اُخوت‘‘عربی زبان کا لفظ ہے جو’’اَخٌ‘‘ سے بنا ہے،اس کے معنیٰ’’بھائی چارہ،یگانگت اوربرادری‘‘کے ہیں۔اسلام میں تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں، چاہے وہ کہیں بھی رہتے ہوں اور ان کا کسی بھی رنگ ونسل اور وطن سے تعلق ہو۔جو کلمہ طیبہ پڑھ کراسلام میں داخل ہو جاتا ہے وہ بحیثیت مسلمان ہمارا دینی بھائی ہے ۔اﷲ پاک نے اپنے پیارے حبیب،حضرت محمد صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ذریعے مسلمانوں کے درمیان ایک پائیدار اور مستحکم رشتہ قائم کیا ہے۔اس رشتے کی عظمت وفضیلت،اِفادیت و اہمیت کے حوالے سے قرآنِ مجیدکی کئی آیاتِ مقدسہ اور رسول اﷲصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی بے شمار احادیث مبارکہ موجود ہیں۔قرآنِ مجید میں ارشادِ باری ہے :اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوۡنَ اِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوۡا بَیۡنَ اَخَوَیۡکُمْ ۚوَ اتَّقُوا اللہَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوۡنَ 0٪ (پ26،الحجرات:10 )ترجمۂ کنزالایمان : مسلمان مسلمان بھائی ہیں تو اپنے دو بھائیوں میں صلح کرو اور اللہ سے ڈرو کہ تم پر رحمت ہو۔ اﷲ پاک نے اس آیتِ مبارکہ میں تمام مسلمانوں کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا ہے۔حضور رحمتِ دوعالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اہلِ ایمان کے درمیان’’رشتۂ اُخوت‘‘ قائم کیا ۔یہ اتنا مضبوط اور پائیدار رشتہ ہے کہ اسے دنیا کی کوئی طاقت ختم نہیں کر سکی اور نہ کرسکے گی کیونکہ اس عظیم رشتے کی بنیاداسلام اوراﷲ ورسول صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی محبت پر قائم ہے۔حدیثِ پاک میں فرمایا گیا:تم اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے جب تک آپس میں ایک دوسرے سے محبت نہ کرو۔یہاں کامل مومن ہونے کی نفی ہے۔واقعی کامل مومن اپنے مسلمان بھائیوں سے محبت کرنے والا ہوتاہے،کیونکہ اسلام نے مسلمانوں کو اُلفت ومحبت کا درس دیا ہے۔حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ عنہ سے مروی ہے،حضور نبیِ پاک،صاحبِ لولاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشادفرمایا:’’اس ذات کی قسم جس کے دستِ قدرت میں میری جان ہے!تم جنت میں داخل نہ ہوگے جب تک ایمان نہ لاؤ اور تم مومن نہیں ہو سکتے جب تک آپس میں محبت نہ کرو اور کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں جسے بجا لاؤ توآپس میں محبت پیدا ہوجائے ؟اپنے درمیان سلام کو عام کرو ۔حضرت فضیل بن عیاض رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:’’انسان کا محبت ومہربانی کے ساتھ اپنے مسلمان بھائی کے چہرے کی طرف دیکھنا بھی عبادت ہے ۔ اُخوت و بھائی چارہ مسلمانوں کے درمیان وہ عظیم رشتہ ہے جس کی بدولت مسلمان جہاں کہیں بھی بستے ہوں وہ اپنے آپ کو ایک معاشرے کا حصہ سمجھتے ہیں۔اُخوت سے باہمی اختلافات اور تنازعات کو ختم کیا جاتا ہے ۔ اُخوت و بھائی چارے سے مسلمان ایک دوسرے کی مدد اور خدمت کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں،جس سے معاشرتی زندگی کو استحکام ملتا ہے اورمعاشرے میں ایک اچھی اور عمدہ فضا قائم ہوتی ہے ،نیز نیکیوں کا ماحول پیدا ہو جاتا ہے۔اُخوت و بھائی چارے سے مسلمانوں میں اتحاد ویکجہتی پیدا ہوتی ہے ، جس سے مسلمانوں کی قوت میں بے پناہ اضافہ ہوتا ہے اورمسلمانوں کی یہ قوت دیکھ کرکفار کے دلوں پر رعب و دہشت طاری ہو جاتی ہے۔ اُخوت وبھائی چارے کی بنیادپر جب ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی مالی مدد کرتا ہے تو اسلامی معاشرے میں مالی استحکام پیدا ہوتا ہے اور معاشرے میں امن وسکون اور جذبۂ ہمدردی پیدا ہوتی ہے ۔ اُخوت و بھائی چارے کی فضا میں معاشرے کے سب افراد ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔دوسروں کا دُکھ درد محسوس کرتے ہیں۔مصیبت و آزمائش کے موقع پرایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ غم وخوشی میں ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں۔


درود شریف کی فضیلت:سرکارِ  نامدار، مدینے کے تاجدار، حبیبِ پروردگار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ارشادِ نور بار ہے:تم اپنی مجلسوں کو مجھ پر درودِ پاک پڑھ کر آراستہ کرو، کیونکہ تمہارا درودِ پاک پڑھنا بروزِ قیامت تمہارے لئے نور ہوگا۔

اُخوت سے مراد بھائی چارہ ہے۔قرآنِ پاک کے الفاظ اِنَّمَا الْمُوْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ۔ترجمۂ کنز الایمان:مسلمان بھائی بھائی ہیں۔(پ 26، الحجرات : 10) میں اُخوتِ اسلامی معاشرے کا ایک اہم پہلو ہے، آپس میں بھائی بھائی ہونے کی حیثیت سے تمام مسلمان ایک دوسرے کے دُکھ سُکھ اور خوشی و غم میں شریک ہوتے ہیں، اُخوت و بھائی چارے کا احساس، محبت و الفت، باہمی تعاون، بے لوث خدمت اور قربانی کے جذبات کو اُبھارتا ہے اور فروغ دیتا ہے، اس طرح معاشرہ تمام لوگوں کے لئے پُرامن اور پُر آسائش بن جاتا ہے۔ اُخوت و بھائی چارےکی فضا میں معاشرے کے سب افراد ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں، ایک دوسرے کے دُکھ دَرد محسوس کرتے ہیں، مصیبت کے وقت ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں،غم و خوشی میں ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں،اسلامی معاشرےو بھائی چارگی کی بنیاد اللہ پاک کے اس فرمان پر ہے:وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا۔ ترجمۂ کنز الایمان:اور اللہ کی رسی مضبوط تھام لو سب مل کر اور آپس میں پھٹ نہ جانا(فرقوں میں بٹ نہ جانا)۔4، الِ عمران: 103)مسلمان چونکہ آپس میں بھائی بھائی ہیں، اس لئے کہا گیا ہے:اپنے حقوق کے ساتھ ساتھ اپنے بھائیوں کے حقوق کا بھی خیال رکھیں،اس لئے ہمیں اپنی زبان سے کسی مسلمان کو کوئی ایذا نہیں پہنچانی چاہئے۔ اگر ہم کسی کو جھگڑتے ہوئے دیکھیں تو ہمیں اُخوت و بھائی چارگی کو مدِّنظر رکھتے ہوئے ان میں صلح کرا دینی چاہئے اور بھائی چارگی کا حق ادا کرنا چاہئے۔اُخوت و بھائی چارگی کی سب سے بڑی مثال ہمیں حج کے موقع پر مکے شریف میں دیکھنے کو ملتی ہے،جہاں دنیا بھر سے لاکھوں کروڑوں مسلمان فریضۂ حج ادا کرنے آتے ہیں اور سب ایک ہی وقت میں ایک ہی طرح کی عبادات انجام دیتے ہیں۔ہمارے پیارے نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:”تم سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہو۔“اُخوتِ اسلامی اللہ پاک کی مہربانی ہے۔اُمّتِ مسلمہ سے تعلق رکھنے والے تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں اور تمام مسلمان ایک دوسرے کے سگے بھائیوں کی طرح ہیں۔جس طرح ایک مسلمان یا ایک بھائی دوسرے بھائی کے کام آتا ہے، اسی طرح تمام مسلمانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ہر طرح کا تعاون کرنا چاہئے کہ اس طرح کرنے سے غریب و محتاج اور مسلمان کی مالی اِمداد ہوتی ہے اور معاشرے میں ایک پُرسکون خوشگوار فضا قائم ہوتی ہے۔رسولِ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے باہمی تعلق کو کہیں بھائی کہہ کر بیان فرمایا تو کہیں جسمِ واحد قرار دیا اور کہیں مضبوط دیوار کی مانند قرار دیا، جس کی ایک اینٹ دوسرے کی تقویت کا باعث بنتی ہے۔


زندگی ایک کمزور ڈور کی مانند ہے جو کسی بھی وقت ٹوٹ سکتی ہے۔لہٰذا جو مختصر گھڑیاں ہمیں نصیب ہیں ہم کوشش کریں کہ انہیں اپنے پیاروں کے ساتھ اس شاندار انداز میں استعمال کریں کہ ہماری دنیا اور آخرت دونوں سنور جائیں۔اسلام ایک پسندیدہ دین اور راہِ عمل ہے جو تمام شعبہ ہائے زندگی پر محیط ہے۔یہ ہر معاملے میں انسان کی راہ نمائی کرتا ہے اور دین و دنیا دونوں کو ساتھ لے کر چلتا ہے۔ایمان،طاقت،تقویٰ، احسان،اتحاد،اتفاق، عفو و درگزر اور اُخوت و بھائی چارہ ایسی قدریں ہیں جن کو قرآنِ کریم میں اسلام کہا گیا ہے جو اجتماعی زندگی کے ہر گوشے کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔اسلامی اُخوت اور بھائی چارے کا سلسلہ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے قائم فرمایا جس کی وجہ سے مسلمان ایک مضبوط رشتے میں منسلک ہوگئے اور اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دینے لگے۔اُخوت و بھائی چارے کی اہمیت اور اس کے تقاضوں کو حضور اقدس صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اپنے ارشادات میں بیان فرمایا ہے جس سے اس کی پوری روح سمجھ آ سکتی ہے۔ حضورِ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے خطبہ حجتہ الوداع کے موقع پر فرمایا:ا ے لوگو! میری بات سنو اور اچھی طرح جان لو!ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے۔وہ اس سے خیانت نہیں کرتا،اس سے جھوٹ نہیں بولتا اور نہ تکلیف کے وقت اسے تنہا چھوڑتا ہے۔ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کی آبرو،مال اور خون حرام ہے۔(ترمذی)اُخوت،محبت اور بھائی چارے کے جذبے سے قرونِ اُولیٰ کے مسلمان سرشار ہوئے اور حضور اقدس صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوئے۔اُخوت اور بھائی چارے کی بنیاد اس امر پر قائم ہوتی ہے کہ انسان ایسی اعلیٰ اقدار پر ایمان رکھتا ہو جو اسے دوسرے انسان کے ساتھ حسنِ سلوک پر آمادہ کرے۔ایسی اعلیٰ اقدار صرف دینِ اسلام میں ہی ملتی ہیں۔اسلام میں اُخوت و بھائی چارے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:کوئی بندہ اس وقت تک پورا مسلمان نہیں ہو سکتا جب تک اپنے بھائی کے لئے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔(بخاری و مسلم)ایمان کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ آدمی جس بات کو اپنے لیے برا سمجھتا ہے دوسرے کے لیے بھی برا سمجھے۔کیونکہ خودغرضی ایمان کی شایانِ شان نہیں ہے۔کامل مومن وہی ہے جو خودغرضی کے جراثیم سے پاک ہو اور دوسرے مسلمان بھائیوں کا ہر طرح سے خیرخواہ ہو۔ چنانچہ ہر مسلمان کو دیکھ لینا چاہیے کہ وہ کسی دوسرے مسلمان سے بحیثیت اس کے مسلمان ہونے کے کس قدر اُخوت کا مظاہرہ کرتا ہے۔حضرت جریر بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ عنہ کہتے ہیں: آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے مجھ سے تین باتوں پر بیعت لی تھی:ایک یہ کہ نماز قائم کروں گا، دوسری یہ کہ زکوٰۃ دیتا رہوں گااور تیسری یہ کہ ہر مسلمان کا خیرخواہ رہوں گا۔ (بخاری کتاب الایمان) قرآنِ کریم میں اُخوت و بھائی چارے کی اہمیت کچھ اس طرح بیان کی گئی ہے:ارشادِ باری ہے: (پ26،الحجرات:10 )ترجمۂ کنزالایمان :مسلمان مسلمان بھائی ہیں تو اپنے دو بھائیوں میں صلح کرو اور اللہ سے ڈرو کہ تم پر رحمت ہو۔یہ آیت ِکریمہ دنیا کے تمام مسلمانوں میں ایک عالمگیر برادری قائم کرتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق اللہ اور اس کے رسول صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بتائے ہوئے راستوں پر چل کر زیادہ سے زیادہ محبت،پیار،اتحاد،اتفاق اور اُخوت و بھائی چارے کی فضا قائم کریں۔آئیے!ہم سب مل کر عہد کریں کہ فروعی اور نزاعی اختلافات ختم کر کے بھائی چارے کی فضا قائم کریں گی۔اللہ پاک کی رسی کو مضبوطی سے تھام کر ایک ہو جائیں گی۔


اخوت: عربی زبان کا لفظ ہے، جو اَخٌ سے ماخوذ ( نکلا) ہے، اس کے معنی ہیں:بھائی، اُخوت کا معنیٰ ہے: باہمی بھائی چارہ، بھائی بندی اور برادری ۔اس کا مفہوم یہ ہے کہ لوگوں کے درمیان ایک دوسرے کے لئے حقیقی بھائیوں جیسے پاکیزہ جذبات ہوں، محبت، بھائی چارہ ہو، ایک دوسرے کے غم گسار، مددگار اور دُکھ درد بانٹنے والے ہوں، اسلامی تعلیمات کی رُو سے کلمہ طیبہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم اُخوت کی بنیاد اور تمام مسلمانوں کے درمیان مشترک اکائی ہے۔یہ کلمہ اُخوت کی روح اور تمام اسلامی تعلیمات کا محور ہے، جب کوئی شخص کلمہ طیبہ پڑھتا ہے تو وہ اسلامی اُخوت اور برادری کا ایک رُکن بن جاتا ہے۔حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے تمام مومنوں کو باہمی اُخوت و محبت میں ایک جسم کی مانند قراردیا کہ جسم کا اگر کوئی حصّہ تکلیف میں ہو تو اس کی وجہ سے سارا جسم بے قرار اور بے چین ہوجاتا ہے ۔اُخوت کی اہمیت:بہت سی قومیں اور مذاہب اپنے درمیان اُخوت کے دعویدار ہیں، مگر ان کی اُخوت کا معیار مادی وخونی رشتے اور مال و دولت ہیں۔ وہاں روحانی مضبوطی اور اخلاقی اقدار مفقود ہیں، مگر اسلام نے اپنی تعلیمات اور رسولِ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے اُسوۂ حسنہ کی شکل میں مسلمانوں میں ایک ایسی اُخوت قائم کی ہے،جو خونی اور مادی رشتوں سے مضبوط ترین ہے،اس کی جڑیں روحانی و اخلاقی اقدار سے منسلک ہونے کی وجہ سے گہرا اور مضبوط ہیں۔اس اُخوت میں مادی و خونی رشتوں اور مال و دولت کے اَثرات کو بنیاد نہیں بنایا گیا، بلکہ خدا خوفی، توحید اور اطاعتِ رسول ہے۔رسول اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے عرب کے لوگوں سے ربط،لڑائی جھگڑے، غیرمہذب بکھری ہوئی قوم کو رشتۂ اُخوت میں منسلک کرکے اُخوت و ایثار کی عملی اور علمی تعلیم کے بندھن سے مضبوط کر کے ایک عظیم متحدہ قوم بنایا کہ جس کی عظمت، باہمی اُخوت اور اتحاد کے چرچے عالَم میں پھیل گئے، جس کا نام سنتے ہی اہلِ روم و ایران لرز جاتے تھے، آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ان کی ایسی تربیت فرمائی کہ آپس میں لڑنے جھگڑنے والی قوم مُعَلّمِ اُخوت و اتحاد بن گئی،باہمی اُخوت و صحبت کی وجہ سے تھوڑے عرصے میں اس وقت کی سب سے بڑی مہذب اور منظم سلطنت قائم ہوگئی۔اس کے حوالےسے قرآنِ کریم میں کئی آیات ہیں اور حدیثِ مبارکہ ہیں، چنانچہ قرآن ِپاک میں ہے:ترجمۂ کنزالایمان:اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ تھام لو اور آپس میں تفرقہ مت ڈالو اور اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں ملاپ پیدا کردیا پس اس کے فضل سے تم آپس میں بھائی بھائی بن گئے ۔اُخوتِ اسلامی اور ارشاداتِ رسول: رسولِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اپنے متعدد ارشادات میں اُخوتِ اسلامی کی اہمیت، افادیت اور عظمت کو اُجاگر کیا ہے، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت ہے: رسولُ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، وہ اس کے معاملے میں خیانت نہیں کرتا، دانستہ(جان بوجھ) کر اس کو کوئی جھوٹی اطلاع نہیں دیتا اور نہ ہی اس کو رُسوا کرتا ہے، ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر سب کچھ حرام ہے، اس کا خون (جان) اس کا مال اور اس کی عزت و آبرو۔ ایک اور حدیث میں ہے، حضرت انس رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت ہے:تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک (کامل) مومن نہیں ہو سکتا، جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لئے وہی چیز پسند نہ کرے، جو وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے۔حوالہ جات:( الِ عمران، ابن ماجہ، مسند امام احمد، بخاری، ترمذی، ابن ماجہ، مشکوٰۃ المصابیح)


اُخوت کا معنی  ہے:بھائی چارہ/احساس۔ یہ لفظ سننے میں ہی اس قدر اطمینان بخش اور مخلص ہے کہ انسان نااُمیدی میں بھی بے پناہ طاقت حاصل کر لیتا ہے۔ ہمارا دین بھی ہمیں اُخوت و بھائی چارے کا درس دیتا ہے۔انصارِ مدینہ نے تو اس کا عملی نمونہ بھی دکھا دیا،چنانچہ ہجرت کر کے آئے مہاجرینِ مکہ کو نہ صرف مدینے میں گرم جوشی سے خوش آمدید کہا ، بلکہ اپنے گھر، سامان، مویشی، یہاں تک کہ اپنی جائیدادیں تک بانٹ لیں۔ اسی موقع پر آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ایک حدیث ہے :ایک مومن دوسرے کے لئے دیوار کی مانند ہے کہ ہر اینٹ دوسری اینٹ کو تقویت دیتی ہے۔قرآن ِپاک میں اللہ کریم نے فرمایا: ترجمۂ کنزالایمان :مسلمان مسلمان بھائی ہیں ۔ (پ26،الحجرات:10 )اگر ہم معاشرے میں اُخوت اور بھائی کی چارے کی اہمیت اور ضرورت کو دیکھیں تو کسی طور پر بھی اسے پسِ پُشت نہیں ڈالا جاسکتا، آج تک دنیا میں وہی قومیں اور معاشرے کامیاب ہوئے ہیں،جنہوں نے صراطِ مستقیم پر چلتے ہوئے اُخوت و بھائی چارے کو اپنایا اور ایسا کرنے سے کسی قوم کے مہذب ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔آج اگر ہم دنیا میں دن بدن پھیلتی ہوئی بے چینی اور اَفراتفری کی فضا کو دیکھتی ہیں تو اس کی وجہ بھی برداشت اور قوت کی کمی ہے۔ہر انسان دوسرے سے اعلیٰ اور افضل مقام حاصل کرنے کے چکروں میں ہے، پھر چاہے اس کے لئے اُسے دوسروں کی عزت، احساسات اور اور اَقدار کو کچلنا ہی کیوں نہ پڑے، یہی وجہ ہے کہ آج پوری دنیا کے مسلمان بے چینی اور اِنتشار کا شکار ہیں، کیونکہ انہوں نے اپنے اَسلاف کی روایات کو بُھلا کر محض دنیاوی مفاد اور طاقت کو اپنا شعار بنا لیا ہے، اکثر و بیشتر ہم اپنے اِردگرد مختلف آزمائشوں اور آسمانی آفتوں کے بارے میں سنتی ہیں، لیکن کیاکسی نے اس کے محرکات پر غور کیا ؟یہ زلزلے، طوفان، بارشیں، قحط، سیلاب کیوں آتے ہیں؟ وجہ مذہب اسلام، اللہ پاک کے احکامات سے رُوگردانی۔ جب ہم احساس کرنا چھوڑ دیں گی تو ہمیں کامیابی نہیں مل سکتی، کیونکہ ارشادِ ربّانی ہے:تم زمین والوں پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔ رحم کی پہلی سیڑھی احساس یعنی اُخوت اور بھائی چارہ ہے، اگر میں سمندر کو کوزے میں قید کروں تو فقط اتنا ہی کہوں گی کہ اگر عالمِ دنیا میں مسلمانوں کو ایک قوم،ایک معاشرے ، ایک سوچ یا نظریے نے کامیاب یا سُرخُرو ہونا ہے تو انہیں کسی موتیوں کی پروئی ہوئی مالا کی مانند بننا ہوگا، دو جسم ہوں یا سو لیکن ایک جان ہونا ہوگا، اُخوت کو اپنا شعار بنانا ہوگا، تبھی کوئی معاشرہ، قوم، ملک، سوچ یا نظریہ فخر سے سَر اُٹھا کر کامیاب اور حاکمیت والی زندگی گزار سکتا ہے۔


پیار و محبت، اُخوت و بھائی چارہ یہ اچھے اخلاق کا پھل و نتیجہ ہیں اور اختلاف و دشمنی یہ بُرے اخلاق کا نتیجہ ہیں۔اچھے اخلاق کی وجہ سے آپس میں محبت و اُلفت اور بھائی چارہ قائم ہوتا ہے،جبکہ بُرے اخلاق آپس میں بغض و حسد اور جدائی پیدا کرتے ہیں، کیونکہ پھل اسی وقت اچھا نکلتا ہے،جب درخت اچھا ہو۔اللہ پاک کو راضی و خوش کرنے کے لئے کسی سے محبت کرنا اور دین کی خاطر بھائی چارہ قائم کرنا افضل ترین نیکی اور اچھی عادت ہے،اُخوت و بھائی چارہ اللہ پاک کی عظیم نعمت ہے اور اس کا قرآنِ پاک میں یوں اظہار فرمایا گیا ہے:ترجمۂ کنزالایمان: اور ان کے دلوں میں میل کردیا اگر تم زمین میں جو کچھ ہے سب خرچ کردیتے ان کے دل نہ ملا سکتے لیکن اللہ نے ان کے دل ملادئیے۔ (پ10،الانفال:63)بھائی چارے کی اہمیت و فضیلت کا اندازہ درجہ ذیل دو احادیثِ مبارکہ سے بھی کیا جاسکتا ہے:1۔جو شخص اللہ پاک کی رضا کے لئے کسی کو اپنا بھائی بنائے تو اللہ پاک اسے جنت میں بلند درجہ عطا فرمائے گا،جس تک وہ اپنے کسی عمل کی بدولت نہیں پہنچ سکتا۔ (مسند الشامیین للطبرانی، 105/1، حدیث 157)2۔حضرت ابو ادریس خولانی رحمۃُ اللہِ علیہ نے حضرت معاذ بن جبل رَضِیَ اللہُ عنہ سے عرض کی:میں اللہ پاک کی رضا کے لئے آپ سے محبت کرتا ہوں، حضرت معاذ رَضِیَ اللہُ عنہ نے فرمایا:تمہیں مبارک ہو،میں نے رسول اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فرماتے سنا:قیامت کے دن بعض لوگوں کے لئے عرش کے گرد کرسیاں نصب کی جائیں گی،ان کے چہرے چودھویں کے چاند کی طرح چمک دار ہوں گے،لوگ گھبراہٹ کا شکار ہوں گے،جبکہ انہیں کوئی گھبراہٹ نہ ہوگی،لوگ خوفزدہ ہوں گے،انہیں کوئی خوف نہ ہوگا،وہ اللہ پاک کے دوست ہیں،جن پر نہ کوئی اندیشہ ہے نہ کچھ غم۔عرض کی گئی:یارسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم!یہ کون لوگ ہیں؟ ارشاد فرمایا: اللہ پاک کی رضا کے لئے آپس میں محبت کرنے والے۔(قوت القلوب ، 364/2)

اے میری اسلامی بہنو! آج ہمارے معاشرے میں بھائی چارے کا شدید فقدان ہے،کسی اور کو بھائی بنانا تو دور کی بات، آج کل تو سگے بھائیوں میں جدائیاں ہیں،ہمیں چاہئے کہ ہم معافی تلافی کرکے آپس میں بھائی چارہ قائم کریں،تاکہ معاشرہ خوبصورت اور پُر امن ہوسکے۔ہمارے درمیان کیسا اُخوت کا رشتہ ہونا چاہئے، اس بات کی کئی مثالیں اَسلاف کی سیرتوں میں ملتی ہیں، چنانچہ دو دیہی بھائیوں کی حکایت ہے:ان میں سے ایک کی حالت تبدیل ہوگئی تو کسی نے ان کے دوسرے بھائی سے کہا:آپ اس سے قطع تعلقی کرکے اسے چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟اس نے جواباً کہا: اس کے ہلاکت میں پڑجانے کی وجہ سے،اس وقت اس کو میری زیادہ ضرورت ہے کہ میں اس کا ہاتھ تھاموں اور نرمی سے اس پر عتاب کرکے اس کے لئے پہلی حالت پر لوٹ آنے کی دعا کروں۔(احیاء العلوم،2/ 667) اللہ پاک مسلمانوں کو نیک اور ایک بنادے اور ہمارا خاتمہ ایمان پر فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


دین ِاسلا م وہ عظیم دین ہے جس میں اُخوت و بھائی چارے کو خاص اہمیت دی گئی ہےحتی کہ قرآن و حدیث میں متعدد مقامات پر اسلامی اُخوت و بھائی چارے کی اہمیت کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے،چنانچہ ارشادِ باری ہے:وَاعْتَصِمُوۡا بِحَبْلِ اللہِ جَمِیۡعًا وَّلَا تَفَرَّقُوۡا ۪4، الِ عمران: 103)ترجمۂ کنز الایمان:اور اللہ کی رسی مضبوط تھام لو سب مل کر اور آپس میں پھٹ نہ جانا (فرقوں میں نہ بٹ جانا)اور فرمایا:اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوۡنَ اِخْوَۃٌ (پ 26، الحجرات 10)ترجمۂ کنز الایمان: مسلمان مسلمان بھائی ہیں۔ارشاد فرمایا :مسلمان توآپس میں بھائی بھائی ہی ہیں کیونکہ یہ آپس میں دینی تعلق اوراسلامی محبت کے ساتھ مربوط ہیں اوریہ رشتہ تمام دنیوی رشتوں سے مضبوط تر ہے۔(تفسیر صراط الجنان، الحجرات، تحت الآیۃ: 10)اُخوت و بھائی چارے کی اہمیت کا مزید اندازہ ان احادیثِ کریمہ سے لگائیے:( 1 )حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت ہے،سیّد المرسَلین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لئے عمارت کی طرح ہے جس کی ایک اینٹ دوسری اینٹ کو مضبوط کرتی ہے۔( مسلم، ص 1396 ،حدیث: 65(2585) ) ( 2 ) حضر ت نعمان بن بشیر رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’سارے مسلمان ایک شخص کی طرح ہیں،جب اس کی آنکھ میں تکلیف ہوگی توسارے جسم میں تکلیف ہوگی اور اگراس کے سرمیں دردہوتوسارے جسم میں دردہوگا۔(مسلم،ص 1396،حدیث: 67(2586) ) ( 3 ) حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ عنہما سے روایت ہے، رسولِ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’مسلمان،مسلمان کا بھائی ہے وہ اس پرظلم کرے نہ اس کورُسواکرے، جوشخص اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرنے میں مشغول رہتاہے اللہ پاک اس کی ضرورت پوری کرتاہے اورجوشخص کسی مسلمان سے مصیبت کودورکرتاہے تو اللہ پاک قیامت کے دن اس کے مَصائب میں سے کوئی مصیبت دُورفرمادے گااورجوشخص کسی مسلمان کاپردہ رکھتاہے قیامت کے دن اللہ پاک اس کاپردہ رکھے گا۔( بخاری، 2 / 126 ، حدیث:2442 )معلوم ہوا!مسلمانوں میں باہمی اُخوت و بھائی چارہ شرعاً مطلوب ہے۔شریعتِ مطہرہ میں والدین،گھر والوں،رشتے داروں،دوستوں،پڑوسیوں،نوکروں اور عام مسلمانوں کے حقوق کے ضمن میں ایسے بےشمار احکام بیان کیے گئے ہیں،جن سے مسلمانوں میں اُخوت و بھائی چارے کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے۔ مثلاً• مسلمان سے ملنے پر سلام کرنا• وہ دعوت دے تو قبول کرنا• چھینکے تو چھینک کا جواب دینا• بیمار ہوجائے تو عیادت کرنا• فوت ہوجائے تو اس کے جنازے میں شرکت کرنا• نصیحت کا طالب ہو تو اسے نصیحت کرنا• اس کی غیر موجودگی میں اس کے اہل و مال کی حفاظت کرنا• جو اپنے لئے پسند ہو، وہی اس کیلئے پسند کرنا اور جو اپنے لئے ناپسند ہو، وہ اس کیلئے بھی ناپسند کرنا۔(احیاء العلوم ،جلد 2)اللہ کریم مسلمانوں کو اُخوت و بھائی چارے کی اہمیت سمجھنے اور اس کے تقاضوں کے مطابق عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین بجاہ ِخاتمِ النبیین صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم


اُلفت و بھائی چارے کی فضیلت:جان لیجئے !اُلفت حسنِ اخلاق کا نتیجہ ہے اور اختلاف بداخلاقی کا نتیجہ ہے۔اچھے اخلاق کے سبب باہم اُلفت و محبت اور موافقت پیدا ہوتی ہے،جبکہ بد اخلاقی آپس میں بغض و حسد اور جدائی پیدا کرتی ہے،کیوں کہ پھل اس وقت اچھا نکلتا ہے، جب درخت اچھا ہو۔حسنِ اخلاق کی فضیلت دین میں پوشیدہ نہیں، اس کے سبب اللہ پاک نے اپنے پیارے حبیب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مدح فرمائی ہے، چنانچہ ارشادِ باری ہے:وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ۔ترجمۂ کنزالایمان:اور بےشک تمہاری خوبو بڑی شان کی ہے۔( پ 29، القلم: 4)حسنِ اخلاق کی فضیلت پر مشتمل آیاتِ مبارکہ اور احادیثِ مبارکہ: ترجمۂ کنزالایمان:اگر تم زمین میں جو کچھ ہے سب خرچ کر دیتے، ان کے دل نہ ملا سکتے، لیکن اللہ نے ان کے دل ملا دیئے۔( پ 10، الانفال: 43)فرمانِ مصطفےٰ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:اَکْثَرُ مَا یَدْخِلُ النَّاسَ الْجَنَّۃَ تَقْوَی اللّٰہِ وَحُسْنُ الْخُلُقِ۔جو چیز جنت میں سب زیادہ لوگوں کو داخل کرے گی ،وہ خوفِ خدا اور حسنِ اخلاق ہے۔

مجھے حسنِ اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہے۔قابلِ رشک لوگ:حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ عنہ سے مروی حدیث میں یہ الفاظ ہیں کہ عرش کے گرد نور کے منبر ہوں گے، ان پر موجود لوگوں کے لباس اور چہرے نورانی ہوں گے،نہ تو وہ انبیا ہوں گے اور نہ شہدا، لیکن ان پر انبیا اور شہدا رشک کریں گے، صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ عنہم نےعرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم !ان کی صفات بیان فرما دیجیئے۔ ارشاد فرمایا:یہ وہ لوگ ہیں، جو اللہ پاک کی رضا کے لئے آپس میں محبت کرتے ہیں، اس کی رضا کی خاطر ساتھ بیٹھتے ہیں اور اسی کی رضا کے لئے ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔جب دو شخض اللہ پاک کی رضا کے لئے آپس میں محبت کرتے ہیں، اللہ پاک کو ان میں سے محبوب وہ ہوتا ہے، جو اپنے دوست سے زیادہ محبت کرتا ہے۔جب کوئی شخص اللہ پاک کی رضا کی خاطر دوسرے شخص سے شوق و محبت سے ملاقات کرتا ہے تو ایک فرشتہ اسے ندا دیتا ہے: تو پاک ہے،تیرا چلنا پاک ہے اور تیرے لئے پاک جنت ہے۔ رضائے الہٰی کے لئے بھائی چارہ قائم کرنے کی فضیلت پر اقوالِ بزرگانِ دین:1۔حضرت ابنِ سماک رحمۃُ اللہِ علیہ نے وفات کے وقت فرمایا:اےاللہ پاک تو جانتا ہے، اگر چہ میں تیری نافرمانی کیا کرتا تھا، لیکن تیرے فرماں برداروں سے محبت کرتا تھا، میرے اسی عمل کے سبب مجھے اپنا قُرب عطا فرما دے۔2۔حضرت حسن بصری رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:فاسق سے قطع تعلق کرنا قُربِ خداوندی کا زریعہ ہے۔3۔حضرت عمر فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ عنہ فرماتے ہیں:جب تم سے کوئی مسلمان بھائی محبت کرے تو اسے نہ کھونا کہ ایسے دوست بہت کم ملتے ہیں۔4۔حضرت فضل بن عیاض رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:انسان کا محبت و مہربانی کے ساتھ اپنے مسلمان بھائی کے چہرے کی طرف دیکھنا عبادت ہے۔5۔حضرت مجاہد رحمۃُ اللہِ علیہ نے فرمایا:اللہ پاک کی رضا کی خاطر آپس میں محبت کرنے والے جب ملتے ہیں اور ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکراتے ہیں تو ان کی خطائیں ایسے مٹتی ہیں،جیسے سردیوں میں درختوں کے خشک پتے جھڑ جاتے ہیں۔


اسلام میں اُخوت و بھائی چارے کی بڑی اہمیت ہے،اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ پاک خود قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے:1۔ترجمۂ کنز الایمان:اور اللہ کااحسان اپنے اوپریاد کرو جب تم میں بیر تھا(دشمنی تھی) اس نے تمہارے دلوں میں ملاپ کردیا تو اس کے فضل سے تم آپس میں بھائی ہوگئے ۔(پ4، الِ عمران : 103)ترجمۂ کنز الایمان:مسلمان مسلمان بھائی ہیں تو اپنے دو بھائیوں میں صُلْح کرو اور اللہ سے ڈرو کہ تم پر رَحمت ہو۔( پ26، الحجرات:10)نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اُخوتِ اسلامیہ اور اس کے حقوق کے بارے میں ارشاد فرمایا:مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، اس پر خود ظلم کرتا ہے اور نہ اسے بےیار و مددگار چھوڑتا ہے اور نہ اسے حقیر جانتا ہے، پھر آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اپنے قلبِ مبارک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین بار یہ الفاظ ارشاد فرمائے:تقویٰ کی جگہ یہ ہے، کسی شخص کے برا ہونے کیلئے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے، ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کا خون، مال اور عزت حرام ہے۔(مسلم، 2/ 317)نبی ِکریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل ایمان والا نہیں ہوسکتا، جب تک کہ اپنے بھائی کیلئے وہی پسند نہ کرے، جو وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے۔( بخاری، 1/ حدیث: 13)گویا کہ اُخوت و محبت کی بنیاد ایمان اور اسلام ہے یعنی سب کا ایک ربّ، ایک رسول صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم، ایک کتاب، ایک قبلہ اور ایک دین ، دینِ اسلام ہے۔اسلام ایک عالمی دین ہے اور اس کے ماننے والے عربی ہوں یا عجمی، گورے ہوں یا کالے،کسی قوم یا قبیلے سے تعلق رکھتے ہوں،مختلف زبانیں بولنے والے ہوں، سب بھائی بھائی ہیں اور ان کی اس اُخوت کی بنیاد ہی ایمانی رشتہ ہے اور اس کے بالمقابل دوسری جتنی اُخوت کی بنیادیں ہیں، سب کمزور ہیں اور ان کا دائرہ نہایت محدود ہے، یہی وجہ ہے کہ اسلام کے ابتدائی دور میں جب بھی ان بنیادوں کا آپس میں تقابل ہوا، تو اُخوتِ اسلامیہ کی بنیاد ہمیشہ غالب رہی،آج بھی مشرق و مغرب اور دنیا کے گوشے گوشے سے آئے ہوئے مسلمان جب حج میں حرمینِ شریفین میں جمع ہوتے ہیں تو ایک دوسرے سے اس گرم جوشی سے ملتے ہیں، جیسے برسوں سے ایک دوسرے کو جانتے ہوں۔

اُمت میں اُخوتِ اسلامی پیدا کرنے کیلئے محبت، اخلاص، وحدت اور خیرخواہی جیسی صفات لازمی ہیں، جو اللہ پاک کے ہاں بڑی نعمت شمار ہوتی ہیں۔اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اُخوت و بھائی چارے کی اہمیت کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے مسلمان بھائی کے حقوق ادا کرنے کی سعادت نصیب فرمائے۔ اٰمین بجاہِ النبی الکریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


اسلام میں اُخوت و بھائی چارےکی  بہت اہمیت ہے، اُخوت دو آدمیوں کے درمیان رابطہ ہوتا ہے،جیسے پیارے آقا، اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان پاک ہے:الارواح جنود مجندۃ فما تعارف منھا ائتلف وماتناکر منھا اختلف۔ ترجمہ: ارواح ایک مجتمع لشکر تھیں،ان میں جنہوں نے ایک دوسرے کو پہچانا، وہ آپس میں محبت کرنے لگیں اور جنہوں نے ایک دوسرے کو نہ پہچانا، وہ الگ الگ ہو گئیں۔(مسلم، حدیث 1137)ایک واقعہ ملاحظہ فرمائیں اور اس سے آپ کو اندازہ ہو گا کہ صحابہ کس طرح آپس میں بھائی چارے کا مظاہرہ کیا کرتے تھے، ہجرت کے پہلے سال مہاجرین صحابہ جو انتہائی بے سرو سامانی کی حالت میں اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر مدینے آ گئے تھے، وہ اپنے اہل و عیال کی جدائی کا صدمہ محسوس کرتے تھے، پھر اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے انصارو مہاجرین کو بھائی بھائی بنا کر ان میں رشتہ اُخوت (بھائی چارہ)قائم فرما دیا، تا کہ مہاجرین کے دلوں کو راحت نصیب ہو اور ان کے ذریعے معاش کا مسئلہ بھی حل ہو جائے۔چنانچہ مسجدِ نبوی کی تعمیر کے بعد ایک دن حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ عنہ کے مکان میں انصار و مہاجرین کو جمع فرمایا، اس وقت تک مہاجرین کی تعداد پینتالیس یا پچاس تھی، آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے انصار کو مخاطب کر کے فرمایا :یہ مہاجرین تمہارے بھائی ہیں، پھر مہاجرین و انصار سے دو دو اَشخاص کو بلا کر فرماتے گئے:یہ اور تم بھائی بھائی ہو۔ پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:یہ رشتہ حقیقی بھائی جیسا رشتہ بن گیا۔چنانچہ انصار نے مہاجر صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ عنہم کو ساتھ لے جا کر اپنے گھر کی ایک ایک چیز سامنے لا کر رکھ دی اور کہہ دیا:آپ ہمارے بھائی ہیں، اس لئے سب سامانوں میں آدھا آپ کا آدھا ہمارا ہے۔ اللہ ُاکبر!صحابہ کا جذبہ تو دیکھئے۔ایک دن حضرت علی المرتضیٰ رَضِیَ اللہُ عنہ نے اپنے شہزادے حضرت حسن مجتبیٰ رَضِیَ اللہُ عنہ سے استفسار فرمایا:بھائی چارہ کیا ہے؟عرض کی:خوشحالی اور مصیبت میں ایک دوسرے کی غمگساری کرنا۔ ذرا سوچئے! آج کے دور میں بھائی چارے کی کس قدر ضرورت ہے!اگر ہم اس میں غفلت برتیں گی تو ہمارے معاشرے کا نقشہ ہی بدل جائے گا۔ہمیں چاہئے کہ ہم مسلمانوں کے کام آئیں، اس کے مختلف طریقے ہیں،جیسے کسی کا قرض ادا کرنا وغیرہ،کسی کی پریشانی دور کر دینا،اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:میری خاطر آپس میں محبت کرنے والے،میری محبت کے مستحق ہو گئے،میری رضا کی خاطر آپس میں ملاقات کرنے والے میری محبت کے مستحق ہوگئےاور میری رضا کی خاطر ایک دوسرے کو نصیحت کرنے والے میری محبت کے مستحق ہو گئے۔(اللہ والوں کی باتیں، 2/210)


اسلام میں اُخوت و  بھائی چارے کو بہت اہمیت حاصل ہے ۔اس اہمیت کو جاننے کے لئے سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ بھائی چارہ کسے کہتے ہیں؟ حضرت امام محمد غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:بھائی چارہ دو آدمیوں کے درمیان ایک رابطہ ہوتا ہے،جیسے نکاح میاں بیوی کے درمیان ایک رابطے کا نام ہے ۔جس طرح عقدِنکاح کچھ حقوق کا تقاضا کرتا ہے جن کو پورا کرنا حقِ نکاح قائم رکھنے کے لئے ضروری ہے،عقدِ اُخوت کا بھی یہی حال ہے کہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان بھائی کے مال اور ذات میں حق ہے، اسی طرح زبان اور دل میں بھی کہ تم اس کو معاف کرو، اس کے لئے دعا کرو، اخلاص و وفا سے پیش آؤ، اس پر آسانی برتو اور تکلیف و تکلّف چھوڑ دو۔ (وہ ہم میں سے نہیں،ص)ربّ کریم نے بھی قرآنِ پاک میں ایمان والوں کو بھائی سے تعبیر کیا ہے، اللہ پاک نے فرمایا:اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ۔ترجمۂ کنز الایمان : مسلمان بھائی بھائی ہیں۔(پ26،الحجرات : 10)اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اُخوت و بھائی چارے اور اس کے حقوق سے متعلق ارشاد فرمایا:ترجمہ: مسلمان مسلمان کا بھائی ہے اس پر خود ظلم کرتا ہے،نہ اسے حقیر جانتا ہے،پھر اپنے قلب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین بار ارشاد فرمایا:تقویٰ کی جگہ یہ ہے۔کسی شخص کے بُرا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے،ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کا خون، مال اور عزت حرام ہے۔( مسلم، 2 / 317) مندرجہ بالا آیتِ قرآنی اور حدیثِ مبارکہ سے واضح ہوا!اللہ پاک اور اس کے رسول صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اُخوت کی بنیاد ایمان اور اسلام کو قرار دیا ہے۔ ایمان کی بنیاد مضبوط اور دائمی ہے، لہٰذا بنیاد پر قائم ہونے والی اُخوت کی عمارت بھی مضبوط اور دائمی ہوگی۔اُمت کا اِتحاد اور اُخوت کا یہ رشتہ اللہ پاک اور اس کے رسول صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو بہت عز یز ہے، اسی لئے قرآنِ کریم میں جابجا اس پر زور دیا اور اختلاف اور تفریق سے روکا گیا ہے، ارشادِ باری ہے: ترجمۂ کنز الایمان:اور اللہ کی رسی مضبوط تھام لو سب مل کر اور آپس میں پھٹ نہ جانا(فرقوں میں بٹ نہ جانا)۔4، الِ عمران: 103)اُمت کے اتحاد اور اُخوت کے رشتہ کو مضبوط رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اللہ پاک کی رسّی یعنی قرآنِ پاک اور اس کی تعلیمات کو مضبوطی سے پکڑیں۔اللہ پاک کے لئے آپس میں محبت رکھنے اور اُخوت سے رہنے کے بہت فضائل بھی ہیں۔چنانچہ نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:میری محبت ان لوگوں کے لئے ثابت ہوگئی،جو میرے لئے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اور ایک دوسرے پر خرچ کرتے اور ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہیں۔(مسند احمد، حدیث: 22847)ہمیں نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ان تعلیمات پر عمل کرنا چاہئے جنہیں پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اپنے قول اور فعل سے اُمّت کے سامنے پیش فرمایا، اسی سے امت میں اتحاد اور اُخوت کا رشتہ مضبوط ہوگا۔اللہ پاک امتِ اسلامیہ کو بھائی چارہ قائم رکھنے اور اُخوت کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین بجاہِ النبی الکریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


الحمدُ للہ کہ اس نے ہمیں انسان بنایا اور پھر مسلمان بنایا،نیز عقل و شعور بھی عطا فرمایا۔ ہدایت کے لئے قرآنِ کریم عطا فرمایا اور اس کلامِ پاک میں فرمایا: ترجمۂ کنز العرفان:اور مسلمان مرداور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ہیں،بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور بُرائی سے منع کرتے ہیں۔( پ10،التوبہ:71)اخوت و بھائی چارہ سنّتِ رسول سے ثابت ہے،مکےسے مدینے کی طرف ہجرت کے وقت جب مسلمان رضائے الٰہی و حکمِ مصطفےٰ پر عمل کرنے کے لئے اپنے گھر بار، کاروبار، جائیداد سب چھوڑ کر اپنے آقا کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم پر آس رکھے مدینہ پہنچے تو خالی ہاتھ تھے۔ اس موقع پر میرے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے شفقت فرماتے ہوئے ایک ایک مہاجر صحابی کو ایک ایک انصاری صحابی کا بھائی بنا دیا۔ انصاری صحابہ ٔ کرام نے بھائی ہونے کا حق ادا کرتے ہوئے اپنے مال، جائیداد اور گھر بار سب میں اپنے مہاجر بھائیوں کو حق دیا، اسے مواخاتِ مدینہ بھی کہتے ہیں۔چنانچہ رسولُ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے( مواخات کے تحت) حضرت عبدالرحمن بن عوف رَضِیَ اللہُ عنہ مہاجر کو حضرت سعد بن رَبیع انصاری رَضِیَ اللہُ عنہ کا بھائی بنادیا تو حضرت سعد رَضِیَ اللہُ عنہ نے حضرت عبدُ الرحمن رَضِیَ اللہُ عنہ سے کہا:میں انصار میں سب سے زیادہ مال دا رہوں میں اپنا مال بانٹ کر نصف آپ کو دیتا ہوں۔حضرت عبدالرحمن رَضِیَ اللہُ عنہ نے کہا:آپ کا مال آپ کے لئے برکت والا ہو، کیا یہاں کوئی بازارِ تجارت(منڈی)ہے؟حضرت سعد رَضِیَ اللہُ عنہ نے کہا:ہاں ہے اور انہیں”بَنُو قَیْنُقَاع“کے بازار کا پتا بتایا،حضرت عبدالرحمن رَضِیَ اللہُ عنہصبح منڈی گئے، شام کو منافع کا پنیر اور مکھن ساتھ لائے،اسی طرح روزانہ منڈی میں جاتے اور تجارت کرتے رہے،تھوڑے ہی عرصے میں وہ مالدار بن گئے اور انہوں نے شادی بھی کرلی۔(بخاری،2/4،حدیث:2048 ملتقطاً) اس واقعے سے ہم اندازہ لگا سکتی ہیں کہ اخوت و بھائی چارے کی کتنی اہمیت ہے!گر اخوت و بھائی چارے کی اہمیت نہ ہوتی تو نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم یہ نہ فرماتے:ایک مومن دوسرے مومن کے لئے عمارت کی طرح ہے جس کی ایک اینٹ دوسری اینٹ کو مضبوط کرتی ہے۔ (بخاری،4/107،حدیث:6026) ایک مقام پر فرمایا:مسلمانوں کی آپس میں محبت، شفقت اور رحمت کی مثال ایک جسم کی طرح ہے۔ جب جسم کاکوئی عضو بیمار ہوتا ہے تو بخار اور بے خوابی میں اس کا سارا بدن شریک ہوتا ہے۔(مسلم،ص1071،حدیث:6586)پوری اُمّت کی ترقی و خوشحالی اور استحکام،اخوت اور بھائی چارے کے فروغ میں ہے۔اگر مسلمان لسانی تعصب اور مفاد پرستی سے نکل کر بھائی بھائی بن جائیں تو آج بھی اُمّتِ مسلمہ اپنا کھویا ہوا وقار حاصل کر سکتی ہے۔ جس طرح پوری امت کی ترقی و خوشحالی کا راز اخوت میں پنہاں ہے اسی طرح ایک معاشرے حتّٰی کہ ایک گھرانے کے استحکام کے لئے بھی اخوت اور بھائی چارہ کی ضرورت ہے، اسلامی بھائی چارے کی بنیاد مساوات اور باہمی محبت پر ہے۔اچھے اخلاق اور حقوق و فرائض کی ادائیگی کے ساتھ ایک مثالی اسلامی معاشرہ وجود میں آئے گا۔ اسلامی دنیا کے بےتحاشا مسائل حل ہوں گے۔اگر کسی کو کسی سے کمتر نہ سمجھیں اور ہر ایک دوسرے کے ساتھ ایثار و قربانی سے پیش آئے تو اُمّتِ مسلمہ پوری دنیا کے لئے عملی نمونہ بن جائے گی۔