مطالعہ
عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ”غورو فکر“ اور” توجہ و دھیان“ کے ہیں ۔ یعنی کسی
چیز کو جاننے اور اس سے واقفیت پیدا کرنے کی غرض سے اسے دیکھنا ، پرکھنا اور
سمجھنا ۔ عام طور پر مطالعہ کتاب بینی اور صفحات کو پڑھنا ہے۔ گویا کہ مطالعہ کا
مفہوم کچھ یوں ہوا کہ کتابوں کو پڑھ کر انہیں سمجھنا اور ذہن نشین کرنا۔ فی زمانہ
مطالعہ کی جدید صورتیں بھی متعارف ہو رہی ہیں مثلًا سوشل میڈیا ، پی-ڈی- ایف وغیرہ
۔ لیکن کتابی مطالعہ بھی اپنی خاص اہمیت کا حامل ہے۔ کتب بینی کا انداز عمومی طور
پر ہر ایک کا جداگانہ ہوتا ہے۔ بزرگانِ دین کا طریقہ مطالعہ دیکھا جائے تو نہایت
اعلٰی اور عمل پیرا ہونے کے لیے کافی مشکل معلوم ہوتا ہے ۔ کیونکہ دن کا بیشتر حصہ
مطالعہ میں گزرتا اور یہی وجہ تھی کہ کثرتِ مطالعہ اور اس پر عمل نے زندگی گزارنے
کے ڈھنگ سے آگاہ کیا۔ البتہ مطالعہ کا شوق پیدا کرنے کے لیے ہر وقت کتب میں مستغرق
رہنا لازم نہیں ۔ بلکہ ابتداعاً اپنے لیے مخصوص کتب کو چنا جائے جس میں واقعات،
کہانیاں، اور مزاح ہو۔ یاد رہے کہ واقعات، کہانیاں، اور مزاح پر مشتمل مواد اسلامی
اور سبق آموز ہو نہ کہ عشقیہ و فسقیہ اور بے ہودہ ناولوں کا کباڑ ہو کہ دین و
دنیا دونوں تباہ کریں۔ مطالعہ کے لیے مختصر وقت کو معین کرے کہ اگر شروع ہی میں
زیادہ وقت دے گا تو عین ممکن ہے کہ مطالعہ سے جی بھر جاۓ اور چھوڑ دے۔ بلکہ مختلف موضوعات پر دو یا تین کتب کو چنے اور
پھر طبیعت کے مطابق وقفاً فوقفاً یا پھر ایک ہی وقت میں پہلی کتاب کے چند صفحات
پڑھ کر دوسری کتاب سے مطالعہ کرے۔ اس طرح بدل بدل کر مختلف موضوعات کو پڑھنے سے
ذہن چست اور دل خوش رہے گا ورنہ ایک ہی موضوع پر ایک ہی وقت میں کثرتِ مطالعہ ڈہن
کو تھکا اور دل بیزار کر دیتا ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ جو بھی مطالعہ کیا جائے اس میں
موجود اہم معلومات اور مشکل الفاظ بمعنی لکھتا رہے اور وقتاً فوقتاً انھیں بھی
پڑھتا رہے۔ اس عمل کے ذریعے نئے الفاظ کے استعمال کرنے اور خاص معلومات کے ذہن
نشین ہونےمیں مدد ملے گی۔ کیونکہ مطالعہ کا مقصد فقط کتاب کے کالے حروف کا پڑھنا
اور صفحات گننا نہیں بلکہ علم کو دل و دماغ میں راسخ کر کے عملی جامہ پہنانا ہے ۔
مطالعہ کیا گیا مواد ذہن نشین کرنے کے لیے ایک مفید عمل یہ بھی ہے کہ جو سیکھا اسے
دوسروں کو بھی سکھایا جائے۔ انسان نیکی کی دعوت اور برائی سے منع اس وقت ہی کرنے کے قابل ہو گا جب خود
نیکی و بدی کا علم رکھتا ہو ۔ اسی لیے نیکی کی دعوت دینے اور برائی سے منع کرنے اور اسی طرح دیگر اصلاحی
کتب کا مطالعہ کرکے اپنی بھی اصلاح کرے اور ساری دنیا کے لوگوں کی بھی اصلاح کرے ۔
کیونکہ مطالعہ کر کے کچھ حاصل ہی نہ کیا تو پھر مطالعہ کرنے کا مقصد کیا ؟ ڈاکٹر
اقبال رحمۃُ اللہِ
علیہ
نے کیا خوب کہا ہے :
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کے تو
کتاب خواں ہے مگر
صاحبِ کتاب نہیں