بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم

تَلْخِیْصُ التَّحْقِیْقَاتِ الرَّضَوِیَّةِ فِیْ مَبَاحِثِ الصَّوْت

بنام

آواز سے متعلق خلاصہ تحقیقاتِ رضویہ

شیخ الاسلام،اعلیٰ حضرت امامِ اہل سنّت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی بارگاہ میں جب فونو گراف (گراموفون) کےذریعے قرآنِ مجید سُننے اور اس میں قرآن شریف بھرنے وغیرہ سے متعلّق سوال پوچھا گیا تو مفکرِ اسلام،امامِ اہل سنّت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نےاِس سوال کے جواب میں تقریباً 59 صفحات پر مشتمل پورا رسالہ بنام ’’اَلْکَشْفُ شَافِیَا حُکْمُ فُوْنوْ جرَافِیَا‘‘ ([1] ) تحریر فرما دیا۔ اس رسالے میں مفکرِ اسلام، شیخ الاسلام و المسلمین امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے پوچھے گئے سوال کا جواب دینے سے پہلے بطورِ تمہید (as a prelude)آواز سے متعلّق اپنی تحقیقات (researches) بیان فرمائیں۔ اس حوالے سے بنیادی طور پر سات(7)اُمور کو زیر ِبحث لاکر موضوعِ تحقیق بنایا اور انہیں بیان کرنے کے بعد مزید تین اُمور کی تحقیق فرمادی ۔یوں آواز سے متعلّق دس (10)اُمور کا تحقیقی بیان اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنّت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے اس فتوی کا حصّہ بن گیا جو کہ فتاویٰ رضویہ کے سِوا اِس انداز میں کہیں نہ ملے گا۔ سطورِ ذیل میں ان بنیادی سات(7) اُمور کےعنوانات(titles) اور پھر ہر ایک کی تفصیل ذکر کی جاتی ہے۔

(1)آواز کیا چیز ہے؟

(2)آواز کیسے پیدا ہوتی ہے؟

(3)آواز کیسے سُننے میں آتی ہے؟

(4)آواز اپنے ذریعہ حدوث (پیدا ہونے کے ذریعے )کے بعد بھی باقی رہتی ہے یااس کے ختم ہوتے ہی فنا ہوجاتی ہے؟

(5) آواز کان سے باہر بھی موجود ہے یا کان ہی میں پیدا ہوتی ہے؟

(6) آواز کنندہ (آواز نکالنےوالے)کی طرف آواز کی اِضافت(نسبت) کیسی ہے؟آواز اس کی صفت ہے یا کس چیز کی صفت ہے؟

(7) آواز کنندہ کی موت کے بعد آواز بھی باقی رہ سکتی ہے یا نہیں؟

آواز سے متعلّق تحقیقاتِ امام احمد رضا

مجدِّدِ اعظم،اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے ابتدا میں تقریباً دو صفحات پر آواز سے متعلّق اِنتہائی تحقیقی اور اُصولی گفتگو فرمائی ہے۔چنانچہ آواز کی تعریف کے حوالے سے آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ یوں تحریر فرماتے ہیں:

’’ایک جسم کا دوسرے سے بقوّت ملنا جسے قرع کہتے ہیں یا بسختی جُدا ہونا کہ قلع کہلاتا ہے جس ملائے لطیف مثل ہوا یا آب میں واقع ہو اس کے اَجزائے مجاورہ میں ایک خاص تشکُّل وتکیُّف لاتا ہے اسی شکل وکیفیتِ مخصوصہ کا نام ’’آوا ز‘‘ ہے۔ ([2] )

تنبیہ:آواز کی ذکر کردَہ تعریف اور تحقیقِ رضوی میں دو اَلفاظ: ’’قَرع‘‘ اور ’’قلع‘‘ کا استعمال ہوا ہے ،ان دونوں اصطلاحات کا معنیٰ ملاحظہ ہو:

قرع کا معنی:ایک جسم کےکسی دوسرے جسم سے قوت کے ساتھ ملنے کو ’’قرع‘‘ کہتے ہیں۔

قلع کا معنی:ایک جسم کے کسی دوسرے جسم سے سختی کے ساتھ الگ ہونے کو ’’قلع‘‘ کہتے ہیں۔

آواز سے متعلّق 11 تحقیقی نکات

(1) آواز کی تعریفِ رضوی

(Definition of voice by Aala Hazrat)

اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے آواز کے مذکورہ بالا تحقیقی معنیٰ کو ذکر فرما کر پھر قدرِ آسان عبارت(with simple words)کے ساتھ آواز کی تعریف یوں بیان فرمائی ہے:

’’آواز اُس شکل وکیفیتِ مخصوصہ کا نام ہے کہ ہوا یا پانی وغیرہ جسمِ نرم و تَر میں قرع یا قلع سے پیدا ہوتی ہے۔‘‘ ([3] )

خلاصۂ عبارت

یعنی،آواز اُس مخصوص شکل(specific shape) اور کیفیت کو کہتے ہیں جو کہ کسی نرم اور تر جسم مثلاً ہوا یا پانی وغیرہ میں دو جسموں کے پوری قوت سے ملنے یا ان کے سختی سے الگ ہونے کے سبب پیدا ہوتی ہے۔

(2) آواز پیدا ہونے کا سبب

(The cause of voice)

اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ آواز کی تعریف بیان کرنے کے بعد آواز پیدا ہونے کے حقیقی اور ظاہری سبب(cause/reason) کو یوں بیان فرماتے ہیں:

اُس کا اور تمام حوادث کا سببِ حقیقی محض ارادۂ الٰہی ہے دوسری چیز اصلاً نہ مؤثر نہ موقوف علیہ، اور آواز کا ظاہری وعادی سببِ قریب قلع وقرع ہے۔( [4])

خلاصۂ عبارت

یعنی،آواز اور کائنات میں رُونما (appear)ہونے والے تمام ہی اُمور کا حقیقی سبب صرف اِرادۂ اِلٰہی ہے کہ ربّ تعالیٰ کی مشیت و اِرادے ہی سے ہرشے وُقوع پذیر ہوتی ہے۔حقیقی طور پر تمام اُمور کے واقع اور موجود ہونے کے معاملے میں ارادۂ اِلٰہی کے علاوہ نہ تو کوئی دوسری شے اپنا اثر رکھتی ہے اور نہ ہی اس پر کسی قسم کا دار ومدار ہوتاہے۔

ہاں اللہ ربّ العزت مسبِّبُ الاَسباب ہے اور اُس نے اِس جہان کو عالَمِ اسباب بنایا ہے، لہذا اُس کی قدرت و حکمت کے تحت اِس جہاں میں پیداہونے والی ہر شے اور واقع ہونے والے تمام ہی معاملات کے کوئی نہ کوئی ظاہری اَسباب اور محرِّکات ہوتے ہیں۔ لہذا آواز پیدا ہونے کا بھی ظاہری اور عادی سبب موجود ہے اور وہ قرع یعنی، دو جسموں کا آپس میں قوت کے ساتھ ملنا یا قلع یعنی ،دوجسموں کا سختی کے ساتھ الگ ہونا ہے۔

اعلیٰ حضرترَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اِسی رسالے میں اس بات کو یوں بھی بیان فرماتے ہیں:الحاصل ہر شے کا سبب حقیقی ارادۂ اللہ عزوجل ہے بے اُس کے ارادے کے کچھ نہیں ممکن اور وہ ارادہ فرمائے تو اصلاً کسی سبب کی حاجت نہیں، مگر عالَمِ اسباب میں حدوث ِآواز (آواز کے پیدا ہونے)کا سببِ عادی یہ قرع وقلع ہے۔ ([5] )

(3) آواز کا سُنائی دینا

(Hearing the voice)

ہمیں آواز کیوں اور کیسے سُنائی دیتی ہے ؟ اِس کی تحقیق بھی امامِ اہلسنّت،اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمائی ہے۔چنانچہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ آواز سُنائی دینے کی وجہ ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں:

سُننے کا سبب ہوائے گوش کا متشکَّل بشکلِ آواز ہونا ہے اور اس کے تشکُّل کا سبب ہوائے خارج متشکّل کا اسے قرع کرنا اور اس قرع کا سبب بذریعہِ تموُّج حرکت کا وہاں تک پہنچنا۔ ([6] )

خلاصۂ عبارت

یعنی،آواز سُننے(سُنائی دینے) کا سبب کان کی ہوا کا آواز کی شکل کی طرح صورت اختیار کرناہے اور کان کی ہوا کی تبدیلیِ شکل کا سبب کان سے باہر کی متشکّل ہوا کا قوت کے ساتھ اس(کان کی ہوا)سے ملنا ہے اور اس ملنے کا سبب تموّج(موجوں اور لہروں، waves )کے ذریعے حرکت کا وہاں(کان کی ہوا) تک پہنچنا ہے۔

(4) سبب آنی اور آواز باقی

(Permanence of voice and temporality of cause)

یہاں پر ایک سوال سطحِ ذہن پر اُبھرتا ہے کہ جب آواز پیدا ہوتی ہے تو اس کے بعد وہ ہَوا میں تحلیل ہوکر ختم ہوجاتی ہے یا باقی رہتی ہے؟ اعلیٰ حضرت،امامِ اہل سنّت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے اِس سوال کا بڑے تحقیقی انداز میں جواب ارشاد فرمایاہے، اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے الفاظ ملاحظہ ہوں:

ذریعہ حدوث قلع وقرع ہیں اور وہ آنی ہیں حادث ہوتے ہی ختم ہوجاتے ہیں اور وہ شکل و کیفیت جس کا نام آواز ہے باقی رہتی ہے تو وہ معدات ہیں جن کا معلول کے ساتھ رہنا ضرور نہیں، کیا نہ دیکھا کہ کاتب مرجاتاہے اور اس کا لکھا برسوں رہتا ہے یوہیں یہ کہ زبان بھی ایک قلم ہی ہے۔ ([7] )

خلاصۂ عبارت

یعنی،آواز پیدا ہونے کا ذریعہ (قلع وقرع) ایک لمحہ کے لئے واقع ہونے والی شے ہے جوکہ پیدا ہوتے ہی ختم ہوجاتی ہے، لیکن آواز ایسی شکل اور کیفیت ہے جو پیدا ہونے کے بعد بھی باقی رہتی ہے۔

قرع و قلع عِلّت کی حیثیت رکھتے ہیں اور آواز معلول کی طرح ہے۔لیکن اس معاملے(آواز کے باقی رہنے) میں علت (آواز پیدا ہونے کے سبب قرع وقلع) کا اپنے معلول(آواز ) کے ساتھ رہنا ضروری(necessary)نہیں ہے۔اس کو یوں سمجھیں کہ کوئی کاتب(لکھنےوالا،writer) کچھ لکھ کر فوت ہوجائے تب بھی برسوں تک اُس کا لکھا ہوا باقی رہتا ہے۔یوہیں زبان بھی ایک قلم ہی ہےتو جس طرح قلم کا لکھا ہوا قلم کے بعد بھی باقی رہتا ہے اسی طرح ادائیگی کے بعد بھی آواز باقی رہتی ہے۔

(5) آواز کہاں کہاں موجود ہوتی ہے

(?Where does voice exist)

سُنائی دی جانے والی آواز صرف کان ہی میں موجود ہوتی ہے یا کان سے باہر کی ہوا میں بھی اس کا کوئی وجود ہوتاہے؟ محقِّقِ اسلام،اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ اِس کا تحقیقی جواب یوں تحریر فرماتے ہیں:ضرور کان سے باہر بھی موجود ہے، بلکہ باہر ہی سے منتقل ہوتی ہوئی کان تک پہنچتی ہے۔ ([8] )

خلاصۂ عبارت

یعنی، سُنائی دی جانے والی آواز کان کی ہوا میں بھی موجود ہوتی ہے اور کان کے باہر بھی موجود ہوتی ہے،بلکہ کان کے باہر کی ہوا سے ہی منتقل ہوکر کان کی ہوا تک آواز پہنچتی ہے اورکان کے ذریعے سُنائی دیتی ہے۔

(6) آواز کس کی صِفت ہے

(Whose attribute is voice?)

آواز کس کی صفت ہے؟ آواز نکالنے والے کی یا کسی اور شے کی؟ شیخ الاسلام والمسلمین،امامِ اہلسنّت ،اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اِس کی تحقیق یوں فرماتے ہیں:

وہ آواز کنندہ کی صفت نہیں،بلکہ ملائے متکیف کی صفت ہے ہوا ہو یا پانی وغیرہ۔ مواقف سے گزرا : الصّوتُ کیفيةٌ قائمةٌ بالھواءِ (آواز ایک ایسی کیفیت ہے جو ہوا کےساتھ قائم ہے)آواز کنندہ کی حرکتِ قرعی وقلعی سے پیداہوتی ہے لہذا اُس کی طرف اضافت کی جاتی ہے۔ ( [9])

خلاصۂ عبارت

یعنی،درحقیقت آواز،آواز نکالنے والے کی صفت نہیں ہے،بلکہ یہ (آواز) ملائے متکیف(یعنی تر اور نرم جسم و فضا جو مخصوص شکل سے متشکل ہوتی ہے اُس ) کی صفت ہے۔

چونکہ آواز پیدا ہونے کا ظاہری سبب(apparent cause) آواز نکالنے والے کی حرکتِ قرعی و قلعی ہوتی ہے لہذا سبب ہونے کی حیثیت سے آواز کی اِضافت اور نسبت آواز نکالنے والے کی طرف کر دی جاتی ہے۔مثلاً کہا جاتا ہے کہ یہ زید کی آواز ہے، یہ خالد کی آواز ہے۔

(7) آواز کب تک باقی رہتی ہے

(?How long does the voice last)

یہ تو ثابت اور متحقَّق ہوچکا کہ آواز پیدا ہونے کے بعد باقی رہتی ہے لیکن ایک سوال اور بھی قائم ہوتا ہے کہ آیا یہ آواز،آواز نکالنے والے کی زندگی تک ہی باقی رہتی ہے یا اس کی موت کے بعد بھی اس کی نکالی ہوئی آواز کا وُجود باقی رہتا ہے؟ مجدِّدِ اعظم،اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خانرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہاس سوال کا جواب یوں بیان فرماتے ہیں:

جبکہ وہ آواز کنندہ کی صفت نہیں،بلکہ ملائے متکیف سے قائم ہے تو اس کی موت کے بعد بھی باقی رہ سکتی ہے کما لایخفی (جیسا کہ پوشیدہ نہیں)۔ ([10] )

خلاصۂ عبارت

یعنی، جب یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ آواز اپنے نکالنے والے کی صفت نہیں ہے،بلکہ ملائے متکیف کے ساتھ قائم رہنے والی شے ہے لہذا آواز کنندہ( آواز نکالنے والے) کی موت کے بعد بھی آواز باقی رہ سکتی ہے،جیسا کہ کسی ذی شعور (conscious)پر یہ بات پوشیدہ نہیں ۔

(8) آواز سُنائی نہ دینے کی ایک وجہ

(A reason for not being able to hear the voice)

اُوپر متحقَّق ہولیا کہ آواز باقی رہتی ہے لیکن اِس مقام پر ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتاہے کہ اگر آواز باقی رہتی ہے تو پھربعض اَوقات(some times) آواز سُنائی کیوں نہیں دیتی؟ آواز سُنائی نہ دینے کی کیا وجہ ہے؟ اعلیٰ حضرت ،امامِ اہلسنّت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اِس کی وجہ یوں بیان فرماتے ہیں:

انقطاعِ تموُّج اِنعدامِ سماع کا باعث ہوسکتا ہے کہ کان تک اُس کا پہنچنا بذریعۂ تموّج ہی ہوتا ہے نہ کہ انعدامِ صوت کا،بلکہ جب تک وہ تشکّل باقی ہے صوت باقی ہے۔([11] )

خلاصۂ عبارت

یعنی،لہروں اور موجوں(waves)کا منقطع ہوجانا آواز کے سُنائی نہ دینے کا تو باعث(سبب) ہوسکتا ہے،کہ کان تک آواز اِنہیں لہروں اور موجوں کے ذریعے پہنچتی ہے۔لیکن لہروں اور موجوں کا منقطع ہوجانا آواز کے معدوم(بالکل ختم،extinct) ہوجانے کا باعث نہیں ہوسکتا۔جب تک ملائے متکیف میں مخصوص شکل و کیفیت (جسے آواز کا نام دیا جاتاہے وہ) باقی ہے ،تو آواز باقی ہے۔

(9) آواز کے دوبارہ سُنائی دینے کی وجہ

(Reason for the voice to be heard again)

آواز کے سُنائی دینے کا باعث تموّج یعنی لہروں کا پیدا ہونا ہوتاہے، لہذا اس کو بنیاد بنا کر مجدِّدِ اعظم امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ ایک اور تحقیق(research) بیان فرماتے ہیں کہ:

یہیں سے ظاہر ہوا کہ دوبارہ اور تموّج حادث ہو تو اس سے تجدیدِ سماع ہوگی نہ کہ آواز دوسری پیدا ہونی جبکہ تشکل وہی باقی ہے۔ ([12] )

خلاصۂ عبارت

یعنی،آواز اُس وقت تک باقی رہتی ہے جب تک ملائے متکیف میں وہ مخصوص شکل و کیفیت (جو کہ آواز کی حقیقت ہے وہ )باقی رہتی ہے۔آواز کے سُنائی دینے کا باعث تموّج یعنی لہروں کا پیدا ہونا ہے،لہذا جب یہ لہریں منقطع (disconnect)ہوجائیں تو آواز باقی رہنے کے باوجود کانوں سے سُنائی نہیں دیتی۔ اگر دوبارہ یہ تموّج (لہروں اور موجوں کا سلسلہ)پیدا ہوجائےتو نئے سرے سے وہ آواز سُنائی دے گی،لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نئی آواز پیدا ہوئی ہے،بلکہ تموّج کےدوبارہ پیداہونے کے باعث وہی باقی اور موجود آواز نئے سرے سے سُنائی دی گئی ہے۔

(10) آواز کی کاپیاں چھپنا

(Making voice copies)

آواز نکالنے والے کے منہ میں جو آواز پیدا ہوتی ہے،بعینہ وہی آواز ہمیں سُنائی دیتی ہے یا اس کی مزید کاپیاں (more copies)بن کر تموّج یعنی لہروں کے ذریعے ہمارے پردۂ سماعت سے ٹکراتی ہیں؟ اِس مسئلے کی بھی تحقیقِ اَنیق محقِّقِ اسلام،اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے ان الفاظ کےساتھ فرمائی ہے:

وحدتِ آواز وحدتِ نوعی ہے کہ تمام امثالِ متجدّدہ میں وہی ایک آواز مانی جاتی ہے ورنہ آواز کا شخصِ اوّل کہ مثلاً ہوائے دہنِ متکلم میں پیدا ہوا کبھی ہمیں مسموع نہیں ہوتا اس کی کاپیاں ہی چھپتی ہوئی ہمارے کان تک پہنچتی ہیں اور اسی کو اس آواز کا سُننا کہا جاتاہے۔ ([13] )

خلاصۂ عبارت

یعنی،آواز کے ایک ہونے کا مطلب اس کی نوع کا ایک ہونا ہے۔اس کو یوں سمجھیں کہ کلام کرنے والے کے منہ کی ہَوا میں جو شکلِ مخصوص (آواز) پیدا ہوتی ہے،بعینہ(exactly) وہی آواز ہمیں سُنائی نہیں دیتی،بلکہ متکلّم کے منہ کی ہَوا سے لیکر ہمارے پردۂ سماعت کی ہوا تک فضا میں ( متکلّم کے منہ کی ہوا میں پیدا ہونے والی) پہلی شکلِ مخصوص(آواز) کی بہت سی کاپیاں چھپتی ہیں۔آواز کی چھپنے والی ان کاپیوں کے تسلسل (continuity)سے آواز ہمارے کانوں تک پہنچ کر سُنائی دیتی ہے۔ پہلی آواز کی بہت سی کاپیاں بن جانے کے باوجود اُس آواز کی نوعیت ایک ہی ہے اس میں تعدّد نہیں آیا۔

(11) دُور سے آواز کم سُنائی دینے کی وجہ

(The cause of vice being less audible at a distance)

ہرشخص جانتا ہے کہ قریب سے بولنے والے یا قریب موجود کسی اور شے کی آواز تو صاف سُنائی دیتی ہے لیکن دُور سے بولنے والے یا دُور موجود کسی شے کی آواز کم اور دِھیمی(low) سُنائی دیتی ہے ،بلکہ جب فاصلہ بڑھ جاتاہے تو ایک حد پر پہنچ کر آواز بالکل سُنائی نہیں دیتی۔ آخر اس کا سبب اورو جہ کیا ہے؟ چنانچہ شیخ الاسلام والمسلمین امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ آواز کے سُنائی دینے کی تفصیلی وجہ(detailed reason)بیان کرنے کے دوران آواز کے کم سُنائی دینے یا بالکل سُنائی نہ دینے کی بھی وجہ ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں:

یونہی آواز کی کاپیاں ہوتی چلی گئیں اگرچہ جتنا فصل بڑھتا اور وسائط زیادہ ہوتے جاتے ہیں تموّج وقرع میں ضعف آتا جاتا اور ٹھپا ہلکا پڑتا ہے،ولہذا دُور کی آواز کم سُنائی دیتی ہے اور حُروف صاف سمجھ نہیں آتے یہاں تک کہ ایک حد پر تموّج کہ مُوجبِ قرع آئندہ تھا ختم ہوجاتا ہے اور عدمِ قرع سے اس تشکل کی کاپی برابر والی ہوا میں نہیں اُترتی آواز یہیں تک ختم ہوجاتی ہے ۔ ( [14])

خلاصۂ عبارت

یعنی،اُوپر بیان کردہ تفصیلات(details) کے مطابق پہلی پیدا ہونے والی آواز کی ہَوا میں کاپیاں بنتی چلی جاتی ہیں۔لیکن آواز جہاں سے پیدا ہو رہی ہے وہاں سے لیکر ہمارے کانوں کے پردۂ سماعت تک جتنا فاصلہ بڑھتا چلا جاتا ہے اور آواز کے ہمارے کانوں تک پہنچنے کے جتنے واسطے زیادہ ہوتے چلے جاتے ہیں اُسی قدر تموّج (لہروں) اور قرع( آواز پیدا ہونے کے سبب) میں کمزوری آتی ہے اورہَوا میں آواز کی کاپیوں کا ٹھپّا ہلکا پڑتا ہے اس وجہ سے دُور کی آواز کم سُنائی دیتی ہے اور دُور سے سُنائی دینے والی آواز کےحُروف بھی صاف(clear)سمجھ نہیں آتے۔یہاں تک کہ جب فاصلہ (distance)بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے اور واسطوں کی تعداد میں اضافہ ہوجاتاہے تو تموّج (آواز کو پردۂ سماعت تک پہنچنانے والی لہروں کا سلسلہ) ختم ہوجاتاہے اور اس بناء پر ہَوا میں آواز کی کاپیاں چھپ کر منتقل ہونے کا سلسلہ بھی ختم (disconnect)ہو جاتا ہے،لہذا آواز کا سُنائی دینا یہیں پر ختم ہوجاتاہے۔

مُلکِ سُخن کی شاہی تم کو رضؔا مُسلَّم

جس سَمْت آگئے ہو سِکّے بِٹھا دیے ہیں( [15])



[1] ): فتاویٰ رضویہ،23/411-469

[2] (فتاویٰ رضویہ،23/414-415

[3] ) فتاویٰ رضویہ،23/416

[4] ) فتاویٰ رضویہ،23/416-417

[5] ) فتاویٰ رضویہ،23/415

[6] ) فتاویٰ رضویہ،23/427

[7] ) فتاویٰ رضویہ،23/427

[8] ) فتاویٰ رضویہ،23/427

[9] ) فتاویٰ رضویہ،23/427-428

[10] ) فتاویٰ رضویہ،23/428

[11] ) فتاویٰ رضویہ،23/428

[12] ) فتاویٰ رضویہ،23/428

[13] ) فتاویٰ رضویہ،23/428

[14] ) فتاویٰ رضویہ،23/415

[15] ) حدائق بخشش،ص102،مکتبۃ المدینۃ