عفو و درگزر انسانی زندگی کا وہ حسن ہے جو انسان کے کردار میں وسعت ونکھار پیدا کرتا ہے۔ یہ وہ لطافت و رحمت کا راستہ ہے جو ہمیں ہر قسم کے نقصان سے دور رکھتا ہے اور ہر طرح کی حیوانیت اور بد اخلاقی سے محفوظ رکھنے کا باعث ہے۔ عفو و درگزر جیسی عظیم صفت اپنانے کے لیے سب سے پہلے اس کی تعریف کو مدنظر رکھنا ضروری ہے آئیے سب سے پہلے جانتے ہیں کہ عفو و درگزر کیا ہے۔

عفو عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں معاف کر دینا،بخش دینا،درگزر کرنا،بدلہ لینے کی طاقت ہونے کے باوجود معاف کر دینا۔

تاجدار رسالت ﷺ نے ارشاد فرمایا: حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بارگاہ الہٰی میں عرض کیاے میرے رب !تیرا کون سا بندا تیرے نزدیک ذیادہ عزت والا ہے ارشاد فرمایاجو قدرت ہونے کے باوجود معاف کر دے۔ (شعب الایمان، 6/ 319، حدیث: 8327)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے سرکار ﷺ نے ارشاد فرمایا: بہادر وہ نہیں جو پہلوان ہو اور دوسرے کو پچھاڑ دے بلکہ بہادر وہ ہے جو غصہ کے وقت خود کو قابو میں رکھے۔ (بخاری، 4/135، حدیث: 6114)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ تاجدار رسالت ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک کی خوشنودی کے لیے بندے نے غصے کا گھونٹ پیا، اس سے بڑھ کر اللہ کے نزدیک کوئی گھونٹ نہیں۔ (شعب الایمان، 6/314، حدیث: 8307)

آپ ﷺ نے جہاں عفو و درگزر کو اپنانے کا درس دیا وہیں اس کی عملی مثالیں بھی قائم فرمائی۔ اس ضمن میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں نے کبھی بھی آپ ﷺ کو اپنی ذات پر کیے گئے ظلم کا بدلہ لیتے ہوئے نہیں دیکھا، جب تک اللہ پاک کی مقرر کردہ حدود کو نہ توڑا جاءے اور جب اللہ پاک کی مقرر کردہ حدود میں سے کسی حد کو توڑا جاتا تو آپ شدید غضب ناک ہو جاتے اور جب آپ ﷺ کو دو چیزوں میں اختیار دیا جاتا تو آسان کو اختیار فرماتے بشرطیکہ وہ گناہ نہ ہو۔ (شمائل محمدیہ للترمذی، ص 198، حدیث: 2032)

اللہ پاک کے نیک بندوں کی ایمانی حالت یہ ہوا کرتی تھی کہ قرآن وسنت کے احکامات کو دنیا کی تمام چیزوں سے مقدم رکھتے اور ان پر عمل پیرا ہوتے تھے اللہ پاک ہمیں اپنے ان نیک بندوں کے صدقے عفو و درگزر اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین