
مفتی
عبدُ النبی حمیدی مرحوم سے چند یادگارملاقاتیں
مفتی عبدُ النبی حمیدی مرحوم جیّد عالمِ دین ،شیخ الحدیث ،مفسر ِقرآن ،مفتی و مدّرس
، متواضع و منکسر المزاج ،ہر دل عزیز اور دعوت اسلامی کے اہم مبلغ تھے ،اردو کے
علاوہ عربی و انگلش میں بیان کرنے کی کامل مہارت رکھتے تھے۔ مفتی صاحب کی پیدائش 1 ،اگست 1966ء کو پرانی چشتیاں شریف ضلع بہاولنگر، پنجاب ،پاکستان کے علمی گھرانے میں ہوئی اور وصال 3شوال
المکرم 1446ھ مطابق 2،اپریل 2025ءکوبروزبدھ ساؤ تھ افریقہ میں ہوا۔ نماز جنازہ بروز جمعرات صبح ساڑھے دس بجے آپ کے شاگرد، مبلغ
دعوت اسلامی مولانا محمد عثمان عطاری مدنی آف ملاوی نے پڑھائی ۔جس میں علما و مشائخ
،ائمہ مساجد، جامعۃ المدینہ کے اساتذہ و طلبہ
اور ملک بھر سے آئے ہوئے کثیر عاشقان رسول نے شرکت کی ۔تدفین لؤڈیم قبرستان، پریٹوریا
(pretoria) ساؤ تھ افریقہ
میں کی گئی۔
پہلی ملاقات:
راقم الحروف نے سب سے
پہلے ان کا ذکرِ خیر دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کے نگران حضرت مولانا حاجی
محمد عمران عطاری مدظلہ
العالی
کی زبان سے سنا۔2010ء کے بعد کسی سال یہ ساؤ تھ افریقہ سے دعوتِ اسلامی کے عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ کراچی آئے تو ان سے پہلی ملاقات ہوئی ، بعد کے سالوں میں
بھی ان سے کئی ملاقاتیں رہیں ۔
ملاقات سے اُبھرنے والا تأثر:
اِن
ملاقاتوں سے مجھ پر ان کا جو تأثر قائم ہوا وہ یہ تھا کہ
(1) آپ
ایک بہترین عالم دین ہونے کے ساتھ عالمگیر سوچ رکھنے والے مبلغ ِاسلام بھی ہیں ۔
(2) مفتی
صاحب کی ایک اہم خصوصیت ان کا مثبت اندازِ
فکر تھا، غیبت تو دور کی بات ہے انہوں نے کبھی بھی اشارۃ ًیا کنایۃً کسی تنظیمی ذمہ دار کا منفی تذکرہ یا عدم ِتعاون کا شکوہ نہیں کیا ۔
(3) یہ پر جوش
مگر صاحبِ وقار و متانت شخصیت کے مالک تھے ۔
(4) جذبات
میں بہہ جانے والا انداز نہیں تھا یہی ایک
عالم دین و مبلغ کی ذات کا حسن ہے ۔
یادگار ملاقاتوں کا خلاصہ
مفتی
صاحب سے جو ملاقاتیں ہوئیں ،ان میں عموماً مندرجہ ذیل تین امور پر ڈسکس رہی:
(1)غیر
مسلموں میں دین اسلام کی ترویج و اشاعت :
مفتی صاحب غیر مسلموں کو دعوتِ اسلام دینے
کے اسپیشلسٹ تھے ،ان کے ذریعے کئی غیر مسلم دائرہ ٔاسلام میں داخل ہو کر ایمان کی
دولت سے مالا مال ہوئے ۔ اس سے متعلق مفتی صاحب کے ذہن میں ایک مکمل پلان تھا کہ غیر مسلموں کو کس طرح دعوتِ اسلام دی جائے ، ان کے
اسلام پر کیا اعتراضات ہوتے ہیں اور ان کے کیا جوابات ہیں ؟ انہیں تعلیماتِ اسلام
سے آگاہ کرنے کے لیے کس طرح کی کتب تحریر کی جائیں اور جب یہ مسلمان ہو جائیں تو
ان کی تربیت کس طرح کی جائے ۔
بعد میں انہیں اُمور پر مفتی صاحب نے انگلش میں کتاب ”ویل
کم ٹو اسلام “تحریر فرمائی ، کچھ عرصہ بعد اس کا اردو ترجمہ بھی شائع ہوا۔ دونوں کی اشاعت دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے
مکتبۃُ المدینہ سے کی گئی ۔
مفتی صاحب نے نو مسلموں کی تربیت کے لیے
ایک نصاب بھی بنایا تھا ،اس کا تذکرہ ہوا تو راقم ُالحروف نے مفتی صاحب سے عرض کی
کہ دعوتِ اسلامی کے اسلامک ریسرچ سینٹر المدینۃ
العلمیہ کے ایک عالمِ دین مولانا محمد طاہر ثناء عطاری مدنی صاحب نے بھی اس طرح کا نصاب تیار کیا ہے تو مفتی صاحب نے فرمایا :”وہ مجھے بھیج دیں ،ان
کے نصاب کو بھی دیکھ لیتا ہوں ۔“غالباً آپ نے اسے دیکھنے کے بعد تحسین بھی فرمائی۔
پھر وہ وقت بھی آیا کہ امیر اہل سنّت علامہ
محمد الیاس عطّار قادری دامت برکاتہم العالیہ
کی اجازت اور مرکزی مجلس شوریٰ کی منظوری سے غیر مسلموں کو دعوت ِاسلام دینے کے لیے دعوت ِاسلامی کا شعبہ ”فیضانِ اسلام“
قائم کیا گیا ،پاکستان کے علاوہ دنیا بھر میں
اس کے نگران مفتی صاحب مقرّر ہوئے ،یوں مفتی صاحب کے ذہن میں جو برسوں سے پلان
تھا ،انہیں اس کو عملی صورت دینے کا موقع مل گیا ۔اس سلسلے میں آپ نے کئی ممالک کا
دورہ کیا ،آخری سفر موریشس کا تھا ۔
راقم ُالحروف کے پاس مرکزی مجلس شوریٰ کی
جانب سے دنیا بھرمیں اسلامی بہنوں کے دینی
کام اور شعبہ جات کی ذمہ داری ہے ،اسلامی
بہنوں میں ”شعبہ فیضانِ اسلام “کے دینی کاموں کو بڑھانے کے لیے مفتی صاحب سے
مشاورت رہتی تھی ، متعلقہ افراد کے ساتھ مفتی صاحب سے کئی مرتبہ باقاعدہ مشورے بھی
ہوئے۔ اس سلسلے میں ہمارا آخری مشورہ 13جولائی 2024ء کو ہوا۔ جس کے نکات تحریر کیے
گئے۔ مفتی صاحب نے انہیں چیک کر کے اس کی
کچھ تصحیح بھی فرمائی ۔
30اکتوبر2024ء کو مفتی صاحب سے بات ہوئی تو آپ نے بتایا کہ مجھے کینسر ہو گیا ہے ، دینی کام کرنے میں دشواری ہو رہی
ہے ،اسلامی بہنوں کی عالمی مجلسِ مشاور ت کو پیغام پہنچائیں کہ میرے بچوں کی امی(اہلیہ) اُمّ عبید رضا عطاریہ سے رابطے میں آ جائیں تاکہ عورتوں
میں فیضانِ اسلام کے کام کو آگے بڑھایا جا سکے ۔
(2)کنز
الایمان کی انگلش ٹرانسلیشن:
مفتی صاحب سے ڈسکس کا دوسرا موضوع اعلیٰ
حضرت امام احمد رضا قادری رحمۃ اللہ علیہ کے ”کنزُالایمان فی ترجمۃ القرآن“ کی انگلش
ٹرانسلیشن تھی، مفتی صاحب کا ذہن تھا کہ مارکیٹ میں موجود کنز ُالایمان کی انگلش ٹرانسلیشن کو کافی عرصہ
گزر چکا ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ نئی
نسل کی موجودہ کیفیت کے مطابق آسان انگلش میں ترجمہ ہو ۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ مفتی صاحب نے یہ کام کرنے کے ساتھ پانچ جلدوں پر مشتمل انگلش تفسیر
مفتاح ُالاحسان تحریر فرمائی جس کی دو جلدیں دعوت ِاسلامی کے
مکتبۃ ُالمدینہ نے زیورِ طبع سے
آراستہ کر دی ہیں اور بقیہ تین جلدیں زیر ِطبع ہیں۔
(3)مسلک
ِحقّہ اہل سنّت کا عالمگیر کا م :
مفتی صاحب اسلام و سنیت کا درد رکھنے والے
عالم دین تھے ،آپ کی گفتگو سے مسلمانوں کے ایمان کے تحفظ کا جذبہ جھلکتا تھا ،مفتی صاحب کا کہنا تھا کہ
” مَیں نے اہل سنّت کی کئی تنظیموں کے تحت
دینی کاموں میں حصّہ لیا ہے مگر جو انداز امیر ِاہل سنّت علامہ محمد الیاس عطار قادری دامت
برکاتہم
العالیہ نے دعوت ِاسلامی والوں کو دیا ہے ؛ اس کے ذریعے بہتر و مؤثر انداز سے دینی کاموں کو دنیا بھرمیں کیا جا سکتا
ہے ۔“
پھر اپنا تجربہ بیان کیا کہ” دعوت اسلامی کے
مدنی ماحول سے وابستہ ہونے سے قبل امامت و خطابت اور تدریس کی خدمات سرا نجام دیتا تھا ، جب سے دعوت اسلامی سے وابستہ ہوا ہوں، دین اسلام کی تبلیغ اور کئی دیگر دینی کام کرنے کی سعادت ملی ہے۔ کئی مساجد اور مدارس بنانے میں کامیابی نصیب
ہوئی۔ “
مفتی
صاحب کی ایک اہم خصوصیت یہ تھی کہ یہ حتی
الامکان دوسروں کے ساتھ دینی کاموں میں مدد و تعاون فرمایا کرتے تھے ۔راقمُ الحروف
اور مفتی صاحب میں کبھی بھی نگران و ماتحت والا تعلق نہیں رہا مگر جب بھی ان سے کوئی بات عرض کی تو انہوں نے بھرپور تعاون فرمایا ، ایک مثال حاضر ہے ،وفات
سے تقریبا چار ماہ قبل 25نومبر2024ء کو
راقمُ الحروف نے عرض کی کہ دعوتِ اسلامی کےشعبہ اوقاتُ الصلوۃ (موجودہ نام شعبہ
فلکیات )کے علمائے کرام استاذُ
التوقیت مولانا وسیم احمد عطاری مدنی اور مولانا
سید رحمت علی شاہ عطاری مدنی نے خلیفہ اعلیٰ حضرت ،ملک العلماء علامہ ظفر الدین
محدّث بہاری رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب توضیحُ التوقیت کی شرح کنزُ التوقیت تحریر فرمائی
ہے، کام مکمل ہو گیا ہے آپ اس پر تقریظ لکھ کر دیں ،باوجود شدید بیماری کے آپ نے ”اِن شاء اللہ“ لکھ کر بھیجا۔ ایک ماہ کے بعد 26دسمبرکو اس کام
کے بارے میں راقم ُالحروف نے صوتی پیغام بھیجا تو مفتی صاحب نے جواب دیا :’’بیماری کافی بڑھ گئی ہے کیموتھراپی کا عمل
جاری ہے ،کئی بار نیت کی مگر کامیاب نہ ہو سکا بہر حال کوشش کرتا ہوں ایک دو دِنوں
میں قلم سے لکھ کر بھیج دیتا ہوں ، آپ اسے
کمپوز کروا لیجئے گا ۔
مزید
فرمایا :’’امیر اہل سنّت کی کتاب کفریہ کلمات کے بارے
میں سوال جواب انگلش ٹرانسلیشن کا کام شروع کیا ہے، مگر مزید کام کرنے کے لیے
بیٹھتا ہوں تو تکلیف بڑھ جاتی ہے آپ دعا فرمائیں کہ مَیں شفا یاب ہو جاؤں۔‘‘
پھر5جنوری 2025ء کو آپ نے کنزُالتوقیت فی شرح
توضیح ُالتوقیت کے لیے کلماتِ تحسین لکھ
کر بھیج دئیے اوراس میں تبدیلی کا اختیار بھی
دیا ۔راقمُ الحروف نے اس تحریر کو کمپوز کروا
کر 18جنوری 2025کو چیک کروانے کے لیے بھیجا
تو اُسی دن جواب دیا اور خوشی کا اظہار فرمایا ۔
مفتی صاحب سے میرا یہ آخری رابطہ تھا ، اس کے
بعد مفتی صاحب ہسپتال داخل ہو گئے اور3شوالُّ المکرّم 1446ھ مطابق 2،اپریل2025ء بروز بدھ وصال فرما گئے۔
اللہ
پاک مفتی عبد النبی حمیدی صاحب کی دینی
خدمات کو قبول فرمائے ،ان کی کامل مغفرت فرمائے ، جنّتُ الفردوس میں بغیر حساب و
کتاب داخلہ عطا فرمائے ۔اٰ مین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ والہ وسلم
4شوال
المکرم 1446ھ مطابق 3،اپریل 2025ء بروز جمعرات
ابو ماجد محمد شاہد
عطاری عفی عنہ (عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ کراچی )

آہ !آج مبلغ دعوتِ اسلامی
،عالم با عمل دنیا سے رخصت ہو گئے
مبلغ
دعوتِ اسلامی ،عالم با عمل حضرت علامہ مولانا حافظ مفتی عبد ُالنبی حمیدی عطاری صاحب کچھ ماہ سے کینسر کی وجہ سے بیمار تھے ۔مبلغ دعوت اسلامی حاجی محمد خالد عطاری (یو۔کے)نے مرکزی مجلس شوری کے
واٹس ایپ گروپ میں آج 4شوال ُالمکرم
1446ھ رات سات بج کر پچاس منٹ پر خبر دی کہ مفتی عبد النبی حمیدی صاحب وفات
پا گئے ۔سن کر دکھ ہوا اور زبان پر جاری ہو گیا کہ موت کا کوئی بھروسا نہیں ۔اللہ
پاک مفتی صاحب کی کامل مغفرت فر مائے اور جنتُ
الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے ۔مفتی صاحب نے سنِ
عیسوی کے مطابق 58سال عمر پائی ۔
مفتی عبد النبی حمیدی صاحب
کا مختصر تعارف
پیدائش
:مفتی عبد النبی حمیدی عطاری صاحب کی پیدائش 1 اگست 1966ء کو پرانی چشتیاں شریف ضلع بہاولنگر، پنجاب ،پاکستان کے علمی گھرانے میں ہوئی۔ مفتی
صاحب مفسرِ قرآن، مصنّفِ کتب، استاذ ِدرس نظامی، شیخ الحدیث، مبلغ ِدعوت اسلامی اور حسن ظاہری کے ساتھ حسن باطنی سے مالا مال
تھے ۔آپ اردو کے
ساتھ انگلش کے بہترین مقرّر بھی تھے ۔ کثیر غیر مسلم ان کے ہاتھوں پر اسلام لا کر دامنِ اسلام سے وابستہ ہوئے۔
والد
صاحب کا تعارف :مفتی عبدُ النبی حمیدی صاحب کے
والد گرامی استاذُ العلماء مولانا حافظ محمد عبدالکریم رضوی چشتی رحمۃ اللہ علیہ حافظ ِقرآن ،فاضل دار العلوم
منظرُ اسلام بریلی شریف ،شاگردِ محدثِ
اعظم پاکستان ،عالمِ باعمل ،مدرّس جامعہ فخر ُالمدارس دربار ِعالیہ مہار شریف چشتیاں اور استاذُ العلما تھے ۔ان کی
پیدائش 1338ھ مطابق 1920 ء کو یونین
کونسل سبائے والا (Sabay
wala)تحصیل
جتوئی ضلع مظفر گڑھ پنجاب میں ہوئی اور5 صفر 1398ھ مطابق 15 جنوری 1978ء کومہار شریف ،چشتیاں شریف ضلع بہاولنگر میں وصال
فرمایا۔ تدفین احاطہ مزار خواجہ نور محمد مہاروی (رحمۃُ اللہِ علیہ)مہار شریف میں کی گئی۔ انہوں نے اپنی جائے پیدائش ، جامعہ
فخرُ المدارس مہار شریف اور دار العلوم منظر اسلام بریلی شریف میں تعلیم
حاصل کی اور محدث اعظم پاکستان علامہ سردار احمد چشتی رحمۃُ اللہِ علیہ سے 1940 میں دورہ حدیث مکمل کیا۔ فارغُ
التحصیل ہونے کے بعد ملتان اور پھر کوٹ مٹھن شریف میں درس نظامی کے استاذ رہے ۔ 1948 میں حرمین شریفین کی حاضری
کا شرف حاصل کیا اور حج ادا فرمایا۔ بیعت
کا شرف سلسلہ چشتیہ نظامیہ کے شیخ ِطریقت
خواجہ محمد حسین بخش چشتی نظامی ملتان شریف ([1])سے
حاصل ہوا۔ مرحوم سجادہ نشین و عالم اجل حضرت خواجہ نور جہانیاں رحمۃُ
اللہِ علیہ نے 1958 میں آپ کو مسجد خواجہ نور محمد مہاروی چشتیاں شریف کی امامت و خطابت اور جامعہ فخر المدارس ،مہار شریف کی تدریس
کی خدمات کی ذمہ داری پر مامور فرمایا۔ آپ وفات تک دربار عالیہ کی مسجد کی امامت و خطابت اور تدریس کے منصب پر
فائز رہے۔ اللہ پاک نے آپ کو پانچ
صاحبزادیاں اور چار صاحبزادے عطا فرمائے جن میں سے مولانا عبد الرحیم آف چشتیاں
اور حضرت علامہ حافظ مفتی عبد النبی حمیدی
آف ساؤ تھ افریقہ عالم دین بنے ۔
تعلیم
وتربیت : مفتی عبد النبی
حمیدی صاحب نےحفظ ِقرآن مع ابتدائی
تعلیم پرانی چشتیاں شریف میں والد صاحب اور دیگر علمائے کرام سے حاصل کر کے جامعہ نعیمیہ لاہور میں داخلہ لیا ۔ وہاں ابتدائی
درجات پڑھ کر استاذُالعلما، جامع المعقول
و المنقول علامہ مفتی ارشاداحمد نقشبندی([2]) رحمۃُ
اللہِ علیہ آف اڈا چھب ضلع
خانیوال سے شرف ِتلمذ پایا۔ دورۂ حدیث
شریف جامعہ مظہر اسلام ہارون آباد ضلع
بہاولنگر سے کیا۔ صاحبزادۂ قطب ِمدینہ حضرت مولانا حافظ فضل الرحمن مدنی([3]) رحمۃُ اللہِ علیہ سے بیعت اور امیر اہل
سنت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ سے
طالب ہوئے۔ البتہ اپنے خاندان کے ایک بزرگ
حضرت حمید الدین رحمۃ اللہ علیہ کی نسبت سے حمیدی
مشہور ہوئے ۔
دینی
خدمات :فارغ التحصیل ہونے کے
بعد پاکستان میں درس و تدریس اور امامت و خطابت میں مصروف رہے ،انگلش بول چال
سیکھی اور ساؤ تھ افریقہ میں بطور امام و خطیب
منتقل ہو گئے، وہیں دعوت اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ ہوئے ۔انہوں نے ایک مرتبہ عالمی مدنی مرکز فیضان
مدینہ کراچی میں راقم الحروف کوتحدیثِ نعمت کے طورپر بتایا :”دعوت اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ
ہونے سے قبل امامت وخطابت اورتدریس کی خدمات سرانجام دیتاتھا ، جب سے دعوت اسلامی سے وابستہ ہوا ہوں، دین اسلام کی تبلیغ اورکئی دیگردینی کام کرنے کی سعادت ملی ہے۔ کئی مساجد اور مدارس بنانے میں کامیابی نصیب
ہوئی۔ کتاب ویل کم ٹو اسلام ، ترجمہ کنزالایمان کی انگلش ٹرانسلیشن اور انگلش میں
قرآنِ پاک کی تفسیر مفتاحُ الاحسان لکھنے
کی بھی سعادت پاچکا ہوں۔“
اللہ
پاک ان کی دینی خدمات کو قبول فرمائے ،ان کی کامل مغفرت فرمائے ،جنتُ الفردوس میں
بغیر حساب و کتاب داخلہ عطا فرمائے ۔اٰ مین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ والہ وسلم ۔
4شوال المکرم
1446ھ مطابق 2اپریل 2025ء
ابو ماجد محمد شاہد عطاری
عفی عنہ ۔عالمی مدنی مرکز
فیضان مدینہ کراچی
[1]...مرشدالعارفین حضرت خواجہ حسین بخش
صدیقی ملتانی کی پیدائش خواجہ محمد نظام بخش ملتانی کے گھرمیں1299ھ میں ہوئی ۔ آپ کا شجرہ نسب کچھ یوں ہے :خواجہ
حسین بخش بن خواجہ محمد نظام بخش بن خواجہ خدابخش محبوب اللہ ثانی ۔آخرُالذکر
خواجہ محمد موسیٰ چشتی،دربارمحلہ کمن گراں ،اندرون حسین آگاہی ملتان کے
خلیفہ تھے جوکہ مشہورولی اللہ حضرت خواجہ خدابخش محبوبُ اللہ،دربارِعالیہ
خیرپورٹامیوالی اورحافظ جمال ُاللہ ملتانی
کے خلیفہ ہیں ۔خواجہ حسین بخش نے اپنے
دادااورخواجہ محمدموسی سے علوم وفنون اوربیعت کرکے خلافت حاصل کی۔ آپ بہت عبادت
گزاراورتلاوت قرآن کرنے والے تھے ،چالیس سال تک تین دن میں ختم قرآن کرتے اورروزانہ
پانچ سونوافل اداکرتے تھے۔آپ نے 5محرم1370ھ میں وصال فرمایا۔(الیواقیت المہریہ،
ص129)
[2] ...استاذالعلماء ،جامع معقول ومنقول حضرت علامہ مفتی محمد
ارشاداحمد نقشبندی اکابرین اہل سنت سے ہیں، آپ نے اڈاچھب تھانہ تحصیل میاں چنوں
ضلع خانیوال میں بہترین تعلیمی ادارہ جامعہ غوثیہ احسن المدارس کی بنیادرکھی ۔آپ
کا وصال 27شعبان المعظم 1437 ھ مطابق 4
جون 2016ء میں ہوا۔
[3]... صاحبزادۂ قطبِ مدینہ، حضرت مولانا حافظ فضلُ الرّحمٰن قادری مَدَنی
رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 1344ھ کو محلہ بابُ السّلام زقاق الزرندی مدینۂ مُنوّرہ میں ہوئی اور 27شوال 1423ھ
کو وصال فرمایا۔تدفین جنّتُ البقیع میں ہوئی۔ آپ عالمِ دین، بہترین قاری اورشیخِ
طریقت تھے۔ امیرِ اہلِ سنّت علّامہ محمد الیاس عطّار قادری مُدَّ ظِلُّہُ
الْعَالِی کو آپ سے سلاسلِ کثیرہ کی خلافت حاصل ہے۔( سیدی ضیاء الدین احمد القادری،2/406تا
417، انوارِ قطبِ مدینہ، ص 576، تعارف امیر اہل سنّت،ص73)

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنط اَمَّا بَعْدُ!
فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمط بِسْمِ
اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمط
دُرُود شریف کی فضیلت
اللہ
پاک کے آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے
ہیں: قیامت کے دن لوگوں میں میرے قریب تَر وہ ہوگا جس نے مجھ پر زیادہ دُرُودِ پاک
پڑھے ہوں گے۔ ([1])
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب صَلَّی
اللہُ عَلٰی مُحَمَّد
ہمارے لئے
یہ بات قابلِ فخر ہے کہ ہماری تاریخ ایسی جلیل ا لقدر شخصیات سے مُزَیَّن ہے جن کی علمی وَجاہت کا شُہرہ
اَطرافِ عالَم میں پھیلا ہوا ہے۔جن کی کوششوں اور شبانہ روز محنتوں کی وجہ سے
مستندد دینی احکامات مسلمانوں تک منتقل
ہوتے رہے ہیں، ان ہی جلیل ا لقدر شخصیات میں سے ایک نام حضرت علّامہ ابنِ عابدین شامی رحمۃ
اللہ علیہ کا بھی ہے۔
نام و نسب اور ولادت
آپ
کی ولات 1198ھ مطابق 1784ء میں ملکِ شام کے دار الخلافہ دمشق میں ہوئی۔ آپ
کا نام سید محمد امین بن عمر بن عبد العزیز ہے۔ آپ کا نسب انتیس (29) واسطوں سے نواسہ
ٔرسول حضرت امامِ حسین رضی اللہُ عنہ
سے جاملتا ہے۔ آپ کا خاندان فضل و شرف میں
مشہور تھا۔([2])
آپ کا حلیہ مبارک
آپ رحمۃ اللہ علیہ کا قد دراز، انگلیاں و اعضاء چوڑے
تھے، رنگ سفید اور بال سیاہ تھے، سفید بال بہت کم تھے کہ اگر کوئی گننا چاہے تو
باآسانی گن سکتا تھا ۔ ([3])
ابن ِعابدین سے شہرت
آپ”
ابنِ عابدین “کے نام سے مشہور ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کے جدِ اعلیٰ محمد
صلاح الدین کثرتِ عبادت و ریاضت اور زہد و تقوی کی وجہ سے ”عابدین“ کے لقب
سے معروف تھے اور آپ ہی اس خاندان کی
شہرت کی اساس اور بنیاد ہیں چنانچہ اسی نسبت سے علامہ شامی ”ابنِ عابدین“ کہلاتے
ہیں ۔
ولادت سے پہلے بشارت
صاحبِ کشف
ولی شیخ صالح رحمۃ اللہ علیہ علامہ
شامی کے ماموں تھے،آپ نے اپنی بہن کو علامہ شامی کے پیدا ہونے کی بشارت دی اور پیدائش کے بعد نام بھی ماموں نے رکھا۔
ماموں
جان بچپن میں علامہ شامی کو گود میں لے کر کہتے: میں نے تمہارے سر پر بزرگی و
سیادت کا تاج رکھ دیا ہے ۔ ([4])
تعلیم و تربیت
علامہ
شامی رحمۃ
اللہ علیہ نے اپنے والد سید عمر عابدین رحمۃ اللہ
علیہ کے سائے میں تربیت پائی ۔ آپ نے بہت
چھوٹی سی عمر میں قرآنِ پاک حفظ کر لیا تھا ۔ پھر حفظِ قرآن کے بعد اپنے والد کی
دکان پر بیٹھ گئے ۔([5])
علمِ دین کی طرف میلان کا سبب
ایک
دفعہ آپ دکان پر بیٹھےقرآنِ پاک کی تلاوت کر رہے تھے اتنے میں ایک بزرگ پاس سے گزرے۔ انہوں نے آپ کی قرأت کو ناپسند کیا اور کہا : ایک تو تم قراٰن
صحیح نہیں پڑھ رہے اور پھر بھرے بازار میں پڑھ رہےہوجس کی وجہ سے دوسرے لوگ بھی
گناہ گار ہو رہے ہیں۔ یہ سن کرآپ نے درست قراٰن پڑھنے کا ارادہ کیا اور حضرت سعید
حموی شافعی رحمۃ
اللہ علیہ سے فنِ قرأت و تجوید سیکھی یہاں تک کہ
اس فن میں ماہر ہوگئے۔ پھر مزید شوق بڑھا
تو نحو ، صرف اور فقہ شافعی پڑھی۔
فقہِ حنفی کی طرف توجہ
آپ کے ابتدائی شیخ سعید حموی رحمۃ اللہ علیہ شافعی
تھے اسی لیےابتداءً آپ کا میلان بھی فقہ
شافعی کی طرف ہی تھا،پھرجب شیخ محمد شاکر بن علی العقاد حنفی رحمۃ اللہ علیہ سے فقہ حنفی کے اصول اور ان کے
جزئیات پڑھے اورآپ نے فقہ حنفی کو اختیار
کیا۔ ([6])
سلسلہ قادریہ سے نسبت
علامہ
شامی رحمۃ
اللہ علیہ نے اپنے استاذِ محترم شیخ شاکر العقاد
رحمۃ
اللہ علیہ سے نہ صرف علمِ دین کے موتی سمیٹے اور
ان کی تربیت میں رہ کر وقت کے امام بنے بلکہ آپ رحمۃ اللہ
علیہ ان سے سلسلہ قادریہ میں مرید بھی ہوئے
اور ان سے خلافت بھی حاصل کی ۔ ([7])
استاذ کا ادب
علامہ
شامی رحمۃ
اللہ علیہ کے صاحبزادے سید علاؤالدین رحمۃ
اللہ علیہ بیان کرتے ہیں: میرے والد اپنے شیخ
محمد شاکر العقاد رحمۃ
اللہ علیہ کے ہمراہ دمشق میں شیخ محمد عبد النبی
رحمۃ
اللہ علیہ سے ملاقات کے لیے گئے جب دونوں حضرات
ان کے پاس پہنچے تو ان کے استاد تو وہاں
بیٹھ گئے لیکن میرے والد اپنی عادت کے مطابق شیخ کے جوتے اٹھا ئےچوکھٹ پر کھڑے رہے، یہ دیکھ کر شیخ محمد عبد النبی نے
شیخ شاکر العقاد سے کہا : اس سید زادے سے کہو کہ بیٹھ جائیں،یہ جب تک نہیں بیٹھیں گے میں بھی نہیں بیٹھوں گا، اس پر آلِ
نبوت کا نور ہے اور بہت جلد اس کے علم و فضل سے تمام شہر فیض یاب ہوں گے ۔ تب استاذ نے انہیں بیٹھنے کا کہاتو آپ بیٹھ گئے۔ ([8])
آپ کے شیوخ و اساتذہ
آپ نے علمِ تجوید شیخ سعید الحموی رحمۃ اللہ علیہ سے حاصل
کیا ۔ علمِ تفسیر ، حدیث، فقہ و اصولِ فقہ
اور دیگر علوم شیخ محمد شاکر السالمی رحمۃ اللہ علیہ سے حاصل کئے ۔ آپ نے شیخ امیر المصری رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ
محمد الکزبری رحمۃ اللہ علیہ سے بھی علوم و اجازت حاصل کیں۔ آپ نے شامی، مصری، حجازی، عراقی اور رومی مشائخ
سے بھی علوم حاصل کئے۔ ([9])
مشہور تلامذہ
علامہ
شامی رحمۃ
اللہ علیہ سے کثیر علماء نے فیض حاصل کیا جن میں سے مشہور یہ ہیں : (1) شیخ عبد الغنی میدانی (2) شیخ
حسن البیطار (3) احمد آفندی (4) سید
محمد آفندی۔([10])
والدِ محترم کی شفقت
حصولِ
علم کے لیے کتاب طالبِ علم کا حسن اور خوبی ہے اس کے بغیر عروج و بلندی کے زینے طے
نہیں کر سکتا۔ علامہ
شامی رحمۃ
اللہ علیہ کے والد بہت ہی نیک سیرت اور پارسا آدمی تھے ۔ آپ تجارت کے پیشے سے منسلک
تھے۔ ایک
دفعہ اپنے صاحب زادے سے شفقت و محبت کا اظہار اس طرح فرمایا : تمہیں جس کتاب کی
بھی حاجت ہو خرید لو پیسے میں دوں گا کیونکہ تم نے میرے اسلاف کی سیرت کا وہ
پہلو زندہ کیا ہے جسے
میں نے فوت کر
دیا۔ اے میرے بیٹے! تمہیں اللہ پاک بہتر جزا عطا فرمائے۔ ([11])
والدِ محترم کے لیے ایصالِ ثواب
علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ کے والدِ محترم کا 1237ھ میں وصال ہوا۔ وصال کے بعد علامہ
شامی کا معمول تھا کہ ہر رات سونے سے پہلے کچھ قراٰنِ کریم پڑھ کر ان کی روح کو
ایصال کرتے تھے۔ایک مہینہ ہی گزرا تھا کہ
مرحوم والد خواب میں آکر فرمانے لگے: اے میرے بیٹے اللہ پاک تجھے اس خیرات پر
جزائے خیر دے جو ہر رات مجھے ہدیہ کرتا ہے۔ ([12])
آپ کی والدہ بھی انتہائی نیک سیرت اور پارسا خاتون تھیں ۔ علامہ شامی کے وصال کےدو سال
بعد تک زندہ رہیں۔ بیٹے کے انتقال کے بعد
آپ کا معمول تھا کہ ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک ایک لاکھ مرتبہ سورہ اخلاص پڑھتیں
اور اس کا ثواب اپنے لختِ جگر کو ایصال کرتی تھیں ۔ ([13])
آپ کے شب و روز کی تقسیم
آپ نے تدریس و
افتاء اور تصنیف و تالیف کے لیے اوقات تقسیم کر رکھے تھے، عموماً رات کے وقت تصنیف و تالیف کرتے اور دن تدریس،
فتاویٰ اور مطالعہ کے لیے وقف تھے ۔ آپ انتہائی پرہیزگار اور متقی تھے،بہت کم
سوتے، رمضان میں ہر رات ختم قراٰن کرتے تھے ۔اللہ پاک نے آپ کو قبولِ عامہ عطا کیا تھا جس کی وجہ سےلوگ آپ کی بات مان لیتے تھے اور جس کو جو لکھ
کر دیتے وہ یقینا اس کے لیے باعثِ نفع
ثابت ہوتا ۔ ([14])
علمی و تحقیقی خدمات
آپ
رحمۃ
اللہ علیہ نے اپنی زندگی دینِ متین کی خدمت و اشاعت
کے لیے وقف کر رکھی تھی ۔ تدریس کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف کے میدان میں کارہائے
نمایاں سر انجام دیئے اور قابلِ فخر کتب، حواشی اور شروحات تصنیف فرمائیں ۔آپ نے
فقہ حنفی سے متعلق تیس کتابیں تالیف فرمائیں ان میں سے چند کے نام یہ ہیں : (1)حاشِیہ رَدُّ المُحْتَار
علی الدرِ المُخْتَار (2)حاشِیہ مِنْحَۃُ الخَالِق علی البَحْرِ الرَّائِق (3)عُقُودُ رسمِ المُفتِی (4)نَظمُ الکَنْز (5)رَفْعُ التَّرَدُّد فی
عَقْدِ الاَصَابِعِ عند التَّشَہُّد مع ذَیلِہَا ۔
اصولِ فقہ
پر چار کتابیں تحریر کیں: (1)نَشرُ
العُرف فی بَناءِ بَعضِ الاَحکامِ عَلی العُرف (2) نَسماتُ
الاَسحَار عَلی شَرح ِالمَنَار (3)حاشیہ
کُبری عَلی شَرح ِاِفَاضَۃ الاَنوَار (4)حاشِیہ عَلی شَرح
ِالتَقْرِیرِ وَ التَعْبِیْر۔
علمِ تفسیر
پر حاشِہ عَلی تَفْسِیرِ البَیْضَاوِی لکھا ۔
علمِ کلام
و عقائد پر تین کتابیں لکھیں : (1)رَفْعُ
الاِشْتِبَاہ عَنْ عِبَارَۃِ الاَشْبَاہ (2)تَنْبِیہُ الوُلاۃِ وَ
الحُکَّامِ عَلی اَحکامِ شَاتِمِ خَیْرِ الاَنَامِ اَوْ اَحَدِ اَصْحَابِہ (3)اَلعِلمُ الظَّاہِر فیِ
نَفْعِ النَّسَبِ الطَّاہِر ۔
تصوف میں
دو کتابیں لکھیں : (1)اِجَابَۃُ
الغَوْثِ فیِ بَیانِ حَالِ النُّقَبَاء (2)سل الحسام الہندی لنصرۃ مولانا خالد النقشبندی
علومِ عربیہ
پر سات کتابیں لکھیں جن میں سے چند کے نام یہ ہیں : (1)الفوائدُ العجیبۃُ فی
اعراب الکلمات الغربیۃِ ، یہ علمِ نحو پر مشتمل ہے ۔ (2)شرح ُالکافی فی العُروض
و القَوافی ، یہ علمِ عروض پرمشتمل ہے۔ (3)مقامات
فی مدح الشیخ شاکر العَقاد ، یہ ادب پر مشتمل ہے ۔ (4)حاشِیہ علی المُطول ، یہ علمِ
بلاغت پر مشتمل ہے۔ سیرت پر قِصۃ
المولد النبوی لکھی ۔ تاریخ سے متعلق ذیل
سلک الدرر تحریر فرمائی اور علمِ حساب و ہیٔیت پر مناہل
السرور لمبتغی الحساب بالکسور لکھی ۔ ([15])
وصالِ پُر ملال
علامہ
شامی
رحمۃ اللہ علیہ کا
انتقال بروز بدھ 21 ربیع الاول 1252ھ میں ہوا ۔وصال کے وقت آپ کی عمر مبارک 54
سال تھی ۔ آپ رحمۃ اللہ
علیہ کوشہرِ دمشق کے قبرستان باب صغیر میں
دفنایا گیا ۔ ([16])
آپ اپنے وقتِ وصال سے آگاہ تھے
آپ رحمۃ
اللہ علیہ اپنے وصال سے بیس دن پہلےشیخ علاؤ
الدین حصکفی صاحب در مختار اور محدثِ کبیر شیخ صالح الجینینی رحمۃ اللہ علیہما کی
مزاروں کے قرب میں اپنے لیے ایک قبر بنوائی تھی، پھر آپ کی وصیت کے مطابق آپ کو وہیں دفن کیا گیا ۔ ([17])
نمازِ جنازہ
آپ
رحمۃ
اللہ علیہ کے جنازے میں اتنے لوگ تھے کہ ان سے
پہلے کے جنازوں میں ایسا نہ دیکھا گیا یہاں تک کہ لوگوں کے ہجوم، نقصان اور لوگوں
کا ایک دوسرے کو ایذا رسانی کی وجہ سے آپ کا جنازہ لوگوں کی انگلیوں کے پوروں پر
اٹھا یا گیا تھا،کثرتِ ہجوم کی وجہ سے حاکمِ شہر اور پولیس لوگوں کو دور کرنے لگی
۔ ([18])
آپ
کا جنازہ جامع سنان پاشا میں پڑھا
گیا،مسجد بھر جانے کےسبب باہر سڑک پر بھی جنازہ ادا کیا گیا ۔ آپ کا جنازہ شیخ سعید الحلبی رحمۃ
اللہ علیہ نے پڑھایا۔([19])
آپ کے مزار کی برکات
آپ
رحمۃ
اللہ علیہ کی قبر مبارک کی برکت کو بیان کرتے
ہوئے لکھا گیا: وَ
قَبَرُہُ مَشْہُوْرٌ ھُنَاکَ، عَلَیْہٖ
جَلَالَۃٌ یُقْصَدُ لِطَلَبِ الحَوائِجِ
وَ یُزَارُ یعنی آپ کی
قبر مبارک وہاں مشہور ہے، قبر مبارک پر
ہیبت و جلالت ظاہر ہوتا ہے ۔ پریشانیوں کے حل کے لئے آپ کی قبر کی زیارت کی جاتی
ہے ۔ ([20])
[1]:
ترمذی ، 2/27، حدیث : 484
[2]:
تکملۃ رد المحتار علی الدر المختار
، 11/ 10 ماخوذاً
[3]:
تکملۃ رد المحتار علی الدر المختار ،
11/ 14 ملتقطاً
[4]:
تکملۃ رد المحتار علی الدر المختار
، 11/17
[5]:
تکملۃ رد
المحتار علی الدر المختار ، 11/
11
[6]:
حلیۃ
البشر فی تاریخ القرن الثالث عشر،
ص 1238ملتقطاً
[7]: تکملۃ رد المحتار علی الدر المختار ، 11/ 13
[8]: حلیۃ البشر فی تاریخ القرن الثالث عشر، ص 1239
[9]: تکملۃ
رد المحتار علی الدر المختار ، 11/ 17
[10]:تکملۃ رد المحتار علی
الدر المختار ، 11/ 18ملتقطاً
[11]:
تکملۃ رد
المحتار علی الدر المختار ، 11/
14
[12]:
تکملۃ رد
المحتار علی الدر المختار ، 11/
15
[13]:
تکملۃ رد
المحتار علی الدر المختار ، 11/
15ماخوذاً
[14]:
تکملۃ رد
المحتار علی الدر المختار ، 11/
14ملتقطاً
[15]:
تکملۃ رد
المحتار علی الدر المختار ، 11/
12ملتقطاً
[16]:
تکملۃ رد
المحتار علی الدر المختار ، 11/
20
[19]:
حلیۃ البشر فی تاریخ القرن الثالث
عشر، ص 1239
[20]:
حلیۃ البشر فی تاریخ
القرن الثالث عشر، ص 1239