1/120، الکواکب السائرۃ باعیان المأۃالعاشرۃ،2/120۔

[86] ...فہرس الفہارس ،2/734، درۃ الحجال فی اسماء الرجال مع الذیل، 3/99۔

[87] ...علامہ جار اللہ محمد ہاشمی مکی کی کتاب تحفۃ اللطائف کا مکمل نام تحفة اللطائف في فضائل الحبر ابن عباس ووج والطائف ہے ،یہ مقدمہ ،دو باب اور خاتمہ پر مشتمل ہے ،اس کے پہلے باب میں طائف کے فضائل ،نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے واقعاتِ طائف ہیں ،دوسرا باب تین فصلوں پر مشتمل ہے ،پہلی فصل میں فضائل حضرت عباس ،دوسری میں فضائل عبداللہ بن عباس اور تیسری فصل میں حضرت محمد بن حنفیہ کے فضائل بیان کیے گئے ہیں ،دار الکتب العلمیہ بیروت نے اسے 320صفحات پر شائع کیا ہے ۔

[88] ...شذرات الذھب فی اخبار من ذھب، 8/355، فہرس الفہارس ،1/296، الاعلام للزرکلی، 6/209 ۔

[89] ...مختصر نشر النور ، 167 تا 173 ، مکہ مکرمہ کے عجیمی علما، ص 6 تا 54 ۔

[90] ... علامہ شيخ عيسى بن محمد الثعالبی الجزائری کی تصنیف كنز الرواة المجموع من درر المجاز و يواقيت المسموع زیور طباعت سے آراستہ ہوچکی ہے ،اس کا موضوع حدیث اوردیگرعلوم کی اسانیدہے ۔

[91]...الاعلام للزرکلی،5/108،مختصر نشر النور،383تا385، خلاصۃ الاثر فی اعيان القرن الحادی عشر،3/337۔

[92] ... علامہ شيخ عيسى بن محمد الثعالبی الجزائری کی تصنیف ثبت شمس الدين البابلی کا مکمل نام منتخب الاسانيد فی وصل المصنفات و الاجزاء و المسانيد ہے ،موضوع کے نام سے ظاہر ہے،اسے دار البشائر اسلامیہ بیروت نے 256 صفحات پر شائع کیا ہے ۔

[93] ...الاعلام للزرکلی ،6/270،خلاصۃ الاثر،4/39 ،42۔

[94]...مختصر خلیل (مصنف،شیخ خلیل بن اسحاق جندی مالکی) فقہ مالکیہ کی بنیادی (امہات الکتب )سے ہے علامہ سالم نے اس کی بہترین شرح تيسير الملك الجليل تحریرفرمائی ،جس کا مکمل نام تيسير الملك الجليل لجمع الشروح و حواشی خليل فی الفقہ المالکی ہے،دار الکتب العلمیہ بیروت نے اسے چھ جلدوں میں شائع کیا ہے ۔

[95] ...الاعلام للزرکلی،3/72،خلاصۃ الاثر،1/446۔

[96] ...دونوں کا موضوع نام سے واضح ہے ۔

[97] ... شذرات الذھب، 8/474، الاعلام للزرکلی، 6/6، معجم المؤلفین، 3/83۔

[98] ... خواجۂ خواجگان حضرت سیّد شمسُ الدّین امیر کلال سوخاری رحمۃ اللہ القَوی قصبۂ سو خار (نزد بخارا ، ازبکستان) میں 676ھ میں پیدا ہوئے اور یہیں 15 جُمادَی الاُولٰی 772ھ کو وصال فرمایا۔ آپ حضرت بابا سماسی علیہ رحمۃ اللہ القَوی کے مرید اور بانیِ سلسلۂ نقشبندیہ حضرت خواجہ بہاؤ الدین محمد نقشبند رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے پیر و مرشد اور صاحبِ کرامت ولیُّ اللہ ہیں۔ (تذکرۃ المشائخ، ص32 ، 33، تذکرہ نقشبندیہ خیریہ، ص285،279)

[99] ...حضرت شیخ احمد نخلی کی کتاب بثبت نخلی کا نام بغیۃ الطالبين لبيان المشائخ المحققين المعتمدين ہے ،اسے مجلس دائرۃ المعارف النظامیہ حیدرآبادکن نے شائع کیا ہے ،اس کے کل 84صفحات ہیں ۔

[101] ...امتاَعُ الفُضَلاء بتَراجِم القرّاء،2/135تا139، خلاصۃ الاثر فی اعيان القرن الحادی العشر، 2/210۔

[102] ...امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے عالم برزخ کے بارے میں رسالہ منظومۃ القبور لکھا، علامہ احمد بن خلیل سبکی رحمہ اللہ علیہ نے اس کی شرح فتح الغفور کے نام سے تحریر فرمائی ، دار النوادر ، بیروت اور دار المنہاج جدہ عرب نے اسے شائع کیا ہے ۔

[103] ...خلاصۃ الاثر فی اعیان القرن الحادی عشر، 1/185۔

[104] ...خلاصۃ الاثر فی اعیان القرن الحادی عشر،1/185 ۔