اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنط اَمَّا بَعْدُ!

فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمط بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمط

دُرُود شریف کی فضیلت

اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں: قیامت کے دن لوگوں میں میرے قریب تَر وہ ہوگا جس نے مجھ پر زیادہ دُرُودِ پاک پڑھے ہوں گے۔ ([1])

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد

ہمارے لئے یہ بات قابلِ فخر ہے کہ ہماری تاریخ ایسی جلیل ا لقدر شخصیات سے مُزَیَّن ہے جن کی علمی وَجاہت کا شُہرہ اَطرافِ عالَم میں پھیلا ہوا ہے۔جن کی کوششوں اور شبانہ روز محنتوں کی وجہ سے مستندد دینی احکامات مسلمانوں تک منتقل ہوتے رہے ہیں، ان ہی جلیل ا لقدر شخصیات میں سے ایک نام حضرت علّامہ ابنِ عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی ہے۔

نام و نسب اور ولادت

آپ کی ولات 1198ھ مطابق 1784ء میں ملکِ شام کے دار الخلافہ دمشق میں ہوئی۔ آپ کا نام سید محمد امین بن عمر بن عبد العزیز ہے۔ آپ کا نسب انتیس (29) واسطوں سے نواسہ ٔرسول حضرت امامِ حسین رضی اللہُ عنہ سے جاملتا ہے۔ آپ کا خاندان فضل و شرف میں مشہور تھا۔([2])

آپ کا حلیہ مبارک

آپ رحمۃ اللہ علیہ کا قد دراز، انگلیاں و اعضاء چوڑے تھے، رنگ سفید اور بال سیاہ تھے، سفید بال بہت کم تھے کہ اگر کوئی گننا چاہے تو باآسانی گن سکتا تھا ۔ ([3])

ابن ِعابدین سے شہرت

آپ” ابنِ عابدین “کے نام سے مشہور ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کے جدِ اعلیٰ محمد صلاح الدین کثرتِ عبادت و ریاضت اور زہد و تقوی کی وجہ سے ”عابدین“ کے لقب سے معروف تھے اور آپ ہی اس خاندان کی شہرت کی اساس اور بنیاد ہیں چنانچہ اسی نسبت سے علامہ شامی ”ابنِ عابدین“ کہلاتے ہیں ۔

ولادت سے پہلے بشارت

صاحبِ کشف ولی شیخ صالح رحمۃ اللہ علیہ علامہ شامی کے ماموں تھے،آپ نے اپنی بہن کو علامہ شامی کے پیدا ہونے کی بشارت دی اور پیدائش کے بعد نام بھی ماموں نے رکھا۔

ماموں جان بچپن میں علامہ شامی کو گود میں لے کر کہتے: میں نے تمہارے سر پر بزرگی و سیادت کا تاج رکھ دیا ہے ۔ ([4])

تعلیم و تربیت

علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے والد سید عمر عابدین رحمۃ اللہ علیہ کے سائے میں تربیت پائی ۔ آپ نے بہت چھوٹی سی عمر میں قرآنِ پاک حفظ کر لیا تھا ۔ پھر حفظِ قرآن کے بعد اپنے والد کی دکان پر بیٹھ گئے ۔([5])

علمِ دین کی طرف میلان کا سبب

ایک دفعہ آپ دکان پر بیٹھےقرآنِ پاک کی تلاوت کر رہے تھے اتنے میں ایک بزرگ پاس سے گزرے۔ انہوں نے آپ کی قرأت کو ناپسند کیا اور کہا : ایک تو تم قراٰن صحیح نہیں پڑھ رہے اور پھر بھرے بازار میں پڑھ رہےہوجس کی وجہ سے دوسرے لوگ بھی گناہ گار ہو رہے ہیں۔ یہ سن کرآپ نے درست قراٰن پڑھنے کا ارادہ کیا اور حضرت سعید حموی شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے فنِ قرأت و تجوید سیکھی یہاں تک کہ اس فن میں ماہر ہوگئے۔ پھر مزید شوق بڑھا تو نحو ، صرف اور فقہ شافعی پڑھی۔

فقہِ حنفی کی طرف توجہ

آپ کے ابتدائی شیخ سعید حموی رحمۃ اللہ علیہ شافعی تھے اسی لیےابتداءً آپ کا میلان بھی فقہ شافعی کی طرف ہی تھا،پھرجب شیخ محمد شاکر بن علی العقاد حنفی رحمۃ اللہ علیہ سے فقہ حنفی کے اصول اور ان کے جزئیات پڑھے اورآپ نے فقہ حنفی کو اختیار کیا۔ ([6])

سلسلہ قادریہ سے نسبت

علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے استاذِ محترم شیخ شاکر العقاد رحمۃ اللہ علیہ سے نہ صرف علمِ دین کے موتی سمیٹے اور ان کی تربیت میں رہ کر وقت کے امام بنے بلکہ آپ رحمۃ اللہ علیہ ان سے سلسلہ قادریہ میں مرید بھی ہوئے اور ان سے خلافت بھی حاصل کی ۔ ([7])

استاذ کا ادب

علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ کے صاحبزادے سید علاؤالدین رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں: میرے والد اپنے شیخ محمد شاکر العقاد رحمۃ اللہ علیہ کے ہمراہ دمشق میں شیخ محمد عبد النبی رحمۃ اللہ علیہ سے ملاقات کے لیے گئے جب دونوں حضرات ان کے پاس پہنچے تو ان کے استاد تو وہاں بیٹھ گئے لیکن میرے والد اپنی عادت کے مطابق شیخ کے جوتے اٹھا ئےچوکھٹ پر کھڑے رہے، یہ دیکھ کر شیخ محمد عبد النبی نے شیخ شاکر العقاد سے کہا : اس سید زادے سے کہو کہ بیٹھ جائیں،یہ جب تک نہیں بیٹھیں گے میں بھی نہیں بیٹھوں گا، اس پر آلِ نبوت کا نور ہے اور بہت جلد اس کے علم و فضل سے تمام شہر فیض یاب ہوں گے ۔ تب استاذ نے انہیں بیٹھنے کا کہاتو آپ بیٹھ گئے۔ ([8])

آپ کے شیوخ و اساتذہ

آپ نے علمِ تجوید شیخ سعید الحموی رحمۃ اللہ علیہ سے حاصل کیا ۔ علمِ تفسیر ، حدیث، فقہ و اصولِ فقہ اور دیگر علوم شیخ محمد شاکر السالمی رحمۃ اللہ علیہ سے حاصل کئے ۔ آپ نے شیخ امیر المصری رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ محمد الکزبری رحمۃ اللہ علیہ سے بھی علوم و اجازت حاصل کیں۔ آپ نے شامی، مصری، حجازی، عراقی اور رومی مشائخ سے بھی علوم حاصل کئے۔ ([9])

مشہور تلامذہ

علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ سے کثیر علماء نے فیض حاصل کیا جن میں سے مشہور یہ ہیں : (1) شیخ عبد الغنی میدانی (2) شیخ حسن البیطار (3) احمد آفندی (4) سید محمد آفندی۔([10])

والدِ محترم کی شفقت

حصولِ علم کے لیے کتاب طالبِ علم کا حسن اور خوبی ہے اس کے بغیر عروج و بلندی کے زینے طے نہیں کر سکتا۔ علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ کے والد بہت ہی نیک سیرت اور پارسا آدمی تھے ۔ آپ تجارت کے پیشے سے منسلک تھے۔ ایک دفعہ اپنے صاحب زادے سے شفقت و محبت کا اظہار اس طرح فرمایا : تمہیں جس کتاب کی بھی حاجت ہو خرید لو پیسے میں دوں گا کیونکہ تم نے میرے اسلاف کی سیرت کا وہ پہلو زندہ کیا ہے جسے میں نے فوت کر دیا۔ اے میرے بیٹے! تمہیں اللہ پاک بہتر جزا عطا فرمائے۔ ([11])

والدِ محترم کے لیے ایصالِ ثواب

علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ کے والدِ محترم کا 1237ھ میں وصال ہوا۔ وصال کے بعد علامہ شامی کا معمول تھا کہ ہر رات سونے سے پہلے کچھ قراٰنِ کریم پڑھ کر ان کی روح کو ایصال کرتے تھے۔ایک مہینہ ہی گزرا تھا کہ مرحوم والد خواب میں آکر فرمانے لگے: اے میرے بیٹے اللہ پاک تجھے اس خیرات پر جزائے خیر دے جو ہر رات مجھے ہدیہ کرتا ہے۔ ([12])

آپ کی والدہ بھی انتہائی نیک سیرت اور پارسا خاتون تھیں ۔ علامہ شامی کے وصال کےدو سال بعد تک زندہ رہیں۔ بیٹے کے انتقال کے بعد آپ کا معمول تھا کہ ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک ایک لاکھ مرتبہ سورہ اخلاص پڑھتیں اور اس کا ثواب اپنے لختِ جگر کو ایصال کرتی تھیں ۔ ([13])

آپ کے شب و روز کی تقسیم

آپ نے تدریس و افتاء اور تصنیف و تالیف کے لیے اوقات تقسیم کر رکھے تھے، عموماً رات کے وقت تصنیف و تالیف کرتے اور دن تدریس، فتاویٰ اور مطالعہ کے لیے وقف تھے ۔ آپ انتہائی پرہیزگار اور متقی تھے،بہت کم سوتے، رمضان میں ہر رات ختم قراٰن کرتے تھے ۔اللہ پاک نے آپ کو قبولِ عامہ عطا کیا تھا جس کی وجہ سےلوگ آپ کی بات مان لیتے تھے اور جس کو جو لکھ کر دیتے وہ یقینا اس کے لیے باعثِ نفع ثابت ہوتا ۔ ([14])

علمی و تحقیقی خدمات

آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی زندگی دینِ متین کی خدمت و اشاعت کے لیے وقف کر رکھی تھی ۔ تدریس کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف کے میدان میں کارہائے نمایاں سر انجام دیئے اور قابلِ فخر کتب، حواشی اور شروحات تصنیف فرمائیں ۔آپ نے فقہ حنفی سے متعلق تیس کتابیں تالیف فرمائیں ان میں سے چند کے نام یہ ہیں : (1)حاشِیہ رَدُّ المُحْتَار علی الدرِ المُخْتَار (2)حاشِیہ مِنْحَۃُ الخَالِق علی البَحْرِ الرَّائِق (3)عُقُودُ رسمِ المُفتِی (4)نَظمُ الکَنْز (5)رَفْعُ التَّرَدُّد فی عَقْدِ الاَصَابِعِ عند التَّشَہُّد مع ذَیلِہَا ۔

اصولِ فقہ پر چار کتابیں تحریر کیں: (1)نَشرُ العُرف فی بَناءِ بَعضِ الاَحکامِ عَلی العُرف (2) نَسماتُ الاَسحَار عَلی شَرح ِالمَنَار (3)حاشیہ کُبری عَلی شَرح ِاِفَاضَۃ الاَنوَار (4)حاشِیہ عَلی شَرح ِالتَقْرِیرِ وَ التَعْبِیْر۔

علمِ تفسیر پر حاشِہ عَلی تَفْسِیرِ البَیْضَاوِی لکھا ۔

علمِ کلام و عقائد پر تین کتابیں لکھیں : (1)رَفْعُ الاِشْتِبَاہ عَنْ عِبَارَۃِ الاَشْبَاہ (2)تَنْبِیہُ الوُلاۃِ وَ الحُکَّامِ عَلی اَحکامِ شَاتِمِ خَیْرِ الاَنَامِ اَوْ اَحَدِ اَصْحَابِہ (3)اَلعِلمُ الظَّاہِر فیِ نَفْعِ النَّسَبِ الطَّاہِر ۔

تصوف میں دو کتابیں لکھیں : (1)اِجَابَۃُ الغَوْثِ فیِ بَیانِ حَالِ النُّقَبَاء (2)سل الحسام الہندی لنصرۃ مولانا خالد النقشبندی

علومِ عربیہ پر سات کتابیں لکھیں جن میں سے چند کے نام یہ ہیں : (1)الفوائدُ العجیبۃُ فی اعراب الکلمات الغربیۃِ ، یہ علمِ نحو پر مشتمل ہے ۔ (2)شرح ُالکافی فی العُروض و القَوافی ، یہ علمِ عروض پرمشتمل ہے۔ (3)مقامات فی مدح الشیخ شاکر العَقاد ، یہ ادب پر مشتمل ہے ۔ (4)حاشِیہ علی المُطول ، یہ علمِ بلاغت پر مشتمل ہے۔ سیرت پر قِصۃ المولد النبوی لکھی ۔ تاریخ سے متعلق ذیل سلک الدرر تحریر فرمائی اور علمِ حساب و ہیٔیت پر مناہل السرور لمبتغی الحساب بالکسور لکھی ۔ ([15])

وصالِ پُر ملال

علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ کا انتقال بروز بدھ 21 ربیع الاول 1252ھ میں ہوا ۔وصال کے وقت آپ کی عمر مبارک 54 سال تھی ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کوشہرِ دمشق کے قبرستان باب صغیر میں دفنایا گیا ۔ ([16])

آپ اپنے وقتِ وصال سے آگاہ تھے

آپ رحمۃ اللہ علیہ اپنے وصال سے بیس دن پہلےشیخ علاؤ الدین حصکفی صاحب در مختار اور محدثِ کبیر شیخ صالح الجینینی رحمۃ اللہ علیہما کی مزاروں کے قرب میں اپنے لیے ایک قبر بنوائی تھی، پھر آپ کی وصیت کے مطابق آپ کو وہیں دفن کیا گیا ۔ ([17])

نمازِ جنازہ

آپ رحمۃ اللہ علیہ کے جنازے میں اتنے لوگ تھے کہ ان سے پہلے کے جنازوں میں ایسا نہ دیکھا گیا یہاں تک کہ لوگوں کے ہجوم، نقصان اور لوگوں کا ایک دوسرے کو ایذا رسانی کی وجہ سے آپ کا جنازہ لوگوں کی انگلیوں کے پوروں پر اٹھا یا گیا تھا،کثرتِ ہجوم کی وجہ سے حاکمِ شہر اور پولیس لوگوں کو دور کرنے لگی ۔ ([18])

آپ کا جنازہ جامع سنان پاشا میں پڑھا گیا،مسجد بھر جانے کےسبب باہر سڑک پر بھی جنازہ ادا کیا گیا ۔ آپ کا جنازہ شیخ سعید الحلبی رحمۃ اللہ علیہ نے پڑھایا۔([19])

آپ کے مزار کی برکات

آپ رحمۃ اللہ علیہ کی قبر مبارک کی برکت کو بیان کرتے ہوئے لکھا گیا: وَ قَبَرُہُ مَشْہُوْرٌ ھُنَاکَ، عَلَیْہٖ جَلَالَۃٌ یُقْصَدُ لِطَلَبِ الحَوائِجِ وَ یُزَارُ یعنی آپ کی قبر مبارک وہاں مشہور ہے، قبر مبارک پر ہیبت و جلالت ظاہر ہوتا ہے ۔ پریشانیوں کے حل کے لئے آپ کی قبر کی زیارت کی جاتی ہے ۔ ([20])



[1]: ترمذی ، 2/27، حدیث : 484

[2]: تکملۃ رد المحتار علی الدر المختار ، 11/ 10 ماخوذاً

[3]: تکملۃ رد المحتار علی الدر المختار ، 11/ 14 ملتقطاً

[4]: تکملۃ رد المحتار علی الدر المختار ، 11/17

[5]: تکملۃ رد المحتار علی الدر المختار ، 11/ 11

[6]: حلیۃ البشر فی تاریخ القرن الثالث عشر، ص 1238ملتقطاً

[7]: تکملۃ رد المحتار علی الدر المختار ، 11/ 13

[8]: حلیۃ البشر فی تاریخ القرن الثالث عشر، ص 1239

[9]: تکملۃ رد المحتار علی الدر المختار ، 11/ 17

[10]:تکملۃ رد المحتار علی الدر المختار ، 11/ 18ملتقطاً

[11]: تکملۃ رد المحتار علی الدر المختار ، 11/ 14

[12]: تکملۃ رد المحتار علی الدر المختار ، 11/ 15

[13]: تکملۃ رد المحتار علی الدر المختار ، 11/ 15ماخوذاً

[14]: تکملۃ رد المحتار علی الدر المختار ، 11/ 14ملتقطاً

[15]: تکملۃ رد المحتار علی الدر المختار ، 11/ 12ملتقطاً

[16]: تکملۃ رد المحتار علی الدر المختار ، 11/ 20

1: تکملۃ رد المحتار علی الدر المختار ، 11/ 19

2: تکملۃ رد المحتار علی الدر المختار ، 11/ 20

[19]: حلیۃ البشر فی تاریخ القرن الثالث عشر، ص 1239

[20]: حلیۃ البشر فی تاریخ القرن الثالث عشر، ص 1239