ایصالِ ثواب کا معنی اور  جائز ہونے پر دلیل:

ایصالِ ثواب کے لفظی مَعنی ہیں  :  ’’ثواب پہچانا‘‘ اِ س کو ’’ثواب بخشنا‘‘ بھی کہتے ہیں میت کو نیک اعمال کا جو ثواب پہنچایا جاتا ہے وہ اسے پہنچتا ہے اور یہ بات کثیر اَحادیث سے ثابت ہے جیسا کہ

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں  :ایک شخص نے بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں عرض کی :میری مالدہ ماجدہ اچانک فوت ہو گئی ہیں ،میرا خیال ہے کہ اگر وہ کوئی بات کرتیں توصدقہ دینے کا کہتیں ،اگر میں ان کی طرف سے خیرات کروں تو کیا انہیں ثواب ملے گا۔ ارشاد فرمایا:ہاں ۔

(بخاری، کتاب الجنائز، باب موت الفجأۃ البغتۃ،1 / 468، الحدیث1388)

حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں  ’’میں  نے (ایک مرتبہ) بارگاہِ رسالت میں  عرض کی: یا رسولَ اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم ، سعد کی والدہ کا انتقال ہو گیا ہے ،تو کون سا صدقہ افضل ہے؟ارشاد فرمایا ’’پانی۔ چنانچہ انہوں نے کنوا ں کھدوایااور کہا’’ہٰذِہٖ لِاُمِّ سَعْدٍ‘‘یہ سعد کی والدہ (کے ایصالِ ثواب ) کے لئے ہے۔

( ابو داؤد، کتاب الزکاۃ، باب فی فضل سقی المائ، 2 / 180، الحدیث: 1681)

ایصالِ ثواب کے درست ہونے پر صحیح العقیدہ علماء ِامت کا اِجماع ہے اور فقہ کی کتابوں  میں  بھی بکثرت مقامات پر اس کا جواز مذکور ہے، اسی لئے مسلمانوں  میں  جویہ معمول ہے کہ وہ اپنے مُردوں  کو فاتحہ ،سوم، چہلم ،برسی اور عرس وغیرہ میں  عبادات اور صدقات سے ثواب پہنچاتے رہتے ہیں ، ان کا یہ عمل اَحادیث کے بالکل مطابق ہے۔ نیز یہ بھی یا د رکھیں  کہ ایصالِ ثواب کے لئے شریعت کی طرف سے کوئی دن خاص نہیں  بلکہ جب چاہیں  جس وقت چاہیں  ایصالِ ثواب کر سکتے ہیں  اور اگر عزیزرشتہ داروں  یا دوست اَحباب کی سہولت کے لئے دن مُعَیّن کر کے ایصالِ ثواب کیا جائے تو اس میں  بھی کوئی حرج نہیں  ہے۔نیز اِیصالِ ثواب کرنے والے کے ثواب میں کوئی کمی واقِع نہیں ہوتی بلکہ اُمّید ہے کہ اُس نے جتنوں کو ایصالِ ثواب کیا اُن سب کے مجموعے کے برابر اِس کو ثواب ملے گا،مثلاً کوئی نیک کام کیا جس پراُس کو دس نیکیاں ملیں اب اُس نے دس مُردوں کو اِیصالِ ثواب کیا تو ہر ایک کودس دس نیکیاں پہنچیں گی جبکہ اِیصالِ ثواب کرنے والے کو ایک سو دس اور اگر ایک ہزار کو اِیصالِ ثواب کیا تو اِس کو دس ہزار دس وَ عَلٰی ھٰذَا الْقِیاس۔(بہارشریعت، ج1، ص850 ) 

ایصال ثواب کے 5 طریقے:

(1) مرحومین کے لئے دعا کرنا:

ایک بارسُوْرَۃُ الْفَاتِحَہ اور11بارسُوْرَۃُ الْاِخْلَاص (اوَّل آخِر ایک یا تین بار دُرُود شریف) پڑھ کر اپنے مرحوم والدین، رشتہ داروں یا دیگر متعلقین اور امت محمدیہ کو اس کا ایصال ثواب کریں ۔فرمانِ مصطَفٰے صلی اللہ علیہ وسلم جو قبرستان میں گیارہ بار سُوْرَۃُ الْاِخْلَاص پڑھ کر مُردوں کو اس کا ایصالِ ثواب کرے تو مُردوں کی تعداد کے برابر ایصالِ ثواب کرنے والے کواس کا اَجْر ملے گا۔ (جَمْعُ الْجَوامِع لِلسُّیُوطی 7/285،حدیث:23152)

اگر کسی بزرگ کے مزار پر ہوں تو صاحِبِ مزار کا نام لے کر بھی ایصالِ ثواب کرے اور دُعا مانگے۔  ’’ اَحسَنُ الوِعاء‘‘ میں ہے  :  ولی کے مزار کے پاس دُعا قَبول ہوتی ہے۔

(ماخوذ از احسن الوعاء ص:140)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :  میری اُمّت گناہ سَمیت قَبْر میں داخِل ہوگی اور جب نکلے گی تو بے گناہ ہوگی کیونکہ وہ مؤمِنین کی دعاؤں سے بَخش دی جاتی ہے ۔

(اَلْمُعْجَمُ الْاَ وْسَط 1/509،حدیث:1879)

فرمانِ مصطَفٰے صلی اللہ علیہ وسلم: جو کوئی تمام مومن مَردوں اور عورَتوں کیلئے دعائے مغفرت کرتا ہے، اللہ پاک اُس کیلئے ہر مومن مرد و عورت کے عِوَض ایک نیکی لکھ دیتا ہے۔(مسندُ الشّامیین لِلطَّبَرانی 3/234،حدیث :2155)

(2) اعمالِ خیر کا ثواب ایصال کرنا:

نماز روزہ، صدقہ، حج، عمرہ طواف ودیگر اعمال خیر کرکے اس کا ثواب زندوں یا مردوں کو پہنچایا جاسکتا ہے اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی وہ عمل کرکے یہ کہے کہ یا اللہ اس کا ثواب فلاں شخص کو پہنچادےجیسا کہ فتاوٰ ی شامی میں ہے: من صام أو صلی أو تصدق وجعل ثوابہ لغیرہ من الأموات والأحیاء جاز ویصل ثوابہا إلیہم عند أہل السنة والجماعة کذا في البدائع

(شامی3/152، باب صلاة الجنازة )

سیدی و سندی امام اہلسنت امام احمد رضا خان فاضل بریلری ارشاد فرماتے ہیں کسی بھی نیکی کا اِیصالِ ثَواب کرتے ہوئےجتنےمسلمان مردوعورت آج تک ہوئے، جوموجودہیں اور جتنے قیامت تک آنے والے ہیں اُن سب کو اِیصالِ ثواب کریں۔ ایسا کرنے والے کو تمام مؤمنین و مؤمنات اَوَّلین وآخرین سب کی گنتی کے برابر ثَواب ملے گا۔ (فتاویٰ رضویہ،ج9، ص602ملخصاً)

(3) قربا نی کا ثواب ایصال کرنا:

قربانی کر کے اس کا ثواب اپنے مرحوم والدین، رشتہ داروں یا دیگر متعلقین کو پہنچانا جائز بلکہ بہتر ہے، بلکہ کسی بھی نیک کام کا اجر تمام امتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچانا درست ہے، خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی امت کی طرف سے قربانی فرمائی تھی، اس لئے وفا کا تقاضا ہے کہ استطاعت ہو تو ایک قربانی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بھی کی جائے۔چنانچہ منقول ہے:

"وقد صح «أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ضحى بكبشين: أحدهما عن نفسه والآخر عمن لم يذبح من أمته»، وإن كان منهم من قد مات قبل أن يذبح''۔

(الدر المختار وحاشيہ ابن عابدين (رد المحتار) 2/ 595)

(4) حج کا ثواب ایصال کرنا:

جو اپنی ماں یا باپ کی طرف سے حج کرے اُن (یعنی ماں یا باپ )  کی طرف سے حج ادا ہوجائے ،   اسے (یعنی حج کرنے والے کو)  مزید دس حج کا ثواب ملے۔

(دارقُطنی 2/329،حدیث:2587)

چنانچہ اس روایت سے معلوم ہوا کہ اگر کسی سے طرف سے حج کیا جائے تو اس کا ثواب دونوں کو ملے گا حج کرنے وا لے کو بھی اور جس کی طرف سے حج کیا گیا اسے بھی۔

(5) ایصالِ ثواب کا مروّجہ طریقہ:

 آج کل مسلمانوں میں خُصُوصاً کھانے پر جو فاتِحہ کا طریقہ رائج ہے وہ بھی بَہُت اچّھا ہے۔  جن کھانوں کا ایصالِ ثواب کرنا ہے وہ سارے یا سب میں سے تھوڑا تھوڑاکھانا نیز ایک گلاس میں پانی بھر کر سب کچھ سامنے رکھ لیجئے۔ اور ایک بار تعوذ و تسمیہ پڑھیں پھر سورۃ الکافرون ، تین بار سورۃ الاخلاص، ایک بار سورۃ الفلق، ایک بار سورہ الناس، ایک بار سور ۃ الفاتحہ ، ایک بار سورۃ البقرہ کی ابتدائی پانچ آیات، یہ سب کچھ پڑھنے کے بعد یہ پانچ آیات پڑھئے :

 (1)   وَ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌۚ-لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ۠ (۱۶۳)

 (پ2،  البقرۃ : 163)

 (2)   اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰهِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ (۵۶)  (پ8،  الاعراف : 56)

 (3)   وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ (۱۰۷)  (پ17 الانبیاء : 107)

 (4)   مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَاللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠ (۴۰) (پ22،  الاحزاب : 40)

 (5)  اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا (۵۶)  (پ22 ، الاحزاب : 56)

اب دُرُود شریف پڑھئے  :صَلَّی اللہُ عَلَی النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ وَاٰلِہٖ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلٰوۃً وَّسَلَامًا عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہ

اس کے بعد یہ آیات پڑھئے :سُبْحٰنَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا یَصِفُوْنَۚ (۱۸۰) وَ سَلٰمٌ عَلَى الْمُرْسَلِیْنَۚ (۱۸۱) وَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۠ (۱۸۲)  

23، اَلصّٰفٰت : 180۔  182)

 اب فاتِحہ پڑھانے والا ہاتھ اٹھاکربُلند آواز سے ’’ اَلْفَاتِحَہ‘‘ کہے۔  سب لوگ آہِستہ سے یعنی اِتنی آواز سے کہ صِرْف خود سنیں سُوْرَۃُ الْفَاتِحَہ پڑھیں۔  اب فاتحہ پڑھانے والا اِس طرح اعلان کرے :   آپ نے جو کچھ پڑھا ہے اُس کا ثواب مجھے دیدیجئے ۔  ‘‘  تمام حاضِرین کہہ دیں : ’’ آ پ کودیا۔ ‘‘اب فاتحہ پڑھانے والا ایصالِ ثواب  کے لئے دعاکر ے۔

اعلٰی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا فاتِحہ کا طریقہ:

امامِ اہلسنّت اعلیٰ حضرت مولانا شاہ احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن ایصال ثواب و فاتحہ سے قبل ایک بار سورۃ الفاتحہ ، ایک بار آیت الکرسی ، اور تین بار سورۃ الاخلاص کی تلاو ت فرمایا کرتے تھے پھر ایصال ِ ثواب کے لئے دعا فرما یا کرتے تھے۔

(فاتحہ اور ایصالِ ثواب کا طریقہ ص 19 تا 23 ملخصاً و بتغییرقلیل)