پیار و محبت، اُخوت و بھائی چارہ یہ اچھے اخلاق کا پھل و نتیجہ ہیں اور اختلاف و دشمنی یہ بُرے اخلاق کا نتیجہ ہیں۔اچھے اخلاق کی وجہ سے آپس میں محبت و اُلفت اور بھائی چارہ قائم ہوتا ہے،جبکہ بُرے اخلاق آپس میں بغض و حسد اور جدائی پیدا کرتے ہیں، کیونکہ پھل اسی وقت اچھا نکلتا ہے،جب درخت اچھا ہو۔اللہ پاک کو راضی و خوش کرنے کے لئے کسی سے محبت کرنا اور دین کی خاطر بھائی چارہ قائم کرنا افضل ترین نیکی اور اچھی عادت ہے،اُخوت و بھائی چارہ اللہ پاک کی عظیم نعمت ہے اور اس کا قرآنِ پاک میں یوں اظہار فرمایا گیا ہے:ترجمۂ کنزالایمان: اور ان کے دلوں میں میل کردیا اگر تم زمین میں جو کچھ ہے سب خرچ کردیتے ان کے دل نہ ملا سکتے لیکن اللہ نے ان کے دل ملادئیے۔ (پ10،الانفال:63)بھائی چارے کی اہمیت و فضیلت کا اندازہ درجہ ذیل دو احادیثِ مبارکہ سے بھی کیا جاسکتا ہے:1۔جو شخص اللہ پاک کی رضا کے لئے کسی کو اپنا بھائی بنائے تو اللہ پاک اسے جنت میں بلند درجہ عطا فرمائے گا،جس تک وہ اپنے کسی عمل کی بدولت نہیں پہنچ سکتا۔ (مسند الشامیین للطبرانی، 105/1، حدیث 157)2۔حضرت ابو ادریس خولانی رحمۃُ اللہِ علیہ نے حضرت معاذ بن جبل رَضِیَ اللہُ عنہ سے عرض کی:میں اللہ پاک کی رضا کے لئے آپ سے محبت کرتا ہوں، حضرت معاذ رَضِیَ اللہُ عنہ نے فرمایا:تمہیں مبارک ہو،میں نے رسول اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فرماتے سنا:قیامت کے دن بعض لوگوں کے لئے عرش کے گرد کرسیاں نصب کی جائیں گی،ان کے چہرے چودھویں کے چاند کی طرح چمک دار ہوں گے،لوگ گھبراہٹ کا شکار ہوں گے،جبکہ انہیں کوئی گھبراہٹ نہ ہوگی،لوگ خوفزدہ ہوں گے،انہیں کوئی خوف نہ ہوگا،وہ اللہ پاک کے دوست ہیں،جن پر نہ کوئی اندیشہ ہے نہ کچھ غم۔عرض کی گئی:یارسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم!یہ کون لوگ ہیں؟ ارشاد فرمایا: اللہ پاک کی رضا کے لئے آپس میں محبت کرنے والے۔(قوت القلوب ، 364/2)

اے میری اسلامی بہنو! آج ہمارے معاشرے میں بھائی چارے کا شدید فقدان ہے،کسی اور کو بھائی بنانا تو دور کی بات، آج کل تو سگے بھائیوں میں جدائیاں ہیں،ہمیں چاہئے کہ ہم معافی تلافی کرکے آپس میں بھائی چارہ قائم کریں،تاکہ معاشرہ خوبصورت اور پُر امن ہوسکے۔ہمارے درمیان کیسا اُخوت کا رشتہ ہونا چاہئے، اس بات کی کئی مثالیں اَسلاف کی سیرتوں میں ملتی ہیں، چنانچہ دو دیہی بھائیوں کی حکایت ہے:ان میں سے ایک کی حالت تبدیل ہوگئی تو کسی نے ان کے دوسرے بھائی سے کہا:آپ اس سے قطع تعلقی کرکے اسے چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟اس نے جواباً کہا: اس کے ہلاکت میں پڑجانے کی وجہ سے،اس وقت اس کو میری زیادہ ضرورت ہے کہ میں اس کا ہاتھ تھاموں اور نرمی سے اس پر عتاب کرکے اس کے لئے پہلی حالت پر لوٹ آنے کی دعا کروں۔(احیاء العلوم،2/ 667) اللہ پاک مسلمانوں کو نیک اور ایک بنادے اور ہمارا خاتمہ ایمان پر فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم