عفو و درگزر انسانی زندگی کا وہ حسن ہے جو انسان کے کردار میں وسعت ونکھار پیدا کرتا ہے۔ یہ وہ لطافت و رحمت کا راستہ ہے جو ہمیں ہر قسم کے نقصان سے دور رکھتا ہے اور ہر طرح کی حیوانیت اور بد اخلاقی سے محفوظ رکھنے کا باعث ہے۔ عفو و درگزر جیسی عظیم صفت اپنانے کے لیے سب سے پہلے اس کی تعریف کو مدنظر رکھنا ضروری ہے آئیے سب سے پہلے جانتے ہیں کہ عفو و درگزر کیا ہے۔

عفو عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں معاف کر دینا،بخش دینا،درگزر کرنا،بدلہ لینے کی طاقت ہونے کے باوجود معاف کر دینا۔

تاجدار رسالت ﷺ نے ارشاد فرمایا: حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بارگاہ الہٰی میں عرض کیاے میرے رب !تیرا کون سا بندا تیرے نزدیک ذیادہ عزت والا ہے ارشاد فرمایاجو قدرت ہونے کے باوجود معاف کر دے۔ (شعب الایمان، 6/ 319، حدیث: 8327)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے سرکار ﷺ نے ارشاد فرمایا: بہادر وہ نہیں جو پہلوان ہو اور دوسرے کو پچھاڑ دے بلکہ بہادر وہ ہے جو غصہ کے وقت خود کو قابو میں رکھے۔ (بخاری، 4/135، حدیث: 6114)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ تاجدار رسالت ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک کی خوشنودی کے لیے بندے نے غصے کا گھونٹ پیا، اس سے بڑھ کر اللہ کے نزدیک کوئی گھونٹ نہیں۔ (شعب الایمان، 6/314، حدیث: 8307)

آپ ﷺ نے جہاں عفو و درگزر کو اپنانے کا درس دیا وہیں اس کی عملی مثالیں بھی قائم فرمائی۔ اس ضمن میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں نے کبھی بھی آپ ﷺ کو اپنی ذات پر کیے گئے ظلم کا بدلہ لیتے ہوئے نہیں دیکھا، جب تک اللہ پاک کی مقرر کردہ حدود کو نہ توڑا جاءے اور جب اللہ پاک کی مقرر کردہ حدود میں سے کسی حد کو توڑا جاتا تو آپ شدید غضب ناک ہو جاتے اور جب آپ ﷺ کو دو چیزوں میں اختیار دیا جاتا تو آسان کو اختیار فرماتے بشرطیکہ وہ گناہ نہ ہو۔ (شمائل محمدیہ للترمذی، ص 198، حدیث: 2032)

اللہ پاک کے نیک بندوں کی ایمانی حالت یہ ہوا کرتی تھی کہ قرآن وسنت کے احکامات کو دنیا کی تمام چیزوں سے مقدم رکھتے اور ان پر عمل پیرا ہوتے تھے اللہ پاک ہمیں اپنے ان نیک بندوں کے صدقے عفو و درگزر اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

آپ ﷺ کے اخلاق حسنہ کے بارے میں خلق خدا سے کیا پوچھنا ؟ جب کہ خود خالق اخلاق نے یہ فرما دیا کہ وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴) (پ29، القلم: 4) ترجمہ: یعنی اے حبیب ! بلاشبہ آپ اخلاق کے بڑے درجہ پر ہیں۔

آپ کے بڑے سے بڑے دشمن نے بھی اس کا اعتراف کیا کہ آپ بہت ہی بلند اخلاق، نرم خو اور رحیم و کریم ہیں۔ آپ کے اخلاق میں ایک آپ کی عادت کریمہ یہ بھی تھی کہ آپ معاف کرنا اختیار فرماتے اس کے متعلق آپ کے فرمان بھی سنتی ہیں کہ آپ کا اپنا عمل تو یہ تھا کہ آپ عفو و درگزر سے کام لیتے لیکن آپ نے اپنی امت کو عفو و درگزر کے متعلق کیا ارشاد فرمایا۔

حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سلطان دو جہاںﷺ نے ارشاد فرمایا: جسے یہ پسند ہو کہ اس کے لیے (جنت میں) محل بنایا جائے اور اسکے درجات بلند کیے جائیں اسے چاہیے کہ جو اس پر ظلم کرے یہ اسے معاف کرے اور جو اسے محروم کرے یہ اسے عطا کرے اور جو اس سے قطع تعلق کرے یہ اس سے ناطہ جوڑے۔ (مستدرک للحاکم، 3/12، حدیث:3215)

آپ ﷺ کا فرمان رحمت نشان ہے: صدقہ دینے سے مال کم نہیں ہوتا اور بندہ کسی کا قصور معاف کرے تو اللہ اس (معاف کرنے والے) کی عزت ہی بڑھائے گا اور جو اللہ کے لیے تواضع(عاجزی) کرے اللہ اسے بلند فرمائے گا۔ (مسلم، ص 1071، حدیث: 2588)

حضرت جریر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سرکار دو ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا اور جو معاف نہیں کرتا اس کو معاف نہیں کیا جائے گا۔ (مسند امام احمد، 7/71، حدیث:1926)

سرکار مدینہ منورہ، سردار مکہ مکرمہ ﷺ کا فرمان عالیشان ہے: رحم کیا کرو تم پر رحم کیا جائے گا اور معاف کرنا اختیار کرو اللہ تمہیں معاف فرما دے گا۔ (مسند امام احمد، 2/682، حدیث: 7062)

ہم نے خطا میں نہ کی، تم نے عطا میں نہ کی

کوئی کمی سرورا تم پہ کروڑوں درود

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: قیامت کے روز اعلان کیا جائے گا: جس کا اجر اللہ کے ذمہ کرم پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہو جائے۔ پوچھا جائے گا: کس کیلئے اجر ہے؟ وہ منادی (اعلان کرنے والا) کہے گا ان لوگوں کا جو معاف کرنے والے ہیں، تو ہزاروں آدمی کھڑے ہونگے اور بلا حساب جنت میں داخل ہو جائیں گے۔ (معجم اوسط، 1/542، حدیث: 1998)

الحمد للہ ہم نے درگزر کرنے کے بہت سے فضائل سننے کی سعادت حاصل کی۔ اے میٹھے آقا ﷺ کے دیوانو! خواہ کوئی آپ کو کتنا ہی ستائے، دل دکھائے، عفوو درگزر سے کام لیجیے اور اسکے ساتھ محبت بھرا سلوک کرنے کی کوشش کیجیے۔

عفو عربی زبان کا ایک لفظ ہے جس کے معنی معاف کرنا بخش دینا  اور بدلہ نہ لینا ہے۔ خُذِ الْعَفْوَ وَ اْمُرْ بِالْعُرْفِ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِیْنَ(۱۹۹) (پ 9، الاعراف: 199) ترجمہ کنز الایمان: اے محبوب! معاف کرنا اختیار کرو اور بھلائی کا حکم دو اور جاہلوں سے منہ پھیر لو۔

معزز کون؟ حضرت موسیٰ کلیم اللہ نے عرض کی: اے رب! تیرے نزدیک کون سا بندہ عزت والا ہے؟ فرمایا: وہ جو بدلہ لینے کی قدرت کے باوجود معاف کرے۔ (شعب الایمان، 6/ 319، حدیث: 8327)

معاف کرو معافی پاؤ: سرکار مدینہ منورہ ﷺ کا فرمان عالیشان ہے: رحم کرو تم پر رحم کیا جائے گا اور معاف کرنا اختیار کرو اللہ پاک تمہیں معاف فرما دے گا۔ (مسند امام احمد، 2/682،حدیث: 7062)

مدنی آقا ﷺ عفو و درگزر: ہند بنت عتبہ جو حضرت امیر حمزہ کا کلیجہ چباگئی تھیں فتح مکہ کے دن نقاب پوش ہو کر اسلام لائیں تاکہ حضور ﷺ نہ پہچان سکیں بیعت کے موقع پر بھی گستاخی سے باز نہ رہیں ایمان لا کر نقاب اٹھا دیا اور کہا میں ہند بنت عتبہ ہوں مگر حضور ﷺ نے کسی امر کا ذکر نہیں کیا یہ دیکھ کر ہندہ نے کہا: یارسول اللہ روئے زمین پر کوئی اہل خیمہ میری نگاہ میں آپکے اہل خیمہ سے مبغوض نہ تھے لیکن آج میری نگاہ میں روئے زمین پر کوئی اہل خیمہ آپ کے اہل خیمہ سے محبوب نہیں رہے۔ (سیرت رسول عربی، ص 303)

ایک اور واقعہ ملاحظ فرمائیے، چنانچہ حضرت انس سے روایت ہے کہ اہل مکہ میں سے 80 مرد کوہ تنعیم ہوئے تھے اور چاہتے تھے کہ رسول اللہ (ﷺ) اور آپ کے اصحاب کو غافل پائیں آپ نے ان کو لڑائی کے بغیر پکڑ لیا اور زندہ رکھا ایک روایت میں ہے ان کو چھوڑ دیا پس اللہ پاک نے یہ آیت نازل فرمائی: ترجمہ: اور خدا وہ ہے جس نے مکہ کے نواح میں ان کے ہاتھوں کو تم سے اور تمہارے ہاتھوں کو ان سے باز رکھا (سیرت رسول عربی، ص 301)

امّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میرے سرتاج صاحب معراج نہ تو عادتًا بری باتیں کرتے تھے اور نہ بے تکلفًا اور نہ بازاروں میں شور کرنے والے تھے اور نہ ہی برائی کا بدلہ برائی سے دیتے تھے بلکہ آپ معاف کرتے اور درگزر فرمایا کرتے تھے۔(ترمذی، 3/ 409، حدیث: 2023)

حضرت ابی بن کعب سے روایت ہے کہ سلطان دوجہان ﷺ نے ارشاد فرمایا: جسے یہ پسند ہو کے اس کے لیے جنت میں محل بنایا جائے اور اسکے درجات بلند کیے جائیں اسے چاہیے کہ جو اس پر ظلم کرے یہ اسے معاف اور جو اس سے قطع تعلق کرے یہ اس سے ناطہ جوڑے۔ (مستدرک، 3/12، حدیث: 3215)

عکرمہ بن ابی جہل قریشی اپنے باپ کی طرح رسول اللہ ﷺ کے سخت دشمن تھے فتح مکہ کے دن وہ بھاگ کر یمن چلے گئے ان کی بیوی جو مسلمان ہو چکی تھی وہاں پہنچی اور کہا کہ رسول اللہ ﷺ سب سے بڑھ کر صلہ رحم اور احسان کرنے والے ہیں غرض وہ عکرمہ کو بارگاہ رسالت میں لائی عکرمہ نے آپ کو سلام کیا رسول اللہ ﷺ ان کو دیکھتے ہی کھڑے ہو گئے اور ایسی جلدی سے ان کی طرف بڑھے کہ ان کی چادر مبارک گر پڑی اور فرمایا: ہجرت کرنے والے سوار کو آنا مبارک ہو۔ (سیرت رسول عربی، ص 304)

گالیاں دیتا ہے کوئی تو دعا دیتے ہیں

دشمن آجائے تو چادر بھی بچھا دیتے ہیں

روزانہ ستّر 70 بار معاف کرو: ایک شخص بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا اور عرض کی یارسول اللہ ﷺ ہم خادم کو کتنی بار معاف کریں؟ آپ خاموش رہے اس نے پھر وہ سوال دہرایا: پھر خاموش رہے جب تیسری بار سوال کیا تو ارشاد فرمایا: روزانہ ستّر بار۔ (ترمذی، 3/ 381، حدیث: 1956)

مفسر شہیر حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں : عربی میں (ستّر) کا لفظ بیان کی زیادتی کے لیئے ہوتا ہے یعنی ہر دن اسے بہت دفعہ معافی دو یہ اس صورت میں ہو کہ غلام سے خطاءً غلطی ہو جاتی ہے خباثت نفس سے نہ ہو اور قصور بھی مالک کا ذاتی ہو شریعت کا یا قومی و ملکی نہ ہو کہ یہ قصور معاف نہیں کیے جاتے۔

عفو عربی زبان کا ایک لفظ ہے جس کے معنی معاف کرنا   درگزر کرنا بدلہ نہ لینا اور گناہ پر پردہ ڈالنے کے ہیں اصطلاح شریعت میں عفو سے مراد کسی کی زیادتی و برائی پر انتقام کی قدرت وطاقت کے باوجود انتقام نہ لینا اور معاف کر دینا۔

قرآن مجید کی روشنی میں عفو درگزر کے فضائل پڑھیے، ترجمہ کنز العرفان: اور تم(کسی کو) سزا دینے لگو تو ایسی جیسی تمہیں پہنچائی گئی ہو اور اگر تم صبر کرو تو بیشک صبر والوں کےلئے صبر سب سے بہتر ہے۔ (صراط الجنان، 3/ 342) آپ ﷺ اور آپ ﷺ کی آل کے درگزر کے واقعات ملاحظہ فرمائیے۔

ایک سفر میں نبی معظم رسول محترم سراپا جودوکرم ﷺ آرام فرما رہے تھےغورث بن حارث نے آپ ﷺ کو شہید کرنے کے ارادے سے آپ ﷺ کی تلوار نیام سے کھینچ لی جب سرکار مدینہ ﷺ بیدار ہوئے تو غورث کہنے لگا: اے محمد ﷺ اب آپ کو مجھ سے کون بچائے گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تبارک و تعالی نبوت کی ہبیت سے تلوار اس کے ہاتھ سے گر پڑی اور آپ ﷺ نے تلوار ہاتھ میں لیکر فرمایا: اب تمہیں میرے ہاتھ سے کون بچائے گا؟ غورث گڑ گڑا کر کہنے لگا: آپ ﷺ ہی میری جان بچائے گے رحمت عالم ﷺ نے اسکو چھوڑ دیا اور معاف کردیاچنانچہ غورث اپنی قوم سے کہنے لگا اے لوگو! میں ایسے شخص کے پاس سے آیا ہوں جو دنیا میں تمام انسانوں سے بہتر ہے۔ (سیرت مصطفیٰ، ص 604تا605)

آپ ﷺ کی آل کے درگزر کرنے کا واقع پڑھیے:

حضور اکرم ﷺ کی آل پاک امام حسین رضی اللہ عنہ کے لخت جگر، نور نظر امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کو ایک مرتبہ کو ایک باندی وضو کروا رہی تھی کہ اچانک اس کے ہاتھ سے پانی کا برتن آپ رضی اللہ عنہ کے چہرے پر گر گیا جس سے چہرہ زخمی ہوگیا آپ رضی اللہ عنہ نے اس کی طرف سر اٹھا کر دیکھا تو اس نے عرض کی: اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ: اور غصے پینے آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں نے غصے کو پی لیا اس نے پھر عرض کیا: اور لوگوں سے درگزر کرنے والے۔ فرمایا: اللہ تجھے معاف کرے۔ پھر عرض کی: اور اللہ احسان والوں کو پسند فرماتا ہے۔ ارشاد فرمایا: جا! تو اللہ کی رضا کے لیے آزاد ہے۔ (تاریخ مدینہ دمشق، 41/ 387)

آپ ﷺ کا اپنے دشمنوں کو معاف کرنے کا واقعہ:

ایک مرتبہ ایک دیہاتی نے ہمارے نبی ﷺ کی چادر کو زور سے کھینچا جس سے آپ ﷺ کی گردن پر چادر کی دھاریوں کے نشان پڑ گئے دیہاتی کہنے لگا: آپ کے پاس جو مال ہے اس میں سے کچھ مجھے دیجئے آپ ﷺ نے دیہاتی کی طرف دیکھا اور سختی نہ کی لگے اور اپنے صحابہ کو حکم دیا کہ اسے کچھ مال دے دو ہمارے نبی ﷺ نے اپنے عمل سے ہمیں سکھا دیا کہ جب کوئی ہم پر ظلم وزیادتی کریں تو اس سے بدلہ نہ لے بلکہ اسے معاف فرمادیں یہ ایک مرتبہ نہیں ہوا کہ ہمارے نبی کریم ﷺ نے اپنے دشمنوں کو معاف فرمادیا تھا جو ہمارے نبی کریم ﷺ پر پتھر برساتے جھوٹے الزامات لگاتے تھے سالہا سال تکلیفیں دیتے رہے یہاں تک ہمارے نبی ﷺ کو قتل کرنے کی سازشیں بھی کرتے آپ ﷺ چاہتے تو بدلہ لے سکتے تھے سخت سے سخت سزا بھی دے سکتے مگر انہوں نے ان مجرموں کو معاف فرمادیا اور کسی سے کوئی بدلہ نہ لیا۔ (تعلیمات قرآن، ص 86، حصہ: 2)

عفو درگزر کے فضائل احادیث کی روشنی میں پڑھیے اور رضا الہیٰ کے لیے اس پر عمل کریں۔

1۔ سرکار مدینہ ﷺ نے فرمایا: بہادر وہ نہیں جو پہلوان ہو اور دوسرے کو پچھاڑ دیں بلکہ بہادر وہ ہے جو غصے کے وقت خود جو قابو میں رکھے (مطالعۃ العربیہ، ص75)

2۔ جو کوئی اپنے غصے کو روکے گا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس سے اپنے عذاب کو روک دے گا۔ (اے ایمان والو، ص 81)

3۔ ظالم سے بدلہ لینا جائز ہے لیکن اس معاف کر دینا بہتر اور اجر و ثواب کا باعث ہے۔ (تعلیمات قرآن، ص 89، حصہ 2)

4۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی: اے رب تیرے نزدیک کون سا بندہ زیادہ والا ہے؟ فرمایا: جو بدلہ لینے کی قدرت کے باوجود معاف کردے۔ (شعب الایمان، 6/ 319، حدیث: 8327)

عفو کے معروف معنی معاف کرنا، درگزر کرنا،نظر انداز کرنااور انتقام نہ لینا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ کا ارشاد ہے۔ وَ  الْكٰظِمِیْنَ  الْغَیْظَ  وَ  الْعَافِیْنَ  عَنِ  النَّاسِؕ- وَ  اللّٰهُ  یُحِبُّ  الْمُحْسِنِیْنَۚ(۱۳۴) (پ 4، آل عمران: 134) ترجمہ: اور لوگوں سے درگزر کرنے والے اور نیک لوگ اللہ کے محبوب ہیں۔

فَاعْفُوْا وَ اصْفَحُوْا (پ 1، البقرۃ: 109) ترجمہ: پس تم معاف کردو اور درگزر سے کام لو۔

دشمنوں سے بھی عفودرگزر کا حکم: عفودرگزر کا حکم صرف مسلمانوں اور اپنوں سے ہی نہیں بلکہ دشمنوں، کافروں اور مشرکوں کو بھی معاف کر دینے کا حکم ہے۔ قُلْ لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یَغْفِرُوْا لِلَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ اَیَّامَ اللّٰهِ لِیَجْزِیَ قَوْمًۢا بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ(۱۴) (پ 25، الجاثیۃ: 14) ترجمہ: (اے پیغمبرﷺ)جو لوگ ایمان لے آتے ہیں ان سے کہو کہ جو لوگ اللہﷻ کے دنوں کا اندیشہ نہیں رکھتے ان سے درگزر کریں تاکہ اللہ لوگوں کو ان کے کاموں کا بدلہ دے جو وہ کیا کرتے تھے۔

نواسئہ رسول اور عفو: حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا ایک غلام تھا۔ ایک دن وہ وضو کے لیے پانی لایا۔ جب آپ وضو کر چکے اور غلام نے لوٹا اٹھایا تو اتفاق سے لوٹا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے منہ سے جا ٹکرایا۔جس سے آپ کے ایک دانت کو تکلیف پہنچی۔ اپنے غلام کی طرف غصے سے دیکھا تو غلام نے فوراً یہ آیت پڑھی:

غلام: اور غصہ پی جانے والے۔

حسین: میں نے اپنا غصہ پی لیا۔

غلام: لوگوں کو معاف کرنے والے۔

حسین: میں نے تجھے معاف کیا۔

غلام: اور اللہ معاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔

حسین: تم آزاد ہو، جاسکتے ہو۔

جنت کا محل: حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ: سلطان دو جہاں ﷺ نے ارشاد فرمایا: جسے یہ پسند ہو کہ اس کے لیے (جنت میں)محل بنایا جائے اور اسکے درجات بلند کیے جائیں، اسے چاہیے کہ جو اس پر ظلم کرے یہ اسے معاف کر دے یہ اس سے ناطہ جوڑے۔(مستدرک، 3/12، حدیث: 3215)

ظلم کرنے والے کے لیے دعاو ہدایت: غزوہ احد میں جب مدینے کے سلطانﷺکے مبارک دندان شہید اور چہرہ انور کو زخمی کر دیا گیا مگرآپﷺنے ان لوگوں کے لیے اس کے سوا کچھ بھی نہ فرمایا کہ میری قوم کو ہدایت دے کیونکہ یہ لوگ مجھے جانتے نہیں۔

سویاکئے نابکار بندے

رویا کئے زار زار آقا

فتح مکہ کے موقع پر صحن کعبہ میں قریش مکہ کا اجتماع تھا یہ وہ لوگ تھے جو آپ ﷺکے قتل کے منصوبے بنا رہے تھے۔ انہوں نے کتنے ہی مسلمانوں کو شہید کر دیا تھا اور آپﷺ اور مسلمانوں کو اتنی اذیتیں پہنچائی تھیں کہ انھیں مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کرنا پڑی۔ اب یہ لوگ خوف و دہشت کی تصویر بنے ہوئے تھے اور ڈر رہے تھے کہ نہ جانے اب ان سے کتنا شدید انتقام لیا جائے گا۔

حضرت محمدﷺ نے ان کی طرف توجہ کی اور فرمایا: اے گروہ قریش!تم جانتے ہو میں تمہارے ساتھ کیا برتاؤ کرنے والا ہوں؟ انہوں نے جواب دیا آپ نیکی کا برتاؤ کریں گے۔کیونکہ آپ خود مہربان ہیں اور مہربان بھائی کے بیٹے ہیں۔ آپ ﷺنے قرآن مجیدکی یہ آیت پڑھی: قَالَ لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْكُمُ الْیَوْمَؕ-یَغْفِرُ اللّٰهُ لَكُمْ٘-وَ هُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ(۹۲) (پ 13، یوسف:92) ترجمہ: کچھ الزام نہیں تم پرآج بخشے اللہ تم کو اوروہ ہے سب مہربانوں کا مہربان۔

عفو عربی زبان کا لفظ ہے،جس کے معانی معاف کرنا، بخش دینا،درگزر کرنا،بدلہ نہ لینا اور گناہ پر پردہ ڈالنے کے ہیں۔ اللہ پاک کا ارشاد ہے: وَ لْیَعْفُوْا وَ لْیَصْفَحُوْاؕ-اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰهُ لَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۲۲) (پ 18، النور: 22) ترجمہ کنز الایمان: اور چاہئے کہ معاف کریں اور درگزر یں کیاتم اسے دوست نہیں رکھتے کہ اللہ تمہاری بخشش کرے اور اللہ بخشنے والامہربان ہے۔

نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:جو کسی مسلمان کی غلطی کو معاف کرے گا قیامت کے دن اللہ پاک اس کی غلطی کو معاف فرمائے گا۔ (ابن ماجہ، 3/36،حدیث:2199)

معاف کرنے سے عزت بڑھتی ہے: نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: بندہ کسی کا قصور معاف کرے تو اللہ پاک اس(معاف کرنے والے) کی عزت ہی بڑھائے گا۔ (مسلم، ص 1071، حدیث: 2588)

معاف کرنے والوں کی بے حساب مغفرت: نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن اعلان کیا جائے گا جس کا اجر اللہ پاک کے ذمہ کرم پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہوجائے،پوچھا جائے گا کس کے لیے اجر ہے؟منادی اعلان کرنے والا کہے گا ان لوگوں کے لیے جو معاف کرنے والے ہیں تو ہزاروں آدمی کھڑے ہوں گے اور بلا حساب جنت میں داخل ہوجائیں گے۔ (معجم اوسط، 1/542 ، حدیث:1998)

جنت کا محل: نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جسے یہ پسند ہو کہ اس کے لیے جنت میں محل بنایا جائے اور اس کے درجات بلند کیے جائیں،اسے چاہیے کہ جو اس پر ظلم کرے یہ اسے معاف کرے اور جو اسے محروم کرے یہ اسے عطا کرے،اور جو اس سے قطع تعلق کرے یہ اس سے ناطہ جوڑے۔ (مستدرک للحاکم، 3/12، حدیث:3215)

رحم کیا کرو تم پر رحم کیا جائے گا اور معاف کرنا اختیار کرو، اللہ پاک تمہیں معاف فرما دے گا۔ (مسند امام احمد، 2/682، حدیث: 7062)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ نبی کریم ﷺ کے عفو و درگزر کا صدقہ ہمیں بھی معاف کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

کسی کی خطا کو معاف کر دینا عفو اور اس پر کوئی مواخذہ نہ کرنا درگزر کہلاتا ہے۔ عفو و درگزر سے کام لینا یہ خوبی اخلاقی اوصاف میں سے ہے اچھے اخلاق کا تقاضا ہے کہ بندہ دوسروں کی غلطیوں کو معاف کرتے ہوئے درگزر سے کام لے۔ پیاری پیاری اسلامی بہنو! خواہ کوئی آپ کو کتنا ہی ستائے آپ کا دل دکھائے آپ عفو و درگزر ہی سے کام لیجیے اور ان کے ساتھ محبت بھرا سلوک فرمائیے۔

قرآن کریم میں عفو و درگزر اختیار کرنے کاحکم: اللہ پاک نے قرآن مجید میں عفو و درگزر کرنے والوں کو اپنی رضا کی جو خوشخبریاں سنائیں اس ضمن میں دو آیات پڑھیے:

وَ  الْكٰظِمِیْنَ  الْغَیْظَ  وَ  الْعَافِیْنَ  عَنِ  النَّاسِؕ- وَ  اللّٰهُ  یُحِبُّ  الْمُحْسِنِیْنَۚ(۱۳۴) (پ 4، آل عمران: 134) ترجمہ: اور لوگوں سے درگزر کرنے والے اور نیک لوگ اللہ کے محبوب ہیں۔ اس آیت مبارکہ میں پہلے تو متقین کے چار اوصاف بیان کے گئے: خوشحالی و تنگی دونوں میں راہ خدا میں مال خرچ کرنا، غصہ پی جانا، معاف کرنا اور درگزر کرنا۔ پھر اللہ پاک نے خود ہی فرما دیا کہ یہ اوصاف جس میں ہوں تو الله نیکوں سے محبت فرماتا ہے۔

اور (ثواب ان کے لیےبھی) جو بچتے رہتے ہیں بڑے بڑے گناہوں سے اور بے حیائی سے اور جب غضبناک ہوں تو معاف کردیتے ہیں۔

تفسیر صراط الجنان میں اس آیت کی تفسیر کچھ یوں ہے کہ کسی پر غصہ آجانے پرمعاف کردینے کی صورت میں بھی اجر و ثواب کی بشارت ہے۔ حضرت علامہ احمد صاوی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں: آیت کا معنی ہے کہ جب غصہ آئے تو اس وقت درگزر کرنا اخلاقی اچھائیوں میں سے ہے مگر شرط یہ ہے کہ درگزر کرنے سے کسی واجب میں خلل نہ ہو اگر کسی فرض یا واجب میں خلل واقع ہو تو درگزر نہ کرنا واجب ہوجاتا ہے۔

عفو و درگزر احادیث کی روشنی میں: اصلاح امت کی غرض سے نبی پاکﷺ نے معاف کرنے اور درگزر سے کام لینے کے بارے میں احادیث مبارکہ میں بھی کئی مرتبہ تاکید فرمائی آپ بھی ان میں سے چند پڑھ کر عفو و درگزر کا ذہن بنائیے:

(1) حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رحیم و کریم آقاﷺ نے فرمایا: جسے یہ پسند ہو کہ اس کے لیے (جنت میں) محل بنایا جائے اسکے درجات کو بلند کیا جائے تو اسے چاہیے کہ جو اس پر ظلم کرے یہ اسے معاف کردے جو اسے محروم کرے یہ اسے عطا کرے جو اس سے قطع تعلقی کرے یہ اس سے ناطہ جوڑے۔ (مستدرک، 3/12، حدیث: 3215)

(2)حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ تاجدار رسالت ﷺ نے فرمایا: جب لوگ حساب گے لیے ٹھہرے ہونگے تو اس وقت ایک منادی یہ اعلان کرے گا کہ جسکا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمّہ کرم پر ہے وہ اٹھے اور داخل جنت ہو جائے جب دوسری بار بھی یہی اعلان کرے گا تو پوچھا جائے گا کہ وہ کون ہے جسکا اجر اللہ پاک کے ذمّہ کرم پر ہے منادی کہےگا کہ انکا جو لوگوں کی خطاؤں کو معاف کرنے والے ہیں پھر وہ اپنا اعلان تیسری بار دہرائے گا تو ہزاروں آدمی کھڑے ہونگے اور بلا حساب داخل جنت ہو جائیں گے۔(معجم الاوسط، 1/ 542، حدیث: 1998)

عفو و درگزر کے معاملے میں اصحاب مصطفیٰ ﷺ کا طرز عمل: عفو ودرگزر کے معاملے میں پیارے اصحاب ہمارے اسلاف اور اہل بیت اطہار کی بھی کئی روایات ہیں جن میں سے ایک آپ بھی پڑھیے اور جھوم جائیے چنانچہ ایک مرتبہ حضرت امام زین العابدین علی بن حسین رضی اللہ عنہما کی لونڈی وضو کرواتے ہوئے آپ پر پانی ڈال رہی تھی کہ اچانک اس کے ہاتھوں سے برتن گرا اور آپ رضی اللہ عنہ کے مبارک چہرے پر آگرا جس سے آپ رضی اللہ عنہ کا چہرہ بھی زخمی ہو گیا امام زین العابدین رضی اللہ عنہ نے اسکی طرف دیکھا تو اسنے عرض کی اللہ فرماتا ہے: اور غصہ پینے والے آپ نے اس سے فرمایا میں نے اپنے غصہ کو پی لیا اس نے پھر عرض کی: اور لوگوں کو معاف کرنے والے فرمایا اللہ تعالیٰ تجھے معاف کرے اس نے دوبارہ عرض کی اس بار آپ رضی اللہ عنہ نے اس سے فرمایا جا ! تو الله کی رضا کے لیے آزاد ہے۔ (تاریخ مدینہ دمشق، 41/387)

پیاری پیاری اسلامی بہنو! دیکھا آپ نے چہرہ زخمی ہو جانے کے باوجود کس طرح اس لونڈی کو معاف بھی کیا اور درگزر سے کام لیا ہمیں بھی چاہیے کہ ہم بھی خدا اور خدا کے پیارے حبیب ﷺ کے حکم پر عمل کی نیت سے عفو و درگزر سے کام لیں غصہ آئے تو صبر صبر اور صرف صبر ہی سے کام لیجیے کہ بسا اوقات نہ بول کر غمزدہ ہونا بول کر پچھتانے سے بہتر ہوتا ہے۔ کسی کو جھڑک دینے یا بدلہ لینے سے محض نفرتیں پیدا ہونگی جبکہ عفو و درگزر کرنے سے آپس میں محبتیں بڑھیں گی۔

عفو و درگزر سے  مراد معاف کرناسزا کو چھوڑ دینا ہے۔ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: وَ لْیَعْفُوْا وَ لْیَصْفَحُوْاؕ-اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰهُ لَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۲۲) (پ 18، النور: 22) ترجمہ کنز الایمان: اور چاہئے کہ معاف کریں اور درگزر یں کیاتم اسے دوست نہیں رکھتے کہ اللہ تمہاری بخشش کرے اور اللہ بخشنے والامہربان ہے۔

حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کا بیان ہے کہ میں نبی کریم رؤف الرحیم ﷺ کے ہمراہ چل رہا تھا اور آپ ﷺ ایک نجرانی چادر اوڑے ہوئے تھے جس کے کنارے موٹے اور کھردرے تھے ایک دم ایک بدوی یعنی عربی عرب شریف کے دیہاتی نے آپ ﷺ کی چادر مبارک کو پکڑ کر اتنے زبردست جھٹکے سے کھینچا کہ اللہ پاک کے اخری نبی ﷺ کی مبارک گردن پر چادر کے کنارے سے خراش آگئی وہ کہنے لگا اللہ پاک کا جو مال آپ ﷺ کے پاس ہے آپ ﷺ حکم دیجیے کہ اس میں سے مجھے کچھ مل جائے رحمت عالم ﷺ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور مسکرا دیئے پھر اسے کچھ مال عطا فرمانے کا حکم دیا۔ (بخاری، 2/359، حدیث:3149)

ایک شخص بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا اور عرض کی: یا رسول اللہ ہم خادم کو کتنی بار معاف کریں آپ ﷺ خاموش رہے اس نے پھر وہی سوال دہرایا آپ پھر خاموش رہے جب تیسری بار سوال کیا تو ارشاد فرمایا: روزانہ 70 بار۔ (ترمذی، 3/381، حدیث: 1956) حکیم الامت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں:اس میں 70 کا لفظ بیان زیادتی کے لیے ہوتا ہے یعنی ہر دن اسے بہت دفعہ معافی دو یہ اس صورت میں ہو کہ غلام سے ختم غلطی ہو جائے خباثت نفس سے نہ ہو اور قصور بھی مالک کا ذاتی ہو شریعت کا یا قومی و ملکی قصور نہ ہو کہ یہ قصور معاف نہیں کیے جاتے۔(مراۃ المناجیح، 5/170)

جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا اور جو معاف نہیں کرتا اسے معاف نہیں کیا جائے گا۔ (مسند امام احمد، 7/71، حدیث:1926)

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی: اے رب کریم تیرے نزدیک کون سا بندہ زیادہ عزت والا ہے فرمایا: وہ جو بدلہ لینے کی قدرت کے باوجود معاف کر دے۔ (شعب الایمان، 6/319، حدیث: 8327)

رحم کیا کرو تم پر رحم کیا جائے گا معاف کرنا اختیار کرو اللہ پاک تمہیں معاف فرما دے گا۔ (مسند امام احمد، 2/682، حدیث: 7062)

قیامت کے روز اعلان کیا جائے گا جس کا اجر اللہ پاک کے ذمہ کرم پر ہے وہ اٹھے اور وہ جنت میں داخل ہو جائے پوچھا جائے گا کس کے لیے اجر ہے وہ منادی یعنی اعلان کرنے والا کہے گا ان لوگوں کے لیے جو معاف کرنے والے ہیں تو ہزاروں آدمی کھڑے ہوں گے اور بلا حساب جنت میں داخل ہو جائیں گے۔ (معجم اوسط، 1/542، حدیث: 1998)

عفو و درگزر کی راہ میں آنے والی رکاوٹیں:

سب سے پہلی رکاوٹ تکبر ہے تکبر کرنے والا شخص کسی کو معاف کرنے پر جلدی آمادہ نہیں ہوتا وہ سمجھتا ہے کہ معاف کرنے سے میری عزت میں کمی ہوگی حالانکہ معاف کرنے سے عزت کم نہیں ہوتی بلکہ بڑھتی ہے، نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے: صدقہ دینے سے مال کم نہیں ہوتا اور بندہ کسی کا قصور معاف کرے تو اللہ پاک اس معاف کرنے والے کی عزت ہی بڑھائے گا اور جو اللہ کریم کے لیے تواضع یعنی عاجزی کرے اللہ پاک اسے بلندی عطا فرمائے گا۔ (مسلم، ص 1071، حدیث: 2588)

عفو و درگزر کی راہ میں آنے والی دوسری رکاوٹ غصہ ہے کہ بندہ اپنے غصے کی وجہ سے بھی لوگوں کو معاف کرنے پر جلدی آمادہ نہیں ہوتا اس لیے اسے چاہیے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے اس فرمان پر غور کرے: وَ  الْكٰظِمِیْنَ  الْغَیْظَ  وَ  الْعَافِیْنَ  عَنِ  النَّاسِؕ- وَ  اللّٰهُ  یُحِبُّ  الْمُحْسِنِیْنَۚ(۱۳۴) (پ 4، آل عمران: 134) ترجمہ: اور لوگوں سے درگزر کرنے والے اور نیک لوگ اللہ کے محبوب ہیں۔

عفو عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں معاف کرنا درگزر کرنا انتقام لینا عفو و درگزر کا اصطلاحی معنی کسی کے ظلم اور زیادتی کا بدلہ لینے کی طاقت کے باوجود معاف کر دینا۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے: فَاعْفُوْا وَ اصْفَحُوْا (پ 1، البقرۃ: 109) ترجمہ: پس تم معاف کردو اور درگزر سے کام لو۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی: اے رب تیرے نزدیک کون سا بندہ زیادہ عزت والا ہے فرمایا: وہ جو بدلہ لینےکی قدرت کے باوجود معاف کر دے۔ (شعب الایمان، 6/ 319، حدیث: 8327)

عفو و درگزر کے بارے میں احادیث:

رحم کیا کرو تم پر رحم کیا جائے گا معاف کرنا اختیار کرو اللہ پاک تمہیں معاف فرما دے گا۔ (مسند امام احمد، 2/682، حدیث: 7062)

ایک شخص بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا اور عرض کی یا رسول اللہ ﷺ ہم خادم کو کتنی بار معاف کریں؟ حضور خاموش رہے اس نے پھر سوال دہرایا آپ خاموش رہے پھر تیسری بار سوال دہرایا حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: روزانہ 70 بار۔ (ترمذی، 3/ 381، حدیث: 1956)

پیارے نبیﷺ کا عفو و درگزر:

ایک یہودی عورت نے آپ ﷺ کو زہر دیا مگر آپ نے اس سے کوئی انتقام نہیں لیا۔ لبید بن عصم نے آپ پر جادو کیا۔ کفار مکہ نے وہ کون سا ایسا ظالمانہ برتاؤ تھا جو آپ کے ساتھ نہ کیا مگر ہمارے نبی ﷺنے ایذاؤں کو برداشت کیا اور مجرموں کو قدرت کے باوجود معاف کیا

عفو و درگزر سے آپس میں محبت پیدا ہوتی ہے، حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک عفو و درگزر کرنے والے کی عزت میں اضافہ فرماتا ہے۔

وَ  الْكٰظِمِیْنَ  الْغَیْظَ  وَ  الْعَافِیْنَ  عَنِ  النَّاسِؕ- وَ  اللّٰهُ  یُحِبُّ  الْمُحْسِنِیْنَۚ(۱۳۴) (پ 4، آل عمران: 134) ترجمہ: اور لوگوں سے درگزر کرنے والے اور نیک لوگ اللہ کے محبوب ہیں۔ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں ہے: اس آیت میں متقین کے 3 اوصاف بیان ہوئے ہیں: غصہ پینے والے، معاف کرنے والے اور احسان کرنا۔

احادیث مبارکہ:

جسے یہ پسند ہو کہ اس کے لیے جنت میں محل بنایا جائے اور اسکے درجات بلند کئے جائیں تو اسے چاہیں کہ جو اس پر ظلم کرے اسے معاف کرے اور جو اسے محروم کرے اسے عطا کرے اور جو اس سے قطع تعلقی کرے اس سے ناطہ جوڑے۔ (مستدرک، 3/12، حدیث: 3215)

جب لوگ حساب کے لیے ٹھہرے ہوں گے تو اس وقت ایک منادی اعلان کرے گا جس کا اجر اللہ کہ ذمے پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہوئے پھر دوسری بار اعلان کرے گا جس کا اجر اللہ تعالی کے ذمے پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہو جائے پوچھا جائے گا وہ کون ہے جس کا اجر اللہ تعالی کے ذمہ پر ہے منادی کہے گا ان کا جو لوگوں کی خطائیں معاف کرنے والے ہیں پھر تیسری بار منادی اعلان کرے گا جس کا اجر اللہ کریم کے ذمے پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہو جائے تو ہزاروں آدمی کھڑے ہوں گے اور بلا حساب جنت میں داخل ہو جائیں گے۔ (معجم الاوسط، 1/ 542، حدیث: 1998)

واقعہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے فرماتے ہیں کہ میں نبی کریم ﷺ کے ہمراہ چل رہا تھا اور حضور ﷺ ایک نجرانی چادر اوڑھے ہوئے تھے جس کے کنارے موٹے اور کھردرے تھے یک دم ایک بدوی (دیہاتی) نے آپ ﷺ کی چادر مبارک کو پکڑ کر اتنے زبردست جھٹکے سے کھینچا کہ محبوب رب ذوالجلال ﷺ کی مبارک گردن پر چادر کی کنارے سے خراش آگئی وہ کہنے لگا اللہ کا جو مال آپ کے پاس ہے آپ حکم فرما دیجئے کہ اس میں سے کچھ مجھے مل جائے رحمت عالم ﷺ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور مسکرا دیئے اور کچھ مال عطا فرمانے کا حکم دیا۔ (بخاری، 2/359، حدیث: 3149)

دیکھا آپ نے مدنی آقا ﷺ نے بدوی سے کیسا حسن سلوک فرمایا میٹھی مصطفی ﷺ کے دیوانوں خواہ کوئی آپ کو کتنا ہی ستائے دکھائے آپ عفو در گزر سے کام لیجئے اور اس کے ساتھ محبت بھرا سلوک کرنے کی کوشش فرمائیں۔

ایک شخص بارگاہ مصطفوی ﷺ میں حاضر ہوا اور عرض کی: یا رسول اللہ ﷺ ہم خادم کو کتنی بار معاف کریں ؟ آپ خاموش رہے اس نے پھر وہ سوال دہرایا حضور نے خاموشی اختیار فرمائی جب تیسری بار سوال کیا تو ارشاد فرمایا: روزانہ 70 بار۔(ترمذی، 3/ 381، حدیث: 1956)

مفتی احمد یار خان نعیمی اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں کہ عربی میں 70 کا لفظ زیادتی کے لیے ہوتا ہے یعنی ہر دن میں اسے بہت دفعہ معافی دو یہ صورت میں ہو کہ غلام سے خطا غلطی ہو جاتی ہے خباثت نفس سے نہ ہو اور قصور بھی مالک کا ذاتی ہو شریعت کا یا ملکی قصور نہ ہو کہ یہ معاف نہیں کیے جاتے۔ (مراۃ المناجیح، 5/170)

اقوال بزرگان دین:

1۔ ابن عمر فرماتے ہیں: مروت والوں کو سزا نہ دو جب کہ وہ صالح ہو۔

2۔ اسی بات پر دنیا قائم ہے کہ کوئی اپنے سے بد سلوکی کرنے والے کو معاف کر دے۔

3۔ غلطی کرنے والے کی لغزش کو معاف کرو جب تک وہ کسی حد شرعی کا سزاوار نہ ہو۔

4۔ جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔

5۔ جس پر ظلم کیا جائے اور وہ صبر کرے اللہ کریم اس کی عزت بلند فرما دیتا ہے۔

6۔ حضور ﷺ فرمایا کرتے جس کا خلاصہ ہے کہ معاف کیا کرو اللہ کریم معاف کرنے والوں کو معاف فرما دیتا ہے۔

کاش ہمارے اندر بھی یہ جذبہ بیدار ہو جائے کہ ہم اپنی ذات اور نفس کی خاطر غصہ کرنا ہی چھوڑ دیں جیسے کہ ہمارا بزرگوں کا جذبہ ہوتا تھا کہ ان پر کوئی کتنا ہی ظلم کرے یہ حضرات اس ظلم پر بھی شفقت فرماتے، حیات اعلی حضرت میں ہے کہ میرے آقا حضرت امام اہل سنت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں ایک بار جب ڈاک پیش کی گئی تو بعض خطوط مغلطات سے بھرپور تھے معتقدین برہم (غصہ) ہوئے کہ ہم ان لوگوں کے خلاف مقدمہ دائر کروائیں گے اعلی حضرت نے فرمایا جو لوگ تعریفی خطوط لکھتے ہیں پہلے ان کو جاگیر تقسیم کر دو پھر گالیاں لکھنے والوں پر مقدمہ دائر کرواؤ۔ مطلب یہ ہے کہ تعریف کرنے والوں کو تو انعام نہیں دیتے پھر برائی کرنے والوں سے بدلہ کیوں! سبحان اللہ کتنا پیارا اور کریمانہ انداز ہے اللہ کریم فیضان اعلی حضرت سے ہمیں بھی مالا مال فرمائے۔

فضائل و فوائد:

عفو درگزر سے کام کرنے والے کو اللہ کریم پسند فرماتا ہے۔

عفو در گزر کر نا سنت مصطفی ﷺ ہے۔

معاف کرنے والا اللہ کریم کے اجر کا حقدار ہے۔

معاف کرنے والے کو جنت نصیب ہوگی۔

جو خدا کی رضا کے لیے معاف کرتا ہے رب کائنات اسے خود بلندی عطا فرما دیتا ہے۔

عفو درگزر اختیار کرنا متقین کا اوصاف میں سے ہے۔

بزرگان دین معاف کرنے کی خصلت سے مشرف تھے۔

حضور ﷺ نے فتح مکہ کے دن تمام کفار کو معاف فرما دیا تھا۔

اللہ مجھے اور آپ کو معاف کرنے والا بنا دے اللہ ہم تمام کو عفودر گزر کا پیکر بنائے اپنے حبیب ﷺ کے طفیل۔ آمین

خطا پر مؤاخذہ نہ کرنے کو عفو  کہتے ہیں۔

وَ لْیَعْفُوْا وَ لْیَصْفَحُوْاؕ-اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰهُ لَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۲۲) (پ 18، النور: 22) ترجمہ کنز الایمان: اور چاہئے کہ معاف کریں اور درگزر یں کیاتم اسے دوست نہیں رکھتے کہ اللہ تمہاری بخشش کرے اور اللہ بخشنے والامہربان ہے۔

پیاری اسلامی بہنو! معلوم ہوا! لوگوں کی غلطیوں سے درگزر کرنا رب کریم کو بہت محبوب ہے۔

عفو و درگزر سے متعلق احادیث مبارکہ:

1۔ تین باتیں جس شخص میں ہوں گی اللہ کریم(قیامت کے دن)اس کا حساب بہت آسان طریقے سے لے گا اور اس کو اپنی رحمت سے جنت میں داخل فرمائے گا۔ صحابہ کرام نے عرض کی: یارسول الله ﷺ! وہ کون سی باتیں ہیں؟ فرمایا: (1) جو تمہیں محروم کرے تم اسے عطا کرو، (2) جو تم سے تعلق توڑے تم اس سے تعلق جوڑو اور (3) جو تم پر ظلم کرے تم اس کو معاف کردو۔ (معجم اوسط، 4/18، حدیث: 5064)

2۔ قیامت کے روز اعلان کیا جائے گا: جس کااجر اللہ پاک کے ذمہ کرم پر ہے، وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہو جائے۔ پوچھا جائے گا: کس کے لیے اجر ہے؟ اعلان کرنے والا کہے گا: ان لوگوں کے لیے جو معاف کرنے والے ہیں۔ تو ہزاروں آدمی کھڑے ہوں گے اور بلا حساب جنت میں داخل ہو جائیں گے۔ (معجم اوسط، 1/542، حدیث: 1998)

3۔جو کسی مسلمان کی غلطی کو معاف کرے گا قیامت کے دن اللہ پاک اس کی غلطی کو معاف فرمائے گا۔ (ابن ماجہ، 3/36،حديث:2199)

4۔ ایک شخص بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا اور عرض کی: یار سول الله ﷺ! ہم خادم کو کتنی بار معاف کریں؟ آپ خاموش رہے۔ اس نے پھر وہی سوال دہرایا، پھر خاموش رہے، جب تیسری بار سوال کیا تو ارشاد فرمایا: روزانہ ستّر بار۔ (ترمذی، 3/ 381، حدیث: 1956)

5۔ رحم کیا کرو تم پر رحم کیا جائے گا معاف کرنا اختیار کرو اللہ پاک تمہیں معاف فرما دے گا۔(مسند امام احمد، 2/682، حدیث: 7062)

ہم نے آیت مبارکہ اور احادیث مبارکہ میں عفو درگزر کے فضائل سنے اللہ پاک ہمیں عمل کی تو فیق مرحمت فرمائے۔ آمین

عفو کا معنی یہ ہے کہ آدمی اپنا حق چھوڑ دے اور بالکل بری الذمہ ہو جائے مثلا قصاص یا تاوان وغیرہ نہ لے عفو کا معنی معاف کرنے بردباری اور غصہ پی جانے کے علاوہ ایک الگ خوبی ہے۔

خُذِ الْعَفْوَ وَ اْمُرْ بِالْعُرْفِ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِیْنَ(۱۹۹) (پ 9، الاعراف: 199) ترجمہ کنز الایمان: اے محبوب! معاف کرنا اختیار کرو اور بھلائی کا حکم دو اور جاہلوں سے منہ پھیر لو۔

احادیث مبارکہ:

حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جسے یہ پسند ہو کہ اس کے لئے جنت میں محل بنایا جائے اور اس کے درجات بلند کئے جائیں تو اسے چاہئے کہ جو اس پر ظلم کرے یہ اسے معاف کرے اور جو اسے محروم کرے یہ اسے عطا کرے اور جو اس سے قطع تعلق کرے یہ اس سے ناطہ جوڑے۔ (مستدرک، 3/12، حدیث: 3215)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا جب لوگ حساب کے لئے ٹھہرے ہوں گے تو اس وقت ایک منادی یہ اعلان کرنے گا جس کا اجر الله کے ذمہ کرم پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہو جائے پھر دوبارہ اعلان کرے گا کہ جس کی اجر اللہ کے ذمہ کرم پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہو جائے پوچھا جائے گا کہ وہ کون ہے جس کا اجر اللہ تعالی کے ذمہ کرم پر ہے منادی کہے گا ان کا جو لوگوں کو معاف کرنے والے ہیں پھر تیسری بار منادی اعلان کرے گئے جس کا اجر اللہ تعالی کے ذمہ کرم پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہو جائے تو ہزاروں آدمی کھڑے ہوں گے اور بلا حساب جنت میں داخل ہو جائیں گے۔ (معجم الاوسط، 1/ 542، حدیث: 1998)

عفوو درگزر کے عظیم واقعات:

حضرت انس رضی اللہ علیہ فرماتے ہیں میں نبی ﷺ کے ہمراہ چل رہا تھا اور آپ ایک نجرانی چادر اوڑھے ہوئے تھے جس کے کنارے موٹے اور کھردرے تھے اچانک ایک دیہاتی نے آپ کی چادر پکڑ کر اتنے زبردست جھٹکے سے کھینچا کہ کہ آپ کی مبارک گردن پر خراش آگئی وہ کہنے لگا اللہ تعالیٰ کا جو مال آپ کے پاس ہے آپ حکم فرمائیں کہ اس میں سے کچھ مجھے مل جائے حضور ﷺ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور مسکرائے دیئے پھر اسے کچھ مال عطا فرمانے ہے کا حکم دیا۔ (بخاری، 2/359، حدیث: 3149)

جنگ احد کے موقع پر عتبہ بن ابی وقاص نے آپ ﷺ کے مبارک دندان اقدس کو شہید کر دیا اور عبد الله بن قمیہ نے چہرہ اقدس کو زحمی اور خون سے آلودہ کر دیا مگر پیار ے ﷺ نے ان لوگوں کے لئے اس کے سوا کچھ نہ فرمایا کہ اے اللہ میری قوم کو ہدایت دے کیونکہ یہ لوگ مجھے نہیں جانتے ہیں۔ (شفاء، 1/105)

رسول اکرم کی پوری زندگی عفو و درگزر سے عبادت تھی آپ کے بے مثال عفو و درگزر کا واقعہ ملاحظہ ہو چنانچہ تاجدار رسالت ﷺ کی شہزادی حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو ان کے شوہر ابو العاص نے غزوہ بدر کے بعد مدینہ منورہ کے لئے روانہ کیا جب قریش مکہ کو ان کی روانگی کا علم ہوا تو انہوں نے حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا پیچھا کیا حتی کہ مقام ذی طوی میں انہیں پالیا۔ھبار بن الاسود نے زینب کو نیزہ مارا جس کی وجہ سے آپ اونٹ سے گر گئیں اور آپ کا حمل ساقط ہو گیا

لیکن پیارے آقا ﷺ کے عفو و درگزر پر قربان جائیے میرے آقا نے اتنی بڑی اذیت پر پھر بھی ہبار بن الاسود کو معاف کرتے ہوئے دولت ایمان سے نوازا۔

ام المؤمنین حضرت صفیہ کا عفو و درگزر: ام المومنین حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کی عفوو درگزر کی صفت بہت نمایاں تھی دوسروں کی خطاؤں پر چشم پوشی کرنا اور معاف کرنا آپ کے اخلاق کا ایک درخشاں پہلو تھا چنانچہ ایک دفعہ آپ کی باندی نے امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس آکر حضرت صفیہ کے بارے میں کوئی جھوٹی بات کہی بعد میں انہیں اس کا علم ہوا تو اس باندی سے پوچھا تمہیں ایسا کرنے پر کس نے ابھارا؟ کہنے لگی شیطان نے اس پر آپ نے عفو و در گزر کی قابل تقلید مثال قائم کی اور فرمایا جاؤ تم آزاد ہو۔ (الاصابۃ، 8/233)

اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں ان پاک ہستیوں کی تقلید کرنے توفیق عطا فرمائے اور عفو و درگزر کی عادت اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین