سخت مزاجی انسان کی شخصیت کو متنازعہ اور غیر پسندیدہ بنا دیتی ہے۔ یہ نہ صرف دوسروں کے ساتھ تعلقات میں دراڑ ڈالتی ہے بلکہ فرد کے ذہنی سکون اور روحانی سکون کو بھی متاثر کرتی ہے۔ اسلامی تعلیمات میں نرم مزاجی، حسن اخلاق اور دوسروں کے ساتھ حسن سلوک کی اہمیت کو واضح کیا گیا ہے۔ اس مضمون میں ہم سخت مزاجی کی مذمت اور نرم مزاجی کی اہمیت کو قرآن اور حدیث کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کریں گے۔

سخت مزاجی کی تعریف: سخت مزاجی سے مراد وہ رویہ ہے جس میں انسان دوسروں کے ساتھ بے رحمی، تند مزاجی اور غیر ضروری غصہ کا اظہار کرتا ہے۔ ایسے لوگ نہ صرف اپنے ماحول میں بے سکونی پیدا کرتے ہیں بلکہ دوسروں کے جذبات اور احساسات کا خیال نہیں رکھتے۔ سخت مزاجی انسان کی شخصیت کو بھی متکبر اور عاجزی سے عاری بناتی ہے اور لوگوں کے دلوں کو بھی اس سے ٹھیس پہنچتا ہے۔

اسلام میں انسان کی شخصیت کا مرکز حسن اخلاق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں کئی بار اپنے رسول حضرت محمد ﷺ کی نرم مزاجی اور حسن اخلاق کی تعریف کی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا: فَبِمَا  رَحْمَةٍ  مِّنَ  اللّٰهِ  لِنْتَ  لَهُمْۚ-وَ  لَوْ  كُنْتَ  فَظًّا  غَلِیْظَ  الْقَلْبِ  لَا  نْفَضُّوْا  مِنْ  حَوْلِكَ۪-  ( پ 4، اٰل عمران: 159) ترجمہ: پس اللہ کی رحمت کے باعث آپ ان کے لیے نرم ہو گئے اور اگر آپ تندخو (اور) سخت دل ہوتے تو یہ آپ کے گرد سے چھٹ کر بھاگ جاتے۔ الآیۃاس آیت میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کی نرم مزاجی کی تعریف کی ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ اگر آپ سخت مزاج ہوتے تو آپ کے ماننے والے آپ کے ارد گرد سے بکھر جاتے۔ اس آیت سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ نرم مزاجی انسانوں کو آپس میں جوڑے رکھتی ہے، جبکہ سخت مزاجی ان کے درمیان دوریاں پیدا کرتی ہے اور اگر ہم بھی دینی کام و نیکی کی دعوت عام کرنا چاہتے ہیں یا انفرادی کوشش کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں بھی سخت مزاجی سے اجتناب کرتے ہوئے نرم مزاجی اختیار کرنی ہوگی۔

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کی طرف بھیجا اور انہیں نرم گفتار اختیار کرنے کی ہدایت دی، ارشاد ہوتا ہے: فَقُوْلَا لَهٗ قَوْلًا لَّیِّنًا لَّعَلَّهٗ یَتَذَكَّرُ اَوْ یَخْشٰى(۴۴) (سورة طہٰ، آیت 44) ترجمہ: پس تم دونوں اس سے نرم کلام کہنا، شاید وہ نصیحت پکڑے یا ڈر جائے۔

یہ آیت اس بات کو واضح کرتی ہے کہ حتیٰ کہ فرعون جیسے جابر اور ظالم شخص کے ساتھ بھی نرم رویہ اپنانا ضروری ہے تاکہ اسے نصیحت پہنچائی جا سکے۔

سخت مزاجی کی مذمت میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بیشک اللہ نرمی فرمانے والا ہے اور نرمی کو پسند فرماتا ہے اور نرمی پر وہ کچھ عطا فرماتا ہے جوسختی پر عطانہیں فرماتا بلکہ نرمی کے سوا کسی بھی شے پر عطا نہیں فرماتا۔ (مسلم، ص 1072، حدیث: 6601)

یہ حدیث ہمیں بتاتی ہے کہ نرم مزاجی زندگی کے مختلف پہلوؤں میں آسانی اور سکون لاتی ہے۔

سخت مزاجی کی نقصانات:

1۔ انسانی تعلقات میں دراڑ: سخت مزاجی انسان کے تعلقات کو متاثر کرتی ہے اور دوسروں کو دور کر دیتی ہے۔

2۔ روحانی سکون کی کمی: سخت مزاجی انسان کو اندرونی سکون نہیں دیتی، اور وہ اپنی زندگی میں بے سکونی کا شکار رہتا ہے۔

3۔ دوسروں کے جذبات کی تکلیف: سخت مزاجی سے دوسروں کے جذبات کو تکلیف پہنچتی ہے، جس سے انسان کی اخلاقی و روحانی حالت متاثر ہوتی ہے۔

سخت مزاجی کیسے دور کریں : جن کا مزاج سخت ہو یا جن کی طبیعت میں سخت مزاجی ہو انہیں چاہیے کہ بتکلف اپنے مزاج کو نرمی کی طرف لانے کی کوشش کرتے رہیں، اپنا رویہ و لہجہ نرم رکھنے کی لگاتار کوشش کرتے رہیں، بتکلف یہ کوشش کرتے کرتے ان شاء اللہ سخت مزاجی سے جان چھوٹ جائے گی، اس کے لئے چاہیے کہ نرم مزاجی کے فضائل و برکات اور سخت مزاجی کے برے اثرات کو بھی ذہن میں رکھیں، تاکہ دل نرم مزاجی کی طرف جلد گامزن ہو، اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں حضور ﷺ کے اخلاق حسنہ کے صدقے اچھا اخلاق عطا فرمائے۔

اسلام ہمیں سخت مزاجی کی بجائے نرم مزاجی اپنانے کی تعلیم دیتا ہے۔ قرآن و حدیث میں بار بار نرم مزاجی کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ اخلاقی حسنہ انسان کی کامیابی کا راز ہے۔ انسان کو اپنی زندگی میں نرم مزاجی اور حسن اخلاق اپنانا چاہیے تاکہ وہ اپنے رشتہ داریوں میں خوشی، سکون اور محبت پیدا کر سکے اور اللہ کی رضا حاصل کر سکے۔

کسی نے کیا خوب بات کہی کہ طوطا مرچیں کھا کر بھی میٹھے بول بولتا ہے اور انسان میٹھا کھاکر بھی کڑوی باتیں کرتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ مزاج کے خلاف بات ہونے پر غصہ آ ہی جاتا ہے مگر ایسی صورتحال میں جوش کے بجائے ہوش سے کام لیتے ہوئے صبر و برداشت کا دامن تھامنے کی ضرورت ہے۔ یاد رکھئے! ہمارا پیارا دین اسلام ہمیں نرمی اختیار کرنے کا ذہن دیتا ہے اور نرمی ایک بہت ہی پیاری خوبی ہے جو انسان کو رحم پر ابھارتی، ظلم سے روکتی ہے، تکبر سے بچاتی اور انسان میں عاجزی اختیار کرنے کی صفت پیدا کرتی ہے۔ نرمی اختیار کرنے کے لئے دل کو نرم کرنا ضروری ہے کیوں کہ انسان کا دل ہی اس کے تمام اعضاء کا بادشاہ ہے جب یہ نرم ہوگیا تو ہمارے کردار میں بھی خود بخود نرمی پیدا ہو جائیگی۔

دل کی اس بیماری سخت مزاجی کا علاج بہت ضروری ہے کیوں کہ کوئی بھی دل بیماریوں سے خالی نہیں ہوتا اور اگر دلوں کو یونہی بغیر علاج کے چھوڑ دیا تو مزید بیماریاں جنم لیں گی اور انسان پر غالب آئیں گی۔ دلوں کے علاج کیطرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا: قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَاﭪ(۹) (پ 30، الشمس: 9) ترجمہ کنز الایمان: بے شک مراد کو پہنچا جس نے اسے ستھرا کیا۔

اور اسکے علاج کو چھوڑ دینے کی مذمّت کے بارے میں فرمایا: وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَاؕ(۱۰) (پ 30، الشمس: 10) ترجمہ کنز الایمان: اور نامراد ہوا جس نے اسے معصیت میں چھپایا۔

ہمارے بزرگان دین سامنے والے کے کڑوے انداز اور سخت جملے سن کر بھی کبھی غصہ میں نہ آتے بلکہ صبر سے کام لیتے ہوئے ہمیشہ اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرتے یہی وجہ ہے کہ ان کی باتیں لوگوں کے دلوں میں اتر جایا کرتی تھیں۔

یاد رکھئے! میٹھی زبان بولنے میں کوئی پیسہ خرچ نہیں ہوتا اور ساتھ ہی فائدہ بھی ہوتا ہے جبکہ سخت زبان کے استعمال کرنے میں صرف گھاٹے کا سودا ہے۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ جو بہنیں سخت مزاج یا بہت غصیلی ہوتی ہیں دیگر بہنیں ان کے قریب آنے، ان سے بات کرنے سے کتراتی ہیں ایسی سخت مزاج بہنوں کو معاشرے اور خاندان بھر میں عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا بلکہ بعض اوقات تو ان کے والدین بہن بھائی بھی ان کی اس سخت مزاجی کی وجہ سے ان سے بیزار رہتے ہیں اور ان کے پیٹھ پیچھے ان کے خلاف طرح طرح کی باتیں بھی کی جاتی ہیں مثلاً: فلانی سے بچ کر ہی رہو بڑی سخت مزاج ہے، کڑوی زبان والی ہے، چھوٹی سی بات پر سب کے سامنے ذلیل کر دیتی ہے وغیرہ۔

ہمیں اپنی ذات پر غور کرنا چاہیے کہ: کہیں ہمارے بارے میں بھی لوگوں کے یہی تاثرات تو نہیں؟ کہیں ہم بھی اپنی سخت مزاجی کی وجہ سے لوگوں کو خود سے بد ظن تو نہیں کررہیں؟

اللہ نہ کرے اگر جواب ہاں میں ہو تو اپنے مزاج میں نرمی پیدا کرنے کی کوشش کیجئے کہ جس کا دل نرم ہوتا ہے اس کی عزت میں اضافہ ہوتا ہے۔

کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

ہے فلاح و کامرانی نرمی و آسانی میں

ہر بنا کام بگڑ جاتا ہے نادانی میں

یعنی نرمی سے دنیا و آخرت کے وہ کام بنتے ہیں جو سختی سے نہیں بنتے، نرمی سے دشمن بھی دوست بن جاتے ہیں، لوہا نرم ہو کر ہتھیار بن جاتا ہے، زمین نرم ہو کر قابل کاشت ہو جاتی ہے اور انسان نرم ہوکر ولی بن جاتا ہے۔

اللہ رحیم و کریم سے دعا ہے کہ ہمارے دلوں سے سخت مزاجی کو دور فرمائے اور ہمیں نرمی جیس خوبصورت صفت سے مالا مال فرمائے۔ آمین


چلیں آئیں ہم اپنی زندگی کا جائزہ لیتے ہیں: ہم سخت و کھردرا بستر پسند کرتے ہیں یا نرم و نازک بستر؟ ہمیں سخت روٹی پسند ہے یا نرم و گول روٹی؟ مرد کے ہاتھ جو سخت ہوں وہ پسند کیے جاتے ہیں یا عورت کے نرم و نازک ہاتھ؟ سخت تکیہ پسند ہے یا نرم تکیہ؟ اگر ہم جائزہ لیں تو ہمیں نرم و ملائم چیزیں پسند ہوتی ہیں، اسی طرح ہمیں پسند بھی وہ شخص آتا ہے جو نرم خو، نرم مزاج ہو، اسی طرح عورت کی آواز بھی اسی لیے کشش رکھتی ہے کہ وہ نرم و نازک ہوتی ہے۔

اب آپ اپنے آپ سے سوال کریں کہ جب سب چیزیں نرم پسند، لوگ بھی وہ پسند جو نرم اخلاق ہوں تو پھر خود کا سخت مزاج کیوں؟ خود کے لیے کیوں نرم مزاجی نہیں پسند کہ سخت مزاجی کو نکال کر نرم مزاجی پیدا کرنے کی عادت بنانے کی کوشش نہیں کرتے؟

تھوڑا نہیں پورا سوچئے! سخت مزاجی ایسی بری چیز ہے کہ جس انسان میں ہو لوگ اس سے دور ہوتے ہیں اس سے نفرت رکھتے ہیں۔

سخت مزاجی دور کرنے کے لیے معاون چیزیں :

1) اس کے لیے ضروری ہے سخت مزاجی کے ذریعے ہونے والے نقصانات کو مد نظر رکھے تاکہ نرمی اپنانے کا ذہن بنے سخت مزاجی کے ذریعے بندے کو بہت نقصانات بھی اٹھانے پڑتے ہیں، حدیث مبارکہ ہے: پیارے آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو نرمی سے محروم رہا وہ ہر بھلائی سے محروم رہا۔ (مسلم، ص 1072، حدیث: 6598)

سخت مزاجی کی وجہ سے بعض اوقات گھروں کا سکون برباد ہوجاتا ہے، جس کے اندر سخت مزاجی ہوتی ہے وہ بات بات پر طنز کرتا ہے،لڑائی جھگڑے کرتا ہے جس سے گھر کا سکون برباد ہوتا ہے، جس کے اندر سخت مزاجی ہوتی ہے وہ لوگوں پر رحم کرنے کی طرف مائل نہیں ہوتے، اس کی وجہ سے وہ لوگوں پر ظلم پر اتر آتے ہیں، یوں وہ ظلم کرکے جہنم کے حقدار بن جاتے ہیں، اسی طرح سخت مزاج لوگوں سے لوگ محبت نہیں کرتے، ایسوں کو کوئی دوست نہیں بناتا، لوگ ایسے سخت مزاج سے دور بھاگتے ہیں، ایسے لوگوں سے لوگ ملتے ہوئے کتراتے ہیں، امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں: ایک انصاری کا قول ہے: گرم مزاج ہونا حماقت کی اصل ہے۔ (منتخب ابواب احیاء العلوم، ص 10) سختی سے بعض اوقات بنا ہوا کام بھی بگڑ جاتا ہے۔

2) نرمی کے فوائد پر نظر رکھیں تاکہ سختی سے بچنے کا ذہن بنے۔ حدیث مبارکہ ہے: پیارے حبیب ﷺ نے فرمایا: اللہ اس شخص پر رحم فرمائے جو بیچے تو نرمی کرے، خریدے تو نرمی کرے اور جب اپنے حق کا تقاضا کرے تب بھی نرمی کرے۔ (بخاری، 2/ 12، حدیث:2076)

نرم مزاج انسان کے دوست زیادہ ہوتے ہیں، لوگ ان کے قریب آتے ہیں، لوگ ان سے محبت کرتے ہیں۔

نرم طبیعت شخص کتنے ہی جھگڑوں سے بچ جاتا ہے کیونکہ اگر کوئی اسے کچھ کہے بھی تو وہ آگ بگولہ ہونے کے بجائے نرمی سے جواب دیتا ہے، لہذا ہمیں چاہیے کہ نرمی پیدا کریں، اپنے اخلاق سنواریں، اپنے لیے اچھے اور نرم اخلاق کے لیے دعا بھی کریں۔

آئیے بارگاہ رسالت ﷺ میں عرض کرتے ہیں:

میرے اخلاق اچھے ہوں میرے سب کام اچھے ہوں

بنادو مجھ کو تم پابندِ سنت یارسول اللہ

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں سخت مزاجی سے محفوظ فرمائے اور ہمیں نرمی جیسی عظیم دولت عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ


آج کے دور میں لوگوں کے سخت مزاج کا جائزہ لیا جائے تو یہ انتہائی عروج پر ہے سخت مزاجی یہ ایسا رویہ ہے جس میں انسان کا عمل سخت اور غیر لچکدار ہوجاتا ہے، ایسے افراد عموما اپنے اصولوں، خیالات یا جذبات کے اظہار میں شدت اختیار کرتے ہیں جو بعض اوقات منفی اور بعض اوقات مثبت اثرات مرتب کرسکتا ہے۔ لوگوں کی ایک تعداد سے خیر خواہی، رحم دلی اور حسن سلوک کا جذبہ بھی دم توڑرہا ہے اسکا بنیادی سبب نرمی کا ختم ہوجانا ہے۔

اللہ جب کسی گھر والوں کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو ان میں نرمی پیدا فرماتا ہے۔ (مسند امام احمد، 9/345، حدیث:24481)

سخت مزاجی کے نقصانات: سخت مزاجی رشتوں میں محبت اور اعتماد کو کمزور کردیتی ہے، سخت مزاج شخص کو لوگ پسند نہیں کرتے، سخت مزاجی میں کیےجانے والے فیصلے اکثر غلط ثابت ہوتے ہیں جسکی وجہ سے بعد میں پچھتانا پڑتاہے، سخت مزاج شخص خود بھی ذہنی دباؤ کا شکار رہتا ہے، سخت مزاج شخص اسلام کی تعلیمات کے خلاف چل پڑتا ہے، سخت مزاج لوگوں کا دل دکھاتا چلا جاتا ہے، کسی کا دل دکھانا کسی کو سب کے سامنے ذلیل و رسوا کرنا حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔

اس کے علاوہ بھی کئی دینی و دنیاوی نقصانات ہیں، لہذا اس سے بچنے ہی میں عافیت ہے۔ بےجا سختی سے انسان کی طبیعت میں رحم دلی ظلم اور زیادتی کے کانٹے اگتے ہیں جو لوگ سخت مزاج ہوتےہیں لوگ ان کےقریب آنے اور ان سے بات کرنےسےکتراتے ہیں،ایسےسخت مزاج افراد کو معاشرے میں عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا،ان کی پیٹھ پیچھے طرح طرح کی باتیں کہیں جاتی ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ سخت مزاجی کو چھوڑ کر نرمی اپنانے میں فائدہ ہی فائدہ ہے۔

پیارے آقا ﷺ نرم دل تھے۔ قرآن مجید میں رب تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ترجمہ کنز العرفان: اے حبیب! اللہ کی کتنی بڑی مہربانی ہے کہ آپ ان کے لئے نرم دل ہیں۔

اس آیت کے متعلق تفسیر صراط الجنان میں ہے: اس آیت میں رسول اکرم ﷺ کے اخلاق کریمہ کو بیان کیا جارہا ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا: اے حبیب! اللہ تعالیٰ کی آپ ﷺ پر کتنی بڑی رحمت ہے کہ اس نے آپ کو نرم دل، شفیق اور رحیم و کریم بنایا اور آپ کے مزاج میں اس درجہ لطف و کرم اور شفقت ورحمت پیدا فرمائی کہ غزوہ احد جیسے موقع پر آپ ﷺ نے غضب کا اظہار نہ فرمایا حالانکہ آپ کو اس دن کس قدر اذیّت و تکلیف پہنچی تھی اور اگر آپ سخت مزاج ہوتے اور میل برتاؤ میں سختی سے کام لیتے تو یہ لوگ آپ سے دور ہوجاتے۔ تو اے حبیب! آپ ان کی غلطیوں کو معاف کردیں اور ان کیلئے دعائے مغفرت فرمادیں تاکہ آپ کی سفارش پر اللہ تعالیٰ بھی انہیں معاف فرمادے۔ (صراط الجنان، 2/80)

کئی احادیث مبارکہ میں بھی نرمی کے فضائل بیان ہوئے ہیں، جیسا کہ حدیث مبارکہ ہے: اللہ اس شخص پر رحم فرمائے جو بیچے تو نرمی کرے، خریدے تو نرمی کرے اور جب اپنے حق کا تقاضا کرے تب بھی نرمی کرے۔ (بخاری،2/12، حدیث:2076)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں پیارے آقا ﷺ کے صدقے نرمی جیسi عظیم نعمت عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ

سخت مزاج کا مطلب ہے وہ شخص جو سخت طبیعت کا ہو، نرمی اور لچک کم رکھتا ہو، یا اپنی رائے اور اصولوں پر سختی سے قائم رہے۔ ایسا شخص اکثر ضدی، سنجیدہ، یا جذباتی طور پر کم لچکدار ہو سکتا ہے۔ یہ اصطلاح مثبت اور منفی دونوں معنوں میں استعمال ہو سکتی ہے، جیسے کسی کے پختہ اصولوں کی تعریف کے لیے یا کسی کی سخت گیری پر تنقید کے لیے۔

قرآن پاک اور احادیث مبارکہ میں سخت مزاجی کی مذمت اور نرمی و حسن اخلاق کی ترغیب دی گئی ہے۔ سورہ آل عمران میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کی نرم مزاجی کو اپنی رحمت قرار دیتے ہوئے فرمایا: فَبِمَا  رَحْمَةٍ  مِّنَ  اللّٰهِ  لِنْتَ  لَهُمْۚ-وَ  لَوْ  كُنْتَ  فَظًّا  غَلِیْظَ  الْقَلْبِ  لَا  نْفَضُّوْا  مِنْ  حَوْلِكَ۪-  ( پ 4، اٰل عمران: 159) ترجمہ: پس اللہ کی رحمت کے باعث آپ ان کے لیے نرم ہو گئے اور اگر آپ تندخو (اور) سخت دل ہوتے تو یہ آپ کے گرد سے چھٹ کر بھاگ جاتے۔ الآیۃ

اس آیت مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ سخت مزاجی لوگوں کو دور کرتی ہے، جبکہ نرمی اور درگزر سے دلوں کو جیتا جا سکتا ہے۔

حدیث مبارکہ میں سخت مزاجی کے بارے میں مختلف پہلوؤں سے ہدایات دی گئی ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے ہمیشہ نرمی، بردباری اور حسن اخلاق کی تعلیم دی اور سخت مزاجی سے منع فرمایا۔ نبی ﷺ کا ارشاد ہے: ترجمہ: بے شک اللہ تعالیٰ نرمی کرنے والا ہے اور نرمی کو پسند فرماتا ہے، اور نرمی پر وہ اجر عطا کرتا ہے جو سختی پر نہیں دیتا اور کسی اور چیز پر بھی نہیں دیتا۔ (مسلم، ص 1072، حدیث: 6601)

جریر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا: جو شخص نرمی سے محروم کر دیا گیا وہ ہر قسم کی بھلائی سے محروم کردیا گیا۔ (مسلم، ص1072، حدیث 6598)

نبی ﷺ نے فرمایا: ترجمہ: قیامت کے دن اللہ کے نزدیک سب سے بدترین شخص وہ ہوگا جسے لوگ اس کے برے اخلاق (سخت مزاجی اور بدزبانی) کی وجہ سے چھوڑ دیتے ہیں۔ (مسلم، ص1072، حدیث 6596)

حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ ہر کام میں نرمی کو پسند فرماتا ہے۔ (مسلم، ص 1072، حدیث: 6601)

اللہ پاک ہمیں تمام کاموں میں نرمی کرنے کی سعادت عطا فرمائے اور سخت مزاجی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


رویہ انسان کی ہر قسم کی سوچ، جذبات، عمل اور،رد عمل کا مجموعہ ہے۔ انسانی رویوں کی کئی اقسام ہیں انہیں میں سے ایک سخت مزاج رویہ ہے اس کا معنی (تند مزاج اور غصیلا پن) ہیں۔

اسباب: علمِ دین سے دوری،بے جا غصہ اور جذبات پر قابو نہ پانا،بری صحبت،تکبر، خود پسندی، ڈپریشن، نا کامیوں کا سامنا، احساس کمتری،بہت زیادہ تنقیدی ذہن، اکیلا پن، معاشرتی میل جول کی کمی، برداشت کی کمی، بد گمانی، دنیا کی محبت کے نتیجے میں عزت، شہرت، عہدہ و منصب کی لالچ اور ان کا حاصل نہ ہونا وغیرہ

اثرات: سخت مزاجی کی وجہ سے انسانی زندگی پر بہت سے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں چند ایک درج ذیل ہیں:

سخت مزاج انسان کی وجہ سے لوگ دین سے متنفر ہو جا تے ہیں۔ لڑائی جھگڑے کا سبب بنتی ہے اور قتل و غارت گری تک نوبت پہنچ سکتی ہے۔ دین کا کام کرنے میں مشکلات کا سامنا ہونا۔ بے صبری کا مظاہرہ ۔ ذہنی اور روحانی طور بے سکون رہنا۔ حافظہ کی کمزوری۔ معاشرتی تعلقات کی خرابی۔ دوسروں کے دلوں میں سخت مزاج شخص کے لیے نفرت پیدا ہو جانا وغیرہ وغیرہ۔

اس رویے کو دور کرنے کے طریقے:

اللہ پاک سے دعا کریں۔ علمِ دین سیکھیے پیارے آقا خاتم النبیین ﷺ کے حسن اخلاق کے واقعات اور صحابہ کرام اور بزرگان دین کی سیرت کا مطالعہ کیجئے۔ دین دار اور اچھے اخلاق والی اسلامی بہنوں کی صحبت اختیار کیجئے۔ اپنے اندر نرمی پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہیں،اللہ پاک نے قرآن مجید میں اپنے حبیب مکرم ﷺ کے اخلاق کریمانہ کے بارے میں یوں ارشاد فرمایا: فَبِمَا  رَحْمَةٍ  مِّنَ  اللّٰهِ  لِنْتَ  لَهُمْۚ- (پ4،اٰل عمران: 159) ترجمۂ کنز الایمان: تو کیسی کچھ اللہ کی مہربانی ہے کہ اے محبوب! تم ان کے لئے نرم دل ہوئے۔ الآیۃ مصیبتوں پر صبر کر کے اجر کمائیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے: اُولٰٓىٕكَ یُؤْتَوْنَ اَجْرَهُمْ مَّرَّتَیْنِ بِمَا صَبَرُوْا (پ 20، القصص:54) ترجمہ:ان کو ان کا اجر دگنا دیا جائے گا کیونکہ انہوں نے صبر کیا۔ الآیۃ غصہ دور کیجئے وضو کر کے اور خاموشی اختیار کی جائے تو بہت بہتر ہے۔ دوسروں کی غلطیوں سے در گزر کیجئے۔یہ طریقہ اپنا کر سخت مزاجی کو دور کیا جا سکتا ہے۔

سخت مزاجی سے بچنے کے فوائد:

اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہوتی ہے۔ اشاعت دین میں مدد ملتی ہے۔ معاشرہ پر امن اور خوشحال ہو جاتا ہے۔ اپنے اعمال پر غورو فکر کرنے کی توفیق نصیب ہوتی ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے حبیب مکرم ﷺ کے صدقے اچھے اخلاق اپنا نے اور برے اخلاق سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ


سخت مزاجی کے معنی مزاج ہیں تیزی،ہر وقت غصے میں رہنا اور سختی سے بات کر نا وغیرہ وغیرہ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا میں تمہیں جہنمی لوگوں کے بارے میں نہ بتاؤں؟ ہر سخت مزاج، بد اخلاق اور تکبر کرنے والا (جہنمی) ہے۔ (بخاری، 4/118، حدیث: 6071)

استغفر اللہ اس حدیث پاک کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم سب کو اپنی ذات پر غور کرنا چاہیے کہ کہیں ہم بھی تو بے جا سختی نہیں کرتے، ہم سب کو چاہیے کہ سخت مزاجی سے توبہ کریں اور نرمی احتیار کریں کیونکہ میرے پیارے نبی ﷺ نے فرمایا: جو نرمی سے محروم رہا وہ ہر بھلائی سے محروم رہا۔ (مسلم، ص1072، حدیث 6598)ہم سب کو اپنے مزاج پر خوب غور کرنا چاہیے کہ کہیں ہم سختی کی وجہ سے بھلائی سے تو محروم نہیں ہو رہے۔

حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مومن اتنا نرم مزاج ہوتا ہے کہ لوگ اسے بیوقوف سمجھتے ہیں۔ (میزان الحکمۃ، 2/27)

حدیث مبارکہ کے مطابق مومن کو بہت ہی نرم مزاج ہونا چاہیے کیونکہ لوگ نرمی کرنے والوں سے محبت کرتے ہیں اور ان کی بات اچھی طرح سمجھ لیتے ہیں

امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا فرمان ہے: جو نرم مزاج ہوتا ہے وہ اپنی قوم کی محبت ہمیشہ باقی رکھ سکتا ہے۔

سخت مزاجی اور ذلالت: حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم نے فرمایا: بہت سے عزت دار ایسے ہیں جنہیں ان کی سخت گیری نے ذلیل کر دیا اور بہت سے ذلیل ایسے ہیں جنہیں ان کے اخلاق نے عزت دار بنا دیا۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے اس قول سے معلوم ہوتا ہے کہ سخت مزاجی ذلالت کا سبب بھی بنتی ہے اور خوش اخلاقی عزت کا۔

سخت مزاجی اور ہمارا معاشرہ؟ ہمارے معاشرے میں ہر طرف بے جا سختی پائی جارہی ہے یہی وجہ ہے کہ لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد میں خدا ترسی، خیر خواہی، حسن سلوک کا جذبہ دم توڑ رہا ہے آج کل ہر گھر میں ایک سے بڑھ کر ایک سخت مزاج موجود ہوتا ہے کہیں بچوں پر تو کہیں بڑوں پر سختی، غصہ کیا جا رہا ہوتا ہے بات بات پر بھڑک جانا الغرض ہمارے معاشرے میں ہر طرف سختی کی جا رہی ہے۔

سختی سے بچنے کا طریقہ: سخت مزاجی سے بچنے کا سب سے بڑا ذریعہ اپنے نبی محمد ﷺ کی سیرت پڑھ کر ان کے اخلاق و سنت اپناکر اور وقتاً فوقتاً سخت مزاجی کا عبرتناک انجام پڑھ کر تصور کرکے اور اپنے اللہ سے مزاج میں نرمی کی دعا کرکے ہی اس سے بچا جا سکتا ہے۔

اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہم سب کو سخت مزاجی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے اخلاق اچھے فرمائے۔ آمین

لغت میں اس سے مراد تیز مزاجی ہے۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: کیا میں تمہیں جہنمی لوگوں کے بارے میں نہ بتاؤں؟ ہر سخت مزاج، بداخلاق اور تکبر کرنے والا جہنمی ہے۔ (بخاری، 4/118، حدیث:6071)

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بہت سے عزت دار ایسے ہیں جنہیں انکی سخت گیری نے ذلیل کر دیا اور بہت سے ایسے ذلیل ہیں جنہیں ان کے اخلاق نے عزت دار بنا دیا۔

نرمی جس چیز میں بھی ہوتی ہے اس کو سجا دیتی ہے اور سخت گوئی جہاں بھی ہوتی ہے اسے برا بنا دیتی ہے، روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ کسی سے محبت فرماتا ہے تو اسے نرم مزاج بنا دیتا ہے۔

لہذا یاد رکھئے پیارے مسلمانو! انسانی مزاج میں نرم رویہ اسکے علم اور فہم کا پتا دیتی ہے۔ سخت مزاجی ایک ایسی بری عادت ہے جو انسان کی طبیعت میں پیدا ہو کر اسے سخت دل، سخت طبیعت اور بے رحم بنا دیتی ہے جس سے اس کے اپنے بھی اس سے محروم رہ جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ لوگ جو اس سے سخت محبت کیا کرتے ہیں وہ بھی اس کی سخت مزاجی کی وجہ سے اس کے قریب آنے سے ڈر جاتے ہیں۔

یاد رکھئے! ہم مسلمان ہیں اور مسلمان و مومن نہایت نرم طبیعت کے مالک ہوا کرتے ہیں۔

یاد رکھئے گا آپ کے ارد گرد کے بہت سارے ایسے لوگ ہوتے ہیں جو آپ کے مشکل وقت میں آپ کی مدد کرنا چاہتے ہیں لیکن آپ کی فطرت، سلوک اور سخت مزاجی کی وجہ سے وہ ایسا نہیں کرتے۔

اکثر ہم اپنی بد فعلی اور سخت مزاجی کی وجہ سے اپنے قریب بیٹھنے والوں کو بھی کھو دیتے ہیں جس کی وجہ ہم ہی ہوتے ہیں۔ آئیے اب اس مذموم بیماری سے جان چھوٹنے کے طریقے پر غور کرتے ہیں، چنانچہ اس سے بچنے کے لیے درج ذیل باتوں کو اپنائیے:

صبر اور برداشت پیدا کیجیے، معاف کرنا سیکھیں، مسکراتے رہیے، ہر بات پر غور و فکر کے بعد اس کا تحمل سے جواب دیجئے، تکبر سے بچیے، اپنے اخلاق کو خوبصورت بنائیں۔

یہ بھی یاد رکھیں کہ کہیں آپکے مزاج کی وجہ سے کسی اور کے مزاج میں سختی پیدا نہ ہو جائے، کیونکہ اکثر وہ لوگ سخت مزاج ہوتے ہیں جب بہت سارے لوگ ان کی نرمی کا غلط

فائدہ اٹھا چکے ہوتے ہیں۔ جس کی زبان جتنی زیادہ سخت ہوتی ہے اس کا غرور اتنا زیادہ ہوتا ہے۔ جو تھوڑا سا شرافت کا مظاہرہ کرے لوگ اسے بزدل سمجھ لیتے ہیں۔ یہ ہمارے زمانے کا رواج ہے تو اپنی زندگی میں معافی مانگنے کا بھی رواج بنائیں پھر دیکھیں کون کون بدلتا ہے۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : جو شخص نرم مزاج ہوتا ہے وہ اپنی قوم کی محبت ہمیشہ باقی رکھ سکتا ہے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس مذموم اور قبیح فعل سے محفوظ رکھے۔ آمین


سخت مزاجی کے معنی ہے غصیلا پن، تند خوئی، تیز مزاجی وغیرہ۔ سخت مزاجی سے مراد ایک ایسی شخصیت یا رویہ ہے جو سخت، غیر لچکدار، ضدی اور کم نرمی کا حامل ہو۔ ایسے افراد اپنی بات پر اڑ جانے والے، اصولوں کے سختی سے پابند اور دوسروں کی رائے یا احساسات کو کم اہمیت دینے والے ہو سکتے ہیں۔ سخت مزاجی بعض اوقات مثبت بھی ہو سکتی ہے، جیسے اصول پسندی یا مضبوط ارادے کے طور پر، لیکن اگر حد سے بڑھ جائے تو یہ ضد، عدم برداشت اور سخت رویے کا سبب بن سکتی ہے۔

بے جاسختی سے انسان کی طبیعت میں بے رحمی، سنگ دلی، ظلم اور زیادتی کے کانٹے اگتے ہیں۔ حقیقی نرمی دل کا نرم ہونا ہے۔ جب بندۂ مؤمن کا قلب نرم ہوتا ہے تو اسے اللہ پاک کا قرب ملتا ہے جس کی برکت سے دنیا و آخرت کی بھلائیاں پاتا ہے۔ قرآن پاک میں اللہ کریم نے نبی پاک ﷺ کے دل کی نرمی کو اپنی رحمت قرار دیا ہے، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: فَبِمَا  رَحْمَةٍ  مِّنَ  اللّٰهِ  لِنْتَ  لَهُمْۚ- (پ4،اٰل عمران: 159) ترجمۂ کنز الایمان: تو کیسی کچھ اللہ کی مہربانی ہے کہ اے محبوب! تم ان کے لئے نرم دل ہوئے۔ الآیۃ

فرمانِ مصطفےٰ ﷺ: بیشک اللہ نرمی فرمانے والا ہے اور نرمی کو پسند فرماتا ہے اور نرمی پر وہ کچھ عطا فرماتا ہے جو سختی پر عطا نہیں فرماتا بلکہ نرمی کے سوا کسی بھی شے پر عطا نہیں فرماتا۔ (مسلم، ص 1072، حدیث: 6601)

حکایت اور درس: حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ ایک شخص نے آپ کو برا بھلا کہا تو آپ رضی اللہ عنہ نے اپنی سیاہ رنگ کی چادر اتار کر اسے دے دی اور اسے ایک ہزار درہم دینے کا بھی حکم دیا۔ (احیاء العلوم، 3/544)

علما فرماتے ہیں کہ اس طرح حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ نے پانچ اچّھی خصلتوں کو جمع کیا: (1)بردباری (تحمل مزاجی) (2)تکلیف نہ دینا (3)اس شخص کو اللہ پاک سے دور کرنے والی بات سے بچانا (4)توبہ اور ندامت پر اکسانا (5)اور برائی کے بدلے بھلائی کرنا۔ اس طرح آپ رضی اللہ عنہ نے معمولی دنیا کے بدلے یہ تمام چیزیں خرید لیں۔ (احیاء العلوم، 3/544)

اللہ کریم ہمیں اسلام کی روشن تعلیمات پرعمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین