مقالے کی PDF کے لئے ڈاؤن لوڈ پر کلک کریں Download PDF

امام المحدثین کی سندجامع ترمذی

کتاب الجامع المعروف سنن تِرمِذی صحاح ستہ میں شامل ہے ترتیب کے مطابق یہ صحیح بخاری ،صحیح مسلم ،سنن ابو داؤد اور سنن نسائی کے بعد شمار ہوتی ہے مگر اپنی جامعیت ،حسن ترتیب اور دیگر فوائد کی وجہ سے صحیحین (صحیح بخاری اورمسلم)کے بعد ذکر کی جاتی ہے ،اس میں حدیث کے تمام موضوعات کے تحت احادیث کو لایا گیا ہے، اسی لیے جامع ترمذی کہا جاتا ہے نیز اس کی ترتیب ابواب فقہ کے مطابق بھی ہے اس لیے اسے سنن ترمذی بھی کہا جاتا ہے، یہی وہ خصوصیت ہے جو اسے دیگر کتب احادیث سے ممتاز کرتی ہے البتہ امام ترمذی نے خود اسے ’’المسند الصحیح‘‘تحریر فرمایا ہے ، یوں تو صحیح وہ کتاب ہوتی ہے جس کی تمام احادیث سند صحیح کے ساتھ ہوں ،جامع ترمذی کو صحیح کہنا اکثر کے اعتبار سے ہے ،اس کی دیگر خصوصیات میں یہ بھی ہے کہ ہر حدیث پاک کے بعد اس کا صحیح یا ضعیف ہونا بیان کیا جاتا ہے اور ضعف کی علت بھی ذکر کی ہے ،ہر حدیث پاک کسی نہ کسی فقیہ کی معمول بہ ہے ،ضمنا امام ترمذی مشہور فقہا کی آراء کو بھی ذکر کرتے ہیں ،جامع ترمذی کی ترتیب آسان اور طریقہ واضح ہے ۔ ایک قول کے مطابق اس میں کل احادیث ایک ہزار تین سو پچاسی (1385) ہیں ، اگر متابعات و شواہد کو بھی شامل کرلیا جائے تو کل تعداد تین ہزار نو سو چھپن (3956)بن جاتی ہے ۔ ([1])

ہمارے بلاد میں ہونے والے دورہ ٔ حدیث میں جامع ترمذی کو بھی شامل کیا گیا ، عموما اسے وہ اساتذہ پڑھاتے ہیں جو علم فقہ سے گہری دلچسپی رکھتے ہیں ۔امام المحدثین حضرت علامہ مفتی سیِّد محمد دِیدار علی شاہ مَشْہدی نقشبندی قادِری مُحدِّث اَلْوَری رحمۃ اللہ علیہ (ولادت، 1273ھ مطابق 1856ھ ،وفات 22رجب المرجب 1354ھ مطابق 20 ، اکتوبر 1935ء ) نے 1295ھ مطابق 1878ء میں افضل المحدثین علامہ احمد علی سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ سے دورۂ حدیث کر کے اسانید احادیث مشمول سنن ترمذی کی اجازت حاصل کی۔ ([2]) انھوں نے علامہ شاہ محمد اسحاق دہلوی مہاجر مکی سے اور انھوں نے سراج الہند علامہ شاہ عبد العزیز محدث دہلوی سے ،اسی طرح امام المحدثین مفتی سید محمد دیدار علی شاہ صاحب نے ذوالحجہ 1337ھ کو اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ سے جملہ اجازات و اسانید حاصل کیں ، ([3]) اور اعلیٰ حضرت نے اپنے مرشد حضرت شاہ آل رسول مارہروی سے اور انھوں نے سراج الہند علامہ شاہ عبد العزیز سے اور سراج الہند تحریر فرماتے ہیں :

(میرے والد گرامی علامہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے ) حضرت شیخ ابو طاہرسے، (انھوں )نے اسے(یعنی اجازت و سند جامع ترمذی کو) حضرت شیخ ابو طاہر سے انہوں نے حضرت شیخ ابراہیم کردی سے اور انہوں نے شیخ سلطان مزاحی سے اور انہوں نے شیخ شہاب الدین احمد بن خلیل سبکی سے اور انہوں نے شیخ نجم الدین محمد غیطی سے اور انہوں نے شیخ زین الدین زکریا بن محمد الانصاری سے اور انہوں نے شیخ عز الدین عبد الرحیم بن علی بن الفرات القاہری حنفی([4]) سے اور انہوں نے عمر بن ابو الحسن مراغی([5])سے (مراغہ بفتح میم ، ملک ایران میں ایک مشہور شہر کا نام ہے) اور انہوں نے شیخ فخر الدین ابن البخاری سے اور انہوں نے شیخ عمر بن طبرزد بغدادی([6])سے اور انہوں نے شیخ ابو الفتح عبد الملک بن عبداللہ بن ابی سہل الکروخی سے (کروخ ، فتح کاف اور ضمہ رائے مہملہ محففہ کے ساتھ نواحِ ہرات میں ایک گاؤں کا نام ہے اور یہی شیخ ابوالفتح صاحب نسخہ ترمذی ہیں) اور انہوں نے قاضی ابو عامر محمود بن القاسم بن محمد ازدی سے اور انہوں نے شیخ ابو محمد عبد الجبار بن محمد بن عبد اللہ بن ابی الجراح الجراحی مروزی سے (اور وہ مرو شاہجہان کی طرف منسوب ہے جو خراسان میں ایک مشہور گاؤں ہے) اور انہوں نے ابوالعباس محمد بن محبوب المحبوبی المروزی([7]) سے اور انہوں نے صاحب کتاب ابو عیسی ٰمحمد بن عیسیٰ بن سورۃ بن موسیٰ ترمذی رحمہ اللہ سے ۔ ([8])

سندِ جامع ترمذی کے رواۃ و شیوخ کا مختصر تعارف

امام المحدثین مفتی سید محمد دیدار علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کی سند ِجامع ترمذی بطریق علامہ احمد علی سہارنپوری اور بطریق امام احمد رضا 25 واسطوں سے نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے مل جاتی ہے ،ذیل میں ان تمام محدثین کا مختصر تعارف بیان کیا جاتاہے:

امامُ الْمُحدِّثین حضرت مولانا سیِّد محمد دِیدار علی شاہ مَشْہدی نقشبندی قادِری مُحدِّث اَلْوَری رحمۃ اللہ علیہ، جَیِّد عالِم، اُستاذُالعُلَما، مفتیِ اسلام اور اکابرین اہل سنّت سے تھے۔آپ 1273ھ مطابق 1856ھ کو اَلْوَر (راجِسْتھان، ہِند )میں پیدا ہوئے اور لاہور میں 22 رجب المرجب 1354 ھ مطابق 20 ،اکتوبر 1935 ء کو (بروزپیر) نماز عصر کے سجدے میں وصال فرمایا ،جامع مسجد حنفیہ محمدی محلہ اندرون دہلی گیٹ لاہور سے متصل جگہ میں تدفین کی گئی ۔ دارُ العُلُوم حِزْبُ الْاَحْناف لاہور([9]) اور فتاویٰ دِیداریہ ([10]) آپ کی یاد گار ہیں۔( [11])

(1)افضل المحدثین علامہ احمد علی سہارنپوری کی ولادت 1225 ھ مطابق 1810ء کو ہوئی اور 6 جمادَی الاُولیٰ 1297ھ مطابق 16 اپریل 1880 ء کو تقریباً بہتر (72) سال کی عمر میں داعیِ اجل کو لبیک کہا۔ آپ اپنے آبائی قبرستان متصل عید گاہ سہارنپور میں سپردِ خاک کیے گئے۔آپ حافظِ قرآن، عالمِ اجل، استاذُ الاساتذہ، مُحدّثِ کبیر اور کثیر الفیض شخصیت کے مالک تھے، اشاعتِ احادیث میں آپ کی کوشش آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے، آپ نے صحاح ستہ اور دیگر کتب احادیث کی تدریس، اشاعت، حواشی اور درستیٔ متن میں جو کوششیں کیں وہ مثالی ہیں ۔ ([12])

(2)علامہ شاہ محمد اسحاق دہلوی مہاجر مکی کی پیدائش ذوالحجہ 1197ھ مطابق 1782 ء دہلی میں ہوئی،یہ حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کے نواسے ،شاگرد اور جانشین تھے ،پہلے دہلی پھر مکہ شریف میں تدریس کرتے رہے ،وفات رجب 1262 ھ کو مکہ شریف میں ہوئی اور جنت المعلیٰ میں دفن کئے گئے ۔ ([13])

(3)اعلیٰ حضرت، مجددِ دین و ملّت، امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 10 شوال 1272 ھ مطابق 6 جون 1856 ء کو بریلی شریف(یو۔پی) ہند میں ہوئی، یہیں 25 صفر 1340 ھ مطابق 28 ،اکتوبر 1921 ء کو وصال فرمایا۔ مزار جائے پیدائش میں مرجعِ خاص و عام ہے۔آپ حافظِ قرآن، پچاس سے زیادہ جدید و قدیم علوم کے ماہر، فقیہ اسلام، مُحدّثِ وقت،مصلحِ امت، نعت گو شاعر، سلسلہ قادریہ کے عظیم شیخ طریقت، تقریباً ایک ہزار کتب کے مصنف، مرجع علمائے عرب و عجم ، استاذ الفقہا و المحدثین، شیخ الاسلام و المسلمین، مجتہد فی المسائل اور چودہویں صدی کی مؤثر ترین شخصیت کے مالک تھے۔ کنز الایمان فی ترجمۃ القرآن([14]) ، فتاویٰ رضویہ([15]) ، جدّ الممتار علی رد المحتار([16]) اور حدائقِ بخشش([17]) آپ کی مشہور تصانیف ہیں۔ ([18])

(4) خاتِمُ الاکابِر ،قدوۃ العارفین حضرت علامہ شاہ آلِ رسول مار ہَروی رحمۃ اللہ علیہ عالمِ باعمل،صاحبِ وَرَع و تقوی اور سلسلہ قادریہ برکاتیہ رضویہ کے شیخِ طریقت ہیں۔ آپ کی ولادت 1209 ھ کو خانقاہ برکاتیہ مارہرہ شریف (ضلع ایٹہ،یوپی) ہند میں ہوئی اور یہیں 18ذو الحجہ 1296 ھ کو وصال فرمایا،تدفین دلان شرقی گنبد درگاہ حضرت شاہ برکت اللہ([19])رحمۃ اللہ علیہ میں بالین مزار حضرت سید شاہ حمزہ([20]) ہوئی ۔ آپ ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد حضرت سید شاہ آل احمد اچھے میاں مارہروی ([21])رحمۃ اللہ علیہ کے ارشاد پر سراج الہند حضرت مولانا شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ کے درسِ حدیث میں شریک ہوئے۔ صحاحِ ستہ کا دورہ کرنے کے بعد حضرت محدث دہلوی قدس سرہ سے علویہ منامیہ کی اجازت اور احادیث و مصافحات کی اجازتیں پائیں،فقہ میں آپ نے دو کتب مختصر تاریخ اور خطبہ ٔ جمعہ تحریر فرمائیں۔([22])

(5) سِراجُ الہند حضرت شاہ عبد العزیز محدّثِ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ علوم و فُنون کے جامع، استاذُ العلماء و المحدثین، مُفَسِّرِ قراٰن، مصنّف اور مفتیِ اسلام تھے، تفسیرِ عزیزی، بُستانُ المُحدّثین ، تحفۂ اِثنا عشریہ اور عجالہ نافعہ([23])آپ کی مشہور کُتُب ہیں۔ 1159ھ میں پیدا ہوئے اور 7 شوال 1239 ہجری میں وِصال فرمایا، مزار مبارک درگاہ حضرت شاہ ولی اللہ مہندیاں، میردرد روڈ، نئی دہلی ہند میں ہے۔ ([24])

(6) محدث ہند حضرت شاہ ولی اللہ احمد محدث دہلوی فاروقی رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش 4شوال 1110ھ کو ہوئی اور یہیں 29 محرم 1176 ھ مطابق 1762 ء کو وصال فرمایا، تدفین مہندیاں، میر درد روڈ، نئی دہلی ہند میں ہوئی،جو درگاہ شاہ ولی اللہ کے نام سے مشہور ہے، آپ نے اپنے والد گرامی حضرت شاہ عبد الرحیم دہلوی([25]) رحمۃ اللہ علیہ سے تعلیم حاصل کی،حفظ قرآن کی بھی سعادت پائی، اپنے والد سے بیعت ہوئے اور خلافت بھی ملی، والد کی رحلت کے بعد ان کی جگہ درس و تدریس اور وعظ و ارشاد میں مشغول ہوگئے۔ 1143ھ میں حج بیت اللہ سے سرفراز ہوئے اور وہاں کے مشائخ سے اسناد حدیث و اجازات حاصل کیں۔ 1145 ھ کو دہلی واپس آئے،آپ بہترین مصنف تھے، مشہور کتب میں فتح الرحمن فی تر جمۃ القرآن فارسی ،الفوز الکبیر فی اصول التفسیر،مؤطا امام مالک کی دو شروحات المصفیٰ فارسی،المسوّی عربی، حجۃ اللہ البالغہ فارسی، ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء فارسی ،الانتباہ فی سلاسل اولیاء اللہ فارسی، انسان العين فی مشائخ الحرمين اور الارشاد الی مہمات الاسناد عربی )[26] ( مشہور کتب ہیں۔ ([27])

(7) حضرت شیخ جمال الدین ابو طاہر محمد بن ابراہیم کورانی مدنی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت مدینہ شریف میں 1081ھ مطابق 1670 ء کو ہوئی اور یہیں 1145 ھ مطابق 1733ء کو وصال فرمایا اور جنت البقیع میں دفن کئے گئے ،آپ جید عالم دین ،محدث و مسند،مفتی ٔ شافعیہ مدینہ منورہ،علامہ شیخ ابراہیم کردی آپ کے والد صاحب اور شیخ احمد قشاشی([28])نانا محترم تھے۔ والد صاحب کے علاوہ ،مفتی شافعیہ مدینہ منورہ شیخ سید محمد بن عبد الرسول برزنجی([29])، شیخ عبد اللہ بن سالم([30])اور شیخ حسن بن علی عُجَیْمی سے اجازات حاصل کیں، کئی کتب بھی لکھیں ،جو اب تک مطبوع نہیں ہوسکیں ،مکتبہ حرم مکی میں آپ کی ثبت کا مخطوط پانچ اوراق میں محفوظ ہے ۔ ([31])

(8)حضرت امام شیخ برہان الدین، ابو العرفان ابراہیم بن حسن کورانی کردی کی ولادت کردستان(عراق) میں 1025 ھ کو ہوئی،آپ شافعی عالم دین،محدث و مسند ، سلسلہ نقشبندیہ کے شیخ طریقت ہیں۔ 80 سے زائد کتب لکھیں جن میں اسانید و مرویات پر مشتمل کتاب ”الامم لایقاظ الھمم “ مطبوع ہے۔آپ عراق سے ہجرت کر کے مدینہ شریف مقیم ہوگئے تھے،یہیں ایک قول کے مطابق 18 ربیع الآخر 1101 ھ مطابق 29 جنوری 1690 ء میں وصال فرمایا۔ ([32])

(9)حضرت شیخ ابو العزائم سلطان بن احمد سلامہ مزّاحی مصری ازہری شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 985 ھ مصر میں ہوئی اور یہیں 17 جمادی الآخر1075 ھ میں وصال فرمایا، تدفین مجاورین قبرستان قاہرہ میں ہوئی،آپ نے علمائے عصر سے حفظ قرآن و قرات ،حدیث و فقہ و تصوف اور دیگر علوم حاصل کرکے 1008 ھ میں فارغ التحصیل ہوئے اور جامعۃ الازہر میں تدرس کرنے لگے، آپ امام الائمہ، بحر العلوم، استاذ الفقہاء و القراء،محدث وقت،علامہ زمانہ،نابغہ عصر،زہد و تقویٰ کے پیکر،مرجع خاص و عام، عابد و زاہد اور کئی کتب کے مصنف تھے۔ ([33])

(10)شیخ الاسلام،ناصر الملت و الدین حضرت امام شہاب الدین احمد بن خلیل سبکی شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 939 ھ اور وفات 1032 ھ میں ہوئی، آپ نے مدرسہ باسطیہ ، مصر میں داخلہ لے کر علم دین حاصل کیا،جید علمائے مصر سے استفادہ کرکے محدث و فقیہ بننے کی سعادت پائی،حدیث و فقہ میں آپ کی کئی تصانیف ہیں،ان میں سے” فتح الغفور بشرح منظومۃ القبور([34])مشہور ہے۔ ([35])

(11)شیخ الاسلام حضرت امام نجم الدین ابو المواہب محمد بن احمد غیطی سکندری رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش 910 ھ اور وفات 981 ھ میں ہوئی، آپ کا تعلق مصر کے صوبہ سکندریہ کے مرکزی شہر سکندریہ سے ہے،آپ نے دیگر مشائخ بالخصوص شیخ الاسلام زین الدین زکریا انصاری رحمۃ اللہ علیہ سے علم حدیث،فقہ اور تصوف وغیرہ حاصل کر کے اسناد اور تدریس و افتاء کی اجازات لیں،آپ امام الوقت، مسند العصر، محدث زمانہ، مرشد گرامی، محبوب ِ خاص و عام،بغیر لومۃ لائم برائی سے منع کرنے والے اور کئی کتب کے مصنف تھے۔ ”بهجة السامعين و الناظرين بمولد سيد الاولين و الآخرين اور” قصۃ المعراج الصغری وغیرہ آپ کی تصنیف کردہ کتب ہیں۔ ([36])

(12) شیخ الاسلام حضرت امام زین الدین ابو یحییٰ زکریا بن محمد انصاری الازہری رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 826 ھ کو سُنیکہ(صوبہ شرقیہ)مصر میں ہوئی،جامعۃ الازہر سے علوم اسلامیہ حاصل کئے،قاہرہ میں مقیم ہوگئے ،آپ فقیہ شافعی،محدث وقت،حافظ الحدیث، صوفی با صفا،قاضی القضا ۃ،بہترین قاری،مصنف کتب کثیرہ ، لغوی و متکلم،مؤرخ و مدرس، مفتی اسلام اور نویں صدی ہجری کے مجدد ہیں،آپ نے 4 ذو الحجہ 925 ھ کو قاہرہ مصر میں وفات پائی۔ قاہرہ میں امام شافعی کے مزار کے قریب قرافہ صغریٰ میں تدفین ہوئی،آپ کا مزار مرجع خلائق ہے۔ الدقائق المحكمة فی شرح المقدمة([37])،”تحفۃ الباری علی صحيح البخاری([38]) اور ” اَسنى المطالب([39] ) آپکی مشہور کتب ہیں۔ ([40])

(13)عز الملت و الدین حضرت شیخ ابن الفرات ابو محمد عبد الرحیم بن محمد حنفی مصری کی ولادت 759 ھ کو قاہرہ مصر کے ایک علمی گھرانے میں ہوئی،حفظ قرآن و قراءت کے بعد علوم معقول و منقول کے تحصیل میں مصروف ہوگئے ،علمائے احناف ، شوافع اور حنابلہ سے استفادہ کیا ،جب حج پر گئے تو علمائے حجاز کی انہار علم سے بھی سیراب ہوئے ،اجازات عامہ و خاصہ حاصل کیں ،آپ احناف مصر کے جید عالم دین ، محدث و قاضی اور مصنف کتب تھے ،آپ نے اپنی ساری زندگی درس و تدریس ، تصنیف و تالیف میں گزاری ” نخبة الفوائد المستنتجة ([41])آپ کی یادگار تصنیف ہے ، آپ نے 16 ذو الحجہ  851 ھ کو قاہرہ میں وصال فرمایا ،باب النصر میں نماز جنازہ ہوئی اور خانقاہ سعید السعداء کے احاطے میں دفن کیے گئے۔ ([42])

(14) مراغی کبیر حضرت ابو حفص عمر بن حسن مراغی مزی دمشقی رحمۃ اللہ علیہ ولادت 8 رجب 679 یا 680 ھ کو مِزَّہ ، دمشق میں ہوئی اور 98 سال کی عمر میں 8 ربیع الآخر 778 ھ کو مراغی دمشق ، شام میں وصال فرمایا ،آپ محدث و قاری، مسند الشام اور اکابرین اہل سنت سے تھے، آپ نے اپنے وقت کے جید علماء ،قراء اور محدثین سے خوب استفادہ کیا اور اشاعت علوم و فنون میں مصروف ہوئے حتی کہ علما و فقہا اور محدثین کے مرجع قرار پائے ،آپ سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد کثیر ہے ، مشيخۃ الامام ابی حفص عمر المراغی ([43]) آپ کی اسناد کا مجموعہ ہے ۔ ([44])

(15)محدث الاسلام، ابن بخاری حضرت امام فخر الدین ابو الحسن علی ابن احمد مقدسی صالحی حنبلی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 595 ھ کو ایک علمی گھرانے میں ہوئی ، اور آپ نے ربیع الآخر 690 ھ میں وصال فرمایا ،عالم و فقیہ ،فاضل و ادیب ،صاحب وقار و ہیبت ،تقوی و ورع کے پیکر اور علم و وعقل میں کامل تھے ،محدثین میں آپ بہت مکرم و محترم تھے ،آپ کو ”مسند العالم “ کہا جاتا ہے ،عرصہ دراز تک خدمت قرآن و سنت میں مصروف رہے، شام،مصر اور عراق کے محدثین نے آپ سے استفادہ کیا ۔ ([45])

(16) مُسند الوقت حضرت شیخ ابن طبَرْزَد ابو حفص عمر بن محمد دار قزی بغدادی ذو الحجہ 516 ھ میں پیدا ہوئے اور 87 سال کی عمر میں 9 رجب 607 ھ میں وصال فرمایا ،آپ نے اپنے بڑے بھائی اور دیگر اساتذہ سے علم دین حاصل کیا اور زندگی بھر حدیث پاک کی ترویج و اشاعت میں مصروف رہے،عراق و شام کے محدث و شیخ الحدیث قرار پائے ،آپ کی تالیف کردہ کتب میں مسند الامام عمر بن عبد العزيز “ یادگار ہے۔ آپ خوش اخلاق و ظریف الطبع تھے،آپ سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد کثیر ہے ۔ ([46])

(17)حضرت شیخ ابو الفتح عبد الملک بن عبد اللہ کروخی ہروی کی ولادت کروخ، ہرات (افغانستان) میں ربیع الاول 462 ھ میں ہوئی ،مکہ شریف میں بعد حج 25 ذوالحجہ 548 ھ میں وصال فرمایا ،ہرات ،بغداد اور مکہ شریف میں زندگی گزاری ،آپ شیخ العلما،امام الوقت اور حدیث کے ثقہ راوی تھے ، آپ ترمذی شریف کے نسخے لکھا کرتے تھے اور اسے بیچ کر گزر بسر کرتے تھے ۔آپ اخلاق حسنہ سے متصف ، فقر و ورع کے پیکر،روایت حدیث کے اعتبار سے ثقہ،صدوق،صالح اور مُتَدَیَّن (دیانت دار ) تھے ۔ ([47])

(18)شیخ الاسلام حضرت امام قاضی ابو عامر محمود بن قاسم ازدی ہروی مہلبی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت ایک علمی گھرانے میں 400 ھ کو ہرات (افغانستان )میں ہوئی، اگرچہ اس زمانے میں ہرات علوم وفنون کے کا مرکز تھا لیکن آپ نے اسی پر اکتفانہ کیا بلکہ اجازات واسنادکے حصول کے لیے دیگرممالک کے کثیرسفر کئے ،آپ اپنے ملک میں علمائے شوافع میں سب سے بڑے عالم،قاضی و فقیہ، امام الوقت، محدث و مُسنِد اور زہد و تقوی و ورع کے پیکر تھے ،علمی جلالت کا یہ عالم تھا کہ موافق و مخالف سب تعظیم کرتے تھے،یہی وہ اوصاف تھے جنہوں نے انہیں خاص و عام کا مرجع بنادیا تھا ، آپ کا وصال 87 سال کی عمر میں 8 جمادی الاخریٰ 487 ھ میں ہوا۔ ([48])

(19)علامہ ابو محمد عبد الجبار بن محمد مرزبانی جراحی مروزی کی ولادت مرو میں 331 ھ کو ہوئی ،81سال کی عمر میں 412 ھ کو وصال فرمایا ،ہرات میں سکونت اختیار کی، وہیں امام ابو العباس محمد بن احمد بن محبوب مروزی سے جامع ترمذی کا درس لیا اور اجازت حاصل کی،خلق کثیر نے آپ سے علمی فیضان حاصل کیا ،آپ امام الوقت ،ثقہ ، امین اور صالح روای حدیث تھے ۔ ([49])

(20) حضرت شیخ ابو العباس محمد بن احمد بن محبوب محبوبی مروزی رحمۃ اللہ علیہ 249 ھ کو مرو(صوبہ ماری ،ترکمانستان) میں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم و تربیت مقامی علما سے حاصل کی ، علوم و فنون میں مہارت حاصل کرنے کے بعد 265 ھ میں آپ ترمذ ( صوبہ سرخان دریا، ازبکستان) تشریف لے گئے وہاں حضرت امام ترمذی کی صحبت میں رہ کر جامع ترمذی کی سماعت کر کے اجازت حاصل کی ،آپ عالم فاضل ، محدث ، مسند اور شیخ البلد تھے ۔آپ کا وصال رمضان 346 ھ میں ہوا۔ ([50])

(21) امامُ الائمّہ حضرتِ امام ابوعیسٰی محمد بن عیسٰی سلمی بوغی تِرمِذی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 209 ھ میں موضوع بوغ (ضلع تِرْمِذ، ساحلِ نہرِ جیجون،صوبہ سرخان دریا) اُزْبَکِسْتان میں ہوئی ،آپ نے امام احمد بن حنبل، امام بخاری اور امام ابو داؤد سمیت 30 سے زیادہ علما و محدثین سے حدیث کا درس لیا اور پھر احادیث جمع کرنے کے لئے خراسان ، عراق اور حجاز کا سفر کیا ،آپ کا وصال 13 رجب 279 ھ کو ترمذ میں ہوا۔ آپ شیخ المحدثین، غیر معمولی حافظہ کے مالک ،محسنِ اُمّت،تقویٰ و ورع کے پیکر، علم و عمل کے جامع اور احادیث کی مشہور ’’ جامع تِرمِذی“ کے مصنف ہیں،آپ کی دیگر تصانیف میں شمائل ترمذی([51]) کو عالمگیر شہرت حاصل ہوئی ۔ ([52])

۞جامع ترمذی میں ہر حدیث پاک سند کے ساتھ ہے،ایک حدیث پاک ایسی بھی ہے جس میں امام ترمذی اورنبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے درمیان صرف تین راوی ہیں، اسے سندِ ثلاثی کہتے ہیں ۔ ([53])

اس سند کے روایوں کا مختصر تعارف ملاحظہ کیجئے

(22)حضرت ابو محمد یا ابو اسحاق اسماعیل بن موسی کوفی فزاری کوفہ کے رہنے والے تھے۔ شیوخ عراق سے علم حدیث حاصل کرنے کے بعد دمشق، شام تشریف لے گئے،واپس آکر کوفہ مسند تدریس پر بیٹھے، حضرت امام ترمذی، حضرت امام ابو داؤد([54])،حضرت امام ابن ماجہ قزوینی([55]) جیسے جلیل القدر محدثین نے آپ سے سماعت حدیث کا شرف پایا،آپ صدوق روای حدیث ہیں ،آپ کا وصال 4 شعبان 245 ھ کوہوا۔([56])

(23)حضرت عمر بن شاکر بصری رضی اللہُ عنہ صحابی رسول حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ اور ان کے غلام حضرت ابو بکر محمد بن سیرین بصری ([57]) کے تربیت یافتہ و شاگرد ، صدوق راوی حدیث ،بصرہ کے رہنے والے تھے ،کئی تبع تابعین نے آپ سے احادیث سماعت کیں ،ان کی تاریخ ولادت اور وفات کی معلومات نہ مل سکی۔ ([58])

(24) خادم نبی حضرت سیدنا ابو حمزہ انس بن مالک انصاری خزرجی نجاری رضی اللہ عنہ آٹھ سال کی عمر میں رسول خدا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر معمور ہوئے اور آپ نے دس سال یہ سعادت حاصل کی، غزوہ بدر سمیت تمام غزاوت میں شریک ہوئے ، بارگاہِ رسالت سے یہ دعا ملی :” اَللّٰھُمَّ اَکْثِرْ مَالَہٗ وَوَلَدَہٗ وَاَطِلْ عُمُرَہٗ وَاغْفِرْ ذَنْبَهُ “ یعنی اے اللہ!اس کے مال اور اولاد میں کثرت عطا فرما، اسے درازیِ عمر عطا فرما اور اس کی مغفرت فرما،یہی وجہ ہے کہ آپ مالدار اور کثیر الاولاد تھے ، آپ کچھ عرصہ مدینہ منورہ میں گزار کر دورِ خلافت فاروقی میں بصرہ تشریف لے گئے ،بے شمار افراد نے آپ کے شاگرد ہونے کا شرف حاصل کیا۔ آپ سے روایت کردہ 2286 (دو ہزار دو سو چھیاسی )،احادیث ِمبارکہ کتبِ احادیث و سِیَر میں ہیں ،ان میں سے 168 متفقہ طور پر صحیح بخاری و مسلم شریف میں ہیں ۔ آپ بہت زیادہ عبادت کرتے اور تلاوت قرآن فرمایا کرتے تھے ۔ ، جمہور کے نزدیک 93 ہجری میں آپ نے اس جہانِ فانی سے کوچ فرمایا،بوقتِ انتقال آپ کی عمر مبارک 100 سال سے زیادہ تھی۔آپ بصرہ میں وفات پانے والے آخری صحابی ہیں۔ ([59])

۞ ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت 12 ربیع الاول مطابق 20 اپریل 571 ء کو وادی بطحا مکہ شریف کے معزز ترین قبیلے قریش میں ہوئی اور 12 ربیع الاول 11 ھ مطابق 12 جون 632 ء کو مدینہ منورہ میں وصال ظاہری فرمایا۔آپ وجہ ٔ تخلیق کائنات ،محبوب خدا، امام المرسلین ، خاتم النبیین اور کائنات کی مؤثر ترین شخصیت کے مالک تھے ،آپ نے 40 سال کی عمر میں اعلان نبوت فرمایا ، 13سال مکہ شریف اور 10 سال مدینہ شریف میں دین اسلام کی دعوت دی ، اللہ پاک نے آپ پر عظیم کتاب ” قرآن کریم “ نازل فرمایا ۔اللہ پاک کے آپ پر بے شمار دُرُود اور سلام ہوں ۔ ([60])

حواشی



[1]... سنن ترمذی مترجم،1/38،شرح جامع ترمذی ،1/139

[2]... مہرِمنیرسوانحِ حیات ، ص، 84 ،تذکرۂ محدثِ سُورتی ،ص، 26

[3]... مقدمہ مِیزانُ الادیان بتفسیرالقرآن،ص،80

[4] ... ان نام ونسب عبدالرحیم بن محمد بن عبدالرحیم بن علی بن حسن بن محمد بن عبدالعزیزبن محمد العرّابومحمدبن مؤرخ ناصرالدین بن العِرّ ابوالفضل بن الفرات مصری قاہری حنفی ہے مگریہ ابن الفرات کے نام سے مشہورہیں ،مقدمہ میزان الادیان میں انصرات لکھا ہے جو درست نہیں ،اس لیے اسے دُرست کردیا ہے ۔

[5] ... ان کانام ونسب ابو حفص عمر بن الحسن بن مزيد بن امیلۃ المراغی الحلبی المزی الدمشقی ہے مقدمہ میزان الادیان میں عمربن ابی الحسن مراغی لکھاہے ،لفظ ابی زائدآگیا ہے اس لیے اسے حذف کردیا ہے۔

[6] ...ان کا نام نسب عمر بن محمد بن معمَّربن يحيى ابن احمد بن حسان، ابو حفص، ابن طَبَرْزَدْ، الدارقَزیّ، البغدادی ہے ،مقدمہ میزان الادین میں ابن طبرزد کے بجائےابن طبرزولکھاہے جو درست نہیں اس لیے اسے درست کردیا ہے ۔

[7] ...ان کانام ونسب ابو العباس ، محمد بن احمد بن محبوب بن فضيل المحبوبی المروزی ہے مگرتفسیرمیزان الادیان میں محمد بن محبوب لکھا ہے یعنی ان کے والدکا نام حذف ہوگیا ہے ،اس لیے اس کا اضافہ کردیاہے۔

[8]... تفسیرمیزان الادیان ،1/ 75،76

[9] ... امام المحدثین نے دارُ العُلُوم حِزْبُ الْاَحْناف لاہور کو 1924ء میں مسجد وزیر خاں اندرون دہلی گیٹ میں شروع فرمایا ،پھر یہ جامع مسجد حنفیہ محمدی محلہ اندرون دہلی گیٹ منتقل کردیا گیا ،جگہ تنگ ہونے کی وجہ سے آپ کے صاحبزادے مفتی اعظم پاکستان مفتی شاہ ابوالبرکات سید احمد رضوی صاحب نے اس کی وسیع و عریض عمارت بیرون بھاٹی گیٹ گنج بخش روڈ پر بنائی ،جو اب بھی قائم ہے ۔

[10] ...فتاویٰ دیداریہ کے مرتب مفتی محمد علیم الدین نقشبندی مجددی رحمۃ اللہ علیہ ہیں ، اس میں 344فتاویٰ ہیں ،87فتاویٰ کے علاوہ تمام فتاویٰ مفتی سید دیدار علی شاہ صاحب کے تحریر کردہ ہیں،اسے مکتبۃ العصر کریالہ جی ٹی روڈ گجرات پاکستان نے 2005 ء کو بہت خوبصورت کاغذ پر شائع کیا ہے ،اس کے کل صفحات 864ہیں ۔

[11] ... فتاویٰ دیداریہ، ص2،ہفتہ وار اخبار الفقیہ ، 21تا28،اکتوبر1935ء، ص23

[12]... حدائقِ حنفیہ،ص،510۔صحیح البخاری مع الحواشی النافعۃ،مقدمہ،1/37

[13]... حیات شاہ اسحاق محدث دہلوی،18،33،77

[14]... کنز الایمان فی ترجمۃ القرآن اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کا قرآن کریم کا بہترین، تفسیری اردو ترجمہ ہے ،جسے مقبولیت عامہ حاصل ہے اس پر صدر الافاضل علامہ سید محمد نعیم الدین مرادآبادی نے خزائن العرفان فی تفسیر القران اور حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی نے نور العرفان علی کنزالایمان کے نام سے تفسیری حواشی لکھے ہیں ۔

[15]... اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کے کثیر علوم میں دسترس تھی ،اس پر آپ کی تقریبا ایک ہزار کتب و رسائل شاہد ہیں ،مگر آپ کا میلان فتاویٰ نویسی کی جانب زیادہ تھا آپ کے جو فتاویٰ محفوظ کئے جاسکے انہیں العطایہ النبویہ فی الفتاویٰ الرضویہ کے نام سے جمع کیا گیا ،پہلی جلد تو آپ کے حیات میں ہی شائع ہوگئی تھی ،یکے بعد دیگرے اس کی بارہ جلدیں شائع ہوئیں ، 1988 ء میں مفتی اعظم پاکستان ،استاذ العلما مفتی عبد القیوم ہزاروی (بانی رضا فاؤنڈیشن جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور)نے اسکی تخریج و ترجمہ کا کام شروع کیا ،جس کی تکمیل 2005 ء کو 33جلدوں کی صورت میں ہوئی ،جس کے صفحات 21 ہزار،9سو70ہیں ۔ (فتاویٰ رضویہ ،30/5،10)

[16]... جد الممتار علی رد المحتار،اعلیٰ حضرت کا فقہِ حنفی کی مستند کتاب رد المحتار المعروف فتاویٰ شامی پر عربی حاشیہ ہے جس پر دعوت اسلامی کے تحقیقی و علمی شعبے المدینۃ العلمیہ نے کام کیا اور 2006 ء کو اسے 7 جلدوں میں مکتبۃ المدینہ کراچی سے شائع کروایا ہے ،2022ء میں اس کی اشاعت دار الکتب العلمیہ بیروت سے بھی ہوئی ہے۔

[17]... حدائق بخشش اعلیٰ حضرت کا نعتیہ دیوان ہے جسے مختلف مطابع نے شائع کیا ہے ،المدینۃ العلمیہ (دعوت اسلامی)نے اسے 2012ء میں 446 صفحات پر شائع کیا ہے ،اب تک اس کے کئی ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔

[18]...حیاتِ اعلیٰ حضرت،ص، 1/58، 3/295،مکتبۃ المدینہ،تاریخِ مشائخِ قادریہ رضویہ برکاتیہ، ص،282، 301۔

[19] ... سلطانُ العاشقین، حضرت سیّد شاہ بَرَکَتُ اللہ مارہروی علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی ولادت 1070 ھ کو بلگرام (اودھ، یوپی) ہند میں ہوئی۔ 10 محرَّمُ الحرام 1142 ھ کو مارہرہ مطہرہ (ضلع ایٹہ، یوپی) ہند میں وصال فرمایا۔ آپ عالمِ باعمل، شیخ المشائخ، مصنفِ کتب، صاحبِ دیوان شاعر، عوام و خواص کے مرجع اور بانیِ خانقاہ برکاتیہ ہیں۔(تاریخ خاندان برکات، ص12تا17)

[20] ... زبدۃ الواصلین، حضرت سیّد شاہ حمزہ مارہروی علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی ولادت 1131ھ مارہرہ شریف (یوپی) ہند میں ہوئی اور یہیں 14 محرَّمُ الحرام 1198ھ کو وصال فرمایا، آپ کا مزار ”درگاہ شاہ بَرَکَتُ اللہ“ کے دالان میں شرقی گنبد میں ہے۔ آپ عالمِ باعمل، عظیم شیخِ طریقت، کئی کتب کے مصنف اور مارہرہ شریف کی وسیع لائبریری کے بانی ہیں۔(تاریخ خاندان برکات، ص20تا23)

[21] ...شمس مارَہرہ، غوثِ زماں، حضرت سیّد شاہ ابو الفضل آلِ احمد اچھے میاں مارَہروی قادری علیہ رحمۃ اللہ الوَالی کی ولادت 1160ھ کو مارَہرہ مطہرہ (ضلع ایٹایوپی) ہند میں ہوئی، وصال 17 ربیع ُالاوّل 1235ھ کو یہیں فرمایا۔ آپ جَیِّد عالمِ دین، واعِظ، مصنّف اور شیخِ طریقت تھے، آدابُ السالکین اور آئینِ احمدی جیسی کتب آپ کی یادگار ہیں۔ آپ سلسلہ قادریہ رضویہ کے 36ویں شیخِ طریقت ہیں۔ (احوال و آثارِ شاہ آل ِاحمد اچھے میاں مارہروی، ص26)

[22]... تاریخ خاندان برکات، ص37تا46،مشائخ مارہرہ کی علمی خدمات ،221

[23]...آپ کی یہ چاروں تصانیف تفسیرِ عزیزی، بُستانُ المُحدّثین ، تحفۂ اِثنا عشریہ اورعجالہ نافعہ فارسی میں ہیں ، تحفہ اثنا عشریہ کو بہت شہرت حاصل ہوئی ،اس کا موضوع رد رفض ہے ، تفسیر عزیزی کا نام تفسیر فتح العزیز ہے ،جو چار جلدوں پر مشتمل ہے ،بستان المحدثین میں محدثین کے مختصر حالات دیئے گئے ہیں جبکہ آپ کا رسالہ عجالہ نافعہ فن حدیث پر ہے جس میں آپ نے اپنی اسناد و اجازات کو بھی ذکر فرمایا ہے، اسکے 26صفحات ہیں ۔

[24]... الاعلام للزرکلی، 4/ 14۔ اردو دائرہ معارفِ اسلامیہ، 11/634

[25]...حضرت مولانا شاہ عبد الرحیم دہلوی کی ولادت 1054 ھ میں پھلت (ضلع مظفر نگر ، یوپی ، ہند ) میں ہوئی اور وصال 12صفر1131ھ کو دہلی میں فرمایا ،آپ جید عالم دین ، ظاہری و باطنی علوم سے آگاہ، صوفی بزرگ اور محدث وقت تھے ،علم فقہ میں بھی عبور رکھتے تھے ، فتاوی عالمگیری کی تدوین میں بھی شامل رہے ،کئی سلاسل کے بزرگوں سے روحانی فیضان حاصل کیا ، سلسلہ قادریہ ، سلسلہ نقشبندیہ، سلسلہ ابو العلائیہ، سلسلہ چشتیہ اور سلسلہ قادریہ قابل ذکر ہیں۔ ( انفانس العارفین،21،22،198)

[26]...ان چار کتب فتح الرحمن فی ترجمہ القرآن، الفوز الکبیر فی اصول التفسیر، مؤطا امام مالک کی دو شروحات المصفیٰ ،المسوّی، کا موضوع نام سے واضح ہے، آپ نے اپنی تصنیف حجۃ اللہ البالغہ میں احکام اسلام کی حکمتوں اور مصلحتوں کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے ،اس میں شخصی اور اجتماعی مسائل کو بھی زیرِ بحث لایا گیا ہے ،کتاب ازالۃ الخفاء رد رفض پر ہے ،آپ کے رسالے الانتباہ فی سلاسل اولیاء اللہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ عقائد و معمولاتِ اہل سنت پر کار بند تھے،آپ کی آخری دونوں تصانیف آپ کی اسناد و اجازات اور آپ کے مشائخ کے تذکرے پر مشتمل ہیں ۔

[27]... الفوز الکبیر،7،8،شاہ ولی اللہ محدث کے عرب مشائخ ،23

[28] ... قطب زماں ،حضرت سید صفی الدین احمد قشاشی بن محمد بن عبد النبی یونس قدسی مدنی حسینی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت12ربیع الاول 991ھ مطابق1583ء کو مدینہ منورہ میں ہوئی ،آپ حافظ قرآن، شافعی عالم دین ،عرب و عجم کے تقریبا سو علما و مشائخ سے مستفیض،سلسلہ نقشبندیہ کے شیخ طریقت ، 70 کے قریب کتب کے مصنف،نظریہ وحدۃ الوجود کے قائل و داعی تھے ۔آپ نے 19 ذو الحجہ 1071ھ مطابق 1661ء کو مدینہ شریف میں وصال فرمایا اور جنت البقیع میں مدفون ہوئے ،تصانیف میں روضہ اقدس کی زیارت کے لیے سفرِ مدینہ کے اثبات پر کتاب ’’ الدرۃ الثمینۃ فیما لزائر النبی الی المدینۃ‘‘آپ کی پہچان ہے۔( الامم لایقاظ الھمم ،125تا127،شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے عرب مشائخ،8تا10،42)

[29]...مُجدّدِ وقت حضرت سیّد محمد بن عبد الرسول بَرْزَنْجی مَدَنی شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت شہرزُور (صوبہ سلیمانیہ، عراق) 1040 ھ میں ہوئی اور یکم محرم1103 ھ کو مدینۂ منوّرہ میں وصال فرمایا اور جنّتُ البقیع میں دفن ہوئے۔آپ حافظِ قراٰن، جامعِ معقول و منقول، علامۂ حجاز، مفتیِ شافعیہ، 90 کتب کے مصنّف، ولیِ کامل اور مدینہ شریف کے خاندانِ بَرْزَنجی کے جدِّ امجد ہیں۔ (الاشاعۃ لاشراط الساعۃ، ص13، تاریخ الدولۃ المکیۃ، ص59)

[30]... خاتم المحدثین حضرت امام عبد اللہ بن سالم بصری شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 1049 ھ کو مکہ میں ہوئی اور یہیں 4 رجب 1134ھ کو وصال فرمایا، جنۃ المعلی میں دفن کئے گئے، بصرہ میں نشو و نما پائی، پھر مکہ شریف میں آکر مقیم ہوگئے،آپ مسجد حرام شریف میں طلبہ کو پڑھایا کرتے تھے ، زندگی بھر یہ معمول رہا،کثیر علما نے آپ سے استفادہ کیا،آپ جید عالم دین،محدث و حافظ الحدیث اور مسند الحجاز تھے، کئی کتب تصنیف فرمائیں جن میں سے ”ضیاء الساری فی مسالک ابواب البخاری یادگار ہے۔ (مختصر نشر النور، ص290تا292، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے عرب مشائخ ، 18 تا 20 )

[31]... اعلام للزرکلی،304/5، سلک الدرر،24/4

[32]... سلک الدرر فی اعیان القرن الثانی عشر، 1/9، اعلام للزرکلی، 1/35، البدر الطالع بمحاسن من بعد قرن السابع، 1/11

[33]... امتاَعُ الفُضَلاء بتَراجِم القرّاء،2/135تا139، خلاصۃ الاثر فی اعيان القرن الحادی العشر، 2/210

[34] امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے عالم برزخ کے بارے میں رسالہ منظومۃ القبور لکھا ، علامہ احمد بن خلیل سبکی رحمہ اللہ علیہ نے اس کی شرح فتح الغفور کے نام سے تحریر فرمائی ، دار النوادر بیروت اور دار المنہاج جدہ عرب نے اسے شائع کیا ہے ۔

[35]... خلاصۃ الاثر فی اعیان القرن الحادی عشر، 1/185

[36]... شذرات الذھب، 8/474، الاعلام للزرکلی، 6/6، معجم المؤلفین، 3/83

[37] ... الدقائق المحكمة قراءت کی مشہور کتاب مقدمہ جزریہ کی بہترین شرح ہے، اسے مختلف مطابع نے شائع کیا ہے ،مثلا مکتبۃ ضیاء الشام دمشق نے اسے 248 صفحات پر شائع کیا ہے ۔

[38] ...تحفۃ الباری کا دوسرا نام منحۃ الباری ہے ،یہ بخاری شریف کی بہترین شرح ہے ، دار الکتب العلمیہ بیروت نے اسے 7 جلدوں میں شائع کیا ہے ۔

[39] ... اسنی المطالب فقہ شافعی کی کتاب ہے ،اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جس نے اسے پڑھا نہیں وہ شافعی ہی نہیں ،دار الکتب العلمیہ بیروت نے اسے 9 جلدوں میں شائع کیا ہے۔

[40] ...شذرات الذھب، 8/174تا 176، النور السافر،ص172تا177، الاعلام للزرکلی، 3/ 46

[41] ...علامہ عبد الوهاب بن احمد بن وهبان دمشقی(متوفی،768ھ) نے فقہ حنفی میں منظوم کتاب ’’ عقد القلائد فی حل قيد الشرائد‘‘ تحریر فرمائی علامہ ابن الفرات نے اس کا خلاصہ نخبة الفوائد المستنتجة تحریر فرمایا۔

[42] ... الضوء اللامع، ج4ص 186، اعلام للزرکلی، ج3، ص348

[43] ...شیخ عمر بن حسن مراغی نے اپنی اسناد و روایات کا مجموعہ تیار فرمایا جو مشیخۃ الامام ابی حفص عمر المرغی کے نام سے معروف ہے ،شرکۃ دار البشائر الاسلامیہ بیروت نے اسے 64 صفحات پر 2003 ء میں شائع کیا ہے ۔

[44] ... معجم الشیوخ سبکی،1/312 ، الدرر الكامنہ، 3/ 159،شذرات الذہب،8/444

[45] ... شذرات الذهب 5/ 414، تاریخ الاسلام الذہبی، 15/565

[46] ... اعلام للزرکلی،5/61، سير اعلام النبلاء 21/507

[47] ... سیر اعلام النبلاء،20/273

[48] ...طبقات شافعیہ سبکی،5/327،سیر اعلام النبلاء،19/32، التقييد لمعرفة رواة السنن و المسانيد،ص442

[49] ...سیر اعلام النبلاء،17/258، اللباب فی تہذیب الانساب 1 / 268 ،العبر فی خبر من غبر، 3 / 108

[50] ... سیر اعلام النبلاء،15/537 ،العبر فی خبر من غبر، 2 / 74، الوافی بالوفيات، 2 / 31

[51] ...شمائل ترمذی کا نام ’’الشمائل المحمدیہ ‘‘ہے ۔اس میں نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی عادات و خصائل کا خوبصورت بیان ہے اسے پڑھ کر آپ کی سیرتِ طیبہ کا ہر ہر گوشہ نظروں میں آجاتا ہے ، امام ترمذی نے 56 ابواب میں 97 صحابہ و صحابیات سے روایت شدہ 415 احادیث جمع فرمائی ہیں ۔ ان میں سے تین چوتھائی احادیث وہ ہیں جو امام ترمذی نے اپنی جامع ترمذی میں بھی ذکر کی ہیں ، ایک چوتھائی دیگر احادیث ہیں ۔اس کے کئی تراجم اور شروحات لکھی گئی ہیں ۔

[52] ... جامع الاصول ،1/129،محدثین عظام حیات و خدمات، ص 357 تا 363

[53] ...جامع ترمذی ،4/115،حدیث:2267،تہذیب التہذیب ، 6/65 ،66، فیوض النبی شرح جامع ترمذی ،1/56

[54] ... حافظ الحدیث حضرت سیّدنا امام ابو داؤد سلیمان بن اَشْعَث ازدی سجستانی بصری، محدّث، فقیہ، صوفی ،متقی و زاہِد اور استاذُ المحدّثین تھے۔ 202 ہجری کو سجستان (صوبہ سیستان) ایران میں پیدا ہوئے ،ابتدائی تعلیم کے بعد علم حدیث کی طرف متوجہ ہوئے ، اس کے لیے خراسان ، عراق ، شام ،مصر اور حجاز مقدس کے سفر فرمائے اور 300سے زائد محدثین سے اکتساب فیض کیا، بصرہ کے امیر نے آپ کے لیے بصرہ میں ایک عظیم الشان مدرسہ قائم کیا ، 16شوال 275ہجری کو بصرہ (عراق) میں وِصال فرمایا، آپ کو امیرُ المؤمنین فی الحدیث حضرتِ سیّدنا سفیان ثَوْری رحمۃُ اللہ علیہ کے پہلو میں دفن کیا گیا۔ صِحاح ستّہ میں شامل سُننِ ابی داؤد آپ کی 22کتب میں سے ایک ہے جو آپ کی عالمگیر شہرت کا سبب ہے۔ (سیر اعلام النبلاء، 13/203)

[55] ...محدث کبیر حضرت سیدنا امام ابو عبد اللہ محمد بن یزید ابنِ ماجہ قَزْوِینی کی پیدائش ایران کے مشہور شہر قَزْوِیْن میں 209ھ میں ہوئی اور یہیں 22 رَمَضان 273ھ میں وفات پائی۔آپ مشہور مُحَدِّث، مُفَسِّر اور مُؤَرِّخ تھے ،صحاح ستہ میں شامل کتاب ”سنن ابن ماجہ“ آپ ہی کی تالیف کردہ ہے۔ (البدایہ و النہایہ، 7/429، بستان المحدثین، ص300،298)

[56] ... سیر اعلام النبلاء،11/176،رقم، بغیۃالطلب فى تاريخ حلب،4/1831

[57] ... امام الْمُعبّرین حضرتِ سیّدُنا محمد بن سیرین بصری کی ولادت 33ھ میں ہوئی اور وصال 10 شوال 110ھ میں بصرہ میں ہوا۔آپ تابعی،ثقہ راویِ حدیث، عظیم فقیہ،امام العلماء،تقویٰ و ورع کے پیکر اور تعبیر الرویاء (خوابوں کی تعبیر) کے ماہر تھے۔(الطبقات الکبریٰ، 7/143تا 154، تاریخِ بغداد، 2/422،415(

[58] ... تاريخ الاسلام ،11/275، تہذيب الكمال، 21/384

[59] ...ابن عساکر،9/353،332،سیراعلام النبلاء،3/395، طبقات ابن سعد،7/14

[60] ...مدارج النبوت ،2/14،آخری نبی کی پیاری سیرت ، 143تا145