سخت مزاجی کے
معنی ہے غصیلا پن، تند خوئی، تیز مزاجی وغیرہ۔ سخت مزاجی سے مراد ایک ایسی شخصیت
یا رویہ ہے جو سخت، غیر لچکدار، ضدی اور کم نرمی کا حامل ہو۔ ایسے افراد اپنی بات
پر اڑ جانے والے، اصولوں کے سختی سے پابند اور دوسروں کی رائے یا احساسات کو کم
اہمیت دینے والے ہو سکتے ہیں۔ سخت مزاجی بعض اوقات مثبت بھی ہو سکتی ہے، جیسے اصول
پسندی یا مضبوط ارادے کے طور پر، لیکن اگر حد سے بڑھ جائے تو یہ ضد، عدم برداشت
اور سخت رویے کا سبب بن سکتی ہے۔
بے جاسختی سے
انسان کی طبیعت میں بے رحمی، سنگ دلی، ظلم اور زیادتی کے کانٹے اگتے ہیں۔ حقیقی
نرمی دل کا نرم ہونا ہے۔ جب بندۂ مؤمن کا قلب نرم ہوتا ہے تو اسے اللہ پاک کا
قرب ملتا ہے جس کی برکت سے دنیا و آخرت کی بھلائیاں پاتا ہے۔ قرآن پاک میں اللہ کریم
نے نبی پاک ﷺ کے دل کی نرمی کو اپنی رحمت قرار دیا ہے، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: فَبِمَا
رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْۚ- (پ4،اٰل
عمران: 159) ترجمۂ کنز الایمان: تو کیسی کچھ اللہ کی مہربانی ہے کہ اے محبوب! تم
ان کے لئے نرم دل ہوئے۔ الآیۃ
فرمانِ مصطفےٰ
ﷺ: بیشک اللہ نرمی فرمانے والا ہے اور نرمی کو پسند فرماتا ہے اور نرمی پر وہ کچھ
عطا فرماتا ہے جو سختی پر عطا نہیں فرماتا بلکہ نرمی کے سوا کسی بھی شے پر عطا
نہیں فرماتا۔ (مسلم، ص 1072، حدیث: 6601)
حکایت
اور درس: حضرت
امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ ایک شخص نے آپ کو برا
بھلا کہا تو آپ رضی اللہ عنہ نے اپنی سیاہ رنگ کی چادر اتار کر اسے دے دی اور اسے
ایک ہزار درہم دینے کا بھی حکم دیا۔ (احیاء العلوم، 3/544)
علما فرماتے
ہیں کہ اس طرح حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ نے پانچ اچّھی خصلتوں کو جمع
کیا: (1)بردباری (تحمل مزاجی) (2)تکلیف نہ دینا (3)اس شخص کو اللہ پاک سے دور کرنے
والی بات سے بچانا (4)توبہ اور ندامت پر اکسانا (5)اور برائی کے بدلے بھلائی کرنا۔
اس طرح آپ رضی اللہ عنہ نے معمولی دنیا کے بدلے یہ تمام چیزیں خرید لیں۔ (احیاء العلوم،
3/544)
اللہ کریم
ہمیں اسلام کی روشن تعلیمات پرعمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین