بےشک دنیا کی
زندگی فانی (مٹ جانے والی) ہے ۔ دنیا کی تمام چیزیں دنیا میں ہی رہ جانی ہیں اور
صرف اعمال نے ہی آگے جانا ہے۔ قرآن مجید فرقان حمید میں دنیا کی زندگی کی کئی مثالیں
بیان کی گئی ہے تاکہ انسان دنیا کی زندگی کی رونقوں کے سبب اللہ عزوجل اور اس کی
عبادت سے غافل نہ ہوجائے کیونکہ ہماری زندگی کا مقصد اللہ عزوجل کی عبادت اور اس کی
اور اس کے رسول کی اطاعت ہے۔ دنیاوی زندگی کے بارے میں قرآن میں دی گئی مثالیں
مندرجہ ذیل ہیں :
دنیا کی زندگی کی مثال ایسے ہے جیسے پانی: اللہ پاک قرآن مجید فرقان حمید میں دنیا کی زندگی
کے بارے میں فرماتا ہے :
وَ اضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا كَمَآءٍ اَنْزَلْنٰهُ
مِنَ السَّمَآءِ فَاخْتَلَطَ بِهٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ فَاَصْبَحَ هَشِیْمًا
تَذْرُوْهُ الرِّیٰحُؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ مُّقْتَدِرًا(۴۵) ترجمہ کنزالعرفان: اور ان کے سامنے بیان کرو کہ دنیا کی زندگی
کی مثال ایسی ہے جیسے ایک پانی ہو جسے ہم نے آسمان سے اتارا تو اس کے سبب زمین کا
سبزہ گھنا ہوکر نکلا پھروہ سوکھی گھاس بن گیا جسے ہوائیں اڑاتی پھرتی ہیں اور اللہ
ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ (سورہ کہف، پارہ18 آیت 45)
اس آیت میں دُنْیَوی زندگی کے قابلِ فنا ہونے
اور قیامت کے حساب کتاب کے بارے میں سمجھایا گیا ہے ، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اے
حبیب! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم لوگوں
کے سامنے دنیا کی حقیقت بیان کرو اور اس کے سمجھانے کیلئے اس مثال کا سہارا لو کہ
دنیوی زندگی کی مثال ایسی ہے جیسے زمین کی ہریالی اور سرسبزی و شادابی، جو ہمارے
نازل کئے ہوئے پانی کے سبب زمین سے نکلی ہو اور اس پانی کی وجہ سے زمین پر وہ
شادابی اور تازگی پھیل جائے لیکن پھر کچھ ہی عرصے کے بعد وہ سبزہ فنا کے گھاٹ اتر
جاتا ہے اور سوکھی ہوئی گھاس میں تبدیل ہوجاتا ہے جسے ہوائیں اِدھر سے اُدھر اڑائے
پھرتی ہیں اور اس کی کوئی قدر و قیمت باقی نہیں رہتی ۔ فرمایا کہ دنیاوی زندگی کی
مثال بھی ایسے ہی ہے کہ جس طرح سبزہ خوشنما ہونے کے بعد فنا ہوجاتا ہے اور اس کا
نام و نشان باقی نہیں رہتا، یہی حالت دنیا کی بے اعتبار حیات کی ہے اس پر مغرور و
شیدا ہونا عقل مند کا کام نہیں اور یہ سب فنا و بقا اللّٰہ کی قدرت سے ہے۔( روح
البیان، الکھف، تحت الآیۃ: ۴۵، ۵ / ۲۴۹-۲۵۰، مدارک، الکھف، تحت الآیۃ: ۴۵، ص۶۵۳،
ملتقطاً)
دنیا
کی زندگی جیسے کھیل کود: اِعْلَمُوْۤا اَنَّمَا الْحَیٰوةُ
الدُّنْیَا لَعِبٌ وَّ لَهْوٌ وَّ زِیْنَةٌ وَّ تَفَاخُرٌۢ بَیْنَكُمْ وَ
تَكَاثُرٌ فِی الْاَمْوَالِ وَ الْاَوْلَادِؕ-كَمَثَلِ غَیْثٍ اَعْجَبَ
الْكُفَّارَ نَبَاتُهٗ ثُمَّ یَهِیْجُ فَتَرٰىهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ یَكُوْنُ
حُطَامًاؕ-وَ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ شَدِیْدٌۙ-وَّ مَغْفِرَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ
رِضْوَانٌؕ-وَ مَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ(۲۰) ترجمہ کنزالعرفان: جان لو کہ
دنیا کی زندگی توصرف کھیل کود اورزینت اور آپس میں فخرو غرور کرنا اور مالوں اور اولاد میں ایک دوسرے پر زیادتی
چاہنا ہے ۔(دنیا کی زندگی ایسے ہے)جیسے وہ بارش جس کا اُگایاہواسبزہ کسانوں
کواچھا لگا پھر وہ سبزہ سوکھ جاتا ہے تو تم اسے زرد دیکھتے ہو پھر وہ پامال کیا
ہوا (بے کار)ہوجاتا ہے اور آخرت میں سخت عذاب ہے اور اللہ کی طرف سے بخشش اور
اس کی رضا(بھی ہے) اور دنیاکی زندگی تو صرف دھوکے کاسامان ہے۔ (پ27، الحدید: 20)
اس آیت کے تحت
تفسیر صراط الجنان میں ایک حدیث مذکور ہے جو مندرجہ ذیل ہے : حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ
اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ دنیا ملعون ہے اور اس کی ہر چیز بھی ملعون
ہے البتہ دنیا میں سے جو اللہ تعالیٰ کے لئے ہے وہ ملعون نہیں ۔( کنز العمال، کتاب
الاخلاق، قسم الاقوال، حرف الزای الزہد، ۲ / ۷۷،
الجزء الثالث، الحدیث: ۶۰۸۰)
دنیا
کی زندگی کی کہاوت : اِنَّمَا
مَثَلُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا كَمَآءٍ اَنْزَلْنٰهُ مِنَ السَّمَآءِ فَاخْتَلَطَ
بِهٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ مِمَّا یَاْكُلُ النَّاسُ وَ الْاَنْعَامُؕ-حَتّٰۤى اِذَاۤ
اَخَذَتِ الْاَرْضُ زُخْرُفَهَا وَ ازَّیَّنَتْ وَ ظَنَّ اَهْلُهَاۤ اَنَّهُمْ
قٰدِرُوْنَ عَلَیْهَاۤۙ-اَتٰىهَاۤ اَمْرُنَا لَیْلًا اَوْ نَهَارًا فَجَعَلْنٰهَا
حَصِیْدًا كَاَنْ لَّمْ تَغْنَ بِالْاَمْسِؕ-كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ
لِقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ(۲۴) ترجمہ کنزالعرفان:
دنیا
کی زندگی کی کہاوت تو ایسی ہی ہے جیسے وہ پانی کہ ہم نے آسمان سے اتارا تو اس کے سبب زمین سے اگنے
والی چیزیں گھنی (زیادہ )ہوکر نکلیں جو کچھ آدمی اور چوپائے کھاتے ہیں یہاں تک کہ
جب زمین نے اپنا سنگار لے لیا اور خوب آراستہ ہوگئی اور اس کے مالک سمجھے کہ یہ ہمارے
بس میں آگئی ہمارا حکم اس پر آیا رات میں یا دن میں تو ہم نے اسے کردیا کاٹی ہوئی
گویا کل تھی ہی نہیں ہم یونہی آیتیں مُفَصَّل بیان کرتے ہیں غور کرنے والوں کے لیے۔
(سورہ یونس پارہ ١١ آیت ٢٤)
اس آیت میں
بہت بہترین طریقے سے دل میں یہ بات بٹھائی گئی ہے کہ دنیوی زندگانی امیدوں کا سبز
باغ ہے، اس میں عمر کھو کر جب آدمی اس مقام پر پہنچتا ہے جہاں اس کو مراد حاصل
ہونے کا اطمینان ہوتا ہے اور وہ کامیابی کے نشے میں مست ہو جاتا ہے تو اچانک اس کو
موت آ پہنچتی ہے اور وہ تمام نعمتوں اور لذتوں سے محروم ہوجاتا ہے۔
حضرت قتادہ رضی
اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ دنیا کا طلب گار جب بالکل بے فکر ہوتا ہے اس وقت اس پر
عذابِ الٰہی آتا ہے اور اس کا تمام سازو سامان جس سے اس کی امیدیں وابستہ تھیں
غارت ہوجاتا ہے۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۲۴، ۲ / ۳۱۰، ملخصاً)
ہمیں ان آیات
سے معلوم ہوا کہ دنیا کی زندگی فانی ہے اور ابدی زندگی صرف آخرت کی زندگی ہے۔ ہمیں
ایسے اعمال کرنے چاہیے جس سے ہماری آخرت بہتر ہو ۔
اللہ تعالی ہمیں آخرت کو بہتر بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین