۱۔آغاز میں حمد و صلوة کرنا :

مطالعہ شروع کرنے سے پہلے تعوذ تسمیہ اور حمد و صلوة سے آغاز کیجئے کیونکہ جو کام اللہ تعالیٰ کی حمد و صلوة سے شروع کیا جائے وہ پائے تکمیل تک پہنچتا ہے۔

۲۔ قبلہ رو بیٹھنا

مطالعہ کرتے وقت قبلہ رو بیٹھنا چاہیے کعبۃ اللہ کی طرف منہ کورکھنا سنت رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہے۔

۳۔ پرسکون جگہ ہونا :

پر سکون جگہ بیٹھ کر مطالعہ کرنا چاہیے، زیادہ شور کی وجہ سے مطالعہ میں دل جمعی نہیں رہتی ۔

۴۔ طبیعت کا ترو تازہ ہونا:

مطالعہ کرتے وقت ذہن حاضر اور طبیعت ترو تازہ ہونی چاہیے۔

۵۔اچھی روشنی کا ہونا :

مطالعہ کرتے وقت اچھی روشنی میں بیٹھنا چاہیے، روشنی اوپر کی جانب سے ہو پیچھے کی جانب سے بھی آنا حرج نہیں جب کہ تحریر پر سایہ نہ ہو، سامنے سے آنا نقصان دہ ہے۔

۶۔ درست انداز پر ہونا :

کسی بھی ایسے انداز میں نہ بیٹھیں جس سے آنکھوں پر زور پڑے، مثلا مدھم روشنی میں چلتے پھرتے یا جھک کرمطالعہ کرنے سے آنکھوں پر زور پڑتا ہے۔

۷۔ باقاعدگی کے ساتھ :

کسی کتاب کا مطالعہ شروع کریں توا س کو باقاعدگی کے ساتھ مکمل کرنی چاہیے، یعنی اس کتاب کو چھوڑ کر اور کتاب نہیں پڑھنی چاہیے ، پہلے اسے مکمل کریں پھر دوسری شروع کریں۔

۸۔ ایک وقت میں ایک ہی موضوع :

ایک وقت میں ایک ہی موضوع رکھنا چاہیے جب بھی آپ مطالعہ شروع کریں تو ایک ہی موضوع رکھیں، جب پہلا موضوع مکمل کرلیں پھر دوسرا موضوع شروع کریں۔

قلم ڈائری پاس ہونا:

مطالعہ کرتے وقت قلم، ڈائری پاس ہونی چاہیے کہ اہم جز نوٹ کیا جاسکے۔

انڈر لائن کرنا :

مطالعہ کرتے وقت قلم پاس ہونا چاہیے کہ اہم چیز کو انڈر کرلیا جائے۔

وقفہ کرنا :

اگر مطالعہ کرنے کو زیادہ دیر ہوگئی ہو تو تھوڑا سا وقفہ کرلینا چاہیے تاکہ جسمانی اعضا کی ورزش ہو جائے۔

مشکل الفاظ پر نشان لگانا :

مطالعہ کرتے وقت مشکل الفاظ پر نشان لگا لینا چاہیے تاکہ بعد میں سنی عالم سے پوچھ لینا چاہیے۔

دوسروں کو بتانا :

جو بھلائی کی با ت مطالعہ کرتے وقت پڑھی ہو اسے ثواب کی نیت سے دوسروں تک پہنچائیے اس سے آپ کے علم میں اضافہ ہوگا۔

خلاصہ تحریر کرنا :

جو آپ نے مطالعہ کیا آخر میں اس کا خلاصہ تحریر کرلیں۔

باوضو بیٹھنا :

پاک صاف باوضو ہو کر مطالعہ کرنے کے لیے بیٹھنا چاہیے۔

شورو غل میں نہ بیٹھنا :

شورو غل سے دور کسی پرسکون جگہ بیٹھنا چاہیے تاکہ مطالعہ اچھی طرح ہوسکے۔


۱۔ آغاز میں حمد و صلوة کرنا

مطالعہ شروع کرنے سے پہلے تعوذ ، تسمیہ اور حمد و صلوة سے آغاز کیجئے کیونکہ جو کام اللہ تعالیٰ کی حمد و صلوة سے شروع کیا جائے وہ پایۂ تکمیل کو پہنچتا ہے

۲۔ قبلہ رو بیٹھنا

مطالعہ کرتے وقت کعبۃ اللہ کی طرف منہ کرنا سنتِ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہے، اسی لیے ہمیں بھی چاہیے کہ جس وقت بھی مطالعہ کرنے بیٹھیں تو قبلہ کی طرف منہ کر لیں تاکہ مطالعہ کرنے کے ساتھ ساتھ سنت مبارکہ کا بھی ثواب ملے۔

۳۔ پرسکون جگہ ہونا۔

مطالعہ کے لیے یہ ضروری ہے کہ پرسکون جگہ پر بیٹھیں،ز یادہ شور کی وجہ سے مطالعہ میں دل جمعی نہیں رہتی۔

۴۔ طبیعت کا ترو تازہ ہونا:

مطالعہ کرتے وقت ذہن حاضر اور طبیعت کا ترو تازہ ہونا بھی ضروری ہے۔

۵۔اچھی روشنی کا ہونا

مطالعہ کرتے وقت اچھی روشنی میں بیٹھنا چاہیے، روشنی اوپر کی جانب سے ہو پیچھے کی جانب سے بھی آئے تو کوئی حرج نہیں جب کہ تحریر پر سایہ نہ پڑے روشنی کا سامنےسے آنا نقصان دہ ہے۔

۶۔ درست انداز پر ہونا:

کسی بھی ایسے انداز میں نہ بیٹھیں جس سے آنکھوں پر زور پڑے مثلا مدھم روشنی میں، چلتے پھرتے یا جھک کر مطالعہ کرنے سے آنکھوں پر زور پڑتا ہے۔

۷۔ باقاعدگی کے ساتھ کاشف مطالعہ:

کسی کتاب کا مطالعہ شروع کریں تو اس کو باقاعدگی کے ساتھ مکمل کرنا چاہیے، یعنی اس کتاب کو چھوڑ کر اور کتاب نہیں پڑھنی چاہیے، پہلے اسے مکمل کریں پھر دوسری شروع کریں۔

۸۔ ایک وقت میں ایک ہی موضوع :

ایک وقت میں ایک ہی موضوع کا مطالعہ بہتر ہوتا ہے زیادہ موضوع پر مطالعہ کرنے سے ایک موضوع بھی اچھے طریقے سے ذہن میں نہیں بیٹھتا۔

۹۔ قلم ڈائری پاس ہونا :

مطالعہ کرتے وقت اپنے پاس قلم کاپی کا ہونا ضروری ہے تاکہ جو بھی اہم پوائنٹ آئے اسے لکھ لیں تاکہ زیادہ دیر تک یاد رہے۔

۱۰۔۔انڈر لائن کرنا :

مطالعہ کرتے وقت قلم پاس رکھیں تاکہ اہم اہم پوائنٹ انڈر لائن کرتے جائیں۔

۱۱۔ وقفہ کرنا :

اگر مطالعہ کرنے کو زیادہ دیر ہوگئی ہو تو تھوڑا سا وقفہ کرلینا چاہیے تاکہ جسمانی اعضا (Parts of Body) كی ورزش ہوجائے اس وقفے کے دوران درود پاک پڑھ لینا چاہیے تاکہ ٹائم کا ضیاع نہ ہو۔

۱۲۔ مشکل الفاظ پرنشان لگانا:

مطالعہ کرتے وقت مشکل الفاظ پرنشان لگا لینا چاہیے تاکہ بعد میں کسی سنی عالم سے پوچھ لینے میں آسانی ہو۔

۱۳۔ دوسروں کو بتانا :

جو بھلائی کی بات مطالعہ کرتے وقت پڑھی ہو اسے ثواب کی نیت سے دوسروں تک پہنچائیے اس سے آپ کے علم میں اضافہ ہوگا۔

۱۴۔ خلاصہ تحریر کرنا :

جب بھی مطالعہ کر لیں تو اس کے بعد جو کچھ پڑھا ہو اس کا خلاصہ تحریر کرلینا ضروری ہے اس سے مطالعہ اچھے طریقے سے ذہن میں بیٹھتا ہے۔

۱۵۔ باوضو بیٹھنا:

جب بھی مطالعہ شروع کریں تو اس سے پہلے استنجاء وضو وغیرہ کرکے بیٹھنا چاہیے تاکہ مطالعہ کے دوران کوئی Disturbence پیدا نہ ہو۔

۱۶۔ شورو غل میں نہ بیٹھنا:

شور و غل سے دور کسی پرسکون جگہ پر بیٹھنا چاہیے تاکہ مطالعہ بہتر Best طریقے سے ہوسکے۔


۱۔ درست طریقے سےمطالعہ کرنے کو باقاعدہ ایک فن کہا جاسکتا ہے درجِ ذیل نکات کو پڑھ کر مطالعے کےد رست طریقے کار کو سمجھا جاسکتا ہے۔

۲۔ ہمیشہ یا مفید مطالعہ کریں صرف وقت گزارنے کے لیے مطالعہ نہ کریں بامقصد مطالعہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے مطالعے پر غور کریں کہ کیا مجھے اس مطالعے سے کوئی دینی یا دنیوی فائدہ حاصل ہوگا۔

۳۔ ضروری کاموں سے فارغ ہو کر مطالعہ کریں مثلاً کھانا، پینا، طبعی حاجات وغیرہ۔

۳۔ موبائل کو بند کرکے کسی ایسی جگہ رکھ دیں جہاں آپ کی نظر نہ پڑے۔

۴۔ پرسکون ماحول میں مطالعہ کریں جہاں شور نہ ہو اور روشنی وغیرہ کا مناسب انتظام ہو۔

۵۔ باادب انداز پر مطالعہ کریں مثلاً باوضو قبلہ رو، بیٹھ کر اور بسم اللہ سے آغاز کریں کیونکہ

کسی نےکہا ہے کہ ماوصل من وصل الا بالحرمة وما سقط من سقط الابترک الحرمۃ یعنی جس نے جو کچھ پایا ادب و احترام کرنے کے سبب ہی اسے پایا اور جس نے جو کچھ کھویا وہ ادب و احترام نہ کرنے کے سبب ہی کھویا۔

(راہِ علم ص ۲۹)

مطالعہ کے لیے ایسا وقت خاص کریں جس میں آپ کا ذہن ترو تازہ ہوجائے صبح ہو، دوپہر ہو یا رات

۷۔ کتاب کون سی پڑھیں؟ اس کے لیے اپنے ذوق و شوق اور استاد سے رہنمائی لیں۔

کتاب کوخود پر حاوی کرنے کے بجائے اسے اپنا بہترین دوست سمجھیں۔

۹۔ دوران مطالعہ اکتاہٹ محسوس ہوتی ہو تو کسی دلچسپ کتاب کا مطالعہ اس کے ساتھ شروع کردیں تاکہ دلچسپی برقرار رہے اور وقت بھی ضائع نہ ہو۔

۱۰۔ اپنے ذہن کو ادھر ادھر بھٹکنے نہ دیں بلکہ کامل توجہ اور غور و فکر کے ساتھ مطالعہ کریں۔

۱۱۔ غلط انداز سے مطالعہ کرنے کے نقصانات میں سے ایک نظر کی کمزوری بھی ہے مثلا پیدل چلتے گاڑی میں سفر کرتے، لیٹے لیٹے یا پھر کافی دیر تک کتاب پر نظر جمائے رکھنے سے آنکھوں پر زور پڑتا ہے، لہذا مطالعے کے دوران وقفے وقفے سے آنکھوں کو کتاب سے ہٹا کر ادھرادھر حرکت دی جائے۔

۱۲۔ کتاب پڑھنے کی دعا

دینی کتاب یا اسلامی کتاب پڑھنے سے پہلے ذیل میں دی ہوئی دعا پڑھ لیجئے ان شا اللہ جو پڑھیں گے یاد رہے گا:

دعا یہ ہے: اللھم افتح علینا حکمتک والنشر علینا رحمتک یا ذوالجلال والاکرام اردو ترجمہ: اے اللہ ! ہم پر علم و حکمت کے دروازے کھول دے اور ہم پر اپنی رحمت نازل فرما ،اے عظمت اور بزرگی والے! (مستطرف ج۱، ص ۴۰ دارالفکر بیروت)

۱۳۔ مطالعے کا درست طریقہ یہ ہے کہ سب سےپہلے پوری فہرست (Index) پڑھیں پھر اول تا آخر کتاب کا مطالعہ اسی انداز پر کریں کہ اہم نکات کوHilight كریں یا کسی ڈائری میں صفحہ نمبر کے ساتھ نوٹ کرلیں، کتاب مکمل کرلینے کے بعد ان ہائی لائٹس یا نوٹ کیے ہوئے نکات کا مطالعہ کریں اور آخر میں دوبارہ فہرست کا مطالعہ کریں، یوں خلاصہ کتب آپ کے ذہن میں جائے گا۔

۱۴۔ آخر میں اللہ کا شکر ادا کیجئے۔


ہر وہ شخص جسے مطالعے کو تھوڑا بھی شوق ہوتا ہے وہ یہ خواہش کرتا  ہے کہ اس کےمطالعے کا معیار بہتر ین اور نتائج خیزہو جائے۔ مطالعہ ہر میدان سے وابستہ افراد کے لیے مفید ہے۔ اس سے ذہنی استعداد و قابلیت میں اضافہ ہوتا ہے، معلومات بڑھتی ہیں اور وسیع النظری پیداہوتی ہے لیکن یہ سب اس وقت ممکن ہوتا ہے جب مطالعہ کو اس کے درست طریقہ کے ساتھ کیا جائے۔مگر مطالعہ اس کے صحیح و درست طریقہ سے نہ کیا جائے تو نہ ہی مطالعے کا معیار ، نتائج ، ذہنی استعداد و قابلیت۔نہ معلومات بڑھتی ہے نہ وسیع النظری پیداہوتی ہے۔چنانچہ یہاں مطالعہ کرنے کے چند اصول و طریقے بیا ن کئے جاتے ہیں۔

مطالعہ کے اصول :

٭کام کوئی بھی ہو باقاعدگی اور مستقل مزاجی کامیابی کے امکانات بڑھا دیتی ہے۔ مشکل سے مشکل کام بھی استقامت کے ساتھ کیا جائے تو ایک کے بعد دوسری رکاوٹ دور ہونے لگتی ہے۔ اسی اصول کو مطالعے پر بھی لاگو کیا جا سکتا ہے۔

٭ مطالعہ کا آغاز کرنے سے پہلے مقصد طے کر لینا چاہیےکچھ لوگ اس طرح مطالعہ کرتے ہیں گویا وقت ضائع کر رہے ہوں دل جمعی اور حاضر دماغی کے بغیر مطالعہ وقت کا ضیاع ہی تو ہے۔

٭مطالعے کے لیے سب سے پہلے علیحدہ اور پُرسکون ماحول کو یقینی بنائیں۔ ایسا ماحول جس میں شور نہ ہو، روشنی مناسب ہو، درجہ حرارت بہت زیادہ یا کم نہ ہو اور بیٹھنا تکلیف دہ نہ ہو۔

٭ عام طور پر مطالعے کے دوران وقفوں کی ضرورت پیش آتی ہے۔اس سے آپ کے ذہن، اعضا اور آنکھوں پر بلاوجہ بوجھ نہیں پڑتا۔

٭ایک باب پڑھنا ہے یا نصف، اس کا تعین زیادہ آسانی پیدا کرے گا۔ البتہ کسی باب کے اہم الفاظ، جملوں یا مرکزی خیال کو ذہن نشین لازماً کیجیے۔ ایک خلاصہ آپ کے ذہن میں ہونا چاہیے، اسے لکھ لینا بہتر ہے۔ مطالعے کو بوجھ سمجھنے کی وجہ سے بہت سے لوگ اس سے محظوظ ہونے سے قاصر رہتے ہیں۔

٭مطالعہ کرنے کے لیے اسے پُرلطف بنانا ضروری ہے۔ دورانِ مطالعہ توجہ مرکوز کرنے کے لیے کچھ شعوری کوشش بھی درکار ہوتی ہے۔ اگر آپ کا ذہن پہلے سے کسی مسئلے میں الجھا ہے تو اسے جھٹک دیں، یا حل کر لیں ورنہ دوران مطالعہ ذہن منتشر ہو گا اور مطالعہ ایک بے کار سرگرمی بن کر رہ جائے گا۔

٭توجہ ہٹانے والی چیزیں پہلے ہی اپنے سے دور کردیں مثلاًً شورو گل ، موبائل فون ٹیلی ویژن اگر چہ بند آواز کے ساتھ ہو کیونکہ ٹیلی ویژن یا موبائل کی سکرین آن ہو تو نظروں کا بار بار اس جانب اٹھنا عین ممکن ہے۔

٭مطالعہ کے وقت آپ کے پاس وہ سب کچھ ہونا چاہیے جس کی آپ کو ضرورت پیش آ سکتی ہے اور کوئی غیر ضروری شے نہیں ہونی چاہیے۔ مثلاً سمارٹ فون کی ضرورت نہیں تو اسے اپنے سے دور کر دیں۔


ہر کام کا اُصول ہوتا ہے:کسی کام کو اس کے اُصول و ضوابط کے تحت کیا جائے تو وہ کام کار آمد و مُفید ثابت ہوتا ہے ، ورنہ نفع تو درکنار نقصان ہوتا ہے، یہی معاملہ مطالعہ کا ہے، اس لئے مطالعہ کرنے کے طریقے اور اُصول جاننا ضروری ہے۔

(1) جگہ اور وقت کا تعیّن:مطالعہ کے لئے سازگار ماحول کا ہونا بہت مفید ہے، لہذا ایسی جگہ مطالعہ کیا جائے جو پُرسکون ہو اور ہر کسی کی دخل اندازی کا اندیشہ نہ ہو، پھر وقت کا تعین بھی ضروری ہے، مقولہ ہے:"تَوْزِیْعُ الْوَقْتِ تَوْسِیْعُ الْوَقْتِ" یعنی وقت کی دُرست تقسیم کاری وقت کو وُسعت دیتی ہے" لہذا ایسا وقت مقرر کیا جائے، جو مطالعہ کے لیے زیادہ فائدہ مند ہو۔

(2) ذہنی یکسوئی: مطالعہ کرنا کمال نہیں بلکہ اُسے یاد رکھنا کمال ہے، لہذا اسے طویل عرصے تک یاد رکھنے کے لئے ذہنی اِنہماک، طبیعت کی تروتازگی اور یکسوئی کے ساتھ مطالعہ کیا جائے۔

(3)روحانی آداب:مطالعہ شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ شریف اور دُرود پاک پڑھ لیں، بوقتِ مطالعہ قبلہ رُخ بیٹھا جائے، دورانِ مُطالعہ نظر جھُکا کر کُچھ دیر ذَکرو دُرود پڑھا جائے، باوُضو مطالعہ کیا جائے۔

(4)تکرار:کسی کتاب کا ایک بار مطالعہ کر لینے سے سارا مضمون یاد رکھنا مشکل ہے، لہذا بار بار پڑھا جائے، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:" ہر بار کے مطالعہ میں نیا لُطف آتا ہے اور ہر مرتبہ نئے فوائد اور نکات ملتے ہیں۔"( کُچھ دیر طلباء کے ساتھ، ص131)

(5) حاصلِ مطالعہ:مطالعہ کرنے کے بعد خُود سے سوال کریں کہ آپ نے کیا سیکھا ، کیا حاصل کیا، نیز مطالعے سے حاصل شُدہ نکات، نئے الفاظ، دِلکش اور مؤثر جُملے، مُحاورات اور تحقیق طلب الفاظ لکھتے ر ہیں، کُچھ عرصے کے بعد آپ کے پاس بہت سا مواد جمع ہو گا۔


مطالعہ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ”غورو فکر“ اور” توجہ و دھیان“ کے ہیں ۔ یعنی کسی چیز کو جاننے اور اس سے واقفیت پیدا کرنے کی غرض سے اسے دیکھنا ، پرکھنا اور سمجھنا ۔ عام طور پر مطالعہ کتاب بینی اور صفحات کو پڑھنا ہے۔ گویا کہ مطالعہ کا مفہوم کچھ یوں ہوا کہ کتابوں کو پڑھ کر انہیں سمجھنا اور ذہن نشین کرنا۔ فی زمانہ مطالعہ کی جدید صورتیں بھی متعارف ہو رہی ہیں مثلًا سوشل میڈیا ، پی-ڈی- ایف وغیرہ ۔ لیکن کتابی مطالعہ بھی اپنی خاص اہمیت کا حامل ہے۔ کتب بینی کا انداز عمومی طور پر ہر ایک کا جداگانہ ہوتا ہے۔ بزرگانِ دین کا طریقہ مطالعہ دیکھا جائے تو نہایت اعلٰی اور عمل پیرا ہونے کے لیے کافی مشکل معلوم ہوتا ہے ۔ کیونکہ دن کا بیشتر حصہ مطالعہ میں گزرتا اور یہی وجہ تھی کہ کثرتِ مطالعہ اور اس پر عمل نے زندگی گزارنے کے ڈھنگ سے آگاہ کیا۔ البتہ مطالعہ کا شوق پیدا کرنے کے لیے ہر وقت کتب میں مستغرق رہنا لازم نہیں ۔ بلکہ ابتداعاً اپنے لیے مخصوص کتب کو چنا جائے جس میں واقعات، کہانیاں، اور مزاح ہو۔ یاد رہے کہ واقعات، کہانیاں، اور مزاح پر مشتمل مواد اسلامی اور سبق آموز ہو نہ کہ عشقیہ و فسقیہ اور بے ہودہ ناولوں کا کباڑ ہو کہ دین و دنیا دونوں تباہ کریں۔ مطالعہ کے لیے مختصر وقت کو معین کرے کہ اگر شروع ہی میں زیادہ وقت دے گا تو عین ممکن ہے کہ مطالعہ سے جی بھر جاۓ اور چھوڑ دے۔ بلکہ مختلف موضوعات پر دو یا تین کتب کو چنے اور پھر طبیعت کے مطابق وقفاً فوقفاً یا پھر ایک ہی وقت میں پہلی کتاب کے چند صفحات پڑھ کر دوسری کتاب سے مطالعہ کرے۔ اس طرح بدل بدل کر مختلف موضوعات کو پڑھنے سے ذہن چست اور دل خوش رہے گا ورنہ ایک ہی موضوع پر ایک ہی وقت میں کثرتِ مطالعہ ڈہن کو تھکا اور دل بیزار کر دیتا ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ جو بھی مطالعہ کیا جائے اس میں موجود اہم معلومات اور مشکل الفاظ بمعنی لکھتا رہے اور وقتاً فوقتاً انھیں بھی پڑھتا رہے۔ اس عمل کے ذریعے نئے الفاظ کے استعمال کرنے اور خاص معلومات کے ذہن نشین ہونےمیں مدد ملے گی۔ کیونکہ مطالعہ کا مقصد فقط کتاب کے کالے حروف کا پڑھنا اور صفحات گننا نہیں بلکہ علم کو دل و دماغ میں راسخ کر کے عملی جامہ پہنانا ہے ۔ مطالعہ کیا گیا مواد ذہن نشین کرنے کے لیے ایک مفید عمل یہ بھی ہے کہ جو سیکھا اسے دوسروں کو بھی سکھایا جائے۔ انسان نیکی کی دعوت اور برائی سے منع اس وقت ہی کرنے کے قابل ہو گا جب خود نیکی و بدی کا علم رکھتا ہو ۔ اسی لیے نیکی کی دعوت دینے اور برائی سے منع کرنے اور اسی طرح دیگر اصلاحی کتب کا مطالعہ کرکے اپنی بھی اصلاح کرے اور ساری دنیا کے لوگوں کی بھی اصلاح کرے ۔ کیونکہ مطالعہ کر کے کچھ حاصل ہی نہ کیا تو پھر مطالعہ کرنے کا مقصد کیا ؟ ڈاکٹر اقبال رحمۃُ اللہِ علیہ نے کیا خوب کہا ہے :

تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کے تو

کتاب خواں ہے مگر صاحبِ کتاب نہیں


مندرجہ بالا موضوع کے بارے میں ہر بندے کی نظر کا زاویہ الگ الگ ہوتا ہے لہذا میرے مطابق دینی کُتُب کا مطالعہ بھی علمِ دین حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے لیکن مطالعہ کرنے کے کچھ اُصُول و قوانین ہوتے ہیں ایسا نہیں ہو سکتا کہ کوئی شخص مطالعہ کرنا شروع ہی فتاوی رضویہ سے کرے کہ نہیں بھئ میں تو فتاوی رضویہ ہی پڑھوں گا تو پھر اس کو مطالعہ کرتے وقت صرف نیند ہی آئے گی اور کچھ نہیں ہو گا،  اسی لیے ذیل میں دیے گئے اصول و قوانین پر عمل کرنا اِن شآءَ اللہ مفید ثابت ہو گا۔

1) سب سے پہلے اللہ تبارک و تعالٰی سے مطالعہ کرنے کی توفیق طلب کی جائے۔

2) طالبُ العلم کو چاہیے کہ جب بھی وہ مطالعہ کرنے بیٹھے تو بسم اللہ اور کتاب پڑھنے کی دعا: اَللَّھُمَّ الفْتَحْ عَلَیْنَا حِکْمَتَکَ وَانْشُرْ عَلَیْنَا رَحْمَتَکَ یَا ذَالْجَلَالِ وَ الاِکْرَامِ بھی پڑھ لے۔

3) اب جس بھی کتاب کا مطالعہ کرنا چاہتا ہے اُس کی فہرست (INDEX) کو ایک مرتبہ بغور پڑھ لے فہرست کو پڑھنے کے دوران کئی ایسے دلچسپ عنوانات آئیں گے جن کو آپ پڑھنے کے لیے بے چین و بے قرار ہوں جائیں گے لیکن اس وقت آپ اپنے آپ کو قابو میں رکھیئے۔

4) فہرست کا مطالعہ کرنے کے بعد اُس کتاب کی تمام جلی سُرخیوں (MAIN HEADINGS) اور خفی سُرخیوں (SUB HEADINGS) کو بغورِ نظر پڑھ لیجیے۔اب اس کتاب کا باقاعدگی کے ساتھ مطالعہ شروع کر دیجئے اور دورانِ مطالعہ اہَم اہَم اُصول اور مسائلِ فقہیہ کی دو تین بار تکرار کر لیجیئے، زہے نصیب اَنڈر لائن بھی کر لیجیئے اور اگر ہو سکے تو اُس اُصول و مسئلے كو لکھ کر محفوظ بھی کر لیجئے کہ جو چیز لکھ لی جاتی ہے وہ قرار (مضبوطی) پکڑ لیتی ہے۔

6) اگر کوئی بھی بات یا مسئلہ سمجھ میں نہ آئے تو میرے استاذ صاحب فرمایا کرتے ہیں کہ اس کتاب کے مصنّف و مؤلّف کو ایصالِ ثواب کر دو مسئلہ سمجھ میں آجائے گا اگر پھر بھی نہ آ ئے تو " فَسْئـلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَۙ(۴۳) ترجمہ کَنْزُالاِیِمان : علم والوں سے پوچھو! اگر تم نہیں جانتے" پر عمل کر لیا جائے۔

7) طالبُ العلم کو چاہیے کہ وہ جس درجے میں ہے اور جونسی کتاب اس کو پڑھائی جارہی ہے اس سے مُتعلِّق مطالعہ کرے کہ یہ بہت مفید ہے مثال کہ طور پر اگر طالبُ العلم ثانیہ میں ہے اور فقہ میں اس کو نور الایضاح پڑھائی جارہی ہے تو اس کو چاہیے کہ نور الایضاح میں اس کا جونسا باب جاری ہے اسی کو مراقی الفلاح سے امداد الفتّاح سے طحطاوی سے بہارِ شریعت سے پڑھ لے اور اگر ہو سکے تو اسی سے متعلق چند فتاواجات فتاوی رضویہ سے بھی مطالعہ کر لے۔


کسی کام کو اس کے اصول و ضوابط کے تحت کیا جائے تو وہ کارآمد و مفید ثابت ہوتا ہے ورنہ نفع تو درکنار نقصان ضرور ہوتا ہے۔ یہی حال مطالعے کا ہے جہاں ایک طرف اپنے موضوع اور کتب کا انتخاب بہت ضروری ہے تو دوسری طرف انہیں پڑھنے کے طریقوں اور اصولوں سے بھی کسی قدر واقفیت ضروری ہے۔ یہاں ہم مطالعہ کرنے کا درست طریقہ اور اس کے چند آداب کا ذکر کریں گے جنہیں ملحوظ رکھتے ہوئے مطالعہ کیا جائے تو ضرور اس کے خاطر خواہ فوائد اور منافع حاصل ہوں گے۔

(01) اللہ پاک کی رضا اور حصولِ ثواب کی نیت سے مطالعہ کیجئے (02) مطالعہ شروع کرنے سے قبل حمد و صلوٰۃ پڑھنے کی عادت بنائیے اور باوضو ہو کر مطالعہ کیجئے تاکہ خیرو برکت حاصل ہو (03)قبلہ رو ہو کر مطالعہ کیجئے کہ اس سے حافظہ قوی ہوتا ہے اور قبلہ رو ہو کر بیٹھنا سنت مبارکہ بھی ہے (04) اپنے مطالعہ کرنے کا ٹائم مقرر (Fix) کریں اور پھر اسی مقررہ وقت پر مطالعہ کریں، وقت وہ رکھیں جس میں آپ کا ذہن پرسکون ہو، تروتازہ ہو اور توجہ آپ کی باقی ہو۔

صبح کے وقت مطالعہ کرنا بہت مفید ہے کیونکہ عموماً اس وقت نیند کا غلبہ نہیں ہوتا اور ذہن زیادہ کام کرتا ہے (05) شوروغل سے دور پر سکون جگہ پر مطالعہ کیجئے (06) جلد بازی یا ٹینشن (یعنی پریشانی) کی حالت میں مطالعہ نہ کیجئے کیونکہ اس وقت آپ کا ذہن کام نہیں کرے گا اور غلط فہمی کا امکان بڑھ جائے گا (07) کسی بھی ایسے انداز پر جس سے آنکھوں پر زور پڑے مثلاً بہت مدہم یا تیز روشنی میں یا چلتے چلتے یا چلتی گاڑی میں یا لیٹے لیٹے یا کتاب پر جھک کر مطالعہ کرنا آنکھوں کے لیے مضر (یعنی نقصان دہ) ہے۔ بلکہ کتاب پر خوب جھک کر مطالعہ کرنے یا لکھنے سے آنکھوں کے ساتھ ساتھ کمر اور پھیپھڑوں کی بیماریاں بھی ہو جاتی ہیں (08) کوشش کیجئے کہ روشنی اوپر سے آ رہی ہو، پچھلی طرف سے آنے میں بھی حرج نہیں جبکہ تحریر پر سایہ نہ پڑتا ہو مگر سامنے سے آنا نقصان دہ ہے (09) مطالعہ کرتے وقت ذہن حاضر اور طبیعت تروتازہ ہونی چاہیے (10) صرف آنکھوں سے نہیں بلکہ زبان سے بھی پڑھیئے کہ اس طرح یاد رکھنا بہت آسان ہے(11) وقفے وقفے سے آنکھوں اور گردن کی ورزش کر لیجئے کیونکہ مسلسل ایک ہی جگہ دیکھنے سے آنکھیں تھک جاتیں اور گردن بھی دکھ جاتی ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ آنکھوں کو دائیں بائیں، اوپر نیچے گھمائیں۔ اسی طرح گردن کو بھی آہستہ آہستہ حرکت دیجیئے(12) اسی طرح کچھ دیر مطالعہ کر کے درود شریف پڑھنا شروع کر دیجئے اور جب آنکھوں وغیرہ کو آرام مل جائے پھر مطالعہ شروع کر دیجئے (13) وقت مطالعہ ضرورتاً قلم ہاتھ میں رکھنا چاہیئے کہ جہاں آپ کو کوئی بات پسند آئے یا کوئی ایسا جملہ یا مسئلہ جس کی آپ کو بعد میں ضرورت پڑ سکتی ہو، ذاتی کتاب ہونے کی صورت میں آپ اسے انڈرلائن (underline) کر سکیں (14) اگر آپ مطالعہ یاد رکھنا چاہتے ہیں تو جو پڑھا اسے ثواب کی نیت سے دوسروں تک پہنچائیے اس طرح ان شاءاللہ عزوجل آپ کو یاد ہو جائے گا۔


مطالعہ کیا ہے:

کسی چیز کو اس سے واقفیت حاصل کرنے کے لئے دیکھنا مطالعہ ( study ) کہلاتا ہے۔

ہر کام کرنے کےکئی طریقے ہوتے ہیں مگر کچھ most benefit (بڑے ہی فائدے مند ) ہوتے ہین، اگر ان پر عمل کیا جائے تو کم وقت مین بڑے فوائد ہاتھ آتے ہیں۔

مثلا دو مزدوروں کے درمیان 500 blocks فلیٹ کے 3rd floor پر پہچانے کا مقابلہ ہوا ۔ایک نے وہ بلوکس صرف 6 گھنٹے مین پہنچادئیے، جبکہ دوسرے نے وہی بلوکس 8 گھنٹے میں پہنچائے۔

جب دونوں سے کام کے طریقہ کار کے حوالے سے پوچھا گیا تو پتا چلا پہلے کو کام کا درست طریقہ آتا تھا کہ وہ ہر 1 گھنٹے بعد 10 سے 15 منٹس کا وقفہ لیتا پھر دوبارہ new energy کے ساتھ کام شروع کرتا، جبکہ دوسرے کو تو کام کا سلیقہ بھی نھی تھا کہ non stop لگا رھتا جب تھک جاتا تو چائے کی چسکی لے کر پھر سے لگ جاتا ۔

اسی طرح مطالعہ کرنے کے بھی کچھ ایسے طریقے ہیں جو اپنی مثال آپ ہیں ان مین سے ایک طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔

مطالعہ کے لیے کچھ مبادیات ( bacis ) اور کچھ ضروریات (Requirements ) ہیں۔

مبادیات ( Bacis)

1:باوضو قبلہ منہ ہوکر بیٹھنا

2️:ایسی جگہ بیٹھنا جہان نا زیادہ سردی ہو نا گرمی

3️:آپ حالت کی معتدل condition ہو۔ نا پر مسرت و پر غم ، نا تھکان و نیند کا غلبہ، نا زیادہ بھوک لگی ہو اور نا ہی زیادہ پیٹ بھرا ہو۔

4️:ایک عدد پین اور note book پاس ہو

5️: ایک ٹائم فکس کرنا جیسے بعد مغرب ۔

6️: بسم اللہ شریف سے آغاز کرنا ۔

ضروریات (Requirements)

1️: اولا کتاب کا انتخاب (با مقصد کتاب)

2: جو کتاب پڑھنی ہے اسے different parts مین divide کرلیں مثلا 400 صفحات کی کتاب ہے روزانہ کم سے کم 20 صفحات کا مطالعہ کرنا ۔

3️: اولاً فہرست کو بغور پڑھنا پھر بالاستیعاب اول تا آخر پڑھ کر دوبارہ فہرست کو پڑھنا اب جو مضمون یا مسئلہ یاد نا ہو صرف اسی کو پڑھنا۔

4: اہم نکات note book میں note کرنا یا underline کرنا ۔

5️: جو پڑھ رہے ہیں اس میں آپ نے آ پ کو envolve (شامل) کرلینا اس طرح کہ کہیں نہ کہیں اس مضمون میں میرے متعلق بات ہورہی ہے ۔ ماہر نفسیات کے مطابق جس چیز میں اپنی ذات کو شامل کرلیا جائے وہ زیادہ دیر تک یاد رھتی ہے ۔

6️: دوران مطالعہ قابل حفظ امور کو بار بار دھرا کر یاد کرلینا۔ مثلا قرآنی آیت ، احادیث یا اصول وغیرہ۔

7️: مطالعہ کرنے کے بعد حاصل مطالعہ کو آہستہ آواز میں دہرالینا یا کسی کو سنا دینا ۔

8️: مسلسل نہ پڑھتے رہنا 45 یا 50 منٹ کے بعد 10 منٹس کا وقفہ لے لینا۔ ماہرین کے مطابق اوسطا 50/55 minutes کے بعد concentration level نیچے آنا شروع ہوجاتا جب آپ درمیان میں وقفہ لے لیں گے تو concentration level ReNEw ہوجائے گا اور آپ کو کم وقت لگے گا ۔

ماہنامہ فیضان مدینہ کے محترم قارئین کرام اگر اپ اس طرح مطالعہ کرنے کی عادت بنا لیں تو ان شاء اللہ آپ کم وقت میں زیادہ موثر مطالعہ کر کر دیگر لوگوں پر علم کے اعتبار سے فائق ہوسکتے ہیں ۔


غور وتدبر کے میدان میں ہر دوسرا دماغ اس خلفشار کا شکار ہے کہ مطالعہ کرنے کا درست طریقہ کیا ہے؟یہ سوال ہر اس شخص کے ذہن میں آتا ہے جو تحریر و تقریر کے شعبہ سے دلچسپی رکھتا ہے ۔ مطالعہ کے بغیر لکھنے میں نکھار آتا ہے نہ تقریر میں سنوار، اس ضمن میں اگر کوئی محقق و مفکر ان تین چیزوں کو ملحوظ رکھے تو وہ مطالعہ کے میدان میں کافی حد تک کامیاب ہو سکتا ہے۔

۱۔مطالعہ کتنا ہونا چاہیئے۔۔۔۔۔۔؟

۲۔مطالعہ کس طرح ہونا چاہیئے۔۔۔۔۔؟

۳۔مطالعہ کتنی دیر اور کب تک ہونا چاہیئے۔۔۔۔۔۔؟

۱۔مطالعہ کتنا ہونا چاہیئے۔۔۔۔۔؟

مطالعہ ہمیشہ ذوق کا محتاج ہوتا ہے۔اگر ذوق پیدا ہو جائے تو نہ دماغ تکھتا ہے اور نہ ہی دل بھرتا ہے۔اگر مطالعہ کا ذوق و شوق ہو تو اچھی کتاب سے لے کر کاغذ کی اس پڑیا تک جس میں آدمی ہلدی مرچ لے کر آتا ہے سبھی کو ایک نظر دیکھنے کا جی چاہتا ہے اگر ذوق نہ ہو تو سامنے پڑی کتاب کو دیکھتے ہی اباسی آنے لگتی ہے یا تو پھر تھکن محسوس ہونے لگتی ہے اور سر بوجھل ہونا شروع ہو جاتا ہے۔اب کس طرح پتا چلے کہ ہمارے اندر ذوق مطالعہ ہے بھی یا نہیں،تو جلدی جلدی اپنے آپ سے سوال کیجئے کہ کیا جس مسجد میں میں روزانہ پانچ وقت نماز ادا کرنے جاتا ہوں اس کے داخلی دروازہ اور دیواروں پر کنندہ فرامینِ مصطفٰی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مجھے یاد ہیں؟،کیا اس ماہنامہ فیضان مدینہ۔جو کہ ابھی میرے ہاتھ میں ہے ۔اسے کھولنے سے پہلے میں نے اس کی رنگین سرخیوں میں موجود فرمان امیر اہلسنت پڑھا؟ یا فہرست کھنگال کر فقط اپنے مزاج کے متعلق مضمون کھولا۔کیونکہ اس پر کچھ بھی فضول نہیں لکھا ہوا! اسی طرح کاغذ کا ہر ٹکڑا ایک نظر کا محتاج ہوتا ہے۔

پیارے پیارے اسلامی بھائیو! اگر اس طرح ہے تو پھر ہمارے اندر ذوق مطالعہ ہی نہیں جو کہ بنیاد ہے۔

ذوق مطالعہ کیلئے ہرگز یہ دلیل نہیں کہ آراستہ و چمکدار کمرہ ہو،چمک دار جلد کی کتابیں ہوں،چار رنگی طباعت ہو،صاف شفاف میز ہو اور آگے پیچھے جھولتی ہوئی کرسی ہو، جنہیں قدرت نے ذوق مطالعہ سے نوازا ہے وہ گلی میں لگے بلب کی روشنی اور اصطبل میں گھوڑوں کے ہنہنانے کے شور کی موجودگی میں بھی اپنی تسکین کر لیتے ہیں جنہیں مطالعہ سے وحشت ہوتی ہے وہ طویل و عریض آرام گاہ میں موجود قیمتی فانوس سے بھی استفادہ نہیں کر پاتے۔

۲۔مطالعہ کس طرح کا ہو نا چاہیاس کا جواب ہے"وسعت مطالعہ"موضوع اور کتاب کا مرحلہ بہت دیر بعد آتا ہے۔پہلے پہل مختصر رسائل وغیرہ کا مطالعہ کیا جائے جیسا کہ مکتبہ المدینہ کے ہفتہ وار رسائل، اس کے بعد مرحلہ وار ٹھوس تحقیقی مواد۔ پھر ایک مدت کے بعد ایک مرحلہ آتا ہے کہ مطالعہ کرنے والا کتاب دیکھ کر سارا متن و مفہوم سمجھ جاتا ہے۔ابتدائی دور میں رکنے یا بس کرنے کی کوئ قید نہیں رکھنی چاہئے۔ مطالعہ میں وسعت آئے گی تو ہی انتخاب کی نوبت آئے گے۔ درجنوں کتابوں میں سے ایک آدھ مواد ہی ذہن میں اترتا ہے جیسا کہ دستر خوان پر موجود مختلف کھانوں میں سے فقط ایک دو کا ہی انتخاب کیا جاتا ہے اگر کھانا ہی ایک ہو تو انتخاب کیسا؟

۳۔مطالعہ کتنی دیر اور کب تک ہونا چاہیئے۔۔

عمر بھر! وہ شخص کبھی عالم نہیں ہو سکتا جو زندگی کے کسی بھی مرحلے پر اپنے آپ کو عالم و کامل سمجھ کر مطالعہ ترک کر دے۔ہمارے معاشرے میں اکثر نام نہاد علامہ کہلانے والے جب مسندوممبر پر چند جملے ادا کرتے ہیں تو فوراً پتا چل جاتا ہے کہ وہ علامہ کتنے ہیں اور الاہمہ کس قدر! ایک سچا عالم کبھی بھی مطالعہ سے جی نہیں چراتا وہ بستر مرگ پر بھی کتاب سے مستغنی نہیں ہوتا،کھانے پینے اور آکسیجن سے کہیں زیادہ اس کے لئے مطالعہ ضروری ہوتا ہے۔ اہل ذوق اس بات سے با خوبی آگاہ ہونگے کہ مطالعہ کے دوران وقت کے گزرنے،بھوک اور پیاس کا کوئی احساس نہیں ہوتا۔بہر حال کوئ ہلدی کی گانٹھ ملنے پر پنسار ہونے کا تو دعویٰ کر سکتاہے لیکن کوئپ درجن ڈیڑھ کتابیں اور سال چھ مہینے مطالعہ کرکے اچھا ادیب اور اچھا خطیب نہیں بن سکتا اس بات کو اس طرح سمجھئیے کہ امام غزالی ۳۷ اڑتیس سال کی عمر میں جامعہ نظامیہ بغداد کے وائس چانسلر کے عہدے سے الگ ہو کر غور و فکر اور مطالعے کے شوق میں شہر سے نکل گئے، دس سال بعد واپس ہوئے اور۵۵ پچپن سال کی عمر میں وفات پائی۔درمیانی سات سال میں قلم اٹھایا اور بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑانے کیلئے پرعزم ہو گئے اور پھر اہل جہاں نے دیکھا کہ اپکی نوکِ قلم سے "تہافت الفلاسفہ"،"المنقد الضلال"،"کیمیائے سعادت"اور احیاءالعلوم جیسی کتابیں نکلیں جنہوں نے فلاسفئہ یونان کا بھیجا ہلا دیا،گویا امام غزالی جیسی شخصیت بھی مطالعے کی محتاج اور حق

کی آرزو مند ہے۔

میرا جو اسلامی بھائی یہ چاہتا ہے کہ اس کے قلم میں ذائقہ اور زبان میں رونق آجائے تو اسے چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ مطالعہ کرے۔جس سے اسے رب ذوالجلال حق و باطل میں تمیز،جھوٹ و سچ میں امتیاز،اعلٰی و ادنٰی میں فرق اور معیاری و بازاری کتابوں میں حدِفاصل قائم کرنے کی قوت عطا فرمائے گا۔


کسی بھی کام کو اس کے اصول و ضوابط کے تحت  کیا جائے تو وہ کارآمد و مفید ثابت ہوتا ہے ورنہ نفع درکنار نقصان ضرور ہوتا ہے۔

یہی معاملہ مطالعہ کا ہے کہ جہاں ایک طرف اپنے موضوع اور کتب کا انتخاب ضروری ہے تو دوسری طرف انہیں پڑھنے کے طریقوں اور اصولوں سے بھی کسی قدر واقفیت لازمی ہے، یہاں ہم بعض ایسی چیزیں بیان کریں گے کہ اگر انہیں ملحوظ رکھتے ہوئے مطالعہ کیا جائے تو ضرو راس کے خاطر خواہ فوائد و منافع حاصل ہوں گے۔

کتاب اور نصاب کی تعین :

یہ تو ظاہر سی بات ہے کہ انسان اپنے مطلوبہ موضوع پر ساری کتابیں نہ حاصل کرسکتا ہے اور نہ ہی پڑھ سکتا ہے اور پڑھنی بھی نہیں چاہیے حسبِ ضرورت معین اور مستند کتابوں کو پڑھ کر علمی صلاحیت کو پختہ کرنا یہ کافی ہے، جس طرح کتاب کی تعیین مطالعے کو آسان بناتی ہے اسی طرح نصاب کی تعیین بھی مطالعے کو آسان بناتی ہے، اب کتابوں کا نصاب زائد کتابوں سے بھی بنتا ہے اور مخصوص چند کتابوں سے بھی بنتا ہے، اگر نصاب ایک ہی کتاب یا چند مخصوص مستند کتابوں کا حصہ بھی ہو تو یہ بھی علوم و فنون کی ابحاث سے استفادہ کا بہترین ذریعہ بن سکتا ہے۔

وقت اور جگہ کی تعین :

بہترین طریقے سے مطالعہ کے لیے وقت اور جگہ کا تعین ہونا بھی ضروری ہے، مطالعے کے لیے ایسی جگہ کا تعین کیا جائے جہاں شورو غل نہ ہو اور ایسی بلند آوازیں جیسے ریڈیو، ٹی وی ، اسپیکرز وغیرہ یا کام کاج کر نے والوں کی شور مچاتی آوازیں بھی نہ ہوں جو آپ کے مطالعے میں خلل کا باعث بن رہی ہو۔جگہ کے ساتھ ساتھ وقت کا تعین ہونا بھی ضروری ہے کیونکہ مطالعے کے لیے (Timetable)بنانے اور وقت خاص کرنے سے وقت کی کمی کا مسئلہ کافی حد تک حل ہوسکا ہے۔

ایک مشہور مقولہ ہے، توزیع الوقت تو سیع الوقت یعنی وقت کی درست تقسیم کاری وقت کو وسیع کردیتی ہے۔

کچھ اوقات ایسے ہیں جن میں مطالعہ زیادہ مفید ہوتا ہے جیسے صبح کا وقت کیونکہ عام طور پر اس وقت نیند کا غلبہ نہیں ہوتا اور ذہن بھی زیادہ کام کرتا ہے، صبح کے نشاط ( فرحت) سے بھرپور اوقات میں زیادہ تر ایسی کتب کا مطالعہ کیا جائے جو گہرے غور و فکر کی متقاضی ہوں۔

ذہنی انہماک اور یکسوئی کا لحاظ (Concentration)توجہ کے ساتھ مطالعہ کرنا:

مطالعے کو طویل عرصے تک ذہن میں محفوظ رکھنے کے لیے مطالعہ ذہنی انہماک طبیعت کی ترو تازگی اور یکسوئی کے ساتھ کرنا نہایت ضروری ہے، دوران مطالعہ دل کا حزن، ملال، نیند کاغلبہ شکم سیری Tension جلد بازی،بے رغبتی بے توجہی بھوک پیاس کی شدت تھکاوٹ اور دیگر الجھنیں بھی یکسوئی کو متاثر کرتی ہیں، الغرض ہر وہ چیز جو ذہنی یکسوئی اور باریک بینی و توجہ کے ساتھ مطالعہ کرنے کے منافی ہو ان سب سے الگ و فراغت کے بعد ہی مطالعہ اچھی طرح ذہن نشین ہوسکے گا۔

روحانی آداب کا اہتمام:

مطالعے کو مفید بنانے کے لیے کچھ روحانی آداب بھی ہیں اگر ان کا اہتمام کیا جائے تو سکونِ قلب اور راحتِ جسمانی کا سامان ہوگابعض روحانی آداب درج ذیل ہیں۔

۱۔ مطالعہ شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ شریف او ر درود پاک پڑھ لیں تاکہ خیر و برکت شامل ہوجائے۔

۲۔ بوقتِ مطالعہ قبلہ رو بیٹھنا یہ بھی ایک مستحسن عمل ہے۔

۳۔ مطالعے سے حاصل شدہ خیر و بھلائی والی باتیں دوسروں تک پہنچائی جائیں اس سے نہ صرف مطالعہ کرنے والے کو یاد رہے گا بلکہ نیکی عام کرنے کا ثواب بھی پائے گا۔

۴۔ مطالعے سے قبل وضو نیز موسم گرما میں غسل ٹھنڈک بھی کیا جاسکتا ہے،

امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:

پھر اس کی تائید تمام فقہائے کرام کے اس اطلاق سے ملتی ہے کہ وہ فرماتے ہیں: وضو اور غسل ٹھنڈک حاصل کرنے کے لیے کرنا حالانکہ ٹھنڈک حاصل کرنا کبھی اس غرض سے بھی ہوتا ہے کہ انسان عبادت میں پرسکون رہے، یا مطالعہ اطمینان سے کرسکے اور بلاشبہ اس صورت میں یہ عبادت ہوگا، کیونکہ ہر مباح جائز کام جو انسان خیر کی نیت سے کرے خیر ہے۔

(فتویٰ رضویہ ج۲، ص ۶۰)

آلاتِ علم کا ادب :آلاتِ علم سے مراد کتاب ، قلم روشنائی کاپی اور دوات

(Inkpot) وغیرہ ہیں کہ مطالعہ کرنے والے کو ان اشیا کا ادب اور طریقہ استعمال بھی آنا چاہیے۔ بے ادبی کے ساتھ اگرچہ علم حاصل ہو بھی جائے مگر بندہ علم کے فیوض و برکات اور حلاوت و فوائد سے محروم رہتا ہے،شیخ امام برہان الدین علیہ الرحمہ اپنے مشائخ میں سے ایک بزرگ کی حکایت بیان کرتے ہیں کہ ایک فقیر کی عادت تھی کہ دوات کو کتاب کے اوپر رکھ دیا کرتے تھے تو شیخ نے ان سے فارسی میں فرمایا۔ برنیابی، یعنی تم اپنے علم سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔( تعلیم المتعلم طریق التعلم مترجم ص ۶۰)

یونہی کتاب کو زمین پر رکھ دینا اس کا تکیہ بنانا اس کی طرف پاؤں کرنا وغیرہ بھی بے ادبی ہے، جتنا ادب زیادہ اتنا ہی فائدہ بھی زیادہ حاصل ہوگا۔

مثال مشہور ہے، باادب باانصیب بے ادب بے نصیب


مطالعہ کے لغوی معنی کتب بینی (Research)کسی چیز کو اس سے واقفیت حاصل کرنے کی غرض سے دیکھنا۔

(فیروز اللغات، ص نمبر2258)

اصطلاح میں مطالعہ سے مراد مصنف یا مؤلف کی مراد کو بذریعہ تحریر سمجھنا۔(ابجد العلوم، جلد 2، ص نمبر 218)

کسی بھی کام کو انجام دینے کا اصول (Rules) ہوتے ہیں، اگر ان کے مطابق عمل کیا جائے تو کثیر فوائد حاصل ہوتے ہیں، ورنہ نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

مطالعہ کرنے کے درج ِ ذیل اصول و ضوابط سے اگر استفادہ کرلیاجائے تو علمی ذوق کے ساتھ ساتھ کثیر علم وروحانیت حاصل کرنا ممکن ہے۔

کتاب و نصاب کا تعین :

زمانے میں بہترین دوست کتاب ہے، جس طرح دوست کا مخلص ہونا ضروری ہے، اسی طرح کتاب کا مستند ہونا ضروری ہے، اہلسنت اور حقیقی عشقِ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم رکھنے والے علما کرام کی کتب کا مطالعہ کیا جائے تاکہ ہماری آنکھوں کو حیا کا نور نصیب ہو ، ہمارا کلام (Talking) بھی قرآن و سنت کے مطابق ہو، معیاری ومستند کتب کا نہ ہو ہمارے لیے بڑے نقصان کا باعث ہو۔

جگہ کا تعین :

مطالعہ کے لیے ایسی جگہ کا انتخاب (Choose) كیا جائے ، جہاں کسی کی دخل اندازی کا اندیشہ نہ ہو، ہوا دار، روشن شوروغل سے پاک ماحول کا ہونا ضروری ہے، کیونکہ علم کو طویل عرصے تک ذہن میں محفوظ رکھنے کے لیے یکسوئی کا ہونا بھی لازمی جزو ہے۔

وقت کا تعین:

تحصیل علم کے لیے ابتدائی جوانی، وقتِ سحر اور مغرب و عشا کے درمیان کا وقت ہے۔(راہِ علم ص نمبر)

مگر ایک طالبِ علم کو ہر وقت تحصیل علم میں مستغرق رہنا چاہیے پس اگر ایک علم پڑھتے پڑھتے اکتا جائیں تو دوسرے علم کے مطالعہ میں مشغول ہوجائے۔کیونکہ ایک علم کی لذت دوسرے علم سے جدا گانہ ہے۔

آداب :

دورانِ مطالعہ آداب کو ملحوظ رکھا جائے، باوضو، قبلہ رو بیٹھ کر صاف و پاک لباس پہن کرمطالعہ کیا جائے، قلتِ فہم ( سمجھنے میں کمی) پر صبر کیا جائے، تمام آلات علم ( قلم دوات کاپی) وغیرہ کا ادب کرے، ان شاء اللہ علم کی برکات حاصل ہوں گی۔

علم کو دیر پا ذہن میں محفوظ رکھنے کا طریقہ :

طالبِ علم کو چاہیے کہ ہر وقت علمی فوائد کو حاصل کرتا رہے، ہر وقت قلم، کاغذ اپنے ساتھ رکھے موثر جملے، ارشادات و اقوال وغیرہ کو تحریر کرلیا جائے، کچھ ہی عرصے میں آپ کے پاس ایک نیا مواد تیار ہوگا، جو آپ کے کلام کو کامیاب و موثر بنانے میں مددگار ثابت ہوگا۔

جس نے کچھ یاد اور از بر کرلیا وہ حافظے سے بھاگ گیا( بھول گیا) جو کچھ لکھ لیا وہ محفوظ و ثابت ( سلامت) رہا۔

(تعلیم المتعلم طریق التعلم ص نمبر 135 )

اللہ پاک ہمیں درست انداز میں مطالعہ کرنے کا ذوق وشوق نصیب فرمائے۔ آمین اللھم آمین۔