فرمانِ مصطفے صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم :جو قبرستان میں گیارہ بار سورۂ اخلاص پڑھ کر مُردوں کو ایصالِ ثواب کرے گا تو مُردوں کی تعداد کے برابر ایصالِ ثواب کرنے والے کو اس کا اجر ملے گا۔ (جمع الجوامع للسیوطی،۷/285، حدیث:23152)

صرف ایک بار درود شریف پڑھ کر بھی ایصالِ ثواب کیا جا سکتا ہے۔ اگر آپ نے گھر میں کچھ نیازبنائی ہے تو اُسے سامنے رکھ کر دونوں ہاتھ بُلند کر کے 1 بار درود شریف 1 بار سورۂ فاتحہ3 بار سورۂ اخلاص پڑھ کر بھی ایصالِ ثواب کیا جاتا ہے۔لازمی نہی کہ کُچھ مخصوص نیاز کا اہتمام کیا جائے،بلکہ اگر گھر میں کچھ اپنے کھانے کے لیے بھی بنایا ہے تو اُ س پر بھی ایصالِ ثواب کیا جا سکتا ہے۔اگر کچھ بھی نہی بنا ہوا تب بھی ہم سورتیں ، سپارے،کلمہ، درود شریف وغیرہ پڑھ کر ایصال ِثواب کر سکتی ہیں۔

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا ایصالِ ثواب کا طریقہ

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ 1بار بسمہ اللہ،سورۂ فاتحہ،آیۃ الکُرسی اور تین بار سورۂ اخلاص پڑھ کر ایصالِ ثواب کیا کرتے تھے۔

ایصالِ ثواب کے لیے دل میں نیت کر لینا کافی ہے۔ مثلاً آپ نے کسی کو ایک روپیہ خیرات دیا، ایک بار درود شریف پڑھا یا کسی کو ایک سُنت بتائی یاکسی پر انفرادی کوشش کرتے ہوے نیکی کی دعوت دی یا سُنتوں بھرا اجتماع کیا۔ الغرض کوئی بھی نیک کام کیا ،آپ دل ہی دل اس طرح نیت کر لیجئے مثلاًابھی میں نے جو سُنت بتائی اس کا ثواب سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو پہنچے ان شآءاللہ ثواب پہنچ جاے گا۔ مزید جن جن کی نیت کریں گی اُن کو بھی پہنچ جائے گا۔دل میں نیت ہونے کے ساتھ ساتھ زبان سے بھی کہ لینااچھا ہے۔ایصالِ ثواب صحابی رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے۔ جیسا کہ حدیثِ سعد میں ہے کہ اُنہوں نے کنواں کھدوا کر فرمایا:ھٰذِہٖ لِاُمِّ سَعْد یعنی یہ اُمِّ سعد کے لیے ہے۔


پیاری اسلامی بہنو! مرنے کے بعد ایک مسلمان کےلیے سب سے بڑا تحفہ ایصالِ ثواب ہوتا ہے ۔ایصالِ ثواب کے لفظی معنیٰ ہیں : ’’ثواب پہچانا“اِ س کو’’ثواب بخشنا‘‘بھی کہتے ہیں مگر بُزرگوں کیلئے ’’ثواب بخشنا‘‘کہنا مُناسِب نہیں ،’’ثواب نَذر کرنا‘‘کہنا ادب کے زیادہ قریب ہے۔ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: حُضُورِاقدس صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم خواہ اورنبی یاولی کو ’’ثواب بخشنا ‘‘کہنابے ادَبی ہے کہ بخشنابڑے کی طرف سے چھوٹے کوہوتاہے لہٰذا نَذر کرنایاہدِیَّہ کرناکہے ۔

ایصالِ ثواب کے 5 طریقے درج ذیل ہیں :

1. ’’ایصالِ ثواب ‘‘کوئی مشکل کام نہیں! صرف اتنا کہہ دینا یا دل میں نیّت کر لینا بھی کافی ہے کہ مَثَلاً یا اللہ پاک! میں نے جو قرآنِ پاک پڑھا (یا فُلاں فُلاں عمل کیا ) اس کا ثواب میری والِدہ ٔ مرحومہ کو پہنچا۔‘‘ اِن شآءاللہ ثواب پہنچ جائے گا۔ مزید جن جن کی نیت کریں گی ان کو بھی پہنچے گا، دل میں نیت ہونے کے ساتھ ساتھ زبان سے کہہ لینا سنت ِصحابہ ہے جیسا کہ حدیث ِسعد میں آیا کہ انہوں نے کنواں کھدواکر فرمایا: ’’یہ اُمِّ سعد کیلئے ہے۔‘‘

2. اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ ایصالِ ثواب کےلیے یہ سورَتیں وغیرہ پڑھتے تھے:ایک بارسورۂ فاتحہ،ایک بارآیۃ الکرسی،تین بارسورۂ اخلاص ۔اس کے بعد آپ اس کا ثواب جن جن کو پہنچانا چاہتی ہیں ان کو پہنچا دیجیے ۔

3. مرنے سے تیسرے دن بعد قرآن خوانی اور کلمہ طیبہ پڑھا جاتا ہے اور کچھ بتاشے یا چنے یا مٹھائیاں تقسیم کی جاتی ہیں اور ان کا ثواب میت کی روح کو پہنچایا جاتا ہے ۔مرنے کے چالیسویں دن بعد ہی کچھ کھانا پکوا کر فقراو مساکین کو کھلایا جاتا ہے اور قرآن خوانی بھی کی جاتی ہے اور اس کا ثواب میت کی روح کو پہنچایا جاتا ہے اسی طرح ایک برس پورا ہو جانے کے بعد بھی کھانوں اور تلاوت وغیرہ کا ثواب میت کو کیا جاتا ہے یہ بھی ایصالِ ثواب کا طریقہ ہے ۔یہ سب جائز اور ثواب کے کام ہیں لہٰذا ان کو کرتے رہنا چاہے۔

4. شبِ برأ ت میں حلوہ پکایا جاتا ہے اور اس پر فاتحہ دلائی جاتی ہے۔ حلوہ پکانا بھی جائز ہے اور اس پر فاتحہ دلانا ایصالِ ثواب میں داخل ہے لہٰذا یہ بھی جائز ہے۔ مسجِد یا مدرَسے کا قِیام بھی ایصالِ ثواب کا بہترین ذَرِیعہ ہے۔

5. اپنے مرحوم عزیزوں کو ثواب پہنچانے کی نیت سے تقسیمِ رسائل كے اسٹال لگوانا، فیضانِ سُنّت،نَماز كے اَحكام اور مکتبۃ المدینہ کی دیگر چھوٹی بڑی دینی كتابیں،رسالے اور پمفلٹ وغیرہ تقسیم كرنا بھی ایصالِ ثواب کی صورت ہے ۔

یاد رہے !ایصالِ ثواب صِرْف مسلمان کو کرسکتے ہیں ،جتنوں کو بھی ایصالِ ثواب کر یں اللہ پاک کی رَحْمت سے اُمّید ہے کہ سب کو پورا ملے گا ، یہ نہیں کہ ثواب تقسیم ہوکر ٹکرے ٹکرے ملے۔ایصالِ ثواب کرنے والے کے ثواب میں کوئی کمی واقِع نہیں ہوتی بلکہ اُمّید ہے کہ اُس نے جتنوں کو ایصالِ ثواب کیا اُن سب کے مجموعے کے برابر اِس (ایصالِ ثواب کرنے والی) کو ثواب ملے۔

ثواب اعمال کا میرے تو پہنچا ساری اُمّت کو مجھے بھی بخش یا رب بخش اُن کی پیا ری اُمّت کو


پارہ 28،  سورۂ حشر کی آیت نمبر 10 میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ الَّذِیْنَ جَآءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ۔ترجمۂ کنزالایمان:اور وہ جو ان کے بعد آئے،عرض کرتے ہیں،اے ہمارے ربّ ہمیں بخش دے اور ہمارے بھائیوں کو جو ہم سے پہلے ایمان لائے۔

مشہور مفسرِ قرآن مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:یہاں سے دو مسئلے معلوم ہوئے:ایک یہ کہ صرف اپنے لئے دعا نہ کرے، بزرگوں کے لئے بھی کرے۔دوسرا یہ کہ بزرگانِ دین(رحمۃ اللہ علیہم) خصوصاً صحابۂ کرام و اہلِ بیت علیہم الرضوانکے عُرس، ختم و نیاز فاتحہ وغیرہ یہ اعلیٰ چیزیں ہیں کہ ان میں بزرگوں کے لئے دعا ہے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:ایک شخص آیا اور کہنے لگا:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ! میری ماں کا اچانک انتقال ہو گیا ہے اور وہ کسی بات کی وصیت نہ کرسکیں،میرا گمان ہے کہ انتقال کے وقت اگر انہیں کچھ کہنے سننے کا موقع ملتا تو ضرور صدقہ دیتیں۔ اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کر وں تو کیا ان کی روح کو ثواب پہنچے گا؟ تو حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:ہاں پہنچے گا۔

ایصالِ ثواب کے لئے دل میں نیت کر لینا کافی ہے، مثلاً ایک روپیہ میری طرف سے صدقہ یا دُرود پاک پڑھا یا کسی کو ایک سنت بتائی، کسی پر انفرادی کوشش کرتے ہوئے نیکی کی دعوت دی،الغرض کوئی بھی نیک کام کیا،آپ دل ہی دل میں اس طرح نیت کر لیں، مثلاً ابھی میں نے جو سنت بتائی ہے، اس کا ثواب سرکار علیہ السلام کو پہنچے،ان شآءاللہ ثواب وہاں پہنچ جائے گا،مزید جن جن کی نیت کریں گی، ان کو بھی پہنچ جائے گا، دل میں نیت ہونے کے ساتھ ساتھ زبان سے کہہ لینا بھی اچھا ہے کہ یہ صحابہ رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے، جیسا کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے کنواں کھُدوا کر فرمایا:ہٰذِہٖ لِاُمِّ سَعْدْ یہ اُمِّ سعد کے لئے ہے۔

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے جو فاتحہ کا طریقہ مذکور ہے، وہ یہ ہے کہ آپ فاتحہ سے قبل یہ سورتیں پڑھتے تھے:ایک بار سورۂ فاتحہ، ایک بار آیۃ الکرسی اور تین بار سورۂ اخلاص ۔

فرمانِ مصطفے صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم :جو قبرستان میں گیارہ بار سورۂ اخلاص پڑھ کر مُردوں کو اس کا ایصالِ ثواب کرے تو مردوں کی تعداد کے برابر ایصالِ ثواب کرنے والے کو اس کا اجر ملے گا۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے عمل ختم ہو جاتے ہیں، مگر تین چیزیں کہ مرنے کے بعد ان کے ثواب اعمال نامے میں درج ہوتے رہتے ہیں:1۔صدقۂ جاریہ مثلاً مسجد بنا دی یا مدرسہ بنایا تو ثواب برابر ملتا رہے گا۔2۔وہ علم جس سے اُس کے مرنے کے بعد لوگوں کو نفع پہنچتا رہے۔3۔نیک اولاد چھوڑ جائے، جو مرنے کے بعد اپنے والدین کے لئے دعا کرتی رہے۔( مسلم ، 3/1255)

کھانے کے علاوہ آپ مدرسے میں پڑھنے والے کسی بچے کا سالانہ خرچ دے دیں، مثلاًایصالِ ثواب میں بیس ہزار خرچ ہو سکتے ہیں تو آپ یہ بیس ہزار روپے مدرسے کے چار بچوں کے اخراجات کی مد میں دے دیں، ایک بچے پرپانچ ہزار روپے خرچ ہوں گے، یہ رقم ان کے سالانہ خرچ اور کتابوں کے لئے کافی ہوجائےگی،آپ کے اس عمل سے میّت کو بہت فائدہ ہوگا اور جب تک وہ بچے دینی تعلیم حاصل کرتے رہیں گے میت کو بھی ثواب پہنچتا رہے گا۔غریب گھرانوں میں لڑکیوں کی شادی پیسوں کی وجہ سے نہیں ہوپاتی،ایصالِ ثواب کے نام پر کسی غریب بچی کی شادی کا خرچہ اُٹھا لیں،یہ بہت اچھا ایصالِ ثواب ہے،نیز لڑکی کے گھر والے خرچہ اُٹھانے والے کو زندگی بھر دعائیں بھی دیں گے ۔


ایصالِ ثواب کے پانچ طریقے

ایصالِ ثواب کرنا مستحب عمل ہے کیا تو ثواب نہ کیا تو گناہ نہیں۔یہ عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی طرف سے اجازت شدہ ہے۔سرکارِ نامدار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان ِعالیشان ہے:مردے کا حال قبر میں ڈوبتے ہوئے انسان کی مانند ہے کہ وہ شدت سے انتظار کرتا ہے کہ ماں یا باپ یا کسی دوست کی دعا اسے پہنچے اور جب کسی کی دعا اسے پہنچتی ہے تو اس کے نزدیک دنیا اور اس میں جو کچھ بھی ہے سب سے بہتر ہوتی ہے۔ اللہ پاک قبر والوں کو ان کے زندہ متعلقین کی طرف سے ہدیہ کیا ہوا ثواب پہاڑوں کی مانند عطا فرماتا ہے۔ زندوں کا ہدیہ(تحفہ)مردوں کے لئے دعائے مغفرت کرتا ہے۔(شعب الاایمان ،جلد:2 حدیث)

1)ہر جائز چیز سے ایصال ِثواب کیا جا سکتا ہے جیسے نماز،تلاوتِ قرآن پاک پڑھ کر ثواب نظر کرنا،حج،عمرہ کرکے اس کا ثواب مرحومین کو بخشنا،لازمی طور پہ محفل منعقد کرنا،ذکرو درودو پاک پڑھ کر ایصالِ ثواب وغیرہ کرنا۔

قرآنِ کریم میں ارشادِ ربانی ہے:اور وہ جو ان کے بعد آئے عرض کرتے ہیں:اے ہمارے رب ہمیں بخش دے اور ہمارے بھائیوں کو جو ہم سے پہلے ایمان لائے۔( لحشر : 10)اس آیت سے معلوم ہوا : اگر وصال کرکے لوگوں کو زندوں سے کوئی نفع نہ پہنچتا تو قرآن اس کو ہر گز بیان نہ فرماتا۔

2)مسجد مدارس میں چندہ دےکر

یا دوسری ضروریات کی چیزوں سے ثواب نظر کیا جا سکتا ہے۔

(3اسی طرح دینی کتاب تقسیم کرنا، مسجد میں قرآنِ مقدس کی تعلیم دینا، تسبیح،قرآن خوانی یا دوسرے اخراجات میں رقم دینا بھی نیتِ ایصالِ ثواب میں شامل ہے۔

(4تیجہ،دسواں،چالیسواں،بزرگانِ دین کے عروس یہ تمام چیزیں بھی ایصالِ ثواب میں شامل ہیں۔

5)اگر کوئی شخص نفل خیرات کرے تو اسے چاہیے کہ اپنے(مرحومین)کی طرف سے خیرات کرے کہ اس کا ثواب انہیں ملے گا اور اس کے یعنی(خیرات کرنے والے کے)ثواب میں کوئی کمی بھی نہیں آئے گی۔

جن کے والدین یا ان میں سے کوئی ایک یا بھائی بہن جو کوئی بھی فوت ہوگیا تو ان کو چاہیے کہ ان کی طرف سے غفلت نہ کریں،ان کی قبروں پر حاضری بھی دیتے رہیں اور ان کے لئے ایصالِ ثواب بھی کرتے رہیں البتہ خواتین قبرستان نہیں جاسکتیں وہ گھر میں ہی رہتے ہوئے ایصالِ ثواب کا اہتمام کریں۔اللہ پاک تمام مومنین کی مغفرت فرمائے اور ہمیں ان کے لئے دعائے مغفرت کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین


1۔مدارس و جامعات حفاظِ کرام اور علما و مفتیانِ عُظام اُمّت کو مہیّا کررہے ہیں،  لہٰذا ایصالِ ثواب کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ مدارس و جامعات کی تعمیر و ترقی میں حصّہ لیا جائے۔عوامِ اہلسنت کو چاہیے کہ تیجے،چہلم،برسی اور اس طرح کے دیگرمواقع پر مدارس و جامعات میں قرآن خوانی کا سلسلہ کروائیں اور جو نذر و نیاز کا اہتمام کریں وہ ان راہِ علم کے مسافروں کو پیش کریں،نیز اپنے مرحومین کے ایصالِ ثواب کیلئے کم از کم ایک طالبِ علم sponsor کرلیں۔

2۔آج کے اس پُرفتن دور میں جہاں مسلمان عقائد،ضروریاتِ دین اور فرائض سے ہی ناآشنا ہے، دینی کتب و رسائل تقسیم کرکے ترویجِ دین ایصالِ ثواب کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔الحمدللہ مکتبۃ المدینہ نے علمی و اصلاحی موضوعات پر عام فہم زبان میں بہترین کتب و رسائل شائع کئے ہیں، ہر ماہ کم از کم بارہ رسائل تقسیم کرنے کا معمول بنالیں۔

3۔پانی الله پاک کی ایک لازوال اور عظیم نعمت ہے،اس کے بغیر انسان کا زندہ رہنا ممکن نہیں۔ وطنِ عزیز میں تھر،تھل اور ایسے علاقے جہاں پانی کی کمی ہو،وہاں واٹر پمپ لگوانا بھی ایصالِ ثواب کا بہترین طریقہ ہے اور احادیثِ مبارکہ سے بھی ثابت ہے کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے اپنی والدہ کے ایصالِ ثواب کیلئے کنواں کُھدوایا۔

4۔اسلامی بھائیوں کا غریب ضرورت مند مسلمان بھائیوں کو کوئی ہنر سکھانا یا ان کیلئے کاروبار کا کوئی ذریعہ بنادینا،تاکہ وہ رزقِ حلال کما سکیں، یہ بھی ایصالِ ثواب کا ایک طریقہ ہے۔

5۔قرآن خوانی، دُرود خوانی ، اپنی اصلاح کیلئے ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماعات اوربذریعہ مدنی چینل مدنی مذاکروں میں شرکت کرنا اور مدنی چینل دیکھنا ان سب امور کا ایصالِ ثواب ہوسکتا ہے۔

ثواب اعمال کا میرے تو پُہنچا ساری اُمّت کو مجھے بھی بخش دے اور بخش ان کی پیاری اُمّت کو


مدینے کے تاجدار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ مغفرت نشان ہے:میری اُمت گناہ سمیت قبر میں داخل ہوگی اور جب وہ نکلے گی تو بے گناہ ہوگی،کیونکہ وہ مؤمنین کی دعاؤں سے بخش دی جاتی ہے۔( مدنی پنج سورہ ، بحوالہ معجم اوسط، 1/ 509، حدیث: 1879)

سرکارِ نامدار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ارشادِ مشکبار ہے:مُردے کا حال قبر میں ڈوبتے ہوئے انسان کی مانند ہے کہ وہ شدت سے انتظار کرتا ہے کہ باپ یا ماں یا بھائی یا کسی دوست کی دعا اس کو پہنچے اور جب کسی کی دعا اس کو پہنچتی ہے تو اس کے نزدیک وہ دنیاومافیہاسے بہتر ہوتی ہے ۔اللہ پاک قبر والوں کو ان کے زندہ متعلقین کی طرف سے ہدیہ کیا ہوا ثواب پہاڑوں کی مانند عطا فرماتا ہے،زندوں کا ہدیہ یعنی تحفہ مُردوں کیلئے دعائے مغفرت کرنا ہے۔( مدنی پنج سورہ، بحوالہ شعب الایمان، 4/ 203)

ان احادیثِ مبارکہ سے ایصالِ ثواب کی اہمیت و فضائل کا اندازہ ہوا کہ فوت شُدگان کو ایصالِ ثواب کرنا دُرست، جائز بلکہ بہت زیادہ ثواب کا کام ہوا، اس کی برکت سے میّت کے گناہ بھی معاف ہوتے ہیں، درجات بلند ہوتے ہیں اور خود ایصالِ ثواب کرنے والا بھی محروم نہیں رہتا ۔

مجمع الزوائدمیں ہے:جو کوئی تمام مومن مردوں اور عورتوں کیلئے دعائے مغفرت کرے،اللہ پاک اس کیلئے ہر مومن مرد و عورت کے عوض ایک نیکی لکھ دیتا ہے۔ (مجمع الزوائد، 10/ 352، حدیث: 17598)

ذیل میں ایصالِ ثواب کے پانچ طریقے بیان کئے جارہے ہیں:

فرض،واجب،سنت،نفل،نماز،روزہ،زکوٰۃ،حج،بیان، تلاوتِ قرآنِ پاک،اوراد و ظائف ذکر و اذکار،دینی کتب کا مطالعہ، نیکی کی دعوت الغرض ہر نیک کام کا ایصالِ ثواب کر سکتی ہیں۔

1۔ایصالِ ثواب کیلئے مسجد یا مدرسے کا قیام ایک بہترین عمل ہے اور ایصالِ ثواب کا بہترین ذریعہ ہے۔

2۔فقراکو کھانا کھلانا بھی ایصالِ ثواب کا ایک بہترین طریقہ ہے۔

3۔اسی طرح میّت کا تیجہ، دسواں اور چالیسواں اور برسی کرنا بھی اچھا ہے کہ یہ ایصالِ ثواب کے ہی ذرائع ہیں۔

٭تیجے وغیرہ کا کھانا صرف اسی صورت میں میّت کے چھوڑے ہوئے مال سے کر سکتی ہیں، جبکہ سارے وُرثا بالغ ہوں اور سب کے سب اجازت دیں، اگر ایک بھی وارث نابالغ ہے تو نہیں کرسکتے (نابالغ اجازت دے تب بھی نہیں کر سکتے) ، ہاں! بالغ اپنے حصّے سے کر سکتا ہے۔

٭ تیجے کا کھانا مالدار نہ کھائیں، صرف فقرا کو کھلایا جائے ۔

٭بزرگوں کی فاتحہ کے کھانے کو تعظیماً نذرونیاز کہتے ہیں، یہ نیاز تبرک ہے، اسے سب کھا سکتی ہیں۔

4۔پانی کا صدقہ

حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے عرض کی:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ! میری ماں انتقال کر گئی ہیں، میں ان کی طرف سے صدقہ کرنا چاہتا ہوں،کونسا صدقہ افضل رہے گا؟ سرکار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:پانی۔ چنانچہ انہوں نے ایک کنواں کُھدوایااور کہا:یہ اُمِّ سعد کے لئے ہے۔( ابو داؤد، 4/ 18)

فوت شدگان کی طرف سے حج یا عمرہ کرنا بھی ایصالِ ثواب کا ایک بہترین طریقہ ہے ۔فرمانِ مصطفے صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے:جو اپنے ماں یا باپ کی طرف سے حج کرے، ان کی (یعنی ماں باپ کی ) طرف سے حج ادا ہوجائے گا، اسے یعنی حج کرنے والے کو مزید دس حج کا ثواب ملے گا، اسی طرح ایصال ثواب کے اور بھی بہت سے ذرائع ہیں، جس طرح نوافل کا ایصالِ ثواب کرسکتی ہیں،محافل و ذکر ونعت، درو دِپاک، صدقہ و خیرات کا بھی ایصالِ ثواب کیا جا سکتا ہے ۔اللہ پاک ہمیں تمام مسلمانوں کو ایصالِ ثواب کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم


ایصالِ ثواب کی تعریف

اپنے کسی نیک عمل کا ثواب کسی دوسرے مسلمان کو پہنچانا” ایصالِ ثواب “کہلاتا ہے۔شریعتِ مطہرہ میں اپنے کسی بھی نیک عمل کا ثواب کسی فوت شدہ یا زندہ مسلمان کو ایصال کرنا جائز و مستحسن ہے۔(بنیادی عقائد اور معمولاتِ اہلسنت، صفحہ 95)

ایصالِ ثواب کے طریقے درج ذیل ہیں:

1۔ایصالِ ثواب کے رائج طریقوں میں سے ایک طریقہ یہ ہے کہ قرآنِ پاک پڑھ کر، کوئی سورت یا آیتِ کریمہ وغیرہ پڑھ کر اپنے فوت شدگان کو اس کا ثواب ایصال کر دیا جاتا ہے۔قل خوانی، سوئم، دسواں، چالیسواں، برسی ،عُرس اورمحفلِ نعت وغیرہ کی صورت میں یہ سلسلہ رہتا ہے۔

2۔لنگر، نذرونیاز کے ذریعے بھی ایصالِ ثواب کرنا ہمارے معاشرے میں عام رواج ہے۔عید میلاد النبی، چھٹی شریف، کونڈے، گیارہویں شریف، شبِ براءت، شبِ قدر، عاشورا کے دن،صحابۂ کرام علیہم الرضوان اور اولیائے کرام رحمۃ اللہ علیہم کے اعراس کے مواقع پر بھی نذر و نیاز کا خوب اہتمام کر کے ایصالِ ثواب بھی کیا جاتا ہے اور اس ضمن میں نفل روزے بھی رکھے جاتے ہیں۔

3۔اپنے مرحومین کے نام پر مدارس و جامعات اور مساجد کی تعمیرات کرواکر، کنواں کھدوا کر یا فلاحی ادارہ قائم کر کے بھی ایصالِ ثواب کیا جاتا ہے۔آج کل ایصالِ ثواب اور صدقۂ جاریہ کے لئے انسانیت کی خدمت اور موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے درخت بھی لگائے جا رہے ہیں جو ایک طرف ایصالِ ثواب کا ذریعہ اور دوسری طرف کثیر انسانوں اور دیگر مخلوقات کے لئے بھی خوشحالی اور بچاؤ کا ذریعہ ہے۔

4۔مرحومین کے ایصالِ ثواب کی نیت سے مساجد و مدارس میں نمازیوں کے لئے مصلّے اور دیگر استعمال ہونے والی اشیا دی جاتی ہیں۔ اسی طرح مختلف غمی و خوشی کے مواقع پر مکتبۃ المدینہ سے جاری کردہ رسائل بھی بہ نیتِ ایصالِ ثواب تقسیم کئے جاتے ہیں۔

5۔ایک عام مسلمان جو اپنے مرحومین کے لئے اور کچھ نہ کر سکے دعا ضرور کرتا ہے۔دعا بھی ایصالِ ثواب کی ایک صورت ہے۔ فرمانِ آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے:میری اُمّت گناہ سمیت قبر میں داخل ہوگی اور جب نکلے گی تو بے گناہ ہو گی، کیونکہ وہ مؤمنین کی دعا سے بخش دی جاتی ہے۔(معجم اوسط، 1/ 509، حدیث: 1879)

اسی طرح صاحبِ اِستطاعت لوگ اپنے مرحومین کی طرف سے حج اور قربانی بھی کرتے ہیں، اسی طرح کئی لوگ اپنی زندگی کی ساری نیکیاں اور نیک اعمال کا ثواب ایصال کر دیتے ہیں۔

بلاشبہ دینِ اسلام وہ واحد دین ہے جس میں مسلمانوں کے لئے جہاں دنیا میں بھلائی اور خیر خواہی کا درس دیا جاتا ہے،وہیں مرنے کے بعد بھی ان کے ساتھ بھلائی کا درس دیا جاتا ہے۔بے شک یہ اخوت کا بہترین ذریعہ ہے۔اس میں مرحومین کے لئے راحت ،ان کے عذابات میں تخفیف کا سامان اور ایصالِ ثواب کرنے والے کے لئے عظیم ثواب ہے۔ اللہ پاک ہمیں اپنے مرحومین اور دیگر مسلمانوں کے ساتھ یہ اُخروی بھلائی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم


ایصال ثواب کے 5 طریقے:

ہم جس طرح  اپنے والدین ،بھائی بہن ،میاں بیوی اور دوست و احباب کی زندگی میں دکھ درد اور آزمائش کے وقت ان کا ساتھ دیتے ہیں اور ان کی پریشانی  کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں اسی طرح ان کےمرنے کے بعد بھی خیر خواہی کرتے ہوئے انہیں ایصالِ ثواب کرنا چاہیے ۔اپنے کسی نیک عمل کا ثواب کسی دوسرے مسلمان کو پہنچانا ایصالِ ثواب کہلاتا ہے خواہ وہ زندہ ہو یا مردہ ۔ ایصالِ ثواب کرنے  والے کے ثواب میں  کمی  بھی نہیں ہوتی اور اس سے مرحومین کو فائدہ بھی ہوتا ہے ،نیکوں کے درجات بلند ہوتے ہیں اور گنہگاروں کے عذابِ قبرمیں تخفیف یا اس سے مکمل نجات بھی مل جاتی  ہے۔ایصالِ ثواب کرنا حدیثِ پاک سے ثابت ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ایک شخص نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم !میری والدہ اچانک انتقال کرگئیں،میرے خیال میں اگر انہیں بولنے کی مہلت ملتی تو وہ صدقہ کرتیں ،اب اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں تو  کیا انہیں اس کا ثواب ملے گا؟ ارشاد فرما یا: ہاں ۔ (بخاری ،1/468،حدیث:1388)

ایصالِ ثواب مختلف طریقوں سے کیا جاسکتا ہے ان میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں:

(1)تلاوتِ قرآن : مکمل قرآنِ پاک یا ایک پارہ یا کوئی چھوٹی سورت حتی کہ ایک آیتِ مبارکہ پڑھ کر بھی اس کا ثواب ایصال کیا جا سکتا ہے ۔اس کے لئے اہتمام کے ساتھ قرآن خوانی کی محفل منعقد کرنا اورکھانے پینے کا انتظام کرنا ضروری نہیں، صرف اہلِ خانہ یا  گھر کا کوئی  ایک فرد  بھی یہ کام کرسکتا ہےاور اپنے خاص مرحومین یا تمام مسلمانوں کو اس کا ثواب پہنچا کرانہیں فائدہ پہنچا سکتا ہے جیساکہ حضرت حماد مکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ایک رات میں مکہ مکرمہ کے قبرستان میں سو یا ہوا تھا ، خواب میں  دیکھا کہ قبر والے حلقے بنا کر کھڑے ہیں ،میں نے ان سے پوچھا: کیا قیامت قائم ہو چکی ہے؟انہوں نے کہا: نہیں بات دراصل یہ ہے کہ ہمارے ایک مسلمان بھائی نے قل ھو اللہ احد(یعنی سورۂ اخلاص)پڑھ کر ہمیں اس کا ثواب پہنچایا تھا ہم ایک سال سے اس کا ثواب تقسیم کر رہے ہیں۔(شرح الصدور،ص312)

(2)دعائے مغفرت :ایصالِ ثواب کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اپنے فوت شدہ مرحومین کیلئے دعائے مغفرت کی جائے اس سے بھی ہمارے مرحومین کو فائدہ پہنچتا ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا : قبر میں مردے کا حال ڈوبتے ہوئےانسان کی طرح ہے جو شدت سے انتظار کرتا ہے کہ باپ یا ماں یا بھائی یاکسی دوست کی دعا اس کو پہنچے اور جب کسی کی دعا اس کے پاس آتی ہے تو اس کے نزدیک وہ دنیا اور اس میں جو کچھ ہےسب سے بہتر ہوتی ہے۔ اللہ پاک قبر والوں کو ان کے زندہ  متعلقین کی طرف سے تحفہ بھیجا ہوا ثواب پہاڑوں کے برابرعطافرماتاہے ۔زندوں کاتحفہ مردوں کےلئے ’’دعائے مغفرت کرنا‘‘ہے۔(فردوس الاخبار،2/336،حدیث:6664۔شعب الایمان ،6 /203 ، حدیث : 7905)

(3)کھانے پر فاتحہ دلانا: یہاں ایک بات ذہن نشین کرلیجئے کہ دعائے مغفرت کرتے وقت سامنے  کھانا یا پانی وغیرہ  رکھا ہونا ضروری نہیں اس کے بغیر بھی دعائے مغفرت کی جاسکتی ہے ،عموما لوگوں کا یہ ذہن بنا ہوتا ہے کہ جب تک کھانا وغیرہ سامنے نہ رکھا جائے فاتحہ نہیں ہوتی یہ بات درست نہیں ہے ۔ہاں! اگر کھانا سامنے رکھ کر فاتحہ پڑھی جائے تو یہ بھی جائز عمل ہے اور اس کھانے کا ثواب بھی مردے کو پہنچتا ہے اور قرآنی آیات کی وجہ سے اس کھانے میں برکت ہوجاتی ہے۔

(4) نفل عبادات کا ثواب:ہم اپنے ہر فرض،واجب اور نفل کاموں کا ثواب بھی اپنے فوت شدہ مسلمانوں پہنچاسکتی ہیں مثلاًفرض نماز،روزہ،حج ،زکوٰۃ، کلمہ،درود شریف حتی کہ ہر نیک کام میں کسی ایک یا تمام مسلمانوں کو اس کاثواب پہنچانے کی بھی نیت  کرسکتی ہیں ۔(5) صدقہ جاریہ: مرحومین کو ثواب پہنچانے کی نیت سے صدقہ جاریہ والے کام بھی کرنے چاہئیں تاکہ جب تک وہ  کام ہوتے رہیں تو اس کا ثواب ہمیں اور ہمارے مرحومین کو  بھی ملتا رہے مثلاً (1)مسجد مدرسہ  بنانا (2)ہسپتال بنانا (3)اسکول بنانا (4)پانی کا انتظام کرنا(5)غریبوں کو کپڑے پہنانا وغیرہ ایسے کام ہیں کہ جب تک یہ ہوتے رہیں کہ ہمارے اور مرحومین کیلئے ثواب کا میٹر چلتا رہے گا ۔


الحمد للہ رب العلمین و الصلوة و السلام علی خاتم النبیین اما بعد فاعوذ باللہ من الشیطن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم

انسان کی موت کے بعد اس کا عمل منقطع ہوجاتا ہے البتہ زندوں کی طرف سے کیے جانے والے ایصالِ ثواب سے اس کو نفع پہنچتا ہے اور ایصالِ ثواب کرنے والے کے ثواب میں بھی کوئی کمی نہیں ہوتی بلکہ اُمید ہے کہ اس نے جتنوں کو ایصالِ ثواب کیا، ان سب کے مجموعہ کے برابر اس کو بھی ثواب ملے۔ (بہار شریعت،حصہ:4، 1/850) اس لئے ایصالِ ثواب کرتے رہنا چاہئے۔ ایصالِ ثواب کے پانچ طریقے ذیل میں درج ہیں:

(1) دعائے مغفرت کرنا

حدیثِ پاک میں ہے: میری امت گناہ سمیت قبر میں داخل ہوگی اور جب نکلے گی تو بےگناہ ہوگی کیونکہ وہ مومنین کی دعاؤں سے بخش دی جاتی ہے۔( المعجم الاوسط،1/ 509، حدیث:1879)نیز فرمایا:جو کوئی تمام مومن مردوں اور عورتوں کیلئے دعائے مغفرت کرتا ہے اللہ پاک اس کیلئے ہر مومن مرد و عورت کے عوض ایک نیکی لکھ دیتا ہے۔( مجمع الزوائد ،10/352، حدیث: 17598)

(2) حج کرنا

حدیثِ پاک میں ہے:جو اپنی ماں یا باپ کی طرف سے حج کرے ان کی (یعنی ماں یا باپ کی) طرف سے حج ادا ہوجائے، اسے (یعنی حج کرنے والے کو) مزید دس حج کا ثواب ملے۔( دار قطنی،2/329، حدیث:2587)

سبحان اللہ! جب کبھی نفل حج کی سعادت حاصل ہو تو فوت شدہ ماں یا باپ کی نیت کرلیں تاکہ ان کو بھی حج کا ثواب ملے، آپ کا بھی حج ہوجائےگا بلکہ مزید دس حج کا ثواب ہاتھ آئےگا۔ اگر ماں یا والد میں سے کوئی اس حال میں فوت ہوگیا کہ ان پر حج فرض ہوچکنے کے باوجود وہ نہ کرپائے تھے تو اولاد کو حج ِبدل کرنا چاہئے۔ حجِ بدل کے تفصیلی احکام کیلئے رفیق الحرمین کا مطالعہ فرمائیں۔

(3) صدقہ و خیرات کرنا

ایصالِ ثواب کی نیت سے صدقہ و خیرات کرنا مثلا کسی غریب کو راشن یا کپڑے دلادینا، کسی بیمار کا علاج کروانا، کسی کی جائز ضرورت پوری کردینا۔ اس کے علاوہ دینی کتابیں تقسیم کرنا، مسجد یا مدرسے کا قیام صدقۂ جاریہ اور ایصال ِثواب کا بہترین ذریعہ ہے۔

(4) پودا/درخت لگانا

پودا/درخت لگانا بلاشبہ نیکی کا کام ہے اور ایصالِ ثواب کیلئے بھی لگایا جا سکتا ہے۔حدیثِ پاک میں ہے:جب کوئی مسلمان درخت لگاتا ہے پھر اس (کے پھل، پتوں یا کسی بھی حصے) سے کوئی انسان یا جانور کھالیتا ہے تو یہ اس کیلئے صدقہ شمار ہوتا ہے۔(صحیح بخاری، حدیث:6012)

(5) نیک کاموں کا ایصال ثواب کرنا

فرض، واجب، سنت، نفل، نماز، روزہ، اعتکاف،تلاوتِ قرآن، ذکر اللہ، درود شریف، بیان، درس، مدنی قافلے میں سفر، نیکی کی دعوت، دینی کتاب کا مطالعہ وغیرہ ہر نیک کام کا ایصالِ ثواب کرسکتے ہیں۔

ایصالِ ثواب کا طریقہ

ایصال ِثواب (یعنی ثواب پہنچانے) کیلئے دل میں نیت کرلینا کافی ہے، مثلا آپ نے خیرات کی یا درود شریف پڑھا یا کسی کو سنت بتائی الغرض کوئی بھی نیکی کی، آپ دل ہی دل میں اس طرح نیت کرلیں مثلا، ابھی میں نے جو سنت بتائی اس کا ثواب سرکار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو پہنچے۔ ان شآء اللہ الکریم ثواب پہنچ جائے گا۔ مزید جن جن کی نیت کریں گی ان کو بھی پہنچے گا (چاہے تمام مسلمانوں کی نیت کریں) دل میں نیت ہونے کے ساتھ ساتھ زبان سے بھی کہہ لینا سنتِ صحابہ ہے۔(مدنی پنج سورہ، ص 406-407)


اپنے کسی نیک عمل کا ثواب کسی دوسرے مسلمان کوپہنچانا”ایصالِ ثواب “کہلاتا ہے۔فرض، واجب،سنت،نفل،نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج، دَرَس، نیک اعمال، نیکی کی دعوت، دینی کُتب کا مطالعہ،دینی کاموں کے لئے انفرادی کوشش وغیرہ ہر نیک کام کا ایصالِ ثواب کر سکتی ہیں، شریعتِ مطہرہ میں اپنے کسی بھی نیک عمل کا ثواب کسی فوت شدہ یا زندہ مسلمان کوایصال کرنا جائز و مستحسن ہے۔

نورانی لباس

ایک بزرگ نے اپنے مرحوم بھائی کو خواب میں دیکھ کر پوچھا:کیا زندہ لوگوں کی دعا تم لوگوں کو پہنچتی ہے؟تو انہوں نے جواب دیا:ہاں !اللہ پاک کی قسم! وہ نورانی لباس کی صورت میں آتی ہے، اسے ہم پہن لیتے ہیں۔(شرح الصدور، ص305)

ایصالِ ثواب کے پانچ طریقے درج ذیل ہیں:

1۔نفل خیرات کرنا

فرمانِ مصطفے صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے:جب تم میں سے کوئی کچھ نفل خیرات کرے توچاہئے کہ اسے ماں باپ کی طرف سے کرے کہ اس کا ثواب انہیں ملے گا اور اس کے(یعنی خیرات کرنے والے کے)ثواب میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔(شعب الایمان، 6/ 205، حدیث: 7911)

2۔دعاؤں کے ذریعے:

سرکارِ نامدار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ارشادِ مشکبار ہے:مردے کا حال قبر میں ڈوبتے ہوئے انسان کی مانند ہوتاہے،وہ شدت سے انتظار کرتا ہے کہ باپ، ماں یا بھائی یا کسی دوست کی دعا اسے پہنچتی ہے تو اس کے نزدیک وہ”دنیا وما فیہا(یعنی دنیا اور جو کچھ اس میں ہے)سے بہتر ہوتی ہے، اللہ پاک قبر والوں کو ان کے زندہ متعلقین کی طرف سے ہدیہ کیا ہوا ثواب پہاڑوں کی مانندعطا فرماتا ہے، زندوں کا ہدیہ(یعنی تحفہ)مُردوں کے لئے ”دعائے مغفرت کرنا“ہے۔(شعب الایمان، 6/ 203، حدیث: 7905)

3۔سورۂ اخلاص کا ثواب

حضرت حماد مکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:میں مکہ مکرمہ کے ایک قبرستان میں سو گیا، کیا دیکھتا ہوں کہ قبر والے حلقہ در حلقہ کھڑے ہیں، میں نے ان سے پوچھا: کیا قیامت قائم ہو گئی؟انہوں نے کہا:نہیں، بات دراصل یہ ہے کہ ایک مسلمان نے سورۂ اخلاص پڑھ کر ہم کو ایصالِ ثواب کیا تو وہ ثواب ہم ایک سال سے تقسیم کر رہے ہیں۔(شرح الصدور، ص 312)

4۔صدقہ کے ذریعے

حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے عرض کی:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم !میری ماں انتقال کر گئی ہیں(میں اُن کی طرف سے صدقہ کرنا چاہتا ہوں)کون سا صدقہ افضل رہے گا؟سرکارِ نامدار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:پانی۔چنانچہ انہوں نے ایک کنواں کھدوایا اور کہا :یہ اُمِّ سعد رضی اللہ عنہما کے لئے ہے۔(ابو داؤد، 2/ 180، حدیث: 1681)

5۔دس حج کا ثواب

جو اپنی ماں یا باپ کی طرف سے حج کرلے،ان کی(یعنی ماں یا باپ کی)طرف سے حج ادا ہو جائے،اسے(یعنی حج کرنے والے کو)مزید دس حج کا ثواب ملے گا۔(دارقطنی، 2/ 329، حدیث: 2587)


ایصالِ ثواب کا معنی اور  جائز ہونے پر دلیل:

ایصالِ ثواب کے لفظی مَعنی ہیں  :  ’’ثواب پہچانا‘‘ اِ س کو ’’ثواب بخشنا‘‘ بھی کہتے ہیں میت کو نیک اعمال کا جو ثواب پہنچایا جاتا ہے وہ اسے پہنچتا ہے اور یہ بات کثیر اَحادیث سے ثابت ہے جیسا کہ

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں  :ایک شخص نے بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں عرض کی :میری مالدہ ماجدہ اچانک فوت ہو گئی ہیں ،میرا خیال ہے کہ اگر وہ کوئی بات کرتیں توصدقہ دینے کا کہتیں ،اگر میں ان کی طرف سے خیرات کروں تو کیا انہیں ثواب ملے گا۔ ارشاد فرمایا:ہاں ۔

(بخاری، کتاب الجنائز، باب موت الفجأۃ البغتۃ،1 / 468، الحدیث1388)

حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں  ’’میں  نے (ایک مرتبہ) بارگاہِ رسالت میں  عرض کی: یا رسولَ اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم ، سعد کی والدہ کا انتقال ہو گیا ہے ،تو کون سا صدقہ افضل ہے؟ارشاد فرمایا ’’پانی۔ چنانچہ انہوں نے کنوا ں کھدوایااور کہا’’ہٰذِہٖ لِاُمِّ سَعْدٍ‘‘یہ سعد کی والدہ (کے ایصالِ ثواب ) کے لئے ہے۔

( ابو داؤد، کتاب الزکاۃ، باب فی فضل سقی المائ، 2 / 180، الحدیث: 1681)

ایصالِ ثواب کے درست ہونے پر صحیح العقیدہ علماء ِامت کا اِجماع ہے اور فقہ کی کتابوں  میں  بھی بکثرت مقامات پر اس کا جواز مذکور ہے، اسی لئے مسلمانوں  میں  جویہ معمول ہے کہ وہ اپنے مُردوں  کو فاتحہ ،سوم، چہلم ،برسی اور عرس وغیرہ میں  عبادات اور صدقات سے ثواب پہنچاتے رہتے ہیں ، ان کا یہ عمل اَحادیث کے بالکل مطابق ہے۔ نیز یہ بھی یا د رکھیں  کہ ایصالِ ثواب کے لئے شریعت کی طرف سے کوئی دن خاص نہیں  بلکہ جب چاہیں  جس وقت چاہیں  ایصالِ ثواب کر سکتے ہیں  اور اگر عزیزرشتہ داروں  یا دوست اَحباب کی سہولت کے لئے دن مُعَیّن کر کے ایصالِ ثواب کیا جائے تو اس میں  بھی کوئی حرج نہیں  ہے۔نیز اِیصالِ ثواب کرنے والے کے ثواب میں کوئی کمی واقِع نہیں ہوتی بلکہ اُمّید ہے کہ اُس نے جتنوں کو ایصالِ ثواب کیا اُن سب کے مجموعے کے برابر اِس کو ثواب ملے گا،مثلاً کوئی نیک کام کیا جس پراُس کو دس نیکیاں ملیں اب اُس نے دس مُردوں کو اِیصالِ ثواب کیا تو ہر ایک کودس دس نیکیاں پہنچیں گی جبکہ اِیصالِ ثواب کرنے والے کو ایک سو دس اور اگر ایک ہزار کو اِیصالِ ثواب کیا تو اِس کو دس ہزار دس وَ عَلٰی ھٰذَا الْقِیاس۔(بہارشریعت، ج1، ص850 ) 

ایصال ثواب کے 5 طریقے:

(1) مرحومین کے لئے دعا کرنا:

ایک بارسُوْرَۃُ الْفَاتِحَہ اور11بارسُوْرَۃُ الْاِخْلَاص (اوَّل آخِر ایک یا تین بار دُرُود شریف) پڑھ کر اپنے مرحوم والدین، رشتہ داروں یا دیگر متعلقین اور امت محمدیہ کو اس کا ایصال ثواب کریں ۔فرمانِ مصطَفٰے صلی اللہ علیہ وسلم جو قبرستان میں گیارہ بار سُوْرَۃُ الْاِخْلَاص پڑھ کر مُردوں کو اس کا ایصالِ ثواب کرے تو مُردوں کی تعداد کے برابر ایصالِ ثواب کرنے والے کواس کا اَجْر ملے گا۔ (جَمْعُ الْجَوامِع لِلسُّیُوطی 7/285،حدیث:23152)

اگر کسی بزرگ کے مزار پر ہوں تو صاحِبِ مزار کا نام لے کر بھی ایصالِ ثواب کرے اور دُعا مانگے۔  ’’ اَحسَنُ الوِعاء‘‘ میں ہے  :  ولی کے مزار کے پاس دُعا قَبول ہوتی ہے۔

(ماخوذ از احسن الوعاء ص:140)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :  میری اُمّت گناہ سَمیت قَبْر میں داخِل ہوگی اور جب نکلے گی تو بے گناہ ہوگی کیونکہ وہ مؤمِنین کی دعاؤں سے بَخش دی جاتی ہے ۔

(اَلْمُعْجَمُ الْاَ وْسَط 1/509،حدیث:1879)

فرمانِ مصطَفٰے صلی اللہ علیہ وسلم: جو کوئی تمام مومن مَردوں اور عورَتوں کیلئے دعائے مغفرت کرتا ہے، اللہ پاک اُس کیلئے ہر مومن مرد و عورت کے عِوَض ایک نیکی لکھ دیتا ہے۔(مسندُ الشّامیین لِلطَّبَرانی 3/234،حدیث :2155)

(2) اعمالِ خیر کا ثواب ایصال کرنا:

نماز روزہ، صدقہ، حج، عمرہ طواف ودیگر اعمال خیر کرکے اس کا ثواب زندوں یا مردوں کو پہنچایا جاسکتا ہے اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی وہ عمل کرکے یہ کہے کہ یا اللہ اس کا ثواب فلاں شخص کو پہنچادےجیسا کہ فتاوٰ ی شامی میں ہے: من صام أو صلی أو تصدق وجعل ثوابہ لغیرہ من الأموات والأحیاء جاز ویصل ثوابہا إلیہم عند أہل السنة والجماعة کذا في البدائع

(شامی3/152، باب صلاة الجنازة )

سیدی و سندی امام اہلسنت امام احمد رضا خان فاضل بریلری ارشاد فرماتے ہیں کسی بھی نیکی کا اِیصالِ ثَواب کرتے ہوئےجتنےمسلمان مردوعورت آج تک ہوئے، جوموجودہیں اور جتنے قیامت تک آنے والے ہیں اُن سب کو اِیصالِ ثواب کریں۔ ایسا کرنے والے کو تمام مؤمنین و مؤمنات اَوَّلین وآخرین سب کی گنتی کے برابر ثَواب ملے گا۔ (فتاویٰ رضویہ،ج9، ص602ملخصاً)

(3) قربا نی کا ثواب ایصال کرنا:

قربانی کر کے اس کا ثواب اپنے مرحوم والدین، رشتہ داروں یا دیگر متعلقین کو پہنچانا جائز بلکہ بہتر ہے، بلکہ کسی بھی نیک کام کا اجر تمام امتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچانا درست ہے، خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی امت کی طرف سے قربانی فرمائی تھی، اس لئے وفا کا تقاضا ہے کہ استطاعت ہو تو ایک قربانی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بھی کی جائے۔چنانچہ منقول ہے:

"وقد صح «أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ضحى بكبشين: أحدهما عن نفسه والآخر عمن لم يذبح من أمته»، وإن كان منهم من قد مات قبل أن يذبح''۔

(الدر المختار وحاشيہ ابن عابدين (رد المحتار) 2/ 595)

(4) حج کا ثواب ایصال کرنا:

جو اپنی ماں یا باپ کی طرف سے حج کرے اُن (یعنی ماں یا باپ )  کی طرف سے حج ادا ہوجائے ،   اسے (یعنی حج کرنے والے کو)  مزید دس حج کا ثواب ملے۔

(دارقُطنی 2/329،حدیث:2587)

چنانچہ اس روایت سے معلوم ہوا کہ اگر کسی سے طرف سے حج کیا جائے تو اس کا ثواب دونوں کو ملے گا حج کرنے وا لے کو بھی اور جس کی طرف سے حج کیا گیا اسے بھی۔

(5) ایصالِ ثواب کا مروّجہ طریقہ:

 آج کل مسلمانوں میں خُصُوصاً کھانے پر جو فاتِحہ کا طریقہ رائج ہے وہ بھی بَہُت اچّھا ہے۔  جن کھانوں کا ایصالِ ثواب کرنا ہے وہ سارے یا سب میں سے تھوڑا تھوڑاکھانا نیز ایک گلاس میں پانی بھر کر سب کچھ سامنے رکھ لیجئے۔ اور ایک بار تعوذ و تسمیہ پڑھیں پھر سورۃ الکافرون ، تین بار سورۃ الاخلاص، ایک بار سورۃ الفلق، ایک بار سورہ الناس، ایک بار سور ۃ الفاتحہ ، ایک بار سورۃ البقرہ کی ابتدائی پانچ آیات، یہ سب کچھ پڑھنے کے بعد یہ پانچ آیات پڑھئے :

 (1)   وَ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌۚ-لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ۠ (۱۶۳)

 (پ2،  البقرۃ : 163)

 (2)   اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰهِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ (۵۶)  (پ8،  الاعراف : 56)

 (3)   وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ (۱۰۷)  (پ17 الانبیاء : 107)

 (4)   مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَاللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠ (۴۰) (پ22،  الاحزاب : 40)

 (5)  اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا (۵۶)  (پ22 ، الاحزاب : 56)

اب دُرُود شریف پڑھئے  :صَلَّی اللہُ عَلَی النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ وَاٰلِہٖ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلٰوۃً وَّسَلَامًا عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہ

اس کے بعد یہ آیات پڑھئے :سُبْحٰنَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا یَصِفُوْنَۚ (۱۸۰) وَ سَلٰمٌ عَلَى الْمُرْسَلِیْنَۚ (۱۸۱) وَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۠ (۱۸۲)  

23، اَلصّٰفٰت : 180۔  182)

 اب فاتِحہ پڑھانے والا ہاتھ اٹھاکربُلند آواز سے ’’ اَلْفَاتِحَہ‘‘ کہے۔  سب لوگ آہِستہ سے یعنی اِتنی آواز سے کہ صِرْف خود سنیں سُوْرَۃُ الْفَاتِحَہ پڑھیں۔  اب فاتحہ پڑھانے والا اِس طرح اعلان کرے :   آپ نے جو کچھ پڑھا ہے اُس کا ثواب مجھے دیدیجئے ۔  ‘‘  تمام حاضِرین کہہ دیں : ’’ آ پ کودیا۔ ‘‘اب فاتحہ پڑھانے والا ایصالِ ثواب  کے لئے دعاکر ے۔

اعلٰی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا فاتِحہ کا طریقہ:

امامِ اہلسنّت اعلیٰ حضرت مولانا شاہ احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن ایصال ثواب و فاتحہ سے قبل ایک بار سورۃ الفاتحہ ، ایک بار آیت الکرسی ، اور تین بار سورۃ الاخلاص کی تلاو ت فرمایا کرتے تھے پھر ایصال ِ ثواب کے لئے دعا فرما یا کرتے تھے۔

(فاتحہ اور ایصالِ ثواب کا طریقہ ص 19 تا 23 ملخصاً و بتغییرقلیل)


1۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مرنے کے بعد انسان کے اعمال کے ثواب کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے لیکن تین چیزوں کا ثواب میت کو ملتا رہتا ہے۔

(1) صدقہ جاریہ

(2) لوگوں کو فائدہ دینے والا علم

(3) نیک اولاد جو میت کے لئے دعا کرے۔‘‘

(مسلم شریف: کتاب الوصیۃ، باب: ما یلحق الإنسان من الثواب بعد وفاتہ: حدیث :1361)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مومن کو مرنے کے بعد ان اعمال اور نیکیوں کا ثواب ملتا رہتا ہے:(1) وہ علم ہے جو اس نے لوگوں کو سکھایا اور پھیلایا۔(2) نیک اولاد ہے جو اس نے اپنے پیچھے چھوڑی۔(3) قرآن کی تعلیم جو لوگوں کو سکھائی۔(4) مسجد جو تعمیر کرائی۔(5) مسافر خانہ۔(6) وہ صدقہ جو صحت کی حالت میں اس نے نکالا۔

(ابن ماجہ: مقدمۃ، باب: ثواب معلم الناس الخیر: حدیث نمبر 242)

2۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سیّدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی ماں کی نذر کے بارے میں سوال کیا جسے پورا کرنے سے پہلے وہ فوت ہو گئی تھی۔ آپ نے فرمایا:"اپنی ماں کی طرف سے تم نذر پوری کرو۔"

(بخاری شریف: الوصایا، باب:ما یستحب لمن توفیٰ فجاۃ ۔حدیث :1672، مسلم شریف: النذر: حدیث نمبر8361)

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ قبیلہ جہینہ کی ایک عورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ میری ماں نے حج کی نذر مانی تھی لیکن حج کرنے سے پہلے ہی فوت ہو گئی کیا میں اس کی طرف سے حج کروں۔ آپ نے فرمایا: ’’ہاں! اس کی طرف سے حج کرو، اگر تمہاری والدہ پر قرض ہوتا تو کیا تم ادا کرتیں؟‘‘ اس نے عرض کیا ہاں! آپ نے فرمایا:’’اللہ کا قرض یعنی نذر ادا کرو، اللہ پاک زیادہ حقدار ہے کہ اس کا قرض ادا کیا جائے۔‘‘(بخاری شریف: جزاء العید، باب: الحج والنذور عن المیت: حدیث نمبر 2581)

3۔ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:’’جو شخص فوت ہو جائے اور اس کے ذمے روزے باقی ہوں تو اس کا وارث روزے رکھے۔‘‘

(بخاری شریف: کتاب الصوم، باب: من مات وعلیہ صوم: 2591، مسلم شریف: کتاب الصیام، قضاء الصیام عن الموت: حدیث نمبر7411)

    اس روایت کے تحت عمدۃ القاری میں ہے :”حجۃ اصحابنا الحنفیۃ ومن تبعھم فی ھذا الباب فی ان مات وعلیہ صیام لایصوم عنہ احد ولکنہ ان اوصی بہ اطعم ولیہ کل یوم مسکین نصف صاع من براوصاعامن تمراوشعیر“ یعنی ہمارے حنفی اصحاب اور ان کے متبعین کی اس باب میں یہ دلیل ہے کہ جو شخص مرجائے اوراس کے ذمے روزے ہوں، توکوئی اوراس کی طرف سے روزے نہیں رکھ سکتا،لیکن اگر مرنے والے نے وصیت کی ہو،تو میت کا ولی ہردن کے بدلے مسکین کو نصف صاع گندم یاایک صاع کھجوریاجَودے گا۔

(عمدۃ القاری ،11/59،مطبوعہ بیروت)

4۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میرا باپ فوت ہو گیا ہے اور اس نے کچھ مال چھوڑا ہے لیکن کوئی وصیت نہیں کی۔ اگر میں اس کی طرف سے خیرات کروں تو کیا یہ اس کے گناہوں کا کفارہ بنے گا۔ آپ نے فرمایا: ’’ہاں!۔‘‘

(مسلم شریف: کتاب الوصیۃ، باب: وصول ثواب الصدقات الی المیت: حدیث نمبر 361)

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص (سیدنا سعد بن عبادہ) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میری ماں اچانک مر گئی اور میرا گمان ہے کہ اگر وہ بات کرتی تو کچھ صدقہ وخیرات کرتی، اب اگر میں اس کی طرف خیرات کروں تو کیا اس کو کچھ ثواب ملے گا، آپ نے فرمایا: ’’ہاں!۔‘‘(بخاری شریف : کتاب الجنائز، باب: موت الفجاۃ البغتۃ: حدیث نمبر 8831، مسلم: الزکاۃ، باب: وصول ثواب الصدقۃ الی المیت: حدیث نمبر4001)

5۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:’’مومن کی روح قرض کے ساتھ معلق رہتی ہے جب تک وہ ادا نہ کر دیا جائے۔‘‘

(ترمذی شریف: کتاب الجنائز: حدیث نمبر7801)